دعوت اسلامی بھی معتبر اور قبلہ جلا-لی بھی معتبر؟ چاند اختلاف؟ سعودی؟

*کیا دعوت اسلامی معتبر نہیں رہی یا قبلہ جلا-لی صاحب معتبر نہیں رہے،سچا کون جھوٹا کون، ہم کہاں جائیں...؟؟اور کیا بڑے چاند سے حق سچ کا پتہ چلے گا.....؟؟اور سائنس و فلکیات کا قول معتبر.....؟؟*

سوال:

علامہ صاحب مفصل مدلل بتائیں کہ ہم کہاں جائیں...؟؟دعوت اسلامی پر بھروسہ کریں یا قبلہ جلا-لی پر، اتنی بڑی تنظیم اور اتنے بڑے محقق علماء دعوت اسلامی میں ہیں، کیا سب غیر معتبر ہیں...؟؟ یا جلا-لی صاحب شرارت و فساد برپا کر رہے ہیں....؟؟

.

جواب:

*پیارے بھائی آپ سے اور تمام احباب سے گذارش ہے کہ دعوت اسلامی اور قبلہ مفتی اشرف جلا-لی اور تمام سچے اہلسنت علماء برحق ہیں،بھروسے والے ہیں، کسی سے بھی نفرت نہ کریں، دونوں ٹھیک ہیں، مسئلہ فقط بہتر کا ہے کہ کس کے قول پے عمل زیادہ بہتر ہے....؟؟میرے مطابق اس معاملے میں جلا-لی صاحب کا فتوی پہلے کے علماء کےقوی فتوے کے مطابق ہے اس لیے اس پر عمل بہتر ہےاس فتوے مطابق آج جمعہ کو یکم رمضان ہے لیکن قبلہ مفتی علی اصغر صاحب و دعوت اسلامی کے فتوے فیصلے پر بھی عمل جائز ہےاس فتوے مطابق آج جمعہ کو دو تاریخ تھی رمضان کی*

.

وجہ یہ ہے کہ چاند کے معاملے دو مشھور فتوے ہیں

*#پہلا_فتوی.....!!*

ایک جگہ چاند نظر آ جائے تو قریب و بعید کے تمام ممالک علاقوں پر حکم لاگو ہوگا کہ سب کے لیے چاند نظر آگیا چاہے مطلع ایک ہو یا مختلف، چاہے جتنا بھی وقت و مسافت کا فرق ہو تب بھی ایک ہی چاند سب کے لیے لاگو ہوگا

.

*#دوسرا_فتوی.....!!*

ایک جگہ چاند نظر آیا تو جن ممالک یا علاقوں کا مطلع ایک ہو اور ان کے درمیان زیادہ مسافت نہ ہو ان سب پر چاند کا حکم لاگو ہوگا لیکن اگر ممالک شہر کہ جن کا مطلع الگ ہو، وقت مسافت کا بہت فرق ہو تو ہر مطلع والے الگ الگ چاند دیکھیں گے اور ایک میں چاند نظر آیا تو دوسرے مطلع والے ممالک و علاقوں پر لاگو نہ ہوگا بلکہ وہ الگ سے اپنے وقت مطابق جب چاند دیکھیں گے تو اسی وقت کے مطابق حکم لاگو ہوگا

.


*پہلے فتوے کے دلائل……!!*

*پہلی_دلیل....!*

القرآن:

فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ...جو رمضان کا مہینہ پائے تو اس کے روزے رکھے

(سورہ بقرہ آیت185)

 آیت کریمہ کے دو معنی ہوسکتے ہیں کہ ہر کوئی شخص چاند دیکھے تو روزے رکھے یا پھر کچھ لوگ چاند دیکھ لیں اور باقی لوگ ان کی گواہی کو اعتبار میں لاتے ہوئے روزے رکھ لیں....پہلے معنی میں حرج عظیم ہے اور ایسا معنی کسی نے نہیں لیا لیھذا ایک جگہ چاند نظر آجائے تو سب قریب بعید ممالک و علاقوں پر حکم لاگو ہوجائے گا

.

*اس_دلیل کا جواب....!!*

دوسرے معنی مراد تو ہیں لیکن یہ وضاحت ایت میں نہیں کہ قریب قریب علاقوں کے لیے ایک چاند کافی ہے یا دور دور کے علاقوں کا حساب الگ ہوگا....؟؟ آیت کی تفسیر نبی پاک کی حدیث اور صحابہ کرام کے دوٹوک فتوے سے ہوگی کہ دور دور والے علاقے ممالک جنکا مطلع ایک نہ ہو وہ اپنے اپنے وقت کے حساب سے چاند دیکھ کر ہی روزے رکھیں گے جیسے کہ فتوی دو کی دلیل چار میں تفصیل آئے گی

.

*#دوسری_دلیل…!!*

أَنَّ رَكْبًا جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْهَدُونَ أَنَّهُمْ رَأَوُا الْهِلَالَ بِالْأَمْسِ، فَأَمَرَهُمْ أَنْ يُفْطِرُوا

 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ روزہ رکھیں لیکن دوپہر کے وقت ایک وفد باہر سے آیا انہوں نے گواہی دی کہ ہم نے تو رات چاند دیکھ لیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ روزہ توڑ دو

(ابوداؤد حدیث1157)

 اس حدیث پاک سے ثابت کیا جاتا ہے کہ دیکھیں ایک چاند سب کے لئے ہے اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ توڑنے کا حکم دیا...

.

*#اسکا_جواب.....!!*

حدیث پاک میں یہ وضاحت نہین کہ وہ کتنی دور سے آئے تھے....ہمارے مطابق اس حدیث کا معنی ہے کہ وہ قریب کے علاقے سے آئے ہونگے اور قریب قریب کے علاقوں میں ہمارے مطابق بھی ایک ہی چاند لاگو ہوگا... دور دور علاقے ممالک جنکا مطلع مختلف ہو اسکے متعلق حکم ہے کہ اپنے اپنے مطلع کے چاند کا اعتبار کریں جیسے کہ فتوی دو کی دلیل چار میں تفصیل آئے گی

.

*#تیسری_دلیل......!!*

الحدیث:

صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته

ترجمہ:

چاند دیکھ کر ہی روزے رکھنا شروع کرو اور چاند دیکھ کر ہی روزے رکھنا ختم کرو(یعنی چاند دیکھ کر ہی عید کرو)

(بخاری حدیث1909)

.

الحدیث..ترجمہ:

جب(رمضان کا)چاند دیکھ لو یا شعبان کی 30دن کی گنتی پوری ہو تو روزے رکھو..(ابوداود حدیث2326)

.

ایسی احادیث سے قیاس کیا گیا کہ ہر علاقے کے لیے چاند دیکھنا فرض نہیں بلکہ کسی ملک میں نظر آگیا تو دوسرے ممالک و علاقے اُس ملک کی رویت ہلال کے مطابق روزہ و عید کرسکتے ہیں...لیھذا اس فتوے کے مطابق سعودی عرب میں چاند نظر آگیا تو انڈیا پاکستان دبئ بنگلہ دیش وغیرہ سعودی عرب کے چاند کے مطابق روزہ و عید کرسکتے ہیں

.

وَإِذَا ثَبَتَ فِي مِصْرٍ لَزِمَ سَائِرَ النَّاسِ فَيَلْزَمُ أَهْلَ الْمَشْرِقِ رُؤْيَةُ أَهْلِ الْمَغْرِبِ فِي ظَاهِرِ الْمَذْهَبِ وَقِيلَ يَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الْمَطَالِعِ.. وَجْهُ الْأَوَّلِ عُمُومُ الْخِطَابِ فِي قَوْلِهِ صُومُوا مُعَلَّقًا لِمُطْلَقِ الرُّؤْيَةِ فِي قَوْلِهِ لِرُؤْيَتِهِ

ترجمہ:

جب ایک علاقے میں چاند ثابت ہو جائے تو دوسرے تمام علاقوں کے لیے ثابت ہوجائے گا تو اہل مشرق کے لیے اہل مغرب کی رویت کافی ہوجائے گی یہی ظاہر مذہب میں ہے۔۔۔۔ایک فتوی یہ ہے کہ اختلاف مطالع معتبر نہیں یعنی ہر الگ مطلع والا علاقہ ملک اپنا اپنا چاند دیکھ کر عید و روزہ کریں گے۔۔۔پہلے فتوے کی دلیل یہ ہے کہ حدیث پاک میں ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو تو ایک علاقے میں چاند دکھے گا تو سب کا چاند دیکھنا کہلائے گا  

[تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي ,1/316]


وإذا ثبت" الهلال "في" بلدة و "مطلع قطر" ها "لزم سائر الناس في ظاهر المذهب

ترجمہ:

جب ایک قطر و مطلع کے علاقے میں چاند ثابت ہو جائے تو باقی سارے لوگوں کیلئے بھی چاند ثابت ہو جائے گا یہی ظاہر مذہب ہے 

[مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ,page 243]

.

فَإِذَا ثَبَتَ فِي بَلَدٍ لَزِمَ جَمِيعَ النَّاسِ; وَلَا اعْتِبَارَ بِاخْتِلَافِ الْمَطَالِعِ

ترجمہ:

اور جب ایک علاقے میں چاند ثابت ہو جائے تو تمام لوگوں کے لئے چاند ثابت ہو جائے گا اور اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں 

[الاختيار لتعليل المختار ,1/129]

.

وَلَا عِبْرَةَ بِاخْتِلَافِ الْمَطَالِعِ فَيَلْزَمُ بِرُؤْيَةِ أَهْلِ الْمَغْرِبِ أَهْلَ الْمَشْرِقِ؛ وَإِذَا ثَبَتَ فِي مِصْرٍ لَزِمَ سَائِرَ النَّاسِ فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ، وَقِيلَ يُعْتَبَرُ فِي كُلِّ بَلَدٍ مَطْلَعُ بَلَدِهِمْ إذَا كَانَ بَيْنَهُمَا مَسَافَةٌ كَثِيرَةٌ 

ترجمہ:

اختلاف مطالع معتبر نہیں ہے لہذا اہل مغرب چاند دیکھ لیں تو اہل مشرق کے لئے بھی چاند ثابت ہو جائے گا ۔۔۔ظاہر الروایہ میں یہی ہے کہ جب ایک علاقے میں چاند ثابت ہو جائے تو تمام لوگوں کے لئے چاند ثابت ہو جائے گا۔۔۔ایک قول یہ ہے کہ اختلاف مطالع معتبر ہے لہذا ہر علاقے والے اپنے اپنے علاقوں کے چاند دیکھ کر عید اور روزہ کریں گے بشرطیکہ ان علاقوں میں میں بہت زیادہ فاصلہ ہو 

[(رد المحتار فتاوی شامی ,2/619]

.

*#اس_تیسری_دلیل_کا_جواب.....!!*

 حدیث پاک میں فقط اتنا ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو... اس کا ایک معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک جگہ چاند نظر آئے تو سارے روزہ رکھو اور ایک معنی یہ ہو سکتا ہے کہ لوگو ہر مختلف مطلع کے علاقے ممالک والو اپنے اپنے علاقے ملک مطلع کے چاند دیکھ کر روزے رکھو...دوسرے معنی ہی لیے جائیں گے کہ فتوی نمبر دو کی چوتھی دلیل میں ہے کہ صحابہ کرام نے دور کے علاقے ممالک مختلف مطالع والے ممالک علاقوں کا الگ الگ حساب کیا ہے.....جیسے کہ فتوی دو کی دلیل چار میں تفصیل آئے گی

.=================


.

*#دوسرا_فتوی.....!!*

ایک جگہ چاند نظر آیا تو جن ممالک یا علاقوں کا مطلع ایک ہو، ان کے درمیان زیادہ مسافت نہ ہو ان سب پر چاند کا حکم لاگو ہوگا لیکن اگر ممالک شہر کہ جن کا مطلع الگ ہو، وقت مسافت کا بہت فرق ہو تو ہر مطلع والے الگ الگ چاند دیکھیں گے اور ایک میں چاند نظر آیا تو دوسرے مطلع والے ممالک و علاقوں پر لاگو نہ ہوگا بلکہ وہ الگ سے اپنے وقت مطابق جب چاند دیکھیں گے تو اسی وقت کے مطابق حکم لاگو ہوگا

.

*#پہلی_دلیل……!!*

پہلے فتوے میں دی گئ ایت بھی اس فتوے کی دلیل ہے کہ آیت کریمہ میں حکم ہے کہ رمضان پاؤ تو روزہ رکھو.. اب جن ممالک و علاقوں کا مطلع الگ الگ ہے بہت دور دور کے ممالک و علاقے ہیں تو ایک جگہ چاند نظر آیا تو انھوں نے رمضان پا لیا لیھذا روزے رکھیں گے

لیکن

 جہاں پر چاند نظر نہیں آیا تو انھوں نے رمضان نہیں پایا لیھذا روزہ نہیں رکھیں گے جب وہ چاند کو دیکھ لیں گے تب روزہ رکھیں گے

.

*#دوسری_دلیل……!!*

 پہلے فتوے میں لکھی گئ حدیث پاک جو دوسری دلیل ہے وہ حدیث پاک اس دوسرے فتوے کی دلیل ہے کہ جو لوگ باہر سے ائے تھے وہ قریب قریب کے علاقے کے تھے کہ جنکا مطلع ایک تھا اس لیے انکا اعتبار کیا گیا....اگر دور کے ہوتے کہ مطلع الگ ہوتا تو ہرگز اعتبار نہ کیا جاتا جیسے کہ اس دوسری فتوی کی چوتھی دلیل میں وضاحت ہے

.

*#تیسری_دلیل……!!*

 فتوی نمبر ایک کی تیسری دلیل کے تحت  جو دو حدیثں بیان کی گئی ہیں کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو تو وہ اس دوسرے فتوے کی دلیل ہیں کہ معنی یہ ہونگے کہ لوگوں الگ الگ مطلع والو جب تم خود اپنے علاقے میں چاند دیکھو تو روزہ رکھو...البتہ قریب قریب والے ایک ہی چاند پر اکتفاء کریں گے جیسے کہ اوپر گذرا کہ ابوداود ابن ماجہ کی حدیث پاک میں ہے کہ نبی پاک نے روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا لیکن باہر سے آنے والے ایک وفد نے گواہی دی تھی کہ ہم نے رات کو چاند دیکھا ہے تو نبی پاک نے سب کے لئے حکم دے دیا کہ روزہ توڑ دو کیونکہ مطلع ایک تھا...ممالک و علاقوں میں بڑا فاصلہ نہ تھا

.

*#چوتھی_دلیل……!!*

حدثنا يحيى بن يحيى ، ويحيى بن ايوب ، وقتيبة ، وابن حجر ، قال يحيى بن يحيى: اخبرنا، وقال الآخرون: حدثنا إسماعيل وهو ابن جعفر ، عن محمد وهو ابن ابي حرملة ، عن كريب ، ان ام الفضل بنت الحارث بعثته إلى معاوية  بالشام، قال: فقدمت الشام فقضيت حاجتها، واستهل علي رمضان وانا بالشام، فرايت الهلال ليلة الجمعة، ثم قدمت المدينة في آخر الشهر، فسالني عبد الله بن عباس رضي الله عنهما، ثم ذكر الهلال، فقال: " متى رايتم الهلال؟ "، فقلت: " رايناه ليلة الجمعة "، فقال: " انت رايته؟ "، فقلت: " نعم ورآه الناس، وصاموا وصام معاوية "، فقال: " لكنا رايناه ليلة السبت فلا نزال نصوم حتى نكمل ثلاثين او نراه "، فقلت: " او لا تكتفي برؤية معاوية وصيامه "، فقال: " لا هكذا امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم "، وشك يحيى بن يحيى في نكتفي او  تكتفي.

ترجمہ:

 کریب کو سیدہ ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا شام میں، انہوں نے کہا کہ میں ملک شام گیا اور ان کا کام نکال دیا اور میں نے چاند دیکھا رمضان کا ملک شام میں جمعہ کی شب کو (یعنی پنج شنبہ کی شام کو) پھر مدینہ آیا آخر ماہ میں اور سیدنا  عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے پوچھا اور ذکر کیا چاند کا کہ تم نے کب دیکھا؟ میں نے کہا: جمعہ کی شب کو۔ انہوں نے کہا: تم نے خود دیکھا؟ میں نے کہا: جی ہاں اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور لوگوں نے بھی دیکھا اور روزہ رکھا تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کہ ہم نے تو ہفتہ کی شب کو دیکھا اور ہم پورے تیس روزے رکھیں گے یا چاند دیکھ لیں گے تو ہی عید کریں گے...میں نے کہا: کیا آپ کافی نہیں جانتے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور لوگوں نے چاند دیکھا روزہ رکھا....؟؟  آپ نے فرمایا نہیں(شام دور ہے اسکا مطلع الگ ہے اسکا چاند ہم پر لاگو نہ ہوگا)... ایسا ہی حکم کیا ہے ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اور یحییٰ بن یحییٰ کو شک ہے کہ «‏‏‏‏نَكْتَفِى» ‏‏‏‏ کہا یا «‏‏‏‏تَكْتَفِى» ۔

(مسلم حدیث2528)

.

وَالْأَشْبَهُ أَنْ يُعْتَبَرَ لِأَنَّ كُلَّ قَوْمٍ مُخَاطَبُونَ بِمَا عِنْدَهُمْ...وَالدَّلِيلُ عَلَى اعْتِبَارِ الْمَطَالِعِ مَا رُوِيَ عَنْ كُرَيْبٌ أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بَعَثَتْهُ إلَى مُعَاوِيَةَ

ترجمہ:

زیادہ(حق و درستگی کے) مشابہ یہ ہے کہ اختلاف مطالع معتبر ہے کیونکہ ہر قوم کو خطاب کیا گیا ہے جو ان کے پاس ہو، اس کی دلیل وہ ہے کہ جو کریب سے مروی ہے( اس حدیث پاک کو ہم ابھی ابھی اوپر بیان کر رہے آئے ہیں)

[تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي ,1/321]


وَقِيلَ: يَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الْمَطَالِعِ)وَفِي التَّبْيِينِ، وَالْأَشْبَهُ أَنْ يُعْتَبَرَ هَذَا الْقَوْلُ؛ لِأَنَّ كُلَّ قَوْمٍ يُخَاطَبُونَ بِمَا عِنْدَهُمْ

ترجمہ:

ایک فتوی یہ ہے کہ اختلاف مطالع معتبر ہے،تبیین میں ہے کہ یہی قول زیادہ مشابہ ہے حق و درستگی کے۔۔۔کیونکہ ہر قوم کو مخاطب کیا گیا ہے جو ان کے پاس ہو 

[مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ,1/239]

.

فَأَمَّا إذَا كَانَتْ بَعِيدَةً فَلَا يَلْزَمُ أَحَدَ الْبَلَدَيْنِ حُكْمُ الْآخَرِ لِأَنَّ مَطَالِعَ الْبِلَادِ عِنْدَ الْمَسَافَةِ الْفَاحِشَةِ تَخْتَلِفُ فَيُعْتَبَرُ فِي أَهْلِ كُلِّ بَلَدٍ مَطَالِعُ بَلَدِهِمْ دُونَ الْبَلَدِ الْآخَرِ.

ترجمہ:

جب دو علاقوں ممالک میں مسافت بہت زیادہ ہو فاصلہ بہت زیادہ ہو تو ایک کی رؤیت دوسرے کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ مختلف مطلع والے  علاقے ممالک اپنے علاقے ممالک میں چاند دیکھیں گے(اور اسی کے مطابق عمل کریں گے) 

[بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ,2/83]

.

وقيل: يعتبر فلا يلزمهم قال الشارح: وهو الأشبه

ترجمہ:

ایک فتویٰ یہ ہے کہ ایک علاقے(شہر، ملک)میں چاند ثابت ہو جائے تو دوسرے علاقے والوں پر لازم نہیں ہو جاتا شارح نے فرمایا ہے کہ یہی قول زیادہ مشابہ ہے حق کے 

[النهر الفائق شرح كنز الدقائق ,2/14]

.

ولا يلزم أحد المصرين برؤية الآخر) أي لا يلزم الصوم ولا الإفطار أحد المصرين برؤية أهل المصر الآخر، لأن كل قوم مخاطبون بما عندهم، إلا إذا اتحدت المطالع

ترجمہ:

ایک علاقے کی رویت سے دوسرے علاقے کی رویت ثابت نہیں ہوگی یعنی ایک علاقے(شہر، ملک) کی رویت سے دوسرےعلاقے کے لئے عید اور روزہ لازم نہیں ہوگا کیونکہ ہر قوم مخاطب ہے جو اس کے پاس ہے ہاں اگر مطلع ایک ہی ہو تو مختلف شہروں کے لئے ایک ہی چاند کافی ہے 

[منحة السلوك في شرح تحفة الملوك ,page 258]

.

جب مسلہ اختلافی ہو تو شدت نہیں کرنی چاہیے الگ الگ فتووں پر عمل کرنے والوں کو فاسق گمراہ نہیں کہنا چاہیے....ہاں کوشش کرنی چاہیے کہ مدلل مضبوط محقق و احتیاط والے مسلے پر عمل کرایا جاءے

اکثر متاخرین علماء کے مطابق دوسرا فتوی زیادہ قوی ہے تو اسی پر عمل کرنا چاہیے، عمل کرانا چاہیے

مگر

پہلے فتوے پے حکومت فیصلہ کر دے تو عمل دونوں پے جائز ہوگا....ہر دو فریق ایک دوسرے کو فاسق و فاجر گمراہ نہ کہیں گے مذمت و انکار نہ کریں گے

.

سیدی اعلی حضرت فرماتے ہیں:

علمائے محتاطین تو ایسے مسائل اجتہادیہ میں انکار بھی ضروری و واجب نہیں جانتے نہ کہ عیاذاً باﷲ نوبت تا بہ تضلیل واکفار۔سیدی عارف باﷲ محقق نابلسی کتاب مذکور میں فرماتے ہیں:ان المسئلۃ الواقعۃ کما ھی الاٰن فی جوامع بلادنا وغیرہ یوم الجمعۃ من الموذنین متی امکن تخریجھا علی قول من الاقوال فی مذہبنا او مذہب غیرنا فلیست بمنکریجب انکارہ والنھی عنہ وانما المنکر ماوقع الاجماع علی حرمتہ والنھی عنہ ۱؎ ۔مسئلہ درپیش جیسا کہ اب ہمارے شہر کی جامع مساجد میں مؤذنین جمعہ کے دن ( امام کی دعا پر آمین )کہتے ہیں

*اس کی تخریج وثبوت ہمارےمذہب یا دوسرے مسلک میں ممکن ہے، تو یہ ایسا ناجائز نہیں کہ اس کا انکار اور اس سے منع لازم ہو، منکر تو وہ ہوتا ہے جس کی حرمت اور ممانعت پر اجماع ہو* ۔(ت) (۱؎ الحدیقۃ الندیۃ نوع ۳۳۳۳   الکلام فی حال الخطبۃ    مطبوعہ نوریہ رضویہ فیصل آباد        ۲۲ /۳۰۹)بالجملہ مقتدیوں کا یہ فعل تو علی الاختلاف ممنوع مگر مسلمانوں کو بلاوجہ مشرک بدعتی کہنا بالاجماع حرام قطعی تو یہ حضرات مانعین خود اپنی خبر لیں اور امام کے لئے تو اس کے جواز میں اصلاً کلام نہیں، ہاں خوف مفسدۂ اعتقاد عوام ہو تو التزام نہ کرے، فقیر غفر اﷲ تعالٰی  اس جلسہ میں اکثر سکوت کرتا اور کبھی اخلاص کبھی درود پڑھتا ہے اور رفع یدین کبھی نہیں کرتا کہ مقتدی دیکھ کر خود بھی مشغول بدعا نہ ہوں ، مگر معاذ اللہ ایسا نا پاک تشدد شرع کبھی روا نہیں فرماتی، مولٰی  تعالٰی  ہدایت بخشے..(فتاوی رضویہ,485 , 8/484,)

.

دوسرے فتوی کے دلائل قوی ہین اسی لیے متاخرین فقھاء نے اختلاف مطالع کو ممالک بعیدہ میں معتبر کہا اور فتوی دیاکہ ہر مختلف مطلع والے ملک اپنے اپنے چاند دیکھ کر عید روزے کریں، احتیاط یہی ہے کہ قوی دلائل پر عمل کیاجائے کرایا جائے اور فتوی نمبر دو کے دلائل قوی ہیں

وَالِاحْتِيَاطُ الْعَمَلُ بِأَقْوَى الدَّلِيلِينَ،

اور احتیاط یہی ہے کہ دلائل میں سے قوی دلیل پر عمل کیاجائے

[البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق ,1/13]

[(رد المحتار) ,1/73]


.


لأن الاحتياط هو العمل بأقوى الدليلين

کیونکہ احتیاط یہی ہے کہ دلائل میں سے قوی دلیل پر عمل کیاجائے

[حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح ,page 227]

.

اہم نوٹ:

شرط…لھلال الصوم او الفطر اخبار جمع عظیم…روزہ اور عید کے لیے شرط ہےکہ جمع عظیم، کثیر تعداد گواہی دےکہ چاند دیکھا(از فتاوی عالمگیری1/198 نور الایضاح ص130،ردالمحتار2/388،فتاوی رضویہ10/406)دور فتن چیرمین رویت ہلال کمیٹی غیرمعتبر اور عدمِ تساہلِ عوام ہےایسے میں پسنی چمن پشاور سےمحض چند کی خبر کافی نہیں…جمع عظیم کی گواہی لازم

.

لأن المطلع متحد في ذلك المحل والموانع منتفية والأبصار سليمة والهمم في طلب رؤية الهلال مستقيمة فالتفرد في مثل هذه الحالة يوهم الغلط فوجب التوقف في رؤية القليل حتى يراه الجمع الكثير لا فرق في ظاهر الرواية بين أهل المصر ومن ورد من خارج المصر

 مطلع جب ایک ہے اور (مطلع کے پورے حصے یا بعض حصے میں)کوئی موانع(بادل وغیرہ) بھی نہیں ہیں تو پھر متفرد(دو چار) کی گواہی سے چاند نظر فتوی نہیں دیا جا سکتا بلکہ اس صورت میں جم غفیر کافی تعداد کی گواہی ضروری ہے

(مراقی الفلاح فقہ حنفی س12...13ملخصا)

.

وإذا لم تكن بالسماء علة لم تقبل الشهادة حتى يراه جمع كثير يقع العلم بخبرهم)والمطالع لا تختلف إلا بالمسافة البعيدة الفاحشة م: (حتى يكون جمعاً كثيراً)

ایک مطلع ابر الود نہ ہو تو متفرد(ایک  دو چار) کی گواہی معتبر نہیں بلکہ کثیر لوگ گواہی دیں کہ چاند دیکھا، مطلع تب الگ ہوتا ہے جب شہروں میں فحش بہت بڑا فاصلہ ہو

(بنایہ شرح ہدایۃ فقہ حنفی4/29ملخصا)

.

 حتیٰ کہ اگر ایک مطلع میں ایک شہر میں چاند نظر آ گیا اور اسی مطلع میں دوسرے شہر میں چاند نظر نہیں آیا آلودگی کی وجہ سے یا کسی بھی وجہ سے تو اس صورت میں جس جگہ چاند نظر نہیں آیا ان لوگوں پر قضاء روزے کا حکم لگایا تھا علماء نے لیکن آج کے دور میں تو معلومات جلد پہنچ جاتی ہیں لہذا قضاء کرنے کا حکم نہیں ہوگا بلکہ حکم ہوگا کہ ایک ہی مطلع میں جہاں ابر الود ہو وہ لوگ اسی مطلع کے دوسرے شہر کی چاند دیکھنے یا نہ دیکھنے کے شرعی فیصلے پر اعتبار کر لیں

.

إِذَا صَامَ أَهْلُ مِصْرٍ ثَلَاثِينَ يَوْمًا بِرُؤْيَةٍ، وَأَهْلُ مِصْرٍ آخَرَ تِسْعَةً وَعِشْرِينَ يَوْمًا بِرُؤْيَةٍ فَعَلَيْهِمْ قَضَاءُ يَوْمٍ، إِنْ كَانَ بَيْنَ الْمِصْرَيْنِ قُرْبٌ بِحَيْثُ تَتَّحِدُ الْمَطَالِعُ،

 اگر مطلع ایک ہو اور اس ایک مطلع کے ایک شہر میں لوگوں نے تیس روزے رکھے اور اسی مطلع کے دوسرے شہر کے لوگوں نے(ابر الود یا چاند نظر نہ آنے کی وجہ سے)انتیس رکھے تو 29 والوں پر ایک دن کے روزے کی قضا لازم ہے

(الاختیار لتعلیل المختار فقہ حنفی1/5)

.

درمختار میں ہے:شہد واانہ شہد عند قاضی مصر کذا شاھد ان برؤیۃ الھلال فی لیلۃ کذاوقضی القاضی بہ ووجد استجماع شرائط الدعوی جازلہذا القاضی ان یحکم بشھادتھما لان قضاء القاضی حجۃ وقد شھد وابہ لا لو شھد وابرؤیۃ غیرھم لانہ حکایۃاھ۲؎وتمام تحقیقہ فی فتاوٰنا۔ واﷲتعالٰی اعلم۔

گواہوں نے گواہی دی کہ قاضیِ مصر کے پاس فلاں رات چاند دیکھنے پر دوگواہوں نے گواہی دی ہے اور قاضی نے اس پر فیصلہ دیا اور شرائطِ دعوٰی پائی جائیں تو اس قاضی کے لیے دو گواہوں کی شہادت پر فیصلہ دینا جائز ہے کیونکہ قضاء ِقاضی حجّت ہے اور گواہوں نے اس قضاء پر ہی گواہی دی ہے،ہاں اس صورت میں فیصلہ نہیں دے سکتا جب انہوں نے یہ گواہی دی ہو کہ فلاں نے چاند دیکھا ہے کیونکہ یہ حکایت ہے اھ اس کی تمام تحقیق ہمارے فتاوٰی میں ہے،واﷲتعالٰی اعلم(ت) (۲؎ درمختار         کتاب الصیام             مطبع مجتبائی دہلی         ۱ /۱۴۹)

(فتاوی رضویہ 10/371)

.

*بڑا_چاند......؟؟*

إن الله مده للرؤية، فهو لليلة رأيتموه بے شک رسول اللہ نے فرمایا کہ: اس(پہلی تاریخ کے)چاند کو اللہ نے بڑا(یا زیادہ دیر تک نظر آنے والا) کیا ہے دیکھنے کے لیے،یہ اسی رات کا ہے جس رات دیکھو(مسلم حدیث نمبر1018 باب چاند کے چھوٹے بڑے ہونے کا اعتبار نہیں)اب تو سائنسی لحاظ سے بھی ثابت ہوگیا ہے کہ پہلی تاریخ کا چاند تھوڑا بڑا اور واضح ہوسکتا ہے لیھذا آج کے بڑے یا باریک چاند سے کچھ ثابت نہیں ہوگا،چاند کی پہلی یا آخری تاریخ کا تعلق دیگر دلائل شرعیہ سے ہے

.

.

*سائنسی قمری کلینڈر کی شرعی حیثیت.........؟؟*

سائنس و ٹیکنالوجی کا قمری کلینڈر سہولت کے طور پر تو جائز ہے مگر روزہ عید چاند کی تاریخ کے تعین میں معتبر نہیں....چاند آنکھوں سے دیکھ کر ہی روزے رکھے جائیں گےاور چاند دیکھ کر ہی عید کی جائے گی یا تیس دن کی گنتی پوری کی جائے گی......سعودی ایران ترکی انڈونیشیا برطانیہ امریکہ وغیرہ کی ملک کی پیروی کا حکم نہیں بلکہ ہر ملک و خطہ خود اپنے ملک خطے میں چاند دیکھ کر روزے اور عید کرے گا....سعودی عرب کےساتھ یا شفاف تحقیق و تفتیش مشاورت لحاظ شرعت و احتیاط کے بغیر روزہ و عید کا اعلان کرنے والا پوپلزئی اور سائنس و ٹیکنالوجی کےتحت چاند کا اعلان کرنے والا فواد چوہدری دونوں غیر معتبر اور باعثِ انتشار و فتنہ ہیں...انکو سمجھانا، ان کے شبہات کا جواب دینا لازم پھر بھی ضد پے رہیں تو لگام لگانا لازم...............!!

.

تلخیصِ حدیث:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،ترجمہ:

ہم روزہ،عید،چاند کےمتعلق نجومیوں والا حساب کتاب نہیں رکھتے(ہم تو چاند دیکھ کر ہی روزہ و عید کریں گے)

(بخاری حدیث1913ملخصا)

.

وَأَشَارَ الْمُصَنِّفُ إلَى أَنَّهُ لَا عِبْرَةَ بِقَوْلِ الْمُنَجِّمِينَ قَالَ فِي غَايَةِ الْبَيَانِ: وَمَنْ قَالَ: يَرْجِعُ فِيهِ إلَى قَوْلِهِمْ فَقَدْ خَالَفَ الشَّرْعَ

یعنی

روزہ،عید،چاند کےمعاملےمیں نجومیوں(چاند و ستارے سیارے فلکیات وغیرہ کا حساب کتاب رکھنے والوں)کا قول معتبر نہیں، جس نے انکا قول معتبر سمجھا بےشک اس نے شریعت کی خلاف ورزی کی..(البحر الرائق2/284ملخصا)

.

لأَِنَّ الْمَعْرُوفَ عَنْهُ مَا عَلَيْهِ الْجُمْهُورُ

جمھور و اکثر(فقھاء علماء محدثین محققین)کے مطابق چاند دیکھنے کے معاملے میں علم حساب و نجوم و فلکیات کا کوئی اعتبار نہیں

(موسوعہ فقہیۃ کوئیتیۃ22/32)

.

*چاند_دیکھ_کے_رخ ہٹا لیجیے......!!*

خیال رہے کہ چاند کی طرف ہاتھ کرکے یا چاند کی طرف رخ کرکے دعا نہیں مانگنی چاہیے...اسی طرح چاند کی طرف تنکا پھینکنا یا چاند سے کچھ مانگنا بھی بہت بری جہالت ہے....نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم چاند دیکھ کر اس سے رخ ہٹا لیتے،پھر دعا فرماتے( دیکھیے ابوداود 2/339، فتاوی رضویہ10/458,459)

.

*چاند_کی_طرف_اشارہ......؟؟*

فتاوی عالمگیری میں ہے کہ:

وتكره الإشارة إلى الهلال عند رؤيته تعظيما له أما إذا أشار إليه ليريه صاحبه فلا بأس به

ترجمہ:

چاند دیکھتے وقت اسکی طرف اشارہ کرنا اس وقت مکروہ ہے کہ جب چاند کی تعظیم مقصد ہو، اور اگر دوسروں کو چاند دکھانے کے لیے اشارہ کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں

(فتاوی عالمگیری جلد5 ص380)

.

*#سوال....!!*

جب پہلے فتوے کے مطابق موجودہ رویت ہلال کمیٹی کا اعلان صحیح قرار پاتا ہے تو پھر موجودہ رویت ہلال کمیٹی پر اعتراض کیوں...؟

جواب:

اگر رویت ہلال کمیٹی یہ دوٹوک الفاظ میں کہتی ہیں کہ دیکھو یہ فتویٰ بھی ہے کہ سعودی عرب میں جب چاند نظر آجائے تو دوسرے علاقوں کے لیے بھی معتبر ہے لہذا ہم سعودی عرب کے ساتھ عید و روزہ کر رہے ہیں تب شاید بات مذمت تک نہ جاتی....ہمارا موجودہ رویت ہلال کمیٹی سے اختلاف اس بات پر ہے کہ ایک تو وہ مدلل محقق محتاط مفتی بہ فی زماننا فتوی کو چھوڑ رہی ہے...اور دوسری بات یہ ہے کہ کبھی جھوٹ موٹ کے چاند نظر آنے کی گواہیاں پیش کر رہی ہے اسی لیے ان سے اختلاف ہے اور کبھی عملا جم غفیر کی گواہی کو لازم نہیں سمجھ رہی جبکہ جم غفیر کافی تعداد نے چاند دیکھا ہو تو ہی چاند و عید وغیرہ کا اعلان کرنا چاہیے

.

لیھذا حکومت علماء سب پے لازم ہے کہ فتوی نمبر دو پے عمل کریں کرائیں....جھوٹ موٹ کے چاند نہ چڑہاءیں....البتہ جو دو ٹوک کہے کہ دیکھو فتوی نمبر ایک بھی فقہ حنفی میں ہے تو ہم اس پر عمل کر رہے ہیں تو ان کو سمجھایاجائے لیکن انہیں گناہ گار فاسق فاجر نہیں کہہ سکتے

.

واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہﷺاعلم بالصواب

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whatsApp nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.