شیعہ و چمن زمان و نیم روافض کا سیدنا معاویہ پر اعتراض کہ انکی حکومت ظالمانہ تھی اسکا مدلل جواب

 


https://tahriratehaseer.blogspot.com/2023/02/blog-post_15.html 

https://tahriratehaseer.blogspot.com/2023/02/blog-post_33.html

https://whatsapp.com/channel/0029Va8o4u5BPzjO66cPNf2Y/110

https://whatsapp.com/channel/0029Va8o4u5BPzjO66cPNf2Y/111

*#چمن زمان وتھ کمپنی مشہدی وغیرہ نیم رافضیوں اور شیعوں کا سیدنا معاویہ کی حکومت پر ایک اہم اعتراض کی تحقیق اور سیدنا معاویہ کی حکومت عادلانہ تھی چند حوالہ جات لکھے ہیں، ضرور پڑہیے...........!!*

سوال:

علامہ صاحب چمن زمان نے پھر سیدنا معاویہ کی شان پے حملہ کیا ہے اور کہا ہے کہ حدیث پاک میں ہے کہ تیس سال کے بعد ملکا عضوضا ہوگی یعنی کاٹ کھانے والی ظالمانہ حکومت ہوگی اور ظاہر بات ہے تیس سال کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت آئی تھی...اسکا جواب لکھیے

.

سوال:

مولانا آپ کی تحریر شیئر کی تو شیعہ نے یہ اعتراض کیا ہےجواب دیں تسلی بخش

خلاصہ اعتراض:

شیعہ روافض نیم روافض تفضیلی تفسیقی وغیرہ کہتے ہیں کہ حدیث پاک میں ہے کہ خلافت تیس سال ہوگی پھر ظالمانہ کاٹ کھانے والی ملوکیت ہوگئ...سیدنا حسن کی خلافت تک تیس سال پورے ہوءے پھر معاویہ کی ملوکیت ہوئی اور حدیث پاک کے مطابق معاویہ کی ملوکیت کاٹ کھانے والی ظالمانہ ملوکیت ہےایسی ملوکیت سیاست زندہ باد نہیں ہوسکتی

حوالہ کتب اہلسنت طبرانی بیھقی فتح الباری

.

*#جواب.و.تحقیق*

پہلی بات:

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل میں احادیث و اقوال اہلسنت و شیعہ کتب سے پڑہیے بالخصوص امام بخاری امام احمد و محققین و صوفیاء کی عبارات پڑہیے اوپری دی گئ دوسری لنک میں..... اور ان پر بعض اعتراضات جو پروفیسر کی طرف سے کیے گئے انکا جواب اوپر دی گئ لنک تین میں پڑہیے

اور

میرے وتس اپ چینل کو فالوو کیجیے...اس پے تینوں تحریرات ڈال دی ہیں اور لنک بھی اوپر دے دیا ہے

اور

سیدنا معاویہ کی حکومت اچھی عادلانہ تھی ظالمانہ نہ تھی پڑہیے اس تحریر کے آخر میں

*#دوسری بات.....!!*

اصل حدیث میں صرف اتنا ہے کہ خلافت تیس سال ہوگی اس کے بعد ملوکیت ہوگی، اصل حدیث میں عضوضا یعنی ظالمانہ کاٹ کھانے والی ناحق ملکویت کے الفاظ نہیں لیھذا یہ اضافہ منکر وھم و تدلیس و نکارت و مردود ہے

.

فتح الباری میں ہے کہ: حَدِيثِ سَفِينَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا عَضُوضًا ترجمہ:

حضرت سیدنا سفینہ کی روایت کردہ حدیث پاک میں ہے کہ میرے بعد خلافت تیس سال ہوگی پھر کاٹ کھانے والی ظالمانہ ناحق ملوکیت ہوگی

 [فتح الباري لابن حجر ,8/77]

.

 امام ابن کثیر فرماتے ہیں: حَدِيثُ سَفِينَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا

ترجمہ:حضرت سیدنا سفینہ کی روایت کردہ حدیث پاک میں ہے کہ میرے بعد خلافت تیس سال ہوگی پھر کاٹ کھانے والی ظالمانہ ناحق ملوکیت ہوگی

[البداية والنهاية 6/250]

.

 اسی طرح دیگر کچھ کتب اہلسنت مین بھی ہے مگر زیادہ تر ان دو کتب کے حوالےسے کہا جاتا ہے کہ معاویہ کی ملوکیت کاٹ کھانے والی ظالمانہ ہے...مذکورہ کتب میں واضح لکھا ہے کہ *#حضرت_سفینہ* کی روایت کردہ حدیث میں یہ ہے کہ میرے بعد خلافت تیس سال ہوگی پھر کاٹ کھانے والی ظالمانہ ناحق ملوکیت ہوگی....

.

اب آئیے سیدنا سفینہ کی حدیث کو اس کے اصل ماخذ و کتب میں دیکھتے ہیں اگر اصل ماخذ میں عضوضا کاٹ کھانے والی ظالمانہ ناحق کے الفاظ ہیں تب تو اعتراض بن سکتا ہے اور اگر اصل ماخذ میں عضوضا کے الفاظ نہیں تو یقینا یہ اضافہ وھم و منکر و تدلیس و نکارت و مردود کہلائے گا.

.

اصل حدیثِ سفینہ یہ ہے: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَفِينَةُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الخِلاَفَةُ فِي أُمَّتِي ثَلاَثُونَ سَنَةً، ثُمَّ مُلْكٌ بَعْدَ ذَلِكَ

ترجمہ:

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں خلافت تیس سال ہوگی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی

 [سنن الترمذي ت بشار ,4/73حدیث2226]

.

 حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ

ترجمہ:

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خلافت تیس سال ہوگی پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہے گا ملوکیت عطا کرے گا

 [سنن أبي داود4/211 حدیث4646]

.

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ مَنْ يَشَاءُ، أَوْ مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ»

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خلافت تیس سال ہوگی پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہے گا ملوکیت عطا کرے گا

 [سنن أبي داود ,4/211 حدیث4647]

.


أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَحْمَدَ الْمَلِيحِيُّ، أَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي شُرَيْحٍ، أَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْبَغَوِيُّ، نَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، أَخْبَرَنِي حَمَّادُ هُوَ ابْنُ سَلَمَةَ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الْخِلافَةُ ثَلاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا

ترجمہ:

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ خلافت تیس سال ہوگی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی 

(شرح السنة للبغوي ,14/7)

.

حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ الْعَبْسِيُّ، كُوفِيٌّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ، حَدَّثَنِي سَفِينَةُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «الْخِلَافَةُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ مُلْكًا بَعْدَ ذَلِكَ» ترجمہ:

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خلافت تیس سال ہوگی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی

[مسند أحمد مخرجا ,36/256 حدیث21928]

.

أَخْبَرَنَا أَبُو يَعْلَى، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَجَّاجِ السَّامِيُّ، قَالَ:حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الْخِلَافَةُ ثَلَاثُونَ سَنَةً، وَسَائِرُهُمْ مُلُوكٌ، وَالْخُلَفَاءُ

[صحيح ابن حبان - مخرجا ,15/34حدیث6657]

.

 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ غَنَّامٍ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أنا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ، ثنا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْخِلَافَةُ بَعْدِي فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں میرے بعد خلافت تیس سال ہوگی

 [المعجم الكبير للطبراني ,1/89حدیث136] 

.

 13 - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا حَجَّاجُ بْنُ الْمَهَّالِ، ح وَحَدَّثَنَا الْمِقْدَامُ، ثنا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، قَالَا: ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الْخِلَافَةُ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا»

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خلافت تیس سال ہوگی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی

[,المعجم الكبير للطبراني ,1/55]

.

 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ، حَدَّثَنِي سَفِينَةُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْخِلَافَةُ بَيْنَ أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ مُلْكٌ بَعْدَ ذَلِكَ

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں خلافت تیس سال ہوگی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی

 [المعجم الكبير للطبراني ,7/83]

.

 حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا هُشَيْمٌ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْخِلَافَةُ بَعْدِي فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً , ثُمَّ مُلْكٌ

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں خلافت تیس سال ہوگی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی

 [المعجم الكبير للطبراني ,7/83]

.

 أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ قَالَ: أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جَمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْخِلَافَةُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ مُلْكًا بَعْدَ ذَلِكَ»

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں خلافت تیس سال ہوگی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی

 [السنن الكبرى للنسائي ,7/313 حدیث8099]

.

حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا حُمَيْدُ بْنُ عَيَّاشٍ الرَّمْلِيُّ، ثنا الْمُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ثُمَّ قَالَ: «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ عَامًا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خلافت تیس سال ہوگی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی

[المستدرك على الصحيحين للحاكم ,3/75حدیث4439]

.

میری تلاش میں یہ حوالے باسند نظر سے گذرے سب کا ترجمہ ملتا جلتا ہے اور اہم بات یہ کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جہاں بھی باسند حدیث سفینہ ہے یا یوں کہیے کہ حدیث سفینہ کے اصل ماخذ جو بھی ہیں ان سب میں عضوضا کاٹ کھانے والی ظالمانہ ناحق ملوکیت کے الفاظ نہیں....یہ الفاظ چند ان کتب اہلسنت میں ہیں جنہوں نے حدیث ِ سفینہ کہہ کر روایت کیا مگر چونکہ اصل حدیثِ سفینہ میں عضوضا کا اضافہ نہیں لیھذا یہ مصنفین کا وھم و نکارت و زیادت و مردود کہلائے گا...سیدنا معاویہ کی حکومت ملوکیت تھی اچھی عادلانہ حکومت تھی جس پر ہم دو تفصیلی تحریر بھی لکھ چکے ہیں 

.

#البتہ مسند طیالسی و طبرانی اور بیھقی میں ایک روایت ہے جس میں عضوضا کے الفاظ ہیں...وہ روایت یہ ہے

 حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ لَيْثٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بَدَأَ هَذَا الْأَمْرَ نَبُوَّةً وَرَحْمَةً، وَكَائِنًا خِلَافَةً وَرَحْمَةً وَكَائِنًا مُلْكًا عَضُوضًا [مسند أبي داود الطيالسي ,1/184]

.

 حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْمُثَنَّى، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ، أَخُو حَجَّاجٍ، ثنا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، ثنا لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَأَبِي عُبَيْدَةَ قَالَا: سَمِعْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ بَدَأَ رَحْمَةً وَنُبُوَّةً، ثُمَّ خِلَافَةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ كَائِنًا مُلْكًا عَضُوضًا، وَجَبْرِيَّةً، وَفَسَادًا فِي الْأَرْض

 [المعجم الكبير للطبراني ,20/53]

.

 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ فُورَكٍ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ، ثَنَا يُونُسُ بْنُ حَبِيبٍ، ثَنَا أَبُو دَاوُدَ، ثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ " اللهَ بَدَأَ هَذَا الْأَمْرَ نُبُوَّةً وَرَحْمَةً , وَكَائِنًا خِلَافَةً وَرَحْمَةٍ , وَكَائِنًا مُلْكًا عَضُوضًا , وَكَائِنًا عُتُوَّةً وَجَبْرِيَّةً وَفَسَادًا فِي الْأُمَّةِ , يَسْتَحِلُّونَ الْفُرُوجَ وَالْخُمُورَ وَالْحَرِيرَ , وَيُنْصَرُونَ عَلَى ذَلِكَ وَيُرْزَقُونَ أَبَدًا حَتَّى يَلْقَوُا اللهَ عَزَّ وَجَلَّ " [السنن الكبرى للبيهقي ,8/275]

 حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ قَالَ: كَانَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ يَتَنَاجَيَانِ بَيْنَهُمَا بِحَدِيثٍ، فَقُلْتُ لَهُمَا: مَا حَفِظْتُمَا وَصِيَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِي؟ قَالَ: وَكَانَ أَوْصَاهُمَا بِي، قَالَا: مَا أَرَدْنَا أَنْ نَنْتَجِي بِشَيْءٍ دُونَكَ، إِنَّمَا ذَكَرْنَا حَدِيثًا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَا يَتَذَاكَرَانِهِ قَالَا: «إِنَّهُ بَدَأَ هَذَا الْأَمْرُ نُبُوَّةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ كَائِنٌ خِلَافَةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ كَائِنٌ مُلْكًا عَضَوضًا، ثُمَّ كَائِنٌ عُتُوًّا وَجَبْرِيَّةً وَفَسَادًا فِي الْأُمَّةِ، يَسْتَحِلُّونَ الْحَرِيرَ وَالْخُمُورَ وَالْفُرُوجَ وَالْفَسَادِ فِي الْأُمَّةِ، يُنْصَرُونَ عَلَى ذَلِكَ، وَيُرْزَقُونَ أَبَدًا حَتَّى يَلْقُوا اللَّهَ» -[178]-، Kإسناده ضعيف 874 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ، أَخُو حَجَّاجٍ الْأَنْمَاطِيِّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ لَيْثٍ، بِإِسْنَادِهِ، فَذَكَرَ نَحْوَهُKإسناده ضعيف [مسند أبي يعلى الموصلي ,2/177]

.

یہ تین چار حوالے مقدور بھر تلاش کرنے سے مجھے ملے ان سب روایات میں عضوضا کا لفظ ہے....اسکا جواب یہ ہے کہ

①مذکورہ عضوضا یعنی ظالمانہ کاٹ کھانے والی ملوکیت ہوگی..یہ اضافے والی روایت کی تمام سندوں میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک راوی لیث بن ابی سلیم ہے جوکہ ضعیف ہےاس پر اختلاط و اضطراب و نکارت و تدلیس کی جرح ہے لیھذا فضائل کی بات ہوتی تو اسکی روایت مقبول ہوسکتی تھی مگر روایت میں چونکہ حکم شرعی عضوضا یعنی ظالم فاسق فاجر ثابت کیا جارہا ہے اور سب کا متفقہ اصول ہے کہ حکم شرعی ظلم و فسق و فجور ثابت کرنے کے لیے ضعیف روایات ناقابلِ قبول ہیں، ناقابل حجت ہیں

.

②نیز اس ضعیف راوی نے صحیح روایات پر اضافہ کیا ہے اور متفقہ اصول ہے کہ ایسے راوی کی زیادت بلامتابع ہو تو ناقابل حجت ہے،مردود ہے

.

لَيْث بن أبِي سُلَيم ضعيف

لَيْث بن أبِي سُلَيم ضعيف ہے

(الكامل في ضعفاء الرجال7/233)

.

ومدار الإسناد على ليث بن أبي سليم وهو ضعيف...وفيه ليث بن أبي سليم وهو مدلس

سند کا دار و مدا لَيْث بن أبِي سُلَيم پر ہے جوکہ ضعیف ہے تدلیس کرتا ہے

(المطالب العالية ابن حجر 11/408ملتقطا)

.

وكان ليث اكثرهم تخليطا...ليس حديثه بذاك، ضعيف

لیث خلط ملط زیادات کرتا ہے جوکہ معتبر نہیں کیونکہ یہ ضعہف راوی ہے

(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم7/178ملتقطا)

.

لَيْثُ بنُ أَبِي سُلَيْمٍ بنِ زُنَيْمٍ الأُمَوِيُّ...لِنَقصِ حِفْظِهِ...قَالَ أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ: لَيْثُ بنُ أَبِي سُلَيْمٍ مُضْطَرِبُ الحَدِيْثِ...فَالزِّيَادَةُ هُوَ ضَعِيْفٌ...تَرَكَه: يَحْيَى القَطَّانُ، وَابْنُ مَهْدِيٍّ، وَأَحْمَدُ، وَابْنُ مَعِيْنٍ....فَيُرْوَى فِي الشَّوَاهِدِ وَالاعْتِبَارِ، وَفِي الرَّغَائِبِ، وَالفَضَائِلِ، أَمَّا فِي الوَاجِبَاتِ، فَلاَ.

لَيْث بن أبِي سُلَيم ضعيف ہے کہ اس کے حافظے میں نقص ہے،امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ یہ مضطرب الحدیث ہے(کبھی کچھ ، کبھی کچھ کہتا ہے وھم و تدلیس و نکارت کرتا ہے)تو یہ جو الفاظ زیادہ کرے وہ ضعیف کہلائیں گے

امام یحیی القطان اور امام ابن مہدی اور امام احمد اور امام ابن معین نے اس راوی کی روایات زیادات کو ترک کیا ہے

پس

اسکی روایت شواہد متابعت فضائل میں تو معتبر ہین مگر فرض واجباب(ظلم فسق و فجور وغیرہ احکام شرع) میں اسکی روایات معتبر نہیں

[سير أعلام النبلاء ط الرسالة184 ,6/179ملتقطاملخصا]

.=================

*#دوسری بات......!!*

*حکومتِ سیدنا معاویہ عادلانہ تھی اور نعرہ فیضان معاویہ جاری رہے گا کی تحقیق اور شرائط صلح معاویہ.........!!*

.

سیدنا معاویہ کی حکومت سیدنا عمر کی حکومت جیسی عادلانہ برحق تھی،رضی اللہ تعالیٰ عنھما

عَمِلَ مُعَاوِيَةُ بِسِيرَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ سِنِينَ لَا يَخْرِمُ مِنْهَا شَيْئًا»

سیدنا معاویہ نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت پر سالوں تک عمل کیا۔۔۔ان سالوں میں سوئی برابر بھی راہ حق سے نہ ہٹے 

(السنة لأبي بكر بن الخلال روایت683)

وقال المحقق إسناده صحيح

(حاشیۃ معاوية بن أبي سفيان أمير المؤمنين وكاتب وحي النبي الأمين صلى الله عليه وسلم - كشف شبهات ورد مفتريات1/151)

سالوں کی قید شاید اس لیے لگاءی کہ تاکہ وہ سال نکل جائیں جن میں سیدنا معاویہ نے ولی عہد کیا...کیونکہ ولی عہد سیدنا عمر کی سیرت نہیں بلکہ سیدنا معاویہ کا اجتہاد تھا...جب سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حکومت سیدنا عمر کے نقش قدم پر تھی اور سیدنا عمر کی حکومت رسول کریم کے ارشادات کے مطابق تھی تو ایسی برحق عادلانہ حکومتوں کے بارے میں کیوں نہ کہا جائے کہ فیضان عمر جاری رہے گا ، فیضان علی جاری رہے گا ، فیضان معاویہ جاری رہے گا 

.

سیدنا معاویہ فقیہ مجتہد تھے

قَالَ : إِنَّهُ فَقِيهٌ

  فرمایا کہ بےشک معاویہ فقیہ ہیں

(بخاری روایت3765)

.

الحدیث:

فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ، فَلَهُ أَجْرٌ

 اجتہاد کرے پھر وہ درستگی کو پائے تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر اجتہاد کرے اور خطاء کرے تو اس کے لئے ایک اجر ہے(بخاری حدیث7352)

.

 لہذا ولی عہد کرنا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا اجتہاد تھا اور اجتہاد میں اگر خطاء بھی واقع ہو تو اس کے لیے ایک اجر ہے...لیھذا ولی عہدی کی وجہ سے سیدنا معاویہ پر طعن و مذمت نہیں بنتی......!!

.

*#شرائط_صلح:*

فأرسل إليه الحسن يبذل له تسليم الأمر إليه، على أن تكون له الخلافة من بعده، وعلى ألا يطالب أحدًا من أهل المدينة والحجاز والعراق بشيء مما كان أيام أبيه، وعلى أن يقضي ديونه، فأجاب معاوية إلى ما طلب، فاصطلحا على ذلك فظهرت  المعجزة النبوية في قوله صلى الله عليه وسلم: "يصلح الله به بين فئتين من المسلمين"

(پہلی شرط:)

سیدنا حسن نے سیدنا معاویہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ سیدنا معاویہ کو خلافت اور حکومت دینے کے لیے تیار ہیں ان شرائط پر کہ سیدنا معاویہ کے بعد حکومت سیدنا حسن کو ملے گی

اور

(دوسری شرط)

اہل مدینہ، اہل حجاز اور اہل عراق سے(محض اختلاف و گروپ کی وجہ سے)کوئی مطالبہ مواخذہ نہیں کیا جائے گا(شرعا جو مواخذہ ہوگا وہ کیا جائے گا)

اور

(تیسری شرط)

ایک شرط یہ تھی کہ سیدنا معاویہ حضرت امام حسن کا قرض چکائیں گے تو حضرت معاویہ نے ان شرائط پر صلح کرلی تو معجزہ نبوی ظاہر.و.پورا ہوا کہ جو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ تعالی میرے اس بیٹے کے ذریعے سے دو مسلمان گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا 

(تاريخ الخلفاء ص147)

(سمط النجوم العوالي3/89)

(أسد الغابة ط الفكر1/491)

(تهذيب الأسماء واللغات1/159)

.

(چوتھی شرط)

وإني قد أخذت لكم على معاوية أن يعدل فيكم

امام حسن نے فرمایا کہ میں نے سیدنا معاویہ سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ تم میں عدل کا معاملہ کریں گے 

(الطبقات الكبرى-متمم الصحابة1/326)

.

.

(پانچویں_شرط)

*#متنازعہ،غیر متفقہ شرط کہ ولی عہد نہ کریں گے:*

صالحه عَلَى أن يسلم إِلَيْهِ ولاية أمر المسلمين عَلَى أن يعمل فِيهَا بكِتَاب اللَّهِ وسنة نبيه وسيرة الخلفاء الصالحين؟! وعلى أنه ليس لمعاوية أن يعهد لأحد من بعده، وأن يكون الأمر شورى....ردھما الی معاویہ

سیدنا امام حسن نے اس بات پر صلح کی کہ سیدنا معاویہ کو وہ حکومت دیں گےاس شرط پر کہ سیدنا معاویہ عمل کریں گے کتاب اللہ پر نبی پاک کی سنتوں پر اور خلفائے راشدین کی سیرت پر۔۔۔۔۔۔اور سیدنا معاویہ اپنے بعد کسی کو مقرر نہ کریں گے بلکہ معاملہ شوری پر چھوڑیں گے۔۔۔یہ شرائط لکھ کر سیدنا معاویہ کی طرف خط بھیجا  

(أنساب الأشراف للبلاذري3/42)

.

متنازعہ شرط نہ منظور ہوکر صلح ہوئی:

فَلَمَّا أَتَتِ الصَّحِيفَةُ إِلَى الْحَسَنِ اشْتَرَطَ أَضْعَافَ الشُّرُوطِ الَّتِي سَأَلَ مُعَاوِيَةَ قَبْلَ ذَلِكَ وَأَمْسَكَهَا عِنْدَهُ، فَلَمَّا سَلَّمَ الْحَسَنُ الْأَمْرَ إِلَى مُعَاوِيَةَ طَلَبَ أَنْ يُعْطِيَهُ الشُّرُوطَ الَّتِي فِي الصَّحِيفَةِ الَّتِي خَتَمَ عَلَيْهَا مُعَاوِيَةُ، فَأَبَى ذَلِكَ مُعَاوِيَةُ وَقَالَ لَهُ: قَدْ أَعْطَيْتُكَ مَا كُنْتَ تَطْلُبُ فَلَمَّا اصْطَلَحَا

جو صحیفہ امام حسن کی طرف معاویہ نے روانہ کیا تھا جس پر مہر لگائی تھی امام حسن نے مذکورہ شرائط کے علاوہ کئ شرائط لگا دی تو حضرت معاویہ نےان(زائد)شرائط کو پورا کرنے سے انکار کر دیا پھر جب(زائد متنازع شرائط کو نکال کر ) دونوں نے صلح کرلی

(الكامل في التاريخ ج3 ص6)

۔

تفصیل:

یہ پانچویں شرط کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کتاب اللہ پر عمل کریں گے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کریں گے اور خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کریں گے تو اوپر گزرا کی سیدنا معاویہ کی حکومت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کی طرح تھی، سیدنا معاویہ سیدنا عمر کے نقش قدم پر چلے۔۔۔باقی رہی بات یہ کہ سیدنا معاویہ اپنے بعد کسی کو خلیفہ بنا کر نہ جائیں گےتو اس شرط کے غیرمتفقہ متنازعہ  غیرموجود مردود ہونے کی تین وجوہ ہیں

①ایک وجہ یہ ہے کہ سب سے پہلی شرط یہ تھی کہ حکومت سیدنا معاویہ کے بعد سیدنا حسن کو ملے گی شوری کا تو تذکرہ ہی نہیں تھا جبکہ یہ پانچویں شرط شوری کا بتا رہی ہے لیھذا یہ شرط پہلی شرط کے خلاف و مردود ہے…پہلی شرط میں یہ ہے کہ سیدنا حسن کو بعد از سیدنا معاویہ خلافت ملے گی، پہلی شرط میں یہ نہیں لکھا کہ سیدنا حسین کو حکومت ملے گی لیھذا سیدنا حسن کی وفات ہوگئ تو پہلی شرط خود بخود کالعدم ہوگئ اس لیے سیدنا معاویہ نے اجتہاد کرتے ہوئے یزید کے لیے بیعت لی...زیادہ سے زیادہ اسے اجتہادی خطاء کہا جاسکتا ہے مگر سیدنا معاویہ کو بدعہد خائن دھوکےباز نہیں کہا جاسکتا

②اور کسی کو مقرر نہ کرنے کی یہ شرط کسی معتبر تاریخ کی کتاب میں بھی نہیں آئی۔۔۔

③نیز یہ بھی کتابوں میں آیا ہے کہ کچھ شرطیں ایسی تھی کہ جن کو سیدنا معاویہ نے رد کر دیا تھا تو عین ممکن ہے کہ یہ بھی انہی شرائط میں سے ہوں کہ جن کو سیدنا معاویہ نے رد کر دیا اور اس کے بعد سیدنا حسن سے صلح ہو گئی ہو

.

*سیدنا حسن نے سیدنا معاویہ کی بیعت کی اور بیعت کا حکم دیا:*

جمع الحسن رءوس أهل العراق في هذا القصر  قصر المدائن- فقال: إنكم قد بايعتموني على أن تسالموا من سالمت وتحاربوا من حاربت، وإني قد بايعت معاوية، فاسمعوا له وأطيعو

ترجمہ:

سیدنا حسن نے مدائن کے ایک محل میں عراق وغیرہ کے بڑے بڑے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ تم لوگوں نے میری بیعت کی تھی اس بات پر کہ تم صلح کر لو گے اس سے جس سے میں صلح کروں اور تم جنگ کرو گے اس سے جس سے میں جنگ کروں تو بے شک میں نے معاویہ کی بیعت کر لی ہے تو تم بھی سیدنا معاویہ کی بات سنو مانو اور اطاعت کرو 

(الإصابة في تمييز الصحابة ,2/65)

(المعرفة والتاريخ3/317)

(كوثر المعاني الدراري5/176)

(تاريخ بغداد ت بشار1/467)

.

فلما وقع الاتفاق على معاوية ونزل له السيد الحسن عن الأمر سُمي عام الجماعة

جب سیدنا معاویہ پر سب کا اتفاق ہو گیا اور  سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے خلافت سے دستبردار ہو گئے تو اس سال کو عام الجماعۃ کہتے ہیں یعنی اجتماع والا سال 

(المقدمة الزهرا في إيضاح الإمامة الكبرى ص22)

.

بايع الحسن معاوية

امام حسن نے سیدنا معاویہ کی بیعت کر لی 

(أسد الغابة,2/13)

(البداية والنهاية ط هجر11/359)

(تاريخ الإسلام ت تدمري4/131)

(نهاية الأرب في فنون الأدب20/230)

۔

.

اہلسنت نے ہر صحابیِ نبی جنتی جنتی نعرہ لگایا اور لگاتے ہیں اور لگاتے رہیں گے....حق چار یار کا نعرہ لگایا اور لگاتے ہیں اور لگاتے رہیں گے...خلفاء راشدین کی سیاست حکومت زندہ آباد نعرہ لگایا ، لگاتے رہیں گے، خلفاء راشدین کا فیضان جاری رہے گا نعرہ لگایا ، لگاتے رہیں گے

مگر

اس کے ساتھ ساتھ صحابی سیدنا معاویہ جنتی کا نعرہ لگایا…سیاست معاویہ زندہ آباد کا نعرہ لگایا، فیضان معاویہ جاری رہے گا کا نعرہ لگایا

تو

غیراہلسنت کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی سیدنا معاویہ کے نعروں کے خلاف ہوگئے اور مذمت کرنے لگے جو اہلسنت ہونے کا دعوی کرتے ہیں

.

کچھ تو آپ اوپر ملاحظہ کر چکے کہ سیدنا معاویہ کی حکومت سیاست عادلانہ زندہ باد تھی....آئیے مزید چند حوالے دیکھتے ہیں کہ سیدنا معاویہ کی سیاست کیسی تھی…انکی سیرت، انکا کردار کیسا تھا کہ زندہ باد اور فیضان معاویہ جاری رہے گا کے نعرے درست و حق کہلائیں........؟؟

.

*امام حسن نے جب خلافت سیدنا معاویہ کے سپرد کی ، صلح کی اور سیدنا معاویہ کی حکومت منھج رسول ، منھج خلفاء راشدین پے رہی الا چند مجتہدات کے تو سیدنا معاویہ کی حکومت عادلہ راشدہ کہلائی، خلافت راشدہ تب کہلاتی جب حدیث کے مطابق تیس سال کے دوران ہوتی...امارت حکومت عادلہ ہے تو ایسی حکومت زندہ باد کیوں نہ ہو.....؟؟ ایسی سیاست و کردار کا فیضان کیوں نا جاری رہے.....؟؟*

.

وقد كان ينبغي أن تلحق دولة معاوية وأخباره بدول الخلفاء وأخبارهم فهو تاليهم في الفضل والعدالة والصحبة

تفسیری ترجمہ:

(سیدنا امام حسن نے جب حکومت سیدنا معاویہ کو دی انکی بیعت کی، ان سے صلح کی تو اس کے بعد)سیدنا معاویہ کی حکومت خلفاء راشدین کی حکومت کی طرح حکومت عادلہ کہلانی چاہیے اور سیدنا معاویہ کے اقوال و اخبار بھی خلفاء راشدین کے اقوال و اخبار کی طرح کہلانے چاہیے کیونکہ فضیلت عدالت اور صحابیت میں سیدنا معاویہ خلفاء راشدین کے بعد ہیں

(تاریخ ابن خلدون2/650)

.

فأرسل إِلَى معاوية يبذل له تسليم الأمر إليه، عَلَى أن تكون له الخلافة بعده، وعلى أن لا يطلب أحدًا من أهل المدينة والحجاز والعراق بشيء مما كان أيام أبيه، وغير ذلك من القواعد، فأجابه معاوية إِلَى ما طلب، فظهرت المعجزة النبوية في قوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إن ابني هذا سيد يصلح اللَّه به بين فئتين من المسلمين ".ولما بايع الحسن معاوية خطب الناس

ترجمہ:

حضرت سیدنا حسن نے سیدنا معاویہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ خلافت و حکومت معاویہ کو دینے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ سیدنا معاویہ کے بعد خلافت انہیں ملے گی اور یہ بھی شرط کی کہ اہل مدینہ اہل حجاز اور اہل عراق میں سے کسی سے بھی کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا اور اس کے علاوہ بھی کچھ شرائط رکھیں سیدنا معاویہ نے ان شرائط کو قبول کرلیا تو نبی کریم کا وہ معجزہ ظاہر ہوگیا کہ جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ میرا بیٹا یہ سید ہے اللہ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا اور سیدنا حسن نے سیدنا معاویہ کی بیعت کر لی تو خطبہ بھی دیا  

[أسد الغابة ملتقطا,2/13]

.

*امام عالی مقام سیدنا حسن مجتبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں*

ﺍﺭﻯ ﻭﺍﻟﻠﻪ ﺍﻥ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺧﻴﺮ ﻟﻲ ﻣﻦ ﻫﺆﻻﺀ، ﻳﺰﻋﻤﻮﻥ ﺍﻧﻬﻢ ﻟﻲ ﺷﻴﻌﺔ ، ﺍﺑﺘﻐﻮﺍ ﻗﺘﻠﻲ ﻭﺍﻧﺘﻬﺒﻮﺍ ﺛﻘﻠﻲ، ﻭﺃﺧﺬﻭﺍ ﻣﺎﻟﻲ، ﻭﺍﻟﻠﻪ ﻟﺌﻦ ﺁﺧﺬ ﻣﻦ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﻋﻬﺪﺍ ﺍﺣﻘﻦ ﺑﻪ ﺩﻣﻲ، ﻭﺍﻭﻣﻦ ﺑﻪ ﻓﻲ ﺍﻫﻠﻲ، ﺧﻴﺮ ﻣﻦ ﺍﻥ ﻳﻘﺘﻠﻮﻧﻲ ﻓﺘﻀﻴﻊ ﺍﻫﻞ ﺑﻴﺘﻲ ﻭﺍﻫﻠﻲ

ترجمہ:

(امام عالی مقام سیدنا حسن مجتبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں)اللہ کی قسم میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ جو میرے شیعہ کہلانے والے ہیں ان سے معاویہ بہتر ہیں، ان شیعوں نے تو مجھے قتل کرنے کی کوشش کی، میرا ساز و سامان لوٹا، میرا مال چھین لیا، اللہ کی قسم اگر مین معاویہ سے عہد لے لوں تو میرا خون سلامت ہو جائے اور میرے اہلبیت امن میں آجاءیں، تو یہ اس سے بہتر ہے کہ شیعہ مجھے قتل کریں اور میرے اہل و اہلبیت ضائع ہوجائیں گے 

(شیعہ کتاب احتجاج طبرسی جلد2 ص9)

.

*اور پھر سیدنا حسن حسین رضی اللہ تعالی عنھما نے بمع رفقاء سیدنا معاویہ سے صلح و بیعت کرلی اور فرمایا سیدنا معاویہ کی بیعت کرو، اطاعت کرو*

جمع الحسن رءوس أهل العراق في هذا القصر  قصر المدائن- فقال: إنكم قد بايعتموني على أن تسالموا من سالمت وتحاربوا من حاربت، وإني قد بايعت معاوية، فاسمعوا له وأطيعو

ترجمہ:

سیدنا حسن نے مدائن کے ایک محل میں عراق وغیرہ کے بڑے بڑے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ تم لوگوں نے میری بیعت کی تھی اس بات پر کہ تم صلح کر لو گے اس سے جس سے میں صلح کروں اور تم جنگ کرو گے اس سے جس سے میں جنگ کروں تو بے شک میں نے معاویہ کی بیعت کر لی ہے تو تم بھی سیدنا معاویہ کی بات سنو مانو اور اطاعت کرو 

(الإصابة في تمييز الصحابة ,2/65)

.

*لیکن*

جب سیدنا حسن نے حدیث پاک کی بشارت مطابق سیدنا معاویہ سے صلح کی، سیدنا معاویہ کی تعریف کی،انکی بیعت کی،بیعت کرنے کا حکم دیا تو بعض شیعوں نےسیدنا حسن کو کہا:يا مذل المؤمنين ويا مسود الوجوه

اے مومنوں کو ذلیل کرنےوالے،مونوں کے منہ کالا کرنےوالے(شیعہ کتاب مستدرک سفینہ بحار8/580)

.

سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:

قد خذلتنا شیعتنا

ترجمہ:

بے شک ہمارے کہلانے والے شیعوں نے ہمیں رسوا کیا،دھوکہ دیا، بےوفائی کی

(شیعہ کتاب مقتل ابی مخنف ص43)

(شیعہ کتاب موسوعہ کلمات الامام الحسین ص422)

.

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ

سیدنا حسن و معاویہ کا اختلاف بےشک تھا مگر سیدنا حسن کے مطابق بھی سیدنا معاویہ بہتر و اچھے تھے، کافر گمراہ منافق وغیرہ نہ تھے

.

سیدنا حسن کی بات ان لوگوں کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے جو کہتے ہیں کہ سیدنا حسن نے نه چاہتے ہوئے بیعت کی،مجبور ہوکر بیعت کی،تقیتًا بیعت کی

بلکہ

الٹا شیعوں کی مذمت ہے کیونکہ سیدنا حسن کی بات سے واضح ہے کہ ان کو شیعوں کی بےوفائی و منافقت کا تقریبا یقین تھا، آپ کو خوف تھا کہ شیعہ جان مال اور اہلبیت کو بھی قتل کر دیں گے....اس لیے آپ نے اپنی جان مال اور اہلبیت کے تحفظ کے لیے سیدنا معاویہ سے صلح کی کیونکہ سیدنا حسن کا خیال تھا کہ شیعہ اہلبیت کو نقصان دیں گے مگر معاویہ تحفظ دیں گے......اس میں سیدنا معاویہ کی بڑی شان بیان ہے اور شیعوں کی بےوفاءی مکاری اسلام و اہلبیت سے دشمنی کا بیان ہے

.

سیدنا حسن نے دوٹوک فرمایا کہ شیعوں نے ان پر حملہ کیا، مال لوٹا، ساز و سامان چھین کر لےگئے، اس سے ثابت ہوتا ہے شیعہ جعلی محب و مکار ہیں.......محبت کا ڈھونگ رچا کر وہ دراصل اسلام دشمنی اہلبیت دشمنی نبہانے والے ہیں.....اسلام کو تباہ کرنے والے، قرآن و سنت اسلام میں شکوک و شبہات پھیلانے والے دشمن اسلام ہیں، دشمنان اسلام کے ایجنٹ ہیں.......انکی باتیں کتابیں جھوٹ و مکاریوں سے بھری پڑی ہیں...........سیدنا حسین کو بھی انہی بےوفا مکار کوفی شیعوں نے شہید کرایا، یہ لوگ مسلمانوں میں تفرقہ فتنہ انتشار قتل و غارت پھیلانے والے رہے ہیں... انہین اسلام کی سربلندی کی کوئی فکر نہین بلکہ اسلام دشمن ہیں یہ لوگ..... انکا کلمہ الگ ،اذان الگ، نماز الگ، زکاۃ کے منکر، حج سے بیزار، قران میں شک کرنےوالے، شک پھیلانے والے، جھوٹے عیاش چرسی موالی بےعمل بدعمل بےوقوف و مکار دشمن اسلام دشمن اہلبیت ہیں...

.

قَالَ كَعْب الْأَحْبَار لم يملك أحد هَذِه الْأمة مَا ملك مُعَاوِيَة

ترجمہ:

سیدنا کعب الاحبار نے فرمایا کہ جیسی(عظیم عادلہ راشدہ) بادشاہت سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی تھی ایسی کسی کی بادشاہت نہیں تھی 

(صواعق محرقہ2/629)

.


وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَسْوَدَ مِنْ مُعَاوِيَةَ.

ترجمہ:



سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا معاویہ سے بڑھ کر کسی کو کثرت سے کرم نوازی کرنے والا ، حلم و بردباری والا، سخاوت کرنے والا نہیں پایا

[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ,9/357 روایت15921]

[السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/441]

.


ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُوْلُ:مَا رَأَيْتُ رَجُلاً كَانَ أَخْلَقَ لِلمُلْكِ مِنْ مُعَاوِيَةَ

ترجمہ:

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کے میں نے(رسول کریم اور خلفاء راشدین وغیرہ مستحقین کے بعد) معاویہ سے بڑھ کر حکومت کے لیے بادشاہت کے لیے کسی کو عظیم مستحق ترین , لائق ترین اور عظیم  اخلاق والا  نہیں پایا 

[سير أعلام النبلاء3/153]

.


عَنِ ابْن عُمَر، قَالَ: مَا رأيت أحدا بعد رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أسود من مُعَاوِيَة. فقيل لَهُ: فأبو بَكْر، وَعُمَر، وعثمان، وعلي! فَقَالَ: كانوا والله خيرا من مُعَاوِيَة، وَكَانَ مُعَاوِيَة أسود منهم

ترجمہ:

سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا معاویہ سے بڑھ کر کسی کو کثرت سے کرم نوازی کرنے والا ، حلم و بردباری والا، سخاوت کرنے والا نہیں پایا...کسی نے پوچھا کہ ابوبکر عمر عثمان اور علی سے بھی زیادہ۔۔۔؟فرمایہ کہ یہ سب حضرات سیدنا معاویہ سے افضل تھے مگر کثرت کرم نوازی بردباری سخاوت میں سیدنا معاویہ زیادہ تھے 

[الاستيعاب في معرفة الأصحاب ,3/1418]

.

*سیدنا معاویہ اور عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جھلک*

أوصى أن يكفن فِي قميص كَانَ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قد كساه إياه، وأن يجعل مما يلي جسده، وَكَانَ عنده قلامة أظفار رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فأوصى أن تسحق وتجعل فِي عينيه وفمه

ترجمہ:

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے وصیت کی تھی کہ انہیں کفن میں وہ قمیض پہنائی جائے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہنائی تھی اور سیدنا معاویہ کے پاس حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے ناخن مبارک کے ٹکڑے تھے ان کے متعلق وصیت فرمائی کہ وہ ان کی آنکھوں اور منہ پر رکھے جائیں 

[أسد الغابة ,5/201]

.

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتے تھے،ایک دفعہ حضرت قابس بن ربیعہ آپ کے پاس آئے تو آپ انکی تعظیم میں کھڑے ہوگئے اور انکی پیشانی پر بوسہ دیا اور مرغاب نامی علاقہ ان پر نچھاور کر دیا، ان کے لیے وقف کردیا

وجہ فقط اتنی تھی کہ حضرت قابس کے چہرے کی کچھ مشابہت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے تھی 

(دیکھیے شفا جلد دو ص40)

.

جب امام حسن امیر معاویہ کے پاس آتے تو امیر معاویہ انہیں اپنی جگہ بٹھاتے خود سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے،کسی نے پوچھا آپ ایسا کیوں کرتے ہیں فرمایا کہ امام حسن ہم شکل مصطفی ہیں صلی الله علیہ وسلم اس مشابہت کا احترام کرتا ہوں۔(مرآۃ شرح مشکاۃ8/460)

.

*جہاد و فتوحاتِ سیدنا معاویہ کی جھلک*

وفي سنة ثلاث وأربعين فتحت الرخج وغيرها من بلاد سجستان، وودان من برقة، وكور من بلاد السودان

وفي سنة خمس وأربعين فتحت القيقان قوهستان

خلاصہ:

رخج وغیرہا کئ ممالک سجستان ودان کور سوڈان قعقان قوہستان وغیرہ کئ ممالک سلطنتیں سیدنا معاویہ کے دور میں فتح ہوئے...عرب تا افریقہ تک تقریبا آدھی دنیا پر سیدنا معاویہ کی حکومت تھی

[تاريخ الخلفاء ,page 149ملخصا]

.

*سیدنا معاویہ کی اہلبیت و امام حسن کی تعظیم و خدمت کی ایک جھلک*

اس صلح کے وقت واقعہ یہ ہوا کہ امیر معاویہ نے امام حسن کے پاس سادہ کاغذ بھیجا اور فرمایا کہ آپ جو شرائط صلح چاہیں لکھ دیں مجھے منظور ہے،امام حسن نے لکھا کہ اتنا روپیہ سالانہ بطور وظیفہ ہم کو دیا جایا کرے اور آپ کے بعد پھر خلیفہ ہم ہوں گے، آپ نے کہا مجھے منظور ہے۔چنانچہ آپ سالانہ وظیفہ دیتے رہے اس کے علاوہ اکثر عطیہ نذرانے پیش کرتے رہتے تھے،ایک بار فرمایا کہ آج میں آپ کو وہ نذرانہ دیتا ہوں جو کبھی کسی نے کسی کو نہ دیا ہو۔چنانچہ آپ نے اربعۃ مائۃ الف الف نذرانہ کیے یعنی چالیس کروڑ روپیہ۔(مرقات)جب امام حسن امیر معاویہ کے پاس آتے تو امیر معاویہ انہیں اپنی جگہ بٹھاتے خود سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے،کسی نے پوچھا آپ ایسا کیوں کرتے ہیں فرمایا کہ امام حسن ہم شکل مصطفی ہیں صلی الله علیہ وسلم اس مشابہت کا احترام کرتا ہوں۔

(مراۃ شرح مشکاۃ8/460)

.


.

*سیدنا معاویہ کی ازواج مطہرات کی خدمت کی ایک جھلک*

سیدنا معاویہ بی بی عائشہ کو تحفے تحائف تک بھیجا کرتے تھے جو اس طرف واضح اشارہ ہے کہ سیدنا معاویہ رسول کریم کی ازواج مطہرات کا خیال رکھا کرتے تھے

أَهْدَى مُعَاوِيَةُ لِعَائِشَةَ ثِيَابًا وَوَرِقًا وَأَشْيَاءَ

ترجمہ:

حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کو کپڑے اور چاندی کے سکے(نقدی) اور دیگر چیزیں تحفے میں بھیجیں

(حلية الأولياء 2/48)

.

سیدنا معاویہ اہلبیت کو تحائف دیتے وہ قبول فرماتے

ﻭﻋﻦ ﺟﻌﻔﺮِ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﺃﻥَّ ﺍﻟﺤﺴﻦَ ﻭﺍﻟﺤﺴﻴﻦَ ﻛﺎﻧﺎ ﻳَﻘْﺒَﻼ‌ﻥِ ﺟﻮﺍﺋﺰَ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ.

سیدنا حسن حسین سیدنا معاویہ کے تحائف قبول کرتے تھے

( المصنف - ابن أبي شيبة -4/296)

.


ﻭﻋﻦ ﻋﺒﺪِﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺑُﺮﻳﺪﺓَ، ﺃﻥ ﺍﻟﺤﺴﻦَ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ رضي الله عنهما ﺩﺧﻞ ﻋﻠﻰ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻓﻘﺎﻝ: ﻷ‌ُﺟﻴﺰَﻧَّﻚ ﺑﺠﺎﺋﺰﺓٍ ﻟﻢ ﺃﺟﺰ ﺑﻬﺎ ﺃﺣﺪﺍً ﻗﺒﻠﻚ، ﻭﻻ‌ ﺃﺟﻴﺰ ﺑﻬﺎ ﺃﺣﺪﺍً ﺑﻌﺪﻙ ﻣﻦ ﺍﻟﻌﺮﺏ، ﻓﺄﺟﺎﺯﻩ ﺑﺄﺭﺑﻌﻤﺎﺋﺔ ﺃﻟﻒ، ﻓﻘَﺒِﻠﻬﺎ.

ایک دفعہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے تو سیدنا معاویہ نے فرمایا کہ آج میں آپ کو وہ تحفہ دوں گا کہ ایسا تحفہ آپ سے پہلے کسی کو نہ دیا اور نہ دوں گا پھر سیدنا معاویہ نے آپ کو چار لاکھ درھم تحفے میں دیے امام حسن نے قبول فرمائے

(المصنف - ابن أبي شيبة -6/188)

.

صرف تحفے لینے اور دینے کا معاملہ نہ تھا بلکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالئ عنہ تعریف بھی کیا کرتے تھے

فَلَمَّا اسْتَقَرَّتِ الْخِلَافَةُ لِمُعَاوِيَةَ كَانَ الْحُسَيْنُ يَتَرَدَّدُ إِلَيْهِ مَعَ أَخِيهِ الْحَسَنِ، فَكَانَ مُعَاوِيَةُ يُكْرِمُهُمَا إِكْرَامًا زَائِدًا، وَيَقُولُ لَهُمَا: مَرْحَبًا وَأَهْلًا. وَيُعْطِيهِمَا عَطَاءً جَزِيلًا

 جب سیدنا معاویہ کی خلافت (سیدنا حسن و حسین وغیرھما کی صلح کے بعد) قائم ہوگئ تو سیدنا حسن اور حسین سیدنا معاویہ کے پاس آیا کرتے تھے اور سیدنا معاویہ ان کا بے حد احترام عزت و اکرام کرتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ مرحبا اپنے گھر میں ہی آئے ہو اور انہیں بہت بڑے بڑے تحفے دیتے تھے

(البداية والنهاية ت التركي11/476)

.

*معاویت بھی زندہ آباد مگر یزیدت مردہ باد*

الحدیث:

أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَكُمْ، وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَكُمْ

ترجمہ:

(رسول کریم نے حسن حسین وغیرہ اہلبیت سے فرمایا) تم جس سے جنگ کرو میری اس سے جنگ ہے،تم جس سے صلح کرو میری اس سے صلح ہے

(اہلسنت کتاب صحیح ابن حبان حدیث6977)

(شیعہ کتاب بحار الانوار32/321)

شیعہ ، رافضی، نیم رافضی سچے مسلمان نہیں، سچے محب اہلبیت نہیں.....حسنی حسینی سچا مسلمان اور سچا محبِ اہلبیت وہ ہےجو یزیدیت سے جنگ اور معاویت سے صلح رکھے،زبان قابو میں رکھے

کیونکہ

سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنھما نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی اور سیدنا حسین نے یزید سے جنگ کی......اور حسنین کریمین کی صلح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صلح اور انکی جنگ رسول کریم کی جنگ ہے

.

*سیدنا معاویہ کی اتباع سنت کی ایک جھلک اور عوام کی خدمت*

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث و سنت کی اتباع و پیروی اور عوام کی فلاح و خدمت کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث و سنت کی اتباع و پیروی کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے

أَنَّ أَبَا مَرْيَمَ الْأَزْدِيَّ، أَخْبَرَهُ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مُعَاوِيَةَ ،فَقَالَ: مَا أَنْعَمَنَا بِكَ....فَقُلْتُ: حَدِيثًا سَمِعْتُهُ أُخْبِرُكَ بِهِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ وَلَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ فَاحْتَجَبَ دُونَ حَاجَتِهِمْ، وَخَلَّتِهِمْ وَفَقْرِهِمْ، احْتَجَبَ اللَّهُ عَنْهُ دُونَ حَاجَتِهِ وَخَلَّتِهِ، وَفَقْرِهِ» قَالَ: فَجَعَلَ رَجُلًا عَلَى حَوَائِجِ النَّاسِ

(ابوداود حدیث2948بالحذف الیسیر)

.

ترجمہ:

صحابی سیدنا ابو مریم الازدی حضرت سیدنا معاویہ کے پاس تشریف لائے تو حضرت معاویہ نے فرمایا:

آپ کی تشریف آوری سے ہمارا دل باغ بہار ہوگیا، فرمائیے کیسے آنا ہوا.......؟؟

صحابی ابو مریم الازدی(جو سیدنا معاویہ سے عمر میں چھوٹے تھے)نے فرمایا کہ میں آپ کو ایک حدیث پاک سنانے آیا ہوں

"رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

جسے اللہ نے مسلمانوں کی حکومت(لیڈری، ذمہ داری، عھدے داری)سے نوازا ہو اور وہ لوگوں پر اپنے دروازے بند کر دے حالانکہ لوگ تنگ دستی میں ہوں حاجات والے ہوں اور فقر و فاقہ مفلسی والے ہوں تو اللہ قیامت کے دن ایسے(نا اہل) حکمران و ذمہ دار پر(رحمت کے، جنت کے) دروازے بند کر دے گا حالانکہ وہ تنگ دست ہوگا حاجت مند ہوگا مفلس و ضرورت مند ہوگا..."

صحابی کہتے ہیں کہ حدیث پاک سنتے ہی فورا سیدنا معاویہ نے لوگوں کی حاجات و مسائل کے سننے، حل کرنے ، مدد کرنے کے لیے ایک شخص کو مقرر کر دیا

(ابوداود حدیث2948بالحذف الیسیر)

.

.

①سیدنا معاویہ بڑے صحابی تھے اور سیدنا ابومریم کم عمر صحابی تھے.......لیکن اس کے باوجود سیدنا معاویہ نے صحابی کی کیسی تعظیم کی اور انکی امد کو سعادت سمجھا.....جب کم عمر صحابی سے اتنی محبت تو بڑے بڑے صحابہ کرام مثل سیدنا علی و عمر وغیرھما سے کتنی عقیدت واحترام رکھتے ہونگے....اندازہ لگنا مشکل نہیں

.

②سیدنا معاویہ بڑے تھے سیدنا الازدی چھوٹے تھے مگر چھوٹے کو ایسی علم و روایت کی بات معلوم تھی جو بظاہر بڑے کو معلوم نہ تھی.....اسکا مطلب چھوٹا بڑے سے کچھ معاملات میں بڑھ سکتا ہے اور بڑا کچھ باتوں سے لاعلم ہوسکتا ہے....لیھذا ہمیں اپنے آپ کو علمِ کل اور بڑی توپ نہیں سمجھنا چاہیے

.

③سیدنا معاویہ بڑے تھے، علم والے بھی تھے، حاکم وقت بھی تھے مگر اس کے باوجود چھوٹے صحابی نے انہیں باادب ہوکر علم کی بات سکھانے بتانے میں ججک و شرم محسوس نہ کی اور بڑے یعنی سیدنا معاویہ نےبھی کوئی بےعزتی و شرم محسوس نہ کی، وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کیا اور چھوٹے کی بات مان لی.........لیھذا بڑے علماء مشائخ وغیرہ چھوٹوں کی بات مان لینے میں شرم و ججک محسوس نہ کریں اور چھوٹے کچھ کہیں تو باادب ہوکر عرض کریں اپنے آپ کو توپ نہ سمجھیں

.

④صحابی ابومریم الازدی نے "ولاہ اللہ" کو سیدنا معاویہ پر فٹ کرکے یہ عقیدہ بتایا ہے کہ صحابہ کرام، اہلبیت سیدنا معاویہ کی خطاء اجتہادی مانتے تھے مگر انہیں ظالم فاسق غاصب گناہ گار نہیں سمجھتے تھے... انکا نظریہ تھا غیرمنصوص معاملے میں اختلاف پردلیل ہوتو اسے نفرت و گناہ نہیں کہہ سکتے... انکا نظریہ تھا کہ سیدنا معاویہ کو حکومت اللہ نے عطاء کی ہے....انکی حکومت کوئی ظالمانہ غاصبانہ نہیں

.

⑤سیدنا معاویہ نے جیسے ہی معتبر ذرائع سے حدیث پاک سنی تو چوں چراں تاویل شاویل سے کام نہیں لیا....یہ نہیں کہا کہ دلیل لاؤ... بلکہ اسلام لانے کے بعد حدیث و سنت سے اتنے محبت کرنے والے بن گئے تھے کہ حدیث و سنت کے متعلق سنتے ہی اس پر عمل پیرا ہوتے.....مذکورہ واقعہ اسکی بھرپور عکاسی کرتا ہے

.

⑥اسلاف کی علم دوستی کا حال دیکھیے کہ اتنی دور سے بادشاہ وقت کے پاس محض ایک حدیث پاک سنانے پہنچ گئے اور بادشاہ کی علم دوستی دیکھیے کہ حدیث پاک ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنتے ہی اس پر عمل پیرا ہوگئے

.

اللہ کریم ہم سب کو حسنِ عقیدت ، علم دوستی، احترامِ سنت، وسعتِ قلبی، اور فرائض واجبات کے ساتھ ساتھ سنتوں پر بھی عمل کی توفیق عطاء فرمائے....

.

*#الحاصل*

سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے جب حکومت سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو سپرد کردی اور بیعت کی اور ان کی بیعت کرنے اور ان کی اطاعت کرنے کا حکم دے دیا

اور

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالئ عنہ متبع سنت تھے عادل تھے عاشق رسول تھے صحابہ اہلبیت وغیرہ کا احترام و خدمت کرتے تھے اور اپنی حکومت منھج سنت و منھج ِ خلفاء راشدین پر چلائی الا بعض اجتہادی مسائل کے اور بخاری میں ہے کہ سیدنا معاویہ فقیہ یعنی مجتہد تھے اور حدیث کے مطابق مجتہد خطاء بھی کرے تو ایک اجر

تو

ثابت ہوا کہ انکی حکومت اچھی عادلہ تھی اس لیے انکی سیاست زندہ باد کہنا اور فیضان معاویہ جاری رہے گا کا نعرہ لگانا بےجا نہیں برحق و سچ ہے...ہاں یزید کی سیاست و حکومت یزیدت مردہ باد لیکن والد کی وفات کے بعد بیٹے کے کرتوت ہوں تو اس کی وجہ سے باپ پر کوئی الزام و حرف نہیں آتا

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.