سیدنا معاویہ منکر نہیں مومن تھے مجتہد تھے خطاء پے بھی اجر

*#سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ منکرِ آیت نہ تھے بلکہ مومن تھے اور اجتہادی خطاء پے بھی ان کے لیے ایک اجر قرآن و سنت و آثار سے ثابت ہوتا ہے.....!!*

سوال:

کچھ احباب نے سوال کیا جسکا خلاصہ یہ ہے کہ:

کئ گروپس میں امام اہلسنت امام احمد رضا کا قول بھیجا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اجتہادی خطاء ہوئی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مقابل آئے....جواب میں کچھ لوگ کہنے لگے کہ یہ جھوٹ ہے، اجتہادی خطاء کا لفظ ہی ناصبیون نے ایجاد کیا ہے معاویہ کو بچانے کے لیے......،اعتراض کرنے والوں کے بقول مرزا جہلمی اہلسنت کا عالم ہے اس نے بھی اقرار کیا ہے  کہ حدیث میں ہے کہ حاکم اجتہاد کرے تو اسے درستگی یا نادرستگی پے بھی ثواب ملے گا،حاکم کے علاوہ کوئی اجتہاد نہیں کرسکتا لیھذا معاویہ نے جو امام وقت سیدنا علی کے خلاف بغاوت کی وہ اجتہاد ہو ہی نہیں سکتا بلکہ آیت میں ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ(سورہ نساء ایت59) جبکہ معاویہ اس محکم آیت کا منکر(نعوذ باللہ کفر کرنے والا) ٹہرا کہ اولی الامر یعنی سیدنا علی کی اطاعت نہ کی اور سیدنا عثمان کی وفات ظلماً نہ ہوئی کہ جسکا کوئی قصاص ہی نہیں بنتا تو قصاص کا مطالبہ کرنا(سیدنا)معاویہ کی منافقت تھی(نعوذ باللہ)یہ تھا اعتراضات کا خلاصہ

.

*#جواب و تحقیق....!!*

*#الحاصل......!!*

مرزا جہلمی معتبر اہلسنت عالم نہیں، بلکہ علماء اہلسنت تو مسلسل مرزا جہلمی کے پول کھول رہے اسکے جھوٹ مکاریاں گستاخیاں گمراہیاں فنکاریاں عوام پر واضح کر رہے ہیں...سیدنا معاویہ منکرِ آیت و منافق ہرگز ہرگز نہ تھے بلکہ اسی آیت مبارکہ سے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مومن ثابت ہوتے ہیں،قرآن و سنت کے پیروکار ثابت ہوتے ہیں،منکر ثابت نہیں ہوتے...ہاں سیدنا معاویہ دیگر صحابہ کرام و اہلبیت عظام کی طرح مجتہد بھی تھے،قرآن حدیث اور آثار سے ثابت ہوتا ہے کہ اجتہاد کرنا علماء کا کام ہے اور اجتہاد پے خطاء ہو جاءے تو بھی علماء مجتہدین کو ایک اجر ملے گا...اجتہاد حاکم وقت کے ساتھ خاص نہیں....اجتہاد و اجتہادی خطاء اوئلِ اسلام قران وسنت و عملِ صحابہ و عملِ اہلبیت سے چلا آ رہا ہے لیھذا یہ اعتراض باطل ٹہرا کہ اجتہادی خطاء بعد کی ایجاد ہے

.

.

*#تفصیل،تحقیق.و.دلائل......!!*

القرآن:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ  اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ

اےایمان والو اللہ کی اطاعت کرو، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اولی الامر کی اطاعت و پیروی کرو...پس اگر اختلاف و جگھڑا ہوجائے تو اگر تم ایمان والے ہو تو معاملہ اللہ اور رسول(قران و حدیث و سنت) کی طرف لوٹا دو

(سورہ نساء ایت59)

 آیت مبارکہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے معاملات قرآن حدیث اور سنت کی طرف لوٹا دے اور قرآن و سنت اور حدیث کی پیروی کرے تو وہ مسلمان شخص مومن کہلائے گا...اور سیدنا معاویہ اور سیدنا علی دونوں نے معاملہ قرآن و حدیث کی طرف لوٹا دیا تھا...دونوں معزز حضرات کی دلیل قرآن و احادیث تھیں... سوال میں اعتراض چونکہ سیدنا معاویہ پر ہوا ہے تو ہم آپ کو دکھاتے ہیں کہ سیدنا معاویہ نے اپنا معاملہ قرآن اور حدیث اور سنت کی طرف کیسے لوٹایا

القرآن:

مَنۡ قُتِلَ مَظۡلُوۡمًا فَقَدۡ جَعَلۡنَا لِوَلِیِّہٖ سُلۡطٰنًا

جو ظلماً قتل کیا جائے تو اللہ نے اس کے ولی کو قوت و اختیار دیا ہے(کہ قصاص لیں یا دیت لیں یا معاف کردیں)

(سورہ بنی اسرائیل آیت33)

.

الحدیث:

عن ابن عمر، قال: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم فتنة، فقال: يقتل هذا فيها مظلوما لعثمان

سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فتنے کا تذکرہ فرمایا اور حضرت عثمان کے متعلق فرمایا کہ اس فتنے میں وہ یعنی حضرت عثمان مظلوم شھید کیے جائیں گے..

(ترمذی حدیث نمبر3708)

.

صَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُحُدًا وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، فَرَجَفَ، وَقَالَ: «اسْكُنْ أُحُدُ - أَظُنُّهُ ضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ -، فَلَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، وَصِدِّيقٌ، وَشَهِيدَانِ»

نبی پاکﷺاحد پہاڑ پے تشریف فرما ہوئے اور آپ کے ساتھ سیدنا ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنھم تھے تو احد پہاڑ جنبش کرنے لگا نبی پاکﷺ نے فرمایا اے احد ساکن ہو جا راوی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں نبی پاکﷺنے اپنا پاؤں مبارک احد پہاڑ پے مار کر فرمایا تھا کہ ساکن ہوجا.....(پھر نبی کریم نے فرمایا)بےشک تجھ پر نبیﷺاور صدیق اور دو شہید ہیں(یعنی سیدنا عمر و عثمان ناحق و ظلماً قتل کییے جائیں گے،شہادت کا رتبہ پائیں گے )

(صحيح البخاري ,5/15حدیث3699)

.

وشهيدان) هما: عمر وَعُثْمَان

 بخاری شریف کی حدیث میں جو ہے کہ دو شہید ہیں ان سے مراد سیدنا عمر اور سیدنا عثمان شہید ہیں

(عمدۃ القاری شرح بخاری16/191)

.

وفيه معجزة للنبي - صلى الله عليه وسلم - حيث أخبر عن كونهما شهيدين، وكانا كما قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم ...

 مذکورہ حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ظاہر ہورہا ہے کہ بے شک نبی پاک صلی اللہ وسلم نے(اللہ کی عطاء سے ملے ہوئے علمِ غیب سے) یہ خبر دی تھی کہ سیدنا عمر اور سیدنا عثمان شہید ہونگے اور ایسا ہی ہوا جیسے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

(شرح مصابیح السنۃ6/434)

.

إِنَّهُ فَقِيهٌ

سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں کہ بےشک سیدنا معاویہ فقیہ(مجتہد) ہیں

(بخاری روایت3765)

.

 *#آیت مبارکہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ظلماً جو قتل کیا جائے اس کے ولی قصاص لے سکتے ہیں اور حدیث پاک اور اسکی شرح سے سے یہ ثابت ہوا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ظلماً شہید کیے گئے تو سیدنا عثمان کے ولی قصاص لے سکتے ہیں اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہی تو ارشاد فرمایا تھا کہ میں سیدنا عثمان کا ولی ہوں لیھذا میں قصاص کا مطالبہ کرتا ہوں کہ سیدنا عثمان ظلماً شہید کیے گئے...سیدنا معاویہ نے اپنا دعوی اپنا اختلاف و اجتہاد قرآن و حدیث پے ہی رکھا یعنی معاملہ قرآن و حدیث و سنت کی طرف لوٹا دیا اور آیت میں ہے ایمان والے ہیں وہ مسلمان جو اپنا معاملہ قران و حدیث و سنت کی طرف لوٹا دیں لیھذا ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ مومن متقی نیک عادل پرہیزگار اور قرآن و سنت و حدیث کے پیروکار تھے ہاں فقیہ و مجتہد بھی تھے اور اسلام نے اجتہاد کی اجازت دی ہے، اجتہاد صحابہ کرام اہلبیت عظام نے کیا بلکہ اجتہاد کا حکم قرآن و حدیث میں موجود ہے جیسے کہ نیچے تفصیل آئی گی......!!*

.

.

أَنْتَ تُنَازِعُ عَلِيّاً، أَمْ أَنْتَ مِثْلُهُ؟فَقَالَ: لاَ وَاللهِ، إِنِّيْ لأَعْلَمُ أَنَّهُ أَفْضَلُ مِنِّي، وَأَحَقُّ بِالأَمْرِ مِنِّي، وَلَكِنْ أَلَسْتُم تَعْلَمُوْنَ أَنَّ عُثْمَانَ قُتِلَ مَظْلُوْماً، وَأَنَا ابْنُ عَمِّهِ، وَالطَّالِبُ بِدَمِهِ

 سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا گیا کہ آپ سیدنا علی سے جھگڑا کر رہے ہیں اختلاف کر رہے ہیں کیا آپ ان کی مثل ہیں تو سیدنا معاویہ نے فرمایا نہیں نہیں اللہ کی قسم میں ان جیسا نہیں ہوں، میں انکے برابر نہیں ہوں، میں جانتا ہوں کہ سیدنا علی مجھ سے افضل ہیں اور خلافت کے معاملے میں وہ مجھ سے زیادہ حقدار ہیں لیکن کیا تم نہیں جانتے کہ سیدنا عثمان ظلماً شہید کئے گئے اور میں اس کے چچا کا بیٹا ہو اور اس کے قصاص کا طلب گار ہوں

(سير أعلام النبلاء ابن جوزی ط الرسالة3/140)

(البداية والنهاية امام ابن کثیر ت التركي11/425)

.

محققین نے اس روایت کی سند کو جید معتبر قرار دیا ہے

إسناده جيد

(روضة المحدثين7/242)

.==============

*#سیدنا معاویہ مومن ہیں منافق کافر ہرگز نہ تھے، حق چار یار کی نسبت سے چار حوالے شیعہ کتب سے ملاحظہ کیجیے......!!*

*#پہلا حوالہ....!!*

فنعى الوليد إليه معاوية فاسترجع الحسين...سیدنا حسین کو جب سیدنا معاویہ کی وفات کی خبر دی گئ تو آپ نےاِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا…(شیعہ کتاب اعلام الوری طبرسی1/434) مسلمان کو کوئی مصیبت،دکھ ملےتو کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ(سورہ بقرہ156)ثابت ہوا سیدنا معاویہ امام حسین کے مطابق کافر ظالم منافق دشمن برے ہرگز نہ تھے جوکہ مکار فسادی نافرمان دشمنان اسلام گستاخانِ معاویہ کے منہ پر طمانچہ ہے

.

*#دوسرا حوالہ....!!*

هذا ما صالح عليه الحسن بن علي بن أبي طالب معاوية بن أبي سفيان: صالحه على أن يسلم إليه ولاية أمر المسلمين، على أن يعمل فيهم بكتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وآله وسيرة الخلفاء الصالحين

(شیعوں کے مطابق)امام حسن نے فرمایا یہ ہیں وہ شرائط جس پر میں معاویہ سے صلح کرتا ہوں، شرط یہ ہے کہ معاویہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور سیرتِ نیک خلفاء کے مطابق عمل پیرا رہیں گے

(شیعہ کتاب بحار الانوار جلد44 ص65)

سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے "نیک خلفاء کی سیرت" فرمایا جبکہ اس وقت شیعہ کے مطابق فقط ایک خلیفہ برحق امام علی گذرے تھے لیکن سیدنا حسن "نیک خلفاء" جمع کا لفظ فرما رہے ہیں جسکا صاف مطلب ہے کہ سیدنا حسن کا وہی نظریہ تھا جو سچے اہلسنت کا ہے کہ سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم خلفاء برحق ہیں تبھی تو سیدنا حسن نے جمع کا لفظ فرمایا...اگر شیعہ کا عقیدہ درست ہوتا تو "سیرت خلیفہ" واحد کا لفظ بولتے امام حسن....اور دوسری بات یہ بھی اہلسنت کی ثابت ہوئی کہ "قرآن و سنت" اولین ستون ہیں کہ ان پے عمل لازم ہے جبکہ شیعہ قرآن و سنت کے بجائے اکثر اپنی طرف سے اقوال گھڑ لیتے ہیں اور اہلبیت کی طرف منسوب کر دیتے ہیں...اور سیدنا معاویہ کی حکومت سنت رسول و سیرت خلفاء پر اچھی تھی اور انکا مطالبہ قصاص آیت و احادیث کے خلاف نہ تھا بلکہ اجتہاد تھا ورنہ ظالمانہ اقدام ہوتے تو سیدنا حسن حسین ضرور باءیکاٹ فرماتے صلح نہ فرماتے چاہے اس لیے جان ہی کیوں نہ چلی جاتی جیسے کہ یزید سے بائیکاٹ کیا

.

*#تیسرا حوالہ.....!!*

سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

والظاهر أن ربنا واحد ونبينا واحد، ودعوتنا في الاسلام واحدة. لا نستزيدهم في الإيمان بالله والتصديق برسوله صلى الله عليه وآله ولا يستزيدوننا. الأمر واحد إلا ما اختلفنا فيه من دم عثمان

 یہ بات بالکل واضح ہے ظاہر ہے کہ ان(سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرہ)کا اور ہمارا رب ایک ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہے، انکی اور ہماری اسلامی دعوت و تبلیغ ایک ہے، ہم ان کو اللہ پر ایمان رسول کریم کی تصدیق کے معاملے میں زیادہ نہیں کرتے اور وہ ہمیں زیادہ نہیں کرتے...ہمارا سب کچھ ایک ہی تو ہے بس صرف سیدنا عثمان کے قصاص کے معاملے میں اختلاف ہے

(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ3/114)

 ثابت ہوا کہ سیدنا علی کا ایمان سیدنا معاویہ کا ایمان سیدنا معاویہ کا اسلام سیدنا علی کا اسلام اہل بیت کا اسلام صحابہ کرام کا اسلام قرآن و حدیث سب کے سب معاملات میں متفق ہی تھے،سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ سب کے مطابق قرآن و حدیث میں کوئی کمی بیشی نہ تھی....پھر کالے مکار بے وفا ایجنٹ غالی جھوٹے شیعوں نے الگ سے حدیثیں بنا لیں، قصے بنا لیے،الگ سے فقہ بنالی، کفریہ شرکیہ گمراہیہ نظریات و عمل پھیلائے، سیدنا علی و معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام کے اختلاف کو دشمنی منافقت کفر کا رنگ دے دیا...انا للہ و انا الیہ راجعون

.

*#چوتھا حوالہ.....!!*

ان عليا لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق ولكنه كان يقول: هم إخواننا بغوا علينا

ترجمہ:

بےشک سیدنا علی اپنےاہل حرب(سیدنا معاویہ،سیدہ عائشہ اور انکےگروہ)کو نہ تو مشرک کہتےتھےنہ منافق…بلکہ فرمایا کرتےتھےکہ وہ سب ہمارےبھائی ہیں مگر(مجتہد)باغی ہیں(شیعہ کتاب بحارالانوار32/324)

(شیعہ کتاب وسائل الشیعۃ15/83)

(شیعہ کتاب قرب الاسناد ص94)

سیدنا ابوبکر و عمر، سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام کو کھلےعام یا ڈھکے چھپے الفاظ میں منافق بلکہ کافر تک بکنے والے،توہین و گستاخی کرنےوالےرافضی نیم رافضی اپنےایمان کی فکر کریں…یہ محبانِ علی و اہلبیت نہیں بلکہ نافرمانِ علی ہیں،نافرمانِ اہلبیت ہیں

.==================

*#حاکم وقت کے مقابل سیدنا علی نے اختلاف و اجتہاد کیا،جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اجتہاد حاکم وقت کے ساتھ خاص نہیں،علماء محققین بھی اجتہاد و قیاس کرسکتے ہیں......!!*

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، ح وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، الْمَعْنَى، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ، قَالَ هَنَّادٌ الْجَنْبيُّ: قَالَ: أُتِيَ عُمَرُ بِامْرَأَةٍ قَدْ فَجَرَتْ، فَأَمَرَ بِرَجْمِهَا، فَمَرَّ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَأَخَذَهَا فَخَلَّى سَبِيلَهَا، فَأُخْبِرَ عُمَرُ، قَالَ: ادْعُوا لِي عَلِيًّا، فَجَاءَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، لَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ، عَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَبْلُغَ، وَعَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ المَعْتُوهِ حَتَّى يَبْرَأَ»، وَإِنَّ هَذِهِ مَعْتُوهَةُ بَنِي فُلَانٍ، لَعَلَّ الَّذِي أَتَاهَا وَهِيَ فِي بَلَائِهَا، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: لَا أَدْرِي، فَقَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلَام، وَأَنَا لَا أَدْرِي

سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک عورت کو لایا گیا کہ جس نے زنا کیا تھا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو رجم کرنے کا حکم دیا سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کا گزر ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کو رجم نہ کرو سیدنا عمر کو یہ جب خبر دی گئی تو آپ نے فرمایا کہ حضرت علی کو میرے پاس بلا کر لے آؤ پس حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے اور فرمایا یا امیرالمومنین کیا آپ نہیں جانتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ تین لوگوں سے قلم اٹھا دی گئی ہے بچے سے یہاں تک کہ بالغ ہو جائے، سوئے ہوئے سے یہاں تک کہ اٹھے اور معتوہ سے یہاں تک کہ ٹھیک ہو جائے یہ عورت معتوھۃ(جس کو جنون کے دورے پڑتے ہوں اور کبھی افاقہ ہوتا ہو)ہے عین ممکن ہے کہ اس سے زنا کیا گیا ہو جنون کی حالت میں....حضرت عمر نے فرمایا مجھے علم نہیں ، حضرت علی نے فرمایا مجھے بھی علم نہیں(لیھذا ممکن ہے حالت جنون میں اس سے زنا کیا گیا ہو تو حضرت عمر نے جو رجم کا حکم دیا تھا وہ انکی اجتہادی خطاء تھی، سیدنا علی نےرجم نہ کرنے کی اجتہادی رائے دی جسے سیدنا عمر نے قبول کرلیا اور اسے رجم نہ کیا گیا)

(سنن أبي داود ,4/140روایت4402)

(سنن سعيد بن منصور ,2/94روایت2078)

.

یہ روایت مسند احمد میں بھی ہے اس میں یہ بھی اضافہ ہے کہ فَلَمْ يَرْجُمْهَا

پس اس معتوھۃ کو رجم نہ کیا

(مسند أحمد مخرجا ,2/443روایت1328)

.


مسند احمد کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ یہ روایت درج ذیل کتب میں بھی ہے

وأخرجه الطيالسي (90) عن حماد، بهذا الإسناد. بالمرفوع منه فقط..وأخرجه أبو داود (4402) ، والنسائي في "الكبرى" (7344) ، وأبو يعلى (587) ، والبيهقي 8/264-265 من طرق عن عطاء، به. وسيأتي برقم (1362) .

وأخرجه النسائي في "الكبرى" (7345) من طريق أبي حصين، عن أبى ظبيان، به موقوفاً. ورجح النسائي هذه الرواية.

وأخرجه بنحوه من طريق الأعمش، عن أبي ظبيان، عن ابن عباس، عن علي مرفوعأ أبو داود (4399) و (4400) و (4401) ، والنسائي في "الكبرى" (3743) ، وابن حبان (143) ، والدارقطني 3/138، وا لحاكم 1/258 و2/59 و4/389، وا لبيهقي 8/264. وصححه الحاكم، ووافقه الذهبي.

.

قال الخطابي في "معالم السنن" 3/310: لم يأمر عمر رضي الله عنه برَجْم مجنونة ئطبق عليها في الجنون، ولا يجوز أن يخفى هذا ولا على أحدٍ ممن بحضرته، ولكن هذه امرأَة كانت تجَن مرةً، وتُفيق أخرى، فرأى عمرُ رضي الله عنه أن لا يسقط عنها الحد لما يصيبُها من الجنون، إذ كان الزنى منها في حال الإفاقة، ورأى على كرم الله وجهه أن الجنون شبهة يدرأ بها الحدُّ عمن يبتلى به، والحدود تُدرأ بالشبهات، لعلها قد أصابت ما أصابت وهي في بقية من بلاثها، فوافق اجتهاد عمر رضي الله عنه اجتهاده في ذلك، فدرأ عنها الحد، والله أعلم بالصواب

خلاصہ:

علامہ خطابی فرماتے ہیں کہ وہ عورت کبھی افاقے میں ہوتی تھی کبھی جنون میں ہوتی تھی تو سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ اجتہاد کیا کہ اس سے سزا ساقط نہیں ہوگی کیونکہ اس کا جنون مستقل نہیں جبکہ سیدنا علی نے اجتہاد فرمایا کہ شک کی وجہ سے حد ساقط ہوتی ہے تو سیدنا علی کے اجتہاد کے موافق ہوگئے سیدنا عمر اور حد ساقط کردی 

(حاشیہ مسند احمد 2/444)

دیکھیے کیسے حاکم وقت سیدنا عمر کے اجتہاد ہوتے ہوئے غیرحاکم سیدنا علی نے اجتہاد کیا...ثابت ہوا اجتہاد کرنا فقط حاکم کے ساتھ خاص نہیں

.

 وَقَالَ عَلِيٌّ : إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا شَرِبَ افْتَرَى، فَأَرَى أَنْ يَجْعَلَهُ كَحَدِّ الْفِرْيَةِ

(حاکم وقت سیدنا عمر کے زمانے میں) سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اجتہاد فرمایا کہ جب کوئی شخص شراب پئے گا تو وہ افتراء اور جھوٹ بولے گا بہتان باندھے گا تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کو مفری کی سزا یعنی 80 کوڑے لگانے چاہیے(اور یہی سزا دیگر صحابہ نے بھی تجویز کی اور نافذ کردی)

(ابوداود روایت4489)

واضح ہے کہ غیرحاکم سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قیاس.و.اجتہاد کیا...لیھذا اجتہاد کرنا حاکم وقت کے ساتھ خاص نہیں

.===================

*امام و حاکم وقت کے برخلاف سیدنا علی وغیرہ نے اجتہاد کیا جس سے ثابت ہوا کہ اجتہاد حاکم وقت کے ساتھ خاص نہیں....لیھذا جب سیدنا علی حاکم تھے تو اس وقت بھی ان سے کوئی اختلاف و اجتہاد کرسکتا تھا اس لیے سیدنا معاویہ سیدنا زبیر سیدنا طلحہ سیدہ عائشہ وغیرہ نے سیدنا علی سے اختلاف و اجتہاد کیا....!!*

لنا أن عليا رضي الله عنه خالفه الصحابة في كثير من المسائل ولم يقل لأحد ممن خالفه إن قولي حجة فلا تخالفني

 سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی مخالفت کچھ مسائل میں صحابہ کرام نے کی تو سیدنا علی نے یہ نہیں فرمایا کہ میرا قول حجت ہےمیری مخالفت مت کرو(اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی سیدہ فاطمہ وغیرہ اہلبیت سے اجتہادی خطا ہو سکتی ہے اور امام وقت کے مقابل اجتہاد ہوسکتا ہے،اجتہاد امام و حاکم کے ساتھ مخصوس نہیں)

(المحصول امام رازی4/170)

.

علامہ عبد العلي محمد بن نظام الدين محمد السهالوي الأنصاري اللكنوي فرماتے ہیں:

وأهل البيت كسائر المجتهدين، يجوز عليهم الخطأ في اجتهادهم وهم يصيبون ويخطئون وكذا يجوز عليهم الزلة وهي وقوعهم في أمر غير مناسب لمرتبتهم من غير تعمد، كما وقع من سيدة النساء رضي الله تعالى عنها من هجرانها خليفة رسول الله صلى الله عليه وآله وأصحابه وسلم...أهل البيت أيضاً كانوا عالمين بعدم . عصمة أنفسهم من هذا الخطأ الاجتهادي ألم تر كيف رد ابن مسعود قول أمير المؤمنين علي في عدة الحامل المتوفى عنها زوجها...لا عصمة في أهل البيت بمعنى عدم جواز الخطأ الاجتهادي منهم فاحفظه

اہل بیت دیگر مجتہدین کی طرح ہیں ان پر خطاء جائز ہے بلکہ وہ کبھی خطا کرتے ہیں اور کبھی درستگی کو پاتے ہیں۔۔اہل بیت سے زلۃ(لغزش، اجتہادی خطاء)واقع ہونا بھی جائز ہے جیسے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے لغزش واقع ہوئی۔۔۔۔اسی طرح اہل بیت کے صحابہ کرام سے الگ تفردات گزرے ہیں جس پر اگرچہ فتوی نہیں دیا گیا لیکن کوئی مذمت بھی نہیں کی گئی ۔۔۔صحابہ کرام اور اہل بیت عظام دونوں یہ سمجھتے تھے کہ ان سے خطائے اجتہادی کا صدور ہو سکتا ہے بلکہ ہوا ہے جیسے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خطا اجتہادی حاملہ متوفی زوجھا کی عدت کے معاملے میں واقع ہوءئ اور بھی بہت سے واقعات ہیں جن میں اہل بیت اور صحابہ کرام کے اجتہادی خطائیں تفردات واقع ہوئے ہیں جو جمہور کے خلاف تھے لیکن فتوی جمہور پر دیا گیا لیکن تفردات والے پر بھی مذمت نہ کیا گیا

(فواتح الرحموت2/279 ملتقطا ملخصا)

.

والاجتهاد الخطأ ليس بمعصية

 اہل بیت اطہار گناہوں سے محفوظ ہیں لیکن اجتہادی خطا سے محفوظ نہیں

(شرح تنقیح الفصول ص334)

.

أن عليًا خالفه الصحابة في مسائل كثيرة في الحالة التي يعلم أنه لم يكن غيره من العترة فيها بصفة الاجتهاد...فيما يقولونه بطريق الرواية، لا فيما يقولونه بطريق الاجتهاد

 سیدنا علی سے کچھ مسائل میں صحابہ کرام نے اختلاف کیا اجتہاد کے طور پر... سیدنا علی نے یہ نہیں فرمایا کہ حجت ہوں... لہذا جو قول اہلبیت روایت کریں  وہ تو مقبول ہے لیکن جو اجتہاد کے طور پر کریں ان میں اہلبیت کا درست ہونا ضروری نہیں ہے(وہ بھی عام مجتہدین کی طرح اجتہاد کرتے ہیں اور دیگر کی طرح ان سے خطاء اجتہادی ہوسکتی ہے)

(نہایۃ الوصول فی درایۃ الاصول2589 ،6/2596)

صاف لکھا ہے کہ صحابہ کرام نے سیدنا سے بھی اجتہادی اختلاف کیا...لیھذا اجتہاد حاکم کے ساتھ مخصوص نہیں

.

بمنع أن الخطأ رجس، لأنه مأجور به

 خطائے اجتہادی اہل بیت سے ممنوع نہیں ہے، اجتہادی خطاء ان سے ہو سکتی ہے اور  یہ طہارت اہلبیت کے منافی نہیں کہ خطاء اجتہادی پر تو ایک اجر ملتا ہے

(تیسیر الوصول الی منھاج الاصول5/82)

.===============

*#ایات و احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اجتہاد حاکم کے علاوہ علماء بھی کریں، صحابہ کرام نے اجتہاد کیا اختلاف کیا اور سید عالم نے کسی کی مذمت نہ کی جس سے ثابت ہوا امام کے علاوہ بھی اجتہاد علماء کرسکتے ہیں،اجتہاد کرنا حاکم کے ساتھ خاص نہیں....!!*

القرآن:

لَوۡ رَدُّوۡہُ  اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ

اگر معاملات و مسائل کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط(اہلِ تحقیق،باشعور،باریک دان،سمجھدار علماء صوفیاء)ضرور( اجتہاد و قیاس کرکے) جان لیتے

(سورہ نساء آیت83)

 آیت مبارکہ میں واضح حکم دیا جارہا ہے کہ اہل استنباط کی طرف معاملات کو لوٹایا جائے اور انکی مدلل مستنبط رائے و سوچ و حکم و اجتہاد و قیاس کی تقلید و پیروی کی جائے.....!!

.

آیت میں اولی الامر تھا جسکا ظاہری ترجمہ حکمران بنتا ہے مگر آیت کریمہ میں لفظ "یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ" نے بتا دیا کہ اجتہاد کا حق فقط حاکم ہونے کی وجہ سے نہیں ملتا بلکہ اصل میں اجتہاد کا حق ہر اس شخص کو ہے جو "اہل استنباط" میں سےہو، وسیع العلم ہو، مدبر ہو...یہی وجہ ہے کہ بخاری کی جو حدیث ہے کہ حاکم اجتہاد کرے درستگی پائے تو دو اجر ورنہ ایک اجر ملے گا...اس حدیث کی شرح میں علماء نے اسی آیت مبارکہ کے اصل حکم "اہل استنباط" کو مدنظر رکھ کر فرمایا کہ اجر فقط حاکم ہونے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ "عالم اہل استنباط اہلیت اجتہاد" کی وجہ سے ہے...چند حوالے پڑہیے

.

وَهَذَا فِيمَنْ كَانَ جَامِعًا لِآلَةِ الِاجْتِهَادِ، عَارِفًا بِالْأُصُولِ، عَالِمًا بِوُجُوهِ الْقِيَاسِ

 اجتہاد میں جو اجر ملتا ہے وہ اس وقت ملتا ہے کہ جب کوئی شخص فقط حاکم نہ ہو بلکہ وہ اجتہاد کا ملکہ رکھتا ہو اجتہاد کا علم رکھتا ہو شرعی اصول(قران سنت اقوال)جانتا ہو،قیاس جانتا ہو

(مرقاۃ شرح مشکاۃ6/2425)

.

أَن هَذَا هَل هُوَ اجْتِهَاد فِي معرفَة الحكم من أدلته أَو اجْتِهَاد فِي معرفَة حَقِيقَة الْحَادِثَة ليقضي على وفْق مَا عَلَيْهِ الْأَمر فِي نَفسه وغالب الْعلمَاء على أَن المُرَاد هُوَ الأول وَلذَلِك قَالُوا الحَدِيث فِي حَاكم عَالم للِاجْتِهَاد وَالله تَعَالَى أعلم

 اکثر علماء نے یہ فرمایا ہے کہ احادیث میں جو حاکم کو اجر ملتا ہے اس سے مراد وہ ہے جو دلائل سے اجتہاد کرے

(حاشیۃ السندی علی ابن ماجہ8/224)

.

إِذا حكم الْحَاكِم قَالَ النَّوَوِيّ أجمع الْمُسلمُونَ على أَن هَذَا الحَدِيث فِي حَاكم عَالم أهل للْحكم

 امام سیوطی فرماتے ہیں کہ امام نووی نے فرمایا ہے کہ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ حاکم کو اس وقت اجر ملے گا اگر وہ حکم لگانے کا اہل علم ہو اجتہاد کا ملکہ رکھتا ہو

(شرح مسلم امام سیوطی4/320)

.

یہی وجہ ہے کہ آیت میں اولی الامر سے مراد علماء و مجتہدین مراد لیے گئے ہیں:

يَسْتَخْرِجُونَهُ وَهُمُ الْعُلَمَاءُ..الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُنَافِقِينَ، لَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى ذَوِي الرَّأْيِ وَالْعِلْمِ،...وَفِي الْآيَةِ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ الْقِيَاسِ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ مَا يُدْرَكُ بِالتِّلَاوَةِ وَالرِّوَايَةِ وَهُوَ النَّصُّ، وَمِنْهُ مَا يُدْرَكُ بِالِاسْتِنْبَاطِ وَهُوَ الْقِيَاسُ عَلَى الْمَعَانِي الْمُودَعَةِ فِي النُّصُوصِ

 اہل استنباط سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جو احکام و نکات نکالتے ہوں اور وہ علماء(اور مجتہدین) ہیں... آیت میں منافقین اور مومنین سب کو حکم ہے کہ وہ معاملات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دیں اور اہل علم کی طرف لوٹا دیں اور رائے و قیاس کرنے والوں کی طرف لوٹا دیں... اس آیت میں دلیل ہے کہ قیاس کرنا بالکل جائز ہے کہ علم وہ ہوتا ہے کہ جو نص یعنی قرآن اور حدیث و سنت سے ملتا ہے یا پھر ان سے نکالا جاتا ہے یہی تو قیاس و اجتہاد ہے

(تفسیر بغوی2/255)

واضح لکھا ہے کہ آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ علماء اجتہاد و قیاس و استنباط کریں گے...اجتہاد فقط حاکم کے ساتھ خاص نہیں

.

الحدیث:

حدثنا حفص بن عمر، عن شعبة، عن ابي عون، عن الحارث بن عمرو اخي المغيرة بن شعبة، عن اناس من اهل  حمص، من اصحاب معاذ بن جبل، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، لما اراد ان يبعث معاذا إلى اليمن، قال:" كيف تقضي إذا عرض لك قضاء؟، قال: اقضي بكتاب الله، قال: فإن لم تجد في كتاب الله؟، قال: فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فإن لم تجد في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا في كتاب الله؟، قال: اجتهد  رايي ولا آلو، فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم صدره، وقال: الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله لما يرضي رسول الله".

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کرب بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟“ تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پا سکو تو کیا کرو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے

(ابوداؤد حدیث3592)

.

ضعفه الشيخ الألباني، ولكن بعض أهل العلم صححه أو حسنه، ومنهم ابن كثير في أول تفسير سورة الفاتحة، وكذلك الشوكاني حسنه وقال: إن ابن كثير جمع فيه جزءاً وقال: كذلك أيضاً أبو الفضل بن طاهر المقدسي جمع فيه جزءاً.وقد وجدت آثار عن عدد من الصحابة تدل على ما دل عليه

 ابو داود شریف کی مذکورہ حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن بعض اہل علم نے اس حدیث کو صحیح و دلیل قرار دیا ہے یا پھر حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے جیسے کہ امام ابن کثیر نے اور جیسے کہ امام شوکانی نے صحیح یا حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے... بعض ائمہ نے تو اس حدیث کی تائید و تخریج و شرح پر کتب و رسائل تک لکھے ہیں... صحابہ کرام سے بہت سارے آثار مروی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے قرآن اور حدیث بھر اقوال صحابہ پھر ان پر کیا گیا اجتہاد و قیاس  کرنا اور عمل کرنا کرانا جائز بلکہ لازم و برحق ہے

(شرح ابوداود للعباد تحت الحدیث3592)

.

یہ حدیث مبارک مشعل راہ ہے کہ قران پھر حدیث و سنت پھر قیاس و استدلال و اجتہاد....اس حدیث مبارک سے واضح ہوتا ہے کہ قران حدیث و سنت سے اجتہاد و استدلال کرنا برحق و ماہر علماء کا منصب بلکہ ذمہ داری ہے....استدلال و قیاس و اجتہاد کرنے میں سب متفق ہوں یہ ضروری نہین لیھذا غیرمنصوص ظنیات و فروعیات میں کبھی اختلاف ہونا فطری عمل ہے

.


الحدیث:

 قال النبي صلى الله عليه وسلم لنا لما رجع من الأحزاب: «لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة» فأدرك بعضهم العصر في الطريق، فقال بعضهم: لا نصلي حتى نأتيها، وقال بعضهم: بل نصلي، لم يرد منا ذلك، فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم، فلم يعنف واحدا منهم

ترجمہ:

غزوہ احزاب سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم(یعنی صحابہ کرام) سے فرمایا کہ:

تم میں سے ہر ایک بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھے" (صحابہ کرام نے جلد پہنچنے کی بھر پور کوشش کی مگر)راستے میں عصر کا وقت ختم ہونے کو آیا تو کچھ صحابہ کرام نے(اجتہاد و قیاس کرتے ہوئے) فرمایا کہ ہم عصر نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی پڑہیں گے اور کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ نبی پاک کا یہ ارادہ نا تھا(کہ نماز قضا ہو اس لیے) ہم عصر پڑھ لیں گے(طبرانی ابن حبان وغیرہ کتب میں روایت ہے جس میں ہے کہ کچھ صحابہ نے راستے میں ہی عصر نماز پڑھ لی اور کچھ نے فرمایا کہ ہم رسول کریم کی تابعداری اور انکے مقصد میں ہی ہیں لیھذا قضا کرنے کا گناہ نہین ہوگا اس لیے انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر نماز پڑھی)

پس یہ معاملہ رسول کریم کے پاس پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک پر بھی ملامت نا فرمائی

(بخاری حدیث946)

.

دیکھا آپ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کا قیاس و استدلال و اجتہاد اور اس میں اختلاف... صحابہ کرام نے اس برحق اختلاف پر ایک دوسرے کو کافر منافق فاسق گمراہ گستاخ نہیں کہا اور نبی پاک نے بھی کسی کی ملامت نا فرمائی...ایسا اختلاف قابل برداشت ہے بلکہ روایتوں میں ایسے فروعی برحق پردلیل باادب اختلاف کو رحمت فرمایا گیا ہے

.

اختلاف ایک فطرتی چیز ہے.... حل کرنے کی بھر پور کوشش اور مقدور بھر علم و توجہ اور اہلِ علم سے بحث و دلائل کے بعد اسلامی حدود و آداب میں رہتے ہوئے پردلیل اختلاف رحمت ہے

مگر

آپسی تنازع جھگڑا ضد انانیت تکبر لالچ ایجنٹی منافقت والا اختلاف رحمت نہیں، ہرگز نہیں...

.

بخاری وغیرہ کی مذکورہ حدیث کی شرح میں علماء نے لکھا کہ غیرحاکم صحابہ کرام نے اجتہاد کیا اور رسول کریم نے کسی کی ملامت نہ فرمائی کیونکہ انہوں نے اجتہاد کیا تھا...لیھذا ثابت ہوا کہ اجتہاد حاکم کے ساتھ خاص نہیں

.

وَلم يعنف الشَّارِع وَاحِدًا مِنْهُمَا لأَنهم مجتهدون

 شریعت والے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی فریق کی ملامت نہ فرمائی کیونکہ وہ سب کے سب مجتہد تھے

(عمدۃ القاری شرح بخاری6/265)

.

هذا فيه دلالة على أنّ الإثم موضوع في مسائل الفروع وأن كل مجتهد غير ملوم فيما أدّاه (1) اجتهاده إليه

 مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ فروعی مسائل میں(حاکم غیرحاکم کو)اجتہاد کرنے سے گناہ نہیں ملے گا،اس پر کوئی ملامت نہ ہوگی

(المعلم بفوائد مسلم 3/26)

ثابت ہوا کہ خطاء اجتہادی پے اجر والا حکم علماء نے حاکم کے علاوہ دیگر مجتہدین کے لیے بھی ثابت قرار دیا اور صحابہ کرام کے اس اختلاف کو اجتہاد قرار دیا

.

بل فيه دلالة على أن المجتهد سواء أصاب أو أخطأ فإنه غير ملوم على اجتهاده، بل إن أصاب كان له أجران، وإن أخطأ فخطؤه موضوع عنه، وله أجر على اجتهاده.

 حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ مجتہد خطا کرے یا درستگی پائے ہر حال میں اس پر کوئی ملامت نہیں ہے بلکہ اگر درستگی پائے تو دو اجر اور اگر خطاء کرے تو وبال نہیں ہوگا بلکہ اسے ایک اجر ملے گا

(فتح الباری ابن رجب8/410)

دیکھیے صحابہ کرام کے اختلاف کو اجتہاد کہا گیا اور غیرحاکم کے ایسے اجتہاد کو بھی حاکم کے اجتہاد کی مانند ثواب والا قرار دیا گیا


.

الِاجْتِهَادُ وَالِاسْتِنْبَاطُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِجْمَاعُ الْأُمَّةِ هُوَ الْحَقُّ الْوَاجِبُ، وَالْفَرْضُ اللَّازِمُ لِأَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِذَلِكَ جَاءَتِ الْأَخْبَارِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَنْ جَمَاعَةِ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ. وَقَالَ أَبُو تَمَّامٍ الْمَالِكِيُّ: أَجْمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلَى الْقِيَاسِ

 قرآن مجید اور سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجتہاد کرنا اور استنباط و قیاس کرنا اور اجماع امت یہ سب حق اور واجب ہیں، قرآن و حدیث سنت و اقوال صحابہ پر اجتہاد و قیاس کرنا اہل علم پر فرض اور لازم ہے... یہی حکم(اجتہاد کرنا قیاس کرنا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اکثر صحابہ اور تابعین سے مروی ہے، ابو تمام مالکی فرماتے ہیں کہ تمام علماء کا اجماع ہے کہ قیاس شرعی چیز ہے، شرعی دلیل ہے

(تفسير القرطبي = الجامع لأحكام القرآن7/172)

امام قرطبی نے لکھا کہ اجتہاد کرنا اہل علم علماء اہل استنباط کا فریضہ ہے ثابت ہوا کہ یہ اجتہاد فقط ایک امام و بادشاہ کے ساتھ خاص نہیں

.

*سیدنا عمر اور صحابہ کرام کا اجتہاد و قیاس.....!!*

عُمَرَ بنَ الخطابِ كان يَفعَلُ ذَلِكَ، فإِن أعياه أن يَجِدَ فى القُرآنِ والسُّنَةِ نَظَرَ هَل كان لأبِى بكرٍ فيه قَضاءٌ؟ فإِن وجَدَ أبا بكرٍ قَد قَضَى فيه بقَضاءٍ قَضَى به، وإِلا دَعا رُءوسَ المُسلِمينَ وعُلَماءَهُم فاستَشارَهُم، فإِذا اجتَمَعوا على الأمرِ قَضَى

 سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ بھر پور کوشش کرتے لیکن پھر بھی قرآن اور سنت میں واضح دوٹوک حکم نہ ملتا تو پھر وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے فیصلوں اور اقوال میں غور و فکر کرتے، اگر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے فیصلوں میں پاتے تو اسی مطابق فیصلہ فرماتے...اگر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے فیصلوں میں نہ پاتے تو مسلمانوں کے بڑے بڑے علماء کو جمع فرماتے اور وہ اجتہاد و قیاس کرتے، جب کسی رائے پر متفق ہو جاتے تو پھر اسی رائے پر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ فیصلہ فرما دیتے

(سنن کبری بیھقی20/336)

دیکھا دوٹوک لکھا ہے کہ صحابہ کرام اجتہاد فرماتے تھے اور وہ بھی اس وقت کہ جب حاکم وقت سیدنا عمر بھی اجتہاد فرما رہے ہوتے تھے،ثابت ہوا امام وقت کے سامنے انکی موافقت یا مخالفت میں اجتہاد و قیاس کرنا صحابہ کرام کا وطیرہ رہتا تھا...ثابت ہوا اجتہاد فقط حاکم کا حق نہیں بلکہ عالم حاکم اور دیگر مجتہدین سب کا حق ہے...البتہ کس کا اجتہاد و قیاس قوی و مناسب ہے کہ نافذ کیا جائے یہ حاکم وقت کی صوابدید ہے

.

*سیدنا ابن عباس اور اجتہاد و قیاس......!!*

كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، إِذَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ فَإِنْ كَانَ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى قَالَ بِهِ. وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ عزَّ وجلَّ، وَكَانَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أَخْبَرَ بِهِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا فِي قَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَكَانَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخَذَ بِهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ عنهما اجتهد رأيه

 سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے کسی چیز ،کسی حکم یا کسی معاملے کے بارے میں سوال کیا جاتا تو وہ کتاب اللہ میں دیکھتے اگر کتاب اللہ میں مل جاتا تو وہ حکم ارشاد فرما دیتے اور اگر کتاب اللہ میں نہ ملتا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں غور کرتے اگر اس میں مل جاتا تو وہ بتا دیتے، اگر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ میں نہ ملتا تو پھر سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے کچھ مروی ہوتا تو وہ اسی کو اختیار فرماتے اور وہ بتا دیتے ورنہ(قرآن سنت حدیث اقوال اسلاف پر) قیاس اور اجتہاد فرماتے

(المطالب العالیہ ابن حجر روایت2180)

دیکھیے غور کیجیے سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاکم وقت نہ ہوکر بھی قیاس و اجتہاد فرماتے تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اجتہاد و قیاس فقط حاکم وقت کے ساتھ خاص نہیں.....!!

.================

*#اجتہاد علماء کریں گے قرآن حدیث صحابہ کرام اہلبیت عظام سے ثابت کر دیا ہم نے... اور مزید یہ کہ پرانے علماء نے سیدنا معاویہ کو اجتہادی خطاء پر قرار دیا...لیھذا کہنا کہ ناصبیوں کی بدعت ہے سراسر جھوٹ و بہتان ہے*

.

أجمعت الأمة على وجوب الكف عن الكلام في الفتن التي حدثت بين الصحابة..ونقول: كل الصحابة عدول، وكل منهم اجتهد، فمنهم من اجتهد فأصاب كـ علي فله أجران، ومنهم من اجتهد فأخطأ كـ معاوية فله أجر، فكل منهم مأجور، القاتل والمقتول، حتى الطائفة الباغية لها أجر واحد لا أجران، يعني: ليس فيهم مأزور بفضل الله سبحانه وتعالى.

امت کا اجماع ہے کہ صحابہ کرام میں جو فتنے جنگ ہوئی ان میں نہ پڑنا واجب ہے تمام صحابہ کرام عادل ہیں(فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)ان میں سے ہر ایک مجتہد ہے اور جو مجتہد حق کو پا لے جیسے کہ سیدنا علی تو اسے دو اجر ہیں اور جو مجتہد خطاء پر ہو جیسے سیدنا معاویہ تو اسے ایک اجر ملے گا لہذا سیدنا علی اور معاویہ کے قاتل مقتول سب جنتی ہیں حتیٰ کہ سیدنا معاویہ کا باغی گروہ بھی جنتی ہے اسے بھی ایک اجر ملے گا یعنی تمام صحابہ میں سے کوئی بھی گناہ گار و فاسق نہیں اللہ کے فضل و کرم سے  

[شرح أصول اعتقاد أهل السنة للالكائي13/62)

.

قال حجة الإسلام الغزالي رحمه الله يحرم على الواعظ وغيره......وما جرى بين الصحابة من التشاجر والتخاصم فانه يهيج بغض الصحابة والطعن فيهم وهم اعلام الدين وما وقع بينهم من المنازعات فيحمل على محامل صحيحة فلعل ذالك لخطأ في الاجتهاد لا لطلب الرياسة او الدنيا كما لا يخفى وقال في شرح الترغيب والترهيب المسمى بفتح القريب والحذر ثم الحذر من التعرض لما شجر بين الصحابة فانهم كلهم عدول خير القرون مجتهدون مصيبهم له أجران ومخطئهم

له أجر واحد

حجة الاسلام امام غزالی نے فرمایا کہ صحابہ کرام کے درمیان جو مشاجرات ہوئےان کو بیان کرنا حرام ہے کیونکہ اس سے خدشہ ہے کہ صحابہ کرام کے متعلق بغض بغض اور طعن پیدا ہو۔ ۔۔۔۔۔صحابہ کرام میں جو مشاجرات ہوئے ان کی اچھی تاویل کی جائے گی کہا جائے گا کہ ان سے اجتہادی خطا ہوئی انہیں حکومت و دنیا کی طلب نہ تھی..ترغیب وترہیب کی شرح میں ہے کہ مشاجرات صحابہ میں پڑنے سے بچو بے شک تمام صحابہ عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)تمام صحابہ کرام خیرالقرون ہیں مجتہد ہیں مجتہد میں سے جو درستگی کو پہنچا اس کے لئے دو اجر اور جس نے خطا کی اس کے لیے ایک اجر 

(روح البيان 9/437)

.

إذا حكم الحاكم فاجتهد فاصاب فله أجران وإذا حكم فاجتهد فاخطأ فله أجر واحد» رواه البخاري ومسلم وأحمد وأبو داود والنسائي والترمذي عن أبي هريرة، والبخاري وأحمد والنسائي وأبو داود وابن ماجة عن عبد الله بن عمرو بن العاص، والبخاري عن أبي سلمة..فالأجران للاجتهاد والإصابة والأجر الواحد للاجتهاد وحده. والصحابة الأربعة مجتهدون في الحرب مخطئون فيه وعلي رضي الله عنه مجتهد مصيب. وقد تقرر في الأصول أنه يجب على المجتهد أن يعمل بما ادى إليه اجتهاده ولا لوم عليه ولا على مقلده. فالقاتل والمقتول من الفريقين في الجنة

بخاری مسلم احمد ابو داؤد نسائی ترمذی وغیرہ کی حدیث ہیں کہ مجتہد اگر درستگی پالے تو اسے دو اجر اور مجتہد خطا کرے تو اسے ایک اجر ملے گا صحابہ کرام نے جو جنگیں ہوئیں وہ اسی اجتہاد کی وجہ سے ہوئی تو ان میں سے جو درستگی کو تھا اس کو دو اجر ملیں گے اور جو خطاء پر تھا اسے ایک اجر ملے گا لہذا سیدنا معاویہ اور سیدنا علی و غیرہ دونوں گروہ جنتی ہیں 

(الناهية عن طعن أمير المؤمنين معاوية، ص27)

.

أن أصحاب علي أدنى الطائفتين إلى الحق وهذا هو مذهب أهل السنة والجماعة أن علياً هو المصيب وإن كان معاوية مجتهداً وهو مأجور إن شاء الله ولكن علي هو الإمام فله أجران كما ثبت في صحيح البخاري من حديث عمرو بن العاص أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إذا اجتهد الحاكم فأصاب فله أجران وإذا اجتهد فأخطأ فله أجر

حدیث پاک میں ہے کہ مجتہد درستگی کو پالے تو اسے دو اجر اور اگر خطا کرے تو اسے ایک اجر ملے گا... اس کے مطابق حضرت علی کا گروہ درستگی پر تھا اسے دو اجر ملیں گے اور سیدنا معاویہ اجتہاد میں خطا پر تھے اس لیے اسے ایک اجر ملے گا یہی اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے 

(عقيدة أهل السنة في الصحابة لناصر بن علي2/728)

.


وأما ما شجر بينهم بعده عليه الصلاة والسلام، فمنه ما وقع عن غير قصد، كيوم الجمل، ومنه ما كان عن اجتهاد، كيوم صفين. والاجتهار يخطئ ويصيب، ولكن صاحبه معذور وإن أخطأ، ومأجور أيضاً، وأما المصيب فله أجران اثنان، وكان علي وأصحابه أقرب إلى الحق من معاوية وأصحابه رضي الله عنهم أجمعين

صحابہ کرام میں کچھ جنگی تو ایسی ہیں جو بغیر قصد کے ہوئیں جیسے کہ جنگ جمل اور کچھ جنگیں ایسی ہیں جو اجتہاد کی بنیاد پر ہوئی جیسے کہ صفین....جس نے درستگی کو پایا جیسے کہ سیدنا علی تو ان کو دو اجر ملیں گے اور جس نے اجتہاد میں خطا کی جیسے کہ سیدنا معاویہ تو اسے ایک اجر ملے گا 

( الباعث الحثيث  ص182)

.

وَالْجَوَاب الصَّحِيح فِي هَذَا أَنهم كَانُوا مجتهدين ظانين أَنهم يَدعُونَهُ إِلَى الْجنَّة، وَإِن كَانَ فِي نفس الْأَمر خلاف ذَلِك، فَلَا لوم عَلَيْهِم فِي اتِّبَاع ظنونهم، فَإِن قلت: الْمُجْتَهد إِذا أصَاب فَلهُ أَجْرَانِ، وَإِذا أَخطَأ فَلهُ أجر، فَكيف الْأَمر هَهُنَا. قلت: الَّذِي قُلْنَا جَوَاب إقناعي فَلَا يَلِيق أَن يُذكر فِي حق الصَّحَابَة خلاف ذَلِك، لِأَن اتعالى أثنى عَلَيْهِم وَشهد لَهُم بِالْفَضْلِ

اللہ تعالی نے صحابہ کرام پر تعریف کی ہے اور ان کی فضیلت بیان کی ہے تو یہ سب مجتہد تھے(سیدنا علی سیدنا معاویہ وغیرہ نے) جنگوں اور فتنوں میں اجتہاد کیا جس نے درستگی کو پایا اس کے لئے دو اجر اور جس نے خطا کی اس کے لیے ایک اجر یہی جواب صحیح ہے اور یہی جواب صحابہ کرام کے لائق ہے 

(بدر الدين العيني، عمدة القاري شرح بخاری4/209)

.

وقد قال - صلى الله عليه وسلم: " «إذا ذكر أصحابي فأمسكوا» " أي: عن الطعن فيهم، فلا ينبغي لهم أن يذكروهم إلا بالثناء الجميل والدعاء الجزيل، وهذا مما لا ينافي أن يذكر أحد مجملا أو معينا بأن المحاربين مع علي ما كانوا من المخالفين، أو بأنمعاوية وحزبه كانوا باغين على ما دل عليه حديث عمار: " «تقتلك الفئةالباغية» " ; لأن المقصود منه بيان الحكم المميز بين الحق والباطل والفاصل بين المجتهد المصيب، والمجتهد المخطئ، مع توقير الصحابة وتعظيمهم جميعا في القلب لرضا الرب

ترجمہ:

اور بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ میرے صحابہ کا ذکر ہو تو رک جاؤ، یعنی لعن طعن سے رک جاؤ...تو ضروری ہے کہ انکا ذکر ایسے ہو کہ انکی مدح سرائی کی جائے اور دعاء جزیل دی جائے، لیکن اسکا یہ مطلب نہین کہ حضرت علی سے جنگ کرنے والوں کو یا سیدنا معاویہ اور انکے گروہ کو باغی نا کہا جائے(بلکہ مجتہد باغی کہا جائے گا یہ فضائل بیان کرنے کے منافی نہین کہ مجتہد باغی گناہ نہیں) کیونکہ حدیث عمار کہ اے عمار رضی اللہ عنہ تجھے باغی گروہ قتل کرے گا....کیونکہ (اجتہادی باغی خاطی کہنا مذمت کے لیے نہین بلکہ)اس لیے ہے کہ وہ حکم واضح کر دیا جائے جو حق کو واضح کرے اور مجتہد مصیب سیدنا علی اور مجتہد سیدنا معاویہ خطاء کرنے والے میں فیصلہ کرے، اس کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کی(فقط زبانی منافقانہ نہیں بلکہ) دلی تعظیم و توقیر ہو، اللہ کی رضا کی خاطر

(مرقاۃ تحت الحدیث3397ملتقطا)

.

محقق متکلم امام اہلسنت سعدالدین تفتازانی کی کتاب شرح المقاصد میں ہے کہ:

واما فی حرب جمل و حرب صفین فالمصیب علی لا کلتا الطائفتین ولا احدھما من غیر تعیین المخالفون بغاۃ  لخروجھم علی الامام الحق لشبھۃ لا فسقۃ او کفرۃ والمخالفون بغاۃ لخروجھم علی الامام الحق بشبھۃ لقولہ علیہ الصلام لعمار تقتلک الفئۃ الباغیۃ وقد قتل صفین علی ید اہل الشام ولقول علی رضی اللہ عنہ اخواننا بغوا علینا ولیسوا کفارا ولا فسقۃ ولا ظلمۃ لما لھم من التاویل وان کان باطلا فغایۃ الامر انھم اخطاؤا فی الاجتھاد وذالک لایوجب التفسیق ولھذا منع علی اصحابہ من لعن اہل الشام وقال اخواننا بغوا علینا وقد صح ندم طلحۃ و الزبیر و اشتھر ندم عائشۃ وقصد عائشۃ لم یکن الا اصلاح الطائفتین و تکسین الفتنۃ، ان حرب الجمل کانت فلتۃ من غیر قصد من الفریقین بل کانت تھییجا من قتلۃ عثمان  حیث صارو فرقتین و اختلطو بالعسکریں

اور جو جنگ جمل اور جنگ صفین ہوئیں ان تمام میں حضرت علی حق و درست تھے، دونوں حق و درست نہیں تھے(مطلب ایسا نہین کہ سیدنا علی کو بھی حق کہا جائے اور ان سے اختلاف کرنے والے مثل سیدنا طلحہ سیدنا زبیر و سیدہ عائشہ و سیدنا معاویہ وغیرہ بھی کو بھی حق پر کہا جائے ایسا ہرگز نہیں بلکہ سیدنا علی ہی حق پر تھے)

اور ایسا بھی نہیں کہ کہا جائے کہ بلاتعیین کوئی ایک حق پر تھا(مطلب ایسا بھی مت سمجھو کہ شاید سیدنا زبیر و طلحہ و عائشہ حق پر ہو یا شاید علی حق پر ہوں، ایسا مشکوک نظریہ بھی ٹھیک نہیں بلکہ واضح حق عقیدہ اہلسنت یہی ہے کہ سیدنا علی حق و درست تھے)اور مخالفیں باغی تھے کہ امام برحق پر خروج کیا شبہ کی وجہ سے، ہاں(شبہ اجتہادی بغاوت اجتہادی خطاء) کی وجہ سے انہیں فاسق و گناہ گار اور کافر نہیں کہہ سکتے

اور

حضرت علی کے مخالفیں کو باغیی(اجتہادی باغی جو گناہ گار نہیں) کہنے کی وجہ یہ ہے کہ

①انہوں نے شبہ(قصاص عثمان)کی وجہ سے امام برحق پر خروج کیا( لیھذا اجتہادی باغی ٹھرے)

②(مخالفینِ علی کو اجتہادی باغی) کہنے کی وجہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اے عمار تجھے باغی گروہ قتل کرے گا اور حضرت عمار کو جنگ صفین میں اہل شام(سیدنا معاویہ کے گروہ) نے قتل کیا تھا

③(مخالفینِ علی کو اجتہادی باغی) کہنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ یہ مخالفیں ہمارے(مسلمان) بھائی ہیں جنہوں نے بغاوت کی ہے اور وہ(حضرت علی کے اجتہادی مخالفین مثل سیدنا زبیر و طلحہ و بی بی عائشہ و معاویہ یہ سب)کافر نہیں اور فساق و گناہ گار نہیں اور ظالم نہیں کیونکہ ان کے پاس تاویل(اجتہاد) تھا اگرچہ انکی تاویل باطل تھی اور اس کی انتہاء یہ ہے کہ انہوں نے اجتہاد میں خطاء کی اور اس سے لازم نہیں اتا ہے انہیں فاسق و گناہ گار کہا جائے، یہی وجہ ہے کہ حضرت علی نے اپنے گروہ سے کہا تھا کہ اہل شام(سیدنا معاویہ وغیرہ) پر لعن طعن نا کرو اور فرمایا کہ وہ تو ہمارے بھائی ہیں جنہوں نے بغاوت کی ہے(حضرت علی کے مخالف قائدین میں سے) سیدنا طلحہ اور سیدنا زبیر دونوں کی ندامت و رجوع ثابت ہے اور سیدہ صدیقہ طیبہ طاہرہ بی بی عائشہ کی ندامت و رجوع بھی مشھور ہے، سیدہ عائشہ(سیدنا علی سے جنگ کرنے نہیں نکلیں تھی بلکہ) انکا مقصد فقط یہی تھا کہ دونوں گروہوں کی اصلاح کریں اور فتنے کو ٹھنڈا کریں، جنگ تو بغیر قصد کے(دونوں گروہوں میں موجود منافقوں فسادیوں کی) فریب سے مچ گئ بلکہ جو سیدنا عثمان کے قاتل تھے(جو دونوں گروہوں مین چھپے تھے)انہوں نے جنگ کی چنگاری مچوا دی اس طرح کہ قاتلین عثمان (بلوائی منافق فسادی) دو گروہ ہوگئے اور صحابہ کے گروہوں میں رل مل گئے

(شرح المقاصد جلد3  ص533, 534 ملتقطا  مع الحذف الیسیر)

.

والصحابة رضي الله عنهم كلهم عدول؛ سواء من لابس الفتن منهم أم لا، وهذا بإجماع من يعتدُّ به،

تمام صحابہ عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 

وہ صحابہ بھی عادل ہیں جو فتنوں جنگوں میں پڑے اور جو نہ پڑے سب صحابہ عادل ہیں اور اس پر سب کا اجماع ہے 

[ تيسير مصطلح الحديث، صفحة ٢٤٤]

.

وَذَهَبَ جُمْهُورُ أَهْلِ السُّنَّةِ إِلَى تَصْوِيبِ مَنْ قَاتَلَ مَعَ عَلِيٍّ لِامْتِثَالِ قَوْلِهِ تَعَالَى وان طَائِفَتَانِ من الْمُؤمنِينَ اقْتَتَلُوا الْآيَةَ فَفِيهَا الْأَمْرُ بِقِتَالِ الْفِئَةِ الْبَاغِيَةِ وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ مَنْ قَاتَلَ عَلِيًّا كَانُوا بُغَاةً وَهَؤُلَاءِ مَعَ هَذَا التَّصْوِيبِ مُتَّفِقُونَ عَلَى أَنَّهُ لَا يُذَمُّ وَاحِدٌ مِنْ هَؤُلَاءِ بَلْ يَقُولُونَ اجتهدوا فأخطئوا

 جمہور اہل سنت نے فرمایا ہے کہ جس نے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ساتھ مل کر قتال کیا وہ حق پر تھے کیونکہ باغیوں کے ساتھ قتال کیا جاتا ہے یہ آیت میں حکم ہے اور سیدنا معاویہ کا گروہ باغی تھا... اس کے ساتھ ساتھ اہلسنت اس بات پر بھی متفق ہیں کہ دونوں گروہوں میں سے کسی کو بھی مذمت کا نشانہ نہ بنایا جائے گا کیونکہ سیدنا معاویہ وغیرہ نے اجتہاد کیا اور اجتہاد میں خطا کی

(ابن حجر عسقلانی فتح الباری شرح بخاری13/67)

.

الصحابة كلهم عدول من لابس الفتن وغيرهم بإجماع من يعتد به

 تمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 

وہ صحابہ کرام بھی عادل ہیں جو جنگوں فتنوں میں پڑے اور دوسرے بھی عادل ہیں اور اس پر معتدبہ امت کا اجماع ہے 

التدريب  امام سیوطی ص204)

(مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح،1/211)

.

عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ هُوَ الْمُصِيبَ الْمُحِقَّ وَالطَّائِفَةُ الْأُخْرَى أَصْحَابُ مُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانُوا بُغَاةً مُتَأَوِّلِينَ وَفِيهِ التَّصْرِيحُ بِأَنَّ الطَّائِفَتَيْنِ مُؤْمِنُونَ لَا يَخْرُجُونَ بِالْقِتَالِ عَنِ الْإِيمَانِ وَلَا يَفْسُقُونَ وَهَذَا مَذْهَبُنَا وَمَذْهَبُ مُوَافِقِينَا

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ درستگی پر تھے حق پر تھے اور دوسرا گروہ یعنی سیدنا معاویہ کا گروہ وہ باغی تھے لیکن تاویل(اجتہاد) کرنے والے تھے دونوں گروہ مومنین ہیں دونوں گروہ ایمان سے نہیں نکلتے اور دونوں گروہ فاسق نہیں ہیں یہی ہمارا مذہب ہے اور یہی مذہب ہمارے(عقائد میں)موافقین(حنفی حنبلی مالکی وغیرہ تمام اہل سنت)کا مذہب ہے 

(شرح مسلم للنووی7/168)

 

.

 وَغَايَة اجْتِهَاده أَنه كَانَ لَهُ أجر وَاحِد علىاجْتِهَاده وَأما عَليّ رَضِي الله عَنهُ فَكَانَ لَهُ أَجْرَان

زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیدنا معاویہ کو ایک اجر ملے گا اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دو اجر ملے گے 

(امام ابن حجر الهيتمي، الصواعق المحرقة2/624)

۔

.

امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں:

فان معاویة واحزابه بغوا عن طاعته مع اعترافهم بانه افضل اھل زمانه وانه الاحق بالامامة بشبهه هی ترک القصاص عن قتله عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنه ونقل فی حاشیة کمال القری عن علی کرم اللہ تعالیٰ وجهه انہ قال اخواننا بغوا علینا ولیسوا کفرة ولا فسقة لما لھم من التاویل وشک نیست کہ خطاء اجتہادی از ملامت دور است واز طعن وتشنیع مرفوع ." 

ترجمہ:

بے شک معاویہ اور اس کے لشکر نے اس(حضرت علی  سے)بغاوت کی، باوجودیکہ کہ وہ مانتے تھے کہ وہ یعنی سیدنا علی تمام اہل زمانہ سے افضل ہے اور وہ اس سے زیادہ امامت کا مستحق ہے ازروئے شبہ کے اور وہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے قصاص کا ترک کرنا ہے ۔ اور حاشیہ کمال القری میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ہمارے بھائیوں نے ہم پر بغاوت کی حالانکہ نہ ہی وہ کافر ہیں اور نہ ہی فاسق کیونکہ ان کے لیے تاویل ہے

اور شک نہیں کہ خطائے اجتہادی ملامت سے دور ہے اور طعن وتشنیع سے مرفوع ہے

(مکتوبات امام ربانی 331:1منقولا عن بعض المصادر) 

.

وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ مِنَ الْعُدُولِ الْفُضَلَاءِ وَالصَّحَابَةِ النُّجَبَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَمَّا الْحُرُوبُ الَّتِي جَرَتْ فَكَانَتْ لِكُلِّ طَائِفَةٍ شُبْهَةٌ اعْتَقَدَتْ تَصْوِيبَ أَنْفُسِهَا بِسَبَبِهَا وَكُلُّهُمْ عُدُولٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَمُتَأَوِّلُونَ فِي حُرُوبِهِمْ وَغَيْرِهَا وَلَمْ يُخْرِجْ شئ مِنْ ذَلِكَ أَحَدًا مِنْهُمْ عَنِ الْعَدَالَةِ لِأَنَّهُمْ مُجْتَهِدُونَ اخْتَلَفُوا فِي مَسَائِلَ مِنْ مَحَلِّ الِاجْتِهَادِ كَمَا يَخْتَلِفُ الْمُجْتَهِدُونَ بَعْدَهُمْ فِي مَسَائِلَ مِنَ الدِّمَاءِ وَغَيْرِهَا وَلَا يَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ نَقْصُ أَحَدٍ مِنْهُمْ

سیدنا معاویہ عادل فضیلت والے نجباء صحابہ میں سے ہیں باقی جو ان میں جنگ ہوئی تو ان میں سے ہر ایک کے پاس شبہات تھے اجتہاد جس کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی عادل ہونے کی صفت سے باہر نہیں نکلتا اور ان میں کوئی نقص و عیب نہیں بنتا

(امام نووي ,شرح مسلم ,15/149)

.

وَإِنْ كَانُوا بُغَاةً فِي نَفْسِ الْأَمْرِ فَإِنَّهُمْ كَانُوا مُجْتَهِدِينَ فِيمَا تَعَاطَوْهُ مِنَ الْقِتَالِ، وَلَيْسَ كُلُّ مُجْتَهِدٍ مُصِيبًا، بَلِ الْمُصِيب لَهُ أَجْرَانِ والمخطئ لَهُ أجر.

سیدنا معاویہ کا گروہ باغی تھا لیکن وہ مجتہد تھے لہذا انہیں ایک اجر ملے گا اور جو درستگی پر ہوگا اسے دو اجر ملے گے 

(امام ابن كثير، السيرة النبوية2/308)

.

.

✍تحریر: العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.