نام نہاد محقق پیر عبدالماجد کی جہالت یا تجاہل اور مکاریاں خیانتیں...سیدنا علی کے بعض فضائل مگر وضاحت کیوں؟ اول خلیفہ قطب کون؟ علی مولا کا معنی و پس منِظر؟

https://tahriratehaseer.blogspot.com/2023/04/blog-post_3.html  

https://tahriratehaseer.blogspot.com/2023/04/blog-post_12.html 

*فتنہ حویلیاں کے نام نہاد محقق و پیر عبدالماجد کا شان سیدنا علی میں جھوٹ دھوکہ مکاری و خیانت کی ایک جھلک...؟؟ اور سیدنا علی کے بعض فضائل بمع وضاحت..اور افضل کون؟ اول قطب کون؟ اول خلیفہ کون؟ مولا علی کا معنی و پس منظر....؟؟*

سوال:

علامہ صاحب اس وڈیو کی تصدیق کریں یا مدلل رد...!!

.

جواب:

 ویڈیو جو آپ نے بھیجی ہے مستند احباب سے لی گئ معلومات کے مطابق یہ نیم رافضیت کے مراکز میں سے ایک مرکز فتنہ حویلیاں کے ایک نام نہاد محقق و علمی سمجھے جانے والے پیر عبدالماجد کی ہے....احباب نے بتایا کہ پیر عرفان شاہ مشہدی اسکے والد کا خلیفہ ہے اور چمن زمان حنیف قریشی عرفان شاہ مشہدی وغیرہ یہ سب ایک ہی گروپ ہے جو اہلسنت نظریات سے ہٹے ہوئے ہیں...مکاریاں جھوٹ بےباکیاں خیانتیں غلو بدمذہبیاں انکے کرتوت ہیں... یہ شخص نام نہاد محقق پیر عبدالماجد وڈیو میں کہتا ہے کہ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اس حال میں ہوئی کہ سیدنا علی آپ سے لپٹے ہوئے تھے ایک ہی چادر میں تھے اور سیدنا علی کے ہاتھ پر نبی پاک کا ہاتھ تھا اور آخری جلوہ رسول کریم نے حضرت علی کا دیکھا... خطیب صاحب ویڈیو میں کہتے ہیں کہ یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ یہ امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ہے، تاریخ دمشق میں ایسا لکھا ہے، امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں اس فضیلت کو لکھا ہے...امام حاکم نے مستدرک میں لکھا ہے

.

*تحقیق.....!!*

پہلے خطیب مذکور کی بات پر تبصرہ لکھوں گا پھر تبرک کے طور پر مولا علی شیر خدا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض فضائل بمع کچھ وضاحت کے ساتھ بیان کرونگا تاکہ فضیلت بھی بیان ہو اور غلط معنی سے بھی بچا جائے

.

خطیب مذکور نام نہاد محقق کی تقریر پر تبصرہ

*پہلی بات.....!!*

 آدھے حوالے پیش کرنا ، تبصرے چھپا دینا، جھوٹ بول دینا مکاریاں کرنا ، دھوکے کرنا، خیانت کرنا یہ نیم رافضیوں کا وطیرہ رہا ہے جیسے کہ ہم نے نیم رافضیوں کے سندھ میں نام نہاد محقق دوراں چمن زمان کے رد میں ثابت کی ہیں...ہمارے بلاگ پے رد چمن زمان اور رد روافض نیم روافض کے عنوانات میں پڑھ سکتے ہیں

.

چمن زمان کی طرح خطیب مذکور محقق نیم رافضیت کی جاہلیت یا تجاہل یا ہٹ دھرمی کا عالم یہ ہے کہ اسے اس معاملے میں صحیح ترین روایات تک معلوم نہیں یا پھر چھپا گیا ، حذف کر گیا، کھا گیا اور ڈکار بھی نہ لیا.....!!

.

قَبَضَهُ اللَّهُ بَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي

سیدہ عائشہ فرماتی ہیں اللہ تعالی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں وفات دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری گردن اور سینے کے درمیان میں آپ کا چہرہ اقدس تھا

(بخاری1389 مسلم2443)

.

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : مَاتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّهُ لَبَيْنَ حَاقِنَتِي وَذَاقِنَتِي

 سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال فرمایا اس حال میں کہ آپ میری گردن اور سینے کے درمیان میں تھے

(بخاری 4446)

.

تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي، وَفِي نَوْبَتِي، وَبَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي

 سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں وفات پائی اس حال میں کہ آپ کا چہرہ مبارک میرے سینے اور گردن کے درمیان تھا

(بخاری3100)

.

ذَكَرُوا عِنْدَ عَائِشَةَ أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ وَصِيًّا. فَقَالَتْ : مَتَى أَوْصَى إِلَيْهِ ؟ وَقَدْ كُنْتُ مُسْنِدَتَهُ إِلَى صَدْرِي - أَوْ قَالَتْ : حَجْرِي - فَدَعَا بِالطَّسْتِ، فَلَقَدِ انْخَنَثَ فِي حَجْرِي فَمَا شَعَرْتُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ، فَمَتَى أَوْصَى إِلَيْهِ ؟

 سیدہ عائشہ کے پاس لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو وصی بنایا تھا... سیدہ عائشہ نے اس کا انکار فرماتے ہوئے کہا کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے وقت میرے سینے پے ٹیک لگائے ہوئے تھے...اور اسی حال میں آپ کی وفات ہوگئی تو بھلا کب رسول کریم نے حضرت علی کو وصیت فرمائی.....؟؟

(بخاری2741 مسلم1636 مسند احمد24039)

 ان تمام صحیح ترین روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا تو سیدہ عائشہ کے سینے پر انتقال فرمایا نام نہاد محقق کے مطابق سید عالم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے لپٹے ہوئے انتقال فرمایا...اور یہ بھی ثابت ہوا کہ خلافت وغیرہ کی کوئی وصیت سید عالم نے حضرت علی سے نہیں فرمائی

.================

*دوسری بات.....!!*

خطیب مزکور نام نہاد  محقق کہتا ہے کہ آخری جلوہ رسول کریم نے حضرت علی کا دیکھا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کے بالکل مخالف لگتی ہے یہ بات کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے وقت اللہ کے علاوہ کسی اور کا جلوہ دیکھیں...احادیث مبارکہ میں بھی اسی طرف اشارہ ملتا ہے

عَائِشَةَ قَالَتْ : لَمَّا مَرِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَرَضَ الَّذِي مَاتَ فِيهِ جَعَلَ يَقُولُ : " فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى ".

 سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم وسلم مرض میں مبتلا ہوئے کہ جس میں آپ کی وفات ہوئی اس میں آپ( اللہ کی طرف توجہ فرماتے) اور دعا فرماتے کہ اے اللہ رفیق اعلیٰ میں( رفیق اعلی کو منتخب کرتا ہوں یا رفیق اعلی سے ملا دے)

(بخاری4436)

.

فَأَشْخَصَ بَصَرَهُ إِلَى السَّقْفِ، ثُمَّ قَالَ : " اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَى

سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مرض میں وفات پائی اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوپر کی طرف نظر فرماتے اور دعا فرماتے اے اللہ رفیق اعلی

(مسلم 2444)

.

فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى ". ثَلَاثًا، ثُمَّ قَضَى

سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا اللہ رفیق اعلیٰ میں ،رفیق اعلیٰ میں ،رفیق اعلی میں،  پھر آپ نے وفات پائی

(بخاری4438)

.==============

*تیسری بات.......!!*

پہلا حوالہ اور اسکی سند:

أخبرنا أبو غالب بن البنا أنا أبو الغنائم بن المأمون أنا أبو الحسن الدارقطني نا أبو القاسم الحسن بن محمد بن بشر البجلي (5) الكوفي الحرار نا علي بن الحسين بن عبيد بن كعب نا إسماعيل بن أبان نا عبد الله بن مسلم الملائي عن أبيه عن إبراهيم عن علقمة الأسود عن عائشة قالت قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم

عن عائشة قالت قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) وهو في بيتها لما حضره الموت ادعوا لي حبيبي فدعوت له أبا بكر فنظر إليه ثم وضع رأسه ثم قال ادعوا لي حبيبي فدعوا له عمر فلما نظر إليه وضع رأسه ثم قال ادعوا لي حبيبي فقلت ويلكم ادعوا لي (6) علي بن أبي طالب فوالله ما يريد غيره فلما راه أفرد الثوب الذي كان عليه ثم أدخله فيه فلم يزل يحتضنه حتى قبض ويده عليه

 خطیب مذکور نے روایت بیان کی کہ تاریخ دمشق میں ہے کہ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کا وقت آیا تو آپ نے فرمایا میرے محبوب کو بلاؤ تو میں نے سیدنا ابوبکر صدیق کو بلایا حضور نے دیکھا اور سر مبارک نیچے رکھ دیا پھر فرمایا میرے محبوب کو بلاؤ لوگوں نے سیدنا عمر کو بلایا جب رسول کریم نے سیدنا عمر کی طرف دیکھا تو سر نیچے رکھ لیا اور فرمایا میرے محبوب کو بلاؤ... سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ سیدنا علی کو بلاو نبی پاک کی مراد سیدنا علی کے علاوہ کوئی بھی نہیں ہے جب رسول کریم نے سیدنا علی کو دیکھا تو اس کے لیے چادر کھول دی اور اس چادر میں داخل فرما لیا اور سیدنا علی سے لپٹ گئے یہاں تک کہ آپ کی روح پرواز کر گئ اس حال میں کہ آپ کا ہاتھ سیدنا علی کے ہاتھ پر تھا

(تاريخ دمشق لابن عساكر42/393)

.

*میرا تبصرہ........!!*

 اول بات تو یہ ہے کہ مزکورہ روایت صحیح ترین روایات کے خلاف ہے لہٰذا مردود  باطل غیرمقبول ہے.... دوسری بات یہ کہ اس کے تمام راویوں پر تفصیل سے لکھا جائے تو طویل تحریر ہو جائے گی اس روایت کے دو راویوں پر علماء کا کلام نقل کر رہا ہوں جس سے ثابت ہو جائے گا کہ اس کے راوی غیر معتبر ہیں

علي بن الحسين بن عبيد بن كعب...ما رأيت أرفض منه

 مذکورہ روایت کا ایک راوی علی بن حسین بن عبید بہت بڑا رافضی تھا

(لسان الميزان ت أبي غدة5/532)

رافضی جھوٹے مکار قاتل بےوفا گستاخوں کی بات و روایت بھلا کیسے معتبر ہوسکتی ہے....؟؟ خطیب صاحب تو اہلسنت کہلواتے ہیں تو اہلسنت کے لیے رافضی کب سے دلیل بن گئے...؟؟

.

وقال النَّسَائي: مسلم بن كيسان الأَعور المُلَائي، متروك الحديث

 امام نسائی کہ جسے شیعہ روافض نیم روافض بہت ہی معتبر سمجھتے ہیں انہوں نے فرمایا ہے کہ اس روایت میں ایک راوی مسلم الملائی ہے جو کہ متروک الحدیث ہے

(المسند المصنف المعلل1/541)

 اور متروک الحدیث کی روایت باطل ومردود ناقابل قبول ہوتی ہے جیسے کہ ہم نیچے اصول بیان کریں گے

.


هذا إسناد ضعيف جدًّا؛ فيه مسلم بن كَيْسانَ المُلَائي الأعور؛ وهو ضعيف جدًّا، ولذا قال الذهبي: "واهٍ" (الكاشف ٥٤٢٦)

 مذکورہ روایت کی سند انتہائی ضعیف ہے ( اور انتہائی ضعیف نہ تو فضائل میں مقبول ہوتی ہے نہ ہی احکامات میں، وہ باطل و مردود ہوتی ہے) اس لیے امام ذہبی نے اسے واہیات میں شمار کیا ہے

(ديوان السنة - قسم الطهارة9/269)

.

خطیب مذکور امام ذہبی کا حوالہ دیا ہے تو لیجیے امام ذہبی کا تبصرہ پڑہیے ایک سند کے متعلق لکھتے ہیں:

مسلم بن كيسان الملائي الأعور: تركوه

 امام ذہبی کہتے ہیں کہ مسلم بن کیسان الملائی کو علماء محدثین نے ترک کر دیا ہے

(ديوان الضعفاء ص386)

.

*متروک کے متعلق قاعدہ......!!*

علماء فرماتے ہیں

.مراتب الضعف الشديد (التي لا يعبر بحديث أصحابها)

ـ متروك، ذاهب الحديث

یعنی

 متروک الحدیث یا ذاہب الحدیث کہا جائے تو یہ شدید ضعیف ہونے کی جرح ہے کہ ایسی شدید ضعیف روایت (فضائل و احکام میں) معتبر نہیں

(خلاصة التأصيل لعلم الجرح والتعديل ص36)

.

لْمرتبَة الثَّانِيَة فِي هَذِه قَالَ ابْن أَي حَاتِم اذا قَالُوا مَتْرُوك الحَدِيث اَوْ ذَاهِب الحَدِيث اَوْ كَذَّاب فَهُوَ سَاقِط لَا يكْتب حَدِيثه

الْمرتبَة الثَّانِيَة فلَان مُتَّهم بِالْكَذِبِ اَوْ الْوَضع وَفُلَان سَاقِط وَفُلَان هَالك وَفُلَان ذَاهِب اَوْ ذَاهِب الحَدِيث اَوْ مَتْرُوك اَوْ مَتْرُوك الحَدِيث...وكل من قيل فِيهِ ذَلِك من هَذِه الْمَرَاتِب الثَّلَاث لَا يحْتَج بِهِ وَلَا يستشهد بِهِ وَلَا يعْتَبر بِهِ

مَتْرُوك الحَدِيث یا ذَاهِب الحَدِيث  یا كَذَّاب یا فَهُوَ سَاقِط لَا يكْتب حَدِيثه یا مُتَّهم بِالْكَذِبِ ایا متھم بالْوَضع وغیرہ کی جرح ہوتو ایسی روایت سے (فضائل و احکام) ثابت نہیں کیے جاسکتے اور نہ ہی ایسی روایت بطور شاہد پیش کی جاسکتی ہے اور نہ ایسی روایت معتبر ہے

(الرفع والتكميل ص152...153)

.

نوٹ:

خطیب صاحب کی بیان کردہ روایت سے ملتی جلتی ایک اور  روایت تاریخ دمشق میں ہے جس پر تاریخ دمشق کے مصنف نے تبصرہ کرتے ہوئے مردود نامقبول قرار دیا...محقق کو تو اکثر روایات پر نظر رکھنی چاہیے ناں...مگر یہ محقق ہیں کہ الامان و الحفیظ

أخبرنا أبو القاسم بن السمرقندي أنا أبو القاسم بن مسعدة أنا حمزة بن يوسف انا أبو أحمد بن عدي (٥) أنا أبو يعلى ناكامل بن طلحة نا ابن لهيعة نا حيي (٦) بن عبد الله عن أبي عبد الرحمن الحبلي عن عبد الله بن عمرو

 وهذا حديث منكول(لعلہ منکر) لعل البلاء فيه من ابن لهيعة (٨) فإنه شديد الإفراط في التشيع وقد تكلم فيه الأئمة

(تاريخ دمشق لابن عساكر42/385)

.==============

*دوسرا حوالہ اور اسکی سند اور نام نہاد محقق کی مکاری جھوٹ خیانت دھوکے بازی.....!!*

فتنہ حویلیاں و نیم روافض مشہدی عرفانی چمن زمانی حنیف قریشی وغیرہ کے محقق پیر عبدالماجد نے حوالہ امام ذہبی کی میزان الاعتدال کا دیا

لیکن

عین مکاری کرتے ہوئے...دھوکہ دیتے ہوئے...گمراہ کرتے ہوئے... جھوٹ بولتے ہوئے...خیانت کرتے ہوئے امام ذہبی کا موقف و تبصرہ چھپا دیا...گویا انداز و الفاظ سے کہہ رہا ہے کہ امام ذہبی نے اس روایت کو معتبر لکھا ہے...لیکن یہ اسکی مکاری ہے کیونکہ امام ذہبی نے اس روایت کو معتبر نہیں بلکہ مردود لکھا ہے....سند اور پوری بات اور امام ذہبی کا تبصرہ پڑہیے:

وحدثنا أبو يعلى، حدثنا كامل بن طلحة، حدثنا ابن لهيعة، حدثني يحيى بن عبد الله المعافرى، عن أبي عبد الرحمن الحبلى، عن عبد الله بن عمرو 

ضعفى (1) على أقوام رآهم ابن لهيعة ثقات، فألزق تلك الموضوعات بهم..وقال ابن عدي: لعل البلاء فيه من ابن لهيعة، فإنه مفرط في التشيع

 امام ذہبی نقل فرماتے ہیں کہ ابن لھیعہ نے ضعیف لوگوں سے روایت لی اور موضوعات ان کے متعلق سے بیان کر دیں، اسی لئے امام ابن عدی نے اس روایت کے متعلق کہا ہے کہ یہ روایت مردود باطل ہے اس کی وجہ شاید ابن لھیعہ ہے کیونکہ وہ تشیع شیعیت میں بہت زیادہ غلو کرتا تھا

(میزان الاعتدال 2/482ملتقطا)

.

اب بتائیے، انصاف کیجیے، اس تبصرے سے کیا ثابت ہوتا ہے....؟؟ امام ذہبی فرمائیں کہ غیرمقبول روایت ہے اور خطیب صاحب ذہبی کا حوالہ دیکر بھکائیں کہ دیکھو ذہبی نے بھی معتبر کہا ہے...ارے  آدھے حوالے دینا،  تبصرے چھپا دینا کسی محقق کا کام ہے یا مکاروں خائنوں باطلوں کا کام ہے....؟؟


.

ذہبی

هَذَا حَدِيْثٌ مُنْكَرٌ، كَأَنَّهُ مَوْضُوْعٌ

 امام ذہبی اس روایت کے متعلق دوسری کتاب میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح حدیث کے خلاف ہے، گویا موضوع من گھڑت جھوٹی روایت ہے

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة8/24)

.

 اس روایت کے باطل ہونے مردود ہونے موضوع جھوٹی ہونے کی ایک وجہ تو  شاید یہ ہے کہ اس کے راوی معتبر نہیں ہیں...دوسری وجہ امام ذہبی یہ لکھتے ہیں کہ یہ روایت بخاری مسلم کی صحیح روایات کے خلاف ہے اس لیے مردود باطل نامقبول ہے..بخاری مسلم کے روایات ہم اوپر لکھ آئے جس میں دوٹوک سیدہ عائشہ نے فرمایا کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ان کے سینے اور گردن کے درمیان ہوا، سیدنا علی سے لپٹے ہوئے وفات نہ ہوئی 

ذہبی

إِسْمَاعِيل مُتَّهم بِهِ وَفِي الصَّحِيحَيْنِ مَا يرد هَذَا

 امام ذہبی فرماتے ہیں کہ اس روایت میں ایک راوی اسماعیل ہے جس پر جھوٹ بولنے والا راوی ہونے کی جرح ہے اور یہ روایت کہ  سیدنا علی سے لپٹے ہوئے  وصال فرمایا یہ روایت بخاری مسلم کی صحیح روایات کے خلاف ہے

(تلخيص كتاب الموضوعات ص131)

.===============

*تیسرا حوالہ اور اسکی سند اور نام نہاد محقق کی مکاری جھوٹ خیانت دھوکے بازی.....!!*

فتنہ حویلیاں و نیم روافض مشہدی عرفانی چمن زمانی حنیف قریشی وغیرہ کے محقق پیر عبدالماجد نے حوالہ امام ابن کثیر کی کتاب البدایہ و النہایہ کا دیا

لیکن

عین مکاری کرتے ہوئے...دھوکہ دیتے ہوئے...گمراہ کرتے ہوئے... جھوٹ بولتے ہوئے...خیانت کرتے ہوئے امام ابن کثیر کا موقف و تبصرہ چھپا دیا...گویا انداز و الفاظ سے کہہ رہا ہے کہ امام ابن کثیر نے اس روایت کو معتبر لکھا ہے...لیکن یہ اسکی مکاری ہے کیونکہ امام ابن کثیر نے اس روایت کو معتبر نہیں بلکہ مردود لکھا ہے....سند اور پوری بات اور امام ابن کثیر کا تبصرہ پڑہیے

أَبُو يَعْلَى ثَنَا كَامِلُ بْنُ طَلْحَةَ ثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ثنا يحيى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الجيلي عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو

ابن کثیر:

هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ وَلَعَلَّ الْبَلَاءَ فِيهِ مِنِ ابْنِ لَهِيعَةَ فَإِنَّهُ شَدِيدُ الْإِفْرَاطِ فِي التَّشَيُّعِ

 مذکورہ روایت صحیح روایات کے خلاف ہے، اور اس روایت کے غیرمقبول ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں ابن لھیعہ ہے جو کہ شیعیت میں غلو کرتا تھا

(البدایۃ والنہایۃ7/359)

.===========

 خطیب مذکور کی بیان کردہ روایت بعینہ او بمثلہ کو علماء نے دوٹوک مردود و غیرمقبول باطل قرار دیا

سیوطی

مُسْلِم بْن كيسَان الْأَعْوَر وَتفرد بِهِ عَن ابْنه إِسْمَاعِيل بْن أبان الْوراق انْتهى...وَمُسلم روى لَهُ التِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه وَهُوَ مَتْرُوك

 امام سیوطی فرماتے ہیں کہ مذکورہ روایت میں مسلم بن کیسان ہے اور یہ روایت اس کے علاوہ کسی نے نہیں بیان کی...اور مسلم بن کیسان متروک راوی ہے

(اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة1/342)

اور متروک کے متعلق اوپر علماء کی زبانی لکھ آیا کہ متروک روایت مردود و غیرمقبول ہوتی ہے

.

امام ابن عراق

نعم فِيهِ مُسلم بن كيسَان وَهُوَ من رجال التِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه، مَتْرُوك

 امام ابن عدی فرماتے ہیں کہ یہ مسلم بن کیسان سے مروی روایت ہے اور یہ متروک ہے

(تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة1/386)اور متروک کے متعلق اوپر علماء کی زبانی لکھ آیا کہ متروک روایت مردود و غیرمقبول ہوتی ہے

.

امام ابن عدی

وهذا هو حديث منكر ولعل البلاء فيه من بن لَهِيعَة فإنه شديد الإفراط في التشيع

 امام ابن عدی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح حدیث کے خلاف ہے شاید کہ ابن لہیعہ کی وجہ سے بھی مردود ہے کیونکہ ابن لھیعہ شیعیت میں غلو کرتا تھا

(الكامل في ضعفاء الرجال3/389)

.==============

*چوتھی بات......!!*

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بعض فضائل بمع وضاحت پڑہتے چلیے وضاحت اس لیے کہ شیعہ لوگ روافض نیم روافض ان روایات سے غلط معنی مشھور کرتے ہیں تو مناسب ہے کہ غلط معنی کی نشاندہی کی جائے

لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ ". أَوْ قَالَ : " لَيَأْخُذَنَّ غَدًا رَجُلٌ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ". أَوْ قَالَ : " يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيْهِ ". فَإِذَا نَحْنُ بِعَلِيٍّ وَمَا نَرْجُوهُ، فَقَالُوا : هَذَا عَلِيٌّ. فَأَعْطَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کل جھنڈا میں اس کو دوں گا کہ جس سے اللہ تعالی اور اس کے رسول محبت کرتے ہیں یا فرمایا کہ اللہ تعالی اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں(باقیوں سے بھی اللہ و رسول  محبت کرتے ہیں اور باقی بھی اللہ و رسول سے محبت کرتے ہیں) مگر اللہ تعالی اس کی (خصوصی شان کی)وجہ سے فتح عطا فرمائے گا... پھر رسول کریم نے جھنڈا سیدنا مولا علی کو دیا اور اللہ تعالی نےمولا علی کے ذریعے فتح عطاء فرمائی

(بخاری حدیث2975)

.

نبی پاکﷺنے فرمایا(بڑے مردوں)میں سب سے زیادہ محبوب سیدنا ابوبکر ہیں،(نوجوانوں میں سے)سب سے زیادہ محبوب سیدنا علی ہیں،(موجودہ گھر والی) عورتوں میں سے زیادہ محبوب سیدہ عائشہ ہیں،ورنہ سیدہ خدیجہ سب سے زیادہ زوجہ محبوب ہیں،(موجودہ اولاد)میں سے زیادہ محبوب سیدہ فاطمہ ہیں،(چھوٹوں میں سے)زیادہ محبوب سیدنا اسامہ بن زید ہیں رضی اللہ عنھم اجمعین(ماخذ بخاری حدیث3662 ترمذی حدیث3819 فتح الباري لابن حجر ,7/27 فيض القدير1/161)

.

 یہ بھی ایک فضیلت ہے بڑی عظیم فضیلت ہے کہ نوجوانوں میں سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا علی محبوب زیادہ تھے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فضیلت اس وقت ثابت ہوگی جب ہم کہیں کہ سیدنا علی سب سے زیادہ محبوب تھے... یہ عجیب بیماری ہے کہ ہم اگر سیدنا علی کی محبوبیت کی وضاحت کر دیں تو لوگ کہیں کہ جی آپ فضائل تو بیان نہیں کر رہے...ارے بھیا کیا یہ فضیلت بیان نہیں ہورہی کہ ایک مناسبت سے سیدنا علی زیادہ محبوب تھے..؟؟ ہاں ہمارے زمانے میں کہ غلط معنی مشھور کیے جا رہے ہیں تو غلط معنی کا رد کرنا کوئی بیماری نہیں بغض نہیں بلکہ راہ اعتدال و سچائی و حق بتانا مقصود ہے

.

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي يُوسُفَ، قَالَ: ثنا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يَقُولُ: " سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ....وَأَوَّلُ مَنْ وُلِدَ فِي الْكَعْبَةِ: حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ.... وَأَوَّلُ مَنْ وُلِدَ فِي الْكَعْبَةِ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ: عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ

 سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے جو کعبہ میں پیدا ہوا وہ حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اور بنو ہاشم میں سے جو سب سے پہلے کعبہ میں پیدا ہوا وہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں

(أخبار مكة للفاكهي ,3/198روایت2018ملتقطا)

.

 فضیلت ثابت کرنے کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ یوں کہا جائے کہ فقط سیدنا علی کعبہ میں پیدا ہوئے اور کوئی پیدا نہیں ہوا تو تبھی فضیلت ثابت ہوگی ایسی بات نہیں ہے...ایک فضیلت بہت سارے لوگوں کو مل سکتی ہے، لیھذا سیدنا علی کی فضیلت ہے اور سیدنا حکیم بن حزام کی بھی فضیلت ہے دونوں کی بڑی عظیم الشان فضیلت ہے... سیدنا علی کی فضیلت بیان کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ سیدنا حکیم ابن حزام کی فضیلت نہیں اور سیدنا ابن حزام کی فضیلت بیان کرنے کا یہ مقصد نہیں کہ سیدنا علی کی فضیلت نہیں... اور دونوں کی فضیلت بیان کرنے کا یہ مقصد نہیں کہ کسی کی فضیلت کم...بلکہ ہوسکےتو فضیلت میں مشترک کی فضیلت بھی بیان کی جائے تاکہ برے غلط نظریات پیدا ہی نہ ہوں، اور پیدا ہوچکے ہوں تو انکی اصلاح ہو...فضیلت بھی بیان ہوجائے گی اور غلط فھمی غلط نظرے بھی رد ہو جائیں گے...

.================

خَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُخَلِّفُنِي فِي النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ ؟ فَقَالَ : " أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى ؟ غَيْرَ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ

 غزوہ تبوک کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا جانشین سیدنا علی کو بنایا تو سیدنا علی نے عرض کی کہ مجھے آپ عورتوں اور بچوں پر جانشین بنا رہے ہیں تو حضور نے فرمایا کہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم ایسے ہو جیسے سیدنا ہارون کی نسبت موسی علیہ السّلام سے تھی سوائے اس کے کہ نبوت مجھ پر ختم ہو چکی ہے

(بخاری حدیث2404)

.

  رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نبی کے ساتھ حضرت علی کو تشبیہ دی جو کہ عظیم فضیلت کی دلیل ہے، اور ایسی تشبیہ کسی اور کے لئے ارشاد نہ فرمائی... لیکن اس تشبیہ سے خلیفہ ہونا ثابت نہیں ہوتا... کیوں کہ سیدنا ہارون علیہ السلام صرف عارضی طور پر نبی پاک کی زندگی میں ہی خلیفہ ہوئے تھے نبی پاک کی زندگی کے بعد خلیفہ نہیں ہوئے تھے نیز رسول کریم نے سیدنا علی کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام کو بھی اپنا خلیفہ بنایا ہے.....مثلا

.

فمثلا عند خروج الرسول صلّى الله عليه وسلم في غزوة الأبواء- ودان- في ربيع الأول (سنة ٢ هـ) استخلف على المدينة سعد بن عبادة وفي غزوة بواط في نفس الشهر استخلف سعد بن معاذ وفي خروجه لمطاردة كرز بن جابر الفهري في نفس الشهر استخلف زيد بن حارثة وفي غزوة ذات العشيرة استخلف أبا سلمة بن عبد الأسد

 مثال کے طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنایا... اور ایک موقع پر سیدنا سعد بن معاذ کو خلیفہ بنایا اور ایک موقع پر سیدنا زید بن حارثہ کو خلیفہ بنایا اور ایک موقع پر سیدنا ابو سلمہ کو خلیفہ بنایا

( السيرة النبوية والتاريخ الإسلامي ص152)

.

 نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ٹوک کسی کو اپنا سیاسی و روحانی خلیفہ نہیں بنایا اور نہ ہی ایسی کوئی وصیت فرمائی..ہاں البتہ نصوص کے اشارات ثابت کرتے ہیں کہ خلیفہ اول و بلافصل سیدنا ابوبکر ہیں

مثلا

الحدیث:

أَتَتِ امْرَأَةٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَيْهِ، قَالَتْ : أَرَأَيْتَ إِنْ جِئْتُ وَلَمْ أَجِدْكَ ؟ كَأَنَّهَا تَقُولُ : الْمَوْتَ، قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ

 ایک عورت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی نبی پاک نے فرمایا کہ میرے پاس بعد میں آنا، اس عورت نے کہا کہ اگر میں آپ کو نہ پاؤں گویا کہ وہ یہ کہہ رہی تھی کہ شاید آپ وفات پا چکے ہوں تو؟ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر کے پاس آنا

(بخاری حدیث3659)

.

اقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي : أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ "

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر اور عمر کی پیروی کرنا

(ترمذی حدیث3662)

.

الْإِشَارَةِ إِلَى أَنَّهُ الْخَلِيفَةُ بَعْدَهُ

اس حدیث میں اشارہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نبی پاک کی وفات کے بعد خلیفہ ہیں

(فتح الباري لابن حجر ,7/24)

.

 ما عليه أهل الأصول من أنه لم ينص على خلافه أحد (قلت) مرادهم لم ينص نصا صريحا

وہ جو اہل اصول کا متفقہ اصول ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ مقرر نہ فرمایا تو ان کی مراد یہ ہے کہ دوٹوک وضاحت کے ساتھ مقرر نہ فرمایا

(فيض القدير2/56)

.

وَلَمْ أَرَ فِي التَّعْرِيضِ بِالْخِلَافَةِ فِي سُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَوْضَحَ مِنْ هَذَيْنِ الْحَدِيثَيْنِ،

دونوں حدیثوں میں واضح اشارہ ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے اشارہ فرمایا ہے کہ ان کے بعد ان کے خلیفہ ابوبکر و عمر ہونگے

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,9/4017)

.

وفيه الإشارة إلى أن أبا بكر هو الخليفة بعد النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، ولا يعارض هذا جزم عمر أن النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- لم يستخلف لأن مراده نفي النص على ذلك

صريحًا

حدیث پاک میں اشارہ ہے کہ ابوبکر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ ہوں گے، وہ جو سیدنا عمر نے فرمایا کہ نبی پاک نے کسی کو خلیفہ نہ فرمایا تو انکی مراد یہ ہے کہ دو ٹوک الفاظ میں خلیفہ مقرر نہ فرمایا(لیکن اشارتاً فرمایا کہ میرے بعد یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر اور عمر خلیفہ ہوں گے)

(شرح القسطلاني، إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري ,6/87)

.

سیدنا علی فرماتے ہیں

إنه بايعني القوم الذين بايعوا أبا بكر وعمر وعثمان على ما بايعوهم عليه، فلم يكن للشاهد أن يختار ولا للغائب أن يرد، وإنما الشورى للمهاجرين والأنصار، فإن اجتمعوا على رجل وسموه إماما كان ذلك لله رضى

میری(سیدنا علی کی)بیعت ان صحابہ کرام نے کی ہےجنہوں نے سیدنا ابوبکر و عمر کی بیعت کی تھی،یہ مہاجرین و انصار صحابہ کرام کسی کی بیعت کرلیں تو اللہ بھی راضی ہے(اور وہ خلیفہ برحق کہلائے گا) تو ایسی بیعت ہو جائے تو دوسرا خلیفہ انتخاب کرنے یا تسلیم نہ کرنے کا حق نہیں(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ ص491)

سیدنا علی کےاس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ

①خلافت سیدنا علی کے لیے نبی پاک نے مقرر نہ فرمائی،ایسی کوئی وصیت نہ فرمائی تھی تبھی تو سیدنا علی نے صحابہ کرام کی شوری کو دلیل بنایا ورنہ وصیت کو دلیل بناتے

سیدنا علی کےاس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ

②سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان کی خلافت برحق تھی، دما دم مست قلندر سیدنا علی دا چوتھا نمبر

سیدنا علی کےاس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ

③صحابہ کرام ایمان والے تھے کافر فاسق ظالم نہ تھے ورنہ سیدنا علی انکی مشاورت و ھکم کو برحق نہ کہتے

رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین

.

فنعى الوليد إليه معاوية فاسترجع الحسين...سیدنا حسین کو جب سیدنا معاویہ کی وفات کی خبر دی گئ تو آپ نےاِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا…(شیعہ کتاب اعلام الوری طبرسی1/434) مسلمان کو کوئی مصیبت،دکھ ملےتو کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ(سورہ بقرہ156)ثابت ہوا سیدنا معاویہ امام حسین کے مطابق کافر ظالم منافق دشمن برے ہرگز نہ تھے جوکہ مکار فسادی نافرمان دشمنان اسلام گستاخانِ معاویہ کے منہ پر طمانچہ ہے

.

هذا ما صالح عليه الحسن بن علي بن أبي طالب معاوية بن أبي سفيان: صالحه على أن يسلم إليه ولاية أمر المسلمين، على أن يعمل فيهم بكتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وآله وسيرة الخلفاء الصالحين

(شیعوں کے مطابق)امام حسن نے فرمایا یہ ہیں وہ شرائط جس پر میں معاویہ سے صلح کرتا ہوں، شرط یہ ہے کہ معاویہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور سیرتِ نیک خلفاء کے مطابق عمل پیرا رہیں گے

(شیعہ کتاب بحار الانوار جلد44 ص65)

سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے "نیک خلفاء کی سیرت" فرمایا جبکہ اس وقت شیعہ کے مطابق فقط ایک خلیفہ برحق امام علی گذرے تھے لیکن سیدنا حسن "نیک خلفاء" جمع کا لفظ فرما رہے ہیں جسکا صاف مطلب ہے کہ سیدنا حسن کا وہی نظریہ تھا جو سچے اہلسنت کا ہے کہ سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم خلفاء برحق ہیں تبھی تو سیدنا حسن نے جمع کا لفظ فرمایا...اگر شیعہ کا عقیدہ درست ہوتا تو "سیرت خلیفہ" واحد کا لفظ بولتے امام حسن....اور دوسری بات یہ بھی اہلسنت کی ثابت ہوئی کہ "قرآن و سنت" اولین ستون ہیں کہ ان پے عمل لازم ہے جبکہ شیعہ قرآن و سنت کے بجائے اکثر اپنی طرف سے اقوال گھڑ لیتے ہیں اور اہلبیت کی طرف منسوب کر دیتے ہیں...اور سیدنا معاویہ کی حکومت سنت رسول و سیرت خلفاء پر اچھی تھی ورنہ ظالمانہ ہوتی تو سیدنا حسن حسین ضرور باءیکاٹ فرماتے صلح نہ فرماتے چاہے اس لیے جان ہی کیوں نہ چلی جاتی جیسے کہ یزید سے بائیکاٹ کیا

.

*روحانی سیاسی خلیفہ و افضل کون.....؟؟*

حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «كُنَّا نُخَيِّرُ بَيْنَ النَّاسِ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنُخَيِّرُ أَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ، ثُمَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ»

ترجمہ

ہم صحابہ کرام لوگوں کے درمیان فضیلت دیتے تھے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ مبارک میں تو ہم فضیلت دیتے تھے سب سے پہلے ابو بکر صدیق کو پھر سیدنا عمر کو پھر عثمان بن عفان کو ُ(پھر سیدنا علی کو) 

[صحيح البخاري ,5/4روایت3655]

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے بلکہ خود نیم رافضیوں کے نام نہاد محقق دوراں چمن زمان کے اصول کے بھی خلاف ہے...چمن زمان نے ایک اصول لکھا جو اسلاف نے بھی لکھا تھا...اصول یہ ہے کہ

پس قطب ہر دور میں پوری جماعت مسلمین سے افضل ہوتا ہے

(چمن زمان کی کتاب محفوظہ ص51)

لیھذا

سیدنا ابوبکر اول سیاسی و روحانی خلیفہ اور افضل و برحق ثابت ہوئے...جس پر ہم طویل تحریر بھی لکھ چکے ہیں جس کا لنک اوپر دے دیا ہے

تبرک کے لیے دو حوالے پڑہتے جائیے

.

صوفی امام شعرانی اور صوفی ابی مدین اور صوفی امام علی الخواص کا نظریہ:

ابی بکر الصدیق...وھو اول اقطاب ھذہ الامۃ و کذالک مدۃ خلافۃ عمر و عثمان و علی...وبلغنا مثل ذلك عن الشيخ ابن العربی فقلت لشيخنا فهل يشترط ان يكون القطب من اهل البيت كما قاله بعضهم فقال لا يشترط ذلك لأنها طريق وهب يعطيها الله تعالى لمن شاء

 سیدنا ابوبکر صدیق اس امت کے تمام قطبوں میں سے سب سے پہلے اولین قطب ہیں اور اسی طرح سیدنا عمر اپنی خلافت کے زمانے میں قطب تھے اور سیدنا عثمان بھی اپنی خلافت میں قطب تھے اور سیدنا علی اپنے خلافت کے زمانے میں قطب تھے، اسی طرح کا نظریہ ہمیں صوفی ابن مدین سے بھی ملا ہے، امام شعرانی فرماتے ہین کہ میں نے اپنے شیخ مرشد امام علی الخواص سے پوچھا کہ کیا قطب کے لیے اہلبیت نبوی میں سے ہونا شرط ہے جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں، آپ نے فرمایا شرط نہیں، قطبیت اللہ کی عطاء ہے جسے چاہے نوازے

(مجموع رسائل ابن عابدین 2/275)

.

لكن حيث أطلق القطب لا يكون في الزمان إلا واحدا وهو الغوث، وهو سيد أهل زمنه وإمامهم، وقد يحوز الخلافة الظاهرة كما حاز الباطنة، كالشيخين والمرتضى والحسن و عبد العزيز رضي الله عنهم،

 قطب زمانے میں ایک ہوتا ہے اور اسے غوث بھی کہتے ہیں اور وہ  اپنے تمام زمانے والوں کا سردار و امام و افضل شخص ہوتا ہے...قطب  کبھی روحانی خلیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ  سیاسی خلیفہ بھی ہوتا ہے جیسے کہ سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا علی سیدنا حسن اور سیدنا عبد العزیز( یہ سب روحانی اور سیاسی دونوں قسم کے خلافت والے تھے)

(التوقیف ص58)

=============

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلَى حِرَاءَ هُوَ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، فَتَحَرَّكَتِ الصَّخْرَةُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اهْدَأْ إِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حراء پر تھے اور سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا علی سیدنا طلحہ سیدنا زبیر بھی تھے کہ حراء چٹان جنبش کرنے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ساکن ہوجا تجھ پر ایک نبی بیٹھا ہے ایک صدیق اور باقی شہید ہونے والے بیٹھے ہیں

(ترمذی حدیث3696)

وفي هذا الحديث معجزات لرسول الله صلى الله عليه وسلم ، منها : إخباره أن هؤلاء شهداء ، وماتوا كلهم غير النبي صلى الله عليه وسلم وأبي بكر شهداء ؛ فإن عمر وعثمان وعليا وطلحة والزبير رضي الله عنهم قتلوا ظلما شهداء

 امام نووی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث معجزات رسول میں سے ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے غیب کی خبر بتائی کہ نبی پاک اور سیدنا صدیق اکبر کے علاوہ جو بیٹھے تھے وہ شہید ہوں گے اور ایسا ہی ہوا کہ بے شک سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا علی سیدنا طلحہ سیدنا زبیر رضی اللہ تعالی عنہم شہید ہوئے

(شرح مسلم نووی شرح حدیث2417)

 اس بات میں سیدنا علی رضی اللہ تعالئ عنہ کی بھی شان بیان ہوئی ہے کہ آپ اسلام کی خاطر اسلام کی سر بلندی میں شہید ہوں گے

.

 أَنَّهُ لَا يُحِبُّكَ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضُكَ إِلَّا مُنَافِقٌ

 سیدنا علی فرماتے ہیں کہ نبی کریم نے میرے متعلق فرمایا کہ آپ سے مومن محبت رکھے گا اور جو آپ سے بغض رکھے گا وہ منافق ہوگا

(ترمذی حدیث3736)

 شیعہ رافضی نیم رافضی م اہل بیت و سیدنا علی سے سچی محبت کرنے والے نہیں...محبت میں آڑ میں آکر دیگر صحابہ کرام کی توہین کرنا بھلا سیدنا علی کی محبت ہے یا سیدنا علی کی مخالفت ہے....؟؟ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی محبت میں غلو کرنا حد سے بڑھ جانا محبت ہے یا نافرمانی،نمک حرامی.....؟؟

سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ: يَهْلِكُ فِيَّ رَجُلَانِ: مُفْرِطٌ غَالٍّ، وَمُبْغِضٌ

 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے ایک وہ جو مجھ سے بغض رکھے گا ایک وہ جو مجھ سے غلو مبالغہ آراءئ والی محبت رکھے گا

(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل2/571)

ویسے تو یا رافضی نیم رافضی مکار جھوٹے ہیں لیکن کبھی کبھار جھوٹا بھی سچی بات لکھ جاتا ہے تو کیا ہی سچی بات لکھی شیعہ کتب میں کہ

صنفان من أمتي لا نصيب لهما في الاسلام: الغلاة والقدرية....إياكم والغلو فينا،

غلو کرنے والے اور قدری (کافر فاجر بدمذہب ہیں انکا)دین اسلام میں کوئی حصہ نہیں....ہم اہلبیت کی تعریف میں غلو مبالغہ آرائی سے بچو(شیعہ کتاب بحارالانوار25/270ملتقطا)

.===============

النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : " مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ

 بعض نے فرمایا کہ جس کا میں مولا(محبوب)ہوں علی اس کا مولا (محبوب)ہے 

(ترمذی حدیث713)

.

قرآن و حدیث مولا کا معنی محبوب و مددگار ہے...خلیفہ معنی مراد نہیں

 اگر مولا کا معنی خلافت لیا جائے تو حدیث کا مطلب ہوگا کہ رسول کریم نے فرمایا کہ جس کا میں خلیفہ ہوں، علی اس کا خلیفہ.... یہ تو معنی صحیح بنتا ہی نہیں ہے

.

18ذوالحج کو شیعہ لوگ عید غدیر مناتے ہیں کہتے ہیں کہ اس روز حجۃ الوداع سے واپسی پر "غدیر خم" مقام پے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا " میں جس کا مولا علی اسکا مولی......حضور اکرم کے اس فرمان سے شیعہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رسول کریم نے حضرت علی کو اس قول کےذریعے  اپنا خلیفہ بلافصل بنایا

.

جواب:

عجیب بات ہے کہ حجۃ الوداع جو اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ کسی کو نہ بنایا اور واپسی پر تھوڑی تعداد کے سامنے غدیرخم پر خلیفہ کا اعلان کر دیا......؟؟

.

اگر خلافت کا اعلان رسول کریمﷺنےکرنا ہوتا تو اسکا صحیح و بہترین موقعہ حجۃ الوداع تھا........غدیرخم مقام پے تو رسول کریمﷺنے ایک تنازع کا حل فرمایا اور فرمایا کہ علی سے ناگواری مت رکھو، اس سے محبت کرو، جسکو میں محبوب ہوں وہ علی سے محبت رکھے

.

دراصل ہوا یہ تھا کہ مال غنیمت حضرت علی نے تقسیم کی تھی ، تقسیم پر کچھ صحابہ کرام کو ناگوار گذرا انہوں نے غدیرخم مقام پر رسول کریمﷺسے حضرت علی کی شکایت کی....رسول کریمﷺنے پوچھا اے بریدہ کیا تم علی سے(اس تقسیم کی وجہ سے)ناگواری محسوس کرتے ہو...؟ حضرت بریدہ نے فرمایا جی ہاں... رسول کریمﷺ نے فرمایا علی سے ناگواری مت رکھ، جتنا حصہ علی نے لیا ہےحق تو اس سے زیادہ حصہ بنتا ہے....بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بعد میری ناگواری ختم ہوگئ...اس تقسیم وغیرہ کی وجہ سے دیگر صحابہ کرام وغیرہ کو بھی ناگواری گذری ہو تو انکی بھی ناگواری ختم ہو اس لیے رسول کریمﷺنے اعلان فرمایا:

میں جسکا مولا علی اسکا مولا.... یعنی میں جسکو محبوب ہوں وہ علی سے بھی محبت رکھے،ناگواری ختم کردے

(دیکھیے بخاری حدیث4350,,المستدرك حدیث4578

مسند احمد23036...,22967...22945)

مرقاۃ شرح مشکاۃ11/247 البيهقي في الكبرى 6/342...7/309) الصواعق المحرقة 1/109 الاعتقاد للبيهقي ص 498 البداية والنهاية 5/227...البداية والنهاية ط هجر ,11/58)


.

شیعہ کتب سے بھی یہی پس منظر ثابت ہے

وخرج بريدة الأسلمي فبعثه علي عليه السلام في بعض السبي، فشكاه بريدة إلى رسول الله صلى الله عليه وآله فقال رسول الله صلى الله عليه وآله: من كنت مولاه فعلي مولاه

یعنی

بریدہ اسلمی نے رسول کریمﷺسے حضرت علی کی مال غنیمت کی تقسم کی شکایت تو رسول کریمﷺنے فرمایا میں جسکا مولا و محبوب ہوں علی بھی اس کے مولا و محبوب ہیں)لیھذا ناگواری نہ رکھو، ختم کرو)

(شیعہ کتاب بحار الانوار37/190)

.==============

الحدیث:

قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ كُلَّ نَبِيٍّ أُعْطِيَ سَبْعَةَ نُجَبَاءَ أَوْ نُقَبَاءَ وَأُعْطِيتُ أَنَا أَرْبَعَةَ عَشَرَ ". قُلْنَا : مَنْ هُمْ ؟ قَالَ : " أَنَا وَابْنَايَ، وَجَعْفَرُ، وَحَمْزَةُ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَمُصْعَب بْنُ عُمَيْرٍ، وَبِلَالٌ، وَسَلْمَانُ، وَعَمَّارٌ، وَالْمِقْدَادُ، وَحُذَيْفَةُ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ ".

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

بے شک ہر نبی کو سات برگزیدہ نگہبان

(ایک روایت مین رفقاء یعنی خاص ساتھی بھی آیا ہے..ایک روایت میں وزراء بھی آیا ہے.. ایک روایت میں نقباء یعنی ضامن ،سردار، اعلی اخلاق و قابلیت کے مالک بھی آیا ہے)

دیے گئے ہیں

اور مجھے چودہ(سات کا ڈبل)دیے گئے ہیں..ہم نے ان(حضرت علی)سے پوچھا وہ چودہ کون ہیں فرمایا

وہ چودہ یہ ہیں

میں(یعنی حضرت علی)میرے دونوں بیٹے(یعنی حضرت حسن حسین)جعفر،حمزہ،ابوبکر،عمر

،مصعب بن عمیر،بلال،سلمان،عمار

،عبد اللہ ابن مسعود،ابوذر

اور

مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین

(ترمذی حدیث نمبر3785)

.

مفتی احمد یار خان نعیمی اس کی شرح میں

 لکھتے ہیں:

معلوم ہوا کہ ان چودہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خاص قسم کا قرب حاصل تھا جو دوسروں کو حاصل نہیں،

دوسرے حضرات کو اور قسم کی خصوصیات حاصل ہیں..اس چمن میں ہر پھول کا رنگ و بو علیحدہ ہے..تمام احادیث پر نظر رکھنی چاہیے..

(مرآت شرح مشکاۃ جلد8 صفحہ500)

.

رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ، فَقُلْتُ لَهُ : مَا هَذَا ؟ فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ، فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ

 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت کی ہے کہ میں ان کی طرف سے قربانی کیا کروں تو میں ان کی طرف سے قربانی کیا کروں گا

(ابوداود حدیث2790)

 یہ خصوصی فضیلت اور عنایت ہے سیدنا علی کے لیے کہ آپ نے ان کو وصیت فرمائی... اس کے علاوہ اگر کوئی وصیت ہوتی تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ منظر عام پر لاتے لہذا باطلوں کی طرف سے جو اعتراضات کیے جاتے ہیں کہ دوسری کوئی وصیت تھی وہ سب جھوٹ ہے...جیسے کہ اوپر خلافت کے موضوع کے تحت ثابت کیا

.

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ، وَأَشَدُّهُمْ فِي دِينِ اللَّهِ عُمَرُ، وَأَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ، وَأَقْضَاهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَأَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَأَعْلَمُهُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأَفْرَضُهُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينًا، وَأَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ

 الْجَرَّاحِ

 نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں میری امت کے لیے بڑا مہربان ابوبکر ہے اور دین کے معاملے زیادہ سخت عمر ہے اور سب سے زیادہ حیاء والا عثمان ہے اور قضاء کے معاملے علی سب سے بڑھ کر ہے اور قراءت میں ابی بن کعب بڑا قاری ہے اور حلال و حرام کا علم معاذ بن جبل کے پاس زیادہ ہے،اور زید بن ثابت میراث کا علم زیادہ رکھتا ہے اور سنو ہر امت کا ایک خصوصی امین ہوتا ہے اور اس امت کا خصوصی امین ابوعبیدہ ہیں

(ابن ماجہ حدیث154)

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.