غیرمقلدوں اہلحدیثوں جہلمیوں کا رد...سجدہ کیسے کریں؟ ہاتھ پہلے رکھیں یا؟

 *#سجدے میں جاتے وقت پہلے ہاتھ زمین پے رکھیں یا گھٹنے.....؟؟ نام نہاد اہلحدیثوں وہابیوں غیرمقلدوں اور مرزا جہلمی اور جہلمیوں کا رد......!!*

سوال:

حضرت گروپ میں کچھ اہلحدیث اعتراض کر رہے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ پہلے ہاتھ رکھو پھر گھٹنے رکھو سجدے میں جاتے وقت...ایسی بات مرزا جہلمی نے بھی کہی ہے، غیرمقلد اہلحدیث وغیرہ کا کہنا ہے کہ تم بریلوی حنفی لوگ اس حدیث کے صاف صاف خلاف جاتے ہو،اپنے بابوں کی مانتے ہو.....( نعوذ باللہ)

.

*#جواب و تحقیق......!!*

خلاصہ:

احادیث و سنت اور صحابہ کرام اہلبیت عظام کے عمل سے ثابت ہوتا ہے اور اکثر علماء کا یہی فتوی ہے کہ سجدے میں جاتے وقت پہلے گھٹنے رکھیں پھر ہاتھ پھر چہرہ اور جب اٹھیں تو پہلے چہرہ اٹھائیں پھر ہاتھ پھر گھٹنے، ہاں اگر کمزروری بیماری وغیرہ کوئی وجہ صحیح ہو تو پہلے ہاتھ رکھ سکتے ہیں…غیر مقلدوں نام نہاد اہلحدیثوں وغیرہ نے ایسی گندی سوچ عام کر دی ہے کہ بندہ دو چار ایات و احادیث پڑھ کر خود مجتہد سمجھ بیٹھتا ہے اور اپنے سے مسائل بتاتا ہے اور اسلاف و فقہاء پر بھونکنا شروع ہوجاتا ہے کہ جی وہ تمھارے بابے حدیث کے خلاف کرتے تھے،حدیث و سنت کے خلاف فتوی دیتے تھے...نعوذ باللہ، غیرمقلدوں نام نہاد اہلحدیثوں اور مرزا جہلمی اور اسکے ماننے والے وغیرہ پر فرض ہے کہ مطالعہ وسیع کریں، علماء سے بادب ہوکر پوچھیں، مختلف دلائل تلاش کریں، باشعور علماء سے تطبیق توفیق ترجیح توجیہ وغیرہ سیکھیں، فروعیات میں اختلاف ہو تو کسی کی مذمت نہ کریں بلکہ اسکی دلیل ڈھونڈیں، فتنہ فساد شر شرارت فتوے بازیاں نہ کریں، حسد نہ کریں، غلط فھمیاں گمراہیاں نہ پھیلائیں، شرعی حکم لگانے پر جراءت نہ کریں،پہلے ہی امت انتشار و نفرت کا شکار ہے مزید انتشار و نفرتیں نہ پھیلائیں....ہاں جن سے اصولی اختلاف ہے،جو منافق و مکار لالچی فسادی ہیں انکی اصلاح کے ساتھ ساتھ  مذمت و بائیکاٹ برحق ہے....!! اگر آپ کو غلطی سے تھوڑا سا علم مل گیا ہے تو علماء کی توہین جگھڑے فسادات برپا مت کر بلکہ علم بڑھاؤ، مطالعہ و سوچ وسیع کرو، توجیہ تطبیق تلاش کرو،ادب کرو، ادب سکھاؤ پھیلاؤ.....!!

.

الحدیث:

مَنْ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ لِيُبَاهِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ، وَيُجَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ، وَيَصْرِفَ بِهِ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْهِ أَدْخَلَهُ اللَّهُ جَهَنَّمَ

جو علم حاصل کرے تاکہ علماء پر تکبر کرے(انکی توہین کرے، انکو کمتر سمجھے انکو کمتر بتائے انکا ادب نہ کرے، فروعی اختلاف باادب ہوکر نہ کرے) یا جہلاء کم علموں عوام کو(دوسرے برحق علماء کے علم تحقیقات و فتووں میں)شک میں ڈالے(علماء کے اقوال و تحقیقات کی توجیہ دلائل تطبیق وغیرہ بیان نہ کرے بلکہ انکو مشکوک ظاہر کرے)یا پھر شہرت و مال کی لالچ ہو تو اللہ ایسے علم والے کو جہنم میں ڈالے گا

(ابن ماجہ حدیث260 ترمذی حدیث2654نحوہ)

.


وائل بن حجر...رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَإِذَا نَهَضَ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ

صحابی سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا نماز پڑھتے ہوئے جب آپ سجدے میں جاتے تو سب سے پہلے اپنے گھٹنے رکھتے ہاتھوں سے پہلے اور جب وہ سجدے سے اٹھتے تو اپنے ہاتھ پہلے اٹھاتے اور گھٹنے بعد میں اٹھاتے

(ابوداود حدیث838)

(ابن ماجہ حدیث882)

(ترمذی حدیث268)

(نسائی حدیث1089)

.

وائل بن حجر...فَلَمَّا سَجَدَ وَقَعَتَا رُكْبَتَاهُ إِلَى الْأَرْضِ قَبْلَ أَنْ تَقَعَ كَفَّاهُ.

 سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ فرماتے تو اپ کے گھٹنے ہاتھوں سے پہلے زمین پر لگتے

(ابوداود حدیث736)

.

عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: " صَلَّيْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ سَجَدَ وَكَانَ أَوَّلَ مَا وَصَلَ إِلَى الْأَرْضِ رُكْبَتَاهُ "

 صحابی سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی ہے... پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ فرماتے تو سب سے پہلے جو چیز زمین کو چھوتی وہ آپ کے گھٹنے مبارک ہوتے تھے

(السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية2/143)

.

عاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا سَجَدَ وَقَعَتَا رُكْبَتَاهُ عَلَى الْأَرْضِ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ كَفَاهُ،

 سیدنا عاصم بن کلیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ فرماتے تھے تو ہاتھوں سے پہلے ان کے گھٹنے مبارک زمین پر لگتے تھے

(المعجم الأوسط للطبراني6/97)

(السنن الكبرى - البيهقي -3/548)

.

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... وَانْحَطَّ بِالتَّكْبِيرِ حَتَّى سَبَقَتْ رُكْبَتَاهُ يَدَيْهِ

صحابی سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اپ جب سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے اور پھر سب سے پہلے گھٹنے زمین پر لگتے پھر ہاتھ مبارک

( المستدرك على الصحيحين1/349)

(السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية2/143)

.

أن النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كان إذا سجد بدأ بركبتيه قبل يديه

 بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ فرماتے تھے تو ہاتھوں سے پہلے گھٹنے رکھتے تھے زمین پر

(إتحاف المهرة لابن حجر15/470)

.

عن سعد قَالَ: «كُنَّا نَضَعُ الْيَدَيْنِ قَبْلَ الرُّكْبَتَيْنِ، فَأُمِرْنَا بِالرُّكْبَتَيْنِ قَبْلَ الْيَدَيْنِ

 سیدنا سعد فرماتے ہیں کہ ہم پہلے ہاتھ رکھتے تھے پھر گھٹنے رکھتے تھے تو ہمیں حکم دیا گیا کہ پہلے گھٹنے رکھیں پھر ہاتھ رکھیں

(صحيح ابن خزيمة1/399)

(إتحاف المهرة لابن حجر5/95)

(شرح السنة للبغوي3/135نحوہ)

.

أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ فَلْيَبْدَأْ بِرُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ

 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو زمین پے سب سے پہلے گھٹنے رکھے پھر ہاتھ رکھے

(مسند أبي يعلى حدیث6540)

(معرفة السنن والآثار بیھقی3/19نحوہ)

(استاد بخاری مصنف ابن أبي شيبة3/79نحوہ)

.

انفرادی طور پر مذکورہ روایات و حدیث کو ضعیف مان بھی لیا جائے تو بھی تعدد طرق یا دیگر وجوہِ تحسین کی وجہ سے حسن و معتبر کہلائے گی کیونکہ سنی شیعہ نجدی سب کا متفقہ اصول ہے کہ تعدد طرق سے ضعیف روایت حسن و معتبر بن جاتی ہے

وقد يكثر الطرق الضعيفة فيقوى المتن

تعدد طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے اور(حدیث و روایت کا) متن قوی(معتبر مقبول صحیح و حسن)ہوجاتا ہے

(شیعہ کتاب نفحات الازھار13/55)

أن تعدد الطرق، ولو ضعفت، ترقي الحديث إلى الحسن

بےشک تعدد طرق اگرچہ ضعیف ہوں ان سے ضعیف روایت و حدیث حسن و معتبر بن جاتی ہے(اللؤلؤ المرصوع ص42)

لِأَنَّ كَثْرَةَ الطُّرُقِ تُقَوِّي

کثرت طرق(تعدد طرق)سے روایت و حدیث کو تقویت ملتی ہے(اور ضعف ختم ہوجاتا ہے)

(تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ,1/179)

وإنما يحكم له بالصحة عند تعدد الطرق) أي أو طريق واحد مساو له، أو أرجح

ضعیف حدیث کی ایک اور مساوی ضعیف سند مل جائے یا ایک ارجح سند مل جائے یا ایک سے زائد ضیف سندیں مل جائیں تو اس تعددِ طرق سے ضعیف حدیث صحیح(و حسن معتبر قابل دلیل) کہلاتی ہے

(شرح نخبۃ الفکر للقاری1/297)

.#################

، «أَنَّ عُمَرَ، كَانَ يَضَعُ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ»

 بے شک سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سجدے میں جاتے وقت سب سے پہلے اپنے گھٹنے رکھتے اس کے بعد ہاتھ

(استاد بخاری مصنف ابن أبي شيبة روایت2703)

.

 ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ كَانَ يَضَعُ رُكْبَتَيْهِ إِذَا سَجَدَ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا رَفَعَ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ»

 سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ جب سجدے میں جاتے تو سب سے پہلے گھٹنے رکھتے پھر ہاتھ اور جب اٹھتے تو سب سے پہلے ہاتھ اٹھاتے پھر گھٹنے

(استاد بخاری مصنف ابن أبي شيبة روایت2705)

.

 خَالِدٍ، قَالَ: «رَأَيْتُ أَبَا قِلَابَةَ، إِذَا سَجَدَ بدأَ فَوَضَعَ رُكْبَتَيْهِ،

 سیدنا خالد فرماتے ہیں کہ میں نے ابو قلابہ کو دیکھا کہ جب وہ سجدہ فرماتے تو سب سے پہلے گھٹنے رکھتے

(استاد بخاری مصنف ابن أبي شيبة روایت2708)

.

 عَنْ مَهْدِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: «رَأَيْتُ ابْنَ سِيرِينَ، يَضَعُ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ

 سیدنا مہدی بن میمون فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن سیرین کو دیکھا کہ وہ اپنے گھٹنے رکھتے زمین پر ہاتھوں سے پہلے

(استاد بخاری مصنف ابن أبي شيبة روایت2709)

.

: «كَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ، إِذَا انْحَطُّوا لِلسُّجُودِ وَقَعَتْ رُكَبُهُمْ قَبْلَ أَيْدِيهِمْ

 سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کے اصحاب جب سجدے کے لیے جاتے تو ان کے گھٹنے پہلے لگتے پھر ان کے ہاتھ لگتے زمین پر

استاد بخاری مصنف ابن أبي شيبة روایت2711)

.##############

*#ہاتھ پہلے رکھنے کی بھی حدیث ہے مگر عام حالات میں گھٹنے پہلے رکھنے کی حدیث کو علماء و محققین نے زیادہ قوی و معتبر قرار دیا اور اسی پر عمل کیا اور اسی پر عموما عمل کی تلقین فرمائی.....!!*

وحديثُ وائل بن حُجْر أثبتُ... يضع المُصلِّي ركبتَيه قبلَ

 يدَيه

 سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت کردہ حدیث کہ جس میں ہے کہ سب سے پہلے گھٹنے رکھے جائیں پھر ہاتھ رکھے جائیں یہ حدیث(اس معاملے میں) سب سے زیادہ ثابت اور قوی ہے

(المفاتيح في شرح المصابيح2/154)

.

الخطابي..حَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ أَثْبَتُ مِنْ هَذَا) : قَالَ الطِّيبِيُّ: ذَهَبَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى أَنَّ الْأَحَبَّ لِلسَّاجِدِ أَنْ يَضَعَ رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ يَدَيْهِ، لِمَا رَوَاهُ وَائِلُ بْنُ حُجْرٍ

امام خطابی فرماتے ہیں کہ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت کردہ حدیث( کہ جس میں ہے کہ سب سے پہلے گھٹنے رکھے جائیں پھر ہاتھ رکھے جائیں یہ حدیث اس مسئلے میں) سب سے زیادہ ثابت اور قوی ہے، امام طیبی فرماتے ہیں کہ سیدنا وائل بن حجر کی بیان کردہ حدیث کی وجہ سے اکثر اہل علم فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے گھٹنے رکھے جائیں گے سجدہ کرتے وقت پھر ہاتھ

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح2/725)

.

وحديثُ وائلِ بن حُجر أثبتُ من هذا"، ولذا لم يَرَ أكثرُ العلماء العملَ بهذا الحديث

سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت کردہ حدیث( کہ جس میں ہے کہ سب سے پہلے گھٹنے رکھے جائیں پھر ہاتھ رکھے جائیں یہ حدیث اس معاملے میں) سب سے زیادہ ثابت اور قوی ہے اس لیے اُس روایت پر عمل کرنے کو علماء درست قرار نہیں دیتے کہ جس روایت میں ہے کہ سب سے پہلے ہاتھ رکھو پھر گھٹنے رکھو

(شرح المصابيح لابن الملك2/20)

.

فكان ينبغي أن يكون ما روي عن وائل أثبت

(دلائل و تحقیق کی بنیاد پر یہی کہنا)مناسب ہے کہ جو سیدنا وائل بن حجر سے حدیث پاک روایت ہے(کہ پہلے گھٹنے رکھو پھر ہاتھ) وہ(اس مسئلے میں) سب سے زیادہ ثابت اور قوی ہے

(شرح سنن أبي داود للعيني4/25)

.

عن وائل قال الخطابي: وهو أثبت من حديث تقديم اليدين

 امام خطابی فرماتے ہیں کہ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث(کہ جس میں ہے کہ پہلے گھٹنے رکھو پھر ہاتھ وہ حدیث اس مسئلے میں) زیادہ ثابت و قوی ہے اُس حدیث سے کہ جس میں ہے کہ ہاتھ پہلے رکھے جائیں

(فيض القدير1/373)

.

وضع الركبتين قبل اليدين فعليه جمهور الأئمة وأبو حنيفة والشافعي وأحمد بن حنبل -رحمهم اللَّه أجمعين- عملًا بحديث وائل بن حجر، قالوا: وهو أثبت

 ہاتھوں سے پہلے گھٹنوں کو رکھنا اس پر جمہور علماء کا ائمہ کا امام ابو حنیفہ کا امام شافعی کا امام احمد بن حنبل کا وغیرہ کا فتوی ہے یہ سب آئمہ علماء محققین فرماتے ہیں ہیں کہ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث اس مسئلے میں زیادہ قوی و اثبت ہے

(لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح3/33)

.

وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَرَوْنَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَإِذَا نَهَضَ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ

اہل علم(صحابہ کرام اہلبیت عظام تابعین ائمہ اسلاف محققین کی)اکثریت کا عمل اسی پر ہے کہ سجدہ کرتے وقت سب سے پہلے گھٹنے رکھے جائیں اس کے بعد ہاتھ رکھے جائیں اور جب سجدے سے اٹھیں تو سب سے پہلے ہاتھ اٹھائیں پھر گھٹنے اٹھائیں

(ترمذی1/306)

.#################

*#حنفی علماء نے محض قیاس و رائے و من مانی و بابوں کی اندھی پیروی کی وجہ سے فتوی کبھی نہیں دیا بلکہ ہمیشہ قرآن و حدیث و سنت و فعل صحابہ و اہلبیت کو دلیل بنا کر مسائل لکھ گئے اور لکھا کرتے ہیں ہاں قرآن و حدیث و سنت پر قیاس کرنا بھی برحق ہے قرآن و حدیث و فعل صحابہ و اہلبیت سے ثابت ہے... اس مسئلے میں محض قیاس نہیں بلکہ اکثر احادیث و سنت کو دلیل بنایا ہے علماء احناف نے....لیجیے چند حوالے پڑہیے شاید کہ اے حاسد کم علم متکبر جری تمھیں ہدایت و محبت نصیب ہو......!!*

.

وَوَضَعَ رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ يَدَيْهِ) لِمَا رُوِيَ عَنْ وَائِلٍ أَنَّهُ قَالَ «رَأَيْت رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إذَا سَجَدَ وَضَعَ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ وَإِذَا نَهَضَ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ» رَوَاهُ أَبُو دَاوُد

 سجدے کے لیے جائے گا تو سب سے پہلے اپنے گھٹنے رکھے گا پھر اپنے ہاتھ رکھے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ جو سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب اپ سجدہ فرماتے تو اپنے گھٹنے اپنے ہاتھ سے پہلے رکھتے اور جب اٹھتے تو ہاتھ پہلے اٹھاتے گھٹنوں سے جس کو ابو داؤد نے روایت کیا ہے

(تبیین الحقائق1/116)

.

وَاضِعًا رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ يَدَيْهِ إلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْهِ لِأَجْلِ خُفٍّ أَوْ غَيْرِهِ فَيَبْدَأُ بِالْيَدَيْنِ

 سجدہ اس طرح کرے گا کہ پہلے گھٹنے رکھے گا پھر ہاتھ رکھے گا مگر یہ کہ اگر مشکل ہو خف کی وجہ سے یا کسی اور کی وجہ سے تو پھر ہاتھ پہلے رکھ سکتا ہے

(ردالمحتار1/498)

.

وَيَضَعُ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ وَيَضَعُ يَدَيْهِ حِذَاءَ أُذُنَيْهِ) هَكَذَا نُقِلَ فِعْلِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 سجدے میں جاتے ہوئے گھٹنے رکھے گا ہاتھوں سے پہلے پھر کانوں کے برابر ہاتھ رکھے گا کیونکہ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و طریقہ مروی ہے

(الاختیار لتعلیل المختار1/52)

.

وَوَضَعَ رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ يَدَيْهِ، ثُمَّ وَجْهَهُ بَيْنَ كَفَّيْهِ بِعَكْسِ النُّهُوضِ) كَمَا كَانَ يَفْعَلُهُ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - كَمَا رَوَاهُ أَبُو دَاوُد

 سجدے میں جاتے ہوئے پہلے گھٹنے رکھے گا پھر ہاتھ رکھے گا پھر چہرہ رکھے گا دونوں ہتھیلیوں کے درمیان اور اٹھتے وقت اس کا الٹ کرے گا جیسے کہ رسول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک اسی طرح تھا جیسے کہ ابو داؤد میں ایسی روایت موجود ہے حدیث موجود ہے

(البحر الرائق1/335)

.

"و" يسن "وضع ركبتيه" ابتداء على الأرض "ثم يديه ثم وجهه" عند نزوله "للسجود" ويسجد بينهما "و" يسن "عكسه للنهوض" للقيام بأن يرفع وجهه ثم يديه ثم ركبتيه إذا لم يكن به عذر وأما إذا كان ضعيفا أو لابس خف فيفعل ما استطاع ويستحب الهبوط باليمين والنهوض باليسار لأن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا سجد وضع ركبتيه قبل يديه وإذا نهض رفع يديه قبل ركبتيه

 اور سنت ہے کہ سب سے پہلے گھٹنے رکھے گا زمین پر پھر ہاتھ رکھے گا پھر چہرہ رکھے گا اور اٹھتے وقت اس کا الٹ کرے گا... یہ سنت ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ فرماتے تو ہاتھوں سے پہلے گھٹنوں کو رکھتے اور جب سجدے سے اٹھتے تو پہلے ہاتھ اٹھاتے پھر گھٹنے نیز یہ طریقہ سنت ہے اس شخص کے لیے کہ جس کو مشکل پیش نہ ہو اگر اس کے لیے کوئی عذر ہو کوئی مشکل ہو مثلا وہ کمزور ہو بوڑھا ہو یا خف پہنے ہوئے ہو تو وہ اسی طرح سجدہ کرے جس طرح کہ اس کو استطاعت ہے(لیھذا وہ پہلے ہاتھ رکھ سکتا ہے)

(مراقی الفلاح شرح نور الایضاح ص100)


.

(ثم كبر ووضع ركبتيه) أولاً (ثم يديه) هذا لم يكن متخففًا فإن كان وضع اليدين أولاً لأنه القدر الممكن أي: من غير عسر (ثم وجهه بين كفيه) مقدمًا بين كفيه ثم جبهته (بعكس النهوض) أي: القيام لأنه الثابت من فعله عليه الصلاة والسلام

 پھر تکبیر کہے گا اور اپنے گھٹنے پہلے رکھے گا زمین پر پھر اپنے ہاتھ رکھے گا اور سجدے سے اٹھتے وقت اس کا الٹ کرے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فعل اور سنت سے یہ ثابت  ہے... یہ طریقہ اس کے لیے ہے جسے کوئی مشکل درپیش نہ ہو ورنہ خف پہنے ہوئے ہو(یا بوڑھا ہو یا کمزور ہو یا کوئی بھی مشکل پیش ہو تو) آسانی والا طریقہ اپنائے گا مثلا پہلے ہاتھ رکھے گا پھر گھٹنے

(النھر الفائق1/215)

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.