انبیاء کرام اور اجتہادی خطاء...؟؟چمن زمان سے مباحثہ

*#چمن زمان سے میرے مباحثے کی تفصیل بمع تضمن.....!!*

موضوع:

انبیاء کرام علیہم السلام اور اجتہادی خطاء

.

لائیو وڈیو میں بظاہر چرب زبان جیت جاتا ہے اس لیے اس مباحثے کی وڈیو میں بظاہر میں ہارا ہوا لگ رہا ہوں مگر جب لکھ کر بات سامنے لائی جاتی ہے تو سب دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جاتا ہے...خود چمن زمان نے کہا تھا کہ وہ سعید احمد اسعد مرحوم سے لکھ کر مناظرہ کرے گا...اب کیا کہو گے چمنیو....؟؟

.

چمن زمان کا موقف:

"#انبیاء_کرام_علی_نبینا_وعلیہم_الصلوة_و_السلام_سے #اجتھاد_میں_خطا_کا_مسئلہ_علماء_کے_مابین_اختلافی_ہے #لیکن_راجح_اور_ہمارے_اکابر_کا_مختار_یہ_ہے_کہ_انبیاء_کرام #علی_نبینا_وعلیہم_الصلوة_والسلام_باب_اجتھاد_میں #خطا_سے_معصوم_ہیں"


.

میرا(عنایت اللہ حصیر کا)موقف:

#انبیاء_کرام_علی_نبینا_وعلیہم_السلام_خطا_فی #الاجتھاد_سے_معصوم_نہیں_بعض_انبیاء_کرام_سے #اجتھادی_خطا_ہوئی_بھی_ہے_لیکن_اللہ_جل_شانہ_انبیاء #کرام_کی_اصلاح_فرما_دیتا_ہے_اور_وہ_اپنی_خطا_اجتھادی #پر_قائم_نہیں_رہتے''

.

*میرے(یعنی عنایت اللہ حصیر کے)دیے گئے پندرہ حوالہ جات*

 ①وَقد كَانَت مِنْهُم زلات وخطایاھم

ترجمہ:

اور بےشک بعض انبیاء کرام علیھم السلام سے لغزیشیں اور(اجتہادی)خطائیں ہوئیں

[أبو حنيفة ,الفقه الأكبر ,page 37]

چمن زمان نے کہا

 نمبر ایک اس کتاب کی نسبت امام اعظم کی طرف متکلم فیہا ہے اسکے غیر معتبر ہونے کے لیے اتنا کہ دینا بھی کافی ہے مگر میں مان لیتا حوالہ ۔۔مگر بتائیں عبارت میں خطا کے ساتھ اجتھاد کہاں ہے۔۔۔؟؟

.

میرا جواب:

 اجتہاد کے ساتھ سیاق و سباق قرینہ کلام کہتا ہے کہ یہاں بات اجتہاد کی ہورہی ہے ورنہ خطاء معصیت کی تو نفی ہے لیھذا خطا سے مراد اجتہادی خطاء ہی ہوئ کیونکہ عموما خطاء کی دو قسمیں ہیں

خطاءِ  معصیت(وہ خطاء جو گناہ ہو)

خطاءِ اجتہادی(جس پر ایک اجر ملتا ہے بمطابق حدیث شریف)

اب

امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ نے لفظ خطاء بعض انبیاء کرام کے لیے لکھا تو یقینا خطاء اجتہادی مراد لینا واجب وگرنہ انبیاء کرام کی طرف خطاء معصیت کی نسبت کی جراءت بھلا کون کرسکتا ہے....؟؟

(لیھزا چمن زمان صاحب بہانہ بازی مکاری نہ کریں کہ اجتہادی نہیں بولا کیونکہ خطاء اجتہادی مراد لینا ہی لازم ہے)

.

چمن زمان نے کہا:

مگر میں پھر بھی گن لیتا ہوں۔۔

.

میں نے کہا:

شکریہ اور تاج الفقہاد امام اعظم کا ایک حوالہ سب پے بھاری ہے(مکار ایجنٹ چمن زمان نے گن تو لیا مگر مانا نہیں...امام اعظم ابوحنیفہ کو مانتا تو پھر کس کو مانے گا....؟؟)

.

②وجاز الخطا في اجتهاد الأنبياء الا انهم لا يقرون عليه

ترجمہ: 

انبیائے کرام کے اجتہاد میں خطا واقع ہونا جائز ہے مگر یہ کہ وہ خطائے اجتہادی پر قائم نہیں رہتے (بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)

[التفسير المظهري ,6/215]

چمن زمان کی طرف سے اسے بھی گنا گیا۔۔۔

مگر چمن زمان نے یہ کبھی کہا ہی نہیں کہ سارے علماء اس پر متفق ہیں کہ انبیاء سے خطا فی الاجتھاد نہیں ہوسکتی مسئلہ مختلف فیہا ہے۔۔۔یہ علامہ صاحب تفسیر مظہری جواز کے قائل ہیں ۔۔مگر مختار جمہور اس سے ثابت نا ہوا۔۔۔

.

میں نے کہا:

آگے دیکھیے جمھور کا قول کیا ہے اور شاذ قول کیا ہے

.

③لأن الأنبياء معصومون من الغلط والخطأ لئلا يقع الشك في أمورهم وأحكامهم , وهذا قول شاذ من المتكلمين. والقول الثاني: وهو قول الجمهور من العلماء والمفسرين ولا يمتنع وجود الغلط والخطأ من الأنبياء كوجوده من غيرهم. لكن لا يقرون عليه وإن أقر عليه غيرهم

خلاصہ: 

وہ جو کہتے ہیں کہ انبیاء کرام غلطی اور خطا سے معصوم ہے یہ قول شاذ متکلمین کا ہے

جمہور علماء اور مفسرین کا قول یہ ہے کہ انبیائے کرام سے اجتہادی غلطی اور اجتہادی خطا ہوجاتی ہے لیکن وہ اس پر قائم نہیں رہتے (بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)غیر انبیاء سے خطا اجتہادی ہوتی ہے تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اس پر قائم نہ رہیں بلکہ بعض اس پر قائم بھی رہتے ہیں 

[اتفسير الماوردي = النكت والعيون ,3/457بحذف یسییر]

اس پر چمن زمان نے کہا: خطا کے ساتھ اجتھاد کا ذکر نہیں آپکے اپنے دعوی کے مطابق یہ بھی رد ہے

.

میں نے کہا:

جیسا کہ فقہ اکبر میں مطلقا خطاء کا اثبات تھا تو لازما اجتہادی مراد اسی طرح یہاں بھی اجتہادی خطاء مراد اور اس حوالے میں یہ بھی ہے کہ چمن زمان والا موقف شاذ ثابت ہوا اور اس حوالے میں یہ بھی ثابت کہ عنایت والا موقف جمھور کا ہے لیھزا جمھور کا حوالہ دو کی ڈیمانڈ بھی پوری

(یہاں سے چمن زمان کی مکاری خیانت شاطرانہ چال دیکھیے کہ حق قبول کرنے کے بجائے بےبنیاد بہانہ تراش لیا کہ اجتہاد کا تذکرہ نہیں ارے بھیا اگر اجتہادی خطاء مراد نہ لو گے تو خطاء معصیت مراد لوگے جو کہ گناہ ہے...لیھزا مکاری بہانہ بازی مت کرو ، حق قبول کرلو)

.

.④أن الخطأ إذا وقع من نبي بقول أو فعل فإن الله تعالى يصححه على الفور، مما يبين وجوب الأسوة والقدوة بهم، وأن ذلك لا يؤثر على الاقتداء والتأسي بهم؛ لأن خطأهم مصحح بخلاف خطأ غيرهم

 خلاصہ: 

جب کسی نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے قول یا فعل میں خطااجتہادی ہوتی ہے تو اللہ تعالی فورا اس کی تصحیح فرما دیتا ہے(لہذا انبیاءکرام کی خطا اجتہادی وقتی ہوتی ہے جس پر وہ قائم نہیں رہتے اللہ تعالی ان کی اصلاح فرما دیتا ہے)بر خلاف غیر انبیاء کی خطا کے کہہ غیر انبیاء سے جب خطا اجتہادی ہوتی ہے تو اللہ تعالی اس کی اصلاح نہیں فرماتا(لہذا غیر انبیاء کی خطا اجتہادی کبھی وقتی ہوتی ہے کبھی دوامی)  

[أصول أهل السنة والجماعة ,1/6]

.اس حوالے پر بھی چمن زمان نے کہا کہ یہ اجتھاد سے خالی ہے ۔۔

.

.میں نے کہا

اوپر تفسیل گذر چکی کہ خطاء کا اثبات ہو تو خطاء اجتہادی مراد لینا لازم ہے(یہاں سے چمن زمان کی مکاری خیانت شاطرانہ چال دیکھیے کہ حق قبول کرنے کے بجائے بےبنیاد بہانہ تراش لیا کہ اجتہاد کا تذکرہ نہیں ارے بھیا اگر اجتہادی خطاء مراد نہ لو گے تو خطاء معصیت مراد لوگے جو کہ گناہ ہے...لیھزا مکاری بہانہ بازی مت کرو)

.

چمن زمان نے کہا:

اور کسی ایک نبی کے بارے ہے۔۔

.

میرا جواب:

حوالے میں خطائھم ہے یعنی انکی خطاء...یعنی انبیاء کرام کی اجتہادی خطاء... ھم ضمیر جمع کے لیے ہوتی ہے لیھذا یہ بہانہ نہ بناءیے کہ ایک نبی پاک کی بات ہو رہی ہے

(یہاں چمن زمان کی جہالت یا تجاہل دیکھیے گمراہ کرنا دیکھیے مکاری دیکھیے بہانہ بازی دیکھیے کہ کہتا ہے ایک نبی کی بات ہو رہی ہے جبکہ حوالے میں "خطأهم" جمع کا لفظ ہے یعنی بات انبیاء کی ہورہی ہے ناکہ فقط ایک نبی کی بات)

.

⑤وَقَالُوا: يَجُوزُ الْخَطَأُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ إِلَّا أَنَّهُمْ لَا يُقِرُّونَ عَلَيْهِ

ترجمہ:

علماء فرماتے ہیں کہ انبیاء کرام سے خطاء جائز ہے مگر یہ کہ وہ خطا پر قائم نہیں رہتے

[تفسير البغوي - طيبة ,5/333]

چمن زمان نے کہا:

.یہ بھی خطا اجتھاد کے بغیر لہذا اپکے اپنے قائدے کے مطابق یہ حوالہ بھی رد۔۔۔

.

میرا جواب:

اوپر فقہ اکبر کے حوالے میں مزکورہ و ثابت ہوا کہ خطاء اثبات ہو تو لا محالہ خطاء اجتہادی مراد لیھذا حوالہ معتبر اور لفظ قالوا میں صاف واضح کہ یہ مذہب اکثر علماء کا ہے

(یہاں سے چمن زمان کی مکاری خیانت شاطرانہ چال دیکھیے کہ حق قبول کرنے کے بجائے بےبنیاد بہانہ تراش لیا کہ اجتہاد کا تذکرہ نہیں ارے بھیا اگر اجتہادی خطاء مراد نہ لو گے تو خطاء معصیت مراد لوگے جو کہ گناہ ہے...لیھزا مکاری بہانہ بازی مت کرو)

.

⑥فأخطأ في الاجتهاد،وهذا شأن الأنبياء لا يُقَرُّون على الخطأ

ترجمہ:

نبی پاک سے اجتہاد میں خطاء ہوئی اور یہ انبیائے کرام کی شان ہے کہ وہ خطاء (اجتہادی)پر قائم نہیں رہتے(بلکہ اللہ تعالی انکی  اصلاح فرما دیتا ہے)

[الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري ,6/36ملخصا]

چمن زمان نے کہا:

اخطا میں ایک نبی کا ذکر ہے ۔۔لہذا یہ بھی رد۔۔۔

.

میرا جواب:

شان الانبیاء" میں لفظ انبیاء نظر نہیں ایا اپ کو....؟ بہانہ مت بناو کہ ایک نبی کا ذکر ہے بلکہ انبیاء لفظ ہے جو جمع ہے لیھذا یہ حوالہ بھی معتبر

(اتنا مکار چمن زمان کہ الانبیاء لفظ لکھا ہے پھر بھی کہتا ہے کہ نہین نہیں ایک نبی کی بات ہو رہی ہے...اللہ پناہ)

.

⑦يجوز وقوع الخطأ منهم، لكن لا يقرّون عليه،

ترجمہ: 

انبیائے کرام سے خطا اجتہادی کا واقع ہونا جائز ہے لیکن وہ خطا پر قائم نہیں رہتے( بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)

[روضة الناظر وجنة المناظر ,2/354]

چمن زمان نے کہا:

اس میں بھی خطا کے ساتھ اجتھاد کہیں ذکر نہیں

.

میرا جواب:

فقہ اکبر کی بحث میں ثابت کر چکا کہ اثبات میں خطاء لکھا ہو تو لا محالا اجتہادی خطاء مراد ہے کما مر لیھزا یہ حوالہ بھی معتبر(یہاں سے چمن زمان کی مکاری خیانت شاطرانہ چال دیکھیے کہ حق قبول کرنے کے بجائے بےبنیاد بہانہ تراش لیا کہ اجتہاد کا تذکرہ نہیں ارے بھیا اگر اجتہادی خطاء مراد نہ لو گے تو خطاء معصیت مراد لوگے جو کہ گناہ ہے...لیھزا مکاری بہانہ بازی مت کرو)

.

⑧يجوز عليهم، ولا يقرون عليه

انبیائے کرام سے خطا اجتہادی کا واقع ہونا جائز ہے لیکن وہ خطا پر قائم نہیں رہتے( بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)

[التمهيد في أصول الفقه ,4/317]

چمن زمان نے کہا:

یہاں تو نا خطا کا ذکر نا انبیاء کا  نہ اجتھاد۔۔۔

.

میرا جواب:

جواب سیاق و سباق پڑھا ہوتا تو اس طرح نہ ٹھکراتے....بحث ہی جب خطاء اجتہادی کی چل رہی ہے تو اس پر فرمایا گیا کہ انبیاء سے اجتہادی خطاء جائز مگر وہ اس پر قاءم و داءم نہین رہتے....لیھذا یہ حوالہ بھی معتبر

.

⑨انبیاء (علیہم السلام) اپنی عصمت میں زلات (لعزشوں، اجتہادی خطاء، مکروہ تنزیہی یا خلاف  اولی کا ارتکاب) سے مامون(محفوظ) نہیں ہوتے

(تبیان القرآن تحت سورہ الاعلی آیت6)

چمن زمان نے کہا:

یہ حوالہ اکابر میں سے نہیں۔۔

.

میرا جواب:

ہم تو انکو متاخرین اکابرین میں سمجھتے ہیں جیسا کہ اپ نے تاج الشریعہ کو اکابرین میں سمجھا اسی یہ شیخ الحدیث و التفسیر بھی اکابر میں شمار لیھزا یہ حوالہ بھی معتبر

.

دوسرے یہ کہ نبی بھی اجتہاد کرسکتے ہیں کیونکہ ان دونوں حضرات کے یہ حکم اجتہادی تھے نہ کہ وحی۔ تیسرے یہ کہ نبی کے اجتہاد میں خطا بھی ہوسکتی ہے

(نور العرفان طاہر الکادری تحت سورہ الانبیاء آیت79)

.

.10)حضرت آدم علیہ السلام سے اجتہاد میں خطا ہوئی اور خطائے اجتہادی معصیت نہیں ہوتی۔

(خزائن العرفان تحت سورہ بقرہ ایت36)

چمن زمان نے کہا:

یہ حوالہ بھی اکابرین میں  سے نا تھا ۔۔۔

.

میرا جواب:

ہم تو انکو متاخرین اکابرین میں سمجھتے ہیں جیسا کہ اپ نے تاج الشریعہ کو اکابرین میں سمجھا اسی یہ شیخ الحدیث و التفسیر بھی اکابر میں شمار لیھذا یہ حوالہ بھی معتبر

.

11)نوح (علیہ السلام) یا تو اس نہی کو بھول گئے یا ان سے خطا اجتہادی ہوئی

(نور العرفان تحت سورہ المومنون آیت27)

چمن زمان نے کہا:

یہ حوالہ ایک تو اکابرین کا نا تھا  دوسرا کسی ایک نبی کے بارے تھا سب کے لیے نہیں۔۔۔

میرا جواب:ہم تو انکو متاخرین اکابرین میں سمجھتے ہیں جیسا کہ اپ نے تاج الشریعہ کو اکابرین میں سمجھا اسی یہ شیخ الحدیث و التفسیر بھی اکابر میں شمار البتہ انبیاء کا زکر نہیں اس لیے غیر معتبر مان لیا

 .

.12) اس لئے کہ انبیاء (علیہم السلام) معصوم ہوتے ہیں۔ یہ ہوسکتا ہے کہ اجتہاد میں خطا ہوجائے۔ چنانچہ آپ کو بھی اجتہاد میں خطا ہوئی اور خطا اجتہادی معصیت نہیں ہوتی۔

(عرفان القرآن تحت سورہ بقرہ ایت36)

مکرر

.

.13)تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ:

(1)اجتہاد برحق ہے اور اجتہاد کی اہلیت رکھنے والے کو اجتہاد کرنا چاہیے۔(2)… نبی علیہ  السلام بھی اجتہاد کرسکتے ہیں  کیونکہ ان دونوں  حضرات کے یہ حکم اجتہاد سے تھے نہ کہ وحی سے ۔(3)… نبی علیہ  السلام کے اجتہاد میں  خطا بھی ہوسکتی ہے تو غیر نبی میں  بدرجہ اولی غلطی کا احتمال ہے(4)… خطا ہونے پر اجتہاد کرنے والا گنہگار نہیں  ہوگا۔ (5)… ایک اجتہاد دوسرے اجتہاد سے ٹوٹ سکتا ہے البتہ نص اجتہاد سے نہیں  ٹوٹ سکتی۔ 

(صراط الجنان تحت سورہ انبیاء آیت78)

چمن زمان نے کہا:

اکابرین میں سے نہیں۔۔

.

میرا جواب:

ہم تو انکو متاخرین اکابرین میں سمجھتے ہیں جیسا کہ اپ نے تاج الشریعہ کو اکابرین میں سمجھا اسی یہ شیخ الحدیث و التفسیر بھی اکابر میں شمار لیھذا یہ حوالہ بھی معتبر

.

.14)لا الصغائر غير المنفرة خطأ

ترجمہ:

انبیاء کرام (اجتہادی)خطاء والے صغائر غیر منفرہ سے معصوم نہیں

(مسامرہ ص195)

چمن زمان نے کہا:

خطا اجتھادی کا ذکر ہیں نہیں۔۔

.

میرا جواب:

 فقہ اکبر کی بحث میں ثابت کرچکے کہ خطا کا اثبات ہو تو لامحالہ لازما اجتہادی مراد لیھذا یہ حوالہ بھی معتبر (یہاں سے چمن زمان کی مکاری خیانت شاطرانہ چال دیکھیے کہ حق قبول کرنے کے بجائے بےبنیاد بہانہ تراش لیا کہ اجتہاد کا تذکرہ نہیں ارے بھیا اگر اجتہادی خطاء مراد نہ لو گے تو خطاء معصیت مراد لوگے جو کہ گناہ ہے...لیھزا مکاری بہانہ بازی مت کرو)

.

.15)جمهور المحدثين والفقهاء على أنه يجوز للأنبياء عليهم السلام الاجتهاد في الأحكام الشرعية ويجوز عليهم الخطأ في ذلك لكن لا يقرون عليه

ترجمہ:

جمہور.و.اکثر محدثین و فقہاء کا نظریہ ہے کہ انبیائے کرام کے لئے اجتہادی خطا جائز ہے لیکن وہ اجتہادی خطا پر قائم نہیں رہتے ( بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)

[تفسير الألوسي = روح المعاني ,7/68]

چمن زمان نے کہا:

خطاے اجتھادی کا ذکر نہیں۔

.

میرا جواب:

 اللہ اللہ یہ مکاری توبہ....ذالک کا مشار الیہ کیا ہے....؟؟ ادنی سا طالب علم بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہاں مشار الیہ الاجتہاد ہے لیھزا یہ ھوالہ بھی معتبر

.

بعد میں المعتقد محشی سیدی امام اہلسنت اعلی حضرت مترجم تاج الشریعۃ کی ایک  عبارت کی طرف کسی بھائی نے توجہ دلائی جس میں صاف لکھا ہے کہ بعض انبیاء کی وقتی غیر دوامی خطاء(خطاء اجتہادی) اور لغزشیں ثابت ہیں..

ملاحظہ فرمائیں

ملا علی قاری نے فرمایا یہ بات کہنا بچند وجوہ خطا ہے اس لئے کہ لوہاروں کو ملائکہ پر قیاس کرنا منع ہے ۔ اس لئے کہ انبیاء کی خطاء نہ تھی مگر بعض اوقات  ، نادر لغزشیں  ، جنہیں صغیرہ کہا جاتا ہے بلکہ خلاف اولی  ، بلکہ وہ دوسروں کی برائیوں کی بنسب نیکیاں تھیں ، اور اس کے باوجود وہ لغزشیں بعد میں توبہ سے مٹ گئیں اور ان کی توبہ کا قبول ہونا محقق ہے ، جیسا کہ اللہ نے اس کی خبر دی ، بر خلاف امتوں کے گناہوں کے اس لئے کہ وہ کبیرہ  ، غیر کبیرہ ، ارادی ، غیر ارادی ، اور دائمی گناہوں کو شامل ہیں ۔ اور ان کی توبہ کی تقدیر پر اس کی صحت کے شرائط کا متحقق ہونا ، اور اس کا مقبول ہونا معلوم نہیں ، بلکہ توبہ کرنے والے کا انجام کار بھی معلوم نہیں بخلاف انبیاء  ، کہ وہ لغزش پر قائم رہنے سے معصوم ہیں اور سوء خاتمہ کا ان کو اندیشہ نہیں تو یہ قیاس صحیح نہیں ۔ اور قاری نے فرمایا  : رہا اس کا یہ قول اگر میں گناہ کیا تو انبیا ء  نے بھی گناہ کیا ، تو اس بات میں سخت اندیشہ ہے اس لئے کہ انبیاء معصوم ہیں اور یہ ان کی خصوصیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی وہ لغزش بخش دی جو معصیت کی صورت میں تھی ، اور جناب باری کی طرف ان کا رجوع مقام توبہ میں ہوا ، تو بخشی ہوئی خطا کو اس کے مقابل میں ذکر کرنا جو حقیقتاً معصیت ہے منع ہے ، اگر چہ معصیت والا اس سے توبہ کر لے کہ وہ تحت مشیت ہے اس لئے کہ شرائط توبہ کی صحت ثابت نہیں لہذا فقیر کو بادشاہوں پر قیاس نہیں کیا جاتا ۔   المعتقد المنتقد مع المعتمدالمستند  ۔ صفحہ نمبر (252)  تا (253)  مکتبہ برکات المدینہ جامع مسجد بہار شریعت بہادر آباد کراچی  ۔ مترجم حضور تاج الشریعہ حضرت مولانا مفتی اختر رضا خان قادری برکاتی ازہری علیہ الرحمہ۔

.  #################

چمن زمان کے حوالہ جات 

 

پہلا_حوالہ۔۔

کشف_الاسرار_عن_اصول_فخرالاسلام_البزدوی

مؤلف: امام علاٶالدین عبد العزیز البخاری

 المتوفی 730 ھجری

جلد نمبر 3 

صفحہ نمبر 290

 واجتھادہ لایحتمل الخطاء عند الاکثر

ترجمہ: اکثر علماء کے نزدیک نبی کا اجتھاد خطا کا احتمال نہیں رکھتا

.

اس حوالہ پر میں(عنایت اللہ حصیر) نے فرمایا کہ کسی ایک نبی کے بارے میں فرمایا گیا ہے انبیاء کرام کے بارے میں دکھاؤ،

.

چمن زمان نے کہا:

۔۔۔سبحان اللّٰہ۔۔

.

میرا جواب:

اس میں تعجب کی کیا بات ہے جب موقف ہی یہی ہے کہ انبیاء کرام سے اجتہادی خطاء کی نفی کرنا ہے تو حوالے میں بھی انبیاء سے نفی ہونی چاہیےناکہ ایک نبی پاک کی...لیھذا حوالہ نامقبول و رد قرار پاپا

.

 دوسرا_حوالہ چمن زمان کا

الجامع_لاحکام_القرآن

 مؤلف: ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابی بکر قرطبی رحمہ اللہ

 متوفی 671 ھجری

جلد نمبر 14 صفحہ 23و6

 الفرق بینھم و بین غیرھم من المجتھدین انھم معصومون عن الغلط والخطا وعن التقصیر فی اجتھادھم وغیرھم لیس کذالک ھذا مذھب الجمھور فی ان جمیع الانبیاء صلوات اللہ علیھم معصومون عن الخطا و الغلط فی اجتھادھم_ 

ترجمہ: (پچھلی کلام میں بات یہ ہورہی ہے کہ انبیاء بھی اجتھاد کرتے ہیں جس طرح عام غیر نبی اجتھاد کرتے ہیں،)

عبارت کا ترجمہ: لیکن انبیاء کرام اور باقی غیر نبی مجتھدوں میں فرق یہ ہے کہ انبیاء کرام اپنے اجتھاد میں غلطی خطا اور تقصیر سے معصوم ہوتے ہیں لیکن غیر نبی مجتھدین ان سےبمعصوم نہیں ہوتے۔

اور یہی مذھب جمھور علماء کا ہے اس میں کہ بے شک انبیاء صلوات اللہ علیہم اپنے اجتھاد میں غلطی اور خطا سے معصوم ہوتے ہیں۔۔

.

میرا جواب:

جن اسلاف کے حوالے ہم نے ان کے مقابلے میں علامہ قرطبی کم ہیں....اور پھر علامہ قرطبی فرماتے ہیں وَلَا يَمْتَنِعُ وُجُودُ الْغَلَطِ وَالْخَطَأِ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ كَوُجُودِهِ مِنْ غَيْرِهِمْ، لَكِنْ لَا يُقَرُّونَ عَلَيْهِ،ترجمہ:انبیاء کرام سے غلط و خطاء(اجتہادی)ہوسکتی ہے ممنوع نہیں لیکن انبیاء کرام اجتہادی خطا پر دائم قائم نہیں رہتے

(تفسیر قرطبی11/308)

لیھذا چمن زمان کا دیا گیا یہ حوالہ بھی نامقبول و رد قرار پاپا کہ اسکی نفی خود اسی کتاب میں موجود ہے

.


تیسرا_حوالہ چمن زمان کا

روح_المعانی ۔۔

جلد 12

صفحہ نمبر178

مولف علامہ محمود آلوسی رحمہ اللہ 

ونعلم قطعا ان الانبیاء علیھم السلام معصومون من الخطایا لایمکن وقوعھم فی شیئ منہا ضرورت انا لو جوزنا علیہم شیئا من ذالک بطلت الشرائع ولم یوثق بشیئ مما یذکرون انہ وحی من اللہ تعالی۔۔

ترجمہ اور ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ بے شک انبیاء کرام خطاٶں سے معصوم ہوتے ہیں ان سے خطاوں سے کچھ بھی واقع ہونا ممکن نہیں ۔۔یہ اسلیے کہ اگر ہم ان خطاوں کو ان سے جائز قرار دیں تو شریعتیں باطل ہوجائیں گی اور ان انبیاء سے اعتماد اٹھ جائے گا کہ جو یہ ذکر کر رہے ہیں یہ واقعی اللہ کی طرف سے وحی ہے یا ان میں انکو خطا واقع ہوئی ہے

.

میرا جواب:

علامہ آلوسی کا یہ قول صریح پڑہیے

جمهور المحدثين والفقهاء على أنه يجوز للأنبياء عليهم السلام الاجتهاد في الأحكام الشرعية ويجوز عليهم الخطأ في ذلك لكن لا يقرون عليه

ترجمہ:

جمہور.و.اکثر محدثین و فقہاء کا نظریہ ہے کہ انبیائے کرام کے لئے اجتہادی خطا جائز ہے لیکن وہ اجتہادی خطا پر قائم نہیں رہتے ( بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)

[تفسير الألوسي = روح المعاني ,7/68]

.

لیھذا کہنا پڑے گا کہ چمن زمان نے جو روح المعانی کا حوالہ دیا اس میں خطاء معصیت کی نفی ہے کیونکہ خطاء اجتہادی کا اثبات صراحتا روح المعانی میں ہے

.

نیز

ہمارے حق میں وحی اور اجتہاد دونوں کی پیروی لازم، انبیاء کرام بتا دیتے لکھوا دیتے تھے کہ یہ وحی ہے یہ وحی نہیں....لیھذا وحی غیر وحی میں اشتباہ نہ رہا اور اجتہاد میں خطاء ہوتی تو اللہ کریم فورا وحی فرما کر اصلاح فرما دیتا لیھذا کوئی بطلان و اشتباہ نہیں... یہی اسلاف کا قول ہے..لیھزا یہاں خطاء کی جو نفی کی جارہی ہے وہ اجتہادی خطاء کے علاوہ کی نفی ہے ورنہ اجتہادی خطاء سے شریعت باطل نہیں ہوتی کیونکہ اللہ فورا اصلاح فرما دیتا ہے جس سے وضاحت ہوجاتی ہے

.

چوتھا_حوالہ۔۔۔چمن زمان کا

التقریر_والتحبیر

شرح علامہ محقق ابن امیر الحاج ۔۔فتاوی رضویہ پڑھنے سے اندازہ کرلیں ان شخصیت پر اعلی حضرت رحمہ اللہ نے کتنا اور کیسا اعتماد فرمایا۔۔

جلد 3 صفحہ 381

قیل بامتناع جواز الخطا علی اجتھادہ نقلہ فی الکشف وغیرہ عن اکثر العلماء و قال الامام الرازی والصفی الھندی انہ الحق وجزم بہ الحلیمی والبیضاوی وذکر السبکی انہ الصواب وان الشافعی نص علیہ فی مواضع من الام

 یہ مسئلہ مختلف فیھا ہے 

ترجمہ ۔۔ایک قول یہ ہے کہ نبی مجتھد سے خطاۓ اجتھادی ممتنع ہے ۔۔۔

الکشف وغیرہ میں یہی اکثر علماء سے منقول ہے ۔۔۔

امام رازی اور صفی ھندی نے فرمایا کہ  یہی قول حق ہے ۔۔

اور اسی پر حلیمی اور علامہ بیضاوی نے بھی جزم فرمایا اور سبکی رحمہ اللہ نے ذکر کیا کہ یہی قول درست ہے ۔۔

اور امام شافعی رحمہ اللہ نے الام میں جا بجا اسی قول پر نص کی ہے۔۔

.


میرا جواب:

سیدی اعلی حضرت علامہ شامی پر کتنا اعتماد کرتے تھے جگہ جگہ حوالے مگر پھر کچھ جگہ پر علامہ شامی پر اعتراضات بھی کییے....کبھی مستند سے بھی اشتباہ و غلطی غلط فھمی ہوجاتی ہے اور بات بھی ایک نبی پاک کی ہے ناکہ انبیاء کرام کی لیھذا یہ حوالہ بھی نامقبول و رد قرار پاپا

.


پانچواں_حوالہ ۔۔چمن زمان کا

الموافقات 

مصنف۔۔علامہ محقق ابو اسحاق ابراھیم بن موسی بن محمد شاطبی  رحمہ اللہ

 متوفی 790

جلد 4.صفحہ 335

والتفریع علی القول بنفی الخطا اولی ان لایحکم باجتھادہ حکما یعارض کتاب اللہ تعالی ویخالفہ 


ترجمہ: نفی خطا کے قول پر تفریع بٹھانا اولی ہے تاکہ انکے اجتھاد سے ایسا حکم ثابت ہی نا ہو سکے جو کتاب اللہ کے معارض اور مخالف ہو۔۔

.

مجھ عنایت اللہ پر اعتراض کیا گیا کہ:

یہ حوالہ بھی یہ کہ ٹھکرا دیا کہ کسی ایک نبی بالخصوص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے ہے لہذا نا قابل قبول۔۔

عدم قبولیت کی وجہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک ۔۔واہ جلا-لی کی حمایت کافائدہ۔۔۔

.

میرا جواب:

:بدگمانی جھوٹ....رد کی وجہ اسم مبارک نہین بلکہ امکان خصوصیت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور موقف و دلیل میں عدم مطابقت وجہ ہے رد کی کیونکہ دعوی چمن زمان کا ہے کہ انبیاء خطاء اجتہادی سے پاک ہیں اور یہاں دلیل ایک نبی پاک سے اجتہادی خطاء کی نفی کی جارہی ہے تو دعوی اور دلیل میں مطابقت نہیں..لیھذا یہ حوالہ بھی نامقبول و رد قرار پاپا

.


چھٹا_حوالہ 

قواطع_الادلہ_فی_الاصول

امام ابو مظفر منصور بن محمد بن عبد الجبار السمعانی ۔۔المتوفی 489

جلد 2

صفحہ 105

 لانہ علیہ السلام کان معصوما عن الخطا فی الاحکام

ترجمہ ۔۔۔اسلیے کہ آپ علیہ السلام احکام میں خطا سے معصوم ہیں۔۔۔

.

مجھ پر اعتراض ہوا:

اس حوالہ پر انکا(یعنی عنایت اللہ کا)ایک اعتراض یہ تھا کہ یہ صرف حضور صلی اللہ علیہ کے لیے ۔ہے۔۔اور خطا کے ساتھ اجتھاد نہیں دبے لفظوں میں جلا-لی کے حمایتی نے معاذ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خطا معصیت کا قول کر رہے تھے

.

میرا جواب:

جھوٹے کزاب مکار پے ل ع ن ت....میں تو یہ کہا کہ بظاہر خطاء اجتہادی کی نفی جس ہستی سے کی جارہی ہے وہ سید الانبیاء ہیں لیھذا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف خطاء معصیت اور خطاء اجتہادی دونوں کی نسبت نہیں کی جاسکتی...جبکہ تم نے مجھ پر بہتان جھوٹ جڑ دیا...اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ چمن کا دعوی تھا کہ انبیاء کرام خطاء اجتہادی سے معصوم ہیں جبکہ دلیل میں فقط ایک نبی مکرم کی ذات پیش کی جارہی ہے تو دعوی و دلیل میں مطابقت نہین مگر چمن زمان زبردستی فٹ کرکے مکاری کر رہے

.

مجھ پے اعتراض ہوا:

۔۔۔یہ سارے گناہ جلا-لی کے کھاتے میں ہی جائیں گی۔۔۔کیوں یہ خطا خطا کا کھیل انہوں نے ہی ایجاد کیا ہے۔۔

.

میرا جواب:

پندرہ حوالہ معتبر اسلاف کی زبانی ثابت کر چکا کی بعض انبیاء کی طرف انہوں نے خطاء اجتہادی کی نسبت کی لیھذا یہ تمھارا جھوٹ ہے کہ خطاء اجتہادی کا معاملہ جلا-لی نے شروع کیا...کیا جن اسلاف نے خطاء اجتہادی کا قول کیا وہ بھی تمھارے مطابق گستاخ و گناہ گار.....؟قبلہ جلا- لی عالم دین سے اتنا بغض....؟ اختلاف کیجیے مگر حد میں رہتے ہوئے)

.

ساتواں_حوالہ۔۔چمن زمان کا

الفکر_السامی۔۔

محمد بن حسن الحجوی الثعالبہ الفاسی ۔۔متوفی ۔۔1291 ھجری

جلد 1

صفحہ 138

والصواب ان اجتھادہ علیہ السلام  لا یخطی۔۔

ترجمہ۔۔۔درست قول یہ ہے کہ آپ علیہ سلام اپنے اجتھاد میں خطا نہیں کرتے۔۔

.

مجھ پر اعتراض ہوا:

تو چونکہ حوالہ رد کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مبارک کو متعین کیے ہویے تھے لہذا کہا کہ یہاں بھی صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے۔۔

.

میرا جواب:

جھوٹے کزاب مکار پے ل ع ن ت....میں تو یہ کہا کہ بظاہر خطاء اجتہادی کی نفی جس ہستی سے کی جارہی ہے وہ سید الانبیاء ہیں لیھذا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف خطاء معصیت اور خطاء اجتہادی دونوں کی نسبت نہیں کی جاسکتی...جبکہ تم نے مجھ پر بہتان جھوٹ جڑ دیا...اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ چمن کا دعوی تھا کہ انبیاء کرام خطاء اجتہادی سے معصوم ہیں جبکہ دلیل میں فقط ایک نبی مکرم کی ذات پیش کی جارہی ہے تو دعوی و دلیل میں مطابقت نہین مگر چمن زمان زبردستی فٹ کرکے مکاری کر رہے



آٹھواں_حوالہ

المعتقد_والمنتقد۔۔

سیدنا فضل رسول بدایونی 

جس پر اعلی حضرت عظیم البرکت نے حاشیہ کے لیے اس کتاب کاانتخاب فرمایا۔۔۔

ان القول بجواز الخطا علیہم فی اجتھادھم قول بعید مھجور فلایلتفت الیہ۔۔

ترجمہ۔۔بے شک انبیاء علیہم السلام کے بارے خطائے اجتھادی کا قول حق سے بعید ہے ناقبل عمل اس قول کی طرف التفات نہیں کیا جایے گا۔۔۔

.

چمن زمان کی وضاحت:

محشی جب کسی کتاب پہ حاشیہ لکھتا ہے تو اگر کتاب میں موجود کسی مسئلہ کو بیان نا کریں اس مسئلہ پر خاموش رہنا یہ محشی کی اس مسئلہ سے اتفاق کی دلیل ہوا کرتا ہے اسے قول تقریری کہتے ہیں ۔۔

.

میرا جواب:

 اس اصول کا حوالہ دیجیے  کیونکہ عقلا عین ممکن کہ موافقت کے بغیر عدم توجہ صرف نظر یا بعد میں کچھ لکھنے کی امید پر بھی محشی کچھ جگہ پے حاشیہ نہیں لگاتا لیھذا تقریر نہ ہوا

اور دوسری بات سیدی اعلی حضرت اور تاج الشریعہ نے خطاء اجتہادی کی نسبت بعض انبیاء کی طرف کی ہے جیسے کہ ہم پندرویں حوالے کے بعد حوالہ منقولا لکھ آئے

تیسری بات

اس حوالے میں بعض نسخون میں ہے کہ خطاء اجتہادی پے استمرار نہین ہوتا یعنی قاءم نہیں رہتے اگرچہ خطاء اجتہادی ہوجاتی ہے...یہی تو ہمارا اسلاف کی زبانی موقف ہے

.


نواں_حوالہ۔۔چمن زمان کا:

اسی کتاب پر علامہ تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان صاحب نے فرمایا۔۔

اس کے سوا یہ بات بھی ہے نبیوں سے انکے اجتھاد میں خطا کے جائز ہونے کا قول صحت سے دور مہجورہے اسکی طرف التفات نہیں۔۔

.

میرا جواب:.

تاج الشریعہ نے ترجمہ کیا مترجم کا مترجم کتاب کی ہربات سے اتفاق ہولازم نہیں...لیھزا تاج الشریعہ کا حوالہ بھی نہ رہا بلکہ تاج الشریعہ کا نظریہ اس کے برعکس ہے اور ہمارے لکھے موقف کے مطابق ہے جیسے کہ ابھی اوپر گذرا

.

دسواں_حوالہ۔۔۔چمن زمان کا

نہایت_الاصول_فی_درایة_الاصول

مولف۔۔شیخ صفی الدین محمد بن عبدالرحیم الھندی

متوفی۔۔715 ھ

صفحہ۔۔3811

اذا جوزنا لہ الاجتھاد فالحق عندنا انہ لا یجوز لہ ان یخطی

لنا۔۔ان تجویز الخطا علیہ غض من منصبہ فوجب ان لایجوز۔

ترجمہ۔۔


جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اجتھاد کو جائز قرار دیں تو حق ہمارے نزدیک یہ قول ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطا نہیں کرتے ۔۔

ہم یہ اسلیے کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خطا کو جائز قرار دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کے مناسب نہیں۔۔تو واجب ہے کہ ہم خطا کو جائز قرار نا دیں۔۔۔

.

مجھ پے اعتراض ہوا:

اور اس حوالے پر جواب انکا ایک ہی تھا یہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔۔

.

میرا جواب:

جھوٹے کزاب مکار پے ل ع ن ت....میں تو یہ کہا کہ بظاہر خطاء اجتہادی کی نفی جس ہستی سے کی جارہی ہے وہ سید الانبیاء ہیں لیھذا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف خطاء معصیت اور خطاء اجتہادی دونوں کی نسبت نہیں کی جاسکتی...جبکہ تم نے مجھ پر بہتان جھوٹ جڑ دیا...اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ چمن کا دعوی تھا کہ انبیاء کرام خطاء اجتہادی سے معصوم ہیں جبکہ دلیل میں فقط ایک نبی مکرم کی ذات پیش کی جارہی ہے تو دعوی و دلیل میں مطابقت نہین مگر چمن زمان زبردستی فٹ کرکے مکاری کر رہے

.

گیارہواں_حوالہ۔۔۔چمن زمان کا

تفسیر الفخر الرازی

امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ

جلد۔۔10

صفحہ۔۔170

۔۔دلت الایة علی ان الانبیاء علیہم الصلوةو السلام معصومون عن الخطا فی الفتوی وفی الاحکام 

ترجمہ: آیة اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بے شک انبیاء علیہم الصلاة والسلام فتوی اور احکام میں خطا سے معصوم ہیں۔۔۔

اور جلالی کے علمی یتیم نے جو یہاں جو بونگی ماری کہ اہل علم حیران ہیں کہ کوئی عالم یہ بات کر سکتا ہے۔۔

.

مجھ پر اعتراض ہوا:

انہوں(یعنی عنایت) نے اس حوالہ پر فرمایا کہ

یہاں خطا فی الفتوی والاحکام لکھا ہے۔۔۔

یہ خطاے اجتھادی کے بارے میں نہیں بلکہ خطا معصیت کے بارے ہے۔۔۔اہل علم اس سے جلا- لی کے حمایتی کا علمی مبلغ کا اندازہ کرسکتے ہیں۔۔۔یہ جلا-لی گروپ دوسروں کو علمی یتیم کہ کر پکارتے ہیں خود ان کے علمی مبلغ کا یہ حال ہے

.

میرا جواب:

طعنے کسنے بھپکی مارنے کے علاوہ اپ کے پاس میرے اعتراض کا جواب نہیں کیا......؟؟

یہاں خطاء اجتہادی کا ذکر نہ تو لفظا ہے نہ ہی سیاقا سباقا...لیھذا یہ حوالہ بھی نامقبول و رد قرار پاپا)

.

بارہواں_حوالہ۔۔۔

حاشیہ_التوضیح_والتصحیح

محشی۔۔النحریر الھمام ابن عاشور قاضی مالکی رحمہ اللہ

 المتوفی۔۔684

وقد ترک المصنف التنبیہ علی منع الخطا فی اجتھادہ صلی اللہ علیہ وسلم وھو الذی اختارہ الامام وقال انہ الحق۔۔

ترجمہ:مصنف نے اس بات پر تنبیہ کو چھوڑ دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجتھادی خطا ممتنع ہے اور اسی قول کو امام نے پسند فرمایا ہے اور فرمایا ہے یہی قول حق ہے۔۔

.

میرا جواب:

 یہاں دیکھا جا سکتا ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات بیان ہو رہی ہے نہ کہ تمام انبیاء کی لہذا اس حوالے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہادی خطاء سے پاک ہیں لیکن دیگر انبیائے کرام کا خطاء اجتہادی سے معصوم ہونا اس حوالے سے ثابت نہیں ہوتا لیھذا یہ چمن زمان کی دلیل چمن کے دعوے کے مطابق نہیں

.

تیرہواں_حوالہ۔۔۔

البحر_المحیط 

امام ابو حیان اندلسی۔۔المتوفی 745 ھ 

جلد 7..صفحہ۔۔378

ویعلم قطعا ان الانبیاء علیھم السلام معصومون من الخطایا لایمکن وقوعھم فی شیئ منہا ضرورت انا لو جوزنا علیہم شیئا من ذالک بطلت الشرائع ولم یوثق بشیئ مما یذکرون انہ وحی من اللہ تعالی۔۔

ترجمہ: اور ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ بے شک انبیاء کرام خطاؤں سے معصوم ہوتے ہیں ان سے خطاؤں سے کچھ بھی واقع ہونا ممکن نہیں ۔۔یہ اسلیے کہ اگر ہم ان خطاؤں کو ان سے جائز قرار دیں تو شریعتیں باطل ہوجائیں گی اور ان انبیاء سے اعتماد اٹھ جائے گا کہ جو یہ ذکر کر رہے ہیں یہ واقعی اللہ کی طرف سے وحی ہے یا ان میں انکو خطا واقع ہوئی ہے۔۔۔

.

میرا جواب:

 ہمارے حق میں وحی اور اجتہاد دونوں کی پیروی لازم، انبیاء کرام بتا دیتے لکھوا دیتے تھے کہ یہ وحی ہے یہ وحی نہیں....لیھذا وحی غیر وحی میں اشتباہ نہ رہا اور اجتہاد میں خطاء ہوتی تو اللہ کریم فورا وحی فرما کر اصلاح فرما دیتا لیھذا کوئی بطلان و اشتباہ نہیں... یہی اسلاف کا قول ہے..لیھزا یہاں خطاء کی جو نفی کی جارہی ہے وہ اجتہادی خطاء کے علاوہ کی نفی ہے ورنہ اجتہادی خطاء سے شریعت باطل نہیں ہوتی کیونکہ اللہ فورا اصلاح فرما دیتا ہے جس سے وضاحت ہوجاتی ہے

اور

دوسری بات یہ بھی کہ یہ قول اسلاف معتبر کے قول کے برخلاف شاذ ہے....جمھور کا قول وہی ہے جو ہم موقف لکھ آئے

.################

نوٹ:

میں نے دوران مباحثہ کہا تھا کہ کوئی بھی ایت چاہے قل ہو اللہ ہو جب نازل ہورہی تھی تو اس میں احتمال نسخ(نسخ تلاوت نسخ حکم کوئی بھی امکان نسخ) تھا…چمن زمان نے اسے کفر قرار دیا…یہ جملہ کلمہ کفر تھا یا نہ تھا ہر حال میں توبہ اگلے دن سرعام فیسبک پے میں عنایت اللہ نے کر لی تھی…اب چمن پر لازم ہے کہ اسکو زید بکر کا نام دیکر کفر ثابت کریں ورنہ کفر اپ پر لوٹ آئے گا توبہ آپ کو سرعام کرنی ہوگی

.

کان نسخ التلاوۃ والحکم جمیعا جائزافی حیاۃ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم

قرآن عظیم سے کسی چیز(کسی بھی آیت)کی تلاوت و حکم دونوں کا منسوخ ہونا زمانہ نبوی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں جائز تھا

(کشف الاسرارعن اصول البزدوی3/188 بحوالہ فتاوی رضویہ 14/261)

.

اب مفتی چمن زمان زید بکر کا نام ڈال کر کفر ثابت کریں ورنہ سرعام توبہ رجوع تجدید ایمالن تجدید نکاح کریں کہ مسلمان پر بلادلیل کفر کا فتوی دیا

الحدیث:

يَا كَافِرُ، فَقَدْ بَاءَ بِهِ أَحَدُهُمَا

جس نےبظاہر مسلمان کو کافر کہا تو کفر دونوں میں سے کسی ایک کی طرف لوٹے گا(بظاہر مسلمان نے اگر واقعی کفر کیا ہے تو وہ کافر اور اگر بظاہر مسلمان حقیقتا بھی مسلمان ہے تو کافر کہنے والے کی طرف کفر لوٹے گا)

[صحيح البخاري حدیث6103]

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.