الوداع ماہ رمضاں کہنا پڑھنا جائز یا ناجائز....؟؟

 *#الوداع_ماہ_رمضان پےاعتدال برداشت حسن ظن....؟؟*

تمھید:

قبلہ مفتی ابوبکر صدیق شازلی صاحب نے فرمایا...المفھوم: کہ الوداع ماہ رمضان جو رائج ہے اس میں بناوٹی غم ہوتا ہے اور پھر مہمان آیا ہو اور آپ الوداع کہہ کر غم کریں یہ کہاں کی عقلمندی ہے...لیھذا الوداع الوداع منقبت و انداز وغیرہ کو ترک کر دیں...(جیسے کہ انکو وڈیو وائرل میں سنا جاسکتا ہے،ہم نے مفھوم و خلاصہ بیان کیا ہے)

.

جبکہ دوسری طرف شد و مد کے ساتھ الوداع الوداع کے جائز ہونے کے دلائل دییے جا رہے ہیں

.

*#مجھ ناچیز کی عرض.....!!*

اسلاف و متاخرین کے اقوال و دلائل کو تطبیقا دیکھا جاءے تو کہنا پڑے گا کہ سچے غم و فراق میں الوداع الوداع کہنا اور سچوں اچھوں کی نقل میں بغیر سچے غم کے بھی محض انکی نقل و مشابہت میں الوداع الوداع کہنا دونوں صورتیں جائز ہیں

البتہ

کبھی کبھار کسی سال یہ کہہ کر کہ لوگو فراق و غم ہونا چاہیے مگر  ہم اس بار یا اگلے سال الوداع الوداع کی محفل منعقد نہ کریں گے تاکہ عوام اسے لازم نہ سمجھے..ایسا بھی ہونا چاہیے...اور یہ گمان بھی نہ کیا جائے کہ فلاں دل سے غم میں الوداع کہہ ہے ہے اور فلاں دل سے نہیں...رہی بات مہمان والے قیاس کی تو محبوب سامنے ہو اور پتہ ہو کہ محبوب جانے والا ہے تو اسکی خدمت کے ساتھ ساتھ غم کا اظہار بھی طبعی ہے کہ محبوب سے دوبارہ نہ جانے ملاقات ہو نہ ہو...الوداع ماہ رمضان کو جائز کہنے والوں اور ناجائز کہنے والوں دونوں طرف سے تھوڑا سا سختی و بےاحتیاطی کا اظہار لگ رہا ہے ہماری عرض ہے کہ دونوں کو مزید زیادہ احترام و برداشت و احتیاط سے کام لینا چاہیے

.

*#دلائل.و.حوالہ جات.و.تفصیل.....!!*

قبلہ مفتی ابوبکر صدیق صاحب نے وجد یا دھمال کا جواز فتوے میں مختلف احادیث سے دلائل و فتاوی رضویہ وغیرہ اسلاف کی کتب کے حوالہ جات نقل کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:

وجد حقیقی تو نہ ہو مگر اہل حال کی پیروی و مشابہت سے ہو تو جائز ہے،بشرطیکہ ریاکاری نہ ہو مگر دیکھنے والوں کے لیے بدگمانی(کرنا کہ فلاں بناوٹی جعلی ہے یہ گمان)حرام ہے...(مفتی ابوبکر صاحب کی کتاب تین اہم فتوے ص22..31ملخصا ماخوذا ملتقطا)

.

اس مبارک فتوے کی صریح اصل یہ دو حدیثیں ہیں جنہیں سیدی اعلیٰ حضرت نے بھی فتاوی رضویہ جلد22 وغیرہ میں بتکلف رونے بناوٹی مشابہت اختیار کرنے کے جائز ہونے پر نقل کیا

مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ

 جو جس قوم سے مشابہت کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا

(ابوداود حدیث4031)

.

فَإِنْ لَمْ تَبْكُوا فَتَبَاكَوْا

 اگر رونا نہ آئے تو(اچھوں کی مشابہت و پیروی میں اور اس امید پر کہ حال سچا ہو ہی جائے گا اس امید پر) بتکلف(غیر سچا بغیر دل سے بھی)رویا کرو

(ابن ماجہ حدیث1337)

.

 دلائل اور فتوے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جو رمضان المبارک کا روزہ کا ، تراویح کا سچا محب تھا باعمل تھا تو اسے غم کرنا رونا الوداع الوداع پڑھنا جائز ہے

لیکن

جسے سچا غم نہ ہو وہ بھی سچے اچھے کی مشابہت میں روئے اور یہ امید ہو کہ کاش اسے بھی رمضان روزے تراویح سے سچی محبت ہوجائے تو اسے بھی بناوٹی بتکلف رونا چاہیے کہ شاید مشابہت کرتے کرتے سچا عشق ہو ہی جائے

مگر

ہم پر لازم ہے کہ ہم حسن ظن رکھیں کسی کو ریاکار نہ کہیں..کسی کو بناوٹی نہ کہیں جیسے کہ قبلہ مفتی ابوبکر صدیق صاحب کے فتاوی رضویہ سے نقل کردہ فتوے سے واضح ہے کہ ہم بدگمانی نہ کریں

.

نیز یہ غم و فراق مسلسل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ عید پے خوشی و مبارکبادی سنت و اسلاف سے ثابت ہے...

وَإِن هَذَا الْيَوْم يَوْم عيدنا وَهُوَ يَوْم سرُور شرعی....واستحباب التبشير عِنْد تجدّد النِّعْمَة واندفاع الْكُرْبَة

 وہ جو حدیث پاک میں ہے کہ ہر قوم کی عید ہوتی ہے خوشی کا دن ہوتا ہے اور یہ آج ہمارا عید کا دن ہے یعنی شرعی خوشی کا دن ہے کہ شریعت میں جو جائز ہو وہ خوشی کرنی چاہیےعید وغیرہ خوشی کے دن و مواقع پے،  نعمتوں پے مواقع پے، تکلیف پریشانی وغیرہ کے ختم ہوجانے کے مواقع پے

(عمدۃ القاری شرح بخاری6/270 ، 18/55)

.

وَالتَّهْنِئَةُ تَكُونُ بِكُل مَا يُسِرُّ وَيُسْعِدُ مِمَّا يُوَافِقُ شَرْعَ اللَّهِ تَعَالَى، وَمِنْ ذَلِكَ: التَّهْنِئَةُ بِالنِّكَاحِ، وَالتَّهْنِئَةُ بِالْمَوْلُودِ، وَالتَّهْنِئَةُ بِالْعِيدِ وَالأَْعْوَامِ وَالأَْشْهُرِ، وَالتَّهْنِئَةُ بِالْقُدُومِ مِنَ السَّفَرِ، وَالتَّهْنِئَةُ بِالْقُدُومِ مِنَ الْحَجِّ أَوِ الْعُمْرَةِ، وَالتَّهْنِئَةُ بِالطَّعَامِ، وَالتَّهْنِئَةُ بِالْفَرَجِ بَعْدَ الشِّدَّةِ

یعنی

 ہر خوشی اور سعادت نعمت رحمت کے مواقع پر مبارک باد دینی چاہیئے بشرطیکہ کی اسلام کی خلاف ورزی کا طریقہ نہ ہو....جیسے نکاح کی مبارکبادی، اولاد پیدا ہونے کی مبارکبادی، نئے سال نئے مہینے کی مبارکبادی ، عید کی مبارکبادی سفر سے واپسی کی مبارکبادی، حج یا عمرہ کی مبارکباددی، طعام کی مبارکبادی، خوشحالی دولتمندی کی مبارکبادی وغیرہ وغیرہ

(الموسوعة الفقهية الكويتية14/97)

.

نجدیوں وہابیوں اہلحدیثوں دیوبندیوں وغیرہ کے ہاں بھی معتبر عالم ابن جوزی نے الوداع الوداع ماہ رمضان پے رسالہ لکھا ہے جس میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

 فيا إخواني قد دنا رحيل هذا الشهر وحان. فرُبَّ مُؤمل لقاء مِثْلِهِ خانه الإمكان...فودعوه بالأسف والأحزان

 اے میرے بھائیو عظیم مہینے رمضان المبارک کے جانے کا وقت ہوا چاہتا ہے، کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں اس جیسے عظیم مہینے کے دوبارہ ملنے کی امید ہوتی ہے لیکن امید پوری نہیں ہوتی... تو غم اور افسوس کے ساتھ ماہ رمضان کو الوداع کہو

(وداع رمضان ابن جوزی ص66)

.

وودعوا شھر رمضان بکثرۃ الاستغفار و العزم علی دوام الجد

یعنی

ماہ رمضاں کو الوداع کہو، کثرت سے استغفار کرکے،اور یہ عزم کرکے کہ ائندہ مزید زیادہ عبادات کرونگا

فان رمضان قد تھیاء للرحیل و لم یبقی الا القلیل

یعنی

بےشک ماہ رمضان رخصت ہوا چاہتا ہے،کچھ ہی وقت بچا ہے

ای شھر قد تولی یا عباد اللہ عنا

اے اللہ کے بندو کیسا عظیم الشان ماہ مبارک جارہا ہے

حق ان نبکی علیہ بدماء لو عقلنا

حق تو یہ بنتا ہے کہ اگر ہم میں عقلمندی ہو تو ہم اسکی جداءی میں خون کے آنسو روئیں

کیف لا نبکی لشھر مر بالغفلۃ عنا

اور کیوں نہ روئیں کہ یا تو غفلت میں گذار دیا

ثم لا نعلم انا قد قبلنا او طردنا

یا پھر عمل تو کییے مگر قبولیت کا پتہ نہیں

(تو ہمیں استغفار دعا عزم ارادے کے ساتھ ساتھ رو رو کر الوداع الوداع ماہ رمضاں الوداع کرنا چاہیے)

(طہارۃ القلوب ص175,176)


إخواني! شهرُ رمضان، أولُه رحمة، وأوسطُه مغفرة، وآخره عتقٌ من النار، كيف لا تجري للمؤمن على فراقه دموع، وهو لا يدري هل يبقى له من عمره رجوع

 اے میرے بھائیو رمضان المبارک کا عظیم مہینہ کہ جس کا اول عشرہ رحمت ہے جس کا درمیانہ عشرہ مغفرت ہے اور آخری عشرہ جہنم سے آزادی کاہے تو ایسے عظیم الشان مہینے کے جانے پر کیسے آنسو جاری نہ ہوں کہ پتہ ہی نہیں کہ دوبارہ ملے نہ ملے

(معارف الانعام ص26)


مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان حدیثِ پاک کے اِس حصے : اَتَاکُمْ رَمَضانُ شَھْرٌ مُّبارَکٌ سے دلیل اخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ماہ رمضان کی آمد پر خوش ہونا ایک دوسرے کو مبارک بار دینا سنت ہے اور جس کی آمد پر خوشی ہونا چاہئیے اس کے جانے پر غم بھی ہونا چاہئیے۔...اسی لیے اکثر مسلمان جمعۃ الوداع کو مغموم اور چشم پر نم(یعنی غمگین ہوتے اور رو رہے) ہوتے ہیں اورخطبا (یعنی خطیب صاحبان) اس دن میں کچھ وَداعیہ کلمات (الوداع ماہِ رمضان سے متعلق کچھ جملے) کہتے ہیں تاکہ مسلمان باقی ( بچی ہوئی )گھڑیوں کو غنیمت جان کر نیکیوں میں اور زیادہ کوشش کریں ان سب کا ماخذ یہ(مذکورہ حدیث کہ خوشخبری ہو مبارک مہینہ آگیا ہے)حدیث ہے

(مرآۃ شرح مشکواۃ3/137بحذف)

.

خلیفۂ امام احمد رضا خان،مفسِّرِ قراٰن،صاحِبِ تفسیر خزائن العرفان صدرُ الاْفاضِل حضرتِ علامہ مولانا مفتی سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی سے بھی ’’الوداع ماہِ رَمضان‘‘ پڑھنے کے متعلق سوال ہوا جس کا جواب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بہت خوب صورت دیا..اُس سُوال جواب کے بعض اِقتباسات مع خلاصہ ملاحظہ فرمایئے:

سوال:

رَمَضانُ المبارَک کے اَخیر جمعے کو خُطبۃُ الوَداع پڑھاجاتا ہے جس میں رَمَضانُ الْمبارَک کے فضائل و برکات کا بیان ہوتا ہے اور ا س ماہِ مبارَک کے رخصت ہونے اور ایسے بابرکت مہینے میں حسنات وخیرات (یعنی نیکیوں اور بھلائیوں ) کے ذخیرے جمع نہ کرنے پر حسرت و افسوس اور آیندہ کے لئے لوگوں کو عملِ خیر کی ترغیب اور باقی ایّامِ رَمضان میں کثرتِ عبادت کا شوق دلایا جاتا ہے، مسلمان اس خطبے کو سن کر خوب روتے اور گناہوں سے توبہ و استغفار کرتے اور آیندہ کے لئے نیکی کاعزم کرتے ہیں ۔ مذکورہ بالا کام جائز ہے یا نہیں ؟کیونکہ بعض لوگ الوداع پڑھنے سے منع کرتے ہیں ۔

جواب:

خُطبۃُ الوَداع آخر کس طرح ناجائز ہوگیا؟خطبے میں جو چیزیں شرعاً مطلوب ہیں (یعنی شریعت جو چیزیں چاہتی ہے) ان میں سے کونسی ان میں نہیں پائی جاتی؟ یا کون سا امر ممنوع (یعنی ایسا کام جسے اسلام نے منع فرمایا ہو وہ) اس میں داخل ہے؟ تذکیر (یعنی کوئی ایسی بات جس سے مسلمانوں کو نصیحت ہو)خطبے کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے۔ رَمَضانُ الْمبارَک کے گزرے ہوئے اَیام (یعنی دنوں ) میں عملِ خیر (یعنی نیکیاں رہ جانے )پر حسرت و افسوس اور بابرکت ایّام کو غفلت میں گزارنے پر قلق وندامت (یعنی پچھتاوا) اور (اس مبارَک ) مہینے کی رخصتی کے وقت اپنی گزشتہ کوتاہیوں (یعنی گزری ہوئی سُستیوں ) کو مدنظر لا کر آیندہ کے لیے تَیَقُّظْ ( یعنی ہوشیاری) و بیداری اور مسلمانوں کو عملِ خیر کی تحریص وتشویق کا(یعنی نیکیوں پر ابھارنے کا)یہ بہترین طریقۂ تذکیر (یعنی نصیحت کا بہت اچّھا انداز ) ہے اور اِس (اندازِ ’’الوادعِ ماہِ رَمَضان‘‘) میں نہایت نافع و سود مند نصیحت و پَند (یعنی انتہائی مفید وعظ ونصیحت ) ہے، اس کا یہ اثر ہوتا ہے کہ روتے روتے لوگوں کی ہچکیاں بندھ جاتی ہیں اور انہیں سچی توبہ نصیب ہوتی ہے، بارگاہِ الٰہی میں اِستغفار کرتے ہیں ، آیندہ کے لیے عملِ نیک کا مصمم (یعنی پکا)ارادہ کر لیتے ہیں ۔ اِس تذکیر (یعنی وعظ و نصیحت) کو فقہا نے سنت فرمایا ہے ۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے: (عَاشِرُہَا ) اَلْعِظَۃُ وَ التَّذْکِیرُ۔ یعنی ’’خطبے کی دسویں سنت پندو نصیحت (یعنی نیکی کی دعوت)ہے۔‘‘

(فتاویٰ صدر الافاضل ص 466تا482ملتقطا)

.

 شیخ الاسلام مخدوم محمد ہاشم بن عبد الغفور ٹھٹھوی رحمة الله علیه نے الوداع ماہ رمضان کے بارے میں نہایت رقت انگیز اور پر اثر خطبہ تحریر فرمایا ہے اس خطبہ میں آپ رحمہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: يأَيُّهَا النَّاسُ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِهِ وَسَلَّمَ إِنَّ شَهْرَ رَمَضَانَ قَدْهُمْ عَنْكُمُ الارْتِحَالَ، وَقَدْ تَهَيَّا الْاِنْتِقَالَ فَوَدِّعُوهُ عَلى أَحْسَنِ الْحَالِ، وَأَكْرِ مُوْهُ بِحُسْنِ الأفعال، وَزَوَدُوهُ بِإِنْفَاقِ الْأَمْوَالِ حَتَّى يَشْكُرَ عَنْكُمْ عِنْدَ ذِي الْجَلَالِ الكَبِيرِ

الْمُتَعَالِ

اے امت محمد صلی الله علیہ والہ و سلم ! بے شک ماہ ر مضان تمہارے پاس سے عنقریب جانے ہی والا ہے بلکہ اب وہ جانے کو تیار ہے، لہذا تم اسے اچھے حال میں الوداع کرو، اچھے کاموں کے ذریعے اس کی تعظیم کرو، اس میں زیادہ سے زیادہ (اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو، تاکہ وہ عظمت والے ، بلندی والے ( رب کریم) کے پاس تمہاری تعریف کرے۔

مزید فرماتے ہیں:

عِبَادَ اللهِ اِحْذَنُوا على اشتیاقہ یعنی اے اللہ کے بندو رمضان شریف کے اشتیاق میں غمگین ہو جاؤ... وَ ابكُوا على فراقہ اور اس کی جدائی پر آنسو بہاؤ....فَإِنَّ الْهَمَّ عَلَى فِرَاقِهِ سَبَبُ الشَّجَاتِ وَرَافِعُ الدَّرَجَاتِ، بے شک اس کی جدائی پر غمزدہ ہونا نجات کا سبب اور بلندی درجات کا ذریعہ ہے... شَهْرٌ فِيْهِ حَيَاتُ القُلُوبِ وَ كَفارَةُ الله تُوبِ وَآمَانُ كُلِ خَائِفِ مَّرْهُوبٍ ، رمضان ایسا مہینا ہے جس میں دلوں کی تازگی، گناہوں کا کفارہ اور ہر خوف اور ڈر رکھنے والے کے لئے امان ہے.... فَيَا أُمَّةً مُحمدٍ صلى الله عليه واله و سلم ! قُولُوا الوداع الوداع يا شَهرَ رَمَضَانَ

 تو اے امت محمد صلى الله عليه وعليه وسلم ! کہو! الوداع الوداع اے ماہ رمضان الوداع...(اسلامی مہینوں کے فضائل ص232,23بحذف)


.

*#الوداع جائز ہے مگر کبھی ترک بھی کیا جائے.....!!*

سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 الوداع جس طرح رائج ہے حضور اقدس صلیﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ نہ صحابۂ کرام ومجتہدین عظام رضیﷲ تعالٰی عنہم سے نہ اس کا موجد معلوم، وہ اپنی حد ذات میں مباح ہے ہر مباح نیتِ حسن سے مستحب ہو جاتا ہے اور عروض وعوارض خلاف سے مکروہ سے حرام تک۔ جمعہ کے لئے خطبہ شرط ہے خاص خطبہ الوداع کوئی چیز(شرط) نہیں...الوداع کہ رائج ہے نہ کوئی شرعی حکم ہے نہ اس سے منع شرعی، *ہاں علماء اس کا التزام نہ کریں، کبھی ترک بھی کریں کہ عوام واجب نہ سمجھنے لگیں*

(فتاوی رضویہ455، 8/452ملتقطا)

.

عوام واجب نہ سمجھیں یہ مقصد کن کن طریقوں سے پورا ہوگا......؟؟ وقتا فوقتا اعلان کیا جائے پھیلایا جاءے کہ فلاں کام واجب نہیں عوام سن لو.....!! یا پھر اعلان کے ساتھ ساتھ بعض علماء اہلسنت کبھی کبھار ترک بھی کریں کہ عملی اظہار تمام فتنوں خدشات کا زبردست توڑ ہے...بحرحال علماء اہلسنت کسی نہ کسی طریقے سے پھیلاتے رہتے ہیں کہ فلاں کام لازم نہیں جائز ہے اور بری بدعت بھی نہیں....!! اعلان کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار ترک بھی کریں یا نہ کریں یہ مفتیان کرام سے پوچھیے کہ زیادہ علم والے ہیں وہ....ہم تو فقط عرض ہی کرسکتے ہیں،اپنے خدشات کا مدلل اظہار ہی کرسکتے ہیں ورنہ عمل تو مفتیان کرام کے حکم پر ہوگا

.

✍عرض،تالیف،تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.