چاند گواہی قبلہ جلا+لی یا قبلہ عطاری؟ آج یکم رمضان نہیں؟

*آج شام کے چاند سے سب پتہ چل جائے گا....؟؟ اس دفعہ روزے28یا31ہوسکتے ہیں…؟؟ قبلہ مفتی اشرف جلا+لی برحق یا مفتی علی اصغر و رویت ہلال کمیٹی برحق..... اور جمہور کے خلاف جاتے ہو گستاخ ہو.....؟؟*

الحاصل:

میرے مطابق دلائل کی روشنی میں آج 23مارچ کو قبل از مغرب پاکستان میں یکم رمضان نہیں، آج23مارچ بعد از مغرب پاکستان میں یکم رمضان ہوگا.... قبلہ جلا+لی کا فتوی ٹھیک ہے مگر انکی دلیل فتوے کے مطابق نہیں،انکے فتوے کی دلیل میرے مطابق دوسری ہے

.

کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ آج کا چاند اگر باریک ہوا تو تم سچے اگر موٹا ہوا یا دیر تک نظر آنے والا ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ دو دن کا ہے... یہ نظریہ بالکل ٹھیک نہیں ہے...کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ:

بے شک رسول اللہ نے فرمایا کہ: اس(پہلی تاریخ کے)چاند کو اللہ نے بڑا(یا زیادہ دیر تک نظر آنے والا) کیا ہے دیکھنے کے لیے،

یہ اسی رات کا ہے جس رات دیکھو(مسلم حدیث نمبر1018 باب چاند کے چھوٹے بڑے ہونے کا اعتبار نہیں)اب تو سائنسی لحاظ سے بھی ثابت ہوگیا ہے کہ پہلی تاریخ کا چاند تھوڑا بڑا اور واضح ہوسکتا ہے لیھذا آج کے بڑے یا باریک چاند سے کچھ ثابت نہیں ہوگا،چاند کی پہلی یا آخری تاریخ کا تعلق دیگر دلائل شرعیہ سے ہے


.

تمھید:

کل بائیس مارچ کی شام پاکستان میں چاند دیکھنے کے امکانات تھے مگر مطلع ابر آلود تھا، قبلہ مفتی علی اصغر عطاری قادری سمیت رویت ہلال کمیٹی پاکستان نے چاند نظر آنے کا اعلان کر دیا جبکہ قبلہ مفتی جلا+لی صاحب نے فرمایا کہ حدیث پاک میں ہے کہ مطلع ابر الود ہو تو تیس کی گنتی پوری کرو لیھذا آج تیس شعبان ہے یکم رمضان نہیں

.

*ہوکیا سکتا ہے.......؟؟*

رویت ہلال کمیٹی کا فتوی مانا جائے اور ممکن ہے رمضان29 کا ہو تو قبلہ جلا+لی غلط ثابت ہوجائیں گے کہ ان کے حساب سے اٹھائیس کا رمضان ہوجائے گا تو کیا ان پر ایک روزہ کھانے کا وبال آسکتا ہے.....؟؟لیکن اسکا یہ جواب دیا جائے گا کہ ہم نے حتی المقدور قوی دلائل پر فتوی دیا جو غلط ثابت ہوا لیھذا عید کے بعد ایک روزہ کی قضاء رکھ لیں

.

مفتی جلا+لی کا فتوی مانا جائے اور ممکن ہے رمضان تیس کا ہو تو اس صورت میں رویت ہلال کمیٹی غلط ثابت ہوجائے گی کہ ان کے حساب سے اکاتیس کا رمضان کہلائے گا تو کیا ایک روزہ زیادہ رکھوانے اور عید نماز اپنے وقت پے نہ پڑھانے کا وبال ان پر اسکتا ہے.....؟؟ 

.

اگر رویت ہلال کمیٹی کا فتوی مانا جائے اور رمضان تیس کا ہوتو اس صورت میں عید متفقہ طور پر ہوسکتی ہے کہ جلا+لی صاحب کے مطابق 29کا رمضان کہلائے گا اور کمیٹی کے مطابق 30 کا...لیکن اس صورت میں شب قدر کی طاق راتیں کونسی ہونگی یہ گڑبڑ ہوجائے گی

.

*برحق کون.....؟؟کس کےفتوےپےعمل بہتر و احتیاط ہے....؟؟*

*مفتی علی اصغر صاحب و کمیٹی کے دلائل*

مفتی صاحب نے وضاحت کر دی کہ مطلع ابر الود تھا اس صورت میں فتاوی رضویہ میں ہے کہ ایک عادل شخص کی خبر سے بھی رمضان ہونے کا اعلان کیا جاسکتا ہے اور کمیٹی کو دو عادل گواہان اور دیگر چند غیرقوی گواہان نے خبر دی کہ چاند انہوں نے دیکھا ہے لیھذا رمضان کا اعلان کرتے ہیں

.

*مفتی اشرف جلا+لی کی دلیل....*

انہوں نے فرمایا کہ حدیث پاک میں ہے کہ جب مطلع ابر الود ہو تو گنتی پوری کرو لیھذا آج تیس شعبان ہے

.

*دلائل کا تجزیہ......!!*

*قبلہ مفتی اشرف جلا+لی صاحب کی دلیل کا جواب.....!!*

 انکی دلیل کا جواب واضح ہے کہ تیس کی گنتی پوری کرنا تب واجب ہے جبکہ کسی معتبر ذریعے سے چاند نظر آنا نہ قرار پائے..... مثلا سارے مطلع میں ابر الود ہو اور ایک عادل غیرفاسق مسلمان گواہی دے کہ میں فلاں جگہ فلاں وقت چاند دیکھا تو اب تیس کی گنتی پوری کرنا لازم نہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ کسی جگہ بادل کم ہوں ہوں یا کسی جگہ بادل چاند سے اوٹ نہ ہوں اور اس ایک نے دیکھ لیا ہو،  یہ عین ممکن ہے

فتاوی رضویہ میں ہے کہ:

جب تک رؤیت نہ ہویا ثبوت صحیح شرعی سے ثابت نہ ہو ہر مہینہ تیس کالیا جائے گا۔ رسول اﷲصلی ا ﷲتعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:فان غم علیکم فاکملواالعدۃ ثلاثین۔چاند تم پرپوشیدہ رہے توتیس۳۰ کی گنتی پوری کرو(ت)

(فتاوی رضویہ10/381)

واضح لکھا ہے کہ ثبوت صحیح شرعی ہو تو تیس کی گنتی پوری کرنا لازم نہیں

.

*قبلہ مفتی علی اصغر و رویت ہلال کمیٹی کے دلائل کا جواب.......!!*

ایک دو عادل کی گواہی تب معتبر ہے جب مطالع ابر الود ہوں…جبکہ یہاں کئ شہروں میں ابر الود مطلع نہ تھا، انڈیا بنگلہ دیش کا مطلع بھی تقریبا وہی ہے جو پاکستان کا ہے...گویا اتنا بڑا مطلع تھا مگر ایک ہی مطلع کے کچھ شہروں میں ابر تھا اور کچھ شہروں میں وہی مطلع واحد صاف تھا تو یقینا اس صورت میں جم غفیر یعنی بہت بڑی تعداد کی گواہی سے ہی چاند نظر آنا قرار پاتا جبکہ آپ نے ایک دو کی گواہی سے چاند کا فتوی دے دیا جوکہ ٹھیک نہیں

.

لأن المطلع متحد في ذلك المحل والموانع منتفية والأبصار سليمة والهمم في طلب رؤية الهلال مستقيمة فالتفرد في مثل هذه الحالة يوهم الغلط فوجب التوقف في رؤية القليل حتى يراه الجمع الكثير لا فرق في ظاهر الرواية بين أهل المصر ومن ورد من خارج المصر

 مطلع جب ایک ہے اور (مطلع کے پورے حصے یا بعض حصے میں)کوئی موانع(بادل وغیرہ) بھی نہیں ہیں تو پھر متفرد(دو چار) کی گواہی سے چاند نظر فتوی نہیں دیا جا سکتا بلکہ اس صورت میں جم غفیر کافی تعداد کی گواہی ضروری ہے

(مراقی الفلاح فقہ حنفی س12...13ملخصا)

.

وإذا لم تكن بالسماء علة لم تقبل الشهادة حتى يراه جمع كثير يقع العلم بخبرهم)والمطالع لا تختلف إلا بالمسافة البعيدة الفاحشة م: (حتى يكون جمعاً كثيراً)

ایک مطلع ابر الود نہ ہو تو متفرد(ایک  دو چار) کی گواہی معتبر نہیں بلکہ کثیر لوگ گواہی دیں کہ چاند دیکھا، مطلع تب الگ ہوتا ہے جب شہروں میں فحش بہت بڑا فاصلہ ہو

(بنایہ شرح ہدایۃ فقہ حنفی4/29ملخصا)

.

 حتیٰ کہ اگر ایک مطلع میں ایک شہر میں چاند نظر آ گیا اور اسی مطلع میں دوسرے شہر میں چاند نظر نہیں آیا آلودگی کی وجہ سے یا کسی بھی وجہ سے تو اس صورت میں جس جگہ چاند نظر نہیں آیا ان لوگوں پر قضاء روزے کا حکم لگایا تھا علماء نے لیکن آج کے دور میں تو معلومات جلد پہنچ جاتی ہیں لہذا قضاء کرنے کا حکم نہیں ہوگا بلکہ حکم ہوگا کہ ایک ہی مطلع میں جہاں ابر الود ہو وہ لوگ اسی مطلع کے دوسرے شہر کی چاند دیکھنے یا نہ دیکھنے کے شرعی فیصلے پر اعتبار کر لیں

.

إِذَا صَامَ أَهْلُ مِصْرٍ ثَلَاثِينَ يَوْمًا بِرُؤْيَةٍ، وَأَهْلُ مِصْرٍ آخَرَ تِسْعَةً وَعِشْرِينَ يَوْمًا بِرُؤْيَةٍ فَعَلَيْهِمْ قَضَاءُ يَوْمٍ، إِنْ كَانَ بَيْنَ الْمِصْرَيْنِ قُرْبٌ بِحَيْثُ تَتَّحِدُ الْمَطَالِعُ،

 اگر مطلع ایک ہو اور اس ایک مطلع کے ایک شہر میں لوگوں نے تیس روزے رکھے اور اسی مطلع کے دوسرے شہر کے لوگوں نے(ابر الود یا چاند نظر نہ آنے کی وجہ سے)انتیس رکھے تو 29 والوں پر ایک دن کے روزے کی قضا لازم ہے

(الاختیار لتعلیل المختار فقہ حنفی1/5)

.

درمختار میں ہے:شہد واانہ شہد عند قاضی مصر کذا شاھد ان برؤیۃ الھلال فی لیلۃ کذاوقضی القاضی بہ ووجد استجماع شرائط الدعوی جازلہذا القاضی ان یحکم بشھادتھما لان قضاء القاضی حجۃ وقد شھد وابہ لا لو شھد وابرؤیۃ غیرھم لانہ حکایۃاھ۲؎وتمام تحقیقہ فی فتاوٰنا۔ واﷲتعالٰی اعلم۔

گواہوں نے گواہی دی کہ قاضیِ مصر کے پاس فلاں رات چاند دیکھنے پر دوگواہوں نے گواہی دی ہے اور قاضی نے اس پر فیصلہ دیا اور شرائطِ دعوٰی پائی جائیں تو اس قاضی کے لیے دو گواہوں کی شہادت پر فیصلہ دینا جائز ہے کیونکہ قضاء ِقاضی حجّت ہے اور گواہوں نے اس قضاء پر ہی گواہی دی ہے،ہاں اس صورت میں فیصلہ نہیں دے سکتا جب انہوں نے یہ گواہی دی ہو کہ فلاں نے چاند دیکھا ہے کیونکہ یہ حکایت ہے اھ اس کی تمام تحقیق ہمارے فتاوٰی میں ہے،واﷲتعالٰی اعلم(ت) (۲؎ درمختار         کتاب الصیام             مطبع مجتبائی دہلی         ۱ /۱۴۹)

(فتاوی رضویہ 10/371)

.

*قوی قول کے مطلع جدا ہوتو ہر مطلع والے الگ الگ چاند دیکھیں گے،مطلع کے ایک شہر میں چاند نظر آئے تو اسی مطلع کے دیگر شہروں پر بھی حکماً چاند نظر انے کا فتوی ہوگا لیکن دوسرے مطلع والوں پر لاگو نہ ہوگا....سعودی عرب وغیرہ جن کا مطلع پاکستان کے مطلع سے جدا ہے اس لیے سعودی عرب کی پیروی میں چاند کا فتوی پاکستان وغیرہ میں نہیں دیا جاسکتا.......!!*

.

الحدیث:

حدثنا يحيى بن يحيى ، ويحيى بن ايوب ، وقتيبة ، وابن حجر ، قال يحيى بن يحيى: اخبرنا، وقال الآخرون: حدثنا إسماعيل وهو ابن جعفر ، عن محمد وهو ابن ابي حرملة ، عن كريب ، ان ام الفضل بنت الحارث بعثته إلى معاوية  بالشام، قال: فقدمت الشام فقضيت حاجتها، واستهل علي رمضان وانا بالشام، فرايت الهلال ليلة الجمعة، ثم قدمت المدينة في آخر الشهر، فسالني عبد الله بن عباس رضي الله عنهما، ثم ذكر الهلال، فقال: " متى رايتم الهلال؟ "، فقلت: " رايناه ليلة الجمعة "، فقال: " انت رايته؟ "، فقلت: " نعم ورآه الناس، وصاموا وصام معاوية "، فقال: " لكنا رايناه ليلة السبت فلا نزال نصوم حتى نكمل ثلاثين او نراه "، فقلت: " او لا تكتفي برؤية معاوية وصيامه "، فقال: " لا هكذا امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم "، وشك يحيى بن يحيى في نكتفي او  تكتفي.

ترجمہ:

 کریب کو سیدہ ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا شام میں، انہوں نے کہا کہ میں گیا شام کو اور ان کا کام نکال دیا اور میں نے چاند دیکھا رمضان کا شام میں جمعہ کی شب کو (یعنی پنج شنبہ کی شام کو) پھر مدینہ آیا آخر ماہ میں اور سیدنا  عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے پوچھا مجھ سے اور ذکر کیا چاند کا کہ تم نے کب دیکھا؟ میں نے کہا: جمعہ کی شب کو۔ انہوں نے کہا: تم نے خود دیکھا؟ میں نے کہا: ہاں اور لوگوں نے بھی دیکھا اور روزہ رکھا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور لوگوں نے تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کہ ہم نے تو ہفتہ کی شب کو دیکھا اور ہم پورے تیس روزے رکھیں گے یا چاند دیکھ لیں گے تو میں نے کہا: آپ کافی نہیں جانتے دیکھنا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا اور ان کا روزہ رکھنا؟ آپ نے فرمایا نہیں ایسا ہی حکم کیا ہے ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اور یحییٰ بن یحییٰ کو شک ہے کہ «‏‏‏‏نَكْتَفِى» ‏‏‏‏ کہا یا «‏‏‏‏تَكْتَفِى» ۔

(مسلم حدیث2528)

.

وَالْأَشْبَهُ أَنْ يُعْتَبَرَ لِأَنَّ كُلَّ قَوْمٍ مُخَاطَبُونَ بِمَا عِنْدَهُمْ...وَالدَّلِيلُ عَلَى اعْتِبَارِ الْمَطَالِعِ مَا رُوِيَ عَنْ كُرَيْبٌ أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بَعَثَتْهُ إلَى مُعَاوِيَةَ

ترجمہ:

زیادہ مشابہ یہ ہے کہ اختلاف مطالع معتبر ہے کیونکہ ہر قوم کو خطاب کیا گیا ہے جو ان کے پاس ہو، اس کی دلیل وہ ہے کہ جو کریب سے مروی ہے( اس حدیث پاک کو ہم ابھی ابھی ہم تھوڑا اوپر بیان کر رہے آئے ہیں)

[تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي ,1/321]



وَقِيلَ: يَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الْمَطَالِعِ)وَفِي التَّبْيِينِ، وَالْأَشْبَهُ أَنْ يُعْتَبَرَ هَذَا الْقَوْلُ؛ لِأَنَّ كُلَّ قَوْمٍ يُخَاطَبُونَ بِمَا عِنْدَهُمْ

ترجمہ:

ایک فتوی یہ ہے کہ اختلاف مطالع معتبر ہے،تبیین میں ہے کہ یہی قول زیادہ مشابہ ہے حق کے۔۔۔کیونکہ ہر قوم کو مخاطب کیا گیا ہے جو ان کے پاس ہو 

[مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ,1/239]

.

فَأَمَّا إذَا كَانَتْ بَعِيدَةً فَلَا يَلْزَمُ أَحَدَ الْبَلَدَيْنِ حُكْمُ الْآخَرِ لِأَنَّ مَطَالِعَ الْبِلَادِ عِنْدَ الْمَسَافَةِ الْفَاحِشَةِ تَخْتَلِفُ فَيُعْتَبَرُ فِي أَهْلِ كُلِّ بَلَدٍ مَطَالِعُ بَلَدِهِمْ دُونَ الْبَلَدِ الْآخَرِ.

ترجمہ:

جب دو علاقوں میں مسافت بہت زیادہ ہو فاصلہ بہت زیادہ ہو تو ایک کی رؤیت دوسرے کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ ہر ایک علاقے والے اپنے علاقے میں چاند دیکھیں گے(اور اسی کے مطابق عمل کریں گے) 

[بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ,2/83]



.

وقيل: يعتبر فلا يلزمهم قال الشارح: وهو الأشبه

ترجمہ:

ایک فتویٰ یہ ہے کہ ایک علاقے(شہر، ملک)میں چاند ثابت ہو جائے تو دوسرے علاقے والوں پر لازم نہیں ہو جاتا شارح نے فرمایا ہے کہ یہی قول زیادہ مشابہ ہے حق کے 

[النهر الفائق شرح كنز الدقائق ,2/14]

.

ولا يلزم أحد المصرين برؤية الآخر) أي لا يلزم الصوم ولا الإفطار أحد المصرين برؤية أهل المصر الآخر، لأن كل قوم مخاطبون بما عندهم، إلا إذا اتحدت المطالع

ترجمہ:

ایک علاقے کی رویت سے دوسرے علاقے کی رویت ثابت نہیں ہوگی یعنی ایک علاقے(شہر، ملک) کی رویت سے دوسرےعلاقے کے لئے عید اور روزہ لازم نہیں ہوگا کیونکہ ہر قوم مخاطب ہے جو اس کے پاس ہے ہاں اگر مطلع ایک ہی ہو تو مختلف شہروں کے لئے ایک ہی چاند کافی ہے 

[منحة السلوك في شرح تحفة الملوك ,page 258]

.

نوٹ:

ایک فتوی یہ ہے کہ دنیا میں ایک جگہ چاند نظر آئے تو سب ممالک میں چاند لاگو ہوگا....لیکن یہ فتوی متاخرین علماء کے مطابق قوی و معتبر نہیں...احتیاط وہی ہے جسکے دلائل قوی ہوں اور الگ الگ مطلع میں الگ الگ چاند کا حساب کا فتوی کے دلائل قوی ہیں...اسی پر فتوی ہے

وَالِاحْتِيَاطُ الْعَمَلُ بِأَقْوَى الدَّلِيلِينَ،

اور احتیاط یہی ہے کہ دلائل میں سے قوی دلیل پر عمل کیاجائے

[البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق ,1/13]

[(رد المحتار) ,1/73]


.


لأن الاحتياط هو العمل بأقوى الدليلين

کیونکہ احتیاط یہی ہے کہ دلائل میں سے قوی دلیل پر عمل کیاجائے

[حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح ,page 227]

.

نوٹ:

بے شک رسول اللہ نے فرمایا کہ: اس(پہلی تاریخ کے)چاند کو اللہ نے بڑا(یا زیادہ دیر تک نظر آنے والا) کیا ہے دیکھنے کے لیے،

یہ اسی رات کا ہے جس رات دیکھو(مسلم حدیث نمبر1018 باب چاند کے چھوٹے بڑے ہونے کا اعتبار نہیں)اب تو سائنسی لحاظ سے بھی ثابت ہوگیا ہے کہ پہلی تاریخ کا چاند تھوڑا بڑا اور واضح ہوسکتا ہے لیھذا آج کے بڑے یا باریک چاند سے کچھ ثابت نہیں ہوگا،چاند کی پہلی یا آخری تاریخ کا تعلق دیگر دلائل شرعیہ سے ہے

.

سوال:

*بڑے بڑے علماء کے خلاف رائے دیتے ہو ، توجہ دلاتے ہو، کیا پدی کیا پدی کا شوربہ گستاخ کہیں کے.....؟؟*

جواب:

ہم جیسے چھوٹے موٹے لوگ کارکنان اگر کچھ مشورہ دیں یا رائے کا اظہار کریں تو سیدھا سا جواب یہی ملتا ہے کہ اپنی اوقات دیکھو، اپنی اوقات میں رہو، کیا پدی کیا پدی کا شوربہ، بڑوں کو مشورہ دیتے ہو، بڑوں کو توجہ دلاتے ہو...بے ادب نافرمان کہیں کے...بلکہ اس سے بھی سخت جوابات ملتے ہیں...

امام نووی علیہ الرحمۃ ایک حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں.

ترجمہ:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب امام اور سربراہ(لیڈر مفتی اکابر) کوئی حکم مطلق دے اور اس کے متبعین میں سے کسی شخص کی رائے اس کے خلاف ہوتو اس کو چاہیے کہ وہ امیر و سربراہ کے سامنے اپنی رائے پیش کرے تاکہ امیر اس پر غور کرے، پس اگر امیر پر یہ منکشف ہو کہ اس متبع کی رائے(مشورہ) صحیح ہے تو اسکی طرف رجوع کر لے ورنہ اس متبع کے شبہ کو زائل کرے اور اسکی تسلی کرے..

(شرح مسلم للنووی1/581بحوالہ تبیان القرآن تحت تفسیر سورہ الشوری آیت10)

.

علامہ مولا علی قاری حنفی منقولا فرماتے ہیں:

أن العالم ولو بلغ مبلغ الكمال في العلم، فإنه لا بد له من الجهل ببعضه

ترجمہ:

عالم اگر علم کے کمال درجے کو بھی پہنچ جائے تو بھی بعض چیزوں سے وہ ضرور لاعلم ہوگا..

(مرقاۃ تحت شرح حدیث5066

.

کم علمی ، بے توجہی، غلط فہمی چھوٹوں سے بھی ہوسکتی ہے تو بڑوں سے بھی ہوسکتی ہے....لیھذا شاگرد کہہ کر اوقات یاد دلانا ٹھیک نہیں... اپنا استاد ہونا یا استاد العلماء ہونا مت جتائیے.... اپنا علم اپنی خدمات مت جتائیے... بلکہ دلائل و شواہد سے بات کیجیے.... سمجھائیے جواب دیجیے ورنہ حق قبول کریں... وسیع ذہن وسعتِ قلبی رکھیں، باادب ہوکر سلیقے اور تمیز کے ساتھ دلاءل و شواہد سے کوئی شاگرد یا کوئی چھوٹا اختلاف کرے یا مشورہ دے اور توجہ دلائے تو بلاتعصب و حسد، بغیر بڑائی کے غور و فکر لازم ہے...غور و فکر کےبعد مشورہ برحق لگے زیادہ مناسب لگے تو اسے دل سے قبول کرتے ہوئے عمل کرنا چاہیے ورنہ مشورہ دینے والے کے شبہات کا ازالہ کیا جائے..جیسا کہ امام نووی کے حوالے سے گذرا

.

مشورہ قبول ہوجائے تو مشورہ دینے والا سر پر مت چڑھے کہ جی میں تو بڑوں سے آگے نکل گیا.. کیونکہ کسی ایک معاملے مین آپ کی توجہ صحیح سمت مین چلی گئ تو اس کا یہ مطلب نہین کہ تمام معاملات مین آپ بڑھ گئے...ہرگز نہیں

.

بلکہ ہم سب پر لازم ہے کہ ہماری باتیں جتنی بھی صحیح ہوں مگر اپنے آپ کو علمِ کل یا عقل کل نہیں سمجھنا چاہیے...بس میں ہی ہوں کے غرور مین نہیں پڑنا چاہیے... ہم سے بڑے بڑے علم و عقل والے موجود ہوتے ہیں مگر ان سے ہمارا واسطہ نہین پڑا ہوتا یا پھر وہ گمنام کم مشھور رہنا پسند کرتے ہیں...

.


حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں:

" لا تَنْظُرْ إِلَى مَنْ قَالَ ، وَانْظُرْ إِلَى مَا قَالَ

ترجمہ:

یہ مت دیکھو کہ کس نے کہا، یہ دیکھو کہ کیا کہا

(فوائد موضوعۃ روایت نمبر93)

.

مشھور یا منصب و طاقت والا بےتکی بات کہے تو بھی راز و اوصاف نکالےجاتے ہیں، واہ واہ کی جاتی ہے

مگر

نادار اور غیرمشھور شخص عالم قولِ زریں بھی کہے تو وقعت و توجہ نہیں دی جاتی....افسوس


.

کسی کی بات،

کسی کی رائے،

کسی کے مشورے

کسی کے مطالبے

کسی کی تحریر کی مضبوطی کو دیکھنا چاہیے، اسکی سچائی، گیرائی اور گہرائی کو دیکھنا چاہیے، اس کے پردلیل ہونے کو دیکھنا چاہیے...کیونکہ علم و شعور عمر دیکھ کر یا قومیت.و.ذات دیکھ کر نہیں آتا،

کئ بزرگ بوڑھے علم و شعور سے عاری بھی ہوتے ہیں اور کئ کم عمر علم.و.شعور والے بھی ہوتے ہیں....تو عمر ذات غریبی امیری مشہوری لائکس کی زیادتی جذباتیات وغیرہ کو مت دیکھیے... بات کی مضبوطی گہرائی گیرائی کو دیکھیے

.

چھوٹوں کی بات، مشورے کو عار مت سمجھیے،

تسلی بخش افھام تفھیم والا جواب دیجیے ورنہ چھوٹے کی بات مشورہ قبول کر لیجیے

استاد لیڈر سربراہ کسی بڑے کو مشورہ دینا........؟؟

بن مانگے مشورہ رائے دینا.............؟؟

المفھم شرح مسلم میں ایک حدیث پاک سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے...ترجمہ:

امام اور سربراہ(لیڈر، کسی بڑے)کو مشورہ دینا چاہیے خواہ انہوں نے مشورہ طلب نا کیا ہو

(المفھم شرح مسلم 1/208بحوالہ تبیان القرآن تحت تفسیر سورہ الشوری آیت10)

امام نووی علیہ الرحمۃ ایک حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں.

ترجمہ:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب امام اور سربراہ(لیڈر اکابر) کوئی حکم مطلق دے اور اس کے متبعین میں سے کسی شخص کی رائے اس کے خلاف ہوتو اس کو چاہیے کہ وہ امیر و سربراہ کے سامنے اپنی رائے پیش کرے تاکہ امیر اس پر غور کرے، پس اگر امیر پر یہ منکشف ہو کہ اس متبع کی رائے(مشورہ) صحیح ہے تو اسکی طرف رجوع کر لے ورنہ اس متبع کے شبہ کو زائل کرے اور اسکی تسلی کرے..

(شرح مسلم للنووی1/581بحوالہ تبیان القرآن تحت تفسیر سورہ الشوری آیت10)

لیھذا اپنے آپ کو مشورے کا غیرمحتاج مت سمجھیے، کوئی اپ سے اختلاف کرے تو دلائل سے جواب دیجیے، تسلی بخش جواب دیجیے ورنہ قبول کر لیجیے....یہ مت کہیے کہ میں تو بڑا ہوں فلاں فلاں کا استاد ہو، میں تو لیڈر ہوں، میرے تو فلاں فلاں عہدے ہیں،  مرشد عالم مفتی ہونا مت جتائیے تسلی بخش جواب دیجیے ورنہ حق قبول کیجیے...مشورہ لیتے رہیے.. خطاء سے پاک مت سمجھیے...

.

اپنے آپ کو بہت بڑی توپ مت سمجھیے،اپنے آپ کو علمِ کل اور عقلِ کل مت سمجھیے، یہ مت سمجھیے کہ بس میں ہوں، بس میری پارٹی میری تنظیم ہی ہے، باقی سب کو گھاس نا ڈالنا، عزت نا دینا ٹھیک نہیں،ہاں دوسری کی بہتری ترقی کی کوشش کرنی چاہیے مگر خودپسندی میں نہیں رہنا چاہیے، خود پسندی ہلاکت خیز بیماری ہے

الحدیث:

 قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: " «المهلكات ثلاث: إعجاب المرء بنفسه، وشح مطاع، وهوى متبع»

ترجمہ:

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزیں ہلاک کر دیتی ہیں

1:خود پسندی

2:لالچ و بخل کی اطاعت

3:خواہشاتِ نفس کی پیروی

(مجمع الزوائد حدیث315)

.

*فروعی مسئلے میں جمھور درست نہ ہوں، ایک اکیلا چھوٹا عالم درست ہو، ایسا ہوسکتا ہے....*

.

عمر اور عدد کی کثرت کا اعتبار نہیں کیونکہ کبھی کم عمر اور واحد شخص کسی حادثہ میں درستگی کو پالیتا جس کو بڑا اور جماعت نہیں پاتے (ت)(۲؎ معین الحکام     الرکن الثانی من ارکان القضاء المقتضی بہ   مصطفی البابی مصر ص۲۷)   اسی طرح محیط پھر ہندیہ میں ہے

(فتاوی رضویہ18/491)

.

اتباع سواد اعظم کا حکم اور من شذ شذ من فی النار کی وعید صرف دربارہ عقائد ہے مسائل فرعیہ فقہیہ کو اس سے کچھ علاقہ نہیں،صحابہ کرام سے ائمہ اربعہ تک رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین کوئی مجتہد ایسا نہ ہوگا جس کے بعض اقوال خلاف جمہور نہ ہوں..(فتاوی رضویہ18/492)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.