تحریف تضاد مکاری رجوع؟ ریاض شاہ؟ مکانا علیا؟عفریت؟تفسیر؟

 *#کئ گدی نشینوں اور منہاجیوں اور چمنیوں اور مشہدیوں اور نیم رافضیوں کے معتبر محقق مفسر جناب ریاض شاہ کی آیت کی تفسیر کے خطاب میں آٹھ مجرمانہ غلطیاں کچھ تحریفیں کچھ گمراہیاں کچھ مکاریاں عیاریاں تضاد بیانیاں اور عفریت کا معنی......؟؟*

*#پہلا جرم*

ریاض شاہ نے بظاہر تحریف معنوی کردی کہ سیدنا ادریس کا مزار نجف اشرف میں ہے جبکہ آیت میں ایسا کچھ نہیں آیا

.

*#دوسرا جرم*

مکانا علیا آیت کی بظاہر من مانی من گھڑت تفسیر بالرائے کی جوکہ بعض علماء کی عبارات کے مطابق کفر ہے

.

*#تیسرا جرم*

تضاد بیانی منافقت مکاری کی کہ ایک طرف کہا کہ سیدنا ادریس سمیت چار ہستیاں آسمان پے اٹھائے گئے اور دوسری طرف کہا کہ سیدنا ادریس کا مزار نجف میں ہے

.

*#چوتھا جرم:

دوگنا پالیسی منافقت کرتے ہوئے عام عوام کے لیے کہا کہ چوتھے مکان میں ہیں لیکن اتریں گے جبکہ اپنے حلقہ احباب میں کہا کہ سیدنا ادریس کا مزار نجف میں ہے

.

*#پانچواں جرم*

دوگنا پالیسی منافقت کرتے ہوئے ایک طرف شوشہ چھوڑا کہ ہم اعلی حضرت کو مانتے ہیں انکا ترجمہ ٹھیک ہے جبکہ دوسری طرف کہا کہ ہمیں نہ چھیڑو ورنہ ہم بتاءیں گے کہ عفریت کا معنی "خبیث جن" کس نے کیا(چونکہ مرزا جہلمی یہ اعتراض مشھور کر چکا تھا کہ اعلی حضرت نے عفریت کا معنی خبیث جن کیا جو کہ غلط ہے...عفریت سے مراد خبیث جن ہے اسکے چند حوالے تحریر کے آخر میں پڑہیے)گویا اعلی حضرت سے غداری بھی اور پھر عوام سے مکاری بھی...دوگنا پالیسی و عیاری بھی شاید کہ یہ نیم رافضی بھوکے لالچی ہیں شہرت و پیسے و ایجنٹی کے...؟؟

.

*#چھٹا جرم*

ایک طرف کہتا ہے کہ علم کیسے چھپاؤں اور دوسرے طرف کہتا ہے کہ میرے سینے میں راز ہیں، راز مت اگلواؤ...یہ تضاد بیانی مکاری بھی ہے تو علم چھپانا بھی ہے

.

*#ساتواں جرم*

وضاحت میں کہتا ہے کہ اسکی مراد یہ تھی کہ سیدنا ادریس کا مزار نجف میں ہوگا.....یہ بظاہر دوسری تحریف معنوی ہے کیونکہ آیت میں ماضی کا ذکر ہے اور یہ اسکو مستقبل کا معنی بنا رہا ہے

.

*#اٹھوان جرم*

لفظ علیا کا ترجمہ سیدنا علی کرکے بظاہر تیسری تحریف معنوی کی اور تحریف معنوی کفر ہے،بظاہر تفسیر بالراءے کی جوکہ بعض علماء کی تصریح کے مطابق کفر ہے

.

*#نوٹ*

ہم بے بظاہر لفظ احتیاطا لکھا ہے کیونکہ کفر کا فتوی ہم نہیں دے سکتے...کفر کا فتوی معتبر اہلسنت مفتیان کرام ہی دے سکتے ہیں

.

*#اہلسنت کا مطالبہ*

کئ عوام اور گدی نشیب پیر فقیر اور اپنے آپ کو محقق و مفتی و مناظر و علامہ فھامہ سمجھنے والوں مگر نیم رافضیت کے رنگ میں رنگنے والوں سے اہلسنت اپیل کرتی ہے کہ خدارا رک جائیے لوٹ آئیے، سیدھی سیدھی توبہ رجوع کیجیے کرائیے،نیم رافضی مکار عیار لفاظی نام نہاد محقق و مفسر کو بھی لوٹائیے روکیے رجوع کرائیے

ورنہ

اعلانِ براءت کیجیے، انہیں اپنے پاس مت بلائیے، بائیکاٹ کیجیے کہ شاید انکی عقل ٹھکانے لگے ورنہ کہیں بےخبری میں یا من موجی و غفلت میں، کسی کے چکنے مسکے چاپلوسی جھوٹی تعریف میں آکر آپ بھی آہستہ آہستہ شیعیت رافضیت توہین صحابہ غلو حد سے تجاوز کرتے کرتے نہ جانے کہاں پہنچ جائیں گے.......؟؟

.################

ریاض شاہ کی پوری تقریر سنی جوابی تقریر بھی سنی آفیشل پیج پے انکا گول مول بیان بھی پڑھا...ان سب میں ریاض شاہ نے کیا اہم اہم بات کی، آئیے آپ کو بتاتے ہیں

.

القرآن:

وَّ رَفَعۡنٰہُ  مَکَانًا عَلِیًّا

ترجمہ کنزالایمان:

اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا

(سورہ مریم آیت57)


آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے ریاض شاہ کہتا ہے:

ہم نے انکو بلندی بخشی اس مکان تک ہم انکو لے کے جو بہت اونچا تھا...

.

مزید کہتا ہے:

ان سے پوچھو ادریس علیہ السلام کا مزار کہاں ہے

ادریس علیہ السلام کا مزار ادھر ہی ہے جدھر نجف اشرف شریف میں علی کا مزار ہے...وَّ رَفَعۡنٰہُ  مَکَانًا عَلِیًّا ہم نے اسکو وہ جگہ دی جو جگہ علی کو دی

.

مزید کہتا ہے:

جو اسمان میں ہیں وہ نیچے بھی اتریں گے انکا بھی تو کہیں مزار بنے گا، معاف کرنا مجھے چھیڑو نہ کہ عفریت کا معنی خبیث کس نے کیا...مجھے سب معلوم ہے مگر چپ رہن دیو...زیادہ تنگ کرو گے تو راز کھلیں گے...ادریس کا مزار ہوگا نجف اشرف میں...میں کیا کروں میں چھپا نہیں سکتا

.

پھر کہتا ہے:

چار کو زندہ اٹھایا گیا ادریس علیہ السلام الیاس علیہ السلام ایک حضرت خضر ایک حضرت عیسی علیہ السلام

.

مزید کہتا ہے:

سب نبی اونچے ہیں ایک ادریس  ہیں جن کو اللہ نے اونچا کیا چوتھے اسمان پے پہنچا دیا

.

مزید کہتا ہے:

سورج کس کا پابند تھا،مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: علی جا کر اسکو کہو واپس آ

(نوٹ اس پر تحقیق الگ سے لکھوں گا کہ سچ کیا ہے.....؟؟ سورج سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے پے لوٹا یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و دعا سے لوٹا.....؟؟کیا واقعی معتبر روایت میں ہے کہ سیدنا علی کے حکم سے لوٹا یا یہ ریاض شاہ کا جھوٹا بیان ہے....؟؟جھوٹی تعریف تو سیدنا علی یا کسی اہلبیت یا کسی صحابی یا کسی نبی پاک کی بھی نہین کرسکتے)

.

مزید کہتا ہے:

 مولانا دھوکہ نہ کرنا...کیا میں چھپا کے جاؤں، کتمان علم  کرکے جاؤں

.

مزید لکھتا ہے:

 ترجمہ وہی صحیح ہے جو اعلی حضر عظیم البرکت اور ان جیسے اکابر نے کیا

.

ریاض شاہ کی مذکورہ باتون سے اسکے آٹھ جرم مکاریاں تحریف تضاد بیانیاں ثابت ہوتی ہیں جنکو ہم شروع میں لکھ آئے...سمجھ نہ لگے تو تحریر کی شروعات کو دوبارہ پڑھ لیجیے

.#################

*#تفسیر_بالرائے کیا ہے اور اسکی کونسی قسم مذموم ہے اور کونسی جائز اور کس تفسیر بالراءے کی مذمت ہے اور کس کی اجازت...؟؟ اور تحریف معنوی کیا ہے اسکا حکم کیا ہے......؟؟*

.

الحدیث:①

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے قران میں بغیر صحیح علم کے کچھ کہا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے(یعنی بغیر معتبر علم کے تفسیر بالرائے کی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے)

(ترمذی حدیث2950)

.

الحدیث:②

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ عَمْرٍو الْكَلْبِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ.....وَمَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے قران میں اپنی رائے سے کچھ کہا(بغیر معتبر علم کے تفسیر بالرائے کی)تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے

(ترمذی حدیث2951)

.

الحدیث:③

مَنْ قالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے قران میں بغیر صحیح علم کے کچھ کہا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے(یعنی بغیر معتبر علم کے تفسیر بالرائے کی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے)

(الجامع الصغير امام سیوطی حدیث12512)

.

الحدیث:④

 أخبرنا أبو زكريا بن أبي إسحاق، أخبرنا أبو عبد الله محمد بن يعقوب، أخبرنا أبو أحمد محمد بن عبد الوهاب، أخبرنا قبيصة بن عقبة، حدثنا سفيان، عن عبد الأعلى، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس قال قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "مَن قَال في القُرآن بغير علمِ فَلْيتَبَوَّأ مَقعدَه من النّار

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے قران میں بغیر صحیح علم کے کچھ کہا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے(یعنی بغیر معتبر علم کے تفسیر بالرائے کی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے)

(شعب الایمان امام بیھقی حدیث2079)

.

الحدیث:⑤

 قَالَ الشَّيْخُ: أَخْبَرَنَا أَبُو مَنْصُورٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الْمُظَفَّرِيُّ، أَنا أَبُو سَعِيدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ الْفَقِيهُ، نَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْبَصْرِيُّ، نَا أَبُو الْفَضْلِ الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، نَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، نَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَن النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے قران میں بغیر صحیح علم کے کچھ کہا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے(یعنی بغیر معتبر علم کے تفسیر بالرائے کی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے)

(شرح السنة للبغوي حدیث117)

.

الحدیث:⑥

 حَدَّثنا مُحَمد بن عُثمَان، قَال: حَدَّثنا عُبَيد الله، قَال: حَدَّثنا سُفيان، عَن عَبد الأَعْلَى، عَن سَعِيد بْنِ جُبَير، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِي اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم: مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے قران میں بغیر صحیح علم کے کچھ کہا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے(یعنی بغیر معتبر علم کے تفسیر بالرائے کی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے)

(مسند البزار = البحر الزخار حدیث4757)

.

الحدیث:⑦

 أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ التُّرَابِيُّ، أَنا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَمُّوَيْهِ السَّرَخْسِيُّ، أَنا أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ خُزَيْمٍ الشَّاشِيُّ، نَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، نَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنا الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ»

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے قران میں اپنی رائے سے کچھ کہا(بغیر معتبر علم کے تفسیر بالرائے کی)تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے

(شرح السنة للبغوي حدیث117)


الحدیث:⑧

وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ التُّرَابِيُّ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَمُّوَيْهِ، أَنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ خُزَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، نَا أَبُو نُعَيْمٍ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، وَقَبِيصَةُ، وَعَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ»

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے قران میں بغیر صحیح علم کے کچھ کہا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے(یعنی بغیر معتبر علم کے تفسیر بالرائے کی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے)

(شرح السنة للبغوي حدیث117)

.

الحدیث:⑨

 أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنِ مُحَمَّدِ قَالَ: حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ مَخْلَدٌ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ»

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے قران میں بغیر صحیح علم کے کچھ کہا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے(یعنی بغیر معتبر علم کے تفسیر بالرائے کی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے)

(نسائی السنن الکبری حدیث8030)

.

الحدیث:10

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ، أَوْ بِمَا لَا يَعْلَمُ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے قران میں اپنی رائے سے کچھ کہا یا بغیر صحیح علم کے کچھ کہا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے

((نسائی السنن الکبری حدیث8031)

.

الحدیث:11

 عبد الله بن شيبَة الصغاني يروي عَن أبي عَاصِم النَّبِيل ثَنَا بن جريج عَن عَطاء عَن بن عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ من قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ حَدَّثنا عَنْهُ مُحَمَّدُ بن الْمُنْذر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے قران میں اپنی رائے سے کچھ کہا(بغیر معتبر علم کے تفسیر بالرائے کی)تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے

(الثقات لابن حبان حدیث13913)

.

انفرادی طور پر مذکورہ روایات و حدیث کو ضعیف مان بھی لیا جائے تو بھی تعدد طرق کی وجہ سے حسن و معتبر کہلائے گی کیونکہ سنی شیعہ نجدی سب کا متفقہ اصول ہے کہ تعدد طرق سے ضعیف روایت حسن و معتبر بن جاتی ہے

وقد يكثر الطرق الضعيفة فيقوى المتن

تعدد طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے اور(حدیث و روایت کا) متن قوی(معتبر مقبول صحیح و حسن)ہوجاتا ہے

(شیعہ کتاب نفحات الازھار13/55)

أن تعدد الطرق، ولو ضعفت، ترقي الحديث إلى الحسن

بےشک تعدد طرق اگرچہ ضعیف ہوں ان سے ضعیف روایت و حدیث حسن و معتبر بن جاتی ہے(اللؤلؤ المرصوع ص42)

لِأَنَّ كَثْرَةَ الطُّرُقِ تُقَوِّي

کثرت طرق(تعدد طرق)سے روایت و حدیث کو تقویت ملتی ہے(اور ضعف ختم ہوجاتا ہے)

(تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ,1/179)

وإنما يحكم له بالصحة عند تعدد الطرق) أي أو طريق واحد مساو له، أو أرجح

ضعیف حدیث کی ایک اور مساوی ضعیف سند مل جائے یا ایک ارجح سند مل جائے یا ایک سے زائد ضیف سندیں مل جائیں تو اس تعددِ طرق سے ضعیف حدیث صحیح(و حسن معتبر قابل دلیل) کہلاتی ہے

(شرح نخبۃ الفکر للقاری1/297)

.

*#تفسیر بالرائے کی وضاحت......!!*

(من قال في القرآن برأيه) القول بالرأي ما لا يكون مؤسسًا على علوم الكتاب والسنة من قواعد العربية المقررة عند الجمهور، وأصول الإسلام المسلمة عند العلماء

 جس نے قران میں محض اپنی رائے سے کچھ کہا یعنی ایسی بات کہی کہ جو قران و سنت سے ماخوذ نہیں قواعد عربیہ سے ماخوذ نہیں اصول اسلام سے ماخوذ نہیں( تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے)

( لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح1/570)

.

ولا يجوز تفسير القرآن بمجرد الرأي والاجتهاد، من غير أصل قال الله: {وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْم} [لإسراء: ٣٦] وقال: {وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ} [البقرة: ١٦٩]

بغیر اصل کے محض اپنی رائے و عقل سے قران مجید کی تفسیر کرنا جائز نہیں ہے اس پر یہ دو آیات دلیل ہیں

وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْم} [لإسراء: ٣٦]

{وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ} [البقرة: ١٦٩]

(التنوير شرح الجامع الصغير1/332)

.

المراد بالرأي قول لا يكون مؤسساً على علوم الكتاب والسنة، بل يكون قولا يقوله برأيه على حسب ما يقتضيه عقله

تفسیر بالرائے کی جو مذمت ہے وہ اس تفسیر بالرائے کی مذمت ہے جو قرآن کے علوم حدیث و سنت کے علوم سے ماخوذ نہ ہو بلکہ محض اپنی عقل کی بنیاد پر ہو

(شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن2/689)

.

من تكلم في القرآن (برأيه) أي بما سنح في ذهنه وخطر بباله من غير دراية بالأصول ولا خبرة بالمنقول

تفسیر بالرائے کی جو مذمت ہے وہ اس تفسیر بالرائے کی مذمت ہے کہ بندہ جو ذہن میں آئے جو دل میں ائے تفسیر کرے اور اسکی بنیاد اصول و منقولات پر نہ ہو

(فيض القدير6/190)

.

(مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ) أَيْ: قَوْلًا (بِغَيْرِ عِلْمٍ) أَيْ: دَلِيلٍ يَقِينِيٍّ أَوْ ظَنِّيٍّ نَقْلِيٍّ أَوْ عَقْلِيٍّ مُطَابِقٍ لِلشَّرْعِيِّ (فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ) . قِيلَ: يُخْشَى عَلَيْهِ مِنَ الْكُفْرِ.....فَإِنَّهُ مَأْجُورٌ بِخَوْضِهِ فِيهِ

 جس نے قران میں بغیر علم یقینی کے یا علم ظنی نقلی کےبغیر یا علمِ عقلی جو شریعت کے مطابق ہو اس کے بغیر کچھ کہا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے علماء فرماتے ہیں کہ ایسی تفسیر بالرائے کرنے والے پر کفر کا اندیشہ ہے ہاں جو تفسیر بالرائے دلیل شرعی معتبر علم سے کرے تو اس پر ثواب ملے گا

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح1/309 310ملتقطا)

.

، وكل من فسر القرآن برأيه فهو ملحد

 جو قران کی تفسیر محض اپنی رائے سے کرے تو وہ ملحد(بےدین بدمذہب)ہے

(نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار1/42)

.

اتفق العلماء المخلصون على أن تفسير القرآن بالرأي المذموم ممتنع وحرام، بل كفر صريح

 مخلص علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قران کی تفسیر بالرائے جو مذموم ہے وہ تفسیر کرے تو ممنوع و حرام بلکہ صریح کفر ہے

(مقدمہ تفسير الماتريدي = تأويلات أهل السنة1/267)

.

ومن قال ذلك في الآيات المؤولة برأيه كان جاعلًا نفسه بمنزلة صاحب الوحي في العلم بمراد الله تعالى برأيه وهو كفر، فلذلك "يتبوأ مقعدة من النار"؛ لأن النار معدة للكافرين

 جو کوئی قران کی اس طرح تفسیر بالرائے کرے کہ اپنے اپ کو صاحب وحی کے مرتبے میں رکھ کر کچھ کہے تو یہ کفر ہے اور وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے اور کیونکہ جہنم ٹھکانہ ہے کافروں کا

(الكافي شرح أصول البزودي1/221)

.

امام اہلسنت مجدد دین و ملت سیدی امام احمد رضا علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

پس ثابت ہوا کہ اس بیت سے مراد قلب آدم ہے'' یہ اللہ سبحانہ پر پانچواں افتراء بھی ہے اور قرآن کی تفسیر بالرائے بھی اور بتصریح کتب عقائد الحاد بھی کہ معنی ظاہر باطل کرکے باطنیہ کی طرح باطنی گھڑے، متن عقائد امام اجل نسفی رضی اللہ تعالی عنہ میں ہے :النصوص تحمل علی ظواھر ھاواالعدول عنھا الی معان یدعیھا اھل الباطن الحاد ۲؎۔

نصوص اپنے ظاہر پر حمل کئے جاتے ہیں، لہذا ظاہر معانی سے ہٹ کر اپنے معانی تراش لینا کہ جن کا اہل باطن دعوی کرتے ہیں سراسر بے دینی ہے۔ (ت)(۲؎ مجموع المتون فی مختلف الفنون متن العقائد النسفیہ فی التوحید الشؤن الدینیۃ دولۃ قطر ص۶۱۸)

(فتاوی رضویہ22/512)

.

وَالنُّصُوصُ) كِتَابًا أَوْ سَنَةً (تُحْمَلُ) بِالضَّرُورَةِ (عَلَى ظَوَاهِرِهَا) الْمَفْهُومَةِ لُغَةً أَوْ اصْطِلَاحًا حَقِيقَةً أَوْ مَجَازًا إذَا لَمْ يَصْرِفْ عَنْهَا دَلِيلٌ قَطْعِيٌّ وَذَلِكَ مَعْنَى قَوْلِهِ (إنْ أَمْكَنَتْ) كَاَلَّتِي تُشْعِرُ ظَوَاهِرُهَا بِالْجِسْمِيَّةِ، وَالْجِهَةِ كَمَسْلَكِ الْمُتَأَخِّرِينَ فِي الْمُتَشَابِهِ (وَالْعُدُولُ عَنْهَا) عَنْ الظَّوَاهِرِ عِنْدَ الْإِمْكَانِ (إلَى مَعَانٍ يَدَّعِيهَا أَهْلُ الْبَاطِنِ) الْمُسَمَّاةِ بِالْبَاطِنِيَّةِ، وَالْمَلَاحِدَةِ كُفْرٌ

جہاں تک ممکن ہو قران اور حدیث کے الفاظوں کو اس کے ظاہری معنی پر محمول کرنا لازمی ہے ہاں اگر دلیل قطعی اس معنی سے کسی اور معنی کی طرف پھیر دے تو پھر وہی معنی مراد ہوں گے، ورنہ بلادلیل ظاہری معنی سے عدول کرکے کسی اور معنی کی طرف جانا جیسے کہ باطنیہ و ملحد مراد لیتے ہیں تو یہ کفر ہے

(بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية وشريعة نبوية في سيرة أحمدية1/223)

.

وَقَالَ النَّسَفِيُّ فِي عَقَائِدِهِ: النُّصُوصُ عَلَى ظَاهِرِهَا وَالْعُدُولُ عَنْهَا إِلَى مَعَانٍ يَدَّعِيهَا أَهْلُ الْبَاطِنِ إِلْحَاد

امام سیوطی لکھتے ہین کہ امام نسفی فرماتے ہین کہ قران اور حدیث کے الفاظوں کو اس کے ظاہری معنی پر محمول کرنا لازمی ہے، بلادلیل ظاہری معنی سے عدول کرکے کسی اور معنی کی طرف جانا جیسے کہ باطنیہ  مراد لیتے ہیں تو یہ کفر و الحاد ہے

(الإتقان في علوم القرآن4/224)

.

التفتازانيّ قائلا: «وأمّا ما يذهب إليه بعض المحققين من أن النصوص على ظواهرها ومع ذلك فيها إشارات خفية إلى دقائق تنكشف على أرباب السلوك يمكن التطبيق بينها وبين الظواهر المرادة فهو من كمال العرفان ومحض الإيمان

 امام تفتازانی فرماتے ہیں کہ بعض محققین جو قران اور حدیث کے الفاظوں کو اس کے صحیح معنی پر رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ان الفاظوں سے اور ان معنی سے دیگر معنی و مطالب و رموز کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ ان معنی کی تطبیق ممکن ہوتی ہے تو پھر یہ کمال عرفان ہے محض ایمان ہے ایسی تفسیر بالرائے مذموم نہیں ہے

(مقدمۃ تفسير القشيري1/25)

.

لفظ علیا کا ظاہری لغوی اصلی معنی "بلندی و رفعت" ہے.. آیت میں بغیر دلیل کے کہہ دینا کہ رفعت مراد نہین بلکہ جناب علی مراد ہیں تو بظاہر تحریف ہے،مذموم تفسیر بالرائے ہے جوکہ الحاد و کفر ہے

.

*#تحریف معنوی اسے کہتے ہیں کہ*

أما التحريف المعنوي فإنه عبارة عن التأويلات الفاسدة وحمل الآيات على غير معانيها المرادة

 تحریف معنوی یہ ہے کہ فاسد تاویل کی جائے یا ایت کو غیر مراد معنی پر محمول کیا جائے

(كتاب الفوز الكبير في أصول التفسير ص45)

.

أَمَّا تَغْيِيرُ الْمَعْنَى بِتَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَلَى غَيْرِ الْوَجْهِ الْمُرَادِ بِهِ، فَهُوَ نَوْعٌ شَدِيدٌ مِنَ التَّحْرِيفِ

 قران کی وہ تفسیر کرنا کہ جس سے مرادی معنی بدل جائیں تو یہ شدید قسم کی تحریف ہے

(الموسوعة الفقهية الكويتية 10/202)


.

*#تحریف معنوی کفر ہے.....!!*

ومن استباح حراماً فقد كفر وإذا احتج بالقرآن على وجه التحريف فقد جمع بين كفرين

 جس نے حرام کو حلال جانا اس نے کفر کیا اور جس نے قران میں وہ معنی لیے جو تحریف کے طور پر ہوں تو اس نے دو کفر کیے

(تفسير النسفي = مدارك التنزيل وحقائق التأويل2/604)

.

وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ بالتحريف والكفر بما يصدقه فَأُولئِكَ هُمُ الْخاسِرُونَ

 جو تحریف کر کے کفر کرے یا انکار کر کے کفر کرے تو وہ خسارے میں ہیں

(تفسیر البیضاوی1/104)

.

*#دلیل کے ساتھ قرآن و حدیث کے الفاظوں میں اجتہاد و رائے سے دیگر معنی مراد لینا تفسیر بالرائے تو ہے لیکن اسکی مذمت نہیں کیونکہ اسکی اجازت قرآن اور صحابہ کرام اہلبیت عظام سے ثابت ہے، چند دلائل ملاحظہ کیجیے.....!!*

الِاجْتِهَادُ وَالِاسْتِنْبَاطُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِجْمَاعُ الْأُمَّةِ هُوَ الْحَقُّ الْوَاجِبُ، وَالْفَرْضُ اللَّازِمُ لِأَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِذَلِكَ جَاءَتِ الْأَخْبَارِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَنْ جَمَاعَةِ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ. وَقَالَ أَبُو تَمَّامٍ الْمَالِكِيُّ: أَجْمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلَى الْقِيَاسِ

 قرآن مجید اور سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجتہاد کرنا اور استنباط و قیاس کرنا اور اجماع امت یہ سب حق اور واجب ہیں، قرآن و حدیث سنت و اقوال صحابہ پر اجتہاد و قیاس کرنا اہل علم پر فرض اور لازم ہے... یہی حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اکثر صحابہ اور تابعین سے مروی ہے، ابو تمام مالکی فرماتے ہیں کہ تمام علماء کا اجماع ہے کہ قیاس شرعی چیز ہے، شرعی دلیل ہے

(تفسير القرطبي = الجامع لأحكام القرآن7/172)

.

القرآن:

لَوۡ رَدُّوۡہُ  اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ

اگر معاملات و مسائل کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط(اہلِ تحقیق،باشعور،باریک دان،سمجھدار علماء صوفیاء)ضرور جان لیتے

(سورہ نساء آیت83)

 آیت مبارکہ میں واضح حکم دیا جارہا ہے کہ اہل استنباط کی طرف معاملات کو لوٹایا جائے اور انکی مدلل مستنبط رائے و سوچ و حکم کی تقلید و پیروی کی جائے.....!!

.

يَسْتَخْرِجُونَهُ وَهُمُ الْعُلَمَاءُ..الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُنَافِقِينَ، لَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى ذَوِي الرَّأْيِ وَالْعِلْمِ،...وَفِي الْآيَةِ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ الْقِيَاسِ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ مَا يُدْرَكُ بِالتِّلَاوَةِ وَالرِّوَايَةِ وَهُوَ النَّصُّ، وَمِنْهُ مَا يُدْرَكُ بِالِاسْتِنْبَاطِ وَهُوَ الْقِيَاسُ عَلَى الْمَعَانِي الْمُودَعَةِ فِي النُّصُوصِ

 اہل استنباط سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جو احکام و نکات نکالتے ہوں اور وہ علماء ہیں... آیت میں منافقین اور مومنین سب کو حکم ہے کہ وہ معاملات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دیں اور اہل علم کی طرف لوٹا دیں اور رائے و قیاس کرنے والوں کی طرف لوٹا دیں... اس آیت میں دلیل ہے کہ قیاس کرنا بالکل جائز ہے کہ علم وہ ہوتا ہے کہ جو نص یعنی قرآن اور حدیث و سنت سے ملتا ہے یا پھر ان سے نکالا جاتا ہے یہی تو قیاس ہے

(تفسیر بغوی2/255)

.

الحدیث:

حدثنا حفص بن عمر، عن شعبة، عن ابي عون، عن الحارث بن عمرو اخي المغيرة بن شعبة، عن اناس من اهل  حمص، من اصحاب معاذ بن جبل، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، لما اراد ان يبعث معاذا إلى اليمن، قال:" كيف تقضي إذا عرض لك قضاء؟، قال: اقضي بكتاب الله، قال: فإن لم تجد في كتاب الله؟، قال: فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فإن لم تجد في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا في كتاب الله؟، قال: اجتهد  رايي ولا آلو، فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم صدره، وقال: الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله لما يرضي رسول الله".

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کرب بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟“ تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پاس کو تو کیا کرو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے

(ابوداؤد حدیث3592)

.

ضعفه الشيخ الألباني، ولكن بعض أهل العلم صححه أو حسنه، ومنهم ابن كثير في أول تفسير سورة الفاتحة، وكذلك الشوكاني حسنه وقال: إن ابن كثير جمع فيه جزءاً وقال: كذلك أيضاً أبو الفضل بن طاهر المقدسي جمع فيه جزءاً.وقد وجدت آثار عن عدد من الصحابة تدل على ما دل عليه

 ابو داود شریف کی مذکورہ حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن بعض اہل علم نے اس حدیث کو صحیح و دلیل قرار دیا ہے یا پھر حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے جیسے کہ امام ابن کثیر نے اور جیسے کہ امام شوکانی نے صحیح یا حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے... بعض ائمہ نے تو اس حدیث کی تائید و تخریج و شرح پر کتب و رسائل تک لکھے ہیں... صحابہ کرام سے بہت سارے آثار مروی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے قرآن اور حدیث بھر اقوال صحابہ پھر ان پر کیا گیا اجتہاد و قیاس  کرنا اور عمل کرنا کرانا جائز بلکہ لازم و برحق ہے

(شرح ابوداود للعباد تحت الحدیث3592)

.

.

یہ حدیث مبارک مشعل راہ ہے کہ قران پھر حدیث و سنت پھر قیاس و استدلال و رائے....اس حدیث مبارک سے واضح ہوتا ہے کہ قران حدیث و سنت سے اجتہاد و استدلال کرنا برحق و ماہر علماء کا منصب بلکہ ذمہ داری ہے....استدلال و قیاس کرنے میں سب متفق ہوں یہ ضروری نہیً لیھذا غیرمنصوص ظنیات و فروعیات میں کبھی اختلاف ہونا فطری عمل ہے


الحدیث:

 قال النبي صلى الله عليه وسلم لنا لما رجع من الأحزاب: «لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة» فأدرك بعضهم العصر في الطريق، فقال بعضهم: لا نصلي حتى نأتيها، وقال بعضهم: بل نصلي، لم يرد منا ذلك، فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم، فلم يعنف واحدا منهم

ترجمہ:

غزوہ احزاب سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم(یعنی صحابہ کرام) سے فرمایا کہ:

تم میں سے ہر ایک بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھے" (صحابہ کرام نے جلد پہنچنے کی بھر پور کوشش کی مگر)راستے میں عصر کا وقت ختم ہونے کو آیا تو کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ ہم عصر نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی پڑہیں گے اور کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ نبی پاک کا یہ ارادہ نا تھا(کہ نماز قضا ہو اس لیے) ہم عصر پڑھ لیں گے

(طبرانی ابن حبان وغیرہ کتب میں روایت ہے جس میں ہے کہ کچھ صحابہ نے راستے میں ہی عصر نماز پڑھ لی اور کچھ نے فرمایا کہ ہم رسول کریم کی تابعداری اور انکے مقصد میں ہی ہیں لیھذا قضا کرنے کا گناہ نہین ہوگا اس لیے انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر نماز پڑھی)

پس یہ معاملہ رسول کریم کے پاس پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک پر بھی ملامت نا فرمائی

(بخاری حدیث946)

.

دیکھا آپ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کا قیاس و استدلال اور اس میں اختلاف... صحابہ کرام نے اس برحق اختلاف پر ایک دوسرے کو کافر منافق فاسق گمراہ گستاخ نہیں کہا اور نبی پاک نے بھی کسی کی ملامت نا فرمائی...ایسا اختلاف قابل برداشت ہے بلکہ روایتوں مین ایسے فروعی برحق پردلیل باادب اختلاف کو رحمت فرمایا گیا ہے

لیکن

ایسے اجتہاد و قیاس و رائے و اشارات اخذ کرنے کے لیے انداز و الفاظ بھی ٹھیک ہوں اور علوم و فنون پر مہارت بھی ہو

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ: «مَنْ كَانَ عَالِمًا بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَبِقَوْلِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَا اسْتَحْسَنَ فُقَهَاءُ الْمُسْلِمِينَ وَسِعَهُ أَنْ يَجْتَهِدَ رَأْيَهُ...قال الشافعی لَا يَقِيسُ إِلَّا مَنْ جَمَعَ آلَاتِ .الْقِيَاسِ وَهَى الْعِلْمُ بِالْأَحْكَامِ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَرْضِهِ وَأَدَبِهِ وَنَاسِخِهِ وَمَنْسُوخِهِ وَعَامِّهِ وَخَاصِّهِ وإِرْشَادِهِ وَنَدْبِهِ

....وَلَا يَكُونُ لِأَحَدٍ أَنْ يَقِيسَ حَتَّى يَكُونَ عَالِمًا بِمَا مَضَى قَبْلَهُ مِنَ السُّنَنِ، وَأَقَاوِيلِ السَّلَفِ وَإِجْمَاعِ النَّاسِ وَاخْتِلَافِهِمْ وَلِسَانِ الْعَرَبِ وَيَكُونُ صَحِيحَ الْعَقْلِ حَتَّى يُفَرِّقَ بَيْنَ الْمُشْتَبِهِ، وَلَا يُعَجِّلَ بِالْقَوْلِ وَلَا يَمْتَنِعَ مِنَ الِاسْتِمَاعِ مِمَّنْ خَالَفَهُ لَأَنَّ لَهُ فِي ذَلِكَ تَنْبِيهًا عَلَى غَفْلَةٍ رُبَّمَا كَانَتْ مِنْهُ.... وَعَلَيْهِ بُلُوغُ عَامَّةِ جَهْدِهِ، وَالْإِنْصَافُ مِنْ نَفْسِهِ حَتَّى يَعْرِفَ مِنْ أَيْنَ قَالَ مَا يَقُولُ

 امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے شاگرد رشید محمد بن حسن فرماتے ہیں کہ جو کتاب اللہ کا عالم ہو سنت رسول اللہ کا عالم ہوتا ہے اور صحابہ کرام کے اقوال کا عالم ہو اور فقہاء کے اجتہاد و استنباط و قیاس کا عالم ہو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ قیاس و اجتہاد کرے... امام شافعی فرماتے ہیں کہ قیاس و اجتہاد وہی کرسکتا ہے کہ جس نے قیاس کے لیے مطلوبہ علوم و فنون میں مہارت حاصل کی ہو، مثلا قرآن کریم(اور سنت رسول) کے احکامات کا علم ہو قرآن کریم(و سنت رسول) کے فرض واجبات آداب ناسخ  منسوخ عام خاص اور اس کے ارشادات و مندوبات وغیرہ کا علم ہو... قیاس و اجتہاد صرف اس عالم کے لئے جائز ہے کہ جو عالم ہو سنتوں کا، اسلاف(صحابہ کرام تابعین عظام و دیگر ائمہ)کے اقوال کا عالم ہو، اسلاف کے اجماع و اختلاف کا عالم ہو، لغت عرب کے فنون کا عالم ہو، عمدہ عقل والا ہو تاکہ اشتباہ سے بچ سکے،اور جلد باز نہ ہو،اور مخالف کی بات سننے کا دل جگرہ رکھتا ہوکہ ممکن ہے یہ غفلت میں ہو اور مخالف کی تنقید سے غفلت ہٹ جائے اور اس پر واجب ہے کہ دلائل پر بھرپور غور کرے انصاف کے ساتھ بلاتعصب اور اسے پتہ ہونا چاہیے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے کس بنیاد پر کہہ رہا ہے

(جامع بیان العلم و فضلہ2/856)

.###############

*#آیت مکانا علیا کی پہلی تفسیر.....!!*

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ.....ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ الرَّابِعَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، قِيلَ : مَنْ هَذَا ؟ قَالَ : جِبْرِيلُ. قِيلَ : وَمَنْ مَعَكَ ؟ قَالَ : مُحَمَّدٌ. قَالَ : وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ ؟ قَالَ : قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِإِدْرِيسَ، فَرَحَّبَ، وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ. قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ :

 { وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا }

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پھر ہم چوتھے اسمان پر گئے تو جبرائیل نے دروازہ کھٹکھٹایا تو کہا گیا کون ہے عرض کی جبرائیل ہوں پھر کہا گیا تمہارے ساتھ کون ہے عرض کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں فرمایا کہ کیا وہ مبعوث ہوئے ہیں فرمایا کہ بے شک وہ مبعوث ہوئے ہیں اس کے بعد دروازہ کھولا گیا تو رسول کریم فرماتے ہیں کہ میں نے  ادریس علیہ السلام کو دیکھا تو انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی، اللہ تعالی نے حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے کہ وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا(بلند مکان و مقام عطاء فرما یا ہے ادریس کو یعنی چوتھا آسمان عطاء فرمایا)

(مسلم حدیث162، 411)

.

فدَخَلَ فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ، فَقَالَ: يَا جِبْرِيلُ، مَنْ هَذَا الرَّجُلُ الْجَالِسُ؟ قَالَ: هَذَا أَخُوكَ إِدْرِيسُ، رَفَعَهُ اللَّهُ مَكَانًا عَلِيًّا

 چوتھے اسمان پہ ہم داخل ہوئے تو وہاں پر ایک شخص تھا تو رسول کریم نے فرمایا کہ اے جبرائیل یہ بیٹھا ہوا شخص کون ہے جبرائیل نے عرض کی یہ اپ کے بھائی ادریس ہیں جسے اللہ تعالی نے مکانا علیا(بلند مکان بلند مقام جیسے چوتھا آسمان) عطا فرمایا ہے

(مجمع الزوائد حدیث235)

.

ثم عرج بنا إلى السماء الرابعة فاستفتح جبريل فقيل: من هذا؟ قال: جبريل قيل: ومن معك؟ قال: محمد قيل: وقد بعث إليه؟ قال: قد بعث إليه ففتح لنا فإذا أنا بإدريس فرحب بي ودعا لي بخير قال الله تعالى: {وَرَفَعْنَاهُ مَكَاناً عَلِيّاً

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پھر ہم چوتھے اسمان پر گئے تو جبرائیل نے دروازہ کھٹکھٹایا تو کہا گیا کون ہے عرض کی جبرائیل ہوں پھر کہا گیا تمہارے ساتھ کون ہے عرض کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں فرمایا کہ کیا وہ مبعوث ہوئے ہیں فرمایا کہ بے شک وہ مبعوث ہوئے ہیں اس کے بعد دروازہ کھولا گیا تو رسول کریم فرماتے ہیں کہ میں نے ادریس علیہ السلام کو دیکھا تو انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی، اللہ تعالی نے حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے کہ وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا

(صحیح الجامع الصغیر حدیث127)

.

السَّمَاءِ الرَّابِعَةِ , فَإِذَا أَنَا بِإِدْرِيسَ عَلَيْهِ السَّلَامُ , فَسَلَّمَ عَلَيَّ وَرَحَّبَ بِي , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَقَدْ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا} [مريم: 57]

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ چوتھے اسمان پہ  میری ملاقات ادریس علیہ السلام سے ہوئی تو انہوں نے مجھے سلام کیا اور مرحبا کہا نبی پاک نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے سیدنا ادریس علیہ السلام کو مکان علیا(بلند مکان و مقام مثلا چوتھا اسمان) عطا فرمایا ہے

(الشریعہ لاجری حدیث1026)

.

قال: هذا أخوك إدريس رفعه الله مكانا عليا

چوتھے آسمان پے سیدنا ادریس سے ملاقات ہوئی تو جبرائیل نے عرض کی یہ اپ کے بھائی ادریس ہیں جسے اللہ تعالی نے مکانا علیا(بلند مکان و مقام) عطا فرمایا ہے

(مسند البزاز9/17)

.

ثمَّ صعدنا إِلَى السَّمَاء الرَّابِعَة فَإِذا أَنا بِإِدْرِيس قد رَفعه الله مَكَانا عليا فَسلمت عَلَيْهِ وَسلم عَليّ ورحب بِي

سیدنا ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا ہم چوتھے اسمان پہ پہنچے تو وہاں پر ہماری ملاقات ادریس علیہ السلام سے ہوئی کہ جس کو اللہ تعالی نے مکانا علیا(بلند 

مکان و مقام جیسے چوتھا آسمان) عطا فرمایا ہے

(تفسیر در منثور5/197)

.

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، " {وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا} [مريم: 57] فَقَالَ: فِي السَّمَاءِ الرَّابِعَةِ

 سیدنا مجاہد فرماتے ہیں کہ وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا ایت سے مراد یہ ہے کہ سیدنا ادریس علیہ السلام چوتھے اسمان پہ ہیں

(استاد بخاری کی کتاب المصنف روایت31884)


حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي هَارُونَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: فِي السَّمَاءِ الرَّابِعَةِ

 سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ(آیت وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا ایت سے مراد یہ ہے کہ)

  سیدنا ادریس علیہ السلام چوتھے اسمان پے ہیں

(استاد بخاری کی کتاب المصنف روایت31885)

.#############

حدثني محمد بن عمرو، قال: ثنا أبو عاصم، قال: ثنا عيسى; وحدثني الحارث، قال: ثنا الحسن، قال: ثنا ورقاء، جميعا عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد، قوله (وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا) قال: إدريس رُفع فلم يمت، كما رُفع عيسى.حدثنا القاسم، قال: ثنا الحسين، قال: ثني حجاج، عن ابن جريج، عن مجاهد، مثله، إلا أنه قال: ولم يمت.حدثني محمد بن سعد، قال: ثني أبي، قال: ثني عمي، قال: ثني أبي، عن أبيه، عن ابن عباس (وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا) قال: رفع إلى السماء السادسة، فمات فيها.حدثت عن الحسين، قال: سمعت أبا معاذ يقول: أخبرنا عبيد بن سليمان، قال: سمعت الضحاك يقول في قوله (وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا) إدريس أدركه الموت في السماء السادسة

سند کے ساتھ مروی ہے کہ سیدنا مجاہد کے مطابق آیت وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا سے مراد یہ ہے کہ سیدنا ادریس علیہ السلام چوتھے اسمان پہ اٹھائے گئے اور وہ وہاں زندہ ہین جیسے سیدنا عیسی علیہ سلام

سند کے ساتھ مروی ہے کہ سیدنا ابن عباس کے مطابق آیت وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا سے مراد یہ ہے کہ سیدنا ادریس علیہ السلام چھٹے اسمان پہ اٹھائے گئے جہاں انہوں نے وفات پائی اسی طرح سیدنا ضحاک سے بھی یہی مروی ہے

(تفسیر طبری18/213)



.#################

*#آیت کی دیگر تفاسیر......!!*

ولكن عندنا: يشبه أن يكون رفعه إياه في المنزلة والقدر والرفعة عند اللَّه وعند الناس جميعًا، على ما ذكرنا في قوله: (وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا)

 جس طرح ایت وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا میں علیا سے مراد قدر منزلت ہے اسی طرح مکانا علیا آیت میں بھی مقام و مرتبے کی بلندی ہے

(تفسیر الماتریدی7/245)

دیکھیے دوسری آیت و لغت کو دلیل بنا کر تفسیر بالرائے کی....جسکی اجازت ہے

.

وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا} قِيلَ: يَعْنِي الْجَنَّةَ. وَقِيلَ: هِيَ الرِّفْعَةُ بِعُلُوِّ الرُّتْبَةِ فِي الدُّنْيَا.وَقِيلَ: هُوَ أَنَّهُ رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ الرَّابِعَةِ (2) .

رَوَى أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ایت وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا} میں مکانا علیا سے مراد ایک قول کے مطابق جنت ہے(کہ جنت بلاشبہ اعلی مکان ہے) اور ایک قول یہ ہے کہ دنیا میں مقام و مرتبہ بلند کیا گیا(جیسے کہ آیت

  وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا سے استدلال کیا گیا) اور ایک قول یہ ہے کہ چوتھے اسمان کی طرف سیدنا ادریس علیہ السلام کو اٹھا لیا گیا جیسے کہ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث پاک مروی ہے

(تفسیر بغوی5/238)

.

ورفعنا مَكَاناً عَلِيّاً) هو شرفُ النبوة والزُّلفى عند الله عز وجل وقيل علوُّ الرتبة بالذكر الجميل في الدنيا كما في قوله تعالى وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ وقيل الجنة وقيل السماءُ السادسةُ

 أو الرابع

ایت وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا} میں مکانا علیا سے مراد ایک قول کے مطابق نبوت کا شرف اور اللہ کے ہاں اعلی مرتبہ پانا ہے...ایک قول یہ ہے کہ ان کا ذکر جمیل دنیا میں ہوتا رہے گا جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ اور ایک قول یہ ہے کہ چوتھا اسمان یا چھٹا اسمان انکا عالی مکان ہے

(تفسیر ابی السعود5/271)

.

وَرَفَعْنَاهُ مَكَاناً عَلِيّاً} هو شرف النبوة والزلفى عند الله وقيل معناه رفعته الملائكة إلى السماء الرابعة وقد رآه النبي صلى الله عليه وسلم ليلة المعراج فيها وعن الحسن إلى الجنة لا شيء أعلى من الجنة

ایت وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا} میں مکانا علیا سے مراد ایک قول کے مطابق نبوت کا شرف اور اللہ کے ہاں اعلی مرتبہ پانا ہے، ایک قول یہ ہے کہ انہیں ملائکہ چوتھے اسمان پہ لے گئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چوتھے اسمان پہ دیکھا تھا اور ایک قول حسن سے یہ مروی ہے کہ جنت میں ہیں وہ کیونکہ جنت اعلی مکان ہے

(تفسیر نسفی2/2341)


.

وَرَفَعْنَاهُ مَكَانا عليا} قَالَ مُجَاهِدٌ: لَمْ يَمُتْ إِدْرِيسُ، بَلْ رُفِعَ كَمَا رُفِعَ عِيسَى

سیدنا مجاہد کے مطابق آیت وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا سے مراد یہ ہے کہ سیدنا ادریس علیہ السلام چوتھے اسمان پہ اٹھائے گئے اور وہ وہاں زندہ ہین جیسے سیدنا عیسی علیہ سلام

(تفسیر ابن ابی زمنین3/99)

.

وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا (57)}يعني الجنة وقال الضحاك: رفع إلى السماء السادسة.وقيل: السماء الرابعة

ایت وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا} میں مکانا علیا سے مراد جنت ہے، سیدنا ضحاک نے فرمایا اس سے مراد چھٹا اسمان ہے اور چوتھا اسمان بھی کہا گیا ہے

(تفسیر الثعلبی17/398)


.

سفيان عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قوله ورفعناه مكانا عليا قال السماء الرابعة

سیدنا مجاہد فرماتے ہیں کہ ایت وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا} میں مکانا علیا سے مراد چوتھا اسمان ہے

(تفسیر سفیان الثوری ص186)

.

وَرَفَعْناهُ مَكاناً عَلِيًّا) قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ وَأَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ وَغَيْرُهُمَا: يَعْنِي السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ...قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (لَمَّا عُرِجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ أَتَيْتُ عَلَى إِدْرِيسَ فِي السَّمَاءِ الرَّابِعَةِ). خَرَّجَهُ مُسْلِمٌ أَيْضًا

سیدنا انس اور سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنھما فرماتے ہیں کہ ایت وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا} میں مکانا علیا سے مراد چوتھا آسمان ہے جیسے کہ حدیث پاک میں ہے جسکو امام مسلم نے تخریج کیا ہے

(تفسیر القرطبی11/117,118)

.

وَرَفَعْناهُ مَكاناً عَلِيًّا هو شرف النبوة والزلفى عند الله تعالى كما روي عن الحسن وإليه ذهب الجبائي وأبو مسلم، وعن أنس وأبي سعيد الخدري وكعب ومجاهد السماء الرابعة، وعن ابن عباس. والضحاك السماء السادسة وفي رواية أخرى عن الحسن الجنة لا شيء أعلا من الجنة

ایت وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا} میں مکانا علیا سے مراد نبوت کا شرف ملنا ہے اور اللہ کے ہاں بلندی پانا ہے مقام و مرتبہ پانا ہے جیسے کہ سیدنا حسن سے مروی ہے اور یہی قول جبائی اور ابو مسلم کا ہے....اور سیدنا انس اور سیدنا ابو سعید خدری اور سیدنا کعب اور سیدنا مجاہد سے مروی ہے کہ ایت میں مکانا علیا سے مراد چوتھا آسمان ہے.... اور سیدنا ابن عباس اور سیدنا ضحاک سے مروی ہے کہ اس سے مراد چھٹا اسمان ہے اور سیدنا حسن سے ایک روایت ہے کہ اس سے مراد جنت ہے کہ جنت اعلی مکان ہے

(تفسیر روح المعانی8/423)

.

وَرَفَعْناهُ مَكاناً عَلِيًّا يعني شرف النبوة والزلفى عند الله، وقيل الجنة، وقيل السماء السادسة أو الرابعة

ایت وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا} میں مکانا علیا سے مراد نبوت کا شرف ملنا ہے اور اللہ کے ہاں بلندی پانا ہے مقام و مرتبہ پانا ہے... اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد جنت ہے اور ایک قول یہ ہے کہ مراد چھٹا یا چوتھا اسمان مراد ہے

(تفسیر البیضاوی4/14)

.

وَرَفَعْناهُ مَكاناً عَلِيًّا، يعني: الجنة. وقال مجاهد: يعني: في السماء الرابعة.

ایت وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا} میں مکانا علیا سے مراد جنت ہے...اور سیدنا مجاہد فرماتے ہیں کہ اس سے مراد چوتھا اسمان ہے

(تفسیر السمرقندی2/378)

.

وَقَالَ ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ: وَرَفَعْناهُ مَكاناً عَلِيًّا قَالَ إِدْرِيسُ رُفِعَ وَلَمْ يَمُتْ كَمَا رُفِعَ عِيسَى، وَقَالَ سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عن مجاهد وَرَفَعْناهُ مَكاناً عَلِيًّا قال: السَّمَاءِ الرَّابِعَةِ، وَقَالَ الْعَوْفِيُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَرَفَعْناهُ مَكاناً عَلِيًّا قَالَ: رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ فَمَاتَ بِهَا وَهَكَذَا قَالَ الضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِمٍ وَقَالَ الْحَسَنُ وَغَيْرُهُ فِي قَوْلِهِ: وَرَفَعْناهُ مَكاناً عَلِيًّا قال: الجنة

سیدنا مجاہد فرماتے ہیں کہ ایت وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا} میں مکانا علیا سے مراد یہ ہے کہ سیدنا ادریس علیہ السلام کو اٹھا لیا گیا اور انہیں وفات نہیں ائی جیسے کہ سیدنا عیسی علیہ السلام.... اور سیدنا مجاہد سے یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد چوتھا اسمان ہے... اور سیدنا ابن عباس سے مروی ہے کہ انہیں چھٹے اسمان کی طرف اٹھا لیا گیا اور وہاں پر ان کی وفات ہو گئی اسی طرح ضحاک نے فرمایا ہے... اور سیدنا حسن وغیرہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد جنت ہے

(تفسیر ابن کثیر5/214)

.

وَرَفَعْناهُ مَكاناً عَلِيًّا قيل هي الرفعة بعلو المرتبة في الدنيا، وقيل إنه رفع إلى السماء. وهو الأصح يدل عليه ما روى أنس

ایت وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا} میں مکانا علیا سے مراد دنیا میں رفعت و بلندی ہے اور ایک یہ ہے قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ انہیں اسمانوں کی طرف اٹھایا گیا ہے اور اسمانوں کی طرف اٹھائے جانے والا قول ہی صحیح ہے جس پر دلیل وہ حدیث ہے جسکو روایت کیا ہے سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے

(تفسیر الخازن3/190)

################

*#منافقت_دوغلاپالیسی_مکاری_کی مذمت پے  مختصرا چند ایات و احادیث ملاحظہ کیجیے.......!!*

القرآن:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوۡلُوۡا  قَوۡلًا  سَدِیۡدًا

 اے ایمان والو تقوی پرہیزگاری کرو اللہ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی بات کہو

(سورہ احزاب ایت70)

تقوی پریزگاری اور اللہ کا ڈر ہونا چاہیے، پیسے شہرت طاقت  واہ واہ وغیرہ کی لالچ نہیں ہونی چاہیے....گول مول باتیں، گول مول تقریریں، گول مول رجوع ٹھیک نہیں... سیدھی سیدھی بات کہیے... غلطی ہوجائے تو سیدھا کہیے کہ مجھ سے غلطی ہوگئ توبہ رجوع دل سے کرتا ہوں اور فلاں فلاں غلط باتیں کالعدم قرار دیتا ہے ان سے توبہ رجوع کرتا ہوں اور آئندہ احتیاط کرونگا

.

الحدیث:

إن شر الناس ذو الوجهين

ترجمہ:

لوگوں میں سے بدترین و شریر و فسادی وہ ہے جو دو چہرے(ڈبل پالیسی، منافقت) والا ہو...(بخاری حدیث7179)

.

إِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ ذَا الْوَجْهَيْنِ ؛ الَّذِي يَأْتِي هَؤُلَاءِ بِوَجْهٍ، وَهَؤُلَاءِ بِوَجْهٍ

لوگوں میں سے بدترین شریر فسادی وہ ہے جو دو چہروں والا ہو ایک طرف ایک بات کہے دوسری طرف دوسری بات کہے 

(مسلم حدیث2526)

.

كُنَّا نَعُدُّهَا نِفَاقًا

صحابی سیدنا ابن عمر نے فرمایا کہ اسکو( یعنی ایک طرف ایک بات کرنا دوسری طرف اسکے برخلاف دوسری بات کرنا اس کو) ہم منافقت شمار کرتے ہیں

(بخاری روایت7178)

.

الحدیث:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَى الْمَالِ وَالشَّرَفِ

لِدِينِهِ

دو بھوکے بھیڑیے اگر بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دئیے جائیں تو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا کہ مال و دولت کی حرص اور حب جاہ(طلب شہرت،حبِ ناموری)مومن کے دین کو نقصان پہنچاتے ہیں(ترمذی حدیث2376)

#لیڈر وہی، #علماء وہی ،#مبلغ،واعظ،استاد وہی جو لکھتےہیں،تقریر کرتےہیں،سمجھاتے ہیں،خدمات کرتے ہیں اسلام و خلوص و حق کےلیے…جو منافقت ایجنٹی پیسے،شہرت ناموری لائکس واہ واہ کی لالچ نہیں رکھتے…جو شہرت دولت کےبھوکے نہیں ہوتے……!! #سلام_انہیں

.

الحدیث...مَلْعُونٌ مَنْ ضَارَّ مُؤْمِنًا، أَوْ مَكَرَ بِهِ 

ترجمہ: لعنتی ہے وہ شخص جو کسی مسلمان کو نقصان پہنچاے یا اس کے ساتھ مکر.و.فریب کرے..(ترمذی حدیث1941)

.

دھوکہ..الحدیث: لَيْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ

ترجمہ: جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں.(ابن ماجہ حدیث2224)

.################

*#ریاض شاہ اور مرزا جہلمی نے اعلیٰ حضرت پر اعتراض کیا ہے کہ عفریت کا معنی اعلی حضرت نے خبیث کیا ہے جوکہ غلط ہے...جبکہ تفاسیر و لغت کی کتب میں عفریت کا معنی خبیث  موجود ہے...چند حوالہ جات پڑھتے جائیے*

.

إِنَّ عِفْرِيتًا مِنَ الْجِنِّ تَفَلَّتَ الْبَارِحَةَ لِيَقْطَعَ عَلَيَّ صَلَاتِي...

نبی پاک نے فرمایا کہ ایک سرکش خبیث جن چھوٹ کر میرے سامنے آیا تاکہ میری نماز خراب کرے.....

 عِفْرِيتٌ مُتَمَرِّدٌ مِنْ إِنْسٍ أَوْ جَانٍّ

امام بخاری کہتے ہیں کہ عفریت سرکش(خبیث) جن و انس کو کہتے ہیں

(بخاری حدیث3423)

.

وَقَالَ الرَّاغِبُ الْعِفْرِيتُ مِنَ الْجِنِّ هُوَ الْعَارِمُ الْخَبِيثُ

امام راغب فرماتے ہیں کہ عفریت جن اسے کہتے ہیں جو برا خبیث ہو

(فتح الباری شرح بخاری6/460)

.

قَالَ ابْن الْأَثِير: هُوَ الداهي الْخَبيث الشرير، وَمِنْه العفريت

 امام ابن اثیر فرماتے ہیں کہ عفریت کا معنی ہے داہی خبیث شریر

(عمدۃ القاری شرح حدیث3423)

.

العفريت) بكسر أوله أي الشرير الخبيث

عفریت کا معنی ہے شریر خبیث

(فیض القدیر2/407)

.

قالَ عِفْرِيتٌ خبيث مارد. مِنَ الْجِنِّ

عفریت کا معنی ہے خبیث سرکش جن

(تفسیر بیضاوی4/160)

.

{قَالَ عِفْرِيتٌ مّن الجن} وهو الخبيث المارد

عفریت جن کا معنی ہے سرکش خبیث جن

(تفسیر نسفی2/606)

.

قَالَ عِفْرِيتٌ} أي ماردٌ خبيثٌ

عفریت کا معنی ہے سرکش خبیث

(تفسیر ابی السعود6/286)

.

قالَ عِفْرِيتٌ مِنَ الْجِنِّ، وهو المارد الخبيث،

عفریت جن اسکو کہتے ہیں جو سرکش و خبیث ہو

(تفسیر البحر المدید4/197)

.

[العفريت]: الخبيث من الجن والإنسان

عفریت کا معنی ہے خبیث جن یا خبیث انسان

(شمس العلوم1/4631)

.

عِفْرِيتٌ بَيِّنُ العَفارةِ: خَبِيثٌ

عفریت جس میں واضح عفارت ہو یعنی اسکا معنی ہے خبیث

(لسان العرب4/586)

.

القرآن...ترجمہ:

سچوں(کو پہچان کر ان)کا ساتھ دو(سورہ توبہ آیت119)

دین و دنیا کو بدنام تو جعلی منافق مکار کر رہےہیں....عوام و خواص سب کو سمجھنا چاہیےکہ #جعلی_مکار_منافق تو علماء پیر اینکر لیڈر سیاست دان جج وکیل استاد ڈاکٹر فوجی وغیرہ افراد و اشیاء سب میں ہوسکتےہیں،ہوتے ہیں

تو

جعلی کی وجہ سے #اصلی سےنفرت نہیں کرنی چاہیےبلکہ اصلی کی تلاش اور اسکا ساتھ دینا چاہیے

.


✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03136325125


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.