چمن زمان وغیرہ کو کوڑے؟ افضل کون؟ قطب کون؟ بارہ امام کون؟ روحانی یا سیاسی خلیفہ کون؟شاز اقوال؟



*بارہ اماموں کی تحقیق اور سیدنا ابوبکر و عمر کے افضل ہونے اور روحانی و سیاسی خلیفہ و قطب ہونے کے دلائل و حوالہ جات..... اور کیا سیدنا علی اول روحانی خلیفہ بلافصل و قطب تھے..؟؟ اور چمن زمان بمع سربرہان کو سمجھانا لازم،ڈٹے رہیں تو بائیکاٹ و کوڑے لگانا لازم.....؟؟*
الحاصل:
چمن زمان کے مطابق:
 بخاری مسلم کی حدیث پاک میں ہے کہ بارہ خلفاء قریش میں سے ہوں گے اور چمن زمان کے مطابق وہ بارہ خلفاء یہ ھیں
مولائے کائنات مولا علی پھر سید شباب اہل الجنه سیدنا امام حسن پھر شہید کربلا سیدنا امام حسین، پھر سیدنا امام علی زین العابدین پھر سیدنا امام محمد باقر پھر سیدنا امام جعفر صادق پھر سیدنا امام موسی کاظم پھر سیدنا امام علی رضا پھر سیدنا امام محمد تقی پھر سیدنا امام علی نقی پھر سیدنا امام حسن عسکری فائز ہوئے اور آخر میں یہ منصب و مقام سیدنا امام محمد مہدی کا حصہ ہے
(چمن زمان کی کتاب بارہ امامان اہلبیت ص42)
.
چمن زمان لکھتا ہے:
آئمہ اہلبیت اقطاب ولایت ہیں
(چمن زمان کی کتاب بارہ امامان اہلبیت ص41)

.
چمن زمان لکھتا ہے:
پس قطب ہر دور میں پوری جماعت مسلمین سے افضل ہوتا ہے
(چمن زمان کی کتاب محفوظہ ص51)
.
چمن زمان لکھتا ہے کہ
ہم باب نظریات میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی شخصیت پر مکمل اعتماد کرتے ہیں
(چمن زمان کی کتاب جدید نعرے ص57,58)
.
*چمن زمان کے دعوے کا حاصل یہ نکلا کہ.....!!*
 حدیث پاک میں جو بارہ خلفاء ہیں اس سے مراد شیعہ والے خلفاء ہیں لیکن باطنی طور پر... اور سیدنا علی پہلے باطنی روحانی خلیفہ و قطب تھے اور قطب سب سے افضل ہوتا ہے لیھذا چمن زمان کی باتوں سے لازم اتا ہے کہ چمن زمان کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ افضل ہیں سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے اور یہ بھی لازم اتا ہے کہ چمن زمان کے مطابق سیدنا ابوبکر و عمر قطب نہ تھے روحانی باطنی خلیفہ نہ تھے فقط ظاہری  سیاسی خلیفہ تھے،باطنی خلیفہ و قطب تو سیدنا علی تھے
.
*اہلسنت کا نظریہ کا حاصل یہ ہے کہ....!!*
 حدیث پاک میں جو ہے کہ بارہ خلیفہ ہوں گے اس سے مراد شیعہ والے خلفاء نہیں ہیں یہ خود دوسری احادیث سے ثابت ہوتا ہے... اور سیدنا صدیق اکبر سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہما روحانی و ظاہری و سیاسی خلیفہ تھے، قطب تھے، سب سے افضل تھے، جو سیدنا علی رضی اللہ تعالئ عنہ کو ان سے افضل مانے وہ بدعتی بدمذہب تفضیلی ہے اسے سمجھایا جائے گا، سمجھ جائے تو ٹھیک ورنہ ان کا بائیکاٹ کیا جائے اور اگر اپنی بدعت و تفضیلیت کی طرف لوگوں کو بلاتا ہو تو انہیں  قید کیا جائے اور سیدنا علی و فقہاء کے حکم کے مطابق کوڑے لگائے جائیں ،80 کوڑے....!!
.################
*#پہلی_بحث_بارہ_امام_احادیث مبارکہ کی روشنی میں...!!*
الحدیث:
جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " يَكُونُ اثْنَا عَشَرَ أَمِيرًا ". فَقَالَ كَلِمَةً لَمْ أَسْمَعْهَا، فَقَالَ أَبِي : إِنَّهُ قَالَ : " كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ
سیدنا جابر بن سمرہ فرماتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بارہ امام و خلیفہ ہوں گے، اس کے بعد حضور نے کچھ ارشاد فرمایا جو میں نے نہیں سمجھا تو میں نے اپنے والد سے کہا کہ کیا فرمایا تو انہوں نے کہا کہ فرمایا تمام کے تمام قریش میں سے ہوں گے
(بخاری حدیث7223)
 حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ نہیں فرمایا کہ میرے اہل بیت میں سے ہوں گے، قریش میں سے ہوں گے یہ فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ شیعہ والے اور چمن زمان و نیم رافضیوں والے ائمہ خلفاء مراد نہیں ہیں
.
 أَنَّ نِسْبَتَهُمْ إِلَى قُرَيْشٍ تَدُلُّ عَلَى أَنَّ كُلَّهُمْ لَيْسُوا مِنْ بَنِي هَاشِمٍ
 حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ائمہ اور خلفاء کی نسبت قریش کی طرف کی ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ سارے بنی ہاشم میں سے نہیں ہوں گے( جب کہ رافضیوں نیم رافضیوں کے بتائے گئے اور چمن زمان کے بتائے گئے خلفاء آئمہ بنو ہاشم میں سے ہیں)
(عون المعبود وحاشية ابن القيم11/246)
.

.
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا يَزَالُ هَذَا الْأَمْرُ عَزِيزًا إِلَى اثْنَيْ عَشَرَ خَلِيفَةً ". قَالَ : ثُمَّ تَكَلَّمَ بِشَيْءٍ لَمْ أَفْهَمْهُ، فَقُلْتُ لِأَبِي : مَا قَالَ ؟ فَقَالَ : " كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ
 صحابی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ معاملہ( یعنی خلافت کا یا دین کا معاملہ) غالب رہے گا یہاں تک کہ بارہ خلفاء ہوں گے پھر رسول کریم نے کچھ ارشاد فرمایا جسے میں نہ سمجھ سکا تو میں نے اپنے والد سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تو میرے والد نے کہا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کے تمام کے تمام خلفاء قریش میں سے ہوں گے 
(مسلم حدیث4709 ابوداود حدیث4280 نحوہ)
.
إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ لَا يَنْقَضِي حَتَّى يَمْضِيَ فِيهِمُ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً ". قَالَ : ثُمَّ تَكَلَّمَ بِكَلَامٍ خَفِيَ عَلَيَّ، قَالَ : فَقُلْتُ لِأَبِي : مَا قَالَ ؟ قَالَ : " كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ
 صحابی فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ معاملہ( یعنی دین کا معاملہ یا خلافت کا معاملہ) پورا نہ ہوگا یہاں تک کہ تم میں بارہ خلیفہ گزریں گے پھر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ کلام فرمایا جو مجھے سمجھ نہیں آیا تو میں نے اپنے والد سے کہا کہ رسول اللہ نے کیا فرمایا تو میرے والد نے کہا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمام کے تمام قریش میں سے ہوں گے
(مسلم حدیث4705)
.
لَا يَزَالُ هَذَا الدِّينُ قَائِمًا حَتَّى يَكُونَ عَلَيْكُمُ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً، كُلُّهُمْ تَجْتَمِعُ عَلَيْهِ الْأُمَّةُ
 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ دین قائم و قوی رہے گا یہاں تک کہ تم میں بارہ خلیفہ ہوں گے ان سب پر (جمھور مسلمانوں یا اہل حل و عقد کا)اجماع ہو گا
(ابوداود حدیث4279)
وَالَّذِي اجْتَمعُوا عَلَيْهِ الْخُلَفَاء الثَّلَاثَة ثمَّ عَليّ
 اور جس پر  اجماع ہوا وہ وہ تین خلفاء یعنی سیدنا ابو بکر صدیق سیدنا عمر سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنھم اور پھر چوتھے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں
(الصواعق المحرقة ابن حجر1/55)
امام ابن حجر کے قول سے چمن زمان کا قول مردود قرار پایا
.
سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «يَكُونُ بَعْدِي اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً، مِنْهُمْ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ، لَا يَلْبَثُ بَعْدِي إِلَّا يَسِيرًا، وَصَاحِبُ رَحَا دَارَةِ الْعَرَبِ، يَعِيشُ حَمِيدًا، وَيَمُوتُ شَهِيدًا» ، فَقَالَ رَجُلٌ: مَنْ هُوَ؟ قَالَ: «عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ
 صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آپ نے فرمایا میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے ان میں سے ایک خلیفہ ابوبکر ہوں گے لیکن وہ زیادہ حیات نہ رہیں گے اور ان میں سے دوسرا خلیفہ حمید رہ کر زندگی گذارے گا اور شہادت پائے گا، ایک شخص نے کہا کہ وہ کون ہے فرمایا عمر بن خطاب
(طبرانی اوسط حدیث8749)
(الشریعۃ آجری حدیث1181نحوہ)
(طبرانی  معجم کبیر حدیث12نحوہ)
(السنۃ لابن ابی عاصم حدیث1152نحوہ)
شریعہ اور السنۃ کی تخریج میں اس کو ضعیف حدیث کہا گیا ہے...امام سیوطی جیسے متبحر معتدل بعض علماء نے حسن معتبر کہا ہے
وأخرج أبو القاسم البغوي بسند حسن عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: "يكون خلفي اثنا عشر خليفة: أبو بكر لا يلبث إلا قليلاً
(تاريخ الخلفاء ص51)
اگر
ضعیف بھی مان لیا جائے تو ضعیف حدیث مقدم ہے گنے چنے اقوال پر...اور اگر حسن لوجوہ مانا جائے تو نص واضح ہے کہ بارہ امام سے مراد شیعوں رافضیوں نیم راضیوں والے امام نہیں
اور
اگر بالفرض سند کو موضوع تسلیم کر لیا جائے تو بھی سندا موضوع ہوگی مگر اس کے معنی درست و معتبر کہلائیں گے کہ صحابہ و تابعین و معتبر اسلاف نے مذکورہ معنی مراد لیے ہیں....اہل علم خوب جانتے ہیں کہ اسلاف محققین کسی حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ سند موضوع ہے مگر معنی درست ہیں...فافھم
.
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ يَقُولُ: «لَا يَزَالُ هَذَا الْأَمْرُ ظَاهِرًا عَلَى مَنْ نَاوَأَهُ لَا يَضُرَّهُ مُخَالِفٌ وَلَا مَفَارِقٌ حَتَّى يَمْضِيَ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً مِنْ قُرَيْشٍ»
 سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ معاملہ( یعنی دین کا معاملہ آیا خلافت کا معاملہ) غالب رہے گا اس پر جو اس سے دشمنی کرے گا، اسے کوئی مخالف یا جدا ہونے والا نقصان نہ پہنچائے گا یہاں تک کہ بارہ خلفاء ہوں گے قریش میں سے
(طبرانی کبیر حدیث1796)
(مسند احمد حدیث20817نحوہ)
.
 فَقَالَ: " «لَا يَزَالُ أَمْرُ أُمَّتِي صَالِحًا حَتَّى يَمْضِيَ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً..کلھم من قریش
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ وَالْكَبِيرِ، وَالْبَزَّارُ، وَرِجَالُ الطَّبَرَانِيِّ رِجَالُ الصَّحِيحِ
 صحابی فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کا معاملہ نیک رہے گا یہاں تک کہ بارہ خلیفہ ہوں گے اور سارے کے سارے قریش میں سے ہوں گے... امام ہیثمی فرماتے ہیں کہ اس کو طبرانی نے روایت کیا ہے بزاز نے روایت کیا ہے اور طبرانی کی روایت کی سند صحیح ہے
(مجمع الزوائد حدیث8968ملخصا)
.
حمل هذا على العادلين
 احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ 12 خلفاء عادل ہوں گے نیک ہوں گے
(شرح المصابيح لابن الملك6/386)
.
الرِّوَايَاتِ اثْنَيْ عَشَرَ أَمِيرًا، أَنَّهُ أَرَادَ خُلَفَاءَ أَوْ أُمَرَاءَ تَكُونُ لَهُمْ وِلَايَةٌ وَعُدَّةٌ وَقُوَّةٌ وَسُلْطَةٌ، وَالنَّاسُ يُطِيعُونَهُمْ وَيَجْرِي حُكْمُهُمْ عَلَيْهِمْ
 احادیث و روایات میں جو ہے کہ بارہ خلفاء ہوں گے ان سے مراد وہ خفا ہیں کہ جن کے لیے ولایت ہوگی اور جہاد وغیرہ کی تیاری ہوگئی اور طاقت ہوگی غلبہ اور اختیار ہوگا کہ لوگ انکی اطاعت کریں گے اور ان کا حکم لوگوں پر جاری ہوگا
(دلائل النبوة للبيهقي6/523)
روافض نیم روافض طاہر القادری چمن زمان مشہدی گروپ وغیرہ کے مقرر کردہ خلفاء مراد ہی نہیں ہوسکتے کہ یہاں احادیث کی وضاحت احادیث سے ہے کہ ان خلفاء کی واضح نشانی ہے کہ وہ ظاہری سلطنت والے بھی ہونگے، ان کی بیعت ہوگی اجماع ہوگا،دین کے دنیاوی و دینی معاملات انکی تدابیر و جہاد و تبلیغ کی وجہ سے غالب و قوی ہونگےجبکہ رافضیوں نیم رافضیوں چمن زمان والے بیان کردہ خلفاء تو اکثر ایسی صفت کے حامل نہیں لیھذا احادیث میں خلفاء سے مراد وہی ہیں جو اہلسنت نے بیان فرمائے… اور حدیث پاک میں واضح ہے کہ خلفاء عادل ہوں گے اس پر اہل حل و عقد یا امت کا اجماع ہوگا، انکی خلافت میں دین قوی ہوگا لیھذا سیدنا معاویہ ان خلفاء میں شامل ہیں کہ سیدنا حسن حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی صلح کے بعد آپ پر اجماع امت ہوا اور دین قوی ہوا لیکن یزید پلید ان خلفاء میں شامل نہیں کیونکہ اسکی خلافت پر اجماع نہ ہوا اور نہ ہی دین قوی تھا کہ یزید پلید کے زمانہ میں فسق و فجور عام تھے...
.
#############
*#دوسری_بحث_مذکورہ_احادیث کی شرح صحابہ تابعین و اسلاف سے......!!*
امام بخاری کے استاد صحابی سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی
 عنھما کی تشریح نقل فرماتے ہیں:
عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: " يَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً: أَبُو بَكْرٍ أَصَبْتُمُ اسْمَهُ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَرْنٌ مِنْ حَدِيدٍ أَصَبْتُمُ اسْمَهُ، وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ ذُو النُّورَيْنِ أُوتِيَ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ، قُتِلَ مَظْلُومًا، أَصَبْتُمُ اسْمَهُ
صحابی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ امت میں بارہ خلفاء ہوں گے ان میں سے ایک سیدنا ابوبکر صدیق ہیں دوسرے عمر فاروق ہیں تیسرے عثمان ہیں رضی اللہ تعالی عنہم
(المصنف - ابن أبي شيبة - ت الحوت6/363)
 صحابی کی تشریح سے واضح ہے کہ حدیث پاک میں بشارت والے بارہ خلفاء میں سیدنا ابوبکر سیدنا عمر اور سیدنا عثمان بھی شامل ہیں جبکہ رافضی نیم رافضی چمن زمان کہتے ہیں کہ وہ خلفاء شامل نہیں...احادیث و صحابی کی مانیں یا مردود نیم رافضیوں رافضیوں چمن زمانیوں کی.....؟؟
.
أَنَّهُ لَا تُهْلَكُ هَذِهِ الْأُمَّةُ حَتَّى يَكُونَ فِيهَا اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً، كُلُّهُمْ يَعْمَلُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ، مِنْهُمْ رَجُلَانِ مِنْ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
تابعی ابو الجلد فرماتے ہیں کہ یہ امت ہلاکت میں نہ پڑے گی یہاں تک کہ اس میں بارہ خلفاء ہوں گے تمام کے تمام ہدایت پر عمل کریں گے اور دین حق کو پھیلائیں گے، دین حق کی پیروی کریں گے، ان میں سے دو اہل بیت نبوی میں سے ہوں گے
(المطالب العالية امام ابن حجر18/347)
(تاريخ الخلفاء امام سیوطی ص16 نحوہ)
(البعث و النشور  امام بيهقي ص137نحوہ)
.
قال أحمد: أبو الجلد، جيلان بن فروة، ثقة
  امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ ابو الجلد کا نام جیلان بن فروہ ہے اور یہ ثقہ معتبر ہیں
(الجامع لعلوم الإمام أحمد - الرجال16/397)
ثقہ تابعی کی تشریح سے ثابت ہوتا ہے کہ حدیث پاک میں جن بارہ خلفاء کی بشارت ہے ان بارہ خلفاء میں سے فقط دو اہل بیت میں سے ہوں گے جبکہ چمن زمان اور رافضیوں اور نیم رافضیوں نے بارہ کے بارہ  اہل بیت میں قرار دے دیے ہیں...ثقہ تابعی کی تشریح بعد کے چند علماء کی تشریح سے کہیں زیادہ معتبر ہے
.
امام قرطبی فرماتے ہیں:
: أنهم خلفاء العَدلِ؛ كالخلفاء الأربعة وعمر بن عبد العزيز، ولا بُدَّ من ظهور من يَتَنَزَّلُ مَنزِلَتُهم في إظهار الحق والعدل حتى يَكمُل ذلك العدد، وهو أولى الأقوال عندي
 امام قرطبی فرماتے ہیں کہ تمام اقوال میں سے بہترین قول اور معتبر قول یہ ہے کہ وہ بارہ کے بارہ خلفاء عادل نیک ہونگے جیسے کہ سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہم اور سیدنا عمر بن عبدالعزیز اور جو ان کے نقش قدم پر خلیفہ ہوگا وہ بھی شمار ہوگا
(المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم4/8)
.
امام ابن کثیر فرماتے ہیں:
فَهَؤُلَاءِ مِنْهُمُ الْأَئِمَّةُ الْأَرْبَعَةُ؛ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَمِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَيْضًا
 حدیث پاک میں جن بارہ خلفاء کی بشارت دی گئی ہے ان میں چار خلفاء سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا علی ہیں اور عمر بن عبدالعزیز بھی ہیں
(كتاب البداية والنهاية ت التركي1/355)
.
امام قاضی عیاض لکھتے ہیں:
اثنا عشر خليفة "؛ إذ لم يكن فى الثلاثين إلا الخلفاء الأربعة
 جن باہ خلفاء کی حدیث پاک میں بشارت دی گئی ہے ان میں چار خلفاء یعنی سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا علی بھی شامل ہیں
(كتاب إكمال المعلم بفوائد مسلم6/212)
.
امام ابن حجر عسقلانی امام سیوطی کا فرمان:
قال شيخ الإسلام ابن حجر في شرح البخاري: كلام القاضي عياض أحسن ما قيل في الحديث وأرجحه؛ لتأييده بقوله في بعض طرق الحديث الصحيحة: "كلهم يجتمع عليه الناس"، وإيضاح ذلك أن المراد بالاجتماع انقيادهم لبيعته، والذي وقع أن الناس اجتمعوا على أبي بكر، ثم عمر، ثم عثمان، ثم علی
یعنی
 حدیث پاک میں جن بارہ خلفاء کی بشارت دی گئی ہے ان کی ایک نشانی یہ ہے کہ ان پر اجماع ہوگا جیسے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پر اجماع ہوا پھر سیدنا عمر پر سیدنا عثمان پر سیدنا علی پر رضی اللہ تعالی عنہ، یہی قول حق کے زیادہ قریب ہے کہ اس کی تشریح تائید حدیث سے ہوتی ہے
(تاريخ الخلفاء ص15)
.
والتفسير الأوجه والأولى والأصح أن يقَالَ: إن الإثنى عشر خليفة هَؤُلاءِ قد مروا، وهم الخلفاء الذين سبقوا، فمنهم الخلفاء الراشدون الأربعة ثُمَّ الذين من بعدهم من بني أمية قطعاً
 حدیث پاک کی صحیح ترین تفسیر یہ ہے کہ بارہ خلفاء میں چار خلفائے راشدین ہیں یعنی سیدنا ابو بکر صدیق سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا علی اور اس کے بعد بنو امیہ کے خلفاء(جو خلفاء راشدین کے نقش قدم پر ہوں)
(شرح العقيدة الطحاوية - سفر الحوالي ص556)
.
فَالتَّحْقِيقُ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ أَنْ يَعْتَبِرُوا بِمُعَاوِيَةَ وَعَبْدِ الْمَلِكِ وَبَنِيهِ الْأَرْبَعِ وَعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَوَلِيدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بَعْدَ الْخُلَفَاءِ الْأَرْبَعَةِ الرَّاشِدِينَ
 حدیث پاک میں جن بارہ خلفاء کی بشارت دی گئی ہے اس میں چار خلفائے راشدین یعنی سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا علی اور سیدنا معاویہ اور عبد الملک اور اس کے چار بیٹے اور عمر بن عبد العزیز اور ولید شامل ہیں،یہی تحقیق ہے
(عون المعبود وحاشية ابن القيم11/246)
.
وَكَانَ الْأَمْرُ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَالِاثْنَا عَشَرَ: الْخُلَفَاءُ الرَّاشِدُونَ الْأَرْبَعَةُ، وَمُعَاوِيَةُ
 خلفاء ایسے ہی ہوئے جیسے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ خلفاء کی  بشارت دی، بارہ خلفاء میں چار خلفائے راشدین یعنی سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہم اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل ہیں 
(شرح العقيدة الطحاوية ابن ابی العز2/736)
.
امام ابن حجر ہیتمی کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ:
وبالاثني عشر الْخُلَفَاء الْأَرْبَعَة وَالْحسن وَمُعَاوِيَة وَابْن الزبير وَعمر بن عبد الْعَزِيز....المھدی
 بارہ خلفاء جن کی بشارت دی گئی ہے ان میں چار خلفاء یعنی سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہم اور سیدنا حسن اور سیدنا معاویہ اور سیدنا ابن زبیر اور سیدنا عمر بن عبدالعزیز بھی شامل ہیں اور ایک خلیفہ آئیں گے سیدنا مہدی
( الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة1/56ملتقطا)
.
امام نووی کا رجحان:
فَإِنَّهُ لَمْ يَكُنْ فِي ثَلَاثِينَ سَنَةً إِلَّا الْخُلَفَاءُ الرَّاشِدُونَ الْأَرْبَعَةُ وَالْأَشْهُرُ الَّتِي بُويِعَ فِيهَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ....وَلَمْ يُشْتَرَطْ هَذَا فِي الِاثْنَيْ عَشَرَ...ولا يضركونه وُجِدَ بَعْدَهُمْ غَيْرُهُمْ
 بارہ خلفاء جن کی بشارت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ان میں شرط نہیں ہے کہ وہ تیس سال کے اندر اندر آئیں گے...لیھذا ان خلفاء میں چار خلفائے راشدین ہیں یعنی سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا علی اور سیدنا حسن اور بعد کے خلفاء جو انکے نقش قدم پے ہوں
(شرح النووي على مسلم12/201ملخصا)
.
امام ابن کثیر
، وَلَكِنَّ هَؤُلَاءِ الْأَئِمَّةَ الِاثْنَيْ عَشَرَ وُجِدَ مِنْهُمُ الْأَئِمَّةُ الْأَرْبَعَةُ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ عُثْمَانُ ثُمَّ عَلِيٌّ وَابْنُهُ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ أَيْضًا، وَمِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ كَمَا هُوَ عِنْدَ كَثِيرٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ وَجُمْهُورِ الأمة...، وَقَدْ نَصَّ عَلَى هَذَا الَّذِي بيناه غير واحد كما قررنا ذلك
 بارہ خلفاء کہ جن کی بشارت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ان میں سے چار خلفاء تو یہ ہیں سیدنا ابوبکر پھر سیدنا عمر پھر سیدنا عثمان پھر سیدنا علی سیدنا  سیدنا حسن اور ان میں سے سیدنا عمر بن عبدالعزیز بھی ہیں جیسے کہ جمہور ائمہ اور جمہور امت کے مطابق ہے اور اس(تعداد اور خلفاء کے ناموں)پر کئ علماء نے نص کی ہے
(النهاية في الفتن والملاحم1/23)
.
امام بیہقی نے فرمایا
الرِّوَايَاتِ اثْنَيْ عَشَرَ أَمِيرًا، أَنَّهُ أَرَادَ خُلَفَاءَ أَوْ أُمَرَاءَ تَكُونُ لَهُمْ وِلَايَةٌ وَعُدَّةٌ وَقُوَّةٌ وَسُلْطَةٌ، وَالنَّاسُ يُطِيعُونَهُمْ وَيَجْرِي حُكْمُهُمْ عَلَيْهِمْ
احادیث و روایات میں جو ہے کہ بارہ خلفاء ہوں گے ان سے مراد وہ خفا ہیں کہ جن کے لیے ولایت ہوگی اور جہاد وغیرہ کی تیاری ہوگئی اور طاقت ہوگی غلبہ اور اختیار ہوگا کہ لوگ انکی اطاعت کریں گے اور ان کا حکم لوگوں پر جاری ہوگا
(كتاب دلائل النبوة للبيهقي6/523)
روافض نیم روافض کے مقرر کردہ خلفاء مراد ہی نہیں ہوسکتے کہ یہاں حدیث پاک میں واضح نشانی ہے کہ وہ ظاہری سلطنت والے بھی ہونگے جبکہ رافضیوں نیم رافضیوں والے بیان کردہ خلفاء تو ظاہر سلطنت والے نہ تھے
.
علامہ العصامی لکھتے ہیں:
وَقيل المُرَاد بالاثني عشر الْخُلَفَاء الْأَرْبَعَة وَالْحسن وَمُعَاوِيَة وَابْن الزبير وَعمر بن عبد الْعَزِيز فِي الأمويين قيل وَيحْتَمل أَن يضم إِلَيْهِم الْمُهْتَدي العباسي لِأَنَّهُ فِي العباسيين كعمر بن عبد الْعَزِيز فِي الأمويين وَالظَّاهِر العباسي أَيْضا لما أوتيه فِي الْعدْل وَيبقى الِاثْنَان المنتظران أَحدهمَا الْمهْدي من آل بَيت مُحَمَّد قلت لَعَلَّ هَذَا القَوْل الثَّانِي أقرب إِلَى المُرَاد من كَلَام سيد الْعباد
یعنی
یہ بات حق کے زیادہ قریب ہے کہ بارہ خلفاء جن کی بشارت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ان سے مراد چار خلفاء یعنی سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا علی سیدنا حسن سیدنا معاویہ سیدنا ابن زبیر اور سیدنا عمر بن عبدالعزیز ہیں اور ایک المھتدی ہیں اور ایک سیدنا مہدی ائیں گے
(سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي2/420)
.
چمن زمان کہہ چکے باب نظریات میں وہ سیدی امام احمد رضا کے ماننے والے ہیں تو لیجیے سیدی امام احمد رضا علیہ الرحمۃ کی تحقیق کہ مذکورہ خلافت کی احادیث کا مصداق یہ
خلفاء ہیں:
صدیق اکبر ، فاروق اعظم ، عثمان غنی، علی مرتضٰی، حسن مجتبی، امیر معاویہ ، عبدﷲ بن زبیر، عمر بن عبدالعزیز، اور ایک یقیناً آنے والے ہیں، حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین باقی تین کی تعیین ﷲ و رسول کے علم میں ہے
(فتاوی رضویہ29/220)
.
تو انصاف کیجیے حدیث پاک کی تشریح دوسرے احادیث سے ہوئی، پھر صحابہ و تابعین نے تشریح کی، پھر علماء اسلاف نے تشریح کی....اس تشریح مطابق اول خلیفہ سیدنا ابوبکر ہیں پھر دوسرے خلیفہ سیدنا عمر ہیں جبکہ رافضی نیم رافضی چمن زمان مشہدی وغیرہ نے حدیث کی غلط تشریح کی کہ وہ خلفاء شیعہ والے ہونگے جن میں اول خلیفہ سیدنا ابوبکر نہیں بلکہ سیدنا علی کو کہا گیا...تو انصاف کیجیے کونسی تشریح معتبر....مزید آگے پڑہیے کہ اہلسنت کی تشریح کی تائید قرآن و سنت و حدیث و اسلاف کے اقوال سے بھی ہوتی ہے

.####################
*#تیسری_بحث_سیدنا_ابوبکر_عمر_کے_افضل ہونے اولین قطب و روحانی خلیفہ ہونے کے کچھ دلائل و اسلاف کے اقوال........!!*
حق چار یار کی نسبت سے چار قرآنی دلائل
①القرآن..سورہ توبہ...ایت40
استدل أهل السنة بالآية على أفضلية أبي بكر
 علمائے اہلسنت نے اس آیت مبارکہ سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی افضلیت ثابت کی ہے
(تفسير النيسابوري = غرائب القرآن ورغائب الفرقان3/471)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
②القرآن...سورہ حدید...ایت10
فيها دليل واضح على تفضيل أبي بكر وتقديمه
اس ایت میں واضح دلیل ہے کہ سیدنا ابوبکر انبیاء و رسل کے بعد سب سے افضل ہیں اور خلافت محمدی میں پہلے خلیفہ ہیں
(اللباب في علوم الكتاب18/462)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
③القرآن..سورہ لیل...آیت17
وَثَبَتَ دَلَالَةُ الْآيَةِ أَيْضًا عَلَى أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَفْضَلُ الْأُمَّةِ
  اس آیت مبارکہ کی دلالت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق اس امت میں سب سے افضل ہیں
(تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير31/188)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
④القران..سورہ نور...آیت22
وهذا يدل على أنه كان أفضل الناس بعد الرسول
 یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ہیں
(اللباب في علوم الكتاب14/335)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.===============
سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے افضل ہونے اولین قطب و روحانی خلیفہ ہونے کے متعلق چند احادیث مبارکہ بمع شرح اور اقوال صحابہ و تابعین........!!*
.مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ ". فَخَرَجَ أَبُو بَكْرٍ فَصَلَّى
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابوبکر کو کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے تو سیدنا ابو بکر نکلے اور نماز پڑھانا شروع کی
(بخاری حدیث664)
.
والإمامة الصغرى تدل على الكبرى، ومطابقة الحديث للترجمة ظاهرة، فإن أبا بكر أفضل الصحابة، وأعلمهم وأفقههم 
 اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ جب نماز میں سیدنا ابوبکر صدیق زیادہ مستحق ہیں تو بڑی امامت(روحانی و سیاسی خلافت) میں بھی وہ سب سے زیادہ حقدار ہیں، اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق تمام صحابہ میں سب سے زیادہ افضل تھے سب سے زیادہ علم والے تھے سب سے زیادہ فقہ و سمجھ والے تھے
(ارشاد الساری شرح بخاری2/43)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أُمَّتِي خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ، وَلَكِنْ أَخِي وَصَاحِبِي
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں کسی امتی کو خلیل بناتا تو ابوبکر صدیق کو خلیل بناتا لیکن وہ میرے بھائی ہیں اور میرے خاص ساتھی ہیں
(بخاری حدیث3656)
.
وَفِي الْجُمْلَةِ هَذَا الْحَدِيثُ دَلِيلٌ ظَاهِرٌ عَلَى أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَفْضَلُ الصَّحَابَةِ
  لیکن بحرحال یہ حدیث دلیل ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق تمام صحابہ سے افضل تھے
(مرقاۃ شرح مشکواۃ9/3885)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
مِنَ الرِّجَالِ ؟ قَالَ : " أَبُوهَا ". قُلْتُ : ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ : " عُمَرُ "
 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا مَردوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے آپ نے فرمایا عائشہ کا والد(یعنی سیدنا ابوبکرصدیق) میں نے کہا کہ پھر کون فرمایا پھر عمر
(مسلم حدیث2384)
.
وَفِيهِ دَلَالَةٌ بَيِّنَةٌ لِأَهْلِ السُّنَّةِ فِي تَفْضِيلِ أَبِي بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرَ عَلَى جَمِيعِ الصَّحَابَةِ
 اس حدیث پاک میں ہم اہلسنت کے لیے واضح دلیل ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق سب سے افضل ہیں اس کے بعد سیدنا عمر سب سے افضل ہیں
(شرح مسلم امام نووی15/153)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
فَوُزِنْتَ أَنْتَ وَأَبُو بَكْرٍ فَرَجَحْتَ أَنْتَ بِأَبِي بَكْرٍ، وَوُزِنَ عُمَرُ وَأَبُو بَكْرٍ فَرَجَحَ أَبُو بَكْرٍ، وَوُزِنَ عُمَرُ وَعُثْمَانُ فَرَجَحَ عُمَرُ
 ایک شخص نے عرض کی کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ ترازو لایا گیا اور اس میں آپ کو وزن کیا گیا اور ابو بکر کو وزن کیا گیا تو آپ کا پلڑا بھاری رہا... پھر ابوبکر اور عمر کو وزن کیا گیا تو ابوبکر کا پلڑا بھاری رہا پھر عمر اور عثمان کو وزن کیا گیا تو عمر کا پلڑا بھاری رہا
(ابوداؤد حدیث تقریری4634)
.
ومعنى رجحان كل من الآخر أن الراجح أفضل من المرجوح
 اس حدیث کا یہ معنی ہے کہ جس کا پلڑا بھاری رہا وہ افضل ہے( لہذا سیدنا ابوبکر صدیق افضل ہیں اس کے بعد سیدنا عمر اس کے بعد سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہم)
(عون المعبود شرح حدیث4634)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
وَأَمَّا وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ : فَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جہاں تک تعلق ہے میرے زمین میں دو وزیروں کا تو وہ ابوبکر اور عمر ہیں
(ترمذی حدیث3680)
.
فِيهِ دَلَالَةٌ ظَاهِرَةٌ عَلَى فَضْلِهِمَا عَلَى غَيْرِهِمَا مِنَ الصَّحَابَةِ وَهُمْ أَفْضَلُ الْأُمَّةِ، وَعَلَى أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَفْضَلُ مِنْ عُمَرَ
 اس حدیث پاک میں واضح دلیل ہے کہ سیدنا ابوبکر اور عمر تمام صحابہ کرام سے افضل ہیں اور ساری امت سے افضل ہیں اور سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سے افضل ہیں
(مرقاۃ شرح مشکواۃ9/3915)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
*صحابہ کرام کے مطابق افضل کون.....؟؟*
حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «كُنَّا نُخَيِّرُ بَيْنَ النَّاسِ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنُخَيِّرُ أَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ، ثُمَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ»
ترجمہ
ہم صحابہ کرام لوگوں کے درمیان فضیلت دیتے تھے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ مبارک میں تو ہم فضیلت دیتے تھے سب سے پہلے ابو بکر صدیق کو پھر سیدنا عمر کو پھر عثمان بن عفان کو ُ(پھر سیدنا علی کو) 
[صحيح البخاري ,5/4روایت3655]
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: إِنَّ ابْنَ عُمَرَ قَالَ: كُنَّا نَقُولُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ: «أَفْضَلُ أُمَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَهُ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ہیں میں ہم صحابہ کرام کہا کرتے تھے کہ کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد  اس امت میں سب سے پہلے افضل ابوبکر صدیق ہے پھر سیدنا عمر سیدنا عثمان(پھر سیدنا علی)
[سنن أبي داود ,4/206روایت4628]
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ , ثنا عُمَرُ بْنُ عُبَيْدٍ الْخَزَّازُ , عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كُنَّا  مَعْشَرَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ مُتَوَافِرُونَ نَقُولُ:أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ
ترجمہ:
ہم صحابہ کہا کرتے تھے کہ
نبی پاک کے بعد تمام امت میں سے سب سے افضل ابوبکر ہیں پھر عمر
(بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث2/888 روایت959)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
*سیدنا علی کے مطابق افضل کون......؟؟*
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:
خير الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم أبو بكر، وخير الناس بعد أبي بكر عمر
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں سے بہتر.و.افضل ابوبکر ہیں اور ابوبکر کے بعد سب لوگوں سے بہتر.و.افضل عمر ہیں...(ابن ماجہ روایت نمبر106)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
علی...افْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، وَبَعْدَ أَبِي بَكْرٍ، عُمَرُ
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ نبی پاک کے بعد تمام امت میں سے سب سے افضل ابوبکر ہیں پھر عمر
(مسند احمد2/201)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
خَطَبَنَا عَلِيٌّ، فَقَالَ: " مَنْ خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا؟ " فَقُلْتُ: أَنْتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ: " لَا خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے خطبہ دیا اور ہم سے پوچھا کہ اس امت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے راوی کہتا ہے کہ میں نے کہا آپ امیر المومنین....تب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ نہیں میں(علی سب سے افضل)نہیں، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے بہترین اور افضل ترین شخص ابوبکر صدیق ہیں پھر عمر ہیں
[مسند أحمد ط الرسالة ,2/201 روایت834]
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
الحدیث التقریری:
كُنَّا نَقُولُ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ: أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَيَسْمَعُ ذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يُنْكِرُهُ
ہم صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی کہا کرتے تھے کے اس امت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ افضل ابوبکر ہیں پھر عمر پھر عثمان ہیں ( پھر سیدنا علی) حضور علیہ السلام یہ سنتے تھے اور اس کا انکار نہ فرماتے تھے 
[المعجم الكبير للطبراني ,12/285حدیث13132]
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.===============
*سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے افضل ہونے اولین قطب و روحانی خلیفہ ہونے کے متعلق کئ علماء ائمہ اولیاء صوفیاء کے اقوال ہیں، سب کو جمع کیا جائے تو ضخیم کتاب مجلدات بن جائیں...اختصار کے ساتھ چند مشھور اسلاف کے اقوال پڑہیے....!!*
امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں:
وَأفضل النَّاس بعد النَّبِيين عَلَيْهِم الصَّلَاة وَالسَّلَام أَبُو بكر الصّديق ثمَّ عمر بن الْخطاب الْفَارُوق ثمَّ عُثْمَان بن عَفَّان ذُو النورين ثمَّ عَليّ بن أبي طَالب المرتضى رضوَان الله عَلَيْهِم أَجْمَعِينَ
 انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر ہیں پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین
(الفقه الاكبر ص41)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
امام شافعی کا عقیدہ:
سمعت أبا عبد اللَّه يقول في التفضيل: أبو بكر، ثم عمر،
 راوی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ افضلیت میں سیدنا ابوبکر سب سے افضل ہیں اس کے بعد سیدنا عمر ہیں
( الجامع لعلوم الإمام أحمد - العقيدة4/289)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
فَمَنْ زَعَمَ أَنَّ عَلِيَّ بنَ أَبي طالبٍ أَفْضَلُ من أَبِي بَكْرٍ قد رَدَّ الكِتابَ والسُّنَّة
 امام شافعی فرماتے ہیں کہ جس نے یہ گمان کیا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل ہیں تو اس نے کتاب و سنت کو رد کردیا
(الجامع لعلوم الإمام أحمد - العقيدة3/41)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
ابن جوزی ابن مفلح اور  امام احمد کا عقیدہ:
 وأفضلُ الناس بعدَ رسول الله أبو بكر وعُمر وعثمان وعَلي
 تمام لوگوں میں سب سے زیادہ افضل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر ہیں پھر عمر ہیں پھر عثمان پھر علی ہیں
(مناقب الإمام أحمد ص239)
(المقصد الارشد1/317نحوہ)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.
امام مالک کا نظریہ
سئل مالك من أفضل الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ وقال مالك أبو بكر ثم قال ثم من؟ قال عمر ثم قال ثم من؟ قال عثمان
 امام مالک سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے تو امام مالک نے فرمایا ابوبکر صدیق ہیں پھر اس کے بعد عمر ہے پھر اس کے بعد عثمان ہیں
(ترتيب المدارك وتقريب المسالك45، 2/46)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
امام غزالی کا نظریہ
 وأن أفضل الناس بعد النبي صلى الله عليه وسلم أبو بكر ثم عمر ثم عثمان ثم علي رضي الله عنهم وأن يحسن الظن بجميع الصحابة ويثني عليهم كما أثنى الله عز وجل ورسوله صلى الله عليه وسلم عليهم أجمعين (8) فكل ذلك مما وردت به الأخبار وشهدت به الآثار فمن اعتقد جميع ذلك موقناً به كان من أهل الحق وعصابة السنة وفارق رهط الضلال وحزب البدعة
یعنی
 بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر ہیں پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی ہیں رضی اللہ تعالی عنہم اور ہم پر لازم ہے کہ ہم تمام صحابہ کی تعریف و مدح سرائی کریں جیسے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول نے ان کی تعریف و مدح کی ہے یہ تمام باتیں وہ ہیں کہ جن کے متعلق احادیث اور آثار ہیں جو یہ اعتقاد رکھے گا وہ اہل سنت میں سے ہوگا اہل حق میں سے ہوگا اور گمراہوں اور بدعتوں سے دور ہوگا
(احیاء العلوم 1/93)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
امام سيوطي کا نظریہ:
فَأَبُو بكر الصّديق أفضل الْبشر بعد الْأَنْبِيَاء فعمر بن الْخطاب بعده فعثمان بن عَفَّان بعده فعلي بن أبي طَالب بعده
 سیدنا ابوبکر صدیق تمام انبیاء کے بعد تمام لوگوں سے افضل ہیں اس کے بعد سیدنا عمر افضل ہیں ان کے بعد سیدنا عثمان افضل ہیں ان کے بعد سیدنا علی افضل ہیں رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین
(إتمام الدراية لقراء النقاية ص17)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
پیران پیر دستگیر کا نظریہ:
غوث اعظم پیران پیر دستگیر فرماتے ہیں کہ تمام امتوں سے افضل امت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے، پھر امت محمدیہ میں سب سے افضل صحابہ ہیں اور صحابہ میں افضل عشرہ مبشر ہیں اور عشر مبشرہ میں سے افضل چار خلفاء ہیں اور چار خلفاء میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر ہیں پھر عمر پھر عثمان پھر علی رضی اللہ تعالیٰ عنھم
وأفضل الأربعة أبو بكر ثم عمر ثم عثمان ثم علي -رضي الله تعالى عنهم
(غنیۃ الطالبین157, 1/158)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
امام طحاوی کا نظریہ:
وَنُثْبِتُ الْخِلَافَةَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ أَوَّلًا لِأَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه تفضيلا له وتقديما على جميع الأمة ثُمَّ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه ثم لعثمان رَضِيَ اللَّهُ عَنْه ثُمَّ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه وهم الخلفاء الراشدون
 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہم خلافت سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق کے لیے ثابت کرتے ہیں کیونکہ وہ سب سے افضل ہیں اور سب سے مقدم ہیں پھر اس کے بعد سیدنا عمر بھر اس کے بعد سیدنا عثمان پھر اس کے بعد سیدنا علی یہ تمام کے تمام خلفاء راشدین ہیں
(عقیدہ طحاویہ ص81)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
امام ملا علی قاری کا نظریہ:
 يَنْبَغِي لِقَوْمٍ فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَؤُمَّهُمْ غَيْرُهُ» ) . وَفِي مَعْنَاهُ مَنْ هُوَ أَفْضَلُ الْقَوْمِ مِنْ غَيْرِهِمْ، وَفِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُ أَفْضَلُ جَمِيعِ الصَّحَابَةِ، فَإِذَا ثَبَتَ هَذَا فَقَدَ ثَبَتَ اسْتِحْقَاقُ الْخِلَافَةِ
 یہ جو حدیث پاک میں ہے کہ جس قوم میں ابوبکر ہو تو دوسرا کوئی امامت نہ کرائےاس حدیث پاک سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق تمام صحابہ سے افضل ہیں اور خلافت کے اولین مستحق ہیں
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح9/3888)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
صدیق اکبر انبیاء کے بعد تمام بشروں سےافضل ہیں،اہل طریقت کے پیشوا خاص ہیں(کشف المحجوب ص174،175)داتا صاحب کے مطابق بھی سیدنا صدیق اکبر سیاسی و روحانی اول خلیفہ ہیں
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.===================
*سیدنا صدیق اکبر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی افضلیت اجماعی و قطعی ہے...چند حوالے ملاحظہ کیجیے.......!!*
وأجمعوا.... أبو بكر، ثم عمر، ثم عثمان، ثم علي - رضوان الله عليهم
 امام ابو موسی اشعری فرماتے ہیں کہ تمام کے تمام اہلسنت کا اجماع ہے متفقہ فیصلہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق سب سے افضل ہیں پھر سیدنا عمر ہیں پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی ہیں
(رسالة الي اهل الثغر ص170)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
وَمِنْ قَوْلِ أَهْلِ اَلسُّنَّةِ أَنَّ أَفْضَلَ هَذِهِ اَلْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّنَا صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، وَأَفْضَلَ اَلنَّاسِ بَعْدَهُمَا عُثْمَانُ وَعَلِيٌّ
 تمام اہل سنت کا نظریہ ہے کہ اس امت میں سب سے افضل شخص نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا ابوبکر ہیں پھر عمر پھر عثمان اور سیدنا علی
(أصول السنة لابن أبي زمنين ص270)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
علامہ امام عینی فرماتے ہیں
ومذهب أهل السنة: أن أفضل الناس بعد نبينا -عليه السلام- أبو بكر، ثم عمر، ثم عثمان، ثم علي - رضي الله عنه
 تمام اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر ہیں پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی ہیں
( نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار16/498)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
امام ابن ملقن فرماتے ہین
قام الإجماع من أهل السنة والجماعة على أن الصديق أفضل الصحابة، ثم عمر
 اہل سنت والجماعت کا اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ تمام صحابہ میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں اس کے بعد سیدنا عمر ہیں
(التوضيح لشرح الجامع الصحيح20/250)
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
قال ابو الحسن الأشعري تفضيل ابى بكر على غيره من الصحابة قطعى قلت قد اجمع عليه السلف وما حكى عن ابن عبد البر ان السلف اختلفوا فى تفضيل ابى بكر وعلى فهو شىء غريب الفرد به عن غيره ممن هو أجل منه علما واطلاعا
 امام ابو الحسن اشعری فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق کی افضلیت قطعی ہے...صاحب تفسیر مظہری فرماتے ہیں کہ اس بات پر تمام اسلاف کا اجماع ہے اور وہ جو ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ کچھ اختلاف ہے تو یہ اختلاف شاذ ہے اختلاف کرنے والوں کی جلالت اور علم اور اطلاع ان علماء جیسی نہیں ہے کہ جنہوں نے قطعی قرار دیا ہے
(التفسير المظهري9/191)
 ثابت ہوا کہ اگرچہ تھوڑا سا اختلاف کا قول ہے لیکن ہم ان علماء کی معذرت پیش کر دیں گے کہ انہیں اطلاع نہیں پہنچی انہیں علم حاصل کم ہوا ان کی توجہ نہ گئی کہ مسئلہ افضلیت کو اختلافی کہہ گئے...اگر انہیں وسیع علم و اطلاع پہنچتی تو وہ بھی قطعی کا قول ہی فرماتے
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.
امام قسطلانی فرماتے ہیں
الأفضل بعد الأنبياء أبو بكر، وقد أطبق السلف على أنه أفضل الأمة. حكى الشافعي وغيره إجماع الصحابة والتابعين على ذلك
 انبیاء کرام کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں اس پراسلاف نے اجماع کیا ہے اور امام شافعی وغیرہ نے منقول کیا ہے کہ اس بات پر صحابہ اور تابعین کا بھی اجماع ہے
(ارشاد الساری شرح بخاری6/85)

.
علامہ ہاشم ٹھٹھوی سندھی فرماتے ہیں:
اقول لو اطلع هؤلاء على الاحاديث الكثيرة البالغة حد التواتر وعلى الاجماع الدالين على الترتيب المذكور لما قالوا بظنيتها اصلاً ولما قروا بقطعيتها حتما
 جن لوگوں نے سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی افضلیت کو ظنی کہا ان لوگوں کے علم میں اجماع اور وہ روایات نہ تھیں کہ جو تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور اگر انہیں سیدنا ابوبکر و عمر کی سیدنا علی وغیرہ سب پر افضلیت کی حد تواتر تک پہنچی ہوئی روایات پہنچتی اور  اجماع کا پتہ چلتا تو وہ کبھی بھی اس مسئلے کو ظنی قرار نہ دیتے بلکہ حتمی و قطعی اجماعی قرار دیتے
(الطریقۃ المحمدیۃ ص122..123)
.================
*سیدنا ابوبکر و عمر روحانی و سیاسی اولین خلیفہ تھے، قطب تھے،ولایت و کمالات کے جامع تھے...دوٹوک عبارتیں ملاحظہ کیجیے.....!!*
 اہلسنت کا عقیدہ وہی ہے جو صحابہ کرام اور اہل بیت کا تھا کہ پہلا نمبر ابو بکر صدیق کا...سیدنا علی کے مطابق بھی پہلا نمبر سیدنا ابوبکر صدیق کا ہے...احادیث میں مطلق فضیلیت و خلافت ہے اسے سیاسی اور روحانی میں تقسیم کرکے کہنا کہ صدیق و عمر سیاسی ظاہری خلیفہ تھے اور علی بلافصل دور صدیقی ہی سے روحانی خلیفہ تھے(جیسا کہ ڈاکٹر طاہر الکادری کے کلام سے ظاہر ہے دیکھیےانکی کتاب القول الوثیق ص41 اور چمن زمان کی کتاب بارہ امام)....ایسا کہنا اپنی طرف سے روایات میں زیادتی کے مترادف و مردود ہے....اہلسنت کے نظریہ ، اہل علم کے نظریہ کے خلاف ہے
.
اب ہم پندرہ وہ حوالے نقل کر رہے ہیں جن میں دوٹوک لکھا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق اول روحانی و سیاسی خلیفہ تھے، اول قطب تھے..پھر سیدنا عمر روحانی و سیاسی خلیفہ تھے،قطب تھے....پھر سیدنا عثمان پھر سیدنا علی...رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین
حوالہ:1
و فی شرح المواهب اللدنية قال: أول من تقطب بعد النبی الخلفاء الأربعة على ترتيبهم في الخلافة، ثم الحسن هذا ما عليه الجمهور
شرح المواهب اللدنية میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے جو قطب(روحانی خلیفہ) ہیں وہ خلفائے اربعہ ہیں اس ترتیب پر جو ان کی خلافت کی ترتیب ہے یعنی سب سے پہلے قطب(روحانی و سیاسی خلیفہ) سیدنا ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی قطب ہیں پھر سیدنا حسن(رضی اللہ تعالیی عنھم اجمعین)اور یہ وہ(نظریہ قول) ہے کہ جس پر جمہور(علماء اور صوفیاء)ہیں 
(جلاء القلوب2/265)
.
*حوالہ 2*
علامہ ابن رجب لکھتے ہیں:
لما انطوى بساط النبوة من الأرض بوفاة الرسول صلى الله عليه وسلم لم يبق على وجه الأرض أكمل من درجة الصديقية وأبو بكر رأس الصديقين فلهذا استحق خلافة الرسول
 جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرما گئے تو صدیقیت کے علاوہ کوئی بھی افضل درجہ نہ تھا اور  سیدنا  ابوبکر صدیق تمام صدیقوں کے سردار تھے اسی لیے خلافت(روحانی و سیاسی خلافت)کے مستحق ٹہرے
(لطائف المعارف ص104)
.
*حوالہ نمبر3*
صوفی امام شعرانی اور صوفی ابی مدین اور صوفی امام علی الخواص کا نظریہ:
ابی بکر الصدیق...وھو اول اقطاب ھذہ الامۃ و کذالک مدۃ خلافۃ عمر و عثمان و علی...وبلغنا مثل ذلك عن الشيخ ابن العربی فقلت لشيخنا فهل يشترط ان يكون القطب من اهل البيت كما قاله بعضهم فقال لا يشترط ذلك لأنها طريق وهب يعطيها الله تعالى لمن شاء
 سیدنا ابوبکر صدیق اس امت کے تمام قطبوں میں سے سب سے پہلے اولین قطب ہیں اور اسی طرح سیدنا عمر اپنی خلافت کے زمانے میں قطب تھے اور سیدنا عثمان بھی اپنی خلافت میں قطب تھے اور سیدنا علی اپنے خلافت کے زمانے میں قطب تھے، اسی طرح کا نظریہ ہمیں صوفی ابن مدین سے بھی ملا ہے، امام شعرانی فرماتے ہین کہ میں نے اپنے شیخ مرشد امام علی الخواص سے پوچھا کہ کیا قطب کے لیے اہلبیت نبوی میں سے ہونا شرط ہے جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں، آپ نے فرمایا شرط نہیں، قطبیت اللہ کی عطاء ہے جسے چاہے نوازے
(مجموع رسائل ابن عابدین 2/275)
.

*حوالہ نمبر 4*
وأول من تقطب بعد النبي يَةُ الخلفاء الأربعة على ترتيبهم في الخلافة، ثم الحسن، هذا ما عليه الجمهور
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے جو قطب(روحانی خلیفہ) ہیں وہ خلفائے اربعہ ہیں اس ترتیب پر جو ان کی خلافت کی ترتیب ہے یعنی سب سے پہلے قطب سیدناابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی قطب ہیں پھر سیدنا حسن(رضی اللہ تعالیی عنھم اجمعین)اور یہ وہ(نظریہ قول) ہے کہ جس پر جمہور(علماء اور صوفیاء)ہیں 
(مشتهى الخارف الجاني ص506)
.
*حوالہ نمبر 5*
علامہ مناوی فرماتے ہیں:
لكن حيث أطلق القطب لا يكون في الزمان إلا واحدا وهو الغوث، وهو سيد أهل زمنه وإمامهم، وقد يحوز الخلافة الظاهرة كما حاز الباطنة، كالشيخين والمرتضى والحسن و عبد العزيز رضي الله عنهم،
 قطب زمانے میں ایک ہوتا ہے اور اسے غوث بھی کہتے ہیں اور وہ  اپنے تمام زمانے والوں کا سردار و امام و افضل شخص ہوتا ہے...قطب  کبھی روحانی خلیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ  سیاسی خلیفہ بھی ہوتا ہے جیسے کہ سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا علی سیدنا حسن اور سیدنا عبد العزیز( یہ سب روحانی اور سیاسی دونوں قسم کے خلافت والے تھے)
(التوقیف ص58)
.
*حوالہ نمبر6*
وبعد عصرہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفتہ القطب، متفق علیہ بین اہل الشرع و الحکماء۔۔۔انہ قد یکون متصرفا ظاہرا فقط کالسلاطین و باطنا کالاقطاب و قد یجمع بین الخلافتین  کالخلفاء الراشدین کابی بکر و عمر بن عبدالعزیز
اور
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ مبارکہ کے بعد جو آپ کا خلیفہ ہوا وہی قطب ہے اس پر تمام اہل شرع(علماء صوفیاء)اور حکماء کا اتفاق ہے کہ خلیفہ کبھی ظاہری تصرف والا ہوتا ہے جیسے کہ عام بادشاہ اور کبھی فقط باطنی تصرف والا ہوتا ہے جیسے کہ قطب اور کبھی خلیفہ ایسا ہوتا ہے کہ جو ظاہری تصرف بھی رکھتا ہے اور باطنی تصرف بھی رکھتا ہے(وہ بادشاہ بھی ہوتا ہے اور قطب  و روحانی خلیفہ بھی ہوتا ہے)جیسے کہ خلفائے راشدین مثلا سیدنا ابو بکر صدیق اور عمر بن عبدالعزیز    
(نسیم الریاض3/30ملتقطا)
.
*حوالہ نمبر7*
شیخ الدقائق صوفی امام ابن عربی کا قول منقول ہے کہ:
ولكن الأقطاب المصطلح على أن يكون لهم هذا الإسم مطلقًا من غير إضافة لا يكون إلا واحد وهو الغوث أيضًا وهو سيد الجماعة في زمانه ومنهم من يكون ظاهر الحكم ويحوز الخلافة الظاهرة كما حاز الخلافة الباطنة كأبي بكر وعمر وعثمان وعلي رضوان الله تعالى عليهم
قطب زمانے میں ایک ہوتا ہے اور اسے غوث بھی کہتے ہیں اور وہ  اپنے تمام زمانے والوں کا سردار و امام و افضل شخص ہوتا ہے...قطب  کبھی روحانی خلیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ  سیاسی خلیفہ بھی ہوتا ہے جیسے کہ سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا علی( یہ سب روحانی اور سیاسی دونوں قسم کے خلافت والے تھے)
(الموسوعة الميسرة في تراجم أئمة التفسير والإقراء والنحو واللغة3/2530)
.
*حوالہ نمبر 8*
قطب.....وھو الغوث ایضا و ھو سید الجماعۃ فی زمانہ۔۔یحوز الخلافۂ الظاہریۃ کما حاز الخلافۃ الباطنیۃ کابی بکر و عمر و عثمان و علی رضوان اللہ تعالیٰ علھیم...و ذہب التونسی من الصوفیۃ الی ان اول من تقطب بعدہ صلی اللہ علیہ وسلم  ابنتہ فاطمۃ و لم ار لہ فی ذالک سلفا
قطب(روحانی خلیفہ) اس کو غوث بھی کہتے ہیں اور وہ اپنے زمانے میں تمام امتیوں کا سردار و افضل ہوتا ہے...خلیفہ کبھی ایسا ہوتا ہے جو ظاہری خلافت بھی پاتا ہے اور باطنی خلافت و قطبیت بھی پاتا ہے جیسے کہ سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمر اور سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اجمعین اور صوفیاء میں سے تونسی اس طرف گئے ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد اول قطب ان کی بیٹی فاطمہ ہے اور ہم اس مسئلہ میں ان کا کوئی ہمنوا و حوالہ نہیں پاتے  
(مجموع رسائل ابن عابدین 2/265ملتقطا)
.
*حوالہ نمبر 9*
سیدی امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ کا نظریہ
غوث(کو)قطب الاقطاب(بھی کہا جاتا) ہے
(فتاوی رضویہ28/373)
 امت میں سب سے پہلے درجہ غوثیت(روحانیت قطبیت) پر امیر المومنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ممتاز ہوئے...اسکے بعد امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غوثیت مرحمت ہوئی
(ملفوظات اعلی حضرت حصہ اول ص178)
یہی حق و صواب ہے، دلائل و اسلاف کے نظریہ کے مطابق ہے... اس کے برخلاف کچھ سیدی رضا کے کلام سے مفھوم ہو تو وہ مرجوع و کالعدم قرار پائے گا
.
*حوالہ نمبر10*
محدث مورخ صوفی ابن ابی الفتوح خرق متصلۃ بالنبی ابوبکر الصدیق ثم عمر...
 باطنی خلافت کا خرقہ(سلسلہ) جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے متصل ہوتا ہے اس میں سے پہلا خرقہ سیدنا ابوبکر صدیق کا ہے پھر سیدنا عمر کا ہے
(فھرس الفھارس و الاثبات2/914 ملخصا)
.
*حوالہ نمبر11*
قاضی ثناء اللہ پانی پتی کا نظریہ:
 شیخین(سیدنا ابوبکر و عمر)رضی اللہ تعالی عنہما کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا وزیر قرار دیا جس سے معلوم ہوا کہ وہ قطب ارشاد کمالات نبوت ہیں.. اسی لیے جمیع صحابہ حتی کہ خود حضرت علی افضلیت شیخین کے قائل تھے اور اسی پر اجماع کیا،بعد کے لوگوں نے...(السیف المسلول ص533)
.
*حوالہ نمبر12*
 حضرت خواجہ باقی باللہ نقشبندی فرماتے ہیں:
 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قطب سیدنا ابوبکرصدیق ہیں قطب وہ ہے جو اپنے وقت میں واحد اور سب سے افضل ہوتا ہے، اس کے بعد سیدنا عمر قطب ہوئے اس کے بعد سیدنا عثمان اور اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ قطب ہیں....(مکتوبات خواجہ ص89..90ملخصا)
.
*حوالہ نمبر13*
خواجہ محمد پارسا  فرماتے ہیں:
 سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالئ عنہ  ولایت اور علم باطن میں سب سے زیادہ اکمل سب سے زیادہ افضل سب سے زیادہ علم والے اور تمام اولیاء امت سے بڑے و اعظم ہیں اور اس بات پر اجماع ہے..(رسالہ قدسیہ ص30 ملخصا)
.
*حوالہ نمبر14*
مرزا مظہر جانان فرماتے ہیں:
چاروں خلفاء( سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا علی) اور حضرت امام حسن میں یہ دونوں باتیں(ظاہری و باطنی خلافت) جمع تھیں...(مکتوبات مرزا مظہر جانان ص148)
.
*حوالہ نمبر15*
مجدد الف ثانی کا نظریہ بقول قاضی ثناء اللہ پانی پتی…!!
قاضی صاحب اپنا اور مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ کا نظریہ لکھتے ہیں کہ:
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ (پھر)حضرت عمر رضی الله (پھر)حضرت عثمان غنی رضی اللہ اور(پھر) حضرت علی رضی اللہ کی جو بیعت کی تو اس بیعت سے مقصود کسب کمالات باطنی بھی مقصود تھا۔ (ارشاد الطالبين مترجم ص 16-17ملخصا) ثابت ہوا کہ سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر اولین روحانی خلیفہ بھی تھے اور ظاہری خلیفہ بھی تھے
نوٹ:
حوالہ نمبر10تا15کتاب الانوار الجلیہ سے لکھے ہیں...مزید تفصیل بھی مذکورہ کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے،میرے 
پاس pdf میں موجود نہیں
*حوالہ نمبر16*
*#امام اہلسنت مجدد دین و ملت پیکر عشق و محبت سیدی احمد رضا علیہ الرحمۃ نے ظاہری اور باطنی روحانی اول خلیفہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لکھا اور اس کو صحابہ کرام تابعین و اسلاف و امت کا اجماعی عقیدہ قرار دیا اور جو کہتے ہیں کہ باطنی اول خلیفہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں انہیں سیدی امام احمد رضا نے جھوٹے سنی اور گمراہ قرار دیا....متن اور اس پر سیدی امام احمد رضا کا حاشیہ پڑہیے......!!*
 امام بر حق رسول اللہ ﷺ کے بعد ابو بکر ، پھر عمر، پھر عثمان، پھر علی رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین ہیں، اور ( ان چاروں کی فضیلت [۳۱۶) ترتیب خلافت کے موافق ہے۔
(۳۱۶) اس حسین عبارت میں مصنف رحمہ اللہ تعالی علیہ نے احمد سابقین کی پیروی کی اور اس میں اس زمانے کے تفصیلیوں کا رد ہے جو جھوٹ اور بہتان کے بل پر سنی ہونے کے مدعی ہیں اس لئے کہ انہوں نے فضیلات میں ترتیب کے مسئلے کو ( ظاہر سے ) اس طرف پھیرا کہ خلافت میں اولیت (خلافت میں زیادہ حقدار ہونے ) کا معنی دنیوی خلافت کا زیادہ حقدار ہونا، اور یہ اس کے لئے ہے جو شہروں کے انتظام اور لشکر سازی، اور اس کے علاوہ دوسرے امور جن کے انتظام وانصرام کی سلطنت میں حاجت ہوتی ہے ان کا زیادہ جاننے والا ہو۔ اور یہ باطل خبیث قول ہے، صحابہ اور تابعین رضی اللہ تعالی عنہم کے اجماع کے خلاف ہے۔... اس لئے طریقہ محمدیہ وغیرہا کتابوں میں اہلسنت و جماعت کے عقیدوں کے بیان میں اس مسئلے کی تعبیر یوں فرمائی کہ اولیاء محمدیین ( محمد رسول اللہ ﷺ کی امت کے اولیاء ) میں سب سے افضل ابو بکر ہیں پھر عمر ہیں پھر عثمان میں پھر علی میں رضی اللہ تعالی عنہم اور اس ناتو اں بندے کی ان گمراہوں کی رد میں ایک جامع کتاب ہے جو کافی اور مفصل اور تمام گوشوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے جسکا نام میں نے مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین رکھا
(المعتقد المنتقد ص286ملتقطا)
.
طاہر الکادری سے کیا گلہ کہ وہ تو ہے ہی جھوٹا مگر حیرت ہوتی ہے چمن زمان مکار منافق پر کہ ایک طرف کہتا ہے کہ:
ہم باب نظریات میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی شخصیت پر مکمل اعتماد کرتے ہیں 
(دیکھیے چمن زمان کی کتاب جدید نعرے ص57,58)
اور دوسری طرف امام اہلسنت کے نظریے کی مخالفت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:
اول روحانی خلیفہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں
(دیکھیے چمن زمان کی کتاب بارہ امامان اہلبیت ص42)
.
قرآن پاک میں جھوٹوں اور حدیث پاک میں مکاروں پر لعنت فرمائی گئ ہے....لعنۃ اللہ علی الکاذبین،  لعنۃ اللہ علی الماکرین....اللہ کریم ہم سب کو توفیق دے کہ ہم جھوٹوں مکاروں منافقوں کو پہچانیں انہیں سمجھائیں،سمجھ جائیں توبہ تائب و پابند ہوجائیں تو ٹھیک ورنہ انہیں دھکتاریں، انہیں ٹھکراءیں ، نہ انکی سنیں،  نہ انکی مانیں، انکا ہر طرح سے بائیکاٹ کریں......!!


.#################
*#چوتھی_بحث_جو رافضی تفضیلی سیدنا ابوبکر اور عمر پر سیدنا علی کو فضیلت دے گا وہ بدعتی ہے گمراہ بدمذہب ہے اسے سزا دی جائے اس کا بائیکاٹ کیا جائے گا اسے سمجھایا جائے گا...کچھ حوالے درج زیل ہیں......!!*
سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی افضلیت قطبیت روحانی خلافت کے دلائل و اقوال اوپر لکھ آئے...اب وہ حوالے پیش ہیں کہ جو نہ مانے یا سیدنا علی کو افضل قرار دے وہ بدعتی ہے
وَمُبْتَدِعٌ إنْ فَضَّلَ عَلِيًّا عَلَيْهِمَا
 اگر رافضی تفضیلی سیدنا علی کو سیدنا ابوبکر صدیق و عمر پر فضیلت دے گا تو وہ بدعتی گمراہ بدمذہب کہلائے گا
(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر1/667)
.
وَإِنْ فَضَّلَ عَلِيًّا عَلَيْهِمَا فَمُبْتَدِعٌ
اگر رافضی تفضیلی سیدنا علی کو سیدنا ابوبکر صدیق و عمر پر فضیلت دے گا تو وہ بدعتی گمراہ بدمذہب کہلائے گا
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري5/136)
.
يُفَضِّلُ عَلِيًّا كَرَّمَ اللَّهُ تَعَالَى وَجْهَهُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ - لَا يَكُونُ كَافِرًا إلَّا أَنَّهُ مُبْتَدِعٌ
اگر رافضی تفضیلی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ پر فضیلت دیتا ہو تو وہ کافر نہیں ہے مگر بدعتی گمراہ بدمذہب ہے
(فتاوی عالمگیری...الفتاوى الهندية ,2/264)
.
والرافضيُّ إن فضّل عليّاً رضي الله عنه على غيره فهو مبتدع
 رافضی اگر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو دیگر صحابہ کرام پر فضیلت دے تو وہ بدعتی ہے
(خزانة المفتين - قسم العبادات ص517)

.
"من فضل عليّاً على أبی بكر فقد أزرى٤ على المهاجرين والأنصار، وأخاف أن لا ينفعه مع ذلك عمل
 امام سیدنا سفیان ثوری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جس نے سیدنا علی کو سیدنا ابوبکر صدیق پر فضیلت دی بے شک اس نے مہاجرین اور انصار صحابہ پر عیب لگایا، مجھے خوف ہے کہ ایسے عقیدے والے شخص کا کوئی بھی عمل اسے نفع نہ دے گا
(محض الصواب في فضائل أمير المؤمنين عمر بن الخطاب 1/243)
.
قال سيدنا الإمام أحمد إمام الأثرية رضي اللَّه عنه: "علي رضي اللَّه عنه رابعهم في الخلافة والتفضيل" وقال: "من فضل عليًا على أبي بكر وعمر أو قدمه عليهما في الفضيلة والإمامة دون النسب فهو رافضى مبتدع
 امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ خلافت میں اور فضیلت میں چوتھے نمبر پر ہیں، جس شخص نے سیدنا علی کو سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر پر فضیلت دی یا سیدنا علی کو ان سے زیادہ خلافت کا حقدار کہا تو وہ شخص رافضی ہے بدعتی ہے
(لوائح الأنوار السنية ولواقح الأفكار السنية2/15)
.
، 
 ، وَإِنْ فَضَّلَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَيْهِمَا فَمُبْتَدِعٌ
 اگر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو سیدنا ابوبکر اور عمر پر فضیلت دے گا تو وہ بدعتی ہے
(الأشباه والنظائر - ابن نجيم ص159)
.
وَإِنْ فَضَّلَ عَلِيًّا عَلَيْهِمَا فَمُبْتَدِعٌ،
 اور اگر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما پر فضیلت دے گا تو وہ بدعتی ہے
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح9/3875)
.
. وَفِي الرَّوَافِضِ أَنَّ مَنْ فَضَّلَ عَلِيًّا عَلَى الثَّلَاثَةِ فَمُبْتَدِعٌ
 روافض کے بارے میں ایک حکم یہ ہے کہ جو شخص سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو تین خلفاء(سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان) پر فضیلت دے گا تو وہ بدعتی ہے
(فتح القدير للكمال ابن الهمام وتكملته ط الحلبي1/350)

.
حضرت امیر المومنین سیدنا مولٰی علی کرم ﷲ وجہہ الکریم کو حضرت شیخین رضی ﷲ تعالٰی عنہما سے افضل بتانا رفض و بد مذہبی ہے(فتاوی رضویہ6/442)لیھذا سیدی امام احمد رضا کے مطابق بھی افضل سیدنا ابوبکر و عمر ہیں اور سیدنا علی اول قطب نہیں کیونکہ قطب سب سے افضل ہوتا ہے جبکہ سب سے افضل صدیق اکبر ہیں تو اول قطب بھی سیدنا صدیق اکبر ہوئے...اوپر پندرہ حوالوں میں ایک حوالہ سیدی امام احمد رضا کا بھی تھا کہ غوثیت یعنی قطبیت سیدنا ابوبکر صدیق کو سب سے پہلے ملی
.
*بدعتی کا حکم ہے کہ سمجھایا جائے، تعزیری تادیبی سزا بادشاہ اسلام دے اور بائیکاٹ کیا جائے.....!!*
الْقُهُسْتَانِيُّ وَلَا تُوضَعُ عَلَى الْمُبْتَدِعِ، وَلَا يُسْتَرَقُّ وَإِنْ كَانَ كَافِرًا لَكِنْ يُبَاحُ قَتْلُهُ إذَا أَظْهَرَ بِدْعَتَهُ، وَلَمْ يَرْجِعْ عَنْ ذَلِكَ وَتُقْبَلُ تَوْبَتُهُ وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تُقْبَلُ تَوْبَةُ الْإِبَاحِيَّةِ وَالشِّيعَةِ وَالْقَرَامِطَةِ وَالزَّنَادِقَةِ مِنْ الْفَلَاسِفَةِ وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إنْ تَابَ الْمُبْتَدِعُ قَبْلَ الْأَخْذِ وَالْإِظْهَارِ، تُقْبَلُ وَإِنْ تَابَ بَعْدَهُمَا لَا تُقْبَلُ
 بدعتی فساد پھیلائے اگر اسے سزا کے لیے پکڑنے سے پہلے وہ توبہ کرلے تو بعض نے فرمایا سزا معاف ہے بعض نے فرمایا نہیں... بدعتی کو سمجھایا جائے گا اس پر جزیہ وغیرہ نہ رکھا جائے گا اور اسے غلام نہ بنایا جائے گا
(حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي4/199)
.
فِيهِ زَجْرٌ وَتَأْدِيبٌ وَلَوْ بِالْقَتْلِ، كَمَا قَالُوا فِي اللُّوطِيِّ وَالسَّارِقِ وَالْخَنَّاقِ إذَا تَكَرَّرَ مِنْهُمْ ذَلِكَ حَلَّ قَتْلُهُمْ سِيَاسَةً وَكَمَا مَرَّ فِي الْمُبْتَدِعِ
 بدعتی اگر بار بار فساد پھیلائے تو بادشاہ اسلام کے لیے سیاستاً اس کا قتل کرنا جائز ہے ورنہ اسے سمجھایا جائے گا اسے ڈانٹا جائے گا
(كتاب حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي4/15)
.
يَجِبُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ مِنْ أُولِي الأَْمْرِ وَغَيْرِهِمْ أَنْ يَأْمُرُوا أَهْل الْبِدَعِ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَيَحُضُّوهُمْ عَلَى اتِّبَاعِ السُّنَّةِ وَالإِْقْلاَعِ عَنِ الْبِدْعَةِ وَالْبُعْدِ عَنْهَا. لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ}........الْمَنْعُ بِالْقَهْرِ، مِثْل كَسْرِ الْمَلاَهِي وَتَمْزِيقِ الأَْوْرَاقِ وَفَضِّ الْمَجَالِسِ.التَّخْوِيفُ وَالتَّهْدِيدُ بِالضَّرْبِ الَّذِي يَصِل إِلَى التَّعْزِيرِ، وَهَذِهِ الْمَرْتَبَةُ لاَ تَنْبَغِي إِلاَّ لِلإِْمَامِ أَوْ بِإِذْنِهِ؛ لِئَلاَّ يَتَرَتَّبَ عَلَيْهَا ضَرَرٌ أَكْبَرُ مِنْهَا
 بدعتیوں کو سمجھایا جائے گا برائی سے روکا جائے گا بدعتوں سے روکا جائے گا جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ تم میں سے ایک قوم ہو کہ جو بھلائی کی طرف بلائے اور برائی سے روکے.. اور اس کے علاوہ زبردستی روکنا ان کو ڈانٹنا ان کو سزا دینا امام وقت بادشاہ وقت یا اسکے نائب(علماء اہلسنت میں سے اکابرین) کے حکم سے جائز ہے... ہر آدمی کو اجازت نہیں تاکہ فساد نہ پھیلے
(موسوعہ فقہیہ کوئیتیہ8/40)
.
لِأَنَّهُ الَّذِي يُقِيمُ الْحُدُودَ فِي الْعَادَةِ
عموما سزائیں دینا عام طور پر قاضی کا ہی کام ہے(کچھ استثنائی صورتوں میں عام ادمی بھی سزا دے سکتا ہے)
 (رد المحتار ,6/140)
.

*#سیدنا_علی رضی اللہ تعالی عنہ سے جو روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جو مجھے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہما پر فضیلت دے گا میں اسے جھوٹ و بہتان باندھنے والے کی سزا یعنی 80 کوڑے ماروں گا...اس روایت کے حوالہ جات........!!*
شیعہ کا موقف:
شیعہ کا موقف ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ روایت موضوع ومن گھڑت جھوٹی ہے اس کا کوئی حوالہ نہیں ہے اس کا کوئی سند نہیں ہے
.
*#ہم_اہلسنت_کا_موقف.....!!*
اس سلسلے میں مجھے سترہ اٹھارہ حوالے باسند ملے...ان میں سے جو ہم پہلی روایت و حوالہ  پیش کریں گے وہ یا تو صحیح ہے ورنہ کم از کم حسن معتبر ضرور ہے کہ سب راویوں کو ثقہ تو کہا گیا ہے لیکن اکا دوکا ناقدین نے بعض راویوں کو ثقہ کہنے کے ساتھ ساتھ بڑھاپے میں تغیر یا لایتابع جیسی خفیف جرح بھی ہے تو ثقہ ہیں لیکن صحیح روایت کے ثقہ راویوں سے کم اور ضعیف راویوں سے اوپر درجے کے راوی ہیں
لیکن
دیگر روایات کو ملا کر دیکھا جائے تو یہ روایت صحیح معتبر کہلائے گی ورنہ کم از کم حسن معتبر تو ضرور ہے کہ اگر سب روایات کو ضعیف مان بھی لیا جائے تو بھی تعدد طرق مختلف سندوں کی وجہ سے حسن معتبر ہے
.
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سیدنا سوید یا زید یا أبو الزَّعْرَاء نے روایت کی ہے اور سیدنا الْحَكَمِ بْنِ جَحْلٍ نے بھی سیدنا علی سے ایسی روایت کی ہے اور سیدنا علقمہ نے بھی سیدنا علی سے ایسی روایت کی ہے
اور
ایسا حکم سیدنا عمر سے بھی مروی ہے لیھذا یہ حکم صحیح معتبر یا حسن معتبر روایت سے ثابت شدہ کہلائے گا اگرچہ سندوں کو ضعیف مان لیا جائے تو بھی ضعیف مل کر حسن معتبر روایت بن جاتی ہے
.
*#قاعدہ…..ضعیف احادیث و روایات مل کر حسن معتبر قابل دلیل بن جاتی ہیں.....!!*
وقد يكثر الطرق الضعيفة فيقوى المتن
تعدد طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے اور(حدیث و روایت کا) متن قوی(معتبر مقبول صحیح و حسن)ہوجاتا ہے
(شیعہ کتاب نفحات الازھار13/55)
لِأَنَّ كَثْرَةَ الطُّرُقِ تُقَوِّي
کثرت طرق(تعدد طرق)سے روایت و حدیث کو تقویت ملتی ہے(اور ضعف ختم ہوجاتا ہے)
(تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ,1/179)
أن تعدد الطرق، ولو ضعفت، ترقي الحديث إلى الحسن
بےشک تعدد طرق سے ضعیف روایت و حدیث حسن و معتبر بن جاتی ہے(اللؤلؤ المرصوع ص42)

.
لِلصَّحِيحِ وَالْحَسَنِ، لِصَلَاحِيَتِهِمَا لِلِاحْتِجَاجِ
 صحیح اور حسن حدیث و روایت دلیل بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں
(سیوطی... تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي1/195)
.
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ غَالِبٍ الْخُوَارَزْمِيُّ، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَمْدَانَ النَّيْسَابُورِيُّ بِخُوَارَزْمَ: قَالَ: أَمْلَى عَلَيْنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبُوشَنْجِيُّ، ثنا أَبُو صَالِحٍ الْفَرَّاءُ مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، ثنا شُعْبَةُ , عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ , عَنْ أَبِي الزَّعْرَاءِ , أَوْ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ , أَنَّ سُوَيْدَ بْنَ غَفَلَةَ الْجُعْفِيَّ , دَخَلَ عَلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي إِمَارَتِهِ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنِّي مَرَرْتُ بِنَفَرٍ يَذْكُرُونَ أَبَا بَكْرٍ , وَعُمَرَ بِغَيْرِ الَّذِي هُمَا لَهُ أَهْلٌ مِنَ الْإِسْلَامِ , لِأَنَّهُمْ يَرَوْنَ أَنَّكَ تُضْمِرُ لَهُمَا عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ , وَإِنَّهُمْ لَمْ يَجْتَرِئُوا عَلَى ذَلِكَ إِلَّا وَهُمْ يَرَوْنَ أَنَّ ذَلِكَ مُوَافِقٌ لَكَ , وَذَكَرَ حَدِيثَ خُطْبَةِ عَلِيٍّ وَكَلَامِهِ فِي أَبِي بَكْرٍ , وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ , وَقَوْلِهِ فِي آخِرِهِ " أَلَا: وَلَا يَبْلُغُنِي عَنْ أَحَدٍ يُفَضِّلُنِي عَلَيْهِمَا إِلَّا جَلَدْتُهُ حَدَّ الْمُفْتَرِي " قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْبُوشَنْجِيُّ: هَذَا الْحَدِيثُ الَّذِي سُقْنَاهُ وَرَوَيْنَاهُ مِنَ الْأَخْبَارِ الثَّابِتَةِ , لِأَمَانَةِ حُمَّالِهِ , وَثِقَةِ رِجَالِهِ
 سوید بن غفلہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کی کہ میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ سیدنا ابوبکر و عمر پر طعن تنقیص گستاخی کر رہے تھے، ان کا خیال ہے کہ آپ بھی دل میں یہی بات رکھتے ہیں..... سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے متعلق ایسی کوئی بات دل میں نہیں رکھتا... جو مجھے سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ تعالی عنہما پر فضیلت دے گا تو اسے میں جھوٹ اور بہتان باندھنے والے شخص والی سزا دوں گا یعنی 80 کوڑے ماروں گا
الْبُوشَنْجِيُّ اور خطیب بغدادی کے مطابق اس روایت کے تمام راوی ثقہ معتبر ہیں
(الکفایۃ خطیب بغدادی ص376)
فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل روایت49)
شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة اللالكائي
 روایت 2448)
تثبيت الإمامة وترتيب الخلافة لأبي نعيم الأصبهاني روایت54)
الحجة في بيان المحجة روایت344)
شرح مذاهب أهل السنة لابن شاهين روایت198)
السنة لابن أبي عاصم روایت993)
فضائل أبي بكر الصديق للعشاري روایت39)
فضائل الخلفاء الراشدين لأبي نعيم الأصبهاني روایت169)
السنة لابن أبي عاصم روايت1219)
الاعتقاد للبيهقي ص358)
الاعتقاد للبيهقي ص361)
الشريعة للآجري روایت1813)
السابع عشر من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي روایت25)
شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة اللالكائي
 روایت 2678)
فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل  روایت484)

.
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قثنا هُشَيْمٌ قَالَ: أنا حُصَيْنٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: أَلَا إِنَّ خَيْرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ، فَمَنْ قَالَ سِوَى ذَلِكَ بَعْدَ مَقَامِي هَذَا فَهُوَ مُفْتَرٍ، عَلَيْهِ مَا عَلَى الْمُفْتَرِي
عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے خطبہ دیا اللہ کی حمد کی ،اللہ کی ثنا کی پھر فرمایا کہ امت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابوبکر ہیں جس نے اس کے خلاف کوئی بات کی تو وہ بہتان باندھنے والا جھوٹا ہے اس پر بہتان اور جھوٹ باندھنے والے کی سزا ہوگی(80 کوڑے سزا ہوگی)
(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل روایت189)
شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة اللالكائي
 روایت 2448)
.
*سمجھانے ورنہ بائیکاٹ کرنے کا حکم.......!!*
بدمذہب تفضیلی رافضی نیم رافضی ناصبی گمراہ یا کافر مرتد زندیق  کی صحبت یاری دوستی میل جول کھانا پینا اکھٹے کرنا انکی مجلس محفل میں شرکت کرنا سب جائز نہیں...ان  سے انکی محفلوں مجلسوں سے دور رہنا لازم ہے، بائیکاٹ کرنا لازم ہے...سمجھانے کے ساتھ ساتھ مجرموں گستاخوں بدمذہبوں سے سلام دعا کلام ، کھانا پانی ، میل جول ، شادی بیاہ نماز وغیرہ میں شرکت نہ کرنے، انکی مذمت کرنے کرتوت بیان کرنے بائیکاٹ کرنے کے دلائل یہ ہیں
القرآن:
فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ  الذِّکۡرٰی  مَعَ الۡقَوۡمِ  الظّٰلِمِیۡنَ
یاد آجانے(دلائل آجانے)کے بعد تم ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھو(نہ میل جول کرو، نہ انکی محفل مجلس میں جاؤ، نہ کھاؤ پیو، نہ شادی بیاہ دوستی یاری کرو)
(سورہ انعام آیت68)
.
الحدیث:
[ ایاکم و ایاھم لا یضلونکم و لا یفتنونکم ]
’’گمراہوں،گستاخوں، بدمذہبوں سے دور بھاگو ، انہیں اپنے سے دور کرو(سمجھانے کے ساتھ ساتھ قطع تعلق و بائیکاٹ کرو کہ) کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں، کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں‘‘(صحیح مسلم1/12)
.
الحدیث:
فَلَا تُجَالِسُوهُمْ، وَلَا تُؤَاكِلُوهُمْ، وَلَا تُشَارِبُوهُمْ، وَلَا تُنَاكِحُوهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا مَعَهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا عَلَيْهِمْ
ترجمہ:
بدمذہبوں گستاخوں کے ساتھ میل جول نہ رکھو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان سے شادی بیاہ نہ کرو، ان کے معیت میں(انکے ساتھ یا ان کے پیچھے) نماز نہ پڑھو(الگ پرھو)اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھو
(السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/483حدیث769)
.
الحدیث:
فلا تناكحوهم ولا تؤاكلوهم ولا تشاربوهم ولا تصلوا معهم ولا تصلوا عليهم
ترجمہ:
بدمذہبوں گستاخوں کے ساتھ شادی بیاہ نہ کرو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان کے معیت میں (انکے ساتھ یا ان کے پیچھے) نماز نہ پڑھو(الگ پرھو)اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھو
(جامع الأحاديث ,7/431حدیث6621)
.
بروں باطلوں مکاروں گمراہوں بدمذہبوں تفضیلیوں رافضیوں ناصبیوں ایجنٹوں سے ہر طرح کا تعاون نہ کرنا،انکی تحریروں کو لائک نہ کرنا، انہیں نہ سننا،  نہ پڑھنا، انہیں اپنے پروگراموں میں نہ بلانا، وقعت نہ دینا، جانی وقتی مالی تعاون نہ کرنا، مذمت کرنا مدلل کرنا ایمان کے تقاضوں میں سے ہے
الحدیث:
مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ، وَأَبْغَضَ لِلَّهِ، وَأَعْطَى لِلَّهِ، وَمَنَعَ لِلَّهِ ؛ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ
جو اللہ(اسلام کے حکم)کی وجہ سے محبت کرے اور(سمجھانے کے ساتھ ساتھ) اللہ(اسلام کے حکم)کی وجہ سے(مستحق برے ضدی فسادی سے)بغض و نفرت رکھے اور (مستحق و اچھوں) کی امداد و مدد کرے اور (نااہل و بروں) کی امداد و تعاون نہ کرے تو یہ تکمیل ایمان میں سے ہے 
(ابوداود حدیث4681)
.
صدر الشریعہ خلیفہ اعلی حضرت سیدی مفتی امجد علی اعظمی فرماتے ہیں:
اس وقت جو کچھ ہم کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے مُقاطَعہ(بائیکاٹ) کیاجائے اور ان سے میل جول نشست وبرخاست وغیرہ ترک کریں.(بہار شریعت جلد1 حصہ9 ص60)
.
چند اوراق بعد لکھتے ہیں:
سب سے بہتر ترکیب وہ ہے جو ایسے وقت کے لیے قرآن وحدیث میں ارشاد ہوئی اگر مسلمان اس پر عمل کریں تمام قصوں سے نجات پائیں دنیا وآخرت کی بھلائی ہاتھ آئے۔ وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے بالکل میل جول چھوڑ دیں، سلام کلام ترک کر دیں، ان کے پاس اٹھنا بیٹھنا، ان کے ساتھ کھانا پینا، ان کے یہاں شادی بیاہ کرنا، غرض ہر قسم کے تعلقات ان سے قطع کر دیں..(بہار شریعت جلد1 حصہ9 ص84)
.#############
*#پانچویں_بحث_کچھ اسلاف نے جو سیدنا علی کو افضل کہا، یا اول قطب روحانی خلیفہ کہا تو ان اسلاف کی بھی مذمت کرو گے یا مذمت و کوڑے صرف طاہر القادری چمن زمان بمع سربراہان وغیرہ کے لیے ہیں.......؟؟*
جواب:
 ہم اوپر تفصیل سے بتا چکے  کہ سچے پکے اہلسنت بڑے بڑے علماء سادات کوشش کریں نیم روافض و روافض کو سمجھائیں، ان پر سختی کریں کیونکہ پہلے کے اسلاف کے متعلق عذر علماء لکھ چکے کہ شاید انہیں زیادہ توجہ زیادہ علم زیادہ اطلاع نہ ملی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے فرمایا سیدنا علی افضل ہیں،اول قطب ہیں....لیھذا یہ انکا قول شاذ و غیرمقبول مرجوع کالعدم  کہلائے گا
اور
اب جبکہ علم کے ذرائع عام و وسیع ہیں تو اب ان شاذ اقوال کو لینا اور پھیلانا سراسر نا انصافی ہے، انتشار پھیلانا ہے،لیھذا آج کے دور والوں کو سمجھایا جائے گا ورنہ مذمت کی جائے گی، رد کیا جائے گا، سختی کی جائے گی، ضدی فسادی کو کوڑے مارے جائیں گے...کیونکہ شاذ اقوال پھیلانا فساد و جرم ہے شرارت ہے
.
قال ابو الحسن الأشعري تفضيل ابى بكر على غيره من الصحابة قطعى قلت قد اجمع عليه السلف وما حكى عن ابن عبد البر ان السلف اختلفوا فى تفضيل ابى بكر وعلى فهو شىء غريب الفرد به عن غيره ممن هو أجل منه علما واطلاعا
 امام ابو الحسن اشعری فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق کی افضلیت قطعی ہے...صاحب تفسیر مظہری فرماتے ہیں کہ اس بات پر تمام اسلاف کا اجماع ہے اور وہ جو ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ کچھ اختلاف ہے تو یہ اختلاف شاذ ہے اختلاف کرنے والوں کی جلالت اور علم اور اطلاع ان علماء جیسی نہیں ہے کہ جنہوں نے قطعی قرار دیا ہے
(التفسير المظهري9/191)
 ثابت ہوا کہ اگرچہ تھوڑا سا اختلاف کا قول ہے لیکن ہم ان علماء کی معذرت پیش کر دیں گے کہ انہیں اطلاع نہیں پہنچی انہیں علم حاصل کم ہوا ان کی توجہ نہ گئی کہ مسئلہ افضلیت کو اختلافی کہہ گئے...اگر انہیں وسیع علم و اطلاع پہنچتی تو وہ بھی قطعی کا قول ہی فرماتے

.
امام قسطلانی فرماتے ہیں
الأفضل بعد الأنبياء أبو بكر، وقد أطبق السلف على أنه أفضل الأمة. حكى الشافعي وغيره إجماع الصحابة والتابعين على ذلك
 انبیاء کرام کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں اس پراسلاف نے اجماع کیا ہے اور امام شافعی وغیرہ نے منقول کیا ہے کہ اس بات پر صحابہ اور تابعین کا بھی اجماع ہے
(ارشاد الساری شرح بخاری6/85)
.
علامہ ہاشم ٹھٹھوی سندھی فرماتے ہیں:
اقول لو اطلع هؤلاء على الاحاديث الكثيرة البالغة حد التواتر وعلى الاجماع الدالين على الترتيب المذكور لما قالوا بظنيتها اصلاً ولما قروا بقطعيتها حتما
 جن لوگوں نے سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی افضلیت کو ظنی کہا ان لوگوں کے علم میں اجماع اور وہ روایات نہ تھیں کہ جو تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور اگر انہیں سیدنا ابوبکر و عمر کی سیدنا علی وغیرہ سب پر افضلیت کی حد تواتر تک پہنچی ہوئی روایات پہنچتی اور  اجماع کا پتہ چلتا تو وہ کبھی بھی اس مسئلے کو ظنی قرار نہ دیتے بلکہ حتمی و قطعی اجماعی قرار دیتے
(الطریقۃ المحمدیۃ ص122..123)
.
*شاذ و عجیب و غریب اقوال بیان کرنا اور عمل کرنا......؟؟*
الْأَوْزَاعِيَّ يَقُولُ مَنْ أَخَذَ بِنَوَادِرِ الْعُلَمَاءِ خَرَجَ مِنَ الْإِسْلَامِ.
امام اوزاعی فرماتے ہیں کہ جو علماء کے نادر و شاذ اقوال(جو دلائل و اکثریت کے خلاف ہوں ان)کو اختیار کرے وہ اسلام سے نکل گیا(گویا مفادی من پرست ہوگیا)
(سنن کبری بیھقی10/356)
.
أحمد، قال: شر الحديث الغرائب التي لا يعمل بها، ولا يعتمد عليها.وقال المروذي: سمعت أحمد يقول: تركوا الحديث وأقبلوا على الغرائب ما أقل الفقه فيهم
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ غرائب و شاذ باتیں فتوے اقوال بدترین ہیں، ان پر عمل نہیں کرسکتے،ان پر کوئی اعتبار نہیں....جو لوگ غرائب و شاذ پر عمل کرتے ہیں فتوے دیتے ہیں احادیث(و دیگر دلائل) کو چھوڑتے ہیں ان میں کچھ سمجھ نہیں(وہ بےوقوف و شرپسند من پرست ہیں)
(شرح علل الترمذي ابن رجب2/623)
.
مَنْ حَمَلَ شَاذَّ الْعُلَمَاءِ حَمَلَ شَرًّا كَثِيرًا
جس نے علماء کے شاذ اقوال(جو دلائل و اکثریت کے خلاف ہوں ان)کو اٹھایا(عمل کیا،  پھیلایا) بے شک اس نے بہت بڑا شر و فساد کیا
(الكفاية في علم الرواية للخطيب البغدادي ص140)
.
سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ: «لَوْ أَخَذْتَ بِرُخْصَةِ كُلِّ عَالِمٍ اجْتَمَعَ فِيكَ الشَّرُّ كُلُّهُ»
امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ سلیمان تمیمی نے کہا کہ اگر تم  ہر عالم کی شاذ رخصتوں کو لو گے عمل کرو گے(بیان کرو گے) تو بے شک تجھ میں تمام کی تمام برائی و شر و شرارت و فساد برپا کرنا ہے...(جامع بيان العلم وفضله2/927)
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App,twitter nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574
آپ میرا نام و نمبر مٹا کر بلانام یا ناشر یا پیشکش لکھ کر اپنا نام ڈال کے آگے فاروڈ کرسکتے ہیں،کاپی پیسٹ کرسکتے ہیں،شئیر کرسکتے ہیں...نمبر اس لیے لکھتاہوں تاکہ تحقیق رد یا اعتراض کرنے والے یا مزید سمجھنے والےآپ سے الجھنے کےبجائے ڈائریکٹ مجھ سے کال یا وتس اپ پے رابطہ کرسکیں
.
بہتر تو یہ ہے کہ آپ تحریرات اپنے فیس بک اور وتس اپ گروپ پے کاپی پیسٹ کیا کریں،شیئر کریں
اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنی تحریرات اپ کے وتس اپ گروپ یا فیس گروپ پےبھیجا کروں تو آپ مجھے ایڈ کردیں
.
بعض گروپس کےرولز ہوتے ہیں کہ جس تحریر پے نمبر رکھتا ہوتا ہے اسے اپروو نہیں کرتے فارورڈ نہیں کرتے....ان سے گذارش ہے کہ ہمارے معاملے میں نرمی فرمائیں یا تکلیف فرما کر ہماری تحریر سے نمبر کاٹ کر شئیر کر دیں یا مجھے ان باکس کردیں کہ نمبر کاٹ کر دوبارہ بھیجو
شکریہ،جزاکم اللہ خیرا

 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.