سیدی امام اہلسنت امام احمد رضا پر چمن زمان بمع گروہ کے اعتراضات کے علمی جوابات

 *#امام اہلسنت مجدد دین و ملت امام احمد رضا پر اور اہلسنت بریلویوں پر چمن زمان کے سنگین فتوے بازی و الزامات کے تحقیقی جوابات اور چمن زمان اپنے فتوے کی زد میں......؟؟*

تمھید:

نیم رافضیوں کی طرف سے مسلسل اہلسنت نظریات پر ڈاکہ جاری و ساری ہے شیخ شخخخ شح شاہت اور مکانا علیا میں تحریف و غلط معنی بیان کرنے پر ریاض شاہ کی اہلسنت علماء نے گرفت کی اور توجہ دلائی تو چمن زمان نے ایک کتابچہ لکھا جس میں مجدد دین ملت امام اہلسنت امام احمد رضا پر اور انکے ماننے والوں پر چمن زمان نے کوئی پندرہ تحریفات کے الزامات لگائے آئیے ان الزامات کے تحقیقی جوابات پڑھتے ہیں

.

*#اعتراض نمر1...اور...2*

چمن زمان کہتا ہے کہ فاضل بریلی نے الملفوظات میں کئ تحریفات لفظی کی ہیں، پھر چمن زمان نے دو مثالیں پیش کی کہ کیسے آیت میں کمی بیشی کی گئ الملفوظات میں....!!

.

*#ہمارا جواب.و.تبصرہ.....!!*

پہلی بات....!!

چمن زمان صاحب آپ اپنی اسی کتاب میں اور دیگر کتب میں کہہ چکے ہیں بلکہ آپ کے گرو ریاض شاہ بھی اعتراف کر چکے کہ اعلیٰ حضرت آپ کے بھی اکابرین میں سے ہیں، لیکن افسوس اکابر کے لیے , مجدد دین و ملت کے لیے بےحد ادب و احترام دعوی کرنے کے بعد بھی آپ فقط سوکھے الفاظ "فاضل بریلوی" سے اکابرین کو یاد کر رہے ہیں جبکہ تم جیسا نکما نکٹو جعلی مفتی "مفتی اعظم پاکستان" کہلوائے اور ایسی پوسٹ شیئر کرے تو شرم نہ آئے.....؟، ...مجدد و امام کے لیے روکھے الفاظ "فاضل بریلوی" اور نالائق جھوٹے مفتی چمن زمان کے لیے "مفتی اعظم پاکستان" "محقق زمان" لگانے لگوانے سے بھی جی نہ بھرے....کیا یہ انصاف ہے...؟؟ کیا آپ کی شان مجدد دین و ملت سے بڑھ کر ہے....؟؟ تمہیں محقق زمان و مفتی اعظم پاکستان کہا گیا اور آپ نے اسے شیئر کیا اسکا اسکرین شاٹ ہم نے محفوظ کر لیا ہے

نوٹ:

 احباب گرامی کو یہ بات بتاتے چلیں کہ تین ثقہ معتبر اہل سنت مفتیان کرام سے میں نے خود سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ چمن زمان نے باقاعدہ کسی معتبر اہلسنت مفتی کے پاس کوئی مفتی کورس نہیں کیا ہے....اگر کیا ہے تو ثبوت پیش کرے... ایسے نکمے  نکٹو مکار نام نہاد جعلی نیم ملاں ہوکر مفتی اعظم کہلانے لگیں گے تو پھر اس کے قلم سے ایسی ہی بکواسات نکلیں گے....کہ نیم ملاں خطرہ ایمان....اس سے بہتر تو وہ طالب علم ہے جو اسلاف کی باتیں بیان کرتا ہے، عقل مکاری پیسہ شہرت کے گھوڑے پے بیٹھ کر جو منہ ائے نہیں بکتا.....بلکہ ایسے جعلی برے علماء سے تو عوام جاہل سعادتمند و خوشنصیب ہیں

.

امام غزالی فرماتے ہیں

والعوام العصاة أسعد حالاً من الجهال بطريق الدين المعتقدين أنهم من العلماء, هلك المتحذلقون من العلماء الزاعمون أنهم أحاطوا بعلوم العقول فالجهل خير

خلاصہ:

 "دونمبر ، نام نہاد ، گمراہ کن ، اپنے آپ کو بہت بڑا علم والا سمجھنے والے، اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والے علماء مولویوں(اسی طرح دونمبر گمراہ کن اپنےآپ کو عقل کل سمجھنے والے لیڈروں،صحافیوں، علم و خبر کےذرائع) سےکہیں بہتر و خوش نصیب تو گناہ گار جاہل مسلم عوام ہیں

(احیاءالعلوم1/82ملخصا

.

*#دوسری بات......!!*

تم خود لکھ چکے کہ ان تحریفات کو کاتب کی غلطی ناقل کی غلطی، کتابت کی غلطی کہا جا سکتا ہے....لیکن بغض و ہٹ دھرمی اور مکاری کی انتہاء کہ ان احتمالات صحیحہ لازمہ کے باوجود تحریف قران و کفر کا فتوی امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت اور انکے ماننے والوں پر لگا رہے ہو...عجب تضاد و بغض بھرا ہوا نکلا ہے تم جیسوں کے سینے سے

.##################

*#سنگین اعتراض نمبر3......!!*

چمن زمان لکھتا ہے:

حضرت فاضل بریلوی کی انتمائی خطرناک تحریف قرآنی

ہم جانتے ہیں کہ بریلوی بہانے بازی کرتے ہوئے کبھی کاتب کو ذمہ دار بنائیں گے تو کبھی ملفوظات کے جامع کو مورد الزام ٹھہرائیں گے۔ لیکن ایک جگہ ایسی بھی ہے جہاں فاضل بریلی نے اپنے ہاتھوں سے آیت لکھی اور اپنے ہاتھوں سے ترجمہ لکھا مگر قرآن پاک میں تحریف لفظی کر ڈالی۔جی ہاں! لمحہ الضحی " نامی رسالہ کو فاضل بریلی کے معرکتہ الآراء رسائل میں گنا جاتا ہے۔ اپنے اس رسالہ میں قرآن پاک کی آیہ مقدسہ : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ(سورۃ النساء آیت ۱۵۹)فاضل بریلی نے اس قرآنی آیت کو یوں بدلا :قل أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ

یعنی "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا " و " قل" سے بدل ڈالا۔ پھر بہت ممکن تھا کہ اس تحریف کو کاتب کے سر جڑ دیا جاتا۔ لیکن جب معنی کو دیکھا جائے تو بیچارے کاتب کی خاصی بچت ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اس کے معنی کرتے ہوئے اعلیحضرت نے فرمایا:اے نبی ! مومنین سے فرما دے کہ اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو اس کے رسول کی اور اپنے علماء کی۔ترجمہ نے اس بات کو مزید پختہ کر دیا کہ آیہ مقدسہ میں تحریف کاتب کے ہاتھ سے نہیں ہوئی بلکہ مصنف کتاب کے ہاتھ سے ہوئی ہے۔ کیونکہ کاتب کی غلطی ہوتی تو یا آیہ مقدسہ میں ہوتی یا ترجمہ میں۔ آیہ مقدسہ میں تحریف کے بعد ترجمہ اسی تحریف کے مطابق کر دینا ، کاتب کا نہیں بلکہ مصنف کا کام ہے اور مصنف کتاب فاضل بریلی مولانا احمد رضا خان صاحب ہیں۔۔۔!!!

(چمن زمان کا کتابچہ محرف کون ص79,79بحذف یسیر)

.

*#ہمارا جواب و تبصرہ*

پہلی بات:

لعمۃ الضحی کے مخطوطوں کی چھان بین کی جائے تو عین ممکن ہے سیدی اعلیٰ حضرت نے صحیح آیت و ترجمہ لکھا ہو

مگر

اگر بالفرض اسی غلطی والے چھاپے کو مان لیا جائے تو یہ ایسے ہے جیسے حافظ قرآن کو متشابہ لگ جاتا ہے اور وہ ایک آیت میں دوسرا لفظ ملا دیتا ہے اور کسی کو خبر ہی نہیں لگتی یا بعد میں یا بہت بعد میں لگتی ہے، حفاظ کو ایسا تشابہ لگتا رہتا ہے اور چمن زمان تمھیں بھی تشابہ لگا ہی ہوگا....اس تشابہ کی بنیاد پر آیت میں دوسری ایت کا اضافہ تحریف نہیں کہلاتا یہ تشابہ غلطی خطاء معاف ہے...تحریف و کفر نہیں

.

ایک آیت یوں ہے

قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ

(سورہ آل عمران آیت32)

دوسری متشابہ آیت یوں ہے

اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ

(سورہ نساء آیت59)

.

لیھذا تشابہ لگ گیا، غلط فھمی خطاء ہوئی جوکہ معاف ہے ورنہ سیدی رضا جیسا متبحر و محتاط عالم جان بوجھ کر اضافہ تھوڑی کرے گا


قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ قَدْ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے میری امت سے خطا اور بھول چوک کو معاف کر دیا ہے

(ابن ماجہ حدیث2043)

.

اسکی ایک مثال حدیث پاک میں بھی ہے کہ دیکھا جاءے تو وہ کفر ہے مگر غلطی خطاء نسیان کی وجہ سے کفر نہیں

قَالَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ : اللَّهُمَّ أَنْتَ عَبْدِي وَأَنَا رَبُّكَ. أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ

 خوشی کی شدت میں ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں تو اس نے خوشی میں خطاء کر ڈالی

(مسلم حدیث2747)

.

وَالنَّاسِي وَهَذِهِ الْحَالَةِ لايؤاخذ فِيهَا وَهُوَ نَحْوُ قَوْلِ الْقَائِلِ الْآخَرِ الَّذِي غَلَبَ عَلَيْهِ الْفَرَحُ حِينَ وَجَدَ رَاحِلَتَهُ أَنْتَ عَبْدِي وَأَنَا رَبُّكَ فَلَمْ يَكْفُرْ

 بھول چوک اور خطا کے طور پر ایسے جملے نکلیں تو ان پر مواخذہ نہیں ہے وہ کفر اور تحریف نہیں ہے جیسے کہ کوئی شخص کہے کہ جب اسے اپنا کھویا ہوا سامان مل جائے تو وہ کہے اے اللہ میں تیرا رب ہوں اور تو میرا بندہ ہے تو اس کی تکبیر نہیں کی جائے گی

(شرح النووي على مسلم17/71)

 

أن الرجل صدر عنه ما صدر حالة خوف غالب عليه، فغلط، فلم

يؤاخذ بقوله ذلك، كما لم يؤاخذ القائل: اللهم أنت عبدي

 وأنا ربك

 ایک شخص نے خوف کی حالت میں یہ بات غلطی سے نکل گئی کہ اے اللہ تو میرا بندہ ہے میں تیرا رب ہوں تو اس کا مواخذہ نہیں کیا جائے گا اس پر کفر کا فتوی نہیں لگایا جائے گا

(المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم7/76,77)

.

قالوا: فهذا القول لو قاله على فهم منه بما يقول كان كفرًا، وإنما لم يكن منه كفرًا؛ لأنه قاله وقد استخفه الفرح من بدائه أن يقول: أنت ربي وأنا عبدك، فلم يكن مأخوذًا بما قال من ذلك، ويشهد لصحة هذا المعنى قوله تعالى: {وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ} [الأحزاب: ٥]

 اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ اللہ تعالی تم پر خطاؤں کی گرفت نہیں کرتا لیکن جو تم جان بوجھ کر کرو اس کی گرفت کرتا ہے... لہذا جو شخص جان بوجھ کر یہ کہے کہ اے اللہ تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں تو وہ کفر ہوگا اور اگر جان بوجھ کر نہ کہے خطا کے طور پر کہے تو پھر اس کا مواخذہ نہیں ہوگا

(التوضيح لشرح الجامع الصحيح29/517)

(شرح صحيح البخاري - ابن بطال10/193)

.

*#ایسی غلطی تشابہ وغیرہ تحریف نہیں،ایک مثال فقہ سے پیش ہے....!!

وَإِنْ لَمْ تُغَيِّرْ، فَإِنْ كَانَ فِي الْقُرْآنِ نَحْوُ - {وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا} [الإسراء: 23]- وَبِرًّا لَمْ تَفْسُدْ فِي قَوْلِهِمْ

 اگر کسی شخص نے(تشابہ غلطی وغیرہ کی وجہ سے)قران مجید میں ایسا لفظ ڈال دیا کہ جس سے معنی متغیر نہیں ہوتے اور وہ لفظ قران میں سے ہے تو پھر اس کی نماز نہیں ٹوٹے گی(کفر و تحریف نہیں) جیسے کہ لفظ احسان کے ساتھ ساتھ لفظ براً کا اضافہ کردے

(فتاوی شامی1/632)

.

وَإِنْ لَمْ تُغَيِّرْ الْمَعْنَى فَإِنْ كَانَتْ فِي الْقُرْآنِ نَحْوُ أَنْ يَقْرَأَ إنَّ اللَّهَ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا لَا تَفْسُدُ بِالْإِجْمَاعِ

 اگر کوئی کلمہ ایت میں زیادہ کر دیا اگر وہ قران میں سے ہے جیسے کہ کبیرا کے بعد بصیرا بھی پڑھے تو پھر اس کی نماز نہیں ٹوٹے گی(کفر و تحریف نہیں کہلائے گی)

( فتاوی عالمگیری1/80)

کفر و تحریف ایک منٹ کے لیے بھی ہو تو کفر ہوجاتا ہے نماز ٹوٹ جاتی ہے جبکہ یہاں نماز نہ ٹوٹنے کا فتوی دیا جا رہا ہے...یقینا یہ تحریف نہیں بلکہ زلۃ القاری غلطی تشابہ کے قبیل سے ہے

.

*#سوال سیدی اعلیٰ حضرت کے لیے راہ نکال لی تو ریاض شاہ کے لیے بھی کوئی تاویل نکال دیتے ان پر تحریف کا فتوی کیوں.....؟؟*

جواب:

عام طور پر ہر عالم عام خاص کے قول کو حتی المقدور صحیح ممکنہ معنی پر رکھا جاءے گا لیکن بار بار تحریفات و من مانیاں کوئی کرے گا تو اس کے متعلق علماء نے فرمایا کہ خبیث سے خبیث معنی ہی مقصود ہوا کرتے ہیں، انکی تاویل نہیں کریں گے بلکہ توبہ رجوع کراکے پابندی لگائیں گے

.

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ  اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ  بَعۡضَ الظَّنِّ   اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا(سورہ الحجرات آیت12)

والمؤمن ينبغي أن يحمل كلام أخيه المسلم على أحسن المحامل ، وقد  قال بعض السلف : لا تظن بكلمة خرجت من أخيك سوءا وأنت تجد لها في الخير  محملا .

فمن حق العلماء: إحسان الظن بهم؛ فإنه إذا كان من حق المسلم على المسلم أن يحسن الظن به ، وأن يحمل كلامه على أحسن المحامل، فمن باب أولى العالم

خلاصہ:

قرآن و حدیث میں حکم ہے کہ بدگمانی غیبت تجسس سے بچا جائے،اچھا گمان رکھا جائےاسی وجہ سےواجب ہےکہ مذمت تکفیر تضلیل تفسیق اعتراض کےبجائے عام مسلمان اور بالخصوص اہلبیت صحابہ اسلاف صوفیاء و علماء کےکلام.و.عمل کو

حتی الامکان

اچھےمحمل،اچھے معنی،اچھی تاویل پےرکھاجائے

(دیکھیےفتاوی حدیثیہ1/223...فتاوی العلماءالکبار فی الارہاب فصل3...فھم الاسلام  ص20...الانوار القدسیہ ص69)

.

،قال عمر رضی اللہ عنہ

ولا تظنن بكلمة خرجت من مسلم شراً وأنت تجد لها في الخير محملا

حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں

مسلمان کوئی بات کرے اور آپ اس کا اچھا محمل و معنی  پاتے ہوں تو اسے برے معنی پر محمول ہرگز نہ کریں 

(جامع الاحادیث روایت31604)

.

سیدی اعلٰی حضرت امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ بعض محتمل لفظ جب کسی مقبول سے صادر ہوں بحکمِ قرآن انہیں "معنی حسن" پر حمل کریں گے، اور جب کسی مردود سے صادر ہوں جو صریح توہینیں کرچکا ہو تو اس کی خبیث عادت کی بنا پر معنی خبیث ہی مفہوم ہوں گے کہ:

 کل اناء یترشح بما فیہ صرح بہ الامام ابن حجر المکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔

 ہر برتن سے وہی کچھ باہر آتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے... 

(فتاوی رضویہ : ج29، ص225)

.

*#دوسری بات.....!!*

تم چمن زمان اور ریاض شاہ مشہدی وغیرہ نیم رافضی بھی صراحتا یا حکما کہہ چکے کہ اعلیٰ حضرت کے تم ماننے والے ہو،انہیں اکابرین میں سمجھتے ہیں

چمن زمان ایک طرف سیدی اعلیٰ حضرت کے متعلق کہتا ہے کہ سنگین تحریف کی اعلیٰ حضرت نے اور یہ تحریف اعلیٰ حضرت ہی کی کہلائے گی کتابت کاتب جامع ناقل کے کھاتے میں نہیں ڈالی جائے گی اس طرح چمن زمان نے ایک طرح سے دوٹوک فتوی دے دیا کہ سیدی اعلیٰ حضرت نے سنگین تحریف لفظی کی ہے

.

اب ہمارا سوال یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت کی سنگین تحریف لفظی پر مطلع ہوکر اسے دلائل سے ثابت کرکے تم نے کفر کا فتوی لگانے میں سستی کیوں کی...؟؟ کس کا ڈر تھا....،؟؟ کیا لالچ تھی....؟؟ کیا مکاری تھی....؟؟ اعلیٰ حضرت کے نام پے کھانے کا مسئلہ تو نہیں ہے...؟؟ شیعوں وہابیوں نجدیوں کو بھی خوش کردیا اور دوسری طرف اہلسنت میں قدم جماءے رکھنے کے لیے کہہ دیا کہ جی اعلیٰ حضرت ٹھیک تھے.....؟؟

.

چمن زمان صاحب منافقت عیاری مکاری چاپلوسی پیسہ پرستی شہرت پرستی فتنہ فساد والے مت بنو...سیدھی سیدھی بات کہو...اگر اعلیٰ حضرت کی عبارت تحریف لفظی نہیں سمجھتے تو اسکی نفی دلاءل سے کرتے مگر اندر کا بغض نکالا اور توجیہ بیان نہ کی...یہ دوگنا پالیسی منافقت مکاری نہیں تو اور کیا ہے.....،؟؟ عوام کو دھوکہ دینا نہیں تو کیا ہے....؟؟

.


*#منافقت_دوغلاپالیسی_مکاری_کی مذمت پے  مختصرا چند ایات و احادیث ملاحظہ کیجیے.......!!*

القرآن:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوۡلُوۡا  قَوۡلًا  سَدِیۡدًا

 اے ایمان والو تقوی پرہیزگاری کرو اللہ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی بات کہو

(سورہ احزاب ایت70)

تقوی پریزگاری اور اللہ کا ڈر ہونا چاہیے، پیسے شہرت طاقت  واہ واہ وغیرہ کی لالچ نہیں ہونی چاہیے....گول مول باتیں، گول مول تقریریں، گول مول رجوع ٹھیک نہیں... سیدھی سیدھی بات کہیے... غلطی ہوجائے تو سیدھا کہیے کہ مجھ سے غلطی ہوگئ توبہ رجوع دل سے کرتا ہوں اور فلاں فلاں غلط باتیں کالعدم قرار دیتا ہے ان سے توبہ رجوع کرتا ہوں اور آئندہ احتیاط کرونگا

.

الحدیث:

إن شر الناس ذو الوجهين

ترجمہ:

لوگوں میں سے بدترین و شریر و فسادی وہ ہے جو دو چہرے(ڈبل پالیسی، منافقت) والا ہو...(بخاری حدیث7179)

.

إِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ ذَا الْوَجْهَيْنِ ؛ الَّذِي يَأْتِي هَؤُلَاءِ بِوَجْهٍ، وَهَؤُلَاءِ بِوَجْهٍ

لوگوں میں سے بدترین شریر فسادی وہ ہے جو دو چہروں والا ہو ایک طرف ایک بات کہے دوسری طرف دوسری بات کہے 

(مسلم حدیث2526)

.

كُنَّا نَعُدُّهَا نِفَاقًا

صحابی سیدنا ابن عمر نے فرمایا کہ اسکو( یعنی ایک طرف ایک بات کرنا دوسری طرف اسکے برخلاف دوسری بات کرنا اس کو) ہم منافقت شمار کرتے ہیں

(بخاری روایت7178)

.

الحدیث:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَى الْمَالِ وَالشَّرَفِ

لِدِينِهِ

دو بھوکے بھیڑیے اگر بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دئیے جائیں تو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا کہ مال و دولت کی حرص اور حب جاہ(طلب شہرت،حبِ ناموری)مومن کے دین کو نقصان پہنچاتے ہیں(ترمذی حدیث2376)

#لیڈر وہی، #علماء وہی ،#مبلغ،واعظ،استاد وہی جو لکھتےہیں،تقریر کرتےہیں،سمجھاتے ہیں،خدمات کرتے ہیں اسلام و خلوص و حق کےلیے…جو منافقت ایجنٹی پیسے،شہرت ناموری لائکس واہ واہ کی لالچ نہیں رکھتے…جو شہرت دولت کےبھوکے نہیں ہوتے……!! #سلام_انہیں

.

الحدیث...مَلْعُونٌ مَنْ ضَارَّ مُؤْمِنًا، أَوْ مَكَرَ بِهِ 

ترجمہ: لعنتی ہے وہ شخص جو کسی مسلمان کو نقصان پہنچاے یا اس کے ساتھ مکر.و.فریب کرے..(ترمذی حدیث1941)

.

دھوکہ..الحدیث: لَيْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ

ترجمہ: جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں.(ابن ماجہ حدیث2224)

.

*#تیسری بات......!!*

اے گروہ سادات ہوش کے ناخن لیجیے...ایسے چمچے چاپلوس یس بوس یس بوس کرنے والوں سے دور رہیے، انکے بظاہر ادب کو ادب نہ سمجھیے یہ انکا مسکہ لگانا ہے، یہ آپ کے نام پے اور اکابرین کے نام پے کھانے والے شر فساد پھیلانے والے، توجہ رجوع کی طرف مائل نہ کرنے والے مکار ایجنٹ پیسہ شہرت پرست لوگ ہیں...انہیں اپنے سے دور رکھیے

.

اہلبیت اطہار نے توجہ دلا دی تھی کہ:

كَذَّابٌ....قَاتَلَهُمُ اللَّهُ، إِنْ كَانُوا لَيَأْكُلُونَ بِنَا

جھوٹے مکار ، یہ لوگ تو ہم اہلبیت کے نام پے کھانے والے ہیں

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة روایت2695)

مکار جھوٹے تضاد بیانی کرنے والے من گھڑت جھوٹی موضوع روایات باتیں بنانے والے ، پھیلانے والے مفتری من موجی مکار بےحیاء پیسہ پرست جعلی محب شیعہ رافضی نیم رافضی برحق محب نہیں بلکہ اہلبیت کے نام پے کھانے والے مکار جھوٹے باطل کذاب مردود ہیں

.

فنڈ دولت نذرانے شہرت لائکس ایجنٹی لالچ چمچہ گیری انانیت کے لیے لکھنے بولنے والے سیاستدان صحافی لکھاری ذاکر ماکر شیعہ لھابی نیم رافضی سب باطل و مردود ہیں،سچےاہلسنت حق گو زندہ باد…

.

قال داود عليه السلام:ِ

وَاعْلَمْ أَنَّكَ كَمَا تَزْرَعُ كَذَلِكَ تَحْصُدُ، وَإِذَا وعدتَ صاحِبَك فَأَنْجِزْ لَهُ مَا وعدتَّهُ. فَإِنْ لَا تَفْعل يُؤرِثُ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ، وَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْ صَاحِبٍ إِنْ ذكرتَ لَمْ يُعِنْك وَإِنْ نسيتَ لَمْ يُذَكِّرك

ترجمہ:

①جان لو جیسا کاشت کرو گے ویسا پھل پاؤ گے،(جیسا کرو گے ویسا بھرو گے)

②اور جب تم کسی سے وعدہ معاہدہ کرو تو پورا کرو، ایسا نہ کیا تو تمھارے درمیان عداوت و دشمنی ہوگی(اس کا وبال اس پر ہوگا جس نے بدعہدی کی، بدعہدی کرکے بھی بلاتوبہ و رجوع کیے دوستی تعریف و عزت کا مطالبہ کرنا بےوقوفی یا غنڈہ گردی ہے)

③اور اللہ کی پناہ مانگ اس شخص(دوست، وزیر،مشیر) سے جس سے تم ذکر کرو اور وہ تمھاری مدد نہ کرے اور اگر تم بھول جاؤ تو تمھیں یاد نہ دلائے..

(ادب مفرد بخاری روایت138 مع حذف)

.

سمجھدار برحق سلجھے ہوئے ناقدین مشیر دوست معاونین  عظیم نعمت ہیں،بہت ضروری ہیں

اور

خود کو عقل کل سمجھنے والے، دوسروں کو غلام و کم عقل سمجھنے والے ، یا سمجھانے والوں کے بجائے چمچے چاپلوس درباری پالنے والے، ییس بوس ییس بوس کرنے والوں کو رکھنے والےاندھی واہ واہ کرنے والوں کو پسند کرنے والے

#اکثر_گمراہ و ظالم و متکبر بن جاتے ہیں...بات کفر و الحاد تک پہنچ جاتی ہے کبھی....!!

.

*#چوتھی بات......!!*

دوگنا پالیسی منافقت گول مول باتون کے بجائے سیدھا سیدھا کہتے کہ تحریف ہوئی یا نہ ہوئی...ایک طرف کہا کہ سنگین تحریف لفظی کی سیدی اعلیٰ ھضرت نے اور دوسری طرف کہتے ہو ہم اعلیٰ حضرت کے ماننے والے ہیں...تو تمھارا کفر کا فتوی تم پر ہی لوٹ آیا ناں....کیونکہ ہم تو اعلیٰ حضرت سے تحریف کی نفی کرتے ہیں جیسے کہ ہم ثابت کریں گے، مگر تم مکاری چاپلوسی عیاری منافقت کے بجائے بحکم قران و حدیث حق و سیدھی بات کہتے اگرچے کسی کو کڑوی لگتی مگر گول مول و تضاد بیانی مکاری سے کام چلا لیا جوکہ تمھارے باطل ہونے کی واضح نشانی ہے

القرآن..ترجمہ:

حق سے باطل کو نا ملاؤ اور جان بوجھ کر حق نہ چھپاؤ

(سورہ بقرہ آیت42)


.

الحدیث..ترجمہ:

خبردار...!!جب کسی کو حق معلوم ہو تو لوگوں کی ھیبت

(رعب مفاد دبدبہ خوف لالچ) اسے حق بیانی سے ہرگز نا روکے

(ترمذی حدیث2191)

.

الحدیث.. ترجمہ:

حق کہو اگرچے کسی کو کڑوا لگے

(مشکاۃ حدیث5259)

.#############

*#اعلی حضرت پے دیگر تحریفات معنوی کے الزامات کے سے پہلے اہم قاعدہ ذہن میں رہے کہ آیت و حدیث سے کئی معنی مستند طریقے سے لیے جاسکتے ہیں، ایک معنی لینا ضروری نہیں بلکہ کئ معتبر مستند تفاسیر کی جاسکتی ہے بشرطیکہ اصول و قواعدد وغیرہ شرائط و دلائل سے کی جائیں الا یہ کہ ایک معنی کوئی نص متعین کردے....اور تحریف معنوی کسے کہتے ہیں........؟؟*

.

بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْكَلِمِ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے جوامع الکلم کے ساتھ بھیجا گیا ہے

(بخاری حدیث7013)

.

أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ

 نبی کریم روف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے جوامع الکلم عطا کیے گئے ہیں

(مسلم حدیث523)

.

معناه: إيجاز الكلام في إشباع للمعاني، يقول الكلمة القليلة الحروف، فتنتظم الكثير من المعنى، وتتضمن أنواعا من الأحكام. وفيه: الحض على حسن التفهم، والحث على الاستنباط لاستخراج تلك المعاني،

 مذکورہ احادیث میں بخاری شریف اور مسلم شریف کی احادیث میں یہ معنی بتائے گئے ہیں کہ کلام کے بہت سارے معنی ہوتے ہیں ایک قلیل کلمہ بہت سارے معنی کو شامل ہوتا ہے کئی سارے احکامات کو شامل ہوتا ہے تو اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ ان معنی کو سمجھا جائے اور ان معنی کا استنباط کیا جائے دلائل کے ساتھ

(أعلام الحديث شرح صحيح البخاري 2/1442)

.

.يَعْنِي الْقُرْآن جمع الله تَعَالَى فِي أَلْفَاظ يسيرَة مِنْهُ مَعَاني كَثِيرَة

وَكَذَلِكَ كَانَ صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَكَلَّمُ بِأَلْفَاظٍ يَسِيرَةٍ تَحْتَوِي عَلَى مَعَاني كَثِيرَة

 حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قران پاک میں کم الفاظوں میں کئی سارے معنی بھر دیے ہیں اور اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات میں بہت بہت سارے معنی موجود ہوتے ہیں

(حاشية السندي على سنن النسائي6/3)

.

و {جوامع الكلم} أي الكلمات القليلة الجامعة للمعاني الكثيرة

 جوام الکلم سے مراد یہ ہے کہ قلیل جملے ہوں اور وہ بہت سارے معنی کو جامع ہوں

( الكواكب الدراري في شرح صحيح البخاري25/30)

.

يَعْنِي بِهِ الْقُرْآنَ جَمَعَ اللَّهُ تَعَالَى فِي الْأَلْفَاظِ الْيَسِيرَةِ مِنْهُ الْمَعَانِيَ الْكَثِيرَةَ وَكَلَامُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ بِالْجَوَامِعِ قَلِيلُ اللَّفْظِ كَثِيرُ الْمَعَانِي

حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قران پاک میں کم الفاظوں میں کئی سارے معنی بھر دیے ہیں اور اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات میں بہت بہت سارے معنی موجود ہوتے ہیں

( شرح النووي على مسلم5/5)

.

أي: الألفاظ القليلة تجمع المعاني الكثيرة كالقرآن، وكثير من الأحاديث

 جوامع الکلم سے مراد یہ ہے کہ الفاظ قلیل ہوں مگر کثیر معنی کو جامع ہوں جیسے کہ قران اور کئی احادیث

( التوشيح شرح الجامع الصحيح5/1984)


قرآن مجید کے الفاظ بھی جامع ہیں اور حضور صلی الله علیہ وسلم کے اپنے الفاظ بھی نہایت جامع ہیں کہ لفظ تھوڑے معنی مطلب بہت زیادہ۔

(مراۃ شرح مشکواۃ8/5747)

.

*#نتیجہ......!!*

اوپر احایث سے دوتوک ثابت ہوا کہ قران اور احادیث کے کئی معنی ہیں کئی تفسیریں ہیں کئی معنی مراد ہو سکتے ہیں مگر ان کو نکالنے کے لیے دلائل کی ضرورت ہے لغت کی ضرورت ہے تفاسیر کی ضرورت ہے احادیث کی ضرورت ہے علم المعانی کی ضرورت ہے منطق کی ضرورت ہے دیگر علوم فنون کی ضرورت ہے انہی دلائل کے ساتھ مختلف معنی و تفاسیر اخذ کیے جا سکتے ہیں

لیکن

اپنی طرف سے معنی بیان کرنا انتہائی جرم ہے اکثر کفر تحریف گمراہی ہوجاتا ہے

الحدیث...مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے قران میں بغیر صحیح علم کے کچھ کہا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے(یعنی بغیر معتبر علم کے تفسیر بالرائے کی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے)

(ترمذی حدیث2950)

.

من قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ حَدَّثنا عَنْهُ مُحَمَّدُ بن الْمُنْذر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے قران میں اپنی رائے سے کچھ کہا(بغیر معتبر علم کے تفسیر بالرائے کی)تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے

(الثقات لابن حبان حدیث13913)

.

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ»

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے قران میں اپنی رائے سے کچھ کہا(بغیر معتبر علم کے تفسیر بالرائے کی)تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے

(شرح السنة للبغوي حدیث117)

.

مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے قران میں بغیر صحیح علم کے کچھ کہا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے(یعنی بغیر معتبر علم کے تفسیر بالرائے کی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے)

(شرح السنة للبغوي حدیث117)

.

قال قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "مَن قَال في القُرآن بغير علمِ فَلْيتَبَوَّأ مَقعدَه من النّار

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے قران میں بغیر صحیح علم کے کچھ کہا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے(یعنی بغیر معتبر علم کے تفسیر بالرائے کی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے)

(شعب الایمان امام بیھقی حدیث2079)

.

وَمَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے قران میں اپنی رائے سے کچھ کہا(بغیر معتبر علم کے تفسیر بالرائے کی)تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے

(ترمذی حدیث2951)

.

انفرادی طور پر مذکورہ روایات و حدیث کو ضعیف مان بھی لیا جائے تو بھی تعدد طرق کی وجہ سے حسن و معتبر کہلائے گی کیونکہ سنی شیعہ نجدی سب کا متفقہ اصول ہے کہ تعدد طرق سے ضعیف روایت حسن و معتبر بن جاتی ہے

وقد يكثر الطرق الضعيفة فيقوى المتن

تعدد طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے اور(حدیث و روایت کا) متن قوی(معتبر مقبول صحیح و حسن)ہوجاتا ہے

(شیعہ کتاب نفحات الازھار13/55)

أن تعدد الطرق، ولو ضعفت، ترقي الحديث إلى الحسن

بےشک تعدد طرق اگرچہ ضعیف ہوں ان سے ضعیف روایت و حدیث حسن و معتبر بن جاتی ہے(اللؤلؤ المرصوع ص42)

لِأَنَّ كَثْرَةَ الطُّرُقِ تُقَوِّي

کثرت طرق(تعدد طرق)سے روایت و حدیث کو تقویت ملتی ہے(اور ضعف ختم ہوجاتا ہے)

(تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ,1/179)

وإنما يحكم له بالصحة عند تعدد الطرق) أي أو طريق واحد مساو له، أو أرجح

ضعیف حدیث کی ایک اور مساوی ضعیف سند مل جائے یا ایک ارجح سند مل جائے یا ایک سے زائد ضیف سندیں مل جائیں تو اس تعددِ طرق سے ضعیف حدیث صحیح(و حسن معتبر قابل دلیل) کہلاتی ہے

(شرح نخبۃ الفکر للقاری1/297)

.

*#تفسیر بالرائے کی وضاحت......!!*

(من قال في القرآن برأيه) القول بالرأي ما لا يكون مؤسسًا على علوم الكتاب والسنة من قواعد العربية المقررة عند الجمهور، وأصول الإسلام المسلمة عند العلماء

 جس نے قران میں محض اپنی رائے سے کچھ کہا یعنی ایسی بات کہی کہ جو قران و سنت سے ماخوذ نہیں قواعد عربیہ سے ماخوذ نہیں اصول اسلام سے ماخوذ نہیں( تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے)

( لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح1/570)

.

ولا يجوز تفسير القرآن بمجرد الرأي والاجتهاد، من غير أصل قال الله: {وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْم} [لإسراء: ٣٦] وقال: {وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ} [البقرة: ١٦٩]

بغیر اصل کے محض اپنی رائے و عقل سے قران مجید کی تفسیر کرنا جائز نہیں ہے اس پر یہ دو آیات دلیل ہیں

وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْم} [لإسراء: ٣٦]

{وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ} [البقرة: ١٦٩]

(التنوير شرح الجامع الصغير1/332)

.

المراد بالرأي قول لا يكون مؤسساً على علوم الكتاب والسنة، بل يكون قولا يقوله برأيه على حسب ما يقتضيه عقله

تفسیر بالرائے کی جو مذمت ہے وہ اس تفسیر بالرائے کی مذمت ہے جو قرآن کے علوم حدیث و سنت کے علوم سے ماخوذ نہ ہو بلکہ محض اپنی عقل کی بنیاد پر ہو

(شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن2/689)

.

من تكلم في القرآن (برأيه) أي بما سنح في ذهنه وخطر بباله من غير دراية بالأصول ولا خبرة بالمنقول

تفسیر بالرائے کی جو مذمت ہے وہ اس تفسیر بالرائے کی مذمت ہے کہ بندہ جو ذہن میں آئے جو دل میں ائے تفسیر کرے اور اسکی بنیاد اصول و منقولات پر نہ ہو

(فيض القدير6/190)

.

(مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ) أَيْ: قَوْلًا (بِغَيْرِ عِلْمٍ) أَيْ: دَلِيلٍ يَقِينِيٍّ أَوْ ظَنِّيٍّ نَقْلِيٍّ أَوْ عَقْلِيٍّ مُطَابِقٍ لِلشَّرْعِيِّ (فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ) . قِيلَ: يُخْشَى عَلَيْهِ مِنَ الْكُفْرِ.....فَإِنَّهُ مَأْجُورٌ بِخَوْضِهِ فِيهِ

 جس نے قران میں بغیر علم یقینی کے یا علم ظنی نقلی کےبغیر یا علمِ عقلی جو شریعت کے مطابق ہو اس کے بغیر کچھ کہا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے علماء فرماتے ہیں کہ ایسی تفسیر بالرائے کرنے والے پر کفر کا اندیشہ ہے ہاں جو تفسیر بالرائے دلیل شرعی معتبر علم سے کرے تو اس پر ثواب ملے گا

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح1/309 310ملتقطا)

.

، وكل من فسر القرآن برأيه فهو ملحد

 جو قران کی تفسیر محض اپنی رائے سے کرے تو وہ ملحد(بےدین بدمذہب)ہے

(نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار1/42)

.

اتفق العلماء المخلصون على أن تفسير القرآن بالرأي المذموم ممتنع وحرام، بل كفر صريح

 مخلص علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قران کی تفسیر بالرائے جو مذموم ہے وہ تفسیر کرے تو ممنوع و حرام بلکہ صریح کفر ہے

(مقدمہ تفسير الماتريدي = تأويلات أهل السنة1/267)

.

ومن قال ذلك في الآيات المؤولة برأيه كان جاعلًا نفسه بمنزلة صاحب الوحي في العلم بمراد الله تعالى برأيه وهو كفر، فلذلك "يتبوأ مقعدة من النار"؛ لأن النار معدة للكافرين

 جو کوئی قران کی اس طرح تفسیر بالرائے کرے کہ اپنے اپ کو صاحب وحی کے مرتبے میں رکھ کر کچھ کہے تو یہ کفر ہے اور وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے اور کیونکہ جہنم ٹھکانہ ہے کافروں کا

(الكافي شرح أصول البزودي1/221)

.

امام اہلسنت مجدد دین و ملت سیدی امام احمد رضا علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

پس ثابت ہوا کہ اس بیت سے مراد قلب آدم ہے'' یہ اللہ سبحانہ پر پانچواں افتراء بھی ہے اور قرآن کی تفسیر بالرائے بھی اور بتصریح کتب عقائد الحاد بھی کہ معنی ظاہر باطل کرکے باطنیہ کی طرح باطنی گھڑے، متن عقائد امام اجل نسفی رضی اللہ تعالی عنہ میں ہے :النصوص تحمل علی ظواھر ھاواالعدول عنھا الی معان یدعیھا اھل الباطن الحاد ۲؎۔

نصوص اپنے ظاہر پر حمل کئے جاتے ہیں، لہذا ظاہر معانی سے ہٹ کر اپنے معانی تراش لینا کہ جن کا اہل باطن دعوی کرتے ہیں سراسر بے دینی ہے۔ (ت)(۲؎ مجموع المتون فی مختلف الفنون متن العقائد النسفیہ فی التوحید الشؤن الدینیۃ دولۃ قطر ص۶۱۸)

(فتاوی رضویہ22/512)

.

#تحریف معنوی اسے کہتے ہیں کہ*

أما التحريف المعنوي فإنه عبارة عن التأويلات الفاسدة وحمل الآيات على غير معانيها المرادة

 تحریف معنوی یہ ہے کہ فاسد تاویل کی جائے یا ایت کو غیر مراد معنی پر محمول کیا جائے

(كتاب الفوز الكبير في أصول التفسير ص45)

.

أَمَّا تَغْيِيرُ الْمَعْنَى بِتَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَلَى غَيْرِ الْوَجْهِ الْمُرَادِ بِهِ، فَهُوَ نَوْعٌ شَدِيدٌ مِنَ التَّحْرِيفِ

 قران کی وہ تفسیر کرنا کہ جس سے مرادی معنی بدل جائیں تو یہ شدید قسم کی تحریف ہے

(الموسوعة الفقهية الكويتية 10/202)


.

*#تحریف معنوی کفر ہے.....!!*

ومن استباح حراماً فقد كفر وإذا احتج بالقرآن على وجه التحريف فقد جمع بين كفرين

 جس نے حرام کو حلال جانا اس نے کفر کیا اور جس نے قران میں وہ معنی لیے جو تحریف کے طور پر ہوں تو اس نے دو کفر کیے

(تفسير النسفي = مدارك التنزيل وحقائق التأويل2/604)

.

وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ بالتحريف والكفر بما يصدقه فَأُولئِكَ هُمُ الْخاسِرُونَ

 جو تحریف کر کے کفر کرے یا انکار کر کے کفر کرے تو وہ خسارے میں ہیں

(تفسیر البیضاوی1/104)

.###############

*#دلیل کے ساتھ قرآن و حدیث کے الفاظوں میں اجتہاد و رائے سے دیگر معنی مراد لینا تفسیر بالرائے تو ہے لیکن اسکی مذمت نہیں کیونکہ اسکی اجازت قرآن اور صحابہ کرام اہلبیت عظام سے ثابت ہے،کیونکہ قرآن اور احادیث بہت سارے معنی کو جامع ہوتے ہیں جیسے کہ کچھ دلائل اوپر گذرے...مزید چند دلائل ملاحظہ کیجیے.....!!*

الِاجْتِهَادُ وَالِاسْتِنْبَاطُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِجْمَاعُ الْأُمَّةِ هُوَ الْحَقُّ الْوَاجِبُ، وَالْفَرْضُ اللَّازِمُ لِأَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِذَلِكَ جَاءَتِ الْأَخْبَارِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَنْ جَمَاعَةِ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ. وَقَالَ أَبُو تَمَّامٍ الْمَالِكِيُّ: أَجْمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلَى الْقِيَاسِ

 قرآن مجید اور سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجتہاد کرنا اور استنباط و قیاس کرنا اور اجماع امت یہ سب حق اور واجب ہیں، قرآن و حدیث سنت و اقوال صحابہ پر اجتہاد و قیاس کرنا اہل علم پر فرض اور لازم ہے... یہی حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اکثر صحابہ اور تابعین سے مروی ہے، ابو تمام مالکی فرماتے ہیں کہ تمام علماء کا اجماع ہے کہ قیاس شرعی چیز ہے، شرعی دلیل ہے

(تفسير القرطبي = الجامع لأحكام القرآن7/172)

.

القرآن:

لَوۡ رَدُّوۡہُ  اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ

اگر معاملات و مسائل کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط(اہلِ تحقیق،باشعور،باریک دان،سمجھدار علماء صوفیاء)ضرور جان لیتے

(سورہ نساء آیت83)

 آیت مبارکہ میں واضح حکم دیا جارہا ہے کہ اہل استنباط کی طرف معاملات کو لوٹایا جائے اور انکی مدلل مستنبط رائے و سوچ و حکم کی تقلید و پیروی کی جائے.....!!

.

يَسْتَخْرِجُونَهُ وَهُمُ الْعُلَمَاءُ..الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُنَافِقِينَ، لَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى ذَوِي الرَّأْيِ وَالْعِلْمِ،...وَفِي الْآيَةِ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ الْقِيَاسِ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ مَا يُدْرَكُ بِالتِّلَاوَةِ وَالرِّوَايَةِ وَهُوَ النَّصُّ، وَمِنْهُ مَا يُدْرَكُ بِالِاسْتِنْبَاطِ وَهُوَ الْقِيَاسُ عَلَى الْمَعَانِي الْمُودَعَةِ فِي النُّصُوصِ

 اہل استنباط سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جو احکام و نکات نکالتے ہوں اور وہ علماء ہیں... آیت میں منافقین اور مومنین سب کو حکم ہے کہ وہ معاملات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دیں اور اہل علم کی طرف لوٹا دیں اور رائے و قیاس کرنے والوں کی طرف لوٹا دیں... اس آیت میں دلیل ہے کہ قیاس کرنا بالکل جائز ہے کہ علم وہ ہوتا ہے کہ جو نص یعنی قرآن اور حدیث و سنت سے ملتا ہے یا پھر ان سے نکالا جاتا ہے یہی تو قیاس ہے

(تفسیر بغوی2/255)

.

الحدیث:

حدثنا حفص بن عمر، عن شعبة، عن ابي عون، عن الحارث بن عمرو اخي المغيرة بن شعبة، عن اناس من اهل  حمص، من اصحاب معاذ بن جبل، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، لما اراد ان يبعث معاذا إلى اليمن، قال:" كيف تقضي إذا عرض لك قضاء؟، قال: اقضي بكتاب الله، قال: فإن لم تجد في كتاب الله؟، قال: فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فإن لم تجد في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا في كتاب الله؟، قال: اجتهد  رايي ولا آلو، فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم صدره، وقال: الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله لما يرضي رسول الله".

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کرب بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟“ تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پاس کو تو کیا کرو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے

(ابوداؤد حدیث3592)

.

ضعفه الشيخ الألباني، ولكن بعض أهل العلم صححه أو حسنه، ومنهم ابن كثير في أول تفسير سورة الفاتحة، وكذلك الشوكاني حسنه وقال: إن ابن كثير جمع فيه جزءاً وقال: كذلك أيضاً أبو الفضل بن طاهر المقدسي جمع فيه جزءاً.وقد وجدت آثار عن عدد من الصحابة تدل على ما دل عليه

 ابو داود شریف کی مذکورہ حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن بعض اہل علم نے اس حدیث کو صحیح و دلیل قرار دیا ہے یا پھر حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے جیسے کہ امام ابن کثیر نے اور جیسے کہ امام شوکانی نے صحیح یا حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے... بعض ائمہ نے تو اس حدیث کی تائید و تخریج و شرح پر کتب و رسائل تک لکھے ہیں... صحابہ کرام سے بہت سارے آثار مروی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے قرآن اور حدیث بھر اقوال صحابہ پھر ان پر کیا گیا اجتہاد و قیاس  کرنا اور عمل کرنا کرانا جائز بلکہ لازم و برحق ہے

(شرح ابوداود للعباد تحت الحدیث3592)

.

.

یہ حدیث مبارک مشعل راہ ہے کہ قران پھر حدیث و سنت پھر قیاس و استدلال و رائے....اس حدیث مبارک سے واضح ہوتا ہے کہ قران حدیث و سنت سے اجتہاد و استدلال کرنا برحق و ماہر علماء کا منصب بلکہ ذمہ داری ہے....استدلال و قیاس کرنے میں سب متفق ہوں یہ ضروری نہیً لیھذا غیرمنصوص ظنیات و فروعیات میں کبھی اختلاف ہونا فطری عمل ہے


الحدیث:

 قال النبي صلى الله عليه وسلم لنا لما رجع من الأحزاب: «لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة» فأدرك بعضهم العصر في الطريق، فقال بعضهم: لا نصلي حتى نأتيها، وقال بعضهم: بل نصلي، لم يرد منا ذلك، فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم، فلم يعنف واحدا منهم

ترجمہ:

غزوہ احزاب سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم(یعنی صحابہ کرام) سے فرمایا کہ:

تم میں سے ہر ایک بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھے" (صحابہ کرام نے جلد پہنچنے کی بھر پور کوشش کی مگر)راستے میں عصر کا وقت ختم ہونے کو آیا تو کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ ہم عصر نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی پڑہیں گے اور کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ نبی پاک کا یہ ارادہ نا تھا(کہ نماز قضا ہو اس لیے) ہم عصر پڑھ لیں گے

(طبرانی ابن حبان وغیرہ کتب میں روایت ہے جس میں ہے کہ کچھ صحابہ نے راستے میں ہی عصر نماز پڑھ لی اور کچھ نے فرمایا کہ ہم رسول کریم کی تابعداری اور انکے مقصد میں ہی ہیں لیھذا قضا کرنے کا گناہ نہین ہوگا اس لیے انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر نماز پڑھی)

پس یہ معاملہ رسول کریم کے پاس پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک پر بھی ملامت نا فرمائی

(بخاری حدیث946)

.

دیکھا آپ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کا قیاس و استدلال اور اس میں اختلاف... صحابہ کرام نے اس برحق اختلاف پر ایک دوسرے کو کافر منافق فاسق گمراہ گستاخ نہیں کہا اور نبی پاک نے بھی کسی کی ملامت نا فرمائی...ایسا اختلاف قابل برداشت ہے بلکہ روایتوں مین ایسے فروعی برحق پردلیل باادب اختلاف کو رحمت فرمایا گیا ہے

لیکن

*#ایسے اجتہاد و قیاس و رائے و اشارات اخذ کرنے کے لیے انداز و الفاظ بھی ٹھیک ہوں اور علوم و فنون پر مہارت بھی ہو.....!!*

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ: «مَنْ كَانَ عَالِمًا بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَبِقَوْلِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَا اسْتَحْسَنَ فُقَهَاءُ الْمُسْلِمِينَ وَسِعَهُ أَنْ يَجْتَهِدَ رَأْيَهُ...قال الشافعی لَا يَقِيسُ إِلَّا مَنْ جَمَعَ آلَاتِ .الْقِيَاسِ وَهَى الْعِلْمُ بِالْأَحْكَامِ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَرْضِهِ وَأَدَبِهِ وَنَاسِخِهِ وَمَنْسُوخِهِ وَعَامِّهِ وَخَاصِّهِ وإِرْشَادِهِ وَنَدْبِهِ

....وَلَا يَكُونُ لِأَحَدٍ أَنْ يَقِيسَ حَتَّى يَكُونَ عَالِمًا بِمَا مَضَى قَبْلَهُ مِنَ السُّنَنِ، وَأَقَاوِيلِ السَّلَفِ وَإِجْمَاعِ النَّاسِ وَاخْتِلَافِهِمْ وَلِسَانِ الْعَرَبِ وَيَكُونُ صَحِيحَ الْعَقْلِ حَتَّى يُفَرِّقَ بَيْنَ الْمُشْتَبِهِ، وَلَا يُعَجِّلَ بِالْقَوْلِ وَلَا يَمْتَنِعَ مِنَ الِاسْتِمَاعِ مِمَّنْ خَالَفَهُ لَأَنَّ لَهُ فِي ذَلِكَ تَنْبِيهًا عَلَى غَفْلَةٍ رُبَّمَا كَانَتْ مِنْهُ.... وَعَلَيْهِ بُلُوغُ عَامَّةِ جَهْدِهِ، وَالْإِنْصَافُ مِنْ نَفْسِهِ حَتَّى يَعْرِفَ مِنْ أَيْنَ قَالَ مَا يَقُولُ

 امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے شاگرد رشید محمد بن حسن فرماتے ہیں کہ جو کتاب اللہ کا عالم ہو سنت رسول اللہ کا عالم ہوتا ہے اور صحابہ کرام کے اقوال کا عالم ہو اور فقہاء کے اجتہاد و استنباط و قیاس کا عالم ہو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ قیاس و اجتہاد کرے... امام شافعی فرماتے ہیں کہ قیاس و اجتہاد وہی کرسکتا ہے کہ جس نے قیاس کے لیے مطلوبہ علوم و فنون میں مہارت حاصل کی ہو، مثلا قرآن کریم(اور سنت رسول) کے احکامات کا علم ہو قرآن کریم(و سنت رسول) کے فرض واجبات آداب ناسخ  منسوخ عام خاص اور اس کے ارشادات و مندوبات وغیرہ کا علم ہو... قیاس و اجتہاد صرف اس عالم کے لئے جائز ہے کہ جو عالم ہو سنتوں کا، اسلاف(صحابہ کرام تابعین عظام و دیگر ائمہ)کے اقوال کا عالم ہو، اسلاف کے اجماع و اختلاف کا عالم ہو، لغت عرب کے فنون کا عالم ہو، عمدہ عقل والا ہو تاکہ اشتباہ سے بچ سکے،اور جلد باز نہ ہو،اور مخالف کی بات سننے کا دل جگرہ رکھتا ہوکہ ممکن ہے یہ غفلت میں ہو اور مخالف کی تنقید سے غفلت ہٹ جائے اور اس پر واجب ہے کہ دلائل پر بھرپور غور کرے انصاف کے ساتھ بلاتعصب اور اسے پتہ ہونا چاہیے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے کس بنیاد پر کہہ رہا ہے

(جامع بیان العلم و فضلہ2/856)

.#################

مفسرین و شارحیں فقہاء و علماء و صوفیاء نے دوٹوک فرمایا لکھا کہ سبب و شان نزول کی وجہ سے عمومِ ایت و حدیث کو خاص نہیں کرسکتے بشرطیکہ عموم وسیع معنی مراد لینے سے کوئی چیز مانع نہ ہو اور معنی دلیل کے ساتھ کیے جائیں کہ  اپنی رائے سے تفسیر گناہ بلکہ کفر و الحاد ہوجاتی ہے...اس اصول کے چند حوالہ جات ملاحظہ کیجیے

هذا تخصيص للعموم بالسبب، والمعتبر عموم اللفظ دون خصوص السبب...

 سبب و شان نزول کی وجہ سے کسی عام کو خاص نہیں کر سکتے بلکہ معتبر عموم وسیع معنی ہی ہوگا 

(فقہ حنفی سنی التجريد للقدوري1/150)

.

: العبرة لعموم اللفظ دون خصوص السبب

 صرف خاص سبب و شان نزول ہی مراد نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دیگر عمومی وسیع معنی بھی مراد ہوتے ہیں

(فقہ حنفی سنی علامہ عینی البناية شرح الهداية1/375)

.

وَالِاعْتِبَارُ لِعُمُومِ اللَّفْظِ وَالْعَامُّ يَبْقَى عَلَى عُمُومِهِ حَتَّى لَا يُعْتَبَرَ مَعَهُ خُصُوصُ السَّبَبِ

 لفظ کا عام ہونا معتبر ہے، عام اپنے عموم پر باقی رہے گا یہاں تک کہ عام طور پر خصوصی سبب و شان نزول کی وجہ سے بھی خاص نہیں کیا جاسکے گا

(علامه ابن عابدین شامی حنفی سنی العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية1/150)


.

فالحق أن العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب

 حق یہی ہے کہ لفظ کے عمومی وسیع معنی کا اعتبار ہے ، صرف خصوصی سبب کا نہیں

(علامہ فخر الدین رازی شافعی سنی المحصول للرازي3/125)

.

: كون هذا السبب لا يقتضي خصوص الحكم، بل العبرة بعموم االفظ

 سبب اور شان نزول اس چیز کا تقاضا نہیں کرتے کہ حکم اسی کے ساتھ خاص ہو بلکہ معتبر یہی ہے کہ لفظ کا عام ہونا ہی معتبر ہے

(علامہ سیوطی شافعی سنی حاشية السيوطي على تفسير البيضاوي2/469)

.

وَالْأَصْل وان كَانَ عُمُوم اللَّفْظ لَا خُصُوص السَّبَب لَكِن قد يخص بِالسَّبَبِ إِذا كَانَ هُنَاكَ مَانع من الْعُمُوم

 اصل قاعدہ یہی ہے کہ لفظ کا عام ہونا ہی معتبر ہےصرف خصوص معتبر نہیں لیکن کبھی کبھار عام کو سبب و شان نزول کی وجہ سے خاص کر دیا جاتا ہے بشرطیکہ عام وسیع معنیٰ مراد لینے سے کوئی صحیح مانع ہو

(حاشية السندي على سنن النسائي6/110)

.

وَالعِبْرَةُ فِيهِ: عُمُومُ اللَّفْظِ، لَا خُصُوصُ السَّبَبِ

 لفظ کا عمومی وسیع معنیٰ ہی معتبر ہے فقط سبب و شان نزول مراد نہیں ہوتا

(بابات في علوم القرآن ص6)

.

العبرة بعُمُوم اللَّفْظ لا خُصوص السَّبَب

لفظ کا عمومی وسیع معنیٰ ہی معتبر ہے فقط سبب و شان نزول مراد نہیں ہوتا

(اللباب في علوم الكتاب7/٣08)

.

العبرة عموم اللفظ لا خصوص السبب

لفظ کا عمومی وسیع معنیٰ ہی معتبر ہے فقط سبب و شان نزول مراد نہیں ہوتا

(التنوير شرح الجامع الصغير6/46)

.

إذا كان السّبب خاصّاً والجواب عامّاً جاز، وحمل الحكم على عموم اللفظ لا على خصوص السّبب لأنّه جواب وزيادة فائدة

 سبب خاص ہو اور جواب عام ہو یہ ہوسکتا ہے کہ اضافہ و فائدہ ہے،ایسی صورت میں عموم ہی معتبر ہوگا فقط خصوصِ سبب و شان نزول ہی مراد نہ ہوگا

(فتح السلام شرح عمدة الأحكام من فتح الباري4/382)

.

، والمعتبر عموم اللفظ لا خصوص السبب

لفظ کا عمومی وسیع معنیٰ ہی معتبر ہے فقط سبب و شان نزول مراد نہیں ہوتا

(ذخيرة العقبى في شرح المجتبى5/138)

.

خصوص السبب لا يُخَصِّص لأنه لا يعارضه

 سبب و شان نزول عموما کسی عام کو خاص نہیں کرتے کیونکہ یہ اس کے متضاد نہیں ہے

(الإبهاج في شرح المنهاج - ط دبي4/1503)

.

أن خصوص السبب لا يقدح في عموم اللفظ

 کسی خصوصی سبب و شان نزول کا پایا جانا لفظ کے عام وسیع معنی مراد لینے میں عیب و مانع نہیں

(شرح الزرقاني على المواهب8/510)

.

العبرة في عموم اللفظ لا في خصوص السّبب"

لفظ کا عمومی وسیع معنیٰ ہی معتبر ہے فقط سبب و شان نزول مراد نہیں ہوتا

(موسوعة القواعد الفقهية8/1042)

.

الجمهور: على اعتبار اللفظ دون خصوص السبب

جمھور و اکثر علماء کے مطابق لفظ کا عمومی وسیع معنیٰ ہی معتبر ہے فقط سبب و شان نزول مراد نہیں ہوتا

(الدرر اللوامع في شرح جمع الجوامع2/395)

.###############

*#اہم نوٹ مفتری اعظم پاکستان چمن زمان نے جو اعتراضات لگائے ہیں اعلی حضرت پر ان کے ہم جواب لکھ رہے ہیں... اب چمن زمان اور اس کے حواریوں اس کے ماننے والوں پر فرض ہے کہ شیخ شخخ شح شاہت مکانا علیا و دیگر کئ دعووں الفاظوں اندازوں کی اپنی من مانی تفسیرات و معنی کے دلائل و حوالہ جات دیکھاءیں ورنہ توبہ تائب ہوجائیں اور عوام و خواص بائیکاٹ کرے*

.

تین اعتراضات کا جواب اوپر دیا جا چکا،  دیگر کا جواب حاضر ہے

*#چمن زمان کا اعتراض نمبر4...*

سیدی اعلیٰ حضرت نے نبی کا معنی "اے غیب بتانے والے" کیا تو چمن زمان کہا کہ یہ تحریف معنوی ہے کیونکہ نبی کا معنی کسی معتبر لغت میں "غیب بتانے والا" نہیں آیا..(چمن زمان کا کتابچہ محرف کون ص31,32ملخصا)

.

*#جواب.....!!*

نام نہاد مفتی اعظم جعلی محقق دوراں صاحب اتنے جاہل و غافل یا ہٹ دھرم و بغض والے ہو کہ لغت کی عام دستیاب کتاب المنجد بھی تمھارے مطالعے میں نہیں یا پھر جان بوجھ کر دھوکہ دے رہو ہے....

المجند میں ہے کہ:

النبي والنبی اللہ تعالیٰ کے الہام سے غیب کی باتیں بتانے والا ۔ آئندہ کی پیشین گوئی کرنے والا

(منجد ص871)

.

والنَّبِيْءُ: مَنْ هَمَزَه من ذلك؛ لأنَّه أَنْبَأَ عن اللهِ تَبَارَكَ وتَعَالى

نبی کا معنی ہے جو اللہ کی بتائی خبر لوگوں کو بتائے

(المحیط فی اللغۃ2 /473)

.

لكني أرجح أن كلمة "نَبِيّ "بمعنى أحد أنبياء الله تعالى أصلها نَبِيء بالهمز بمعنى مُنْبَأ من الله أو مُنْبِئ عن الله

 مصنف کتاب کہتے ہیں کہ میرے مطابق راجح ترین یہ ہے کہ نبی کلمہ کا معنی یہ ہے کہ جو اللہ سے خبر لے کر خبر بتائے یا اللہ کے متعلق کچھ خبر بتائے 

(المعجم الاشتقاقی4/2145)

.

والنَبيُّ صلّى الله عليه و [على] آله وسلّم يُنبىء الأنباء عن الله عزّ وجلّ

 اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہوتا ہے کہ جو اللہ عزوجل کی طرف سے خبریں بتائے

(العین8/382)

.

النبيُّ: هُوَ مَنْ أَنْبَأَ عَنِ اللَّهِ...نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہوتا ہے کہ جو اللہ عزوجل کی طرف سے خبریں بتائے

(لسان العرب1/163)

(تاج العروس1/446)

.

وهذا أيضا من أعلى المراتب وأشرفها وذلك يدل على أنه رفيع الدرجات عند الله المخبر عنه

 نبوت اعلی درجے میں سے ہے اشرف درجوں میں سے ہے یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے خبریں بتاتے ہیں

(تفسیر الخازن2/257)

.

 أَيُّهَا النَّبِيُّ .. يا أيها المخبّر عنا

 اور اے نبی جو اللہ تعالی کی طرف سے خبریں دیتے ہو

(تفسیر قشیری3/149ملتقطا)

.

يا أيّها النّبيّ} وبالهمز نافع أي يا أيها المخبر عنا

اے نبی جو اللہ تعالی کی طرف سے خبریں دیتے ہو

(تفسیر النسفی3/14)

 جو چیز اللہ کو معلوم ہو اور ہمیں معلوم نہ ہو اور وہ نبی پاک ہمیں اللہ سے لے کر بتا دیں تو یہ علم غیب بتانا ہی تو ہے... تو نبی کا معنی ہوا غیب بتانے والا.... چمن زمان ہوش کے ناخن لے گستاخوں مکاروں کے طریقے سے ہٹ، بغض و حسد دور کر

.

################

*#چمن زمان کا اعتراض نمبر5...*

اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد گرامی ہے:

وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا(سوره بقره آیت ۸۹)اس کا ترجمہ کرتے ہوئے حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب لکھتے ہیں: اور اس سے پہلے وہ اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے۔(کنز الایمان)ناصبی بریلوی بتائیں کہ : " اسی نبی کے وسیلہ سے کس لفظ کا ترجمہ ہے ؟

چمن زمان کہتا ہے فاضل بریلی نے اپنی جیب سے پانچ الفاظ بڑھا کر تحریف کی، یہ کوئی ترجمہ نہیں کنزالایمان کو ترجمہ القرآن نام فاضل بریلوی نہ رکھتے اگر رکھا تو ترجمہ کرتے اپنی جیب سے الفاظ نہ بڑھاتے..(چمن زمان کا کتابچہ محرف کون ص3,34ملخصا)

.

*#ہمارا جواب و تحقیق....!!*

پہلی بات:

چمن زمان صاحب تمھارے مفکر اسلام تمھارے آقا ریاض شاہ نے اسی ایت کے اگلے حصے میں ترجمہ کیا "جس وسیلہ"

(ترجمہ قران ریاض شاہ ص20)

بتاءیے وسیلہ وسیلہ کس لفظ کا ترجمہ ہے...؟؟ آپ کے فتوے مطابق آپ کے گرو بھی محرف قرآن.....؟؟ یا یہ بغض فقط اعلی حضرت سے ہے....؟؟

.

*#دوسری بات.....!!*

جسے تھوڑا سا بھی علم ہے وہ جانتا ہے کہ ترجمہ دو طرح کا ہوتا ہے "لفظی ترجمہ" اور "تفسیری ترجمہ" سیدی اعلیٰ حضرت نے تفسیر ترجمہ کیا ہے، تفسیر میں وسیلہ کا ثبوت ہے لہھذا یہ تحریف نہیں بلکہ عظیم ترجمہ ہے

ائیے تفاسیر میں اسکی تفسیر دیکھتے ہیں تاکہ پتہ چلے تفسیری ترجمہ ہے یا من گھڑت....؟؟

.

يَسْتَفْتِحُونَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے( وسیلے سے) وہ فتح مانگتے تھے

( تفسير الطبري جامع البيان - ط هجر2/236)

.

الْيَهُودُ تَسْتَنْصِرُ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

یہودی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے( وسیلے سے) فتح مانگتے تھے

(تفسير ابن أبي حاتم1/172)

.

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ يَهود (١) كَانُوا يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ 

 سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہود اس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے وسیلے سے فتح و مدد مانگتے تھے اوس اور خزرج کے مقابلے میں

( تفسير ابن كثير - ت السلامة1/326)

.

إذا قاتلوهم قالوا اللهم انصرنا يا لنبى المبعوث في آخر الزمان

 جب وہ لڑتے تھے تو کہتے تھے اللہ ہماری مدد کر نبی اخری زماں کے وسیلے سے

(تفسير النسفي = مدارك التنزيل وحقائق التأويل1/109)

.

##################

*#چمن زمان کا اعتراض نمبر6...*

اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد گرامی ہے:وَانْظُرُ إِلَى حِمَارِكَ(سوره بقره آیت ۲۵۹)فاضل بریلی اس کا ترجمہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:اور اپنے گدھے کو دیکھ کہ جس کی ہڈیاں تک سلامت نہ رہیں۔ گزشتہ آیہ مبارکہ کا ترجمہ کرتے ہوئے فاضل بریلی نے پانچ کلمات کا اضافہ اپنے پاس سے کیا تھا۔ لیکن اس آیہ مقدسہ کے ترجمہ میں تو کمال کر کے رکھ دیا۔ آٹھ کلمات اپنے پاس سے قرآنِ عظیم کے ترجمہ میں ڈال دیئے۔جی ہاں! بریلوی حضرات بغور ملاحظہ فرمائیں اور بتائیں کہ: کہ جس کی ہڈیاں متک سلامت نہ رہیں۔ آیہ مقدسہ کے کس کلمہ یا جملہ کا ترجمہ ہے؟(چمن زمان کا کتابچہ محرف کون ص36,35)

.

*#ہمارا جواب.....!!*

جسے تھوڑا سا بھی علم ہے وہ جانتا ہے کہ ترجمہ دو طرح کا ہوتا ہے "لفظی ترجمہ" اور "تفسیری ترجمہ" سیدی اعلیٰ حضرت نے تفسیری ترجمہ کیا ہے، تفسیر میں اس معنی کا ثبوت ہے لہھذا یہ تحریف نہیں بلکہ عظیم ترجمہ ہے

ائیے تفاسیر میں اسکی تفسیر دیکھتے ہیں تاکہ پتہ چلے تفسیری ترجمہ ہے یا من گھڑت....؟؟

.

وَانْظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَقَدْ هَلَكَتْ وَبَلِيَتْ عِظَامُهُ.

 اور دیکھیے اپنے گدھے کی طرف وہ ہلاک ہو چکا ہے اس کی ہڈیاں بوسیدہ ہو چکی ہیں

(تفسير ابن أبي حاتم2/504)

.

وانظر إلى حمارك قد هلك وبليت عظامه

اور دیکھیے اپنے گدھے کی طرف وہ ہلاک ہو چکا ہے اس کی ہڈیاں بوسیدہ ہو چکی ہیں

(تفسير الطبري جامع البيان - ط دار التربية والتراث5/468)

.

: انظر إلى حمارك قد (٥) هلك، وبليت عظامه

اور دیکھیے اپنے گدھے کی طرف وہ ہلاک ہو چکا ہے اس کی ہڈیاں بوسیدہ ہو چکی ہیں

(تفسير الثعلبي = الكشف والبيان عن تفسير القرآن ط دار التفسير7/176)

.

وَانْظُرْ إِلى حِمارِكَ كيف تفرقت أوصاله، وبليت عظامه

 اور اپنے گدھے کی طرف دیکھیے کہ کیسے اس کے مفاصل جدا ہو چکے ہیں اور اس کی ہڈیاں گل چکی ہیں

(البحر المديد في تفسير القرآن المجيد1/292)

.################

*#چمن زمان کا اعتراض نمبر7..*

اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد گرامی ہے: فَإِنْ يَشَا اللَّهُ يَخْتِمْ عَلَى قَلْبِكَ(سوره شوری آیت (۲۴)فاضل بریلی اس آیہ مقدسہ کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اور اللہ چاہے تو تمہارے اوپر اپنی رحمت و حفاظت کی مہر فرما دے..فاضل بریلی نے اس آیہ مقدسہ کا ترجمہ کرتے ہوئے ایک جانب تو " علی قلبك " کے معنی " آپ کے دل کے اوپر " کرنے کے بجائے "تمہارے اوپر " کیے۔ اور دوسری جانب ترجمہ میں اپنی طرف سے اپنی رحمت و حفاظت کی " کا اضافہ کر ڈالا ہے۔(چمن زمان کا کتابچہ محرف کون ص38..37)

.

#ہمارا جواب.....!!*

پہلی بات:

چمن زمان صاحب تمھارے مفکر اسلام تمھارے آقا ریاض شاہ نے اسی ایت میں ترجمہ کیا "رحمتوں"

(ترجمہ قران ریاض شاہ ص20)

بتاءیے رحمتوں کس لفظ کا ترجمہ ہے...؟؟ آپ کے فتوے مطابق آپ کے گرو ریاض شاہ بمع ماننے والے بھی محرف قرآن.....؟؟ یا یہ بغض فقط اعلی حضرت سے ہے....؟؟

.

*#دوسری بات.....!!*

جسے تھوڑا سا بھی علم ہے وہ جانتا ہے کہ ترجمہ دو طرح کا ہوتا ہے "لفظی ترجمہ" اور "تفسیری ترجمہ" سیدی اعلیٰ حضرت نے تفسیری ترجمہ کیا ہے، تفسیر میں اس معنی کا ثبوت ہے لہھذا یہ تحریف نہیں بلکہ عظیم ترجمہ ہے

ائیے تفاسیر میں اسکی تفسیر دیکھتے ہیں تاکہ پتہ چلے تفسیری ترجمہ ہے یا من گھڑت....؟؟

.

سیدی اعلی حضرت کے ترجمہ سے تین مفھوم نکل سکتے ہیں:

پہلا:

 اے سامع کافر اگر اللہ چاہے تو تمہارے اوپر اپنی رحمت و حفاظت کی مہر فرما دے تو تم کچھ ہدایت نہ پاؤ گے

دوسرا:

اے محبوب آپ پر اللہ چاہے تو رحمت و حفاظت کی مہر کر دے تاکہ آیت آذیت سے بچیں لیکن اللہ نے ایسا نہیں کیا لیھذا آپ دین کی تبلیغ کریں اور اذیت و انکار پر صبر کریں

تیسرا:

اے محبوب اللہ چاہے تو آپ پر رحمت و حفاظت کی مہر کردے تاکہ آپ انکو کچھ نہ سنائیں اور اپ اپنی زندگی سکون کے ساتھ بغیر اذیت و کفار کی تکذیب کے گذاریں لیکن اللہ نے ایسا نہیں کیا لیھذا آپ دین کی تبلیغ کریں اور اذیت و انکار پر صبر کریں

.

هو قَادِرٌ لو شاء أَنْ يختم على قلبك فلا تَعْقِلُ، ولا تنطق، ولا يستمرُّ افتراؤك فمقصد اللفظ: هذا المعنى، وحُذِفَ ما يَدُلُّ عليه الظاهر اختصاراً واقتصاراً، وقال مجاهد: المعنى: فإن يشإ اللَّه يختمْ على قلبك بالصبر لأذى الكفار، ويربطْ عليك بالجَلَدِ «٣» ، فهذا تأويل لا يتضمَّن الردَّ على مقالتهم قال أبو حَيَّان: وذكر القُشَيْرِيُّ أنَّ الخطاب للكفار

 اللہ تعالی اس پر قادر ہے کہ اے سامع میں تمہارے دل پر اللہ تعالی مہر لگا دے اور تجھے عقل نہ ہو اور تو باتیں نہ کرے ایزا نہ پہنچائے اور تیرے افترا نبی پاک تک نہ پہنچے... ایک معنی یہ ہے کہ اے رسول کریم اللہ تعالی اپ کے دل پر رحمت کی اور حفاظت کی مہر فرما دے گا تو اپ صبر کر لیں گے کفار کی اذیت پر... ایک معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی اپ کے دل پر رحمت حفاظت کی مہر لگا دے گا اور اپ کچھ بھی لوگوں کو بیان نہ کریں گے تو اذیت نہ پائیں گے لیکن اللہ نے ایسا نہیں کیا لہذا لوگوں کو پیغام پہنچائیے اور صبر کیجئے

( تفسير الثعالبي = الجواهر الحسان في تفسير القرآن5/158)

.############

*#چمن زمان کا اعتراض نمبر8..*

ہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ  اِلَّاۤ  اَنۡ تَاۡتِیَہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَوۡ  یَاۡتِیَ  رَبُّکَ

فاضل بریلی اس کا ترجمہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:

کا ہے کے انتظار میں ہیں مگر یہ کہ آئیں ان کے پاس فرشتے یا تمہارے رب کا عذاب۔ (کنز الایمان) بریلی کے کسی بے آب کنویں کے مینڈک بتائیں کہ : اللہ سبحانہ و تعالی نےفرمایا: ربك

اور فاضل بریلی نے اس کا ترجمہ کیا: تمہارے رب کا عذاب۔ ناصبی بریلویو! کیا یہ تحریف نہیں؟ جو شخص "رب "کا ترجمہ " رب کا عذاب " کرے۔ کیا اس نے قرآنِ عظیم میں تحریف نہیں کی؟ کیا وہ اللہ سبحانہ و تعالی کی گستاخی کا مرتکب نہیں ہوا؟ کیا"رب " کا ترجمہ " رب کا عذاب "کرنا شانِ خداوندی میں کھلی گستاخی نہیں؟ اگر کوئی مسئلہ سمجھانا تھا تو بریکٹ دی جاسکتی تھی۔ فضولیات میں تو سینکڑوں صفحات کالے کر دیئے جاتے ہیں۔ شانِ خداوندی کے لیے قوسین لگانے کی توفیق نہ مل سکی اور "رب "کا ترجمہ " رب کا عذاب " کر دیا۔۔۔۔!!!

چمن زمان کا کتابچہ محرف کون ص38)

.

*#ہمارا جواب.....!!*

#ہمارا جواب.....!!*

پہلی بات:

چمن زمان صاحب تمھارے مفکر اسلام تمھارے آقا ریاض شاہ نے اسی ایت میں ترجمہ کیا "رب کا عذاب"

(ترجمہ قران ریاض شاہ ص210)

بتاءیے عذاب کس لفظ کا ترجمہ ہے...؟؟ تمھارے قاعدے کے مطابق تمھارے گرو نے بھی بریکٹ لگا کر ترجمہ نہیں کیا تو آپ کے فتوے مطابق آپ کے گرو ریاض شاہ بمع ماننے والے بھی محرف قرآن.....؟؟ یا یہ بغض فقط اعلی حضرت سے ہے....؟

.


*#دوسری بات.....!!*

جسے تھوڑا سا بھی علم ہے وہ جانتا ہے کہ ترجمہ دو طرح کا ہوتا ہے "لفظی ترجمہ" اور "تفسیری ترجمہ" سیدی اعلیٰ حضرت نے تفسیری ترجمہ کیا ہے، تفسیر میں اس معنی کا ثبوت ہے لہھذا یہ تحریف نہیں بلکہ عظیم ترجمہ ہے

ائیے تفاسیر میں اسکی تفسیر دیکھتے ہیں تاکہ پتہ چلے تفسیری ترجمہ ہے یا من گھڑت....؟؟

.

رَبّك أَيْ عَذَابه

 ایت میں رب سے مراد رب کا عذاب ہے

(تفسير الجلالين ص44)

.

يأتي ربك} أى أمر ربكم وهو العذاب

 تمہارا رب ائے یعنی تمہارے رب کا حکم ائے اور وہ عذاب ہے

(تفسير النسفي = مدارك التنزيل وحقائق التأويل1/551)

.

إن المراد: «أو يأتي عذاب ربك»

 رب سے مراد اللہ کا عذاب ہے

(تفسير الثعالبي = الجواهر الحسان في تفسير القرآن2/532)

.

#############

*#چمن زمان کا اعتراض نمبر9..*

اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد گرامی ہے:وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى(سوره نجم آیت ۰۱)فاضل بریلی نے اس کا ترجمہ کچھ یوں کیا:

اس پیارے چمکتے تارے محمد کی قسم جب یہ معراج سے اترے۔..فاضل بریلی نے اس آیہ مقدسہ کے ترجمہ میں بھی کئی الفاظ اپنے پاس سے قرآنی آیه مقدسہ کے ترجمہ میں ملا دیئے ہیں۔کیا کوئی بریلوی بتا سکتا ہے کہ " پیارا " کس لفظ کا ترجمہ ہے؟" محمد " (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم) کس لفظ کا ترجمہ ہے؟"معراج سے " کس لفظ کی ترجمانی کی جارہی ہے؟میں جانتا ہوں کہ ناصبی بریلوی کونسے بہانے بنائیں گے۔ کیونکہ ان حضرات کی نظروں میں سچائی کے لیے دلائل کی نہیں بلکہ بد معاشی اور دھونس کی ضرورت ہے اور بد معاشی اور دھونس میں یہ لوگ اپنی نظیر نہیں رکھتے۔

(چمن زمان کا کتابچہ محرف کون ص40,41)

.

*#ہمارا جواب.....!!*

وَقَالَ جَعْفَرٌ الصَّادِقُ: يَعْنِي مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ لَيْلَةَ الْمِعْرَاجِ،

:وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى امام جعفر صادق اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہاں چمکتے تارے سے مراد محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ھوی سے مراد معراج شریف کے وقت اسمان سے نیچے اترنا ہے

(تفسیر بغوی7/400)

.

وقال جعفر بن محمد بن علي بن الحسين - رضي الله عنهم -: {وَالنَّجْمُ}يعني: محمدًا - صلى الله عليه وسلم - {إِذَا هَوَى} إذا نزل من السماء ليلة المعراج

 امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ نجم سے مراد محمد مصطفی ہیں چمکتے تارے...اور ھوی سے مراد معراج کے وقت اسمان سے نیچے اترنا ہے

(تفسیر ثعلبی25/71)

.

(وَالنَّجْمِ) يَعْنِي مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (إِذا هَوى) إِذَا نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ لَيْلَةَ الْمِعْرَاجِ

 نجم یعنی چمکتے ستارے سے مراد محمد مصطفی ہیں اور ھوی سے مراد جب وہ اسمان سے نیچے اترے معراج کی رات

(تفسیر قرطبی17/83)

.

اب بتا یہ دلائل و حوالہ جات ہیں یا بہانے دھونس دھاندلی بدمعاشی....؟؟ بہانے دھونس بدمعاشی گمراہی مکاری تو تم لوگ بار بار کر رہے ہو کہ کبھی غلط معنی کرتے ہو کبھی شاہت کا معنی من گھڑت کبھی سیدنا حسن کی سیادت پے ڈاکہ کبھی تحریفات کبھی شیعہ کتب کے حوالے اور اہلسنت کتب کے حوالے دینا مگر وہ بات ان کتب میں نہ ہو ، کبھی جھوٹ و بہتان اور کبھی چھپا چھپا سا بغضِ سیدنا معاویہ کبھی بغض اعلی حضرت کبھی اہلبیت و سادات کے متعلق غلو مبالغہ آرائی...اللہ تمھیں ہدایت دے

.

#################

*#چمن زمان کا اعتراض نمبر10..11*

اللہ سبحانہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:خَلَقَ الْإِنْسَانَ(سوره رحمن آیت ۰۳)فاضل بریلی اس کا ترجمہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:

انسانیت کی جان محمد کو پیدا کیا۔ (کنز الایمان)اگر جملہ بول کر سامعین کی زبانوں سے سبحان اللہ کی گونج سنی ہو تو یہ الفاظ بہت ہی مناسب ہیں۔ لیکن اگر کلمات قرآنیہ کا ترجمہ کرنا ہو تو پھر تازہ بریلوی مزاج کے مطابق یہ قرآنِ عظیم میں تحریف شدید ہے۔ کیونکہ "انسان" کے معنی اردو میں بھی انسان ہی بنتے ہیں۔ ہزاروں لغات کی چھان پھٹک کے باوجود کسی لغت میں "انسان "کا ترجمہ "انسانیت کی جان محمد " کبھی نہیں ملے گا۔ یہ ترجمہ اگر آپ کو مل سکتا ہے تو صرف اور صرف ترجمہ کنز الایمان کی سطور میں۔

اب بریلوی بتائیں کہ : " انسان کا ترجمہ " انسانیت کی جان محمد " کس قانون اور ضابطے کے مطابق کیا گیا؟

ماکان و مایکون کا معنی کا حوالہ لغت سے دو بریلویوں پے ادھار ہے وقت صبح قیامت تک

(چمن زمان کا کتابچہ محرف کون ص,43,41,42ملخصا)

.

پہلی بات:

چمن زمان صاحب مدرسہ کا طالب علم بتا سکتا ہے کہ یہاں انسان اور الانسان میں کیا فرق ہے....ال کا معنی کیا کرو گے....؟؟ ال کتنے معنی کے لیے آتا ہے عربی گرائمر تو پڑھی ہوگی پھر الانسان کا ترجمہ میں ال کا ترجمہ عوام سے چھپا کر دھوکہ کون دے رہا ہے....؟؟ بغض کا اظہار کون کر رہا ہے....؟؟

.

وَقَالَ ابْنُ كَيْسَانَ: "خَلَقَ الْإِنْسَانَ" يَعْنِي: مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "عَلَّمَهُ الْبَيَانَ" يَعْنِي بَيَانَ مَا كَانَ وَمَا يَكُونُ

 ابن کیسان کہتے ہیں کہ خلق الانسان سے مراد یہ ہے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا گیا اور انہیں البیان کا علم دیا گیا یعنی ما کان ومایکون کا علم دے دیا گیا

(تفسیر بغوی7/438)

.

الْإِنْسَانُ هَاهُنَا يُرَادَ بِهِ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْبَيَانُ بَيَانُ الْحَلَالِ مِنَ الْحَرَامِ، وَالْهُدَى مِنَ الضَّلَالِ. وَقِيلَ:

مَا كَانَ وَمَا يَكُونُ،

 ایت میں الانسان سے مراد محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور البیان سے مراد حلال اور حرام کی وضاحت ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ہدایت اور گمراہی کی کی وضاحت ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماکان و مایکون کا علم دے دیا گیا ہے

(تفسیر قرطبی17/151)

.

وقال ابن كيسان: {خَلَقَ الْإِنْسَانَ} يعني: محمدًا -صلى الله عليه وسلم-.{عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (4)} يعني: ما كان وما يكون

ابن کیسان کہتے ہیں کہ خلق الانسان سے مراد یہ ہے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا گیا اور انہیں البیان کا علم دیا گیا یعنی ما کان ومایکون کا علم دے دیا گیا

(تفسیر ثعلبی25/290)

.

*# سیدی اعلی حضرت نے جو انسانیت کی جان محمد ترجمہ کیا ہے اس کی دلیل یہ ہے....!!*

وَلَوْلَا هُوَ مَا خَلَقْتُكَ».رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ وَالصَّغِيرِ، وَفِيهِ مَنْ لَمْ أَعْرِفْهُمْ

 اللہ تعالی نے فرمایا کہ اگر محمد مصطفی نہ ہوتے تو میں اے ادم تجھے پیدا نہ کرتا اس کو طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند ضعیف ہے

(مجمع الزوائد حدیث13917)

.

ولولا محمدٌ ما خَلَقتُكَ».ثم قال البيهقي: تفرَّد به عبد الرحمن بن زيد بن أسلم من هذا الوجه، وهو ضعيف

اللہ تعالی نے فرمایا کہ اگر محمد مصطفی نہ ہوتے تو میں اے ادم تجھے پیدا نہ کرتا...اسکی سند ضعیف ہے

(دلائل النبوۃ بیھقی، مسند الفاروق 3/94)

.

وَلَوْلَاهُ مَا خَلَقْتُكَ

 اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو اے ادم علیہ السلام میں تجھے پیدا نہ کرتا

(الشريعة لآجری حدیث956)

اس کتاب کے حاشیہ میں اسے ضعیف کہا گیا ہے

.

حدیث لولاک پر باقاعدہ کتب و رسائل لکھے جا چکے ہیں اور اس کے معنی کو ثابت و صحیح قرار دیا گیا ہے، یہاں مختصرا تین حوالے دییے کیونکہ دو تین ضعیف احادیث مل کر حسن معتبر حدیث بن جاتی ہے....تحقیق کے لیے حدیث لولاک پر رسائل و کتب پڑہیے

.

 فَقَدْ رَوَى الدَّيْلَمِيُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا مَرْفُوعًا أَتَانِي جِبْرِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ لَوْلَاكَ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَلَوْلَاكَ مَا خَلَقْتُ النَّارَ وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ عَسَاكِرَ لَوْلَاكَ مَا خلقت الدنيا...

 امام ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ دالمی نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول کریم نے فرمایا کہ میرے پاس جبریل ایا ہے اور عرض کی کہ اللہ نے فرمایا کہ اے محمد اگر اپ نہ ہوتے تو میں جنت کو پیدا نہ کرتا جہنم کو پیدا نہ کرتا اور ابن عساکر کی روایت میں ہے کہ اگر اپ نہ ہوتے تو دنیا کو ہی پیدا نہ کرتا

(الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص296)

.

*#تیسری بات......!!*

البیان ایا ہے جس میں ال ہے اور ال کا ترجمہ لغت کی کتابوں سے مانگنا نادانی ہے کہ ال کا ایک معنی خاص بیان بھی ہے اب خاص بیان سمجھنے کے احادیث ماکان و مایکون کی طرف جانا پڑے گا

لیکن

یہ لیجیے لغت کی کتاب سے بھی ماکان و مایکون کا معنی:

وَأَمَّا قَوْلُهُ عَلَّمَهُ الْبَيانَ فَمَعْنَاهُ أَنَّهُ عَلَّمَه الْقُرْآنَ الَّذِي فِيهِ بَيانُ كُلِّ شَيْءٍ

 اور اللہ نے فرمایا کہ اس نے اس کو البیان کا علم دیا تو اس کا معنی یہ ہے کہ قران کا علم دیا کہ جس میں ہر چیز کا علم ہے(یہی تو ماکان ومایکون  کا علم ہے)

(لسان العرب12/418)

.#############

*#چمن زمان کا اعتراض نمبر12*

 وَّ اسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِکَ

فاضل بریلی نے اس کا ترجمہ کیا:اور اپنوں کے گناہوں کی معافی چاہو۔ (کنز الایمان)معمولی عربی دان بھی جانتا ہے کہ "" ك کا ترجمہ "اپنے " تو ہو سکتا ہے لیکن"ك کا ترجمہ "اپنوں کے " نہیں بنتا۔(چمن زمان کا کتابچہ محرف کون ص46)

.

*#ہمارا جواب.....!!*

اپنوں سے مراد امتی ہی ہیں تو لیجیے یہ معنی بھی تفاسیر سے ثابت ہے

وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ" قِيلَ: لِذَنْبِ أُمَّتِكَ حُذِفَ الْمُضَافُ وَأُقِيمَ الْمُضَافُ إِلَيْهِ مَقَامَهُ.

وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس کا ایک معنی یہ ہے کہ اپنی امت کے گنہگاروں کے لیے معافی چاہو

(تفسیر قرطبی15/324)

.

أَيْ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِ أُمَّتِكَ

 یعنی اپنی امت کے گناہ گاروں کے لیے مغفرت چاہو معافی چاہو

(تفسیر کبیر27/525)

.

أي لذنب أمتك

یعنی اپنی امت کے گناہ گاروں کے لیے مغفرت چاہو معافی چاہو

(تفسیر نسفی3/216)

.##############

*#چمن زمان کا اعتراض نمبر13،14*

اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمانِ گرامی ہے:

لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ( سورة الفتح آیت ۰۲)

فاضل بریلوی نے اس کا ترجمہ کیا:تاکہ اللہ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلوں کے اور تمہارےپچھلوں کے۔ (کنز الایمان)بریلویوں کے اپنے بنائے ہوئے مزاج کے مطابق ان سے سوال ہے کہ:آیہ مقدسہ میں "تمہارے اگلوں" اور "تمہارے پچھلوں " کس لفظ کےمعنی ہیں؟کیا " ما تقدم " کے معنی " تمہارے اگلوں " اور "ما تأخر " کا ترجمہ" تمہارے پچھلوں " کرنا تحریف نہیں؟کیا تم دربار خداوندی سے اجازت نامہ حاصل کیے بیٹھے ہو کہ ترجمہ قرآن کے نام پہ تم جو چاہے لکھو، بولو، چھاپو ، پھیلاؤ۔ تمہیں کوئی پوچھ نہیں سکتا۔ لیکن رسول اللہ علیم کے نواسوں کو زبان کھولنے کی بھی اجازت نہیں۔ ساداتِ کرام پر لازم ہے کہ تمہاری جہالتوں کے حصار سے باہر کا کوئی ایک جملہ بھی نہ بولیں، ورنہ تم بھر کر یزیدیت ومروانیت کی آخری حدوں کو چھونے لگ جاؤ گے۔

(چمن زمان کا کتابچہ محرف کون ص47,48,49ملتقطا)

فرمانِ باری تعالی ہے:

وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ(سوره محمد آیت (۱۹)

فاضل بریلی نے اس کا ترجمہ کیا:

اور اے محبوب اپنے خاصوں اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو۔ (کنز الایمان)

کیا کوئی بریلوی بتا سکتا ہے کہ:

اپنے خاصوں " اور "عام "کس کم پر قرآنیہ کا ترجمہ ہے؟

(چمن زمان کا کتابچہ محرف کون ص49)

.

*#ہمارا جواب*

پہلی بات:

کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ سبکو اجازت ملنی چاہیے کہ جو منہ میں آئے بولتا پھرے قران میں....؟؟ تف ہے ایسی سوچ پر... ہم نے شروع میں ثابت کیا ہے کہ قران و سنت کے مطابق قران و حدیث کی معتبر مدلل تفسیر ہی قابل قبول ہے جو قواعد اسلامیہ سے بنتی ہو، جو منہ میں آئے بولنے والے کے متعلق تو حدیث پاک ہے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے

.

*#دوسری بات...!*

سیدی اعلیٰ حضرت نے من مانی تفسیر نہیں کی بلکہ تفاسیر سے ماخوذ ہے سیدی اعلیٰ حضرت کا ترجمہ....یہ لیجیے چند حوالہ جات:

وَقِيلَ: ذُنُوبُ أُمَّتِكَ [فَأَضَافَهُ] (6) إِلَيْهِ لِاشْتِغَالِ قَلْبِهِ بِهِمْ

 نبی پاک گناہوں سے تو معصوم ہیں تو ایت کا ایک معنی یہ کہا گیا ہے کہ امت کے گناہوں کی بخشش و مغفرت اللہ کرے

(تفسیر بغوی8/473)

.

كَمَا قَالَ بَعْضُ الْمُفَسِّرِينَ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى:لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ [الْفَتْحِ: 2] أَنَّ مَعْنَاهُ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَغْفِرُ لَكَ وَلِأَجْلِكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِ أُمَّتِكَ

 جیسے کہ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ ایت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی اپ کی وجہ سے اپ کے جو پہلے کی امتی ہیں ان کے گناہوں کو معاف فرما دے

(تفسیر کبیر26/381)

.

ليغفر لك الله ما تقدّم من ذنبك وما تأخر اى من ذنب أوليائك وأحبائك

 ایت کا مطلب یہ ہے کہ اپ کے خاصوں کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دے

(تفسیر مظہری8/321)

ایک ایت میں ایا کہ عام مومنین کے لیے امت کے لیے مغفرت کی دعا کی جا رہی ہے اور ایک ایت میں ایت کی تفسیر میں یہ کہا جا رہا ہے کہ خاص کے گناہوں کی بخشش کی جائے

لیھذا

سیدی اعلیٰ حضرت کے دونوں آیتوں کے معنی ثابت ہوئے

.

والوجه الثاني يرجع إلى ذنوب أمته؛ أي: ليغفر لك اللَّه ذنوب أمتك،

 ایت کا ایک معنی یہ ہے کہ تاکہ اللہ تعالی تمہاری امت کے گناہ معاف فرما دے( جو پہلے کے ہیں جو بعد کے ہیں)

(تفسیر تاویلات اہلسنت9/292)

.################

*#چمن زمان کا اعتراض نمبر15*

فرمانِ باری تعالی ہے:أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ(سوره ملک آیت (۱۶)فاضل بریلی اس کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

کیا تم اس سے نڈر ہو گئے ہو جس کی سلطنت آسمان میں ہے۔ (کنز الایمان)

عربی کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ آیہ مقدسہ میں کوئی ایسا کلمہ شریفہ نہیں جس کے معنی "سلطنت " بنتے ہوں۔ آیت کےترجمہ کے اندر سلطنت " کا اضافہ فاضل بریلی نے اپنے پاس سے کیا ہے۔

(چمن زمان کا کتابچہ محرف کون50)

.

*#ہمارا جواب.....!!*

أأمنتم مَّن فِى السماء} أي من ملكوته في السماء

 کیا تم ان لائے اس پر جو اسمان میں ہیں یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ جس کی بادشاہت سلطنت اسمان میں ہے

(تفسیر نسفی3/514)

.

وَقِيلَ: تَقْدِيرُهُ أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ قُدْرَتُهُ وَسُلْطَانُهُ

 کہا گیا ہے کہ ایت کا معنی یہ ہے کہ کیا تم ایمان لائے جس کی قدرت جس کی سلطنت آسمانوں میں ہے

(تفسیر قرطبی18/215)

.

.(آمنتم (3) من في السماء) قدرته وسلطانه

 کیا تم ایمان لائے اس پر کہ جو اسمان میں ہے یعنی جس کی قدرت اور جس کی سلطنت اسمان میں ہے

(تفسیر ثعلبی27/109)

.

ومنها قول جمع من المفسرين أأمنتم من في السماء ملكوته أو

سلطانه

 کئی مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس ایت کا معنی یہ ہے کہ جس کی سلطنت اور حکومت اسمان میں ہے

(تفسیر نیشاپوری6/328)

.

*#ریاض شاہ کی پوری تقریر سنی جوابی تقریر بھی سنی آفیشل پیج پے انکا گول مول بیان بھی پڑھا...ان سب میں ریاض شاہ نے کیا اہم اہم بات کی، آئیے آپ کو بتاتے ہیں*

.

القرآن:

وَّ رَفَعۡنٰہُ  مَکَانًا عَلِیًّا

ترجمہ کنزالایمان:

اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا

(سورہ مریم آیت57)


آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے ریاض شاہ کہتا ہے:

ہم نے انکو بلندی بخشی اس مکان تک ہم انکو لے کے جو بہت اونچا تھا...

.

مزید کہتا ہے:

ان سے پوچھو ادریس علیہ السلام کا مزار کہاں ہے

ادریس علیہ السلام کا مزار ادھر ہی ہے جدھر نجف اشرف شریف میں علی کا مزار ہے...وَّ رَفَعۡنٰہُ  مَکَانًا عَلِیًّا ہم نے اسکو وہ جگہ دی جو جگہ علی کو دی

.

مزید کہتا ہے:

جو اسمان میں ہیں وہ نیچے بھی اتریں گے انکا بھی تو کہیں مزار بنے گا، معاف کرنا مجھے چھیڑو نہ کہ عفریت کا معنی خبیث کس نے کیا...مجھے سب معلوم ہے مگر چپ رہن دیو...زیادہ تنگ کرو گے تو راز کھلیں گے...ادریس کا مزار ہوگا نجف اشرف میں...میں کیا کروں میں چھپا نہیں سکتا

.

پھر کہتا ہے:

چار کو زندہ اٹھایا گیا ادریس علیہ السلام الیاس علیہ السلام ایک حضرت خضر ایک حضرت عیسی علیہ السلام

.

مزید کہتا ہے:

سب نبی اونچے ہیں ایک ادریس  ہیں جن کو اللہ نے اونچا کیا چوتھے اسمان پے پہنچا دیا

.

مزید کہتا ہے:

سورج کس کا پابند تھا،مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: علی جا کر اسکو کہو واپس آ

(نوٹ اس پر تحقیق الگ سے لکھوں گا کہ سچ کیا ہے.....؟؟ سورج سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے پے لوٹا یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و دعا سے لوٹا.....؟؟کیا واقعی معتبر روایت میں ہے کہ سیدنا علی کے حکم سے لوٹا یا یہ ریاض شاہ کا جھوٹا بیان ہے....؟؟جھوٹی تعریف تو سیدنا علی یا کسی اہلبیت یا کسی صحابی یا کسی نبی پاک کی بھی نہین کرسکتے)

.

مزید کہتا ہے:

 مولانا دھوکہ نہ کرنا...کیا میں چھپا کے جاؤں، کتمان علم  کرکے جاؤں

.

مزید لکھتا ہے:

 ترجمہ وہی صحیح ہے جو اعلی حضر عظیم البرکت اور ان جیسے اکابر نے کیا

.

*#ریاض شاہ کی مذکورہ باتون سے اسکے آٹھ جرم مکاریاں بظاہر تحریفات تضاد بیانیاں ثابت ہوتی ہیں*

#پہلا جرم*

ریاض شاہ نے بظاہر تحریف معنوی کردی کہ سیدنا ادریس کا مزار نجف اشرف میں ہے جبکہ آیت میں ایسا کچھ نہیں آیا

.

*#دوسرا جرم*

مکانا علیا آیت کی بظاہر من مانی من گھڑت تفسیر بالرائے کی جوکہ بعض علماء کی عبارات کے مطابق کفر ہے

.

*#تیسرا جرم*

تضاد بیانی منافقت مکاری کی کہ ایک طرف کہا کہ سیدنا ادریس سمیت چار ہستیاں آسمان پے اٹھائے گئے اور دوسری طرف کہا کہ سیدنا ادریس کا مزار نجف میں ہے

.

*#چوتھا جرم*

دوگنا پالیسی منافقت کرتے ہوئے عام عوام کے لیے کہا کہ چوتھے مکان میں ہیں لیکن اتریں گے جبکہ اپنے حلقہ احباب میں کہا کہ سیدنا ادریس کا مزار نجف میں ہے

.

*#پانچواں جرم*

دوگنا پالیسی منافقت کرتے ہوئے ایک طرف شوشہ چھوڑا کہ ہم اعلی حضرت کو مانتے ہیں انکا ترجمہ ٹھیک ہے جبکہ دوسری طرف کہا کہ ہمیں نہ چھیڑو ورنہ ہم بتاءیں گے کہ عفریت کا معنی "خبیث جن" کس نے کیا(چونکہ مرزا جہلمی یہ اعتراض مشھور کر چکا تھا کہ اعلی حضرت نے عفریت کا معنی خبیث جن کیا جو کہ غلط ہے...عفریت سے مراد خبیث جن ہے اسکے چند حوالے تحریر لکھ چکے ہیں)گویا اعلی حضرت سے غداری بھی اور پھر عوام سے مکاری بھی...دوگنا پالیسی و عیاری بھی شاید کہ یہ نیم رافضی بھوکے لالچی ہیں شہرت و پیسے و ایجنٹی کے...؟؟

.

*#چھٹا جرم*

ایک طرف کہتا ہے کہ علم کیسے چھپاؤں اور دوسرے طرف کہتا ہے کہ میرے سینے میں راز ہیں، راز مت اگلواؤ...یہ تضاد بیانی مکاری بھی ہے تو علم چھپانا بھی ہے

.

*#ساتواں جرم*

وضاحت میں کہتا ہے کہ اسکی مراد یہ تھی کہ سیدنا ادریس کا مزار نجف میں ہوگا.....یہ بظاہر دوسری تحریف معنوی ہے کیونکہ آیت میں ماضی کا ذکر ہے اور یہ اسکو مستقبل کا معنی بنا رہا ہے

.

*#اٹھوان جرم*

لفظ علیا کا ترجمہ سیدنا علی کرکے بظاہر تیسری تحریف معنوی کی اور تحریف معنوی کفر ہے،بظاہر تفسیر بالراءے کی جوکہ بعض علماء کی تصریح کے مطابق کفر ہے

.

*#نوٹ*

ہم بے بظاہر لفظ احتیاطا لکھا ہے کیونکہ کفر کا فتوی ہم نہیں دے سکتے...کفر کا فتوی معتبر اہلسنت مفتیان کرام ہی دے سکتے ہیں

.

*#نوٹ*

تحریف معنوی کسے کہتے ہیں اور تفسیر بالرائے کونسی مذموم اور انکا حکم ہم اوپر لکھ آئے ہیں

.

*#نوٹ*

چمن زمان عرفان شاہ ریاض شاہ ادھر اودھر کی باتوں کے بجائے اس پر توجہ دیں کہ تحریف معنوی کی تعریف اسلاف نے کیا کی اور کس تفسیر بالرائے کی مذمت کی اور کیا حکم لگایا اور پھر مکانا علیا کی جو تفسیر نیم رافضیوں نے کی اسکے دلائل کیا ہیں....؟؟ اور یہ بھی بتائیں کہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ مزار نجف میں ہوگا اور کس کتاب میں لکھا ہے کہ زمین پے ضرور تشریف لائیں گے.....اور پھر ہمارے طرف سے گنوائے گے آٹھ جرائم کا جواب بھی لکھیں

.

*#اہلسنت کا مطالبہ*

کئ عوام اور گدی نشیب پیر فقیر اور اپنے آپ کو محقق و مفتی و مناظر و علامہ فھامہ سمجھنے والوں مگر نیم رافضیت کے رنگ میں رنگنے والوں سے اہلسنت اپیل کرتی ہے کہ خدارا رک جائیے لوٹ آئیے، سیدھی سیدھی توبہ رجوع کیجیے کرائیے،نیم رافضی مکار عیار لفاظی نام نہاد محقق و مفسر کو بھی لوٹائیے روکیے رجوع کرائیے

ورنہ

اعلانِ براءت کیجیے، انہیں اپنے پاس مت بلائیے، بائیکاٹ کیجیے کہ شاید انکی عقل ٹھکانے لگے ورنہ کہیں بےخبری میں یا من موجی و غفلت میں، کسی کے چکنے مسکے چاپلوسی جھوٹی تعریف میں آکر آپ بھی آہستہ آہستہ شیعیت رافضیت توہین صحابہ غلو حد سے تجاوز کرتے کرتے نہ جانے کہاں پہنچ جائیں گے.......؟؟

.

القرآن...ترجمہ:

سچوں(کو پہچان کر ان)کا ساتھ دو(سورہ توبہ آیت119)

دین و دنیا کو بدنام تو جعلی منافق مکار کر رہےہیں....عوام و خواص سب کو سمجھنا چاہیےکہ #جعلی_مکار_منافق تو علماء پیر اینکر لیڈر سیاست دان جج وکیل استاد ڈاکٹر فوجی وغیرہ افراد و اشیاء سب میں ہوسکتےہیں،ہوتے ہیں

تو

جعلی کی وجہ سے #اصلی سےنفرت نہیں کرنی چاہیےبلکہ اصلی کی تلاش اور اسکا ساتھ دینا چاہیے

.


✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03136325125


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.