مروجہ جرابوں عمامے پاؤں پے مسح جائز نہیں اور مرزا جہلمی بےباک فتنہ باز جاہل مردود ہے

 *#جرابوں عمامے پگڑی اور پاؤں پر مسح کرنے کی تحقیق تفصیل و دلائل اور مرزا جہلمی کا رد اور جہلمی گستاخی بغض بےباکی فتنہ بازی سے بھرپور ہے اسے سمجھانا لازم، سمجھ جائے تو ٹھیک ورنہ ضدی فسادی گستاخ کو ٹھکانے لگانا لازم ہے،نہ جہلمی کو سنو نہ مانو بلکہ جہلمی اور جہلمی جیسوں سے ہر طرح کا بائیکاٹ کرنا لازم ہے...!!*

.

نوٹ:ٹھکانے لگانے کا مطلب قید و مناسب سزا ہے حتی کہ سزائے موت بھی ہوسکتی ہے اور سزا دینا حکومت و عدلیہ کا کام ہے مگر کبھی عام آدمی بھی سزا دے سکتا ہے،کچھ تفصیل میرے بلاگ پے موجود تحریر گستاخ رسول کی سزا کے ضمن میں پڑھ سکتے ہیں

.

سوال :

علامہ صاحب مرزا جہلمی کی وڈیو بھیج رہا ہوں تفصیلی مدلل جواب لکھ بھیجیے

.

*#جواب کا خلاصہ*

مرزا جہلمی گستاخانہ توہین امیز الفاظ و انداز میں کہتا ہے کہ حنفیوں نے قصے کہانیاں کرکے بابیت کرکے کہا ہے کہ پتلی جرابوں پر اور عمامے پر اور پاؤں پر مسح جائز نہیں...جبکہ جہلمی کے نزدیک جائز ہے، جہلمی گستاخانہ الفاظ و انداز میں مزید کہتا ہے کہ ابوحنیفہ نے رجوع کر لیا تھا مگر آج تک کے حنفیوں کو رجوع کی توفیق نہیں ملی...ہم کہتے ہیں کہ فقہ حنفی کے مذکورہ مسئلے صحابہ کرام و تابعین عظام کے اقوال اور قرآن و حدیث پر قیاس کے ذریعے ثابت ہیں، امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ نے پہلے پہل فتوی دیا تھا کہ چمڑے کے جرابوں کے علاوہ کسی جراب پر مسح جائز نہیں مگر انکے شاگردوں امام ابویوسف امام محمد اور دیگر کئ علماء نے فتوی دیا کہ کپڑے اون سوت وغیرہ کے موٹے جرابوں پر مسح جائز ہے بشرطیکہ وہ اتنے موٹے ہوں کہ پانی کو روکیں اور خود رکے رہیں اور ان میں مسلسل چلنا ممکن ہو....امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ نے رجوع فرما کر اپنے شاگردوں وغیرہ علماء کے قول پر فتوی دیا تھا، فقہ حنفی کے علماء نے اس وقت سے لیکر آج تک اس پر فتوی دیا کہ کپڑے اون وغیرہ کے موٹے جرابوں پر مسح جائز ہے تو وہ رجوع کس بات سے کریں....؟؟ لیھذا مرزا جہلمی کی جہالت کم علمی و گستاخی و بغض و جھوٹ و بہتان ہے کہ رجوع نہیں کیا تم لوگوں نے... کیونکہ رجوع شدہ کے خلاف پر فتوی اس وقت سے ہی دے دیا تھا تو یقینا رجوع ہو گیا اور آج تک جس طرف رجوع کیا اسی پر فقہ حنفی کے علماء نے فتوی دیا اور جہلمی کی بات سے بظاہر ایک اور جھوٹ بھی نکلتا ہے کہ وہ باور کرا رہا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے پتلی جراب والے قول کو اپنا لیا تھا جو کہ جھوٹ ہے کیونکہ امام ابوحنیفہ نے شاگردوں کے قول کو اپنا لیا تھا اور شاگرد پتلی جراب پر مسح کو ناجائز کہتے ہیں تو جہلمی کی بکواس سراسر فتنہ و فساد ہےبہتان و الزام و جھوٹ و بغض و فتنہ پھیلانا و فساد ہے اور اس کا علاج سمجھانا ورنہ ٹھکانے لگانا قرآن و حدیث اور صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہوتا ہے الا یہ کہ ٹھکانے لگانے سے بڑا فساد ہو یا عذر ہو تو جہلمی جیسوں سے ہرقسم کا بائیکاٹ لازم...انکی نہ سننا نہ ماننا لازم... اللہ کریم اختلافِ برحق کو باسلیقہ رکھنے، باادب لکھنے بتانے والا بنائے...فقہ حنفی بھی الحمد للہ قرآن و سنت و صحابہ کرام تابعین عظام کے اقوال کا نچوڑ ہے.. فقہاء احناف کے پاس احادیث و صحابہ کرام کے قول و عمل کے دلائل ہیں لیھذا یہ بابوں کی اندھا دھند پیروی نہیں بلکہ احادیث و اقوالِ صحابہ کرام و تابعین عظام کی پیروی ہے.. ہاں غیرمنصوص فروعی مسائل میں بابوں یعنی ماہر علماء کی پیروی بھی قرآن و سنت نے لازم کی ہے کہ وہ بابے یعنی ماہر علماء قرآن و سنت و احادیث و اقوالِ صحابہ و تابعین سے اخد کرکے مسئلہ بتاتے ہیں،یہ اخذ کرنا،قیاس کرنا علماء ماہرین پر شریعیت کی طرف سے ذمہ داری ہے...البتہ ہر ایرے غیرے جہلمی جیسے چند ایات و احادیث پڑھ کر فتوے بازی کرنے والے کم علم نام نہاد محقق نام نہاد عالم سے پوچھنا اور انکا بتانا دراصل گمراہ ہونا ہے، گمراہ کرنا ہے...بات کفر گستاخی الحاد لادینیت تک جاسکتی ہے

.

*#الحاصل*

مرزا جہلمی نے بظاہر یہان چار جھوٹ و بہتان و الزام باندھے...ایک یہ کہ امام ابوحنیفہ نے رجوع کرکے پتلی جراب والا قول پر فتوی دیا، یہ جھوٹ اس لیے ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ نے پتلی جراب پر مسح جائز ہونے کا فتوی نہیں دیا بلکہ اپنے شاگردوں کے مدلل قول کی طرف رجوع کیا تھا اور وہ قول یہ تھا کہ موٹی جراب(جو پانی روکے اس) پر مسح جائز ہے

دوسرا جھوٹ بہتان بغض گستاخی جہلمی کا  ہے کہ کہتا ہے تم لوگوں کو رجوع کی توفیق نہیں ملی جبکہ ہمارے علماء تو اسی وقت سے رجوع کر چکے تھے

تیسرا جھوٹ بولا کہ موٹی ہونے کی شرط جو فقہ حنفی والے لگاتے ہیں یہ کہانی کرائی ہے...یہ بھی جہلمی کا بغض بہتان جھوٹ و جہالت ہے کہ یہ کہانی نہیں بلکہ احادیث پر قیاس ہے تابعین ائمہ مجتہدین سے منقول ہے

اور پھر ڈھٹائی جہلمی کی ایسے کہ ایک طرف تابعین کو عظیم جھوٹا کہتا ہے اور دوسری طرف تابعین کی شرط کہ جراب موٹے ہوں اس شرط کو مانتا بھی ہے....یہ سارے جھوٹ بغض تضاد منافقت مکاری نہیں تو کیا ہیں.....؟؟

.##################

*#تفصیل و دلائل......!!*

سمجھانے کے ساتھ ساتھ بروں باطلوں مکاروں گمراہوں بدمذہبوں تفضیلیوں رافضیوں نیم رافضیوں ناصبیوں ایجنٹوں قادیانیوں نیچریوں سرسیدیوں جہلمیوں غامدیوں قادیانیوں ذکریوں بوہریوں غیرمقلدوں نام نہاد اہلحدیثوں وغیرہ سب باطلوں سے ہر طرح کا تعاون نہ کرنا،انکی تحریروں تقریروں کو لائک نہ کرنا، انہیں نہ سننا،  نہ پڑھنا، انہیں اپنے پروگراموں میں نہ بلانا، وقعت نہ دینا، جانی وقتی مالی تعاون نہ کرنا، مذمت کرنا مدلل کرنا بائیکاٹ کرنا ضروری ہے، ایمان کے تقاضوں میں سے ہے،یہ فرقہ واریت نہیں ہے، فرقہ واریت یہ باطل و برے لوگ کر رہے ہیں اور جو سچے مسلمان یعنی اہلسنت جو سمجھانے کے ساتھ رد مذمت و بائیکاٹ کر رہے ہیں تو یہ اسلام کی نمک حلالی کر رہے ہیں

القرآن:

فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ  الذِّکۡرٰی  مَعَ الۡقَوۡمِ  الظّٰلِمِیۡنَ

یاد آجانے(دلائل آجانے)کے بعد تم ظالموں(بدمذبوں گمراہوں گستاخوں مکاروں گمراہ کرنے والوں منافقوں ظالموں) کے ساتھ نہ بیٹھو(نہ میل جول کرو، نہ انکی محفل مجلس میں جاؤ، نہ کھاؤ پیو، نہ شادی بیاہ دوستی یاری کرو،ہر طرح کا بائیکاٹ کرو)

(سورہ انعام آیت68)

.

الحدیث:

السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ، مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ

پسند ہو نہ ہو، دل چاہے نہ چاہے ہر حال میں اہل حق مستحقین کی سنو اور مانو(اطاعت کرو جانی مالی وقتی ہر جائز تعاون کرو)بشرطیکہ معاملہ گناہ و گمراہی کا نہ ہو، گناہ و گمراہی پے نہ سنو نہ مانو(گمراہوں کو جلسوں میں بلاؤ نہ انکی بتائی ہوئی معلومات پے بھروسہ کرو نہ عمل کرو، ہرقسم کا ان سے نہ تعاون کرو)

(بخاری حدیث7144)

.

الحدیث:

[ ایاکم و ایاھم لا یضلونکم و لا یفتنونکم ]

’’گمراہوں،گستاخوں، بدمذہبوں سے دور بھاگو ، انہیں اپنے سے دور کرو(سمجھانے کے ساتھ ساتھ قطع تعلق و بائیکاٹ کرو کہ) کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں، کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں‘‘(صحیح مسلم1/12)

.

الحدیث:

فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا

جاہل(کم علم) فتویٰ دیں گے تو وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے( لہذا ایسوں سے دور بھاگو، ایسو سے نہ پوچھو، ایسوں کی نہ مانو، نہ سنو)

(بخاری حدیث100)

.

الحدیث:

مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ، وَأَبْغَضَ لِلَّهِ، وَأَعْطَى لِلَّهِ، وَمَنَعَ لِلَّهِ ؛ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ

جو اللہ(اور اسلام کے حکم)کی وجہ سے محبت کرے اور(سمجھانے کے ساتھ ساتھ) اللہ(اور اسلام کے حکم)کی وجہ سے(مستحق برے ضدی فسادی بدمذہب گستاخ وغیرہ سے)بغض و نفرت رکھے اور (مستحق و اچھوں) کی امداد و مدد کرے اور (نااہل و بروں بدمذہبوں گستاخوں منافقوں ایجنٹوں) کی امداد و تعاون نہ کرے تو یہ تکمیل ایمان میں سے ہے 

(ابوداود حدیث4681)

.

الحدیث:

 أترعون عن ذكر الفاجر؟، اذكروه بما فيه يعرفه الناس

ترجمہ:

کیا تم(زندہ یا مردہ طاقتور یا کمزور کسی بھی) فاجر(فاسق معلن منافق , خائن،مکار، دھوکے باز بدمذہب مفادپرست گستاخ) کو واضح کرنے سے ہچکچاتے ہو...؟(جیسا وہ ہے ویسا کہنے سے گھبراتے ہو...؟؟)اسے ان چیزوں(ان کرتوتوں، عیبوں اعلانیہ گناہوں ، خیانتوں، منافقتوں دھوکے بازیوں) کے ساتھ واضح کرو جو اس میں ہوں تاکہ لوگ اسے پہچان لیں(اور اسکی گمراہی خیانت منافقت بدعملی دھوکے بازی مکاری شر فساد سے بچ سکیں)

(طبرانی معجم  کبیر  حدیث 1010)

(طبرانی معجم صغیر حدیث598نحوہ)

(شیعہ کتاب ميزان الحكمة 3/2333نحوہ)

یہ حدیث پاک  کتبِ حدیث و تفاسیر اور فقہ و تصوف کی کئی کتب میں موجود ہے... مثلا جامع صغیر، شعب الایمان، احیاء العلوم، جامع الاحادیث، کنزالعمال، کشف الخفاء ردالمحتار ، عنایہ شرح ہدایہ، فتاوی رضویہ، تفسیر ثعالبی، تفسیر درمنثور وغیرہ کتب میں بھی موجود ہے

علامہ ہیثمی نے فرمایا:

وإسناد الأوسط والصغير حسن، رجاله موثقون، واختلف في بعضهم اختلافاً لا يضر

 مذکورہ حدیث پاک طبرانی کی اوسط اور معجم صغیر میں بھی ہے جسکی سند حسن معتبر ہے، اسکے راوی ثقہ ہیں بعض میں اختلاف ہے مگر وہ کوئی نقصان دہ اختلاف نہیں

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ت حسين أسد2/408)

.

سمجھانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے...مگر حسبِ تقاضہِ شریعت ایسوں کے عیوب مکاریاں منافقتیں خیانتیں کرپشن فسق و فجور دھوکے بازیاں بیان کرنا برحق ہے لازم ہے اسلام کا حکم ہے....یہ عیب جوئی نہیں، غیبت نہیں، ایسوں کی پردہ پوشی کرنا جرم ہے... یہ فرقہ واریت نہیں، یہ حسد نہیں، بغض نہیں بلکہ حق کی پرواہ ہے اسلام کے حکم کی پیروی ہے...شاید کہ یہ سدھر جائیں انہیں ہدایت ملے ورنہ ذلت کے خوف سے فساد و گمراہی پھیلانے سے رک جائیں اور معاشرہ اچھا بنے... ہاں حدیث پاک میں یہ بھی واضح ہے کہ وہ عیوب، وہ خیانتیں، وہ دھوکے بازیاں وہ کرتوت بیان کیے جائیں جو اس میں ہوں...جھوٹی مذمت الزام تراشیاں ٹھیک نہیں.....ہر شخص خود کو حق کہے گا،  بھلا چور کبھی خود کو چور کہے گا....؟؟ جھوٹا مکار کبھی خود کو جھوٹا مکار کہے گا....؟؟ نہیں ناں.....!!

تو

منافق مکار فرقہ واریت والے جھوٹے دھوکے باز کو پکڑنا پڑتا ہے،انکے کرتوت جھوٹ مکاریاں بیان کرنا پڑتی ہیں لیھذا یہ عیب جوئی نہیں فرقہ واریت نہیں...فرقہ واریت تو وہ جھوٹے مکار پھیلا رہے...بدنام تو وہ مکار کر رہے

القرآن،ترجمہ:

سچوں(کو پہچان کر ان)کا ساتھ دو(سورہ توبہ آیت119) سچے اچھے مولوی تو عظیم نعمت ہیں،دین و دنیا کو بدنام تو جعلی منافق مکار کر رہےہیں....عوام و خواص سب کو سمجھنا چاہیےکہ #جعلی_مکار_منافق تو علماء پیر اینکر لیڈر سیاست دان جج وکیل استاد ڈاکٹر فوجی وغیرہ افراد و اشیاء سب میں ہوسکتےہیں،ہوتے ہیں

تو

جعلی کی وجہ سے #اصلی سےنفرت نہیں کرنی چاہیےبلکہ اصلی کو تلاش کر،  پہچان کر اسکا ساتھ دینا چاہیے اور اپنی و سب کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے، رجوع توبہ کا دل جگرہ رکھنا چاہیے

.

*#حقیقی بابوں سے،حقیقی علماء سے بغض و نفرت رکھنے کی مذمت......!!*

علماء سے فروعیات ظنیات میں اختلاف مدلل بادب ہوکر کیا جاسکتا ہے مگر علماء کی توہین تمسخر مذاق اڑانے والے اپنے ایمان کی خبر لیں

القرآن:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ

اے ایمان والو ایک دوسرے پے مت ہنسو(ایک دوسرے سے دل دکھانے والا مزاح نہ کرو،ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑاو)

(سورہ الحجرات آیت11)

جب عام مسلمان کی اتنی شان ہے کہ اسکا تمسخر و مذاق اڑنا جرم و ممنوع ہے تو برحق علماء و اولیاء اسلاف کا مذاق اڑانا کتنا بڑا گھٹیا پن ہوگا....؟؟

.

 بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ میری امت میں سے نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے اور چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے علماء کا حق نہ جانے،ادب نہ کرے

(بخاری فی التاریخ الکبیر حدیث3267)

(المستدرک حاکم حدیث نمبر421نحوہ)

.


ثلاثةٌ لَا يَسْتَخِفُّ بِحَقِّهِمْ إِلَّا مُنافِقٌ: ذُو الشِّيْبَةِ فِي الاسْلَامِ وذُو العِلْمُ وإمامٌ مُقْسِطٌ

 تین لوگوں کی توہین اور بےعزتی گستاخی تمسخر بےادبی  منافق ہی کرے گا... ایک وہ کہ جسے اسلام میں سفیدی پڑ گئ ہو، دوسرا وہ جو علم والا ہو اور تیسرا عادل بادشاہ( یعنی ان تینوں کی بے ادبی توہین کرنا اور حقوق نہ جاننا یہ منافقت کی نشانی ہے)

(جامع صغیر حدیث6347)

.

سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «اغْدُ عَالِمًا، أَوْ مُتَعَلِّمًا، أَوْ مُسْتَمِعًا، أَوْ مُحِبًّا، وَلَا تَكُنِ الْخَامِسَةَ فَتَهْلِكَ

 راوی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ یا تو عالم ہو جا یا پھر طالب علم، علم کا طلب گار ہو جا یا پھر علم سننے والا ہو جا یا پھر علماء سے محبت کرنے والا ہو جا اور پانچواں شخص مت بننا کہ ہلاک ہو جاؤ گے

(طبرانی اوسط حدیث5171)

.

الاستهزاء بأشخاصهم....وهذا محرم...الاستهزاء بالعلماء لكونهم علماء، ومن أجل ما هم عليه من العلم الشرعي،

 فهذا كفر

حقیقی علماء کی توہین علم شرعی کی وجہ سے کریں تو یہ کفر ہے اور اس کے علاوہ دوسری وجوہات ہوں تو حرام و گناہ ہے

(الموسوعة العقدية - الدرر السنية7/57)

.#####################

*مرزا جہلمی کی پہلی بات...المفھوم*

مرزا جہلمی کہتا ہے کہ فقہ حنفی کے قدیم و جدید علماء کہتے ہیں کہ جرابیں چمڑے کی ہونی چاہیے...مرزا جہلمی کہتا ہے کہ جرابوں پر چمڑے ہونے والی شرط صرف امام اعظم ابو حنیفہ نے لگا کر فتنہ کھڑا کیا، سب کے خلاف کیا لیکن وفات کے وقت رجوع کیا لیکن ان کے ماننے والے(فقہ حنفی کے علماء)کو رجوع کی توفیق نہیں ملی آج تک.....!!

مرزا جہلمی کہتا ہے کہ امام ترمذی نے جرابوں پر مسح کرنے کی شرط رکھی ہے کہ وہ موٹی ہونی چاہیے اور موٹی ہونے کی تفسیر میں جہلمی اپنی طرف سے یہ کہتا ہے کہ جسم نظر نہیں آنا چاہیے اور جہلمی کہتا ہے کہ عام طور پر جو ہمارے پاکستان چائنہ وغیرہ کی جو لوگ ہیں وہ موٹی ہیں اور جہلمی کہتا ہے کہ موٹی ہونے کی جو دیگر شرائط فقہ حنفی وغیرہ میں لکھی ہیں وہ قصے کہانیاں ہیں

.

*#جواب.و.تحقیق.....!!*

یہ مرزا جہلمی کا جھوٹ بہتان بغض و گستاخیِ علماء ہے، بےباکی و فساد پھیلانا ہے کیونکہ فقہ حنفی میں اگرچہ امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ نے شروع میں فتوی دیا تھا کہ چمڑے کے موزے ہونے چاہیے مگر ان کے شاگردوں نے اسی وقت آپ سے اختلاف کیا اور علماء فقہ حنفی نے ان کے شاگردوں کے قول پر ہی فتوی دیا لیھذا ہمیں رجوع کی حاجت نہیں کہ ہم تو پہلے ہی امام اعظم کے شاگردوں کے قول پر فتوی دے چکے تو ہمارے متعلق کہنا کہ انکو رجوع کی توفیق نہیں ملی سراسر جھوٹ ہے، فقہاء اھناف سے بغض ہے...فتنہ فساد پھیلانا ہے…ادب کے ساتھ بغیر فتنہ و انتشار پھیلائے مدلل اختلاف کیا جائے تو قابل برداشت ہے مگر مرزا جہلمی کا انداز گستاخانہ فسادانہ ہے جوکہ ہر گز قبول نہیں کیا جاسکتا، ایسے شخص کو سمجھانا ورنہ لگام و سزا لگانا لازم ہے…

.

اگر کوئی کہتا کہ دیکھیے چمڑے کے جرابوں پر مسح کرنے میں کسی کا اختلاف نہیں مگر بغیر چمڑے والی جرابوں پر مسح کے متعلق میرا نظریہ فلاں ہے فلاں آیات و احادیث و اقوال صحابہ و اقوال فقہاء کو دلیل بناتا ہوں مگر آپ فقہ حنفی وغیرہ والے کیا فرماتے ہیں اپنا موقف عام کرو اور دلیل دو.....تو یہ انداز قابل برداشت ہوسکتا ہے...مگر یہاں مرزا جہلمی تو توہین گستاخی بابیت نعوز باللہ احادیث کو ٹھکرانے کے فتوے لگا کر فتنہ و فساد برپا کر رہا ہے اور خود بھی کسی کا مقلد نہیں ہو رہا جبکہ فقہاء نے قرآن و احادیث و اقوال صحابہ کو چھان بین کرکے فتوے دے دیے ہیں تو ہم پر ان فتووں کی تقلید لازم ہے اور ان فتووں کے دلائل قران و حدیث و اقوال صحابہ سے بیان کرنا لازم ہے،نئے جدید مسائل میں مستند وسیع علم و ظرف والا عالم مفتی کوئی موقف مدلل اپنائے فتوی دے یہ اسکا حق ہے اگرچہ نئے مسائل میں مدلل باادب اختلاف کرے یہ اسکا حق ہے، قابل برداشت ہے....انتشار و گستاخیاں و بےباکیاں پھیلانا تو فساد ہے سمجھانا لازم ورنہ لگام لگانا لازم

.

فقہ حنفی کے قدیم و جدید کتب کے چند حوالے درج ذیل ہیں:

ولا يجوز المسح على الجوربين عند أبي حنيفة إلا أن يكونا مجلدين أو منعلين وقالا يجوز إذا كانا ثخينين لا يشفان...وعنه أنه رجع إلى قولهما وعليه الفتوى

 امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے نزدیک جرابوں پر مسح کرنا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ اگر وہ مجلد یا منعل ہوں تو جائز ہوگا اور ان کے شاگردوں امام ابو یوسف اور امام محمد نے فرمایا کہ سوتی اونی وغیرہ کی جرابیں اگر موٹی ہوں کہ پانی روکیں تو ان پر مسح جائز ہے، امام اعظم ابو حنیفہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے شاگردوں کے قول کی طرف رجوع کر لیا تھا....اور فتوی اسی پر ہے کہ سوتی اونی وغیرہ کے موٹے جرابوں پر مسح جائز ہے

(الهداية في شرح بداية المبتدي1/32)

.

: وَقَالَ أَبُو يُوسُفَ وَمُحَمَّدٌ يَجُوزُ الْمَسْحُ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ إذَا كَانَا ثَخِينَيْنِ لَا يَشِفَّانِ).... قَالَ فِي الذَّخِيرَةِ رَجَعَ أَبُو حَنِيفَةَ إلَى قَوْلِهِمَا فِي آخِرِ عُمُرِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ بِسَبْعِ أَيَّامٍ، وَقِيلَ بِثَلَاثَةِ أَيَّامٍ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى.

امام ابو یوسف اور امام محمد نے فرمایا کہ سوتی اونی وغیرہ کی جرابیں اگر موٹی ہوں کہ پانی روکیں تو ان پر مسح جائز ہے، امام اعظم ابو حنیفہ سے مروی ہے کہ انہوں نے آخر عمر میں وفات سے تین دن یا سات قبل اپنے شاگردوں کے قول کی طرف رجوع کر لیا تھا....اور فتوی اسی پر ہے کہ سوتی اونی وغیرہ کے موٹے جرابوں پر مسح جائز ہے

(الجوهرة النيرة على مختصر القدوري1/28)

.


وَإِن كَانَا ثخينيين قَالَ أَبُو حنيفَة لَا يجوز الْمسْح عَلَيْهِمَا وَقَالَ أَبُو يُوسُف وَمُحَمّد يجوز وَرُوِيَ عَن أبي حنيفَة أَنه رَجَعَ إِلَى قَوْلهمَا فِي آخر عمره

 امام اعظم ابو حنیفہ نے فرمایا کہ اگرچہ موٹی جرابیں ہوں ان پر مسح جائز نہیں ہے، ان کے شاگرد امام ابو یوسف اور امام محمد نے فرمایا کہ اگر جرابیں موٹی ہوں تو مسح ان پر جائز ہے اور امام ابو حنیفہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اخری عمر میں اپنے شاگردوں کے قول کی طرف رجوع کر لیا تھا

(تحفة الفقهاء1/86)

.

قولهما وروي رجوع الإمام إليه قبل موته بثلاثة أيام وقيل بسبعة وعليه الفتوى لما ثبت من أنه عليه الصلاة والسلام مسح على الجوربين قيد بالثخين لأن الرقيق من شعر وصوف لا يجوز المسح عليه

 ان کے شاگردوں نے فتوی دیا کہ موٹی جرابوں پر مسح کر سکتے ہیں، امام اعظم ابو حنیفہ نے اپنی وفات سے تین دن قبل یا سات دن قبل اپنے شاگردوں کی قول کی طرف رجوع کر لیا تھا، اور اسی پر فتوی ہے اور موٹے ہونے کی قید لگائی ہے کیونکہ سوتی یا اون یا کپڑے وغیرہ کی پتلی جراب پر مسح جائز نہیں

( النهر الفائق شرح كنز الدقائق1/124)

.

 وَعَنْهُ أَنَّهُ رَجَعَ إلَى قَوْلِهِمَا وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى

 امام اعظم ابو حنیفہ نے اپنے شاگردوں کے قول کی طرف رجوع کر لیا تھا اور اسی پر فتوی ہے

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق1/192)

.

ورُوي أن أبا حنيفة -رحمه الله- رجع إلى قولهما في آخر عمره وعليه الفتوى

آخری عمر میں امام اعظم ابو حنیفہ نے اپنے شاگردوں کے قول کی طرف رجوع کر لیا تھا اور اسی پر فتوی ہے

(خزانة المفتين - قسم العبادات ص282)

.

، وَعَنْهُ أَنَّهُ رَجَعَ إلَى قَوْلِهِمَا وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى

امام اعظم ابو حنیفہ نے اپنے شاگردوں کے قول کی طرف رجوع کر لیا تھا اور اسی پر فتوی ہے

(العناية شرح الهداية - بهامش فتح القدير ط الحلبي1/157)

.

جرابیں منعل ہوں یا چمڑے کی ہوں تو سب کے نزدیک مسح کرسکتے ہیں...اگر چمڑے کی  نہ ہوں اور موٹی نہ ہوں تو سب کے نزدیک مسح جائز نہیں اور اگر موٹی ہوں تو اکثر صحابہ کرام مثلا سیدنا علی سیدنا ابو مسعود سیدنا انس سیدنا براء سیدنا عمر سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنھم وغیرہ جمھور و اکثر صحابہ کرام و تابعین عظام اور امام ابوحنیفہ کے شاگردوں کے مطابق مسح جائز ہے اور اسی طرف امام ابوحنیفہ نے رجوع کرلیا تھا اور اسی فتوی پر ہی فتوی ہے

(البناية شرح الهداية611، 1/608ملتقطا)

.

، وَإِنْ كَانَا ثَخِينَيْنِ لَا يَجُوزُ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ وَعِنْدَ أَبِي يُوسُفَ، وَمُحَمَّدٍ يَجُوزُ.وَرُوِيَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ رَجَعَ إلَى قَوْلِهِمَا فِي آخِرِ عُمُرِهِ

امام اعظم ابو حنیفہ نے فرمایا کہ اگرچہ موٹی جرابیں ہوں ان پر مسح جائز نہیں ہے، ان کے شاگرد امام ابو یوسف اور امام محمد نے فرمایا کہ اگر جرابیں موٹی ہوں تو مسح ان پر جائز ہے اور امام ابو حنیفہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اخری عمر میں اپنے شاگردوں کے قول کی طرف رجوع کر لیا تھا

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع1/10)

.

*#جرابے موٹے ہونے کی وضاحت......!!*

مرزا کہتا ہے کہ موزے اتنے موٹے ہوں کہ اتنا چلا جائے یہ کہانیاں کراءی ہیں فقہ حنفی کے بابوں نے، بابیت ہے یہ....نعوذ باللہ

.

جواب:

*#پہلی بات*

 خود مرزا جہلمی تم نے کہا کہ موزے موٹے ہونے چاہیے تو ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ یہ موٹے ہونے کی شرط کسی حدیث پاک سے دیکھا دو، ورنہ تم بھی تو بابیت بدعت فساد کہانی کرنے والے پھیلانے والے کہلاؤ گے کہ اپنی طرف سے موزے موٹے ہونے کی شرط لگا رہے ہو.....؟؟

.

*#دوسری بات*

 خود مرزا جہلمی تم نے کہا کہ امام ترمذی نے جرابیں موٹی ہونے کی شرط لگائی ہے تو تمہارے مطابق نعوذباللہ امام ترمذی بابیت پھیلانے والے فساد پھیلانے والے بدعت جھوٹ پھیلانے والے اپنی طرف سے کہانیاں بنا کر پھیلانے والے کہلائیں گے....؟؟

.

*#تیسری بات*

امام ترمذی لکھتے ہیں

وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ، قَالُوا : يَمْسَحُ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ نَعْلَيْنِ إِذَا كَانَا ثَخِينَيْنِ

 کئی اہل علم مثلا امام سفیان ثوری امام ابن مبارک امام شافعی امام احمد امام اسحاق وغیرہ نے فرمایا ہے کہ جرابوں پر مسح کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ موٹے ہوں

(ترمذی تحت الحدیث 99)

 مرزا جہلمی بتاؤ کیا یہ تمام علمائے کرام ائمہ کرام بھی کہانیاں بنانے والے کہانیاں پھیلانے والے کہلائیں گے بابیت کرنے والے پھیلانے والے  بدعتی کہلائیں گے....؟؟ یا پھر تمہیں بغض ہے تو صرف علمائے احناف سے....؟؟ علماء اہلسنت و اولیاء اسلاف سے....؟؟

.

*#چوتھی بات*

سید التابعین عظیم عالم فقیہ محدث امام سعید بن مسیب اور امام حسن فرماتے ہیں:

سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، وَالْحَسَنِ أَنَّهُمَا قَالَا: «يُمْسَحُ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ إِذَا كَانَا صَفِيقَيْنِ»

 امام سعید بن مسیب اور امام حسن فرماتے ہیں: جرابوں پر مسح اس وقت کیا جائے گا جب وہ موٹے ہوں

(استاد بخاری المصنف روایت1976)

 موٹے ہونے کی قید کسی حدیث پاک میں نہیں تھی مگر عظیم تابعین نے موٹے ہونے کی قید لگائی...بتاؤ آپ جہلمی کے مطابق ان جلیل القدر ہستیوں نے کہانیاں کرائیں اور بابیت کی اور بعد والوں نے انکا قول اپنا کر بابیت کی...گمراہی کی…؟ بدعت کی....؟؟

.

*#تابعین تبع تابعین فقہاء احناف نے جرابے موٹے ہونے اور احناف نے چلنے پانی روکنے کی قید و شرط کیوں لگائی.....؟؟*

جواب:

 کسی حدیث میں اور میرے علم کے مطابق کسی صحابی نے جرابوں کے لئے موٹے ہونے کی شرط نہیں لگائی بلکہ تابعین نے موٹے ہونے کی شرط لگائی اور بعد کے فقہاء نے چلنے اور پانی روکنے کی شرط لگائی.... اس کی وجہ اپنی طرف سے بدعت نکالنا من مانی کرنا کہانی کرنا نہیں

بلکہ

اسکی وجہ قیاس ہے.... تابعین اور بعد کے فقہاء نے جرابوں کو دیکھا تو  موزے جیسے نہیں تھے تو جرابوں کے لئے ایسی شرط لگائی کہ وہ موزوں کے قائم مقام ہوجائیں اور موزوں پر جرابوں کو قیاس کیا جاسکے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: «الْجَوْرَبَانِ وَالنَّعْلَانِ بِمَنْزِلَةِ الْخُفَّيْنِ»

 امام ابراہیم فرماتے ہیں کہ جرابے اور موزے ایک دوسرے کے قائم مقام ہیں

(استاد بخاری المصنف روایت1975)


.

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ رَاشِدٍ، قَالَ: سَأَلْتُ نَافِعًا، عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ، فَقَالَ: «هُمَا بِمَنْزِلَةِ الْخُفَّيْنِ

 عباد فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا نافع سے پوچھا کہ جرابوں پر مسح کیا جائے گا تو انہوں نے فرمایا کہ جرابے موزے کے قائم مقام ہیں

(استاد بخاری المصنف روایت1992)

.

حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: كَانَ يَقُولُ: «الْجَوْرَبَانِ وَالنَّعْلَانِ بِمَنْزِلَةِ الْخُفَّيْنِ،

 امام حسن فرمایا کرتے تھے کہ جرابے موزے کے قائم مقام ہین

(استاد بخاری المصنف روایت1993)

.

 دیکھا آپ نے کہ اسلاف نے تابعین نے موزے پر جورابوں کو قیاس کیا اور اس کے قائم مقام بنایا... اب اس میں اختلاف ہوگیا کہ کون سی صفات جرابوں میں پائی جائیں تو وہ موزے کے قائم مقام ہونگی....؟؟

.

علماء نے فرمایا کہ جرابیں اتنی موٹی ہوں کہ پیدل چل سکیں اور وہ پانی کو روکیں تاکہ وہ چمڑے کے موزوں کے قائم مقام ہوں،  حکماً ان جیسی کہلائیں....تو یہ بابیت و بدعت نہیں بلکہ فقہاء کرام کا قیاس و احتیاط ہے

يجوز المسح على الجوربين إذا كانا ثخينين لا يشفان الماء

جرابوں پر مسح جائز بشرطیکہ پانی کو روکیں

(اللباب في شرح الكتاب1/40)

(مختصر القدوري ص18نحوہ)

.

استمساكهما على الرجلين من غير شد والسادس منعهما وصول الماء الى الجسد

جرابوں پر مسح اس شرط پر جائز ہے کہ وہ خود رکیں اور پانی کو روکیں

(مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ص57)

.

ثخينين لا يشفان

جرابوں پر مسح جائز بشرطیکہ پانی کو روکیں

(الهداية في شرح بداية المبتدي1/32)

.

 إذا كانا صفيقين (٣) ثخينين لا يشفّان الماء، ويمكن متابعة المشي فيهما، فإن كانا رقيقين يشفّان الماء فلا يجوز المسح عليهما بالاتفاق

جرابوں پر مسح جائز بشرطیکہ وہ موٹی ہوں کہ پانی کو روکیں اور ان میں مسلسل چلنا ممکن ہو، اگر اتنی پتلی ہوں کہ پانی نہ روکیں تو مسح سب کے نزدیک جائز نہیں

(فقه العبادات على المذهب الحنفي ص46)

.

وهما صفيقان لا يشفان

جرابوں پر مسح جائز بشرطیکہ وہ موٹی ہوں کہ پانی کو روکیں 

( شرح مختصر الطحاوي للجصاص1/457)

.

يُمْكِنُهُ الْمَشْيُ فِيهِ إذَا كَانَ ثَخِينًا، وَهُوَ أَنْ يَسْتَمْسِكَ عَلَى السَّاقِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُرْبَطَ بِشَيْءٍ فَأَشْبَهَ الْخُفَّ

جرابیں  موٹی ہوں، بغیر باندھے رک سکتی ہوں تو یہ چمڑے کے موزوں کے مشابہ ہونگے(لیھذا موزوں پے قیاس کرکے ایسی شرائط والے جرابوں پے بھی مسح جائز ہوگا)

(النهاية في شرح الهداية - السغناقي1/214)

.

وَهَذَا بِخِلَافِ الرَّقِيقِ، فَإِنَّ الدَّلِيلَ يُفِيدُ إخْرَاجَهُ مِنْ الْإِطْلَاقِ لِكَوْنِهِ لَيْسَ فِي مَعْنَى الْخُفِّ

پتلی جرابیں موزوں کے قائم مقام نہیں مشابہ نہیں اس لیے ان پر مسح جائز نہیں

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق1/192)

.

*#پتلی جراب پر مسح بالاتفاق جائز نہیں.....!!*

اوپر حوالہ جات گذرے کہ جرابوں کے موٹے ہونے کی شرط تمام علماء و فقہاء تابعین نے لگائی ہے لہذا پتلی جراب پر مسح جائز نہیں ہوگا کیونکہ وہ موزے کے معنی و ھکم میں نہیں، موزے کے قائم مقام نہیں........!!

وأجمع الجميع أن الجوربين إذا لم يكونا كثيفين لم يجز المسح عليهما

تابعین تبع تابعین ائمہ مجتہدین فقہاء علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب جرابیں پتلی ہوں تو ان پر مسح جائز نہیں ہے

(الاقناع فی مسائل الاجماع 1/90)

.

قيد بالثخين لأن الرقيق من شعر وصوف لا يجوز المسح عليه بلا خلاف

 جرابیں اگر پتلی ہوں تو بغیر کسی اختلاف کے سب کے نزدیک اس پر مسح جائز نہیں ہے

(النهر الفائق شرح كنز الدقائق1/124)

.

فإن كانا رقيقين يشفّان الماء فلا يجوز المسح عليهما بالاتفاق

 جرابیں اگر پتلی ہوں پانی کو نہ روکتی ہوں تو اس پر مسح جائز نہیں ہے اس بات پر سب متفق ہیں

( فقه العبادات على المذهب الحنفي ص46)

.

فَإِنْ كَانَا رَقِيقَيْنِ يَشِفَّانِ الْمَاءَ، لَا يَجُوزُ الْمَسْحُ عَلَيْهِمَا بِالْإِجْمَاعِ

 اگر جرابیں پتلی ہوں کہ پانی کو نہ روکیں تو اس پر اجماع ہے کہ مسح جائز نہیں ہے

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع1/10)

.

*#مروجہ جرابیں موٹی ہیں یا پتلی ہیں.........؟؟*

 مروجہ جرابوں کو دیکھا جائے تو وہ اتنی پتلی ہوتی ہیں کہ پانی کو منع نہیں کرتی بلکہ تھوڑا سا پانی ٹپکایا جائے تو جسم تک پہنچ جائے گا...اور مسلسل چلنا بھی اس میں پایا نہیں جاتا اور یہ بغیر کسی کے بندھے ٹخنوں کو نہیں چھپاتیں بلکہ ٹخنوں کے اوپر ربڑی دھاگے وغیرہ کی ایک تہہ بنائی جاتی ہے جو اسے چپکا کر رکھتی ہے

لیھذا

یہ موزے کے قائم مقام نہیں...احتیاط بلکہ لازم یہی ہے کہ اس پر مسح جائز نہیں.....!!

.

لا يجوز المسح على اللفائف والجورب المتخذة من اللبد والصوف

سوتی اونی وغیرہ کی جرابوں پر مسح جائز نہیں

(البناية شرح الهداية1/608)

.

مجدد دین و ملت سیدی امام احمد رضا علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

سوتی یا اونی موزے(جرابیں) جیسے ہمارے بلاد میں رائج ان پر مسح کسی کے نزدیک درست نہیں، منیہ اور غنیہ میں ہے (امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جرابوں پر مسح جائز نہیں مگر یہ کہ چمڑے کی ہوں) یعنی اس تمام جگہ کو گھیر لیں جو قدم کو ٹخنوں تک ڈھانپتی ہے ( یا منعل ہوں) یعنی جرابوں کا جو حصہ زمین سے ملتا ہے صرف وہ چمڑے کا ہو، جیسے پاؤں کی جوتی ہوتی ہے (اور صاحبین نے فرما یا اگر (جرابیں) ایسی دبیز(موٹی) ہوں کہ نہ کھلتی ہوں تو مسح جائز ہے کیونکہ اگر جراب اس طرح کی ہو کہ پانی قدم تک تجاوز نہ کرے تو وہ جذب کرنے کے حق میں چمڑے اور چمڑا چڑھائے ہوئے موزے کی طرح ہے مگر کچھ دیر ٹھہرنے یا رگڑنے سے پانی جذب کرے تو کوئی حرج نہیں بخلاف پتلی جراب کے، کہ وہ پانی کو جذب کرکے فورا پاؤں تک پہنچاتی ہے۔(ت)( غنیۃ المستملی، فصل فی المسح علی الخفین مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور ص۱۲۰)

(وعلیہ) ای علی قول ابی یوسف ومحمد (الفتوی)

یعنی امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے قول پر (فتوی ہے)

(فتاوی رضویہ جلد 4 صفحہ346...348ملتقطا بحذف)

.

*#تابعین عظام اور فقہ حنفی فقہ شافعی وغیرہ فقہاء علماء نے قیاس کیا جوکہ برحق ہے کہ برحق قیاس کرنا اسلام نے لازم تک قرار دیا ہے علماء و محققین پر.....چند دلائل پڑہیے*

القرآن:

لَوۡ رَدُّوۡہُ  اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ

اگر معاملات و مسائل کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط(اہلِ تحقیق،باشعور،باریک دان،سمجھدار علماء صوفیاء)ضرور جان لیتے

(سورہ نساء آیت83)

 آیت مبارکہ میں واضح حکم دیا جارہا ہے کہ اہل استنباط کی طرف معاملات کو لوٹایا جائے اور انکی مدلل مستنبط رائے قیاس و اجتہاد و استدلال و سوچ و حکم کی تقلید و پیروی کی جائے.....!!

.

يَسْتَخْرِجُونَهُ وَهُمُ الْعُلَمَاءُ..الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُنَافِقِينَ، لَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى ذَوِي الرَّأْيِ وَالْعِلْمِ،...وَفِي الْآيَةِ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ الْقِيَاسِ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ مَا يُدْرَكُ بِالتِّلَاوَةِ وَالرِّوَايَةِ وَهُوَ النَّصُّ، وَمِنْهُ مَا يُدْرَكُ بِالِاسْتِنْبَاطِ وَهُوَ الْقِيَاسُ عَلَى الْمَعَانِي الْمُودَعَةِ فِي النُّصُوصِ

 اہل استنباط سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جو احکام و نکات نکالتے ہوں اور وہ علماء ہیں... آیت میں منافقین اور مومنین سب کو حکم ہے کہ وہ معاملات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دیں اور اہل علم کی طرف لوٹا دیں اور رائے و قیاس کرنے والوں کی طرف لوٹا دیں... اس آیت میں دلیل ہے کہ قیاس کرنا بالکل جائز ہے کہ علم وہ ہوتا ہے کہ جو نص یعنی قرآن اور حدیث و سنت سے ملتا ہے یا پھر ان سے نکالا جاتا ہے یہی تو قیاس ہے

(تفسیر بغوی2/255)

.

دلت هذه الآية على أنَّ القياس حُجَّة... أن في الأحْكَام ما لا يُعْرَف بالنَّصِّ، بل بالاستِنْبَاطِ... أن العَامِيِّ يجِب عليه تَقْلِيد العُلَمَاء

 مذکورہ آیت مبارکہ دلالت کرتی ہے کہ قیاس ایک دلیل و حجت ہے، اس آیت سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ بعض احکام نص سے معلوم ہوتے ہیں اور بعض احکام قیاس و استنباط سے معلوم ہوتے ہیں.... بے شک عام آدمی پر واجب ہے کہ وہ علماء کرام کی تقلید کرے

(اللباب فی علوم الکتاب6/526)

.

 یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ جب نص نہ ہو تو اجتہاد اور قیاس کرنا واجب ہے اور اس پر عمل کرنا بھی لازم ہے..اس آیت سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ بعض احکام نص سے معلوم ہوتے ہیں اور بعض احکام قیاس و استنباط سے معلوم ہوتے ہیں

(تفسیر ثعلبی10/493)

.

الحدیث..ترجمہ:

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟“ تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پا سکو تو کیا کرو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے

(ابوداؤد حدیث3592)

.

 ابو داود شریف کی مذکورہ حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن بعض اہل علم نے اس حدیث کو صحیح و دلیل قرار دیا ہے یا پھر حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے جیسے کہ امام ابن کثیر نے اور جیسے کہ امام شوکانی نے صحیح یا حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے... بعض ائمہ نے تو اس حدیث کی تائید و تخریج و شرح پر کتب و رسائل تک لکھے ہیں... صحابہ کرام سے بہت سارے آثار مروی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے قرآن اور حدیث بھر اقوال صحابہ پھر ان پر کیا گیا اجتہاد و قیاس  کرنا اور عمل کرنا کرانا جائز بلکہ لازم و برحق ہے

(شرح ابوداود للعباد تحت الحدیث3592)

.

یہ حدیث مبارک مشعل راہ ہے کہ قران پھر حدیث و سنت پھر قیاس و استدلال....اس حدیث مبارک سے واضح ہوتا ہے کہ قران حدیث و سنت سے اجتہاد و استدلال کرنا برحق و ماہر علماء کا منصب بلکہ ذمہ داری ہے....استدلال و قیاس کرنے میں سب متفق ہوں یہ ضروری نہیً لیھذا غیرمنصوص ظنیات و فروعیات میں کبھی اختلاف ہونا فطری عمل ہے


الحدیث...ترجمہ:

غزوہ احزاب سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم(یعنی صحابہ کرام) سے فرمایا کہ:

تم میں سے ہر ایک بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھے" (صحابہ کرام نے جلد پہنچنے کی بھر پور کوشش کی مگر)راستے میں عصر کا وقت ختم ہونے کو آیا تو کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ ہم عصر نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی پڑہیں گے اور کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ نبی پاک کا یہ ارادہ نا تھا(کہ نماز قضا ہو اس لیے) ہم عصر پڑھ لیں گے

(طبرانی ابن حبان وغیرہ کتب میں روایت ہے جس میں ہے کہ کچھ صحابہ نے راستے میں ہی عصر نماز پڑھ لی اور کچھ نے فرمایا کہ ہم رسول کریم کی تابعداری اور انکے مقصد میں ہی ہیں لیھذا قضا کرنے کا گناہ نہین ہوگا اس لیے انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر نماز پڑھی)

پس یہ معاملہ رسول کریم کے پاس پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک پر بھی ملامت نا فرمائی

(بخاری حدیث946)

.

دیکھا آپ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کا قیاس و استدلال اور اس میں اختلاف... صحابہ کرام نے اس برحق اختلاف پر ایک دوسرے کو کافر منافق فاسق گمراہ گستاخ نہیں کہا اور نبی پاک نے بھی کسی کی ملامت نا فرمائی...ایسا اختلاف قابل برداشت ہے بلکہ روایتوں میں ایسے فروعی برحق پردلیل باادب اختلاف کو رحمت فرمایا گیا ہے

.

اختلاف ایک فطرتی چیز ہے.... حل کرنے کی بھر پور کوشش لازم ہے اور مقدور بھر علم و توجہ اور اہلِ علم سے بحث و دلائل کے بعد اسلامی حدود و آداب میں رہتے ہوئے پردلیل اختلاف رحمت ہے

مگر

آپسی تنازع جھگڑا ضد انانیت تکبر لالچ ایجنٹی منافقت والا اختلاف رحمت نہیں، ہرگز نہیں...اختلاف بالکل ختم نہیں ہو پاتا مگر کم سے کم ضرور کیا جا سکتا ہے،اس لیے اختلاف میں ضد ،انانیت، توہین و مذمت نہیں ہونی چاہیے بلکہ صبر اور وسعتِ ظرفی ہونی چاہیے... اور یہ عزم و ارادہ بھی ہونا چاہیے کہ اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، ختم نہیں ہو پایا تو اختلاف کو کم سے کم ضرور کیا جائے گا..اختلاف کو جھگڑے سے بچایا جائے گا..

.

اختلاف کی بنیاد حسد و ضد ہر گز نہیں ہونی چاہیے...

اختلاف اپنی انا کی خاطر نہ ہو

اختلاف لسانیت قومیت کی خاطر نہ ہو

اختلاف ذاتی مفاد لالچ کی خاطر نہ ہو

اختلاف شہرت واہ واہ کی خاطر نہ ہو

اختلاف فرقہ پارٹی کی خاطر کی نہ ہو

اختلاف کسی کی ایجنٹی کی خاطر نہ ہو

اختلاف منافقت، دھوکے بازی کی خاطر نہ ہو

اختلاف ہو تو دلیل و بھلائی کی بنیاد پر ہو، بہتر سے بہترین کی طرف ہو، علم و حکمت سے مزین ہو،

.

ہر شخص کو تمام علم ہو،ہر طرف توجہ ہو، ہر میدان میں ماہر ہو یہ عادتا ممکن نہیں، شاید اسی لیے مختلف میدانوں کے ماہر حضرات کی شوری ہونا بہت ضروری ہے، اسی لیے اپنے آپ کو عقل کل نہیں سمجھنا چاہیے....بس میں ہی ہوں نہیں سوچنا چاہیے...ترقی در ترقی کرنے کی سوچ ہو، ایک دوسرے کو علم، شعور، ترقی دینے کی سوچ ہو....!!

.


کسی کا اختلاف حد درجے کا ہو، ادب و آداب کے ساتھ ہو، دلائل و شواہد پر مبنی ہو تو اس سے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے...ایسے اختلاف والے کی تنقیص و مذمت نہیں کرنی چاہیے،ایسے اختلاف پے خطاء والے کو بھی اجر ملتا ہے

الحدیث:

فاجتهد، ثم اصاب فله اجران، وإذا حكم فاجتهد، ثم اخطا فله اجر

مجتہد نے اجتہاد کیا اور درستگی کو پایا تو اسے دو اجر اور جب مجتہد نے اجتہاد کیا خطاء پے ہوا اسے ایک اجر ملے گا

(بخاری حدیث7352)

توجیہ تنبیہ جواب تاویل ترجیح کی کوشش کرنی چاہیے جب یہ ممکن نا ہو تو خطاء اجتہادی پر محمول کرنا چاہیے.....ہاں تکبر عصبیت مفاد ضد انانیت ایجنٹی منافقت وغیرہ کے دلائل و شواہد ملیں تو ایسے اختلاف والے کی تردید و مذمت بھی برحق و لازم ہے

.


اسی طرح ہر ایک کو اختلاف کی بھی اجازت نہیں... اختلاف کے لیے اہل استنباط میں سے ہونا ضروری ہے... کافی علم ہونا ضروری ہے... وسعت ظرفی اور تطبیق و توفیق توجیہ تاویل ترجیح وغیرہ کی عادت ضروری ہے، جب ہر ایرے غیرے کم علم والے کو اختلاف کی اجازت نا ہوگی تو اختلافی فتنہ فسادات خود بخود ختم ہوتے جاءیں گے

.

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ: «مَنْ كَانَ عَالِمًا بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَبِقَوْلِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَا اسْتَحْسَنَ فُقَهَاءُ الْمُسْلِمِينَ وَسِعَهُ أَنْ يَجْتَهِدَ رَأْيَهُ...قال الشافعی لَا يَقِيسُ إِلَّا مَنْ جَمَعَ آلَاتِ .الْقِيَاسِ وَهَى الْعِلْمُ بِالْأَحْكَامِ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَرْضِهِ وَأَدَبِهِ وَنَاسِخِهِ وَمَنْسُوخِهِ وَعَامِّهِ وَخَاصِّهِ وإِرْشَادِهِ وَنَدْبِهِ

....وَلَا يَكُونُ لِأَحَدٍ أَنْ يَقِيسَ حَتَّى يَكُونَ عَالِمًا بِمَا مَضَى قَبْلَهُ مِنَ السُّنَنِ، وَأَقَاوِيلِ السَّلَفِ وَإِجْمَاعِ النَّاسِ وَاخْتِلَافِهِمْ وَلِسَانِ الْعَرَبِ وَيَكُونُ صَحِيحَ الْعَقْلِ حَتَّى يُفَرِّقَ بَيْنَ الْمُشْتَبِهِ، وَلَا يُعَجِّلَ بِالْقَوْلِ وَلَا يَمْتَنِعَ مِنَ الِاسْتِمَاعِ مِمَّنْ خَالَفَهُ لَأَنَّ لَهُ فِي ذَلِكَ تَنْبِيهًا عَلَى غَفْلَةٍ رُبَّمَا كَانَتْ مِنْهُ.... وَعَلَيْهِ بُلُوغُ عَامَّةِ جَهْدِهِ، وَالْإِنْصَافُ مِنْ نَفْسِهِ حَتَّى يَعْرِفَ مِنْ أَيْنَ قَالَ مَا يَقُولُ

 امام  محمد بن حسن فرماتے ہیں کہ جو کتاب اللہ کا عالم ہو سنت رسول اللہ کا عالم ہو اور صحابہ کرام کے اقوال کا عالم ہو اور فقہاء کے اجتہاد و استنباط و قیاس کا عالم ہو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ قیاس و اجتہاد کرے... امام شافعی فرماتے ہیں کہ قیاس و اجتہاد وہی کرسکتا ہے کہ جس نے قیاس کے لیے مطلوبہ علوم و فنون میں مہارت حاصل کی ہو، مثلا قرآن کریم(اور سنت رسول) کے احکامات کا علم ہو قرآن کریم(و سنت رسول) کے فرض واجبات آداب ناسخ  منسوخ عام خاص اور اس کے ارشادات و مندوبات وغیرہ کا علم ہو... قیاس و اجتہاد صرف اس عالم کے لئے جائز ہے کہ جو عالم ہو سنتوں کا، اسلاف(صحابہ کرام تابعین عظام و دیگر ائمہ)کے اقوال کا عالم ہو، اسلاف کے اجماع و اختلاف کا عالم ہو، لغت عرب کے فنون کا عالم ہو، عمدہ عقل والا ہو تاکہ اشتباہ سے بچ سکے،اور جلد باز نہ ہو،اور مخالف کی بات سننے کا دل جگرہ رکھتا ہوکہ ممکن ہے یہ غفلت میں ہو اور مخالف کی تنقید سے غفلت ہٹ جائے اور اس پر واجب ہے کہ دلائل پر بھرپور غور کرے انصاف کے ساتھ بلاتعصب اور اسے پتہ ہونا چاہیے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے کس بنیاد پر کہہ رہا ہے

(جامع بیان العلم و فضلہ2/856)

.##################

*مرزا جہلمی کی دوسری بات...المفھوم*

 مرزا جہلمی کہتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ مبارک اور کپڑے پر مسح کیا ہے تو جب کپڑے پر مسح ہوسکتا ہے تو پتلی جرابوں پر مسح کیوں نہیں ہو سکتا... مرزا جہلمی کے مطابق حنفی بابوں نے یہ مسئلہ اپنے قیاس و من پسندی سے اختیار کیا ہو بلکہ مرزا جہلمی کے انداز سے لگتا ہے جیسے انکے مطابق حنفی بابوں نے حدیث کی مخالفت کرتے ہوئے یہ مسئلہ نکالا ہے نعوذ باللہ

.

*#جواب.و.تحقیق......!!*

پہلی بات:

 اس مسئلہ پر صحابہ کرام میں اختلاف رہا تابعین میں اختلاف رہا بعد کے فقہاء میں اختلاف رہا... بعض صحابہ و تابعین نے عمامے پر مسح کرنے کو جائز کہا بعض نے ناجائز کہا....کچھ حوالہ جات حاضر خدمت ہیں

امام ترمزی لکھتے ہیں:

سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، فَقَالَ : السُّنَّةُ يَا ابْنَ أَخِي. قَالَ : وَسَأَلْتُهُ عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْعِمَامَةِ، فَقَالَ : أَمِسَّ الشَّعَرَ الْمَاءَ

سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا کہ کیا عمامے(پگڑی) پر مسح کرنا جائز ہے تو فرماتے ہیں کہ پانی بالوں کو لگے تو جائز ہے

(ترمزی روایت 102)

او جہلمی بتا کیا علماء احناف پر اعتراض کی طرح صحابی سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ پر بھی اعتراض کرو گے کہ انہوں نے حدیث کا خلاف کیا، بابیت پھیلائ، من مانی کی.....؟؟ یقینا صحابہ و تابعین و علماء احناف نے بابیت نہیں پھیلائی من مانی نہیں کی، حدیث پر عمل کیا.....ہاں ہاں البتہ تم میں ، تمہاری دال میں کچھ کالا ضرور ہے ،تمھارے سینے میں بغض ضرور ہے، یہی تمہارے باطل اور فسادی ہونے کی نشانی ہے کاش تمہیں ادب و ہدایت ملے ورنہ کوئی تمھیں سزا و لگام لگائے کہ گستاخ ضدی فسادی کا یہی آخری علاج ہے

.

وَقَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ : لَا يَمْسَحُ عَلَى الْعِمَامَةِ إِلَّا أَنْ يَمْسَحَ بِرَأْسِهِ مَعَ الْعِمَامَةِ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ

 امام ترمذی فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کئ صحابہ کرام اور کئ تابعین اور کئ اہل علم کا یہ قول ہے کہ عمامہ پر مسح کرنا جائز نہیں ہے سوائے اس صورت کے کہ سر کا بھی مسح کیا جائے، یہی قول ہے سیدنا سفیان ثوری کا سیدنا مالک بن انس کا سیدنا ابن مبارک کا سیدنا امام شافعی کا ہے

(ترمذی تحت الحدیث 100)

ارے جہلمی بتا کیا علماء احناف پر اعتراض کی طرح کئ صحابہ کرام تابعین عظام و فقہاء پر بھی اعتراض کرو گے کہ انہوں نے حدیث کا خلاف کیا…؟ بابیت پھیلائ...؟ من مانی کی.....؟؟ یقینا صحابہ و تابعین و علماء احناف نے بابیت نہیں پھیلائی من مانی نہیں کی، حدیث پر عمل کیا.....ہاں ہاں البتہ تم میں ، تمہاری دال میں کچھ کالا ضرور ہے ،تمھارے سینے میں بغض ضرور ہے، یہی تمہارے باطل اور فسادی ہونے کی نشانی ہے کاش تمہیں ادب و ہدایت ملے ورنہ کوئی تمھیں سزا و لگام لگائے کہ گستاخ ضدی فسادی کا یہی آخری علاج ہے

.

*#دوسری بات*

جہلمی تم قیاس کر رہے ہو کہ جب عمامے پر مسح جائز ہے تو پتلی جراب پے بھی مسح جائز ہے....لیکن قیاس کرنے سے پہلے قیاس کے قواعد و ضوابط بھی کاش کہ پڑھے ہوتے،عمامہ پر مسح کرنے نہ کرنے میں اختلاف ہے اور ایسے اختلافی مسئلہ پر بطور دلیل قیاس نہیں کیا جاسکتا

لأن الدليل إذا تطرق إليه الاحتمال سقط به الاستدلال

دلیل میں احتمال(اختلاف، کئ معنی) ہو جائے تو اس سے استدلال و قیاس نہیں کرسکتے

(أصول الفقه الذي لا يسع الفقيه جهله ص188)


ثمَّ الِاحْتِمَال إِن كَانَ فِي دَلِيل الحكم سقط الِاسْتِدْلَال

اگر کسی حکم کی دلیل میں احتمال(اختلاف، کئ معنی) ہوں تو اس سے استدلال و قیاس نہیں کرسکتے

(التحبير شرح التحرير5/2388)

.#############

*#مرزا جہلمی کی تیسری بات...المفھوم*

 مرزا جہلمی کہتا ہے کہ میں تو پاؤں پر مسح کرنے کا قائل ہوں کیونکہ مصنف ابن ابی شیبہ میں تابعی سیدنا عکرمہ سے ثابت ہے کہ وہ پاؤں پر مسح کرنے کے قائل تھے، جہلمی قیاس کرتے ہوے کہتا ہے کہ جب پاؤں پے مسح ہوسکتا ہے تو پتلی جرابوں پے مسح کیوں نہیں ہوسکتا.....؟؟

.

جواب:

*#پہلی بات*

تم خود مان چکے کہ مسح کے لیے موٹی جرابیں شرط ہیں پھر اب کہہ رہے ہو کہ بغیر جراب کے مسح بھی جائز ہے تو اسکا مطلب بنا کہ پتلی جراب پے بھی تمھارے مطابق مسح جائز ہے...جب پتلی جراب پر مسح جائز ہے تو تم جراب موٹی ہونے کی شرط کیوں لگا رہے ہو یہ تو تضاد بیانی جہالت و کم علمی و دوہرا معیار و منافقت ہوا ناں.....؟؟

.

*#دوسری بات*

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا موزوں پر مسح کرنا اور صحابہ کرام کا موزوں پر مسح کرنا دلیل ہے کہ خالی قدموں کا مسح جائز نہیں مسح کے لیے موزے یا جو موزے کے حکم میں ہوں وہ موٹی جرابیں شرط ہیں جبکہ تم کہہ رہے ہو کہ خالی پاؤن کا بھی مسح جائز ہے

.

*#تیسری بات*

الحدیث:

تَخَلَّفَ عَنَّا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ سَافَرْنَاهُ، فَأَدْرَكَنَا، وَقَدْ حَضَرَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ، فَجَعَلْنَا نَمْسَحُ عَلَى أَرْجُلِنَا، فَنَادَى : " وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ

ایک سفر میں صحابہ کرام وضو کرتے وقت پاؤں پر مسح کرنے لگے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسے پاؤں ہلاکت و جہنم میں ہیں

(مسلم حدیث241 بخاری حدیث60نحوہ)

.

چوتھی بات:

تمھارے مطابق بھی قدموں کا مسح متنازعہ ضرور ہے لیکن تمھاری جہالت تعصب فسادیت ہے کہ متنازعہ پر قیاس کر رہے ہو حالانکہ اوپر ہم قاعدہ بیان کر آئے کہ متنازعہ سے دلیل پکڑنا درست نہیں.......!!

.

*#پانچویں بات.....!!*

بعض صحابہ کرام نے قدموں پر مسح کو جائز فرمایا تھا مگر پھر رجوع کرکے سب صحابہ کرام اہلبیت عظام نے متفقہ فتوی دیا کہ پاؤں موزے و مثلہ سے خالی ہوں تو دھونا ضروری ہے مسح جائز نہیں....مگر تم جہملی صحابہ کرام اہلبیت عظام کے خلاف جا رہے ہو حدیث کے خلاف جا رہے ہو اور طعنے پابند سنت علماء کرام پر مار رہے ہو....شرم کرو شرم

امام ابن حجر لکھتے ہیں:

وَقَدْ تَوَاتَرَتِ الْأَخْبَارُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صِفَةِ وُضُوئِهِ أَنَّهُ غَسَلَ رِجْلَيْهِ وَهُوَ الْمُبَيِّنُ لِأَمْرِ اللَّهِ وَقَدْ قَالَ فِي حَدِيثِ عَمْرو بن عبسه الَّذِي رَوَاهُ بن خُزَيْمَةَ وَغَيْرُهُ مُطَوَّلًا فِي فَضْلِ الْوُضُوءِ ثُمَّ يَغْسِلُ قَدَمَيْهِ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ وَلَمْ يَثْبُتْ عَنْ أَحَدٍ مِنَ الصَّحَابَةِ خِلَافُ ذَلِكَ إِلَّا عَن على وبن عَبَّاسٍ وَأَنَسٍ وَقَدْ ثَبَتَ عَنْهُمُ الرُّجُوعُ عَنْ ذَلِكَ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى أَجْمَعَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى غَسْلِ الْقَدَمَيْنِ رَوَاهُ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُور

تواتر سے ثابت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم وضو میں پاؤں دھویا کرتے تھے، تو اس فعل و احادیث سے ایت کی تشریح ہوگئ کہ پاؤں پر مسح نہیں کرنا،اس بات پر اکثر صحابہ کرام کا اجماع ہے اور جو سیدنا علی سیدنا انس سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھم نے جو فرمایا تھا کہ پاؤں پے مسح جائز ہے تو انہوں نے اس فتوے سے رجوع کرکے فرمایا کہ پاؤں پے(جب موزے یا موٹی جرابیں نہ ہوں تو) مسح جائز نہیں

(فتح الباری شرح بخاری1/266)

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.