مرزا جہلمی کا کفر؟ رفع یدین نہ کرنے کے دلائل؟

 


*#رفع_یدین نہ کرنے کے دلائل اور کیا مرزا جہلمی نے جوش و تعصب میں آکر کفر بَک دیا.....؟؟*

سوال:

کئ احباب نے فرمایا کہ رفع یدین نہ کرنے پر ہم کو بہت طعن و تشنیع مذمت کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس پے مدلل تفصیلی تحریر لکھیں اور مرزا جہلمی کہتا ہے کہ انہوں نے یعنی حنفیوں نے دین کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے، دین کا جنازہ نکال دیا ہے، نماز کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے نماز دین کے طریقے پر ادا ہی نہیں کی جا رہی ہے...مزید کہتا ہے کہ سوائے احناف کے سب رفع یدین کرتے ہیں لیھذا یہ حنفیوں نے ظلم کیا، ان رفع یدین نہ کرنے والوں پر تو لعنت ثابت ہوتی ہے، حنفی بابوں نے  قیاس و من مانی کی..حنفی بابوں کی پیروی چھوڑو نبی پاک صلی اللپ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی پیروی کرو...(وڈیو لگا دی ہے، لنک بھی دیے دیا ہے)

.

*#جواب.و.تحقیق.....!!*

رفع یدین کا مطلب ہے کہ نماز میں دونوں ہاتھوں کو اٹھانا۔  نماز کے شروع  میں یعنی تکبیر تحریمہ میں رفع یدین کرنا رسول کریم ﷺ کی سنت مبارکہ ہے جس میں کسی کو اختلاف نہیں۔۔البتہ رکوع میں جاتے ہوئے، رکوع سے اٹھتے ہوئے رفع یدین فقہ حنفی والے نہیں کرتے جبکہ نام نہاد اہلحدیث و غیرمقلدین وغیرہ رکوع وغیرہ میں بھی رفع یدین کرتے ہیں

.

*#خلاصہ*

صحیح و حسن معتبر دلائل سے ثابت ہے کہ سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع وغیرہ میں رفع یدین نہ فرمایا اور صحابہ کرام تابعین بالخصوص خلفاء ثلاثہ نے رفع یدین نہ کیا لیھذا رفع یدین نہ کرنے والوں کو کہنا کہ تم نے دین کو بگاڑ دیا،لعنت والا کام کیا ہے،ایسا کہنا دراصل ان پاک ہستیوں پر اعتراض کے مترادف ہے، ایسی بےباکی، ایسا غلو ، ایسا تعصب مرزا جہلمی وغیرہ کا کفر تک ہوسکتا ہے بلکہ جہلمی کا کفر ہی لگتا ہے لیکن فتوی مفتیان کرام ہی دیں گے...اہلحدیث و غیرمقلدوں میں سے کٹر گستاخ بےباک کا بھی کفر تک ہوسکتا ہے،یقینا جہلمی کی بےباکی اور دین بگاڑ دینے اور لعنت و مذمت کا فتوی دینا فتنہ و فساد ہے اور فتنے کا علاج سمجھانا ورنہ ٹھکانے لگانا قرآن و حدیث اور صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہوتا ہے الا یہ کہ فتنے کو ٹھکانے لگانے سے فساد ہو یا عذر ہو تو فتنے سے ہرقسم کا بائیکاٹ لازم...نہ سننا نہ ماننا لازم.....!! لیکن کفر وغیرہ کا باقاعدہ فتوی معتبر مفتیان کرام ہی دیں گے... اللہ کریم اختلافِ برحق کو باسلیقہ رکھنے، باادب لکھنے بتانے والا بنائے...فقہ حنفی بھی الحمد للہ قرآن و سنت و فتاویِ صحابہ کرام کا نچوڑ ہے.. فقہاء احناف کے پاس احادیث و صحابہ کرام کے قول و عمل کے دلائل ہیں لیھذا یہ بابوں کی اندھا دھند پیروی نہیں بلکہ احادیث و اقوالِ صحابہ کرام کی پیروی ہے.. ہاں غیرمنصوص فروعی مسائل میں بابوں یعنی ماہر علماء کی پیروی بھی قرآن و سنت نے لازم کی ہے کہ وہ بابے یعنی ماہر علماء قرآن و سنت و احادیث و اقوالِ صحابہ و تابعین سے اخد کرکے مسئلہ بتاتے ہیں،یہ اخذ کرنا،قیاس کرنا علماء ماہرین پر شریعیت کی طرف سے ذمہ داری ہے...البتہ ہر ایرے غیرے جہلمی جیسے چند ایات و احادیث پڑھ کر فتوے بازی کرنے والے کم علم نام نہاد محقق نام نہاد عالم سے پوچھنا اور انکا بتانا دراصل گمراہ ہونا ہے، گمراہ کرنا ہے...بات کفر گستاخی الحاد لادینیت تک جاسکتی ہے

الحدیث:

فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا

جاہل(کم علم) فتویٰ دیں گے تو وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے( لہذا ایسوں سے دور بھاگو، ایسو سے نہ پوچھو، ایسوں کی نہ مانو، نہ سنو)

(بخاری حدیث100)

.==============

*#خلفاء_راشدین کی پیروی کے متعلق حدیث پاک اور خلفاء راشدین کا عمل ملاحظہ کیجیے.....!!*

الحدیث:

فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ، تَمَسَّكُوا بِهَا

 نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم پر میری سنت لازم ہے اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت لازم ہے، ان سنتوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو

(ابوداؤد حدیث4607)

(ابن ماجہ  حدیث43نحوہ)

(ترمذی حدیث2676نحوہ)

.

*#نبی_پاک_اور_سیدنا_ابوبکر_و_عمر رضی اللہ عنھما کا عمل....!!*

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ أَبِي إِسْرَائِيلَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: «صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَلَمْ يَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ إِلَّا عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ» وَقَدْ قَالَ مُحَمَّدٌ: فَلَمْ يَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ بَعْدَ التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى

 صحابی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ نماز پڑھی تو یہ سب پاک ہستیاں نماز کے شروع یعنی تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہ کرتے تھے

(مسند أبي يعلى روايت 5039)

مرزا جہلمی اور اسکے ماننے والو بتاو کیا سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے دین کا حلیہ بگاڑ دیا.....؟؟نعوذ باللہ تعالیٰ لعنت والا کام کیا....؟؟ بتاو احناف نے حلیہ بگاڑ دیا یا تم نیم ملا جہلمی غیرمقلد اہلھدیث وغیرہ فتنہ فساد انتشار بگاڑ تعصب پھیلا رہے ہو....؟؟

.

یقینا جہلمی کی بےباکی اور دین بگاڑ دینے اور لعنت و مذمت کا فتوی دینا فتنہ و فساد ہے اور فتنے کا علاج سمجھانا ورنہ ٹھکانے لگانا قرآن و حدیث اور صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہوتا ہے الا یہ کہ فتنے کو ٹھکانے لگانے سے فساد ہو یا عذر ہو تو فتنے سے ہرقسم کا بائیکاٹ لازم...نہ سننا نہ ماننا لازم.....!!

.

مذکورہ روایت کے پہلے راوی إسحاق بْن أَبي إسرائيل ثقہ معتبر ہیں:

سمعت يحيى ابن مَعِين يقول: إسحاق بْن أَبي إسرائيل ثقة....: سريج بْن يونس شيخ صالح صدوق، وإسحاق بْن أَبي إسرائيل أثبت منه.وَقَال الدَّارَقُطْنِيُّ (٥) : إسحاق بْن أَبي إسرائيل

 ثقة

 امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ اسحاق بن ابی اسرائیل ثقہ  معتبر ہیں بلکہ سریج سے بڑھ کر صالح و سچے ہیں،اسحاق کی روایات زیادہ مضبوط ہیں، امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ اسحاق بن ابی اسرائیل ثقہ معتبر ہیں

(تهذيب الكمال في أسماء الرجال2/402)

.

مزکورہ روایت کے ایک راوی محمد بن جابر سے صحاح ستہ میں سے ابوداود اور ابن ماجہ نے روایت لی ہے تو یہ صحاح ستہ کا معتبر راوی ہے حتی کہ غیرمقلدین اہلحدیث وہابیوں کے جدید محقق ناصر البانی نے اس راوی کی روایت کو صحیح کہا

(تحقيق الألباني:صحيح، المشكاة (320) ، صحيح أبي داود (175)

(البانی کی کتاب صحیح و ضعیف ابن ماجہ2/55)

.

محمد بن جابر فقال ذهب كتبه في آخر عمره وساء حفظه ...

عبد الرحمن قال وسئل ابى عن محمد بن جابر وابن لهيعة فقال محلهما الصدق

 محمد بن جابر آخر عمر میں ان کی کتب ضائع ہوگئی تھیں اور ان کا حافظہ بگڑ گیا تھا لیکن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ ابن لہیعہ اور محمد بن جابر ان کا مقام یہ ہے کہ یہ سچے معتبر ہیں ہیں

(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم7/219)

.

رفع یدین کرنے والوں میں سے امام شافعی اور امام بیھقی جو احناف سے اختلاف رکھتےہیں انہوں نے محمد بن جابر کی حماد سے روایت کو دلیل بنایا جس سے واضح ہوتا ہے کہ راجح یہ ہے کہ محمد بن جابر کی حماد سے روایات معتبر ہیں،حافظہ متغیر ہونے سے پہلے کی ہیں ہیں

(دیکھیے معرفة السنن والآثار7/399)

.

اس روایت پر انہی دو رایوں کی وجہ سے اعتراض تھا جسکا ہم نے جواب دے دیا الحمد للہ، باقی راویوں پر کسی کو اعتراض نہین تو یہ روایت صحیح کہلانی چاہیے ورنہ کم از کم حسن معتبر ضرور کہلانی چاہیے، حسن روایت صحیح سے کم درجے کی ہوتی ہے مگر دلیل وہ بھی بن سکتی ہے،بنتی ہے...ہمارے مخالفین بھی حسن روایات سے جا بجا استدلال کرتے ہیں بلکہ ائمہ اسلاف نے حسن روایت کو معتبر و قابل استدلال قرار دیا ہے...حق چار یار کی نسبت سے چار حوالے ملاحظہ کیجیے

.

وهو في الاحتجاج به كالصحيح عند الحمهور

 حسن حدیث دلیل بننے کے لحاظ سے جمہور کے نزدیک صحیح حدیث کی طرح ہے

(امام ابن کثیر الباعث الحثیث ص37)

.

لِأَنَّ غَالِبَ الْأَحَادِيثِ لَا تَبْلُغُ رُتْبَةَ الصَّحِيحِ (وَيَقْبَلُهُ أَكْثَرُ الْعُلَمَاءِ)

 حسن احادیث کی اکثریت صحیح حدیث کے درجہ سے کم ہوتی ہے... حسن حدیث کو اکثر علماء نے قبول کیا ہے دلائل میں فضائل میں

(امام سیوطی تدریب الراوی1/167)

.

وَهُوَ أَن يُقَال إِن الصِّفَات الَّتِي يجب (مَعهَا قبُول الرِّوَايَة) لَهَا مَرَاتِب ودرجات فأعلاها هُوَ الصَّحِيح وَكَذَلِكَ أوسطها وَأَدْنَاهَا الْحسن

 صحیح بات اور تحقیق کی بات یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ دلائل و فضائل میں جن  احادیث کو قبول کرنا واجب ہے انکے مراتب ہیں،اعلی مرتبہ صحیح حدیث کا ہے اور پھر حسن حدیث کا مرتبہ ہے کہ انکو فضائل و دلائل میں معتبر قرار دینا واجب ہے

(النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح1/306)

امام ابن ملقن المقنع فی علوم الحدیث1/84)

.

ويقبله أكثر العلماء، ويستعمله عامة الفقهاء...ثم الحسن كالصحيح في الاحتجاج به وإن كان دونه في القوة

 حسن حدیث کو اکثر علماء و محدثین و محققین نے قبول کیا ہے دلائل و فضائل میں اور عام فقہاء نے اس کو استعمال کیا ہے دلائل و فضائل و مسائل میں اور حسن حدیث دلیل کے اعتبار سے صحیح کی طرح ہے اگرچہ حدیث صحیح سے تھوڑا کم درجہ کی ہے

(امام نووی التقریب والتیسییر ص29)



.==============

*#سیدنا_عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل....!!*

 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ حَسَنِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: «صَلَّيْتُ مَعَ عُمَرَ، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ إِلَّا حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ

 سیدنا اسود فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے نماز کے شروع میں تکبیر تحریمہ میں رفع یدین کیا اور اس کے علاوہ رفع یدین نہیں کیا

(استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبہ روایت2454)

.

وَهَذَا رِجَاله ثِقَات

 امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ مذکورہ روایت کے تمام راوی ثقہ معتبر ہیں

(الدرایۃ1/152)

.

مرزا جہلمی اور اسکے ماننے والو بتاو کیا سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رفع یدین نہ کرکے دین کا حلیہ بگاڑ دیا.....؟؟ نعوذ باللہ تعالیٰ لعنت والا کام کیا....؟

.

پہلا راوی:

یحیی بن ادم بخاری مسلم صحاح ستہ کا معتبر ثقہ راوی ہے...امام بخاری و مسلم وغیرہ نے ان کے توسط سے کئ احادیث نقل کیں

(دیکھیے بخاری حدیث3629 مسلم حدیث403)

.

دوسرا راوی

حسن بن عیاش....امام بخاری کے استاد کی کتاب کے حاشیے میں اس روایت کا کوئی کمزور پہلو نظر نہ ایا تو اشارتاً اس روای پر جرح کرکے کوشش کی گئ کہ روایت کمزور ہے جبکہ حسن بن عیاش سے امام مسلم نے صحیح مسلم میں روایت لی ہے لیھذا یہ راوی بھی ثقہ معتبر ہے

دیکھیے صحیح مسلم حدیث858)

.

 امام بخاری مسلم کا ان سے روایت لینا ہی کافی تھا کہ یہ ثقہ ہیں لیکن پھر بھی چند حوالے ملاحظہ کیجیے

.

الْحسن بن عَيَّاش بن سَالم الْأَسدي ثِقَة

 حسن بن عیاش ثقہ معتبر راوی ہے 

(الثقات للعجلي ت البستوي1/299)

.

وثقه ابن معين [١] والنسائي

 حسن بن عیاش کو  امام ابن معین اور امام نسائی نے ثقہ معتبر قرار دیا ہے

(تاريخ الإسلام - ت تدمري11/83)

.

قال عثمان الدارمي عن بن معين ثقة وأخوه أبو بكر ثقة قال عثمان ليسا بذاك وهما من أهل الصدق والأمانة وقال النسائي ثقة وذكره ابن حبان في الثقات..قلت: يكنى أبا محمد وقال الطحاوي ثقة حجة وقال العجلي ثقة

 امام ابن معین فرماتے ہیں کہ حسن بن عیاش اور ان کے بھائی ابو بکر ثقہ معتبر ہیں، علامہ عثمان فرماتے ہیں کہ یہ دونوں راوی سچے ہیں امانت والے ہیں امام نسائی نے فرمایا کہ ثقہ ہیں ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا... امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ امام طحاوی نے ان کو ثقہ اور دلیل قرار دیا ہے امام عجلی نے ثقہ قرار دیا ہے

(تهذيب التهذيب امام ابن حجر عسقلانی2/313)

.

تیسرا راوی

عبد الملک بن ابجر سے امام مسلم نے صحیح مسلم میں حدیث لی ہے..لیھذا اس کے بھی ثقہ معتبر ہونے میں شک نہیں

(دیکھیے مسلم حدیث189)

.

قال العجلي: عبد الملك بن حيان بن أبجر: ثقة. "الثقات" ٨٧١.

وقال أيضًا: عبد الملك بن سعيد بن حيان بن أبجر: كوفي، ثقة، رجلٌ صالحٌ

 امام عجلی فرماتے ہیں کہ عبدالملک ثقہ راوی ہیں، نیک و صالح ہیں

(الجامع في الجرح والتعديل2/130)

.

- عبد الملك بن أبجر٥: كان عبد الملك بن أبجر "ثقة، ثبتًا الحديث، صاحب سنة، وكان" من أطب الناس

عبدالملک  ثقہ ثبت راوی ہیں، سنت کے سخت پیروکار ہیں،بہت اچھے انسان ہیں 

(الثقات للعجلي ت قلعجي ص307)

.

چوتھا راوی:

زبیر بن عدی....ان کے ثقہ معتبر ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ امام بخاری و مسلم نے ان کے توسط سے حدیث نقل کی

(دیکھیے بخاری حدیث7068 مسلم حدیث173)

.

قال الدَّارَقُطْنِيّ: ثقة

 امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ زبیر بن عدی ثقہ معتبر راوی ہیں

(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله1/263)

.

قال أحمد وابن معين وأبو حاتم والنسائي ثقة وقال أحمد صالح الحديث مقارب الحديث وقال العجلي ثقة ثبت من أصحاب إبراهيم وكان الزبير صاحب سنة

 زبیر بن عدی کے متعلق امام احمد امام ابن معین امام ابو حاتم امام نسائی سب نے فرمایا ہے کہ ثقہ معتبر راوی ہیں، احمد نے فرمایا کہ صالح الحدیث مقارب الحدیث ہیں، امام عجلی نے فرمایا کہ ثقہ ثبت معتبر راوی ہیں اور سنت کے سخت پیروکار تھے

(تهذيب التهذيب3/317)

.

پانچواں چھٹا راوی:

ابراہیم اور اسود  سے بخاری مسلم نے روایات نقل کی...لیھذا یہ بھی ثقہ معتبر ہیں

(دیکھیے بخاری روایت271)

.

الحاصل:

 صحیح اور حسن معتبر راویوں سے یہ ثابت ہو گیا کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ رفع یدین نہ کرتے تھے...بتاو جہلمیو متعصب فسادی غیرمقلدو اہلحدیثو بتاؤ کیا فقہ حنفی نے دین و نماز کو بگاڑ دیا ہے یا رسول کریم و خلفاء راشدین کی پیروی کی ہے......؟؟

.

عن الأسود قال: صليت مع عمر فلم يرفع يديه في شيء من صلاته إلا حين يفتتح الصلاة....حسن

 سیدنا اسود فرماتے ہیں میں نے سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے شروع نماز میں تکبیر تحریمہ میں رفع یدین کیا اس کے علاوہ رفع یدین نہ کیا..... یہ روایت حسن معتبر ہے

(ما صح من آثار الصحابة في الفقه1/208)

.===============

*#سیدنا_علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل.....!!*

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قِطَافٍ النَّهْشَلِيِّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّ عَلِيًّا، كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ لَا يَعُودُ

 سیدنا عاصم بن کلیب اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ جب نماز شروع فرماتے تو اس وقت رفع یدین کرتے اس کے علاوہ رفع یدین نہ کرتے

استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبہ روایت2442)

(إتحاف المهرة ابن حجر11/599نحوہ)

.

وَرِجَاله ثِقَات

 امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ مذکورہ روایت کی سند میں جو راوی ہیں وہ سارے کے سارے ثقہ معتبر ہیں 

(الدرایۃ1/152)

.

مرزا جہلمی اور اسکے ماننے والو بتاو کیا سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رفع یدین نہ کرکے دین کا حلیہ بگاڑ دیا.....؟؟ نعوذ باللہ تعالیٰ لعنت والا کام کیا....؟

.

اعتراض کیا گیا کہ نھشلی ضعیف راوی ہے

جواب:

عجیب تعصب ہے...لیجیے دیکھیے امام مسلم اور امام ترمذی وغیرہ نے ان سے روایت و حدیث لی ہے

دیکھیے صحیح مسلم حدیث572  ترمزی حدیث1931

.

وقال أبو داود: قلت لأحمد: أبو بكر النهشلي؟ قال: ثقة

 امام احمد اور امام ابو داود کے مطابق ابو بکر نھشلی ثقہ معتبر راوی ہیں

(موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله4/197)

.

أبو بكر النهشلي: كوفي، رجل صالح

 ابوبکر نھشلی نیک صالح معتبر آدمی ہیں

(ديوان الضعفاء ص453)

.

 عاصم بن کلیب صحیح مسلم کا راوی ہے...ثقہ معتبر ہے

دیکھیے صحیح مسلم روایت2078)

.

قال الميموني: قال أبو عبد الله: عاصم بن كليب، ثقة. «سؤالاته» (٣٥٦)  وقال أبو بكر الأثرم: سمعت أبا عبد الله يقول: عاصم بن كليب، لا بأس بحديثه

 امام احمد فرماتے ہیں کہ عاصم بن کلیب ثقہ راوی ہیں اور امام ابو بکر  فرماتے ہیں کہ امام احمد نے فرمایا ہے کہ عاصم بن کلیب کی حدیث میں روایت میں کوئی حرج نہیں

(موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله2/207)

.

کچھ اور نہ سوجا تو امام بخاری کے استاد کی کتاب کے حاشیے میں محقق صاحب نے تجاہل یا جہالت یا سستی یا تعصب کرتے ہوئے اعتراض جڑ دیا کہ کلیب راوی مجھول ہے لیھذا روایت ضعیف ہے...جبکہ کلیب مجھول نہیں ہے،  ثقہ معتبر راوی ہے...چند حوالہ جات پڑہیے

.

قال العجلي: كليب بن شهاب والد عاصم، تابعي، ثقة. "الثقات" ١٢٠٩

 امام عجلی فرماتے ہیں کہ کلیب شہاب کے بیٹے ہیں عاصم کے والد ہیں تابعی ہیں اور ثقہ معتبر راوی ہیں

الجامع في الجرح والتعديل2/409)

.

امام بخاری اس راوی کے سماع تک کا تذکرہ کر دیا...کیا بھلا مجھول راوی ایسا ہوتا ہے....؟؟

کلَيب بْن شِهاب، الجَرمِيُّ.سَمِعَ عَلِيًّا، وعُمَر

 امام بخاری فرماتے ہیں کہ کلیب شہاب کے بیٹے ہیں جرمی ہیں انہوں نے سیدنا علی اور سیدنا عمر سے سنا ہے

(التاريخ الكبير للبخاري بحواشي محمود خليل7/229)

.

الحاصل:

 صحیح اور حسن معتبر راویوں سے یہ ثابت ہو گیا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ رفع یدین نہ کرتے تھے...بتاو جہلمیو متعصب فسادی غیرمقلدو اہلحدیثو بتاؤ کیا فقہ حنفی نے دین و نماز کو بگاڑ دیا ہے یا رسول کریم و خلفاء راشدین کی پیروی کی ہے......؟؟

.==============

*#خلفاء راشدین میں سے سیدنا ابوبکر،  سیدنا عمر، سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کا عمل پڑھ چکے کہ رفع یدین نہ کرتے تھے اب خلفاء راشدین کے عمل کی اہمیت سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے سنیے.....!!*

الحدیث:

فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ، تَمَسَّكُوا بِهَا

نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم پر میری سنت لازم ہے اور خلفاء راشدین مہدیین کی سنت لازم ہے، ان سنتوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو

(ابوداؤد حدیث4607)

(ابن ماجہ  حدیث43نحوہ)

(ترمذی حدیث2676نحوہ)

.

جہلمیو غیرمقلدو اہلحدیثو کیا اب بھی کہو گے کہ فقہ حنفی نے دین بگاڑ دیا.....؟؟ یا مان جاؤ گے کہ تم فتنہ فساد گستاخی بےباکیاں پھیلا رہے ہو اور توبہ کرکے آئندہ احتیاط کرو گے.....؟؟

 

.==================

*#بعض_دیگر_صحابہ_و_تابعین کا عمل ملاحظہ کیجیے....!!*

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: «مَا رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَا يَفْتَتِحُ»

 سیدنا مجاہد فرماتے ہیں کہ صحابی سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ شروع نماز میں تکبیر تحریمہ میں رفع یدین کرتے تھے اس کے علاوہ رفع یدین نہ کیا کرتے تھے

(استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبہ روایت2452)

(الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف 3/148)

.

اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں امام طحاوی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا...باقی راویوں کو تو سب ثقہ مانتے ہیں لیکن فقط ایک راوی ابوبکر بن عیاش پر اعتراض کرتے ہیں

.

کتاب العتق کے محشی و محقق لکھتے ہیں:

قلت: صححه الطحاوي

 مذکورہ روایت کو امام طحاوی نے صحیح قرار دیا ہے

(العتيق مصنف جامع لفتاوى أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم5/79)

.

وهذا سند صحيح على شرط مسلم

 اہل حدیث غیر مقلد وغیرہ کے معتبر امام ابن قیم جوزی کا قول ہے کہ مذکورہ روایت کے تمام راوی صحیح مسلم والے راوی ہیں

(ابن قیم رفع اليدين في الصلاة1/142)

.

استاد بخاری کی کتاب کے حاشیے میں محقق صاحب نے ابوبکر بن عیاش پر جرح کرکے صراحتا یا اشارتا روایت کو ضعیف و کمزور ظاہر کرنے کی کوشش کی

حالانکہ

ابوبکر بن عیاش سے امام بخاری نے روایت لی ہے...اور اہلحدیث و غیرمقلدین کا قاعدہ ہے کہ بخاری مسلم میں جو راوی ہیں سب ثقہ معتبر ہیں..ضعیف نہیں ہیں...امام بخاری نے ابوبکر بن عیاش سے روایت لکھی

 مثلا دیکھیے بخاری حدیث5709

اس کے علاوہ صحاح ستہ میں سے ابوداؤد  و ترمذی میں بھی اس راوی سے روایت لی گئ ہے

دیکھیے ابوداؤد حدیث4880.. ترمذی حدیث118

.

ذكر ابن المبارك أبا بكر بْن عياش فأثنى عليه...وَقَال صَالِح بْن أَحْمَد بْن حنبل، عَن أَبِيهِ: صدوق، صاحب قرآن وخير....أَبُو بكر؟ قال: هو ثقة وأبو بكر ثقة

 امام ابن مبارک کے پاس ابو بکر بن عیاش کا تذکرہ کیا گیا تو امام ابن مبارک نے ان کی تعریف فرمائی... امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ یہ راوی سچے ہیں صاحب قرآن ہیں اور بھلائی والے ہیں...وہ راوی اور ابوبکر بن عیاش ثقہ ہیں

(تهذيب الكمال في أسماء الرجال33/133)

.

 آپ نے مذکورہ روایت کو پڑھ لیا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ رفع یدین نہ کرتے تھے سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سنت کے کتنے پابند تھے اور ان کی کتنی فضیلت ہے ذرا ایک جھلک ملاحظہ کیجئے

السّيّد الجليل الفقيه العابد الزّاهد أبو عبد الرّحمن عبد الله بن عمر بن الخطّاب العدويّ، وكان قد عيّن للخلافة يوم التّحكيم، مع وجود عليّ والكبار رضي الله عنهم...وقال فيه النبيّ صلى الله عليه وسلم: «إنّ عبد الله رجل صالح» [١] . وقال: «نعمّ الرّجل عبد الله لو كان يصلّي من الليل» فكان بعدها لا يرقد من الليل إلّا قليلا [٢] ، وكان من زهّاد الصحابة وأكثرهم اتّباعا

 للسّنن

 صحابی سیدنا ابن عمر سردار ہیں جلیل القدر ہیں،  فقیہ ہیں، عبادات گزار ہیں، زہد و تقوی والے ہیں... ان کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ہوتے ہوئے اور بڑے بڑے صحابہ کرام کے ہوتے ہوئے ان کو بھی خلافت کے امیدواروں میں شامل کیا گیا تھا... سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق بخاری میں حدیث ہے کہ نبی پاک نے فرمایا کہ عبداللہ ابن عمر بہت ہی نیک بندہ ہے... ایک دفعہ سید عالم نے فرمایا کہ ابن عمر بہت ہی اچھا بندہ ہے اگر رات کو نماز پڑھا کرے تو کتنا ہی اچھا ہے اس فرمان عالیشان کو سننے کے  بعد آپ ہمیشہ رات کا اکثر حصہ عبادت میں گذارتے(اس سے اندازہ لگاءیے کہ سید عالم کے فرمان و سنت و خواہشات پے مر مٹنے والے عظیم الشان پیروکار تھے سیدنا ابن عمر)... سیدنا ابن عمر زہد و تقوی والے تھے اور سنت کے سخت پابند تھے

(شذرات الذهب في أخبار من ذهب1/310)

.

کیا ایسے عظیم الشان صحابی نے بھی نعوذ باللہ رفع یدین نہ کرکے دین کو بگاڑ دیا.....؟؟نعوذ باللہ لعنت والا کام کیا....؟؟ یقینا نہیں....!!

اللہ ہدایت و ادب  دے تمھیں اے جہلمیو غیرمقلدو اہلحدیثو

.==================

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، «أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ مَا يَسْتَفْتِحُ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُهُمَا

 صحابی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نماز کے شروع میں تکبیر تحریمہ میں رفع یدین کرتے تھے اس کے بعد رفع یدین نہیں کرتے تھے

استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبہ روایت2443)

.

مزکورہ روایت کی تحقیق میں محقق نے ظلم کی انتہاء کر دی اور کہا کہ ابو معشر پر جرح مفسر ہے لیھذا روایت ضعیف ہے....حالانکہ ابو معشر سے امام مسلم نے رایت لی، اب یہ تو اہلحدیث غیرمقلدین ہی بتا سکتے ہین کہ انہوں نے امام مسلم و بخاری کے تمام راویوں کو ثقہ قرار دینے کے بعد یہاں اس مقام میں دوغلہ پالیسی کی ہے یا مکاری یا سستی یا تجاہل یا تعصب کہ اپنے مفاد کے خلاف بات پائی تو امام مسلم کے راوی تک کو نہ چھوڑا...امام مسلم نے ابی معشر سے حدیث نقل کی

(دیکھیے صحیح مسلم حدیث432)

.

زِيَاد بن كُلَيْب أَبُو معشر كوفى ثِقَة

 ابو معشر ان کا نام زیاد بن کلیب ہے اور یہ ثقہ معتبر ہیں

( الثقات للعجلي ت البستوي1/374)

.

ووثقه أحمد العجلي والنسائي.قال اْبو حاتم: صالح..وقال ابن حبان: كان من الحفاظ

 امام العجلی اور امام نسائی نے ابومعشر کو ثقہ معتبر راوی قرار دیا ہے اور امام ابو حاتم نے فرمایا ہے یہ کہ نیک اور صالح تھے اور امام ابن حبان نے فرمایا تھے یہ حافظ الحدیث تھے

(تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال3/326)

.

زِيَاد بن كُلَيْب أَبُو معشر النَّخعِيّ... وَكَانَ من الْحفاظ المتقنين

 ابو معشر زیاد بن کلیب ہیں نخعی ہیں اور یہ حافظ الحدیث ہیں بہت ہی ماہر حاذق مضبوط راوی ہیں

(الثقات لابن حبان6/327)

.================

.

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ الْأَسْوَدِ، وَعَلْقَمَةَ، «أَنَّهُمَا كَانَا يَرْفَعَانِ أَيْدِيَهُمَا إِذَا افْتَتَحَا ثُمَّ لَا يَعُودَانِ»

 سیدنا اسود اور سیدنا علقمہ نماز کے شروع میں تکبیر تحریمہ میں رفع یدین کرتے تھے اس کے علاوہ رفع یدین نہ کرتے تھے

استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبہ روایت2453)

.

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ خَيْثَمَةَ، وَإِبْرَاهِيمَ، قَالَ: «كَانَا لَا يَرْفَعَانِ أَيْدِيَهُمَا إِلَّا فِي بَدْءِ الصَّلَاةِ

 سیدنا خیثمہ اور سیدنا ابراہیم شروع نماز میں تکبیر تحریمہ میں رفع یدین کرتے تھے اس کے بعد رفع یدین نہیں کرتے تھے

(استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبہ روایت2448)

.

حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَكٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، «أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ التَّكْبِيرِ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُهُمَا

 امام شعبی نماز کے شروع میں تکبیرِ تحریمہ میں رفع یدین کرتے تھے اس کے بعد رفع یدین نہ کرتے تھے

(استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبہ روایت2444)

.

حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، وَمُغِيرَةُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «إِذَا كبَّرْتَ فِي فَاتِحَةِ الصَّلَاةِ فَارْفَعْ يَدَيْكَ، ثُمَّ لَا تَرْفَعْهُمَا فِيمَا بَقِيَ»

 سیدنا ابراہیم فرمایا کرتے تھے کہ جب تم تکبیر تحریمہ کہو تو رفع یدین کرو اور اس کے بعد رفع یدین نہ کرو

(استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبہ روایت2445)

.

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: «كَانَ قَيْسٌ، يَرْفَعُ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَا يَدْخُلُ فِي الصَّلَاةِ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُهُمَا»

 سیدنا قیس شروع نماز میں تکبیر تحریمہ میں رفع یدین کرتے تھے پھر رفع یدین نہ کرتے تھے

(استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبہ روایت2449)

.

امام بخاری سیدنا قیس کے متعلق فرماتے ہیں:

سَأَلْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ: عَنْ قَيْس بْنِ أَبِي حَازِم؟ فَقَالَ: كوفيٌّ

ثقةٌ

 امام بخاری اور امام یحییٰ بن معین کے مطابق سیدنا قیس ثقہ معتبر راوی ہیں

(التاريخ الكبير لابن أبي خيثمة - السفر الثاني - ط الفاروق1/474)

.

ثقة حجة، كاد أن يكون صحابيا.وثقه ابن معين، والناس

ومنهم من جعل الحديث عنه من أصح الأسانيد.وقال إسماعيل بن خالد: كان ثبتا، قال: وقد كبر حتى جاوز المائة وخرف.قلت: أجمعوا على الاحتجاج به ومن تكلم فيه فقد

 آذى نفسه

 علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ سیدنا قیس اتنے عظیم ثقہ راوی ہیں کہ حجۃ الاسلام ہیں اتنے عظیم  ہیں کہ قریب قریب تھا کہ وہ صحابی ہو جاتے... امام ابن معین اور کئ محدثین و علماء نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے... بعض علماء و محدثین نے تو ان کی سند کو تمام سندوں میں سے صحیح اسناد میں سے شمار کیا ہے.. اسماعیل فرماتے ہیں کہ وہ ثبت و معتبر مضبوط راوی ہیں... انہوں نے سو سال سے زیادہ عمر پائی... علماء و محدثین کا اجماع ہے کہ ان کے قول و فعل سے دلیل پکڑی جائے گی اور جنوں نے ان پر جرح کی ہے تو ان کی عظمت اور شان کی وجہ سے ان کی جرح بالکل ایسے ہی جیسے جرح کرنے والوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا ہو

(میزان الاعتدال3/393,393 ملتقطا)

.

سیدنا قیس ایسے عظیم معتبر تابعی ہیں کہ ان سے امام بخاری امام مسلم امام ابوداؤد امام ترمذی امام ابن ماجہ امام نسائی وغیرہ محدثین نے روایت لی ہے، ان کے توسط سے حدیث بیان کی ہے

(بخاری حدیث57.. صحیح مسلم حدیث633)

(ابوداؤد حدیث2649 ترمذی حدیث680)

.

 حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: «كَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ وَأَصْحَابُ عَلِيٍّ، لَا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ إِلَّا فِي افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ، قَالَ وَكِيعٌ،، ثُمَّ لَا يَعُودُونَ»

 سیدنا عبداللہ بن مسعود کے اصحاب محبین چاہنے والے شاگرد غیرہ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے اصحاب محبین چاہنے والے شاگرد وغیرہ رفع یدین نہ کرتے تھے

(استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبہ روایت2446)

.

حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هُشَيْمٍ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ مُسْلِمٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: «كَانَ ابْنُ أَبِي لَيْلَى، يَرْفَعُ يَدَيْهِ أَوَّلَ شَيْءٍ إِذَا كَبَّرَ»

 سیدنا ابن ابی لیلی فقط تکبیر تحریمہ میں رفع یدین کرتے تھے

(استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبہ روایت2451)

.

الحاصل:

جہلمیو غیرمقلدو اہلحدیثو بتاو کیا یہ سب صحابہ کرام و عظیم تابعین رفع یدین نہ کرکے دین بگاڑنے والے تھے...؟؟ نعوذ باللہ لعنت والا کام کرنے والے تھے...؟؟ یا تم فسادی بےباک متعصب ثابت ہو رہے ہو.....؟؟ الانصاف الانصاف

.=================

*#رفع یدین نہ کرنے کا ثبوت احادیث و صحاح ستہ وغیرہ سے......!!*

صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نماز اسی طرح پڑھو جس طرح تم مجھے دیکھتے ہو نماز پڑھتے ہوئے

(صحیح  بخاری حدیث631)

(سنن الدارقطني حدیث1069)

(صحيح ابن حبان حدیث987)

(السنن الكبرى - امام بيهقي حدیث3856)

(الجامع الصغير امام سیوطی حدیث895)

.

 اوپر ثابت کیا جا چکا کہ خلفائے راشدین صحابہ کرام تابعین عظام نے رفع یدین نہ کر کے یہ ثابت کر دیا کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی حالت میں ضرور دیکھا تھا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم رفع یدین نہ کرتے تھے

پھر

بھی کچھ دوٹوک احادیث روایات پیش ہیں جن میں یہ واضح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا گیا کہ آپ نے رفع یدین نہ فرمایا

.

*#حدیث سیدنا براء بن عازب.....!!*

پہلی سند

*#ابوداود جو صحاح ستہ میں سے ہے اس سے رفع یدین نہ کرنے کا ثبوت......!!*

حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ أَخِيهِ عِيسَى ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ لَمْ يَرْفَعْهُمَا

حَتَّى انْصَرَفَ

 صحابی سیدنا براء بن عازب فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے جب نماز شروع فرمائی تو اس وقت رفع یدین کیا اس کے بعد رفع یدین نہ کیا یہاں تک کہ نماز مکمل فرما لی

(ابوداؤد حدیث752)

.

اس روایت کے راوی ثقہ معتبر ہیں تفصیل درج ذیل ہے

الحُسَيْن بن عبد الرحمن الجَرْجَرائيُّ، بجيمين مفتوحتين، وراءين الأول ساكنة: مقبولٌ... بل: صدوقٌ...،

ووثَّقه ابنُ حبان

 حسین بن عبد الرحمن مقبول راوی ہے بلکہ سچے راوی ہیں امام ابن حبان نے اس کو ثقہ معتبر قرار دیا ہے

(تحرير تقريب التهذيب1/288)

.

وکیع سے امام بخاری نے روایت لی لیھذا ثقہ معتبر ہیں

(بخاری حدیث111)

.

ابن ابی لیلی سے امام بخاری نے روایت لی لیھذا ثقہ معتبر ہیں

(بخاری حدیث1103)

.

عيس بن عبد الرحمن سے امام مسلم نے روایت لی ہے لیھزا یہ بھی ثقہ معتبر ہیں

(مسلم حدیث820)

.

الحكم بن عتييبة سے امام بخاری نے روایت لی لیھذا ثقہ معتبر ہیں

(بخاری حدیث117)

.

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى سے امام بخاری نے روایت لی لیھذا ثقہ معتبر ہیں

(بخاری حدیث820)

.

*#اعتراض*

امام ابوداود نے اس حدیث کے متعلق فرمایا کہ صحیح نہیں ہے

.

*#جواب*

صحیح نہیں ہے کا کیا مطلب ہے.....؟؟ صحیح نہین مطلب جھوٹی من گھڑت ہے....؟؟ صحیح نہین مطلب ضعیف ہے....؟؟ صحیح نہیں مطلب حسن ہے....؟؟

کچھ بھی معنی ہوسکتا تھا مگر راویوں کے احوال جو ہم نے لکھے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ راوی ثقہ ہیں مطلب امام ابوداود کے قول کا معنی بنے گا کہ صحیح نہین بلکہ حسن ہے اور حسن حدیث تمام کے مطابق دلیل بنتی ہے معتبر ہے جیسے کہ اوپر قاعدہ لکھ آئے

.

*#دوسری سند*

حدّثنا إسحاق، حدّثنا وكيع، حدّثنا ابن أبى ليلى، عن الحكم وعيسى، عن عبد الرحمن بن أبى ليلى، عن البراء، أن النبي - صلى الله عليه وسلم - كان إذا افتتح الصلاة رفع يديه، ثم لا يرفع حتى ينصرف

(مسند أبي يعلى - ت السناري حدیث1689)

.

*#تیسری سند*

حدّثنا إسحاق، حدّثنا شريكٌ، عن يزيد بن أبى زيادٍ، عن عبد الرحمن بن أبى ليلى، عن البراء، قال: كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إذا افتتح الصلاة رفع يديه نحو رأسه، ثم لا يعود

(كتاب مسند أبي يعلى - ت السناري حدیث1690)

یہ سند بھی صحیح یا کم سے کم حسن معتبر ضرور ہے اس کے راویوں کے احوال سند ایک کے تحت بیان ہوچکے

.

*#چوتھی سند*

حدّثنا إسحاق، حدّثنا هشيم، عن يزيد بن أبى زياد، عن عبد الرحمن بن أبى ليلى، عن البراء، قال: رأيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - حين افتتح الصلاة كَبَّرَ، ورفع يديه حتى كادتا تحاذيان أذنيه، ثم لم يعد

(مسند أبي يعلى - ت السناري حدیث1691)

.

*#پانچویں سند*

حدّثنا إسحاق، حدّثنا ابن إدريس، قال: سمعت يزيد بن أبى زياد، عن ابن أبى ليلى، عن البراء قال: رأيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - رفع يديه حين استقبل الصلاة، حتى رأيت إبهاميه قريبًا من أذنيه، ثم لم يرفعهما

(مسند أبي يعلى - ت السناري حدیث1692)

.

*#چھٹی سند*

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْآدَمَيُّ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ , نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَيُّوبَ الْمُخَرِّمِيُّ , نا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ , نا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي لَيْلَى , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى , ⦗٥٢⦘ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ , قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى سَاوَى بِهِمَا أُذُنَيْهِ ثُمَّ لَمْ يَعُدْ

(سنن الدارقطني حدیث1132)

.

*#ساتویں سند*

- نا أَبُو الْأَشْعَثِ، نا زِيَادٌ الْبَكَّائِيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عِيسَى، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْجَبَ الصَّلَاةَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا بِأُذُنَيْهِ مَرَّةً وَاحِدَةَ، لَا يَزِيدُ عَلَى ذَلِكَ

(مسند الروياني حدیث348)

.

*#آٹھویں سند*

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْآدَمَيُّ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ , نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَيُّوبَ الْمُخَرِّمِيُّ , نا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ , نا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي لَيْلَى , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى , ⦗٥٢⦘ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ , قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى سَاوَى بِهِمَا أُذُنَيْهِ ثُمَّ لَمْ يَعُدْ

(سنن الدارقطني حدیث1132)

.

*#ترجمہ_و_الحاصل*

ان آٹھ احادیث کا ترجمہ ملتا جلتا ہے کہ صحابی سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ اپ نے تکبیر تحریمہ میں ہاتھ اٹھائے پھر نماز مکمل ہونے تک رفع یدین نہ کیا

اور

اوپر حدیث پاک میں ہے کہ جس طرح مجھے نماز پڑھتا دیکھو ایسے نماز پڑھو اور صحابی نے دیکھا کہ آپ نے رفع یدین نہ کیا...لیھذا رفع یدین نہ کرنا سنت ثابت ہوا، صحابہ کرام کا طریقہ ثابت ہوا....جہلمیو اور متعصب اہلحدیث اور غالی غیرمقلدو کیا کہو گے کہ دین کا حلیہ بگاڑ دیا نعوذ باللہ......؟؟ صحابی سیدنا براء بن عازب نبی پاک کی طرف کیسے جھوٹ منسوب کرسکتے ہیں بھلا.....؟؟

.

*#اعتراض*

اس روایت کا دار و مدار یزید بن ابی زیاد پر ہے اور اسکے حافظے میں خرابی ہوگئ تھی، لیھذا روایت ضعیف ہے...(دیکھیے كتاب الجامع الكامل في الحديث الصحيح الشامل المرتب على أبواب الفقه2 /473)

.

*#جواب*

ابوداود کی سند میں یزید بن ابی زیاد نہیں ہے پھر سند نمبر7... اور سند2 میں بھی یہ راوی نہیں...لیھذا اس روایت کا دار و مدار یزید بن ابی زیاد پر نہیں بلکہ دیگر سندوں سے بھی مروی ہے

اور

بالفرض تمام آٹھ سندوں کو ضعیف مان بھی لیا جائے تو کئ سندیں ہونے، تعدد طرق ہونےکی وجہ سے ضعف ختم ہوجاتا ہے اور حدیث و روایت حسن معتبر قابل دلیل بن جاتی ہے

.


سنی شیعہ نجدی وہابی اہلحدیث سب کا متفقہ اصول ہے کہ تعدد طرق سے ضعیف روایت حسن و معتبر بن جاتی ہے

.

وقد يكثر الطرق الضعيفة فيقوى المتن

تعدد طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے اور(حدیث و روایت کا) متن قوی(معتبر مقبول صحیح و حسن)ہوجاتا ہے

(شیعہ کتاب نفحات الازھار13/55)

.

أن تعدد الطرق، ولو ضعفت، ترقي الحديث إلى الحسن

بےشک تعدد طرق سے ضعیف روایت و حدیث حسن و معتبر بن جاتی ہے(اللؤلؤ المرصوع ص42)

.

لِأَنَّ كَثْرَةَ الطُّرُقِ تُقَوِّي

کثرت طرق(تعدد طرق)سے روایت و حدیث کو تقویت ملتی ہے(اور ضعف ختم ہوجاتا ہے)

(تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ,1/179)

.=============

*#حدیثِ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور #رفع یدین نہ کرنے کا ثبوت #صحاح_ستہ کی کتاب #سنن_ترمذی و #سنن_نسائی سے......!!*

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ : أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ. وَفِي الْبَابِ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ. حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.

 صحابی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ دکھاوں....؟؟ تو انہوں نے نماز پڑھی اور شروع میں رفع یدین کیا تکبیر تحریمہ میں اس کے علاوہ رفع یدین نہ کیا.... امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن معتبر ہے قابل دلیل ہے اور کئ صحابہ کرام کئ تابعین عظام اور کئ اہل علم رفع یدین نہ کرتے تھے اور یہی قول ہے امام سفیان ثوری کا اور احناف کا

(ترمذی حدیث257)

(نسائی حدیث1059نحوہ)

.

 امام ترمذی جو معتبر محدث ہیں انکی کتاب سنن الترمذی صحاح ستہ کی کتاب ہے وہ فرما رہے ہیں کئ صحابہ کرام اور کئ تابعین کئ اہل علم رفع یدین نہ کرتے تھے....جہلمیو بتاو کیا ان سب نے بھی رفع یدین نہ کرکے دین کو بگاڑ دیا...؟؟ نعوذ باللہ لعنت والا کام کرتے تھے....؟؟

.

علامہ غلام مصطفی نوری سے اس حدیث پاک کی تقریبا چالیس سندیں تحقیق کے ساتھ پیش کی ہیں...دیکھیے انکی کتاب ترک رفع یدین

.

اس روایت و حدیث کو کئ علماء و محققین نے حسن یا صحیح قرار دیا ہے...اور حسن ہو یا صحیح دونون دلیل بنتی ہیں...دونوں معتبر ہیں جیسے کہ اوپر قاعدہ بیان کیا جا چکا

.

امام ترمذی نے حسن قرار دیا

(ترمذی تحت الحدیث257)

.

امام زیلعی فرماتے ہیں

و الرجوع الی صحۃ الحدیث لورودہ عن الثقات

 اس حدیث کو صحیح کہنا ہی پڑے گا کیونکہ یہ حدیث کئ ثقہ راویوں سے وارد ہوئی ہے منقول ہوئی ہے

(نصب الرایۃ للزیلعی1/396)

.

امام سیوطی امام ابن حجر امام دارقطنی امام ابن قطان نے حسن و صحیح قرار دیا اس روایت و حدیث کو

قَالَ الْحَافِظ ابْن حجر فِي تَخْرِيج أَحَادِيث الشَّرْح هَذَا الْحَدِيث حسنه التِّرمِذيّ وَصَححهُ ابْن حزم...فقد صَححهُ ابْن حزم والدارَقُطْنيّ وَابْن الْقطَّان وَغَيْرُهُمْ وَبَوَّبَ عَلَيْهِ النَّسائيّ الرُّخْصَة فِي ترك ذَلِكَ

(اللالی المصنوعہ2/18)

.

اہلھدیث و غیرمقلدوں کے معتبر عالم محقق احمد شاکر اور انہی فرقوں کے امام ابن حزم کے مطابق یہ روایت صحیح ہے

وهذا الحديث صححه ابن حزم وغيره من الحفاظ ، وهو حديث صحيح

 احمد شاکر کہتا ہے کہ اس روایت کو اس حدیث کو ابن حزم نے اور اس کے علاوہ کئ حفاظِ حدیث نے صحیح قرار دیا ہے اور یہ حدیث صحیح ہی ہے

(تحقيق تخریج و شرح ترمذی2/41)

.

اہلھدیث و غیرمقلدوں کے معتبر امام و محقق ابن حزم نے لکھا کہ:

صَحَّ خَبَرُ ابْنِ مَسْعُودٍ...إنَّ هَذَا الْخَبَرَ صَحِيحٌ

 ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی(رفع یدین نہ کرنے والی) حدیث صحیح ہے بے شک یہ حدیث صحیح ہے

( المحلی بالآثار 3/4)

.

اہلھدیث و غیرمقلدوں کے معتبر محقق ناصر الدین البانی نے بھی اس روایت و حدیث کو صحیح قرار دیا

(دیکھیے صحیح و ضعیف سنن ترمزی حدیث257)

.


لہذا حدیث بالکل صحیح و ثابت ہے اور اگر بالفرض انفرادی طور پے ضعیف بھی ہو تو تیس چالیس سندیں ہین اسکی لیھذا تعدد طرق کی وجہ سے حسن معتبر قابل دلیل تو ضرور ضرور ہے...تعدد طرق کا قاعدہ اوپر بیان کیا جا چکا

.

*#حدیث_سالم عن ابیہ....*

 حدثنا عبد الله بن أيوب المُخَرِّمي (١)، وسعدان بن نصر، وشعيب بن عمرو في آخرين قالوا: نا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن سالم، عن أبيه، قال: رأيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا افتتح الصلاة رفع يديه حتى يحاذي بهما -وقال بعضهم: - حذو منكبيه، وإذا أراد أن يركع، وبعد ما يرفع (٢) رأسه من الركوع، ولا يرفعهما

 سیدنا سالم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب شروع نماز میں تکبیر تحریمہ میں انہوں نے رفع یدین کیا اور اس کے بعد رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع یدین نہ کیا

(مستخرج أبي عوانة - ط الجامعة الإسلامية4/312)

 صحابی فرما رہے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع یدین نہ کرتے ہوئے دیکھا اور اوپر حدیث پاک گزری کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھو ایسے نماز پڑھو

.

أخبرنا أَبُو سَعْدٍ (٥) سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ الشُّعَيْبِيُّ الْعَدْلُ، حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ غَالِبٍ مِنْ حِفْظِهِ بِبَغْدَادَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ الْبَرَاثِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَوْنٍ الْخَرَّازُ (٦)، ثنا مَالِكٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ،

 ثُمَّ لَا يَعُودُ

 سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم رفع یدین فرماتے تھے تکبیر تحریمہ میں شروع نماز میں... اس کے علاوہ رفع یدین نہ فرماتے تھے

( الخلافيات - البيهقي - ت النحال2/386)

صحابی فرما رہے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع یدین نہ کرتے ہوئے دیکھا اور اوپر حدیث پاک گزری کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھو ایسے نماز پڑھو

.

وبحديث لا بأس بسنده، ذكره البيهقي في الخلافيات

 مذکورہ حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں کوئی حرج نہیں ہے

(شرح سنن ابن ماجه لمغلطاي - ت عويضة5/1472)

.

*#بخاری سے رفع یدین نہ کرنے کا ثبوت.....!!*

أَنَا كُنْتُ أَحْفَظَكُمْ لِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَيْتُهُ إِذَا كَبَّرَ جَعَلَ يَدَيْهِ حِذَاءَ مَنْكِبَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا رَكَعَ أَمْكَنَ يَدَيْهِ مِنْ رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ هَصَرَ ظَهْرَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ اسْتَوَى حَتَّى يَعُودَ كُلُّ فَقَارٍ

 مَكَانَهُ،

نبی کریم  ﷺ  کے چند اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ نبی کریم  ﷺ  کی نماز کا ذکر ہونے لگا تو ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے نبی کریم  ﷺ  کی نماز تم سب سے زیادہ یاد ہے میں نے آپ کو دیکھا کہ جب آپ تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک لے جاتے، جب آپ رکوع کرتے تو گھٹنوں کو اپنے ہاتھوں سے پوری طرح پکڑ لیتے اور پیٹھ کو جھکا دیتے۔ پھر جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس طرح سیدھے کھڑے ہوجاتے کہ تمام جوڑ سیدھے ہوجاتے

(بخاری حدیث828)

.

 دیکھیے صحابی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز مبارک کے طریقے کو وضاحت کے ساتھ بیان فرما رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ تکبیر تحریمہ میں رسول کریم رفع یدین کرتے تھے پھر باقی نماز کا نقشہ صحابی نے بتایا کہ حتی کہ اتنا تک بتایا کہ گھٹنوں کو کیسے پکڑنا ہے...اگر رفع یدین باقی جگہ ہوتا تو یہاں ضرور بیان کرتے کیونکہ ایک دفعہ یعنی تکبیر تحریمہ کا رفع یدین بیان کیا تھا اگر دوسری بار رفع یدین ہوتا تو یہ موقعہ کا تقاضہ تھا کہ صحابی ضرور بتاتے، لیھذا حاجت و موقعہ مناسبت کے ہوتے ہوئے رفع یدین کا تذکرہ نہ کرنا گویا یہ بیان کرنا ہے کہ رفع یدین کرتے نہیں دیکھا صحابی نے.....!! لیھذا رفع یدین نہ کرنا بھی سنت ہوا بخاری سے ثابت ہوا

.

إِنَّ السُّكُوتَ فِي مَعْرِضِ الْحَاجَةِ بَيَانٌ

 حاجت کے موقع پر خاموشی اختیار کرنا بیان نہ کرنا گویا بیان کرنا ہی ہے

(الموسوعة الفقهية الكويتية25/136)

.

السكوت في معرض البيان حجة

 بیان کرنے کے موقع پر خاموشی اختیار کرنا دلیل ہے حجت ہے

(شرح القواعد السعدية ص126)

.

*#ابن_ماجہ سے ترک رفع یدین کی دلیل*

ثُمَّ يَقُومُ فَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَيُكَبِّرُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حِذَاءَ مَنْكِبَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَرْكَعُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَضَعُ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ وَيُجَافِي بِعَضُدَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيُقِيمُ صُلْبَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُومُ قِيَامًا هُوَ أَطْوَلُ مِنْ قِيَامِكُمْ قَلِيلًا،

 ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَسْجُدُ،

پھر قبلہ رخ کھڑے ہوتے اور الله أكبر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں کے بالمقابل اٹھاتے، پھر رکوع کرتے، اور اپنے دونوں ہاتھ دونوں گھٹنوں پہ رکھتے اور بازوؤں کو پسلیوں سے جدا رکھتے، پھر رکوع سے سر اٹھاتے اور پیٹھ سیدھی کرتے، اور تمہارے قیام سے کچھ لمبا قیام کرتے، پھر سجدہ کرتے

(ابن ماجہ حدیث1062)

جس طرح صحیح بخاری سے ہم نے رفع یدین نہ ہونے کو ثابت کیا بالکل یہی طریقہ ابن ماجہ کی اس حدیث میں دھرائیے جس سے ثابت ہوگا کہ رفع یدین نہیں ہے


.

*#صحیح_مسلم سے ثبوت....!!*

 خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا لِي أَرَاکُمْ رَافِعِي أَيْدِيکُمْ کَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اسْکُنُوا فِي

 الصَّلَاةِ

صحابہ کرام فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تم کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھتا ہوں جیسا کہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں، نماز میں سکون رکھا کرو

(مسلم حدیث430)

.

. وقد استدل بهذا الحديث أصحابنا في ترك رفع اليَدين في الصلاة عند غير تكبيرة الافتتاح

 اس حدیث پاک سے فقہاء اختلاف نے ثابت کیا ہے کہ رفع یدین صرف اور صرف شروع نماز میں تکبیر تحریمہ میں ہے اس کے علاوہ رفع یدین نہیں ہے

(شرح سنن أبي داود للعيني4/285)

.

وقد ذكر ابن القصّار هذا الحديث حجة فى النهى عن رفع الأيدى فى الصلاة

 امام ابن قصار فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دلیل ہے کہ رفع یدین نماز میں نہیں کرنا

(اکمال العلم شرح مسلم2/344)

.

، إنَّمَا يُقَالُ ذَلِكَ لمن يرفع يديه أَثْنَاءِ الصَّلَاةِ، وَهُوَ حَالَةُ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ، وَنَحْوُ ذَلِكَ، هَذَا هُوَ الظَّاهِرُ

 اس حدیث پاک میں جو ہے کہ ساکن رہو یہ حکم اس وقت کے لیے بھی ہے کہ جب رکوع اور سجود وغیرہ میں رفع یدین کیا جاتا تھا تو اس وقت یہ حکم دیا گیا کہ یہ رفع یدین نہ کرو

(نصب الراية1/394)

.=============

 مرزا جہلمی اور بعض غیر مقلدین اور بعض اہلحدیث اعتراض کرتے ہیں کہ رفع یدین نہ کرنا صرف فقہ حنفی کا قیاس کردہ من مانی والا مسئلہ ہے

جبکہ

 ہم اوپر ثابت کر چکے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے اور تابعین سے رفع یدین نہ کرنا بھی ثابت ہے.. فقہ حنفی میں یہ مسئلہ قیاس و من مانی کی وجہ سے نہیں بلکہ حدیث اور صحابہ کرام کے عمل کو دلیل بنا کر بیان کیا گیا ہے... اگر دیگر فقہ والے بھی رفع یدین نہ کرتے تو بھی فقہ حنفی پر اعتراض نہ ہوتا کیونکہ فقہ حنفی کی بنیاد اس مسئلے میں بھی احادیث و صحابہ کرام دلیل ہیں... لیکن فقہ مالکی میں بھی مشہور یہی ہے کہ رفع یدین نہ کرنا چاہیے

.

وَقَال الْحَنَفِيَّةُ وَالثَّوْرِيُّ وَابْنُ أَبِي لَيْلَى وَإِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ وَهُوَ الْمَشْهُورُ عَنْ مَالِكٍ: إِنَّ الْمُصَلِّيَ لاَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلاَّ لِتَكْبِيرَةِ

الإِْحْرَامِ

 فقہ حنفی اور امام ثوری اور امام ابن ابی لیلی امام ابراہیم نخعی وغیرہ اور امام مالک سے مشہور یہی ہے کہ رفع یدین تکبیر تحریمہ کے علاوہ نہیں کرنا

(موسوعہ فقہیہ کویتیہ23/130)

.

غیرمقلدوں اہلحدیثوں کا معتبر علامہ اور سعودی عرب کا مفتی اعظم ابن باز لکھتا ہے

ولو صلى ولم يرفع صحت صلاته

 اگر کوئی شخص نماز پڑھے اور رفع یدین نہ کرے تو اس کی نماز صحیح ہے

(مجموع الفتاوی ابن باز11/156)

.

اہلحدیثوں غیرمقلدوں کا معتبر امام ابن تیمیہ لکھتا ہے

وَسَوَاءٌ رَفَعَ يَدَيْهِ أَوْ لَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ لَا يَقْدَحُ ذَلِكَ فِي صَلَاتِهِم

کوئی شخص رفع یدین کرے یا نہ کرے تو کسی نماز میں کوئی کمی نقص و عیب وغیرہ کچھ نہیں

(الفتاوی الکبری2/108)

.

مشہور اہلحدیث عالم  نذیر حسین اپنے فتاویٰ نذیریہ میں اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:

رفع یدین میں جھگڑا کرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دونوں ثابت ہیں ، دلائل دونوں طرف ہیں.( فتاوی نذیریہ1/444)

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.