شب قدر،دعائیں عبادات؟ شب بیداری کا طریقہ؟بدعت کی تفصیل، اجتماعی عبادت نفل کی جماعت کا ثبوت اور ایک کے بدلے دو کروڑ سے بھی زیادہ ثواب....؟؟بہت کچھ

*#شب_قدر ...علم...عبادات...گناہ معاف...؟؟ شب بیداری کیسے کریں..؟؟نفل کی جماعت کی دلیل اجتماعی شب بیداری کی دلیل اور تداعی....؟؟بدعت کی تفصیل اور ایک روپیہ پیسہ ڈالر کے بدلے دو کروڑ سے بھی زیادہ ثواب.....؟؟*

.القران:

لَیۡلَۃُ  الۡقَدۡرِ ۬ ۙ خَیۡرٌ  مِّنۡ  اَلۡفِ شَہۡرٍ ؕ

ترجمہ:شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے

(سورہ قدر آیت3)

.

إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيَ أَعْمَارَ النَّاسِ قَبْلَهُ، أَوْ مَا شَاءَ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ، فَكَأَنَّهُ تَقَاصَرَ أَعْمَارَ أُمَّتِهِ أَنْ لَا يَبْلُغُوا مِنَ الْعَمَلِ مِثْلَ الَّذِي بَلَغَ غَيْرُهُمْ فِي طُولِ الْعُمْرِ، فَأَعْطَاهُ اللَّهُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ.

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم دیا گیا یا دکھایا گیا دوسروں کی لمبی لمبی عمر کا تو شاید کہ رسول کریم کو یہ گمان ہوا کہ میری امت کی تو کم عمر ہو گئی تو ان کے اعمال لمبی لمبی عمر والے لوگوں کی اعمال کے برابر کیسے ہوں گے... تو اللہ کریم نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو(امت محمدیہ کو) شب قدر عطا فرمائی کہ جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے(تاکہ اس امت محمدیہ کے اعمال طویل عمر والوں کے اعمال سے کم نہ ہوں بلکہ بڑھ جائیں کیونکہ پیارے نبی کی پیاری امت جو ہے)

(موطا امام مالک روایت896)

.


الحدیث:

فرفعت وعسى أن يكون خيرا لكم

شبِ قدر کا یقینی علم اٹھا لیا گیا ہے اور امید ہے کہ اسی میں تمھاری بھلائی ہے..(بخاری حدیث2023)

.

الحدیث:

فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فِي الْوَتْرِ

شب قدر کو رمضان شریف کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو..(بخاری حدیث2016)


.

وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ

ذَنْبِهِ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور طلبگار ہوتے ہوئے عبادت کریگا تو اس کے تمام(صغیرہ یا بھول چوک والے) گناہ معاف کردیئے جائیں گے

(بخاری حدیث2014)

.

علامہ کرمانی فرماتے ہیں:

ثم المشهور في هذا الحديث وشبهه كحديث غفران الخطايا بالوضوء وبصوم عرفة وأن المراد غفران الصغائر لا الكبائر كما في حديث الوضوء ما لم يؤت بكبيرة

(اکثر علماء محدثین محققین فقہاء سےاحادیث کی بنیاد پر) مشھور یہی ہے کہ شب قدر میں عبادت کرنے سے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں کبیرہ گناہ معاف نہیں ہوتے جیسے کہ وضو والی حدیث میں نبی پاک نے یہ شرط لگائی ہے کہ گناہ معاف ہوں گے لیکن کبیرہ نہیں ہوں گے

(الکوکب الدراری شرح بخاری1/158)

.

علامہ کرمانی کا اشارہ ان احادیث کی طرف ہے:

مَا مِنِ امْرِئٍ مُسْلِمٍ تَحْضُرُهُ صَلَاةٌ مَكْتُوبَةٌ، فَيُحْسِنُ وُضُوءَهَا وَخُشُوعَهَا وَرُكُوعَهَا، إِلَّا كَانَتْ كَفَّارَةً لِمَا قَبْلَهَا مِنَ الذُّنُوبِ مَا لَمْ يُؤْتِ كَبِيرَةً

 نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو اچھا وضو کرے اور فرض نماز کو خشوع خضوع کے ساتھ اور رکوع(سجدے وغیرہ) اچھی طرح مکمل کرتے ہوئے پڑھے تو جو پہلے گناہ ہو چکے وہ معاف ہو جائیں گے بشرطیکہ گناہ کبیرہ نہ ہو(گناہ کبیرہ اس سے معاف نہ ہوگا)

(مسلم حدیث228)

.

الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَالْجُمْعَةُ إِلَى الْجُمْعَةِ، وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ مُكَفِّرَاتٌ مَا بَيْنَهُنَّ إِذَا اجْتَنَبَ الْكَبَائِرَ

 پانچوں نمازیں جمعہ سے لے کر جمعہ رمضان سے لے کر رمضان ان کے درمیان میں جو کچھ گناہ ہو جاتے ہیں وہ سب معاف ہو جاتے ہیں نماز کی وجہ سے  جمعہ کی وجہ سے رمضان کی وجہ سے بشرطیکہ کبیرہ گناہ نہ ہو

(مسلم حدیث233)

.

 ان دونوں احادیث مبارکہ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گناہ جو معاف ہوتے ہیں وہ صغیرہ گناہ ہوتے ہیں.... کبیرہ گناہ کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس طرح معاف نہیں ہوتے... کبیرہ گناہ اس طرح معاف ہوتے ہیں کہ ایک تو توبہ کی جائے اور پھر اگر حقوق العباد ہوں تو وہ حقوق بندوں کو ادا کر دیئے جائیں یا بندوں سے حقوق العباد معاف کرائے جائیں اور اگر گناہ ایسے عمل کو چھوڑنے سے ہو کہ اس کی قضا ہو جاتی ہو تو اس کی قضا بھی  ادا کرنی ہو گی جیسے نماز فرض نہ پڑھی ہو تو اس کی قضا پڑھنی ہوگی روزے چھوڑ دیئے ہوں تو قضاء روزے بھی رکھنے ہوں گے اور اگر بہت بوڑھا یا مستقل مریض ہوگیا ہے کہ روزے نہیں رکھ سکتا تو اسکا فدیہ ادا کرے، فی روزہ کے بدلے ایک صدقہ فطر ادا کرے اور توبہ بھی کرنی ہوگی پھر جاکر معاف ہونگے....یہ عمومی قاعدہ ہے ورنہ اللہ کریم اپنے فضل و کرم سے صغیرہ کبیرہ گناہ بخش دے تو وہ کریم ہے کرم فرما سکتا ہے مگر ہمیں اللہ کریم کے کرم کی امید بھی رکھنی چاہیے تو اس اللہ واحد قہار کے عذاب و پکڑ کا بھی خوف رکھنا چاہیے اور گناہوں سے توبہ کرکے گناہوں برائیوں سے دور رہنا چاہیے.....!!

.

وَقيل: سبع وَعشْرين، وَهُوَ قَول جمَاعَة من الصَّحَابَة،

جماعت ِصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کےمطابق امیدِ قوی ہےکہ شب قدر ستائیس رمضان کی رات ہے

(عمدۃ القاری شرح بخاری1/225)

اللہ کریم ہمیں ہر روز اور بالخصوص بابرکت راتوں میں علم نوافل ذکر درود تلاوت زکواۃ فطرہ نفلی صدقہ وغیرہ انفرادی و اجتماعی عبادات.و.نیکیوں کی توفیق دے…شب بیداری کی توفیق دے، معتبر ذرائع معتبر کتب معتبر علماء کی تقریر تحریر وغیرہ معتبر مستند ذرائع سے علم حاصل کرنے پھر اسے پھیلانے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے...علم اعمال عبادات خدمات قبول فرمائے

.

لَيْلَةُ صَبِيحَةِ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ

سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے(رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعا یا معنا یا روایتا یا اجتہادا)فرمایا کہ شب قدر ستائیس رمضان کی رات ہے

(مسلم روایت762)

.

عن معاوية بن أبي سفيان، عن النبي صلى الله عليه وسلم في ليلة القدر قال: «ليلة القدر ليلة سبع وعشرين

ترجمہ:

حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے لیلۃ القدر کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے(سماعا یا معنا یا روایتا یا اجتہادا) کہا ہے کہ رمضان کی ستائیسویں رات شب قدر ہے

(ابو داؤد حدیث1386)

.

*بدعت کیا ہے اسکی تفصیل اور مسجد میں جمع ہوکر اجتماعی عبادت وغیرہ کی دلیل اور نفل کی جماعت کی دلیل تحریر کے آخر میں ملاحظہ کیجیے....پہلے شب بیداری کے متعلق پڑہیے.....!!*

.

وہابیوں اہلحدیثوں غیر مقلدوں کا معتبر عالم ابن عثیمین لکھتا ہے:

كل هذا ممكن أن تكون فيه ليلة القدر، والإنسان مأمور بأن يحرص فيها على القيام، سواء مع الجماعة إن كان في بلد تقام فيه الجماعة، فهو مع الجماعة أفضل

 ممکن ہے کہ 27 رمضان کو شب قدر ہو تو انسان کو یہ حکم ہے کہ اس رات قیام کرے عبادات کرے نوافل پڑھے اکیلے بھی پڑھے اور جماعت کے ساتھ بھی نوافل پڑھے... مل کر عبادات کریں نوافل باجماعت بھی پڑہیں تو یہ افضل ہے

(كتاب مجموع فتاوى ورسائل العثيمين20/66)

شب معراج اور شب براءت کی رات اجتماعی عبادات نوافل کی جماعت شب بیداری کی نہ جانے کیوں وہابی اہلحدیث وغیرہ مخالفت و مذمت کرتے ہیں حالانکہ صحابہ کرام سے جس طرح شب قدر کی اجتماعی شب بیداری عبادات دوٹوک مروی  نہیں اسی طرح شب براءت شب معراج کی بھی اجتماعی عبادات شب بیداری دوٹوک مروی نہیں.....لیکن جب شب قدر میں اجتماعی شب بیداری عبادات نوافل کی جماعت افضل ہے اسی طرح شب معراج شب براءت میں بھی شب بیداری عبادات نوافل کی جماعت افضل قرار پائے گی...اللہ سمجھ عطاء فرمائے

.

*شب بیدری کیسے کریِں......................!!*

روزانہ ورنہ کم از کم بابرکت راتوں جیسے شب قدر شب معراج شب برات وغیرہ میں شب بیداری کرنی چاہیے

کچھ نوافل ذکر و اذکار درج ذیل ہیں جو ان بابرکت راتوں میں تو ضرور ادا کرنے چاہیے.....

.

① ان بابرکت راتوں میں مستند کتاب تحریر تقریر سے علم سیکھیے، سکھائیے، کچھ آیات کو تفسیر پڑہیے سمجھیے عمل کیجیے

الحدیث:

وَلَأَنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ بَابًا مِنَ الْعِلْمِ عُمِلَ بِهِ أَوْ لَمْ يُعْمَلْ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تُصَلِّيَ أَلْفَ رَكْعَةٍ ".

ایک آیت کا علم سیکھنا 100 رکعت سےبہتر ہے اور علم کا ایک باب سیکھنا ایک ہزار رکعت سےبہتر ہے

(ابن ماجہ حدیث219ملخصا)

ہر روز اور بابرکت و بافضیلت ایام و شب اور بالخصوص آج کی رات نوافل وغیرہ کےساتھ ساتھ مستند کتاب،مستند تفسیر،تحریر،تقریر سےعلم بھی ضرور سیکھیےسکھائیے

.

.

②مغرب کے بعد نوافل:

1:مغرب کے بعد چار رکعت:

جو شخص بعد مغرب کلام کرنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھے، اس کی نماز علیین میں اٹھائی جاتی ہے۔'' اور ایک روایت میں ''چار رکعت ہے'مشکاۃ المصابيح''، کتاب الصلاۃ، باب السنن و فضائلھا، الحديث: ۱۱۸۴، ۱۱۸۵، ج ۱، ص۳۴۵.

.

2:مغرب ک بعد چھ رکعت:

جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اور ان کے درمیان میں کوئی بری بات نہ کہے، تو بارہ برس کی عبادت کی برابر کی جائیں گی...''جامع الترمذي''، أبواب الصلاۃ، باب ماجاء في فضل التطوع... إلخ، الحديث: ۴۳۵، ج۱، ص۴۳۹.

.

3مغرب کےبعد بیس رکعت:

جو مغرب کے بعد بیس رکعتیں پڑھے، اللہ تعالی اس کے ليے جنت میں ایک مکان بنائے گا۔'جامع الترمذي''، أبواب الصلاۃ، باب ماجاء في فضل التطوع... إلخ، الحديث ۴۳۵، ج۱، ص۴۳۹.


③عشاء و تراویح کے بعد نوافل و اذکار:

1:سو رکعت:

 وأحيوا ليلتهم حتى الصباح بالقراءة في المسجد الحرام، حتى يختموا القرآن كله، ويصلوا، ومن صلى منهم تلك الليلة مائة ركعة يقرأ في كل ركعة بالحمد، وقل هو الله أحد عشر مرات

ترجمہ:

اہل مکہ شب بیداری کرتے تلاوت کرتے ہوئے یہاں تک کہ ختم القرآن مکمل کرتے اور نمازیں(نوافل) ادا کرتے ہیں... ان میں سے کوئی سو رکعت اس طرح پڑھتا کہ ہر رکعت میں الحمد اور دس بار سورہ اخلاص پڑھتا

(اخبار مکہ للفاکہی جلد3 صفحہ 64)

.

''قیام اللیل کو اپنے اوپر لازم کر لو کہ یہ اگلے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور تمھارے رب (عزوجل) کی طرف قربت کا ذریعہ اور سیآت کا مٹانے والا اور گناہ سے روکنے والا۔('جامع الترمذي''، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، الحدیث: ۳۵۶۰، ج۵، ص۳۲۲.

' اور

سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں یہ بھی ہے، کہ ''بدن سے بیماری دفع کرنے والا ہے۔''

المعجم الکبير''، باب السین، الحدیث: ۶۱۵۴، ج ۶، ص۲۵۸

.

2:صلاۃ الحاجات:اپنی دوسروں کی بخشش و مغفرت رزق میں برکت عمرمیں برکت  بلاؤں بیماریوں سے نجات وحفاظت وغیرہ جائز مقاصد کے پورا ہونے کے لیےصلاۃالحاجات پڑھ کر دعا کریں:

ابو داود حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی، کہتے ہیں: ''جب حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو کوئی امر اہم پیش آتا تو نماز پڑھتے۔' اس کے ليے دو رکعت یا چار پڑھے۔ حدیث میں ہے: ''پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ اور تین بار آیۃ الکرسی پڑھے اور باقی تین رکعتوں میں سورۂ فاتحہ اورقل ھو اللہ اورقل اعوذ برب الفلق اورقل اعوذ برب الناس

ایک ايک بار پڑھے''سنن أبي داود''، کتاب التطوع، باب وقت قیام النبي صلی اللہ علیہ وسلم من اللیل، الحدیث: ۱۳۱۹

.

حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ''جس کی کوئی حاجت اللہ (عزوجل) کی طرف ہو یا کسی بنی آدم کی طرف تو اچھی طرح وضو کرے پھر دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ عزوجل کی ثنا کرے اور نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر درود بھیجے پھر یہ پڑھے:

لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ الحَلِيمُ الكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ العَرْشِ العَظِيمِ، الحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِينَ، أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلاَمَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ، لاَ تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلاَّ غَفَرْتَهُ، وَلاَ هَمًّا إِلاَّ فَرَّجْتَهُ، وَلاَ حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا إِلاَّ قَضَيْتَهَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ.

جامع الترمذي''، أبواب الوتر، باب ماجاء في صلاۃ الحاجۃ، الحدیث: ۴۷۸، ج۲، ص۲۱.


.

.

3:صلاۃ التوبۃ

ابو داود و ترمذی و ابن ماجہ اور ابن حبان اپنی صحیح میں ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی، کہ حضور (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) فرماتے ہیں: ''جب کوئی بندہ گناہ کرے پھر وضو کر کے نماز پڑھے پھر استغفار کرے، اللہ تعالی اس کے گناہ بخش دے گا۔'' پھر یہ آیت پڑھی۔

( والذین اذا فعلوا فاحشۃ او ظلموا انفسہم ذکروا اللہ فاستغفروا لذنوبہم ومن یغفر الذنوب الا اللہ ولم یصروا علی ما فعلوا وہم یعلمون ﴿۱۳۵﴾

جامع الترمذي''، أبواب الصلاۃ، باب ماجاء في الصلاۃ عند التوبۃ، الحدیث: ۴۰۶، ج۱، ص۴۱۴. پ۴، ال عمرن: ۱۳۵.

.

.

4:شب قدر میں ایک دعا کا ورد کم سے کم 313یا اس سے بھی زیادہ:

قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ عَلِمْتُ أَيُّ لَيْلَةٍ لَيْلَةُ الْقَدْرِ، مَا أَقُولُ فِيهَا ؟ قَالَ : " قُولِي : اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ ؛ فَاعْفُ عَنِّي

ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا،

اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ یہ لیلۃ القدر ہے ،تو میں کیا پڑھوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ دعا پڑھو:

"اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي"

اے اللہ! توبہت معاف کرنے والا ہے ،معاف کرنا تجھے پسند ہے،پس تو مجھے معاف فرمادے"

(ترمذی ،الدعوات حدیث3513)

.

5:اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی جو قران مجید کے اول یا اخر میں اکثر لکھے ہوتے ہیں ان کا کثرت سے ورد

کیجیے


6:سید الاستغفار:

313 یا 100 مرتبہ پڑہیے یا اس سے بھی زیادہ پڑہیے ورد کیجیے.....ایک دفعہ تو لازمی پڑہیے

اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ

یہ دعا یقین کے دن میں پڑھی جائے اور اس دن وفات پا جائے تو جنتی....رات کو پڑہے اس رات انتقال ہوجائے تو جنتی

(بخاری حدیث6306، مسلم حدیث2702)

.

حدثنا هشام بن عمار، حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا الحكم بن مصعب، حدثنا محمد بن علي بن عبد الله بن عباس، عن ابيه، انه حدثه، عن ابن عباس، انه حدثه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من لزم الاستغفار، جعل الله له من كل ضيق مخرجا، ومن كل هم فرجا، ورزقه من حيث لا يحتسب".

ترجمہ:

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی استغفار کا التزام کر لے ۱؎ تو اللہ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے اور ہر رنج سے نجات پانے کی راہ ہموار کر دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا، جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا(ابوداود حدیث1518)


.

دعا کا ودر کیجیے،توبہ استغفار کیجیے،درج ذیل دعاؤں کا ورد کیجیے


لا الہ الا اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیئ قدیر و سبحن اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ رب اغفرلی

.

سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ

(100 یا اس سے زائد مرتبہ کہیے حدیث پاک میں ہے کہ گناہ جتنے بھی ہوں معاف ہوجاتے ہیں...(بخاری حدیث6405)

.

سُبْحَانَ اللَّهِ العَظِيمِ، سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ

کا ورد کیجیے حدیث پاک میً ہے کہ یہ دو کلمے زبان پے ہلکے مگر اللہ کو محبوب اور میزان میں بھاری ہیں..(بخاری حدیث6406)

.

لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.....(100 دفعہ یا اس سے زیادہ ورد کیجیے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے 100نیکیاں ہیں 100گناہ معاف ہوتے ہیں(بخاری حدیث6403)

.

.

7:آیات، بعض سورتوں کی تلاوت کے فضائل

100تا1000آیات پڑھنے کی فضیلت:

«من قرأ مائة آية في ليلة لم يكتب من الغافلين، ومن قرأ بمائتي آية كتب من القانتين، ومن قرأ خمسمائة آية إلى ألف آية أصبح له قنطار من الأجر،

ترجمہ:

جس نے رات میں سو آیات تلاوت کیں وہ غافلین میں نہیں لکھا جائے گا اور جس نے دو سو آیات تلاوت کیں وہ قانتین  میں لکھا جائے گا اور جس نے پانچ سو سے ایک ہزار تک آیات تلاوت کیں اس کے لیے اجر و ثواب کے ڈھیر...(المصنف استاد بخاری حدیث30082)

مختلف جگہوں سے سو دو سو پانچ سو ہزار آیات کی تلاوت روزانہ کی جائے تو بہتر ورنہ بابرکت راتوں میں تو یہ ہندسے ضرور پورے کرنے چاہیے

.

سورہ یسین

ہر چیز کے لیے دل ہے اور قرآن کا دل یس ہے، جس نے یس پڑھی دس مرتبہ قرآن پڑھنا اللہ تعالی اس کے لیے لکھے گا

الترمذي''،کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء في فضل سورۃ یس، الحدیث:۲۸۹۶،

.

جو شخص ﷲتعالی کی رضا کے لیے یس پڑھے گا، اس کے اگلے گناہوں کی مغفرت ہوجائے گی۔ لہذا اس کو اپنے مردوں کے پاس پڑھو۔ (شعب الإیمان''، باب في تعظیم القرآن، فصل في فضائل السور.. الخ، الحدیث:۲۴۵۸

.

آیۃ الکرسی کا ورد کیجیے:

جو شخص کوتک اورآیۃ الکرسی صبح کو پڑھ لے گا، شام تک محفوظ رہے گا اور جو شام کو پڑھ لے گا، صبح تک محفوظ رہے گا۔الترمذي''،کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء في سورۃ البقرۃ وآیۃ الکرسی، الحدیث:۲۸۸۸،

.

سورہ ملک پڑھیے:

قرآن میں تیس آیت کی ایک سورت ہے، آدمی کے لیے شفاعت کرے گی یہاں تک کہ اس کی مغفرت ہوجائے گی۔ وہتبرک الذی بیدہ الملک کہے(سورہ ملک پڑھے)

سنن الترمذي''،کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء في فضل سورۃ الملک،الحدیث:۲۹۰۰

.

سورہ واقعہ کی فضیلت:

جو شخص سورہ واقعہ ہر رات میں پڑھ لے گا، اس کو کبھی فاقہ نہیں پہنچے گا۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ اپنی صاحب زادیوں کو حکم فرماتے تھے کہ ہر رات میں اس کو پڑھا کریں(''شعب الإیمان''،باب في تعظیم القرآن، فصل في فضائل السور والآیات، الحدیث:۲۴۹۹

.

سو دفعہ قل شریف پڑیے

سو مرتبہ قل ہو اللہ احدپڑھے، قیامت کے دن رب تبارک و تعالی اس سے فرمائے گاکہ ''اے میرے بندے!اپنی دہنی جانب جنت میں چلا جا۔'

ترمذی حدیث،۲۹۰۷

.

. کیا تم اس سے عاجز ہو کہ رات میں تہائی قرآن پڑھ لیا کرو؟ لوگوں نے عرض کی، تہائی قرآن کیونکر کوئی پڑھ لے گا؟ فرمایا کہ ''قل ہو اللہ احد

تہائی کی برابر ہے۔''

'صحیح مسلم''،کتاب صلاۃ المسافرین...إلخ، باب فضل قراء ۃ قل ہو اللہ احد...إلخ، الحدیث:۲۵۹۔(۸۱۱)

.

.

اذا زلزلت نصف قرآن کی برابر ہے اور'قل ہو اللہ احدتہائی قرآن کی برابر ہے اورقل یایہا الکفرون چوتھائی کی برابر۔

'سنن الترمذي''،کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء في إذا زلزلت، الحدیث:۲۹۰۲


8صلاۃ التسبیح انفرادی و اجتماعی طور پے پڑہیے، صلاۃ التسبیح کے دو طریقے حدیث پاک میں آئے ہیں

پہلا طریقہ و فضیلت:

حدّثنا عبد الرحمن بن بشر بن الحکم النیسابوریّ ، حدّثنا موسی بن عبد العزیز ، حدّثنا الحکم بن أبان عن عکرمۃ عن ابن عبّاس : أنّ رسول  اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قال للعبّاس بن عبد المطّلب : یا عبّاس ! یا عمّاہ ! ألا أعطیک ؟ ألا أمنحک ؟ ألا أحبوک ؟ ألا أفعل بک عشر خصال ؟ إذا أنت فعلت ذلک غفر اللّٰہ لک ذنبک أوّلہ وآخرہ ، قدیمہ وحدیثہ ، خطأہ وعمدہ ، صغیرہ وکبیرہ ، سرّہ وعلانیتہ ، عشر خصال ؛ أن تصلّی أربع رکعات ، تقرأ فی کلّ رکعۃ فاتحۃ الکتاب وسورۃ ، فإذا فرغت من القراء ۃ فی أوّل رکعۃ وأنت قائم ، قلت سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا إلہ إلّا اللّٰہ واللّٰہ أکبر خمس عشرۃ مرّۃ ، ثمّ ترکع ، فتقولہا وأنت راکع عشرا ، ثمّ ترفع رأسک من الرکوع ، فتقولہا عشرا ، ثمّ تہوی ساجدا ، فتقولہا وأنت ساجد عشرا ، ثمّ ترفع رأسک من السجود ، فتقولہا عشرا ، ثمّ تسجد فتقولہا عشرا ، ثمّ ترفع رأسک فتقولہا عشرا ، فذلک خمس وسبعون فی کلّ رکعۃ ، تفعل ذلک فی أربع رکعات ، إن استطعت أن تصلّیہا فی کلّ یوم مرّۃ ، فافعل ، فإن لم تفعل ، ففی کلّ جمعۃ مرّۃ ، فإن لم تفعل ففی کلّ شہر مرّۃ ، فإن لم تفعل ففی کلّ سنۃ مرّۃ ، فإن لم تفعل ففی عمرک مرّۃ ۔

”سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ، اے عباس ، اے میرے چچا ! کیا میں آپ کو تحفہ نہ دوں ، کیا میں آپ کو گراں مایہ چیز مفت میں عطا نہ کردوں ، کیا میں آپ کے لیے دس خصلتیں بیان نہ کردوں کہ جب آپ ان کو کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کے اول وآخر ، قدیم وجدید ، غلطی سے سر زد ہونے والے اورجان بوجھ کر کیے ہوئے ، صغیرو کبیرہ ، مخفی وظاہری تمام گناہ معاف کردے ؟ وہ دس خصلتیں یہ ہیں کہ آپ چار رکعات ادا کریں۔ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ اورایک سورت پڑھیں ، پھرپہلی رکعت میں قرائت سے فارغ ہوکر قیام کی حالت میں ہی پندرہ دفعہ یہ دعا پڑھیں : سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ، وَلاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ (اللہ تعالیٰ پاک ہے ، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے)، پھر آپ رکوع کریں اور(رکوع کی تسبیحات کے بعد)رکوع کی حالت میں دس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھرآپ رکوع سے سراٹھائیں اور دس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھر آپ سجدے کے جھک جائیں اور سجدے کی حالت میں (تسبیحات کے بعد)دس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھر آپ سجدے سے اپنا سراٹھائیں اور دس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھر آپ دوسرا سجدہ کریں اوردس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھرآپ سجدے سے سر اٹھائیں اوردس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ۔ یہ ہررکعت میں کل پچھتر تسبیحات ہوجائیں گی ۔ چاروں رکعتوں میں اسی طرح کریں ۔ اگر آپ روزانہ یہ نماز پڑھ سکتے ہیں تو روزانہ پڑھیں ، ورنہ ہر ہفتے ، ورنہ ہر مہینے ایک مرتبہ پڑھ لیں ۔ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو سال میں ایک مرتبہ اوراگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو زندگی میں ایک مرتبہ یہ نماز پڑھ لیں۔”(سنن ابی داو،د : ١٢٩٧، سنن ابن ماجہ : ١٣٨٧، صحیح ابن خزیمۃ : ١٢١٦، المعجم الکبیر للطبرانی : ١١٦٢٢، المستدرک للحاکم : ١/٣١٨،  وسندہ، حسنٌ)

.

*#دوسرا طریقہ......!!*

یہ طریقہ پاکستان میں رائج و مشھور ہے

فضیلت وہی ہے جو اوپر حدیث میں ہے بس فرق ہے تو تھوڑا سا فرق ہے...فرق یہ ہے کہ پہلے طریقے میں پہلے قرات کرتے ہیں پھر تسبیح پڑھتے ہیں جبکہ اس طریقہ میں پہلے سبحانک اللھم کے بعد تسبیح پڑھتے ہیں پھر قراءت کرتے ہیں...یہ طریقہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا

وَأَمَّا حَدِيثُ عَلِيِّ ابْنِ أَبِي طَالِبٍ، فَأَخْرَجَهُ الدَّارَقُطْنِيُّ مِنْ طَرِيقِ عُمَرَ مَوْلَى غُفْرَةَ بِضَمِّ الْمُعَجْمَةِ وَسُكُونِ الْفَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيِّ ابْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «يَا عَلِيُّ! أُلَا أَهْدِي لَكَ؟ . . .» ، وَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَفِيهِ: حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ يُعْطِينِي جِبَالَ تِهَامَةَ ذَهَبًا، قَالَ: " إِذَا قَمْتُ إِلَى الصَّلَاةِ، فَقُلْ: اللَّهُ أَكْبَرُ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً. . . "، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَهَذَا يُوَافِقُ مَا نُقِلَ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ مِنْ تَقَدُّمِ الذِّكْرِ عَلَى الْقِرَاءَةِ

امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ امام دارقطنی نے سند کے ساتھ سیدنا علی سے روایت کی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صلواۃ التسبیح کا طریقہ و فضیلت بتائی....یہ وہی طریقہ ہے بس فرق یہ ہے کہ پہلے تسبیح پڑہیں گے پھر قراءت کریں گے جیسے کہ امام ابن مبارک نے طریقہ بتایا(جوکہ ترمذی میں بھی ہے...ہم نیچے وہ طریقہ مکمل لکھ رہے ہیں)

(دارقطنی،أمالي الأذكار ابن حجر33)

.

سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَكِ عَنِ الصَّلَاةِ الَّتِي يُسَبَّحُ فِيهَا، فَقَالَ : يُكَبِّرُ ثُمَّ يَقُولُ : سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ، وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ، ثُمَّ يَقُولُ - خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً - : سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ يَتَعَوَّذُ وَيَقْرَأُ : بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَفَاتِحَةَ الْكِتَابِ، وَسُورَةً، ثُمَّ يَقُولُ - عَشْرَ مَرَّاتٍ - : سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ يَرْكَعُ فَيَقُولُهَا عَشْرًا، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيَقُولُهَا عَشْرًا، ثُمَّ يَسْجُدُ فَيَقُولُهَا عَشْرًا، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيَقُولُهَا عَشْرًا، ثُمَّ يَسْجُدُ الثَّانِيَةَ فَيَقُولُهَا عَشْرًا، يُصَلِّي أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ عَلَى هَذَا، فَذَلِكَ خَمْسٌ وَسَبْعُونَ تَسْبِيحَةً فِي كُلِّ رَكْعَةٍ، يَبْدَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِخَمْسَ عَشْرَةَ تَسْبِيحَةً، ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يُسَبِّحُ عَشْرًا

امام ابن مبارک نے

صلواۃ التسبیح کا طریقہ یہ بتایا کہ تکبیر تحریمہ کہیں پھر سبحانک اللھم پوری پڑھیں پھر پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑہیں

سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ،

پھر اعوذ باللہ پھر بسم اللہ پوری پڑہیں پھر سورہ فاتحہ پھر کوئی سورت تلاوت کریں پھر دس دفعہ وہ تسبیح پڑہیں

پھر رکوع میں دس دفعہ تسبیح پڑہیں

پھر رکوع سے کھڑے ہوکر دس دفعہ تسبیح پڑہیں

پھر سجدہ میں دس دفعہ تسبیح پڑہیں

پھر سجدہ سے اٹھ کر دس دفعہ تسبیح پڑہیں پھر سجدے میں جائیں دس دفعہ تسبیح پڑہیں

پھر اسی طریقے پر چار رکعت پڑہیں ہر رکعت میں 75دفعہ تسبیح پڑھ چکے ہونگے...پہلے تسبیح پڑہیں پھر قراءت کریں

(ترمذی روایت481)

.

صلواۃ التسبیح پڑھنے کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ دو طریقے ہیں.... جو عام رائج ہے اسے پڑھنا بہتر ہے تاکہ عوام تشویش میں مبتلا نہ ہو، یہاں پاکستان میں طریقہ دوئم رائج و مشھور ہے... ہاں البتہ جب علم خوب پھیل جائے کہ دو طریقے ہیں دونوں میں سے کبھی وہ کبھی دوسرا طریقہ پڑھا جائے تاکہ دونوں پے عمل ہو،  جب یہ بات مسئلہ مشھور ہوجائے تو پھر دونوں طریقوں میں سے کسی بھی طریقے پر پڑھیے حرج نہیں......!!

.

صلواۃ التسبیح لکھنا بھی ٹھیک ہے اور صلاۃ التسبیح بھی لکھنا ٹھیک ہے...دونوں کا ایک ہی معنی ہے

.

9:کثرت سے درود پڑہیے اپنے لیے دوسروں کے لیے خوب دعائیں مانگیے،استغفار کیجیے…

الحدیث:إِذَا تَمَنَّى أَحَدُكُم فَلْيُكثِر

ترجمہ

جب تم دعا کرو تو کثرت سے دعا کرو...(ابن حبان حدیث2403)

.


الحدیث:

رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إذا دعا الرجل لأخيه بظهر الغيب، قالت الملائكة: آمين، ولك بمثل

ترجمہ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان بھائی دوسرے مسلمان بھائی کے لیے پس پشت دعا مانگتا ہے تو ملائکہ آمین کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو مانگا وہ تجھے بھی ملے گا 

(ابوداود حدیث1534)

.

حدیث پاک میں ہے کہ:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يرد القضاء إلا الدعاء

ترجمہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تقدیر کو دعا ہی بدل دیتی ہے..(ترمذی حدیث2139, ابن ماجہ حدیث90نحوہ)

.


الحدیث:

إنالدعاء ينفع مما نزل ومما لم ينزل، فعليكم عباد الله بالدعاء

ترجمہ:

بے شک دعا نفع، فائدہ دیتی ہے ان(بلاؤں مصیبتوں واقعات) میں جو نازل ہوچکے اور جو نازل نہیں ہوئے(ان سب میں دعا فائدہ دیتی ہے.. تو اے اللہ کے بندو دعا(دعا کرنا، دعا کرانا) لازم کر لو...(ترمذی حدیث3548)

.

الحدیث:

إذا صلَّى أحدُكُمْ فَلْيَبْدَأْ بِتَحْمِيدِ اللهِ والثَّناءِ عليهِ ثُمَّ لَيُصَلِّ على النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ثُمَّ لَيَدْعُ بَعْدُ بِما شاءَ

ترجمہ:

جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو سب سے پہلے اللہ کی حمد و ثناء بیان کرے پھر مجھ (یعنی نبی پاک )پر درود بھیجے پھر جو چاہے دعا کرے..(الترمذي:3447)

.


الحدیث:

من صلى عليَّ صلاةً واحدةً صلَّى الله عليه عشرَ صلواتٍ، وحُطَّت عنه عشرُ خطيئاتٍ، ورُفعَت له عشرُ درجاتٍ

ترجمہ:

جس نے مجھ پر ایک بار دروز بھیجا اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا دس خطائیں معاف فرمائے گا دس درجات بلند فرمائے گا(تو جتنا زیادہ درود پڑھو اتنا زیادہ اجر و فائدہ)

([النسائي:1296]،


10:.دو رکعت تحیۃ الوضو کی نیت سے اور و کعت تحیۃ المسجد کی نیت سے پٍڑہیے:

تحیۃ الوضو اور تحیۃ المسجد مشروع اور نہایت فضیلت والے اعمال میں سے ہیں۔ عقبہ بن عامررضی الله عنہ کی حدیث میں رسول اللہ کا فرمان ہےجو مسلمان آدمی وضو کرتا ہے، بہت اچھا وضو کرتا ہے پھر کھڑا ہوتا ہے اور دو رکعت ادا کرتا ہے اپنے دل اور منہ سے (یعنی ظاہری اور باطنی طور پر) ان دو رکعتوں پر متوجہ ہونے والا ہے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔۔۔ 

(مسلم، کتاب الطہارۃ، باب الذکر المستحب عقب الوضوء، ح:۴۳۲)


ابو ہریره رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فجر کی نماز کے وقت بلال رضی الله عنہ سے فرمایا:اے بلال مجھے اپنا وہ عمل بیان کرو جو تم نے اسلام میں کیا اور تجھے اس پر ثواب کی بہت امید ہے، یقیناًمیں نے اپنے آگے جنت میں تیرے چلنے کی آواز سنی ہے۔ بلال رضی الله عنہ نے کہا مجھے جس عمل پر ثواب کی بہت امید ہے وہ یہ ہے کہ میں نے رات یا دن جب بھی وضو کیا تو اس وضو کے ساتھ جس قدر نماز میرے مقدر میں تھی میں نے ضرور پڑھی۔

(بخاری، کتاب التہجد، باب فضل الطہور باللیل و النھار، ح: ۹۴۱۱)


ابو قتادہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی ایک مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھ لے۔ 

(بخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب اذا دخل احدکم المسجد فلیرکع رکعتین:ح۴۴۴، مسلم:۴۱۷)

.

.

11:دیگر کچھ وظائف

وظیفہ نمبر①:*

اس دعا کی کثرت سے ورد کیجیے :

*"اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ البَرَصِ، وَالْجُنُونِ، وَالْجُذَامِ، وَمِنْ سَيِّئِ الْأَسْقَامِ."*

*(ابوداود حدیث1554)*

.

.

*وظیفہ②:*

الحدیث، ترجمہ :

سورہ فاتحہ ہر مرض (ہر نقصان دہ چیز، نظر، جن، جادو اور بیماریوں) سے شفاء ہے

*(بیہقی1/357)*

.

*وظیفہ③:*

الحدیث، ترجمہ :

آیۃُ الکرسی صبح کو پڑھو تو شام تک اور شام کو پڑھو تو صبح تک (ہر نقصان دہ چیز یعنی جن، جادو، نظر اور بیماریوں وغیرہ) سے نجات ہے..

*(بیہقی1/359)*


.

*وظیفہ④:*

الحدیث:

*عَن ْعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اشْتَكَى يَقْرَأُ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ، وَيَنْفُثُ، فَلَمَّا اشْتَدَّ وَجَعُهُ كُنْتُ أَقْرَأُ عَلَيْهِ، وَأَمْسَحُ بِيَدِهِ رَجَاءَ بَرَكَتِهَا.*

ترجمہ :

سیدہ طیبہ طاہرہ بی بی عائشہ فرماتی ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ بھی تکلیف و بیماری ہوتی تو چار قل شریف پڑھ کر اپنے اوپر دم فرما دیتے، جب آپ علیہ الصلاۃ والسلام شدید بیمار ہوئے تو میں(بی بی عائشہ رضی اللہ عنھا) چار قل پڑھ کر دم کرتی اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا ہاتھ انہی کے جسم پر پھیرتی، ان کے ہاتھ کی برکت کی امید سے...

*(بخاری حدیث5016)*


نظر، جن، جادو اور برے تعویذات کا خطرہ ہو یا محسوس ہو کہ نظر لگی ہے یا محسوس ہو کہ جنات کا اثر ہوا ہے یا محسوس ہو کہ جادو کا اثر ہے، 

یا 

کسی بیماری کے لگنے کا خدشہ ہو

 یہ سب محسوس ہو یا ان سب کا خطرہ و خدشہ ہو یا وہم و گمان ہو تویقین کامل کے ساتھ  سورہ فاتحہ یا ایۃ الکرسی یا چار قل پڑھ کر دم کیجیے یا کسی نیک سے پڑھوا کر دم کرائیے اور ساتھ ساتھ دنیاوی علاج بھی کرائیے کہ نظر، جن جادو اور برے تعویذات کی وجہ سے کبھی کبھار بیماریاں بھی لگ جاتی ہیں تو دم و دعا کے ساتھ دوا بھی برحق و لازم ہے۔

.

وظیفہ⑤:

الحدیث:

مَنْ رَأَى صَاحِبَ بَلاَءٍ، فَقَالَ: الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلاَكَ بِهِ، وَفَضَّلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلاً، إِلاَّ عُوفِيَ مِنْ ذَلِكَ البَلاَءِ

ترجمہ:جو کسی مصیبت.و.بیماری زدہ کو دیکھےاور(دوا احتیاط کے ساتھ ساتھ یہ دعا)پڑھے

الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلاَكَ بِهِ، وَفَضَّلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلاً


تو اس مصیبت و بیماری سےمحفوظ کیا جائے گا(ان شاء اللہ عزوجل)

(ترمذی حدیث3431)

.

*وظیفہ⑥:*

الحدیث،ترجمہ:

جو(احتیاط و دوا کے ساتھ ساتھ)صبح شام تین تین بار

بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ، فِي الْأَرْضِ، وَلَا فِي السَّمَاءِ، وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ


پڑھے تو (ان شاء اللہ عزوجل) اچانکی بلاء(اچانک مصیبت، اچانک بیماری، اچانک موت ، ہارٹ اٹیک، فالج، اچانک وائرس کے حملے) سے محفوظ رہے گا...(ابو داؤد حدیث5088)

.


*وظیفہ⑦:*

نمازِ حاجات پڑھیے اور کامل یقین کے ساتھ دعا کیجیے کہ یا رب کریم میری فلاں حاجت و ضرورت ہے اسے پورا فرما

الحدیث :

*"كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا حَزَبَهُ أَمْرٌ صَلَّى"*

ترجمہ تفسیری :

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی تکلیف و مشکل ہوتی، کوئی حاجت ہوتی تو (دو رکعت) نفل نمازِ حاجات ادا فرماتے(تاکہ امتی سیکھ لیں کہ حاجت کے وقت مشکلات کے وقت نوافل حاجات بھی پڑھنے چاہیے)

*(ابو داود حدیث1319)*

.

*نمازِ حاجات کا طریقہ①:*

تازہ وضو کیجیے، اچھے طریقے سے وضو کیجیے، دو رکعت نفل پڑھیے اور یہ دعا پڑھیے:

*"اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى،اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ"*

 اور پھر اپنی من پسند اچھی دعا مانگیے، نظر، جن اور  جادو وغیرہ سے حفاظت کی دعا مانگیے..

*(دیکھیے ابن ماجہ حدیث1385)*

.

*نمازِ حاجات کا طریقہ②:*

تازہ وضو کیجیے، اچھی طرح وضو کیجیے پھر دو رکعت نفل حاجات پڑھیے

پھر اللہ پاک کی ثناء کیجیے

پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھیے

پھر یہ دعا پڑھیے

*"لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ، وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ، وَلَا حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا إِلَّا قَضَيْتَهَا، يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ"*

پھر اپنی من پسند ، اچھی دعا مانگیے، نظر، جن اور جادو وغیرہ سے حفاظت کی دعا مانگیے۔

*(دیکھیے ترمذی حدیث479)

.

*#ایک پیسہ یا ایک روپیہ یا ایک ڈالر وغیرہ ایک کے بدلے دو کروڑ سے بھی زیادہ.......؟؟*

آج رات مغرب کے بعد خوب خوب پیسہ خرچ کیجیے اللہ کی راہ میں....فطرانہ زکواۃ نفلی صدقہ تعاون کیجیے سچے اہلسنت علماء لکھاری مدرسین خطباء امام مسجد کو خوب پیسہ آج کی رات دیجیے، معتبر مدرسہ اہلسنت کے لیے خوب پیسہ دیجیے آج کی رات

کیونکہ

آج کی رات کے متعلق قوی امکان ہے کہ شب قدر ہے اور شب قدر ایک ہزار مہینے سے افضل ہے گویا ایک کے بدلے ایک ہزار مہینے جتنا ثواب....ہر مہینہ تیس انتیں کا ہوتا ہے تو

1×30×1000=30,000

اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا ثواب ایک کے بدلے سات سو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ثواب ہے تو

30000×700=21000000

.

تو ایک کے بدلے دو کروڑ سے بھی زیادہ خرچ کرنے کا ثواب....سنہری موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیجیے

.

دلائل:

القران:

لَیۡلَۃُ  الۡقَدۡرِ ۬ ۙ خَیۡرٌ  مِّنۡ  اَلۡفِ شَہۡرٍ ؕ

ترجمہ:شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے

(سورہ قدر آیت3)

.

وَقيل: سبع وَعشْرين، وَهُوَ قَول جمَاعَة من الصَّحَابَة،

جماعت ِصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کےمطابق امیدِ قوی ہےکہ شب قدر ستائیس رمضان کی رات ہے

(عمدۃ القاری شرح بخاری1/225)

.

لَيْلَةُ صَبِيحَةِ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ

سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے(رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعا یا معنا یا روایتا یا اجتہادا)فرمایا کہ شب قدر ستائیس رمضان کی رات ہے

(مسلم روایت762)

.

عن معاوية بن أبي سفيان، عن النبي صلى الله عليه وسلم في ليلة القدر قال: «ليلة القدر ليلة سبع وعشرين

ترجمہ:

حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے لیلۃ القدر کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے(سماعا یا معنا یا روایتا یا اجتہادا) کہا ہے کہ رمضان کی ستائیسویں رات شب قدر ہے

(ابو داؤد حدیث1386)

.

القرآن:

مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ  وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ

ان کی مثال جو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے اگائیاں سات بالیں ہر بال میں سو دانے  اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے

(سورہ بقرہ آیت261)

اللہ کی راہ خرچ کرنے کی اتنی فضیلت و ثواب ہے کہ ایک کے بدلے سات سو بلکہ اس سے بھی زیادہ اور شب قدر میں خرچ کرنا ایک ہزار مہینے جتنا خرچ کرنا ہے تو ایک کے بدلے دو کروڑ سے بھی زیادہ ثواب.....اور اہلسنت مدارس و طلباء علماء پر خرچ کرنا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے

.

فمن أنفق ماله فى طلبة العلم صدق انه أنفق فى سبيل الله

 پس جس نے طالب علموں(مدارس علماء طلباء) پر صدقہ(زکوٰۃ فطرہ کفارہ نفلی صدقہ مال)خرچ کیا بےشک اس نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا

(التفسير المظهري ,4/239)

تو اہلسنت مدارس پر طلباء پر خرچ کیجیے اور ایک کے بدلے دو کروڑ بھی زیادہ ثواب کمائیے....صدقے کے اور برکات بھی ہیں مثلا بلائیں دور ہوتی ہیں، رزق میں برکت ہوتی ہے،راحت و سکون ملتا ہے،کنجوسی وغیرہ باطنی امراض سے نجات ملتی ہے اور بھی بے شمار برکات ہیں

تو

پھر دیر کس بات کی.....؟؟ رمضان کی طاق راتوں اور بالخصوص اج ستائیس رمضان میں خوب پیسہ پانی کی طرح بہاءییے ڈھیروں اجر سکون رات و دعائیں پائیے اور اس کے ساتھ ساتھ عبادات ذکر ازکار بھی کیجیے، فرج واجب سنتوں مستحبات نیکیوں پے عمل کرتے رہیے اور گناہوں سے پچتے رہیے اور توبہ استغفار کرتے رہیے اور اللہ سے قبولیت کی امید رکھیے اور خوف خدا بھی رکھیے، اللہ کے قہر و عذاب و ناراضگی سے پناہ طلب کیجیے......!!

.

فطرانہ رسول کریم.صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا ہے ایک صاع کجھور یا جؤ یا آدھا صاع گندم

(ابو داود حدیث نمبر1622)

صاع ایک پیمانہ ہے.. آج کل کے وزن کے حساب سے ایک صاع میں تقریبا 4کلو 100گرام پڑتے ہیں.. اور آدھے صاع میں 2 کلو50 گرام پڑتے ہیں..اس طرح چار کلو سو گرام کجھور یا جؤ... یا دوکلو پچاس گرام گندم یا گندم کا آٹا

یا

مذکورہ چیزوں میں سے کسی کی قیمت ادا کرنا صدقہ فطر اور فطرانہ کہلاتا ہے(از فتاوی فیض الرسول 1/510)

مختلف ممالک علاقوں شہر صوبے میں ان چیزوں کے ریٹ مین کچھ کمی بیشی ہوتی ہے تو اس لیے فطرانہ کی رقم میں بھی کمی بیشی ہوتی ہے....اپنے علاقے میں مذکورہ اشیاء کی مذکورہ مقدار کا ریٹ پوچھیے اور احتیاطاً اس سے تھوڑا زیادہ رقم مکس کرکے فطرانہ ادا کیجیے

.

اپنے مال کا چالیسواں حصہ زکواۃ ادا کرو..(ابو داود حدیث نمبر 1572)کل رقم کو چالیس پر تقسیم کریں جو جواب آئے وہ زکواۃ ہے.......!!

.===============

 *مسجد میں جمع ہوکر قرآن و حدیث فقہ وغیرہ کا درس سننا سنانا علم پڑھنا پڑھانا نوافل پڑھنا پڑھانا ذکر و اذکار کرنا حقیقتا بدعت نہیں یا بری بدعت نہیں کہ ان سب کی اصل یہ دو احادیث مبارکہ بھی ہیں*

حدیث①

وما اجتمع قوم في بيت من بيوت الله يتلون كتاب الله ويتدارسونه بينهم إلا نزلت عليهم السكينة وغشيتهم الرحمة وحفتهم الملائكة، وذكرهم الله فيمن عنده

 لوگ جمع ہو کر اللہ کے گھر(مسجد) میں تلاوت کریں، قرآن (اور قرآن کے متعلقات یعنی حدیث فقہ و تصوف وغیرہ کا) درس دیں وعظ و بیان کریں تو ان پر اللہ کی رحمت اترے گی اور رحمت ان کو ڈھانپ لے گی اور فرشتے ان کو گھیر لیں گے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر کرے گا اپنے پاس رہنے والوں میں (یعنی فرشتوں میں)

(مسلم حدیث6853)

.

حدیث②

" لا يقعد قوم يذكرون الله عز وجل إلا حفتهم الملائكة، وغشيتهم الرحمة، ونزلت عليهم السكينة وذكرهم الله فيمن عنده "،

‏‏‏‏ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لوگ(مسجد یا کسی اور جگہ مل)بیٹھ کر اللہ کا ذکر کریں تو ان کو فرشتے گھیر لیتے ہیں اور رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور سکینہ (اطمینان اور دل کی خوشی) ان پر اترتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرشتوں میں ان کا ذکر کرتا ہے

(مسلم حدیث6855)

.

 ان دونوں احادیث مبارکہ اور دیگر احادیث مبارکہ سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ہر دن یا کسی وقت یا مخصوص ایام و راتوں میں مسجد یا کسی جگہ مل بیٹھ کر قران پڑھنا سننا، ذکر کرنا وعظ تقریر کرنا سننا، علم پھیلانا، نوافل عبادات پڑھنا پڑھانا وغیرہ یہ سب کچھ بری بدعت نہیں جائز و ثواب ہے...کیونکہ یا نیا اچھا طریقہ بدعت نہین کہ اسکی اصل مذکوعہ احادیث ہیں

.

*صلاۃ التسبیح یا دیگر نوافل کی جماعت کرانے کی کیا دلیل و حکم ہے......؟؟*

جواب:

بخاری باب نوافل کی جماعت میں ایک واقعے کے ساتھ حدیث پاک ہے کہ ایک صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ بارش سیلاب ندی وغیرہ مجبوریوں کی وجہ سے کبھی مسجد نہیں جا پاتا تو آپ صلی اللہ علیک وسلم میرے گھر تشریف لائیں اور گھر کے ایک مخصوص حصے میں نماز ادا کریں تاکہ اس جگہ.کو میں نماز کے لیے خاص کر دوں.. آپ علیہ السلام اگلے دن سیدنا ابوبکر صدیق کے ہمراہ انکے گھر تشریف لے گئے.. پھر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کس جگہ نماز پڑھوں.. انہوں نے گھر کا ایک خاص حصہ کی طرف اشارہ کیا.. صحابہ کرام نے صف باندھی اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے  نفل کی جماعت کرائی..

(بخاری حدیث1186ملخصا)

.

اس حدیث کے تحت بہت سارے مسائل علماء نے ثابت کیے ہیں.. شارح بخاری علامہ عینی نے کوئی 55فوائد و مسائل ثابت کیے.. ان میں سے چند یہ ہیں

1:نفل کی جماعت کا ثبوت

2:تبرکات کا ثبوت

3:واقعی مجبوری ہوتو گھر میں فرض ادا کرنے کا ثبوت

4:بڑوں،بزرگوں کا ادب اور چھوٹوں پر ماتحتوں پر شفقت

5:سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت

.

نوافل صلاۃ التسبیح وغیرہ الگ بھی پڑھنا چاہیے اور جماعت کے ساتھ بھی پڑھ سکتے ہیں.. بلکہ دونون پر عمل کرنا چاہیے ڈبل ثواب ہوگا.. ان.شاء.اللہ

فقہ کی تقریبا ہر کتاب مین لکھا ہے کہ:

کبھی کبھار نفل کی جماعت ہوجایا کرے.. یا بغیرتداعی کے نوافل کی جماعت ہوتو جائز و ثواب ہے،اگر تداعی ہو تو مکروہ تنزیھی ہے مگر گناہ نہیں..

(دیکھیے فتاوی شامی جلد2 صفحہ604... فتاوی رضویہ جلد7 صفحہ430)

.

تداعی مطلب خاص نوافل کی جماعت ہی کے لیے بلانا...عام اجتماعات میں خاص نوافل ہی کے لیے نہین بلایا جاتا بلکہ اسلامی محفل کے لیے بلایا جاتا ہے اور ضمنا نوافل کی جماعت کرائی جاتی ہے

لیکن

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ تداعی کے ساتھ جماعت ہو تو بھی عوام کو مت روکو...تداعی کے ساتھ نوافل عبادت کرنے دو، یہی فی زمانہ بہتر ہے کہ ممانعت قطعی نہیں اور ترغیب و تکثیر بھی ہے

.

فتاوی رضویہ میں در مختار اور الحدیقہ الندیہ کے حوالے سے ہےکہ:

ًبہت اکابردین سے جماعت نوافل بالتداعی ثابت ہے اور عوام فعل خیر سے منع نہ کئے جائیں گے علمائے امت وحکمائے ملت نے ایسی ممانعت سے منع فرمایا ہے درمختارمیں ہے:

اما العوام فلایمنعون من تکبیر والتنفل اصلا لقلۃ رغبتھم فی الخیرات(عوام کو تکبیرات اور نوافل سے کبھی بھی منع نہ کیاجائے کیونکہ پہلے ہی نیکیوں میں ان کی رغبت کم ہوتی ہے)حدیقہ ندیہ میں ہے:

ومن ھذا القبیل نھی الناس عن صلٰوۃ الرغائب بالجماعۃ وصلٰوۃ لیلۃ القدر ونحوذلك وان صرح العلماء بالکراھۃ بالجماعۃ فیھا فلایفتی بذلك العوام لئلا تقل رغبتھم فی الخیرات وقد اختلف العلماء فی ذلك فصنف فی جوازھا جماعۃ من المتاخرین وابقاء العوام راغبین فی الصلٰوۃ اولٰی من تنفیرھم

اسی قبیل سے نماز رغائب کاجماعت کے ساتھ اداکرنا اور لیلۃ القدر کے موقع پر نماز وغیرہ بھی ہیں اگرچہ علماء نے ان کی جماعت کے بارے میں کراہت کی تصریح کی ہے مگر عوام میں یہ فتوٰی نہ دیاجائے تاکہ نیکیوں میں ان کی رغبت کم نہ ہو، علماء نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے اور متاخرین میں سے بعض نے اس کے جواز پر لکھا بھی ہے، عوام کونماز کی طرف راغب رکھنا انہیں نفرت دلانے سے کہیں بہتر ہوتا ہے

(فتاوی رضویہ جلد 7 ص,465,466, در مختار1/144 الحدیقۃ الندیہ2/150ملتقطا)

.

*بدعت کی تحقیق اور تفرقہ کا ایک حل....!!*

میلاد فاتحہ سوئم چہلم گیارویں عرس کونڈے ایصال ثواب دعا بعد جنازہ، اذان سے قبل درود شب براءت ،شب معراج، شب قدر کی سالانہ عبادات و شب بیداری وغیرہ وہ کام جو اہلسنت کرتے ہیں یہ سب مروجہ صورت میں جائز و ثواب ہیں مگر انکی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے، یہ کام مروجہ صورت کے ساتھ سنت نہیں بلکہ جائز و ثواب ہیں... سنت کے علاوہ جائز و ثواب بھی اسلام کی تعلیمات کا حصہ ہیں.. یہ تمام امور شرعا اصلا بدعت و گناہ نہیں..

.

فرقہ واریت یا اختلاف کی ایک بڑی وجہ وہ سوچ ہے جو معاشرے میں پھیلا دی گئ ہے اور مسلسل پھیلائی جا رہی ہے کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اور جو کام صحابہ کرام نے نہیں کیا وہ بدعت ہے... جو کام سنت نہین وہ بدعت ہے کہہ دیا جاتا ہے..لیھذا اذان سے پہلے درود و سلام، دعا بعد نماز جنازہ، میلاد فاتحہ شب بیداری وغیرہ وغیرہ سب بدعت ہیں..پھر یہ بدعت وہ بدعت ایک لمبی لسٹ شروع کردی جاتی ہے

جو امت میں تفرقہ کا کلیدی کردار ادا کرتی ہے.. لیھذا ان مسائل میں اتفاق کیا جائے تو *بہت بڑا #اتحاد* ہوسکتا ہے..

.

حدیث پاک میں ہے کہ:

وما سكت عنه فهو مما عفا عنه

ترجمہ:

جس چیز کے متعلق(قرآن و احادیث میں)خاموشی ہو(مطلب دوٹوک حلال یا دوٹوک حرام نہ کہا گیا ہو تو)وہ معاف ہے، جائز ہے... (ابن ماجہ حدیث3368)

یہ حدیث ترمذی اور ابوداؤد وغیرہ بہت کتابوں میں ہے

.

حدیث پاک میں ہے:

من سن في الإسلام سنة حسنة، فعمل بها بعده، كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شيء

ترجمہ:

جس نے اسلام میں نیا اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کے بعد

جو جو  اس پر عمل کرے گا ان سب کا ثواب اسے ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کمی نا آے گی

(مسلم حدیث نمبر1017...6800)

یہ حدیث پاک ابن ماجہ سنن نسائی وغیرہ بہت کتابوں میں بھی ہے

.

ان دونوں احادیث مبارک سے ثابت ہوتا ہے کہ:

①جو کام سنت نا ہو وہ معاف اور جائز کہلائے گا...لیھذا یہ کہنا کہ فلان کام سنت نہیں اس لیے بدعت ہے، یہ کہنا غلط ہے کیونکہ حدیث پاک کی روشنی سے واضح ہے کہ جو سنت نا ہو وہ معاف اور جائز کہلائے گا... ہاں اگر سنت نا ہو اور جائز بھی نا ہو بلکہ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہو تب بدعت و گناہ کہلائے گا

.

②اگر کوئی آپ سے کہے کہ فلاں کام سنت نہیں بدعت ہے تو آپ فورا جواب دیں کہ ٹھیک ہے سنت نہیں تو کیا جائز بھی نہیں...؟؟

.

③بے شک سنت کی عظمت ہے مگر اسی سنت نے ہمیں سکھایا ہے کہ سنت کے علاوہ جائز بھی کوئی چیز ہے... لیھذا سنت سنت کی رٹ لگانے کے ساتھ ساتھ جائز جائز کی رٹ لگانا بھی ضروری ہے

.

④ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ عبادت وہ نیک کام جسکا کوئی ایک طریقہ مقرر نا ہو تو اس کے نئے طریقے بدعت نہیں بلکہ اس کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں....ہاں جس کام جس عبادت کے طریقے اسلام نے متعین و مخصوص کر دیے ہیں ان میں نیا طریقہ نکالنا ٹھیک نہیں... جیسے نماز روزے کے نئے طریقے نکالنا ٹھیک نہیں مگر صدقہ خیرات ذکر اذکار درود میلاد فاتحہ ایصال ثواب شب براءت ،شب معراج، شب قدر کی سالانہ عبادات و شب بیداری وغیرہ کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں بشرطیکہ اسلام کے کسی اصول کے خلاف نا ہوں..

.

*نئے طریقے بدعت نہیں تو #پھر_آخر_بدعت_ہے_کیا.....؟؟*

دراصل بدعت کی تعریف واضح الفاظ میں کسی آیت کسی حدیث میں نہیں آئی، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو کام صحابہ کرام نے نہیں کیا وہ بدعت ہے ہم انہیں کہتے ہیں کہ کسی حدیث میں یہ دکھا دیں کہ بدعت وہ ہے جو کام صحابہ کرام نے نا کیا ہو...؟؟

کچھ لوگ کہتے ہیں جو سنت نہیں وہ بدعت ہے، یہ بھی ٹھیک نہیں کیونکہ اوپر احادیث کی زبانی بتایا جا چکا ہے کہ جو کام سنت نا ہو وہ جائز بھی کہلا سکتا ہے، سنت کے بعد جائز بھی ایک قیمتی چیز ہے

.

*پھر آخر بدعت ہے کیا.....؟؟*

آیات تفاسیر احادیث میں غور کرکے بدعت کی تعریف اخذ کی گئ ہے جسے علماء کرام نے جامع انداز میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے کہ:المراد بھا ما احدث ولیس لہ اصل فی الشرع،،ویسمی فی عرف الشرع بدعۃ، وماکان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس ببدعۃ فالبدعۃ فی عرف الشرع مذمومۃ بخلاف اللغۃ

ترجمہ:

بدعت اس نئ چیز کو کہتے ہیں جسکی شریعت میں کوئ اصل نا ہو،،شریعت میں اسی کو بدعت کہا جاتا ہے

اور

جس نئے کام کی اصل ہو کہ اس پر شریعت رہنمائ کرے وہ تو بدعت نہیں، بدعۃ شریعت میں مذموم ہی ہوتی ہے"با خلاف لغت(اور ظاہری بدعت) کے"

(فتح الباری 13/253،اصول الایمان ص126

اصول الرشاد ص64 مرعاۃ،عمدۃ القاری، مجمع بحار الانوار

فتح المبین،وغیرہ بہت کتابوں میں بھی یہی تعریف ہے

جن تین کتابوں کا مکمل حوالہ لکھا ہے وہ اس لیے کہ پہلی کتاب تمام کے ہاں معتبر ہے خاص کر اہل حدیث کے لیے

اور دوسری کتاب وہابیوں کی ہے سعودی عرب کی حکومت نے چھاپی ہے اور تیسری کتاب امام اہلسنت سیدی احمد رضا کے والد صاحب کی کتاب ہے)

.

سیدنا عمر کا فتوی اور جمھور صحابہ کرام کا عدم انکار:

نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ

یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے

(بخاری جلد2 صفحہ707)

یہ فتوی دیگر بہت کتابوں میں بھی ہے

 سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بدعت کو کیا ہی اچھی بدعت کہا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بظاہر کوئی چیز بدعت ہوتی ہے لیکن اس کی اصل شریعت میں ہوتی ہے تو وہ اچھی بدعت کہلاتی ہے اور اس پر جمھور صحابہ کرام علیھم الرضوان نے انکار بھی نہیں کیا تو اکثر صحابہ کرام کے مطابق بدعت اچھی بھی ہوتی ہے... بعض صحابہ کرام سے جو مروی ہے کہ انہوں نے بعض نیک کاموں کو بدعت کہا تو یہ ان کا  غیر مفتی بہ یا مؤول قول کہلائے گا

.

سنی وہابی نجدی شیعہ اہل حدیث وغیرہ تمام کی کتابوں میں "موضوع حدیث" لفظ بولا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں کوئ "حدیث" موضوع نہیں ہوتی ..اسکو فقط ظاہر کے لحاظ سے اور لغت و معنی مجاز کے لحاظ سے "حدیث" کہا جاتا ہے

اسی طرح "اچھی بدعت" حقیقت میں بدعت نہیں اسے فقط ظاہر کے لحاظ سے لغت و مجاز کے لحاظ سے بدعت کہا جاتا ہے... اوپر صحابہ کرام کے فتوے میں جو اچھی بدعت فرمایا گیا وہ بھی حقیقت میں بدعت نہیں...اسے ظاہر و لغت کے لحاظ سے بدعت فرمایا گیا ہے... بدعت کی جو پانچ اقسام بتائی جاتی ہیں وہ بھی دراصل ظاہر و لغت کے لحاظ سے ہیں ورنہ بدعت حسنہ حقیقتا بدعت ہی نہیں، بدعت کی تعریف میں"بخلاف لغت کے" الفاظوں میں اسی چیز کو بیان کیاگیا ہے

.

*وہابیوں اہلحدیثوں غیرمقلدوں نجدیوں کا امام ابن تیمیہ پہلے اپنا نظریہ  لکھتا ہے اور پھر بطور دلیل یا نقل امام شافعی کے قول کو برقرار رکھتا ہے کہ*

 وَمَا خَالَفَ النُّصُوصَ فَهُوَ بِدْعَةٌ بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِينَ وَمَا لَمْ يُعْلَمْ أَنَّهُ خَالَفَهَا فَقَدْ لَا يُسَمَّى بِدْعَةً قَالَ الشَّافِعِيُّ - رَحِمَهُ اللَّهُ -: الْبِدْعَةُ بِدْعَتَانِ: بِدْعَةٌ خَالَفَتْ كِتَابًا وَسُنَّةً وَإِجْمَاعًا وَأَثَرًا عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَذِهِ بِدْعَةُ ضَلَالَةٍ. وَبِدْعَةٌ لَمْ تُخَالِفْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَهَذِهِ قَدْ تَكُونُ حَسَنَةً لِقَوْلِ عُمَرَ: نِعْمَتْ الْبِدْعَةُ هَذِهِ هَذَا الْكَلَامُ أَوْ نَحْوُهُ رَوَاهُ البيهقي بِإِسْنَادِهِ الصَّحِيحِ فِي الْمَدْخَلِ

جو نص شرعی یعنی( قرآن و حدیث) خلاف ہو وہ بدعت ہے اس پر سب کا اتفاق ہے اور جس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ وہ نص کے خلاف ہے تو اس کو بدعت نہیں کہیں گے... امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں ایک بدعت وہ ہے کہ جو کتاب اللہ اور سنت کے خلاف ہو یا اجماع کے خلاف ہو یا(جمھور) صحابہ کرام کے اقوال کے خلاف ہو تو یہ بدعت گمراہی ہے اور دوسری بدعت وہ ہے کہ جو ان چیزوں کے خلاف نہ ہو تو یہ بدعت حسنہ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ سیدنا عمر نے فرمایا تھا کہ یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے، اس قسم کی بات کو امام بیہقی نے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے

( مجموع الفتاوى ابن تيميه20/163)

.

*کل بدعۃ ضلالۃ(ہر بدعت گمراہی ہے)کی وضاحت انہی ابن تیمیہ وہابی سے سنیے...لکھتا ہے*

عَنْهُ فَيَعُودُ الْحَدِيثُ إلَى أَنْ يُقَالَ: " كُلُّ مَا نُهِيَ عَنْهُ " أَوْ " كُلُّ مَا حُرِّمَ " أَوْ " كُلُّ مَا خَالَفَ نَصَّ النُّبُوَّةِ فَهُوَ ضَلَالَةٌ " وَهَذَا أَوْضَحُ مِنْ أَنْ يَحْتَاجَ إلَى بَيَانٍ بَلْ كُلُّ مَا لَمْ يُشْرَعْ مِنْ الدِّينِ فَهُوَ ضَلَالَةٌ. وَمَا سُمِّيَ " بِدْعَةً " وَثَبَتَ حُسْنُهُ بِأَدِلَّةِ الشَّرْعِ فَأَحَدُ " الْأَمْرَيْنِ " فِيهِ لَازِمٌ: إمَّا أَنْ يُقَالَ: لَيْسَ بِبِدْعَةِ فِي الدِّينِ وَإِنْ كَانَ يُسَمَّى بِدْعَةً مِنْ حَيْثُ اللُّغَةُ. كَمَا قَالَ عُمَرُ: " نِعْمَت الْبِدْعَةُ هَذِهِ " وَإِمَّا أَنْ يُقَالَ: هَذَا عَامٌّ خُصَّتْ مِنْهُ هَذِهِ الصُّورَةُ لِمُعَارِضِ رَاجِحٍ كَمَا يَبْقَى فِيمَا عَدَاهَا عَلَى مُقْتَضَى الْعُمُومِ كَسَائِرِ عمومات الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، وَهَذَا قَدْ قَرَّرْته فِي " اقْتِضَاءِ الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِيمِ " وَفِي " قَاعِدَةِ السُّنَّةِ وَالْبِدْعَةِ " وَغَيْرِهِ.

خلاصہ

 ہر بدعت گمراہی ہے تو اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے اور ایسی ہر بدعت گمراہی ہے اور جس کی اصل ثابت ہو وہ بدعت ہی نہیں ہے تو وہ لغت و ظاہر کے اعتبار سے بدعت ہے اور وہ گمراہی نہیں ہے ، وہ بدعت حسنہ ہے... یا پھر یہ کہا جائے گا کہ ہر بدعت گمراہی ہے اس عموم سے بدعت حسنہ مستثنی ہے جیسے کہ قرآن و حدیث کے کئ عموم ہوتے ہیں اور اس سے کچھ چیزیں مستثنی ہوتی ہیں

( مجموع الفتاوى ابن تيميه10/370)

.

*ابن حزم اور بدعت قولی فعلی بدعت حسنہ*

البدعة: كل ما قيل أو فعل مما ليس له أصل في ما نسب إليه، وهو في الدين كل ما لم يأت [في القرآن ولا] عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، إلا منها ما يؤجر عليه صاحبه ويعذر فيما قصد به الخير، ومنها ما يؤجر عليه صاحبه جملة ويكون حسنا

 بدعت ہر اس قول کو کہتے ہیں ہر اس فعل کو کہتے ہیں کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو... شریعت میں بدعت وہ ہے کہ جس کی اصل قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو... جس کی اصل ثابت ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اس پر اجر دیا جاتا ہے

(رسائل ابن حزم4/410)

.

*ابن جوزی اور بدعت*

 ومتى أسند المحدث إِلَى أصل مشروع لم يذم

 جس بدعت کی اصل ثابت ہو اس کی مذمت نہیں ہے( وہ تو دراصل بدعت ہے ہی نہیں اسے تو ظاہر اور لغت کے اعتبار سے بدعت کہا جاتا ہے)

(ابن جوزي تلبيس إبليس ص18)

.

*وہابیوں اہلحدیثوں غیرمقلدوں نجدیوں کا امام شوکانی علامہ ابن حجر کی عبارت لکھتا ہے اور اسکی نفی نہیں کرتا جسکا صاف مطلب ہے کہ یہ عبارت، یہ نظریہ بھی یا یہی نظریہ ٹھیک ہے*

وَالتَّحْقِيقُ أَنَّهَا إنْ كَانَتْ مِمَّا يَنْدَرِجُ تَحْتَ مُسْتَحْسَنٍ فِي الشَّرْعِ فَهِيَ حَسَنَةٌ، وَإِنْ كَانَتْ مِمَّا يَنْدَرِجُ تَحْتَ مُسْتَقْبَحٍ فِي الشَّرْعِ فَهِيَ مُسْتَقْبَحَةٌ، وَإِلَّا فَهِيَ مِنْ قِسْمِ الْمُبَاحِ، وَقَدْ تَنْقَسِمُ إلَى الْأَحْكَامِ الْخَمْسَةِ

 تحقیق یہ ہے کہ جو ظاہر اور لغت کے اعتبار سے بدعت ہو تو اس کی تقسیم کچھ یوں ہوگی کہ اگر وہ شریعت کے کسی اصول کے  تحت اچھی درج ہو سکتی ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر وہ شریعت کے کسی اصول کے تحت بری ہو تو وہ بری بدعت ہے اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہو تو وہ بدعت مباحہ ہے اور بدعت کی پانچ قسمیں بیان کی جاتی ہے

(كتاب نيل الأوطار3/65)

.

*کل بدعۃ ضلالۃ کا جواب و وضاحت*

فإن قلت: ففي الحديث: "كل بدعة ضلالة "؟ قلت: أراد بدعة لا أصل لها في الإسلام؛ بدليل قوله: "من سنَّ سُنَّةً حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها إلى يوم القيامة

 حدیث میں جو ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے تو اس سے مراد وہ ہے کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو وہ گمراہی ہے (کیونکہ بدعت جس کی اصل ثابت ہو وہ گمراہی نہیں)کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ جس نے نیا اچھا طریقہ جاری کیا تو اسے اجر ملے گا اور عمل کرنے والوں کا اجر بھی ملے گا قیامت تک

(الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري4/331)

.

: شر الأمور محدثاتها: يعني: المحدثات التي ليس لها في الشريعة أصل يشهد لها بالصحة والجواز، وهي المسمّاة بالبدع؛ ولذلك حكم عليها بأن كل بدعة ضلالة. وحقيقة البدعة: ما ابتُدئ وافتُتح من غير أصل شرعي، وهي التي قال فيها - صلى الله عليه وسلم -: من أحدث في أمرنا ما ليس منه فهو ردّ

 تمام نئے امور میں سے گندی چیز بدعت ہے... نئے امور جو برے ہیں ان سے مراد وہ ہیں کہ جن کی اصل شریعت میں ثابت نہ ہو اسی کو بدعت کہتے ہیں اور اسی لئے کہتے ہیں کہ ہر بدعت گمراہی ہے یہی بدعت کی حقیقت ہے حدیث پاک میں ہے کہ جو ہمارے دین میں نئی چیز پیدا کرے تو وہ مردود ہے تو اس سے مراد بھی یہی بدعت ہے کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو

(القرطبی..المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم2/508)

.

*بدعت کی تعریف و تنقیح پے مزید کچھ حوالے*

، ومتى استند المحدث إلى أصل مشروع لم يذم...متى تكون البدعة حسنة؟فالبدعة الحسنة متفق على جواز فعلها والاستحباب لها رجاء الثواب لمن حسنت نيته فيها، وهي كل مبتدع موافق لقواعد الشريعة غير مخالف لشيء

 ہر وہ نیا کام کہ جس کی اصل ثابت ہو تو اس کی مذمت نہیں ہے... بدعت کب حسنہ ہو جاتی ہے کہ اس پر عمل جائز ہو جائے اور ثواب کی امید ہو تو بظاہر جو بدعت ہو وہ اگر شرعی قواعد کے موافق ہو تو بدعت حسنہ ہے

(حقيقه السنة والبدعة للسيوطي ص92)

.

ما ليس له أصلٌ في الشرع، وإنما الحامل عليه مجرد الشهوة أو الإرادة، فهذا باطلٌ قطعًا، بخلاف محدَثٍ له أصلٌ في الشرع إما بحمل النظير على النظير، أو بغير ذلك؛ فإنه حسنٌ....فالحاصل: أن البدعة منقسمةٌ إلى الأحكام الخمسة؛ لأنها إذا عرضت على القواعد الشرعية. . لم تخل عن واحدٍ من تلك الأحكام

 ہر وہ بدعت کہ جس کی شریعت میں اصل ثابت نہ ہو بلکہ اس پر عمل کرنے کے لیے خواہش نفس ہی ہو تو یہ قطعاً باطل بدعت ہے اور وہ نیا کام کہ جو بظاہر بدعت ہو لیکن اس کی شریعت میں اصل موجود ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے... الحاصل بدعت کی پانچ قسمیں ہیں کیونکہ بدعت کو قواعد شریعت پر پرکھا جائے گا تو پانچ قسمیں بنیں گی

(الفتح المبين بشرح الأربعين لابن حجر الہیثمی ص476)

.

أَنَّ الْبِدْعَةَ الْمَذْمُومَةَ مَا لَيْسَ لَهَا أَصْلٌ مِنَ الشَّرِيعَةِ يُرْجَعُ إِلَيْهِ، وَهِيَ الْبِدْعَةُ فِي إِطْلَاقِ الشَّرْعِ، وَأَمَّا الْبِدْعَةُ الْمَحْمُودَةُ فَمَا وَافَقَ السُّنَّةَ، يَعْنِي: مَا كَانَ لَهَا أَصْلٌ مِنَ السُّنَّةِ يُرْجَعُ إِلَيْهِ، وَإِنَّمَا هِيَ بِدْعَةٌ لُغَةً لَا شَرْعًا

 شریعت میں جو بدعت کی مذمت ہے تو اس سے مراد وہ بدعت ہے کہ جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو اور وہ نیا کام کے جو بظاہر بدعت ہو لیکن وہ اچھا ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے جس کی سنت سے اصل ثابت ہو.... بدعت حسنہ دراصل بدعت ہی نہیں اسے لغوی اعتبار سے،(ظاہری اعتبار سے)بدعت کہا جاتا ہے شرعی اعتبار سے وہ بدعت نہیں ہے

(كتاب جامع العلوم والحكم ت الأرنؤوط2/131)

.

وَمَا كَانَ مِنْ بِدْعَةٍ لَا تُخَالِفُ أَصْلَ الشَّرِيعَةِ وَالسُّنَّةِ فَتِلْكَ نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ

 وہ بدعت کے جو شریعت کے اصولوں کے خلاف نہ ہو تو وہ کیا ہی اچھی بدعت ہے

(كتاب الاستذكار لابن عبد البر 2/67)

.

) فالبَدْعَةُ بِدْعَتَانِ: بِدْعَةُ هُدَى، وبِدْعَةُ ضَلاَلَةٍ، وبِدْعَةُ الضَّلاَلةِ كُلُّ مَا ابْتُدِعَ على غَيْرِ سُنَّةِ

 بدعت کی دو قسمیں ہیں نمبر1 ہدایت والی بدعت ، نمبر2 گمراہی والی بدعت، گمراہی والی بدعت وہ ہے کہ جو سنت کے خلاف ہو

(كتاب تفسير الموطأ للقنازعي1/87)

.

وَصَفَهَا بِنِعْمَتْ لِأَنَّ أَصْلَ مَا فَعَلَهُ سُنَّةً

 جس کی اصل سنت سے ثابت ہو تو وہ کیا ہی اچھی بدعت ہے

(شرح الزرقاني على الموطأ1/418)

.

وَإِنْ لَمْ تُوجَدْ فِي الزمان الأول، فأصولها موجودة

 بدعت حسنہ کے مروجہ طریقے کہ جو بظاہر پہلے کے زمانے میں نہ تھے لیکن اس کے اصول موجود تھے تو اس لیے یہ اچھی بدعت ہیں

(الاعتصام للشاطبي ت الشقير والحميد والصيني1/48)

.


الْبِدْعَة مَا لَيْسَ بمكروه فتسمى بِدعَة مُبَاحَة وَهُوَ مَا يشْهد لحسنه أصل الشَّرْع

 ظاہر اور لغت کے اعتبار سے جو بدعت ہو لیکن وہ مکروہ نہ ہو تو اس کو بدعت مباحہ کہتے ہیں اور یہ وہ ہے کہ جس کی اصل شریعت سے ثابت ہو

(الصنعاني ،ثمرات النظر في علم الأثر ص46)

.

، وإلا فقد عرفت أن من البدع ما هو واجب....، أو مندوب

 ورنہ آپ جانتے ہیں کہ بدعت کی ایک قسم واجب بھی ہوتی ہے اور ایک قسم اچھی بھی ہوتی ہے

(عبدالحق محدث دہلوی، لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح1/507)

.

*بدعت کی تعریف تصوف کی کتب سے*

وَعَنْ زَيْنِ الْعَرَبِ الْبِدْعَةُ مَا أُحْدِثَ عَلَى غَيْرِ قِيَاسِ أَصْلٍ مِنْ أُصُولِ الدِّينِ.وَعَنْ الْهَرَوِيِّ الْبِدْعَةُ الرَّأْيُ الَّذِي لَمْ يَكُنْ لَهُ مِنْ الْكِتَابِ وَلَا مِنْ السُّنَّةِ سَنَدٌ ظَاهِرٌ أَوْ خَفِيٌّ مُسْتَنْبَطٌ وَقِيلَ عَنْ الْفِقْهِيَّةِ الْبِدْعَةُ الْمَمْنُوعَةُ مَا يَكُونُ مُخَالِفًا لِسُنَّةٍ أَوْ لِحِكْمَةِ مَشْرُوعِيَّةِ سُنَّةٍ فَالْبِدْعَةُ الْحَسَنَةُ لَا بُدَّ أَنْ تَكُونَ عَلَى أَصْلٍ وَسَنَدٍ ظَاهِرٍ أَوْ خَفِيٍّ أَوْ مُسْتَنْبَطٍ

 خلاصہ

 امام زین العرب فرماتے ہیں کہ حقیقتا شرعا بدعت اس کو کہتے ہیں کہ جو اصول دین کے قیاس سے ثابت نہ ہو، امام ھروی فرماتے ہیں کہ شرعا بدعت وہ ہے کہ جس کی قرآن اور سنت سے اصل ظاہر نہ ہو یا جسکی خفی اصل ثابت نہ ہو یا جسکی مستنبط اصل نہ ہو تو وہ شرعا بدعت ہے برائی ہے وگرنہ جسکی اصل ظاہر یا اصل خفی یا اصل مستنبط موجود ہو وہ بدعت حسنہ ہے

( بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية وشريعة نبوية في سيرة أحمدية1/87)

.

فكم من محدث حسن كما قيل في إقامة الجماعات في التراويح إنها من محدثات عمر رضي الله عنه وأنها بدعة حسنة إنما البدعة المذمومة ما يصادم السنة القديمة أو يكاد يفضي إلى تغييرها

 کئ ایسے نئے امور ہوتے ہیں کہ جو بدعت حسنہ کہلاتے ہیں جیسے کہ تراویح کی (مستقل)جماعت کروانا یہ سیدنا عمر کی بدعات حسنہ میں سے ہے ... حقیقی بدعت تو وہ ہے یا بدعت مذمومہ تو وہ ہے کہ جو سنت قدیمہ کے خلاف ہو یا سنت کو تغیر کرنے والی ہو

(الغزالي ,إحياء علوم الدين ,1/276)



.

*بدعت کے متعلق فقہ سے ایک ایک حوالہ بطور تبرک......!!*

لَكِنْ قَدْ يَكُونُ بَعْضُهَا غَيْرَ مَكْرُوهٍ فَيُسَمَّى بِدْعَةً مُبَاحَةً وَهُوَ مَا شَهِدَ لِجِنْسِهِ أَصْلٌ فِي الشَّرْعِ

 جو کام بظاہر بدعت ہو لیکن وہ مکروہ نہیں ہوتے تو اس کو بدعت مباحہ کہتے ہیں وہ وہ ہے کہ جس کی اصل شریعت میں ثابت ہو

(فقه حنفي البحر الرائق 3/258)


.

البدعة منقسمة إلى واجبة ومحرمة ومندوبة ومكروهة ومباحة, قال: والطريق في ذلك أن تعرض البدعة على قواعد الشريعة, فإن دخلت في قواعد الإيجاب .. فهي واجبة أو في قواعد التحريم .. فمحرمة, أو المندوب .. فمندوبة, أو المكروه .. فمكروهة, أو المباح .. فمباحة

 بدعت کی درج ذیل قسمیں ہے واجب مکروہ حرام مستحب مباح.... اس کی صورت یہ ہے کہ بدعت کو شریعت کے قواعد پر پرکھا جائے گا اگر وہ واجب کے قواعد میں ہو تو بدعت واجبہ ہے اگر وہ حرام کے قواعد میں ہو تو بدعت حرام ہے اور اگر وہ مستحب کے زمرے میں آتی ہوں تو بدعت مستحب ہے اور اگر وہ مکروہ کے تحت آتی ہو تو مکروہ ھے ورنہ مباح ہے

(فقہ شافعی النجم الوهاج في شرح المنهاج10/323)

(فقہ حنفی رد المحتار,1/560 نحوہ)



.

أحدث في الإسلام مما لا أصل له لا في الكتاب ولا في السنة

 شریعت کی رو سے بدعت وہ ہے کہ جس کی کوئی اصل ثابت نہ ہو قرآن سے اور نہ ہی سنت سے(جس کی اصل ثابت ہو وہ تو بدعت ہی نہیں وہ تو اچھی بدعت و ثواب ہے)

(فقہ حنبلی شرح زاد المستقنع - الشنقيطي - التفريغ210/8)

.

تَقَدَّمَ ذِكْرُ أَصْلِ فِعْلِهَا وَمَا كَانَ كَذَلِكَ فَلَا يَكُونُ بِدْعَةً...أَنَّ الْبِدَعَ قَدْ قَسَّمَهَا الْعُلَمَاءُ عَلَى خَمْسَةِ أَقْسَامٍ:بِدْعَةٌ وَاجِبَةٌ الْبِدْعَةُ الثَّانِيَةُ: بِدْعَةٌ مُسْتَحَبَّةٌ الْبِدْعَةُ الثَّالِثَةُ: وَهِيَ الْمُبَاحَةُ الْبِدْعَةُ الرَّابِعَةُ:وَهِيَ الْمَكْرُوهَةُ الْبِدْعَةُ الْخَامِسَةُ: وَهِيَ الْمُحَرَّمَةُ

 اس کی اصل ثابت ہے تو یہ بدعت نہیں... بے شک بدعت کی علماء نے پانچ قسمیں بنائی ہے بدعت واجب بدعت مستحب بدعت مباح بدعت مکروہ بدعت حرام

(فقہ مالکی المدخل لابن الحاج..290...2/257)

.

الحاصل:

خلاصہ یہ ہے کہ

①سنت کے علاوہ جائز بھی اسلام کا ایک اہم ستون ہے... جائز کو بھلانا گمراہی و تفرقہ کا باعث ہے

②ہر نئ چیز شرعا مذموم بدعت نہیں ہوتی...جو سنت نا ہو وہ بدعت نہیں بلکہ جائز کہلائے گی بشرطیکہ کہ اسلامی اصول کے خلاف نا ہو...بدعت اس نئ چیز کو کہتے ہیں جسکی اصل موجود نہ ہو

③میلاد فاتحہ اذان سے پہلے درود، بعد نماز جنازہ دعا، سوئم چہلم گیارویں عرس کونڈے ایصال ثواب ، شب براءت ،شب معراج، شب قدر کی سالانہ عبادات و شب بیداری وغیرہ جو کام اہلسنت کرتے ہیں وہ برائی و بدعت نہیں کیونکہ انکی اصل قرآن و سنت میں موجود ہے... ذرا غور کیجیے گا کہ مذکورہ کام جس طریقے سے آج کیے جاتے ہیں بالکل اسی طریقے سے پہلے نہیں کیے جاتے تھے مگر ان امور کی اصل قرآن وسنت مین موجود ہے لیھذا یہ موجودہ مروجہ طریقوں کے ساتھ مذکوہ کام سنت نہیں بلکہ جائز و ثواب ہیں مگر انکی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے......!!


.

✍تالیف و تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

old but working whatsap nmbr

03468392475

00923468392475

New but second whatsapp nmbr

03062524574

00923062524574

رابطہ اولڈ وٹس اپ نمبر پے فرماءیے مگر دونوں نمبر سیو رکھیے اور گروپس میں بھی دونون نمبر شامل کرکے ایڈمین بنا دیجیے کہ پرانہ نمبر کبھی کبھار گربڑ کرتا ہے تو نیو نمبر سے دینی خدمات جاری رکھ سکیں...جزاکم اللہ خیرا

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.