چمن زمان کے مطابق سیدنا معاویہ نعوذ باللہ کافر...اور اسلاف بغضِ علی میں مبتلا تھے...اسکا تفصیلی تحقیقی علمی رد




 *#چمن زمان کہتا ہے کہ یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ظلم و زیادتی و بغض ہے کہ انکے مخالفین کو کافر نہ کہا جائے مطلب نعوذ باللہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کا گروہ چمن زمان کے مطابق کافر تھے،پھر چمن دلیل دیتا ہے کہ جیسے خلیفہ ثالث کے مخالف خلافت راشدہ کے مخالف باغی تھے اس لیے کافر اور سیدنا علی بھی خلیفہ راشد تو انکے باغی بھی کافر ہیں اور حدیث بھی چمن زمان نے بطور دلیل پڑھی کہ عمار کا قاتل و سالب جہنمی ہے مطلب سیدنا معاویہ و انکا گروہ جہنمی ہے،چمن زمان کہتا ہے کہ ظلم زیادتی ہے کہ سیدنا علی کے مخالفین کے لیے باغی کا معنی ہی بدل دیا گیا یعنی خطاء اجتہادی معنی کرنا ظلم و زیادتی سیدنا علی سے بغض ہے نعوذ باللہ اور چمن زمان کہتا ہے اصل معیار قرآن و حدیث ہے(علماء وغیرہ کے فتوے اجتہاد معتبر نہیں)....اسکا مدلل رد پڑھیے.......!!*

.

*#خلاصہ جواب.....!!*

چمن زمان کے الفاظ و انداز سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اجڑا چمن مردود فسادی گمراہ کرنے والا جاہل اجہل ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے بغض رکھنے والا ہے بات کفر تک جاسکتی ہے مگر فتوی معتبر مفتیان کرام ہی دیں گے…ہمارے مطالعہ کے مطابق محض خلافت راشدہ سے بغاوت کی وجہ سے کسی کو کافر قرار نہیں دیا گیا بلکہ تفصیل لکھی گئ کہ خلیفہ راشد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باغی جنہوں نے زکواۃ کا انکار کیا تو زکواۃ فرض کا انکار کفر ہے اس لیے ان باغیوں کو کافر مرتد قرار دیا گیا اور جن باغیوں نے زکواۃ کا انکار نہ کیا مگر زکواۃ دینے سے رک گئے انہیں گمراہ گناہ گار فاسق فسادی کہا گیا کیونکہ ان کے پاس اجتہاد نہ تھا، خلیفہ راشد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل باغی جنہوں نے قتل جیسا گناہ کیا تو انہیں فاسق کہا گیا اور جن باغیوں نے قتل ناحق کو بغیر اجتہاد کے جائز سمجھا انہیں کافر مرتد قرار دیا گیا اور خلیفہ راشد سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باغی جنہوں نے سیدنا علی وغیرہ کی تکفیر کی انکو کافر مرتد کہا گیا اور جن باغیوں نے تکفیر نہ کی انہیں فسادی گناہ گار فاسق قرار دیا گیا اور جنہوں نے اجتہاد کیا انکو اجتہادی خطاء پے کہا گیا، سیدنا معاویہ وغیرہ نے اجتہاد کیا تھا اس لیے انہیں اجتہادی خطاء پے کہا گیا...اور اجتہاد لازم قرار دیا ہے اسلام نے، اجتہادی و برحق قیاس کی بڑی اہمیت ہے، علماء مجتہدین کی پیروی کا حکم ہے

لیھذا

اہلسنت نے کوئی ظلم و زیادتی بغض و ناانصافی نہیں کی بلکہ جو دلیل کی بنیاد پے فتوی بنتا تھا وہ دیا لیکن چمن زمان کی دال میں کچھ کالا ضرور ہے بلکہ پوری دال ہی کالی جلی بھنی ہے، حاسد مکار شریر فسادی شخص ہے یہ اجڑا چمن،اسے سمجھنا لازم، سمجھ جائے رک جائے تو ٹھیک ورنہ ٹھکانے لگانا لازم...ٹھکانے لگانے کا مطلب قید و مناسب سزا ہے حتی کہ سزائے موت بھی ہوسکتی ہے اور سزا دینا حکومت و عدلیہ کا کام ہے مگر کبھی عام آدمی بھی سزا دے سکتا ہے،کچھ تفصیل میرے بلاگ پے موجود تحریر گستاخ رسول کی سزا کے ضمن میں پڑھ سکتے ہیں

.#################

*#تفصیل،دلائل و حوالہ جات......!!*

اجتہاد اور علماء کی پیروی اور سیدنا معاویہ کا اجتہاد اس پر نیچے لکھیں گے پہلے علماء و اسلاف کے فتوے عقیدے پڑہیے

.

*#امام_نووی کا عقیدہ، #تمام_سچے_اہلسنت کا عقیدہ…!!*

وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ مِنَ الْعُدُولِ الْفُضَلَاءِ وَالصَّحَابَةِ النُّجَبَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَمَّا الْحُرُوبُ الَّتِي جَرَتْ فَكَانَتْ لِكُلِّ طَائِفَةٍ شُبْهَةٌ اعْتَقَدَتْ تَصْوِيبَ أَنْفُسِهَا بِسَبَبِهَا وَكُلُّهُمْ عُدُولٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَمُتَأَوِّلُونَ فِي حُرُوبِهِمْ وَغَيْرِهَا وَلَمْ يُخْرِجْ شئ مِنْ ذَلِكَ أَحَدًا مِنْهُمْ عَنِ الْعَدَالَةِ لِأَنَّهُمْ مُجْتَهِدُونَ اخْتَلَفُوا فِي مَسَائِلَ مِنْ مَحَلِّ الِاجْتِهَادِ كَمَا يَخْتَلِفُ الْمُجْتَهِدُونَ بَعْدَهُمْ فِي مَسَائِلَ مِنَ الدِّمَاءِ وَغَيْرِهَا وَلَا يَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ نَقْصُ أَحَدٍ مِنْهُمْ....عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ هُوَ الْمُصِيبَ الْمُحِقَّ وَالطَّائِفَةُ الْأُخْرَى أَصْحَابُ مُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانُوا بُغَاةً مُتَأَوِّلِينَ وَفِيهِ التَّصْرِيحُ بِأَنَّ الطَّائِفَتَيْنِ مُؤْمِنُونَ لَا يَخْرُجُونَ بِالْقِتَالِ عَنِ الْإِيمَانِ وَلَا يَفْسُقُونَ وَهَذَا مَذْهَبُنَا وَمَذْهَبُ مُوَافِقِينَا

سیدنا معاویہ عادل فضیلت والے نجباء صحابہ میں سے ہیں باقی جو ان میں جنگ ہوئی تو ان میں سے ہر ایک کے پاس شبہات تھے اجتہاد تھا جس کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی عادل ہونے کی صفت سے باہر نہیں نکلتا اور ان میں کوئی نقص و عیب نہیں بنتا

سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ درستگی پر تھے حق پر تھے اور دوسرا گروہ یعنی سیدنا معاویہ کا گروہ (اجتہادی) باغی تھے لیکن تاویل(اجتہاد) کرنے والے تھے دونوں گروہ مومنین ہیں دونوں گروہ ایمان سے نہیں نکلتے اور دونوں گروہ فاسق نہیں ہیں یہی ہمارا مذہب ہے اور یہی مذہب ہمارے(عقائد میں)موافقین(حنفی حنبلی مالکی وغیرہ تمام اہل سنت)کا مذہب ہے 

(شرح مسلم للنووی7/168 و 15/149)

*چمن زمان صاحب بتا امام نووی بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بغض و ناانصافی رکھنے والے تھے بلکہ سیدنا معاویہ کو اجتہادی خطاء پے کہنا امام نووی کے مطابق تمام اہلسنت کا نظریہ ہے تو بتاؤ اجڑے جلے بھنے چمن تم اہلسنت سے خارج کہلائے یا ڈھٹائی مکاری سے زبردستی کے اہلسنت کہلاؤ گے.....؟؟*

.

*#اہلسنت کا اجماعی متفقہ عقیدہ......!!*

أجمعت الأمة على وجوب الكف عن الكلام في الفتن التي حدثت بين الصحابة..ونقول: كل الصحابة عدول، وكل منهم اجتهد، فمنهم من اجتهد فأصاب كـ علي فله أجران، ومنهم من اجتهد فأخطأ كـ معاوية فله أجر، فكل منهم مأجور، القاتل والمقتول، حتى الطائفة الباغية لها أجر واحد لا أجران، يعني: ليس فيهم مأزور بفضل الله سبحانه وتعالى.

امت کا اجماع ہے کہ صحابہ کرام میں جو فتنے جنگ ہوئی ان میں نہ پڑنا واجب ہے تمام صحابہ کرام عادل ہیں(فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)ان میں سے ہر ایک مجتہد ہے اور جو مجتہد حق کو پا لے جیسے کہ سیدنا علی تو اسے دو اجر ہیں اور جو مجتہد خطاء پر ہو جیسے سیدنا معاویہ تو اسے ایک اجر ملے گا لہذا سیدنا علی اور معاویہ کے قاتل مقتول سب جنتی ہیں حتیٰ کہ سیدنا معاویہ کا باغی گروہ بھی جنتی ہے اسے بھی ایک اجر ملے گا یعنی تمام صحابہ میں سے کوئی بھی گناہ گار و فاسق نہیں اللہ کے فضل و کرم سے  

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة للالكائي13/62)

*امت محمدیہ سیدنا معاویہ کو خطاء اجتہادی پے کہہ رہی ہے اور تمھارے مطابق اے چمن یہ ناانصافی ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بغض ہے مطلب ساری امت اہلبیت کے بغض میں نعوذ باللہ مبتلا رہی ہے اور ایک تم اور شیعہ ہی سچے مسلمان ہو.....؟؟ یار صاف صاف اعلان کیوں نہیں کرتے کہ تم شیعہ رافضی ہو، کرتوت تو رافضیوں والے لگتے ہیں تمھارے......!!*


.

*#اہلسنت_کے_فقہ_و_عقائد_کے_امام_امام_اعظم_ابوحنیفہ کا عقیدہ*

قال أبو حنيفة و علي بن ابي طالب رضي الله عنه كان مصيبا في حربه و من قاتله كان على الخطأ "

سیدنا علی رضی اللہ عنہ جنگ کرنے میں حق پر تھے اور(سیدنا معاویہ غیرہ) نے ان سے جنگیں کیں وہ(اجتہادی)خطا پر تھے 

(أصول المنيفة ص 58)

*چمن زمان کچھ تو شرم کر....اپنے امام اور علماء اہلسنت کے خلاف جاتا ہے، امت محمدیہ اہلسنت کے خلاف بکتا ہے، بغض و ناانصافی و کفر کے فتوے جھاڑتا ہے....کچھ تو شرم کر.....!!*

.

*#امام العقیدہ امام اہلسنت امام ابو الحسن #الاشعری کا عقیدہ*

قال ولا أقول في عائشة وطلحة والزبير رضي الله عنهم إلّا أنّهم رجعوا عن الخطأ.....فهذه جملة من أصول عقيدته التي عليها الآن جماهير أهل الأمصار الإسلامية، والتي من جهر بخلافها أريق دمه

اور میں سیدہ عائشہ ، سیدنا طلحہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنھم کے بارے میں یہی عقیدہ رکھتا ہوں کہ انہوں نے اپنی اجتہادی خطا سے توبہ کر لی(لیکن سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ نے اجتہادی خطاء سے رجوع نہ کیا اس لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ ہوگئ)....یہ تمام عقائد وہ ہیں جس پر جمھور امت ہے جو اس کے خلاف عقیدہ رکھے، اسکے خلاف عقیدہ نظریہ پھیلائے اسے قتل کیا جائے

(المواعظ و الاعتبار للمقریزی4/195)

*کیا امام اشعری بھی تمھاری نگاہ میں اے اجہل چمن بغض والے تھے....؟؟ ظلم و زیادتی ناانصافی کرتے تھے....؟؟*

.

*#امام_تفتازانی اور #علامہ_پرہاروی کا عقیدہ*

بل عن خطأ في الاجتهاد من معاوية

سیدنا معاویہ جو سیدنا علی سے اختلاف و جنگ کی وہ سب اجتہادی خطاء تھی سیدنا معاویہ کی

(نبراس مع عقائد نسفیہ ص657)

.

*#امام_ابن_حجر_عسقلانی کا عقیدہ*

وَذَهَبَ جُمْهُورُ أَهْلِ السُّنَّةِ إِلَى تَصْوِيبِ مَنْ قَاتَلَ مَعَ عَلِيٍّ لِامْتِثَالِ قَوْلِهِ تَعَالَى وان طَائِفَتَانِ من الْمُؤمنِينَ اقْتَتَلُوا الْآيَةَ فَفِيهَا الْأَمْرُ بِقِتَالِ الْفِئَةِ الْبَاغِيَةِ وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ مَنْ قَاتَلَ عَلِيًّا كَانُوا بُغَاةً وَهَؤُلَاءِ مَعَ هَذَا التَّصْوِيبِ مُتَّفِقُونَ عَلَى أَنَّهُ لَا يُذَمُّ وَاحِدٌ مِنْ هَؤُلَاءِ بَلْ يَقُولُونَ اجتهدوا فأخطئوا

 جمہور اہل سنت نے فرمایا ہے کہ جس نے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ساتھ مل کر سیدنا معاویہ وغیرہ سے قتال کیا وہ حق پر تھے کیونکہ باغیوں کے ساتھ قتال کیا جاتا ہے یہ آیت میں حکم ہے اور سیدنا معاویہ کا گروہ (اجتہادی) باغی تھا...اس کے ساتھ ساتھ اہلسنت اس بات پر بھی متفق ہیں کہ دونوں گروہوں میں سے کسی کو بھی مذمت کا نشانہ نہ بنایا جائے گا کیونکہ سیدنا معاویہ وغیرہ نے اجتہاد کیا اور اجتہاد میں خطا کی

(فتح الباری شرح بخاری13/67)

.

*#امام_غزالی #علامہ_حقی کا عقیدہ*

قال حجة الإسلام الغزالي رحمه الله يحرم على الواعظ وغيره......وما جرى بين الصحابة من التشاجر والتخاصم فانه يهيج بغض الصحابة والطعن فيهم وهم اعلام الدين وما وقع بينهم من المنازعات فيحمل على محامل صحيحة فلعل ذالك لخطأ في الاجتهاد لا لطلب الرياسة او الدنيا كما لا يخفى وقال في شرح الترغيب والترهيب المسمى بفتح القريب والحذر ثم الحذر من التعرض لما شجر بين الصحابة فانهم كلهم عدول خير القرون مجتهدون مصيبهم له أجران ومخطئهم

له أجر واحد

حجة الاسلام امام غزالی نے فرمایا کہ صحابہ کرام کے درمیان جو مشاجرات ہوئےان کو بیان کرنا حرام ہے کیونکہ اس سے خدشہ ہے کہ صحابہ کرام کے متعلق بغض بغض اور طعن پیدا ہو۔ ۔۔۔۔۔صحابہ کرام میں جو مشاجرات ہوئے ان کی اچھی تاویل کی جائے گی کہا جائے گا کہ ان سے اجتہادی خطا ہوئی انہیں حکومت و دنیا کی طلب نہ تھی..ترغیب وترہیب کی شرح میں ہے کہ مشاجرات صحابہ میں پڑنے سے بچو بے شک تمام صحابہ عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)تمام صحابہ کرام خیرالقرون ہیں مجتہد ہیں مجتہد میں سے جو درستگی کو پہنچا اس کے لئے دو اجر اور جس نے خطا کی اس کے لیے ایک اجر 

(روح البيان 9/437)

*امام غزالی امام تفتازانی علامہ پرہاروی امام ابن حجر  علامہ حقی جیسے صوفیاء و محققین بھی اے چمن تمھارے فتوے کے مطابق سیدنا علی سے بغض رکھنے والے ظلم و زیادتی کرنے والے تھے....؟؟*

.

*#علامہ_پرہاروی کا عقیدہ*

بخاری مسلم احمد ابو داؤد نسائی ترمذی وغیرہ کی حدیث ہیں کہ مجتہد اگر درستگی پالے تو اسے دو اجر اور مجتہد خطا کرے تو اسے ایک اجر ملے گا صحابہ کرام نے جو جنگیں ہوئیں وہ اسی اجتہاد کی وجہ سے ہوئی تو ان میں سے جو درستگی کو تھا اس کو دو اجر ملیں گے اور جو سیدناَمعاویہ سمیت کچھ صحابہ تھے وہ اجتہادی خطاء پر تھے اسے ایک اجر ملے گا لہذا سیدنا معاویہ اور سیدنا علی و غیرہ دونوں گروہ جنتی ہیں 

(الناهية عن طعن أمير المؤمنين معاوية، ص27)

.

*#امام_غزالی کا عقیدہ*

وَمَا جرى بَين مُعَاوِيَة وَعلي رَضِي الله عَنْهُمَا كَانَ مَبْنِيا على الِاجْتِهَاد

( امام غزالی فرماتے ہیں کہ ہم اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ)اور جو سیدنا معاویہ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے درمیان ہوا تو وہ اجتہاد پر مبنی تھا(نعوذ باللہ دنیاداری مکاری  کفر منافقت وغیرہ نہ تھا)

(قواعد العقائد امام غزالي ص227)

.

*#امام_ابن کثیر_کا عقیدہ*

وأما ما شجر بينهم بعده عليه الصلاة والسلام، فمنه ما وقع عن غير قصد، كيوم الجمل، ومنه ما كان عن اجتهاد، كيوم صفين. والاجتهار يخطئ ويصيب، ولكن صاحبه معذور وإن أخطأ، ومأجور أيضاً، وأما المصيب فله أجران اثنان، وكان علي وأصحابه أقرب إلى الحق من معاوية وأصحابه رضي الله عنهم أجمعين

صحابہ کرام میں کچھ جنگیں تو ایسی ہیں جو بغیر قصد کے ہوئیں جیسے کہ جنگ جمل اور کچھ جنگیں ایسی ہیں جو اجتہاد کی بنیاد پر ہوئی جیسے کہ صفین....جس نے درستگی کو پایا جیسے کہ سیدنا علی تو ان کو دو اجر ملیں گے اور جس نے اجتہاد میں خطا کی جیسے کہ سیدنا معاویہ تو اسے ایک اجر ملے گا 

( الباعث الحثيث  ص182)

.

*#امام_عینی_ کا عقیدہ*

وَالْجَوَاب الصَّحِيح فِي هَذَا أَنهم كَانُوا مجتهدين ظانين أَنهم يَدعُونَهُ إِلَى الْجنَّة، وَإِن كَانَ فِي نفس الْأَمر خلاف ذَلِك، فَلَا لوم عَلَيْهِم فِي اتِّبَاع ظنونهم، فَإِن قلت: الْمُجْتَهد إِذا أصَاب فَلهُ أَجْرَانِ، وَإِذا أَخطَأ فَلهُ أجر، فَكيف الْأَمر هَهُنَا. قلت: الَّذِي قُلْنَا جَوَاب إقناعي فَلَا يَلِيق أَن يُذكر فِي حق الصَّحَابَة خلاف ذَلِك، لِأَن اتعالى أثنى عَلَيْهِم وَشهد لَهُم بِالْفَضْلِ

اللہ تعالی نے صحابہ کرام پر تعریف کی ہے اور ان کی فضیلت بیان کی ہے تو یہ سب مجتہد تھے(سیدنا علی سیدنا معاویہ وغیرہ نے) جنگوں اور فتنوں میں اجتہاد کیا جس نے درستگی کو پایا اس کے لئے دو اجر اور جس نے خطا کی اس کے لیے ایک اجر یہی جواب صحیح ہے اور یہی جواب صحابہ کرام کے لائق ہے 

(عمدة القاري شرح بخاری4/209)

.

*#امام_ملا_علی_قاری کاعقیدہ*

وقد قال - صلى الله عليه وسلم: " «إذا ذكر أصحابي فأمسكوا» " أي: عن الطعن فيهم، فلا ينبغي لهم أن يذكروهم إلا بالثناء الجميل والدعاء الجزيل، وهذا مما لا ينافي أن يذكر أحد مجملا أو معينا بأن المحاربين مع علي ما كانوا من المخالفين، أو بأنمعاوية وحزبه كانوا باغين على ما دل عليه حديث عمار: " «تقتلك الفئةالباغية» " ; لأن المقصود منه بيان الحكم المميز بين الحق والباطل والفاصل بين المجتهد المصيب، والمجتهد المخطئ، مع توقير الصحابة وتعظيمهم جميعا في القلب لرضا الرب

اور بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ میرے صحابہ کا ذکر ہو تو رک جاؤ، یعنی لعن طعن سے رک جاؤ...تو ضروری ہے کہ انکا ذکر ایسے ہو کہ انکی مدح سرائی کی جائے اور دعاء جزیل دی جائے، لیکن اسکا یہ مطلب نہین کہ حضرت علی سے جنگ کرنے والوں کو یا سیدنا معاویہ اور انکے گروہ کو باغی نا کہا جائے(بلکہ مجتہد باغی کہا جائے گا یہ فضائل بیان کرنے کے منافی نہین کہ مجتہد باغی گناہ نہیں) کیونکہ حدیث عمار کہ اے عمار رضی اللہ عنہ تجھے باغی گروہ قتل کرے گا....کیونکہ (اجتہادی باغی خاطی کہنا مذمت کے لیے نہین بلکہ)اس لیے ہے کہ وہ حکم واضح کر دیا جائے جو حق کو واضح کرے اور مجتہد مصیب سیدنا علی اور مجتہد سیدنا معاویہ خطاء کرنے والے میں فیصلہ کرے، اس کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کی(فقط زبانی منافقانہ نہیں بلکہ) دلی تعظیم و توقیر ہو، اللہ کی رضا کی خاطر

(مرقاۃ تحت الحدیث3397ملتقطا)

*امام عینی امام ابن کثیر امام ملا علی قاری کو بھی بغض والے کہو گے اے چمن......؟؟ان کے متعلق بھی گندی سوچ رکھو گے پھیلاؤ گے کہ ظلم و زیادتی کی انہوں نے.....؟؟*

.

*#امام_سیوطی کا عقیدہ*

الصحابة كلهم عدول من لابس الفتن وغيرهم بإجماع من يعتد به

 تمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق کافر مرتد نہیں) 

وہ صحابہ کرام بھی عادل ہیں جو جنگوں فتنوں میں پڑے(جیسے سیدنا معاویہ وغیرہ) اور دوسرے بھی عادل ہیں اور اس پر معتدبہ امت کا اجماع ہے 

(التدريب  امام سیوطی ص204)

(مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح،1/211)

.

*#امام_ابن_حجر_الهيتمي کا عقیدہ*

 وَغَايَة اجْتِهَاده أَنه كَانَ لَهُ أجر وَاحِد علىاجْتِهَاده وَأما عَليّ رَضِي الله عَنهُ فَكَانَ لَهُ أَجْرَان

زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیدنا معاویہ کو ایک اجر ملے گا اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دو اجر ملے گے 

(الصواعق المحرقة2/624)

*امام سیوطی اما ھیتمی بھی نہ بچ سکے اجڑے چمن تیرے فتوے سے......؟؟*

۔

.

*#امام_ربانی_مجدد_الف_ثانی کا عقیدہ*

فان معاویة واحزابه بغوا عن طاعته مع اعترافهم بانه افضل اھل زمانه وانه الاحق بالامامة بشبهه هی ترک القصاص عن قتله عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنه ونقل فی حاشیة کمال القری عن علی کرم اللہ تعالیٰ وجهه انہ قال اخواننا بغوا علینا ولیسوا کفرة ولا فسقة لما لھم من التاویل وشک نیست کہ خطاء اجتہادی از ملامت دور است واز طعن وتشنیع مرفوع ." 

ترجمہ:

بے شک معاویہ اور اس کے لشکر نے اس(حضرت علی  سے)بغاوت کی، باوجودیکہ کہ وہ مانتے تھے کہ وہ یعنی سیدنا علی تمام اہل زمانہ سے افضل ہے اور وہ اس سے زیادہ امامت کا مستحق ہے ازروئے شبہ کے اور وہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے قصاص کا ترک کرنا ہے ۔ اور حاشیہ کمال القری میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ہمارے بھائیوں نے ہم پر بغاوت کی حالانکہ نہ ہی وہ کافر ہیں اور نہ ہی فاسق کیونکہ ان کے لیے تاویل ہے

اور شک نہیں کہ خطائے اجتہادی ملامت سے دور ہے اور طعن وتشنیع سے مرفوع ہے

(مکتوبات امام ربانی 331:1منقولا عن بعض المصادر) 

.

وَإِنْ كَانُوا بُغَاةً فِي نَفْسِ الْأَمْرِ فَإِنَّهُمْ كَانُوا مُجْتَهِدِينَ فِيمَا تَعَاطَوْهُ مِنَ الْقِتَالِ، وَلَيْسَ كُلُّ مُجْتَهِدٍ مُصِيبًا، بَلِ الْمُصِيب لَهُ أَجْرَانِ والمخطئ لَهُ أجر.

سیدنا معاویہ کا گروہ باغی تھا لیکن وہ مجتہد تھے لہذا انہیں ایک اجر ملے گا اور جو درستگی پر ہوگا اسے دو اجر ملے گے 

(امام ابن كثير، السيرة النبوية2/308)

.

*#امام_اہلسنت_مجدد دین و ملت سیدی احمد رضا کا عقیدہ....!!*

بلاشبہہ ان(سیدنا معاویہ) کی خطا خطائے اجتہادی تھی اور اس پر الزام معصیت عائد کرنا اس ارشاد الہی کے صریح خلاف ہے۔(فتاوی رضویہ29/229)

.

*#علامہ_سید احمد سعید کاظمی شاہ صاحب کا عقیدہ*

"اگر کوئی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق غلط فہمی میں مبتلا ہے تو میں آپ کو بتادوں کہ امیر معاویہ سے جو کچھ بھی ہوا وہ اجتہادی خطاء کی بنا پر ہوا

(خطبات کاظمی3/300)

.####################

*#سیدنا_معاویہ رضی اللہ عنہ کی خطاء اجتہادی تھی،اسکی دلیل بھی پڑھتے چلیے......!!*

القرآن:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ  اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ

اےایمان والو اللہ کی اطاعت کرو، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اولی الامر کی اطاعت و پیروی کرو...پس اگر اختلاف و جگھڑا ہوجائے تو اگر تم ایمان والے ہو تو معاملہ اللہ اور رسول(قران و حدیث و سنت) کی طرف لوٹا دو

(سورہ نساء ایت59)

 آیت مبارکہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے معاملات قرآن حدیث اور سنت کی طرف لوٹا دے اور قرآن و سنت اور حدیث کی پیروی کرے تو وہ مسلمان شخص مومن کہلائے گا...اور سیدنا معاویہ اور سیدنا علی دونوں نے معاملہ قرآن و حدیث کی طرف لوٹا دیا تھا...دونوں معزز حضرات کی دلیل قرآن و احادیث تھیں... سوال میں اعتراض چونکہ سیدنا معاویہ پر ہوا ہے تو ہم آپ کو دکھاتے ہیں کہ سیدنا معاویہ نے اپنا معاملہ قرآن اور حدیث اور سنت کی طرف کیسے لوٹایا

القرآن:

مَنۡ قُتِلَ مَظۡلُوۡمًا فَقَدۡ جَعَلۡنَا لِوَلِیِّہٖ سُلۡطٰنًا

جو ظلماً قتل کیا جائے تو اللہ نے اس کے ولی کو قوت و اختیار دیا ہے(کہ قصاص لیں یا دیت لیں یا معاف کردیں)

(سورہ بنی اسرائیل آیت33)

.

نبی پاکﷺاحد پہاڑ پے تشریف فرما ہوئے اور آپ کے ساتھ سیدنا ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنھم تھے تو احد پہاڑ جنبش کرنے لگا نبی پاکﷺ نے فرمایا اے احد ساکن ہو جا راوی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں نبی پاکﷺنے اپنا پاؤں مبارک احد پہاڑ پے مار کر فرمایا تھا کہ ساکن ہوجا.....(پھر نبی کریم نے فرمایا)بےشک تجھ پر نبیﷺاور صدیق اور دو شہید ہیں(یعنی سیدنا عمر و عثمان ناحق و ظلماً قتل کییے جائیں گے،شہادت کا رتبہ پائیں گے )

(صحيح البخاري ,5/15حدیث3699)

.

وشهيدان) هما: عمر وَعُثْمَان

 بخاری شریف کی حدیث میں جو ہے کہ دو شہید ہیں ان سے مراد سیدنا عمر اور سیدنا عثمان شہید ہیں

(عمدۃ القاری شرح بخاری16/191)

.

وفيه معجزة للنبي - صلى الله عليه وسلم - حيث أخبر عن كونهما شهيدين، وكانا كما قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم ...

 مذکورہ حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ظاہر ہورہا ہے کہ بے شک نبی پاک صلی اللہ وسلم نے(اللہ کی عطاء سے ملے ہوئے علمِ غیب سے) یہ خبر دی تھی کہ سیدنا عمر اور سیدنا عثمان شہید ہونگے اور ایسا ہی ہوا جیسے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

(شرح مصابیح السنۃ6/434)

.

إِنَّهُ فَقِيهٌ

سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں کہ بےشک سیدنا معاویہ فقیہ(مجتہد) ہیں

(بخاری روایت3765)

.

أَنْتَ تُنَازِعُ عَلِيّاً، أَمْ أَنْتَ مِثْلُهُ؟فَقَالَ: لاَ وَاللهِ، إِنِّيْ لأَعْلَمُ أَنَّهُ أَفْضَلُ مِنِّي، وَأَحَقُّ بِالأَمْرِ مِنِّي، وَلَكِنْ أَلَسْتُم تَعْلَمُوْنَ أَنَّ عُثْمَانَ قُتِلَ مَظْلُوْماً، وَأَنَا ابْنُ عَمِّهِ، وَالطَّالِبُ بِدَمِهِ

 سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا گیا کہ آپ سیدنا علی سے جھگڑا کر رہے ہیں اختلاف کر رہے ہیں کیا آپ ان کی مثل ہیں تو سیدنا معاویہ نے فرمایا نہیں نہیں اللہ کی قسم میں ان جیسا نہیں ہوں، میں انکے برابر نہیں ہوں، میں جانتا ہوں کہ سیدنا علی مجھ سے افضل ہیں اور خلافت کے معاملے میں وہ مجھ سے زیادہ حقدار ہیں لیکن کیا تم نہیں جانتے کہ سیدنا عثمان ظلماً شہید کئے گئے اور میں اس کے چچا کا بیٹا ہو اور اس کے قصاص کا طلب گار ہوں

(سير أعلام النبلاء ابن جوزی ط الرسالة3/140)

(البداية والنهاية امام ابن کثیر ت التركي11/425)

.

محققین نے اس روایت کی سند کو جید معتبر قرار دیا ہے

إسناده جيد

(روضة المحدثين7/242)

.

 *#آیت مبارکہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ظلماً جو قتل کیا جائے اس کے ولی قصاص لے سکتے ہیں اور حدیث پاک اور اسکی شرح سے سے یہ ثابت ہوا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ظلماً شہید کیے گئے تو سیدنا عثمان کے ولی قصاص لے سکتے ہیں اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہی تو ارشاد فرمایا تھا کہ میں سیدنا عثمان کا ولی ہوں لیھذا میں قصاص کا مطالبہ کرتا ہوں کہ سیدنا عثمان ظلماً شہید کیے گئے...سیدنا معاویہ نے اپنا دعوی اپنا اختلاف و اجتہاد قرآن و حدیث پے ہی رکھا یعنی معاملہ قرآن و حدیث و سنت کی طرف لوٹا دیا اور آیت میں ہے ایمان والے ہیں وہ مسلمان جو اپنا معاملہ قران و حدیث و سنت کی طرف لوٹا دیں لیھذا ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ مومن متقی نیک عادل پرہیزگار اور قرآن و سنت و حدیث کے پیروکار تھے ہاں فقیہ و مجتہد بھی تھے اور اسلام نے اجتہاد کی اجازت دی ہے، اجتہاد صحابہ کرام اہلبیت عظام نے کیا بلکہ اجتہاد کا حکم قرآن و حدیث میں موجود ہے......!!*

.###################

 چمن زمان کہتا ہے کہ:

خلیفہ ثالث سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے باغیوں کو کافر قرار دیا گیا کیونکہ انہوں نے خلافت راشدہ کے خلاف بغاوت کی لیکن نا انصافی کرتے ہوئے خلیفہ راشد سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت راشدہ کے باغیوں کو کافر قرار نہ دیا گیا یہ ظلم و زیادتی نہیں تو اور کیا ہے سیدنا علی سے.....؟؟ اور پھر کہتا ہے کہ ان باغیوں کے متعلق تو رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا تھا کہ یہ جہنمی ہیں کہ حدیث پاک میں ہے کہ عمار کا قاتل و سالب جہنمی ہے(اور سیدنا عمار  کو قتل سیدنا معاویہ و انکے گروہ نے کیا)اور چمن زمان کہتا ہے کہ قرآن و حدیث ہی معتبر ہے باقی معتبر نہیں

.

*#میرا تبصرہ*

پہلی بات:

علماء اسلاف مجتہدین کے اجتہاد و فیصلے کی بھی بڑی اہمیت ہے وہ بھی معتبر ہیں،تم چمن زمان دبے الفاظوں میں اسلاف کے قول و فتووں کو رد کر رہے ہو جوکہ سراسر گمراہی و فساد ہے

القرآن:

لَوۡ رَدُّوۡہُ  اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ

اگر معاملات و مسائل کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط(اہلِ تحقیق،باشعور،باریک دان،سمجھدار علماء صوفیاء)ضرور جان لیتے

(سورہ نساء آیت83)

 آیت مبارکہ میں واضح حکم دیا جارہا ہے کہ اہل استنباط کی طرف معاملات کو لوٹایا جائے اور انکی مدلل مستنبط رائے قیاس و اجتہاد و استدلال و سوچ و حکم کی تقلید و پیروی کی جائے.....!!

.

يَسْتَخْرِجُونَهُ وَهُمُ الْعُلَمَاءُ..الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُنَافِقِينَ، لَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى ذَوِي الرَّأْيِ وَالْعِلْمِ،...وَفِي الْآيَةِ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ الْقِيَاسِ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ مَا يُدْرَكُ بِالتِّلَاوَةِ وَالرِّوَايَةِ وَهُوَ النَّصُّ، وَمِنْهُ مَا يُدْرَكُ بِالِاسْتِنْبَاطِ وَهُوَ الْقِيَاسُ عَلَى الْمَعَانِي الْمُودَعَةِ فِي النُّصُوصِ

 اہل استنباط سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جو احکام و نکات نکالتے ہوں اور وہ علماء ہیں... آیت میں منافقین اور مومنین سب کو حکم ہے کہ وہ معاملات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دیں اور اہل علم کی طرف لوٹا دیں اور رائے و قیاس کرنے والوں کی طرف لوٹا دیں... اس آیت میں دلیل ہے کہ قیاس کرنا بالکل جائز ہے کہ علم وہ ہوتا ہے کہ جو نص یعنی قرآن اور حدیث و سنت سے ملتا ہے یا پھر ان سے نکالا جاتا ہے یہی تو قیاس ہے

(تفسیر بغوی2/255)

.

دلت هذه الآية على أنَّ القياس حُجَّة... أن في الأحْكَام ما لا يُعْرَف بالنَّصِّ، بل بالاستِنْبَاطِ... أن العَامِيِّ يجِب عليه تَقْلِيد العُلَمَاء

 مذکورہ آیت مبارکہ دلالت کرتی ہے کہ قیاس ایک دلیل و حجت ہے، اس آیت سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ بعض احکام نص سے معلوم ہوتے ہیں اور بعض احکام قیاس و استنباط سے معلوم ہوتے ہیں.... بے شک عام آدمی پر واجب ہے کہ وہ علماء کرام کی تقلید کرے

(اللباب فی علوم الکتاب6/526)

.

 یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ جب نص نہ ہو تو اجتہاد اور قیاس کرنا واجب ہے اور اس پر عمل کرنا بھی لازم ہے..اس آیت سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ بعض احکام نص سے معلوم ہوتے ہیں اور بعض احکام قیاس و استنباط سے معلوم ہوتے ہیں

(تفسیر ثعلبی10/493)

.

الحدیث..ترجمہ:

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟“ تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پا سکو تو کیا کرو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے

(ابوداؤد حدیث3592)

.

 ابو داود شریف کی مذکورہ حدیث کو البانی نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن بعض اہل علم نے اس حدیث کو صحیح و دلیل قرار دیا ہے یا پھر حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے جیسے کہ امام ابن کثیر نے اور جیسے کہ امام شوکانی نے صحیح یا حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے... بعض ائمہ نے تو اس حدیث کی تائید و تخریج و شرح پر کتب و رسائل تک لکھے ہیں... صحابہ کرام سے بہت سارے آثار مروی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے قرآن اور حدیث بھر اقوال صحابہ پھر ان پر کیا گیا اجتہاد و قیاس  کرنا اور عمل کرنا کرانا جائز بلکہ لازم و برحق ہے

(شرح ابوداود للعباد تحت الحدیث3592)

.

یہ حدیث مبارک مشعل راہ ہے کہ قران پھر حدیث و سنت پھر اجتہاد قیاس و استدلال....اس حدیث مبارک سے واضح ہوتا ہے کہ قران حدیث و سنت سے قیاس اجتہاد و استدلال کرنا برحق و ماہر علماء کا منصب بلکہ ذمہ داری ہے...اور انکے اجتہادی قیاسی استدلالی فتووں فیصلوں اقوالوں کو ماننا ہم پر لازم ہے جبکہ چمن زمان اسلاف کے فتاوی و اقوال کو اہمیت ہی نہیں دے رہا جوکہ گمراہی و فساد ضرور ہے

.********************

*#دوسری بات*

احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بغاوت و اختلاف اجتہاد کی بنیاد پر ہو تو کبھی وہ برحق و لازم تک ہوجاتی ہے

الحدیث..ترجمہ:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گروہ بھیجا اور ان پر ایک شخص کو امیر مقرر کردیا اس امیر نے آگ بھڑکائی اور حکم دیا کہ اس آگ میں داخل ہو جاؤ کچھ لوگوں نے اس کی اطاعت میں داخل ہونے کا ارادہ کیا اور دوسروں نے کہا کہ ہم جہنم کی آگ سے فرار ہوکر مسلمان ہوئے ہیں آگ میں داخل نہ ہونگے… تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اس کا تذکرہ کیا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے لئے متعلق فرمایا کہ جو آگ میں داخل ہونا چاہتے تھے ان سے فرمایا کہ اگر تم داخل ہوتے تو قیامت تک اس میں رہتے اور دوسروں کے لئے فرمایا کہ معصیت (گناہ گمراہی الحاد لادینیت گستاخی غلامی کفر) کے معاملے میں کسی کی اطاعت مت کرو اطاعت تو نیک(اور جائز) کاموں میں ہے

(بخاری حدیث7257)

دیکھا آپ نے کہ صحابہ کرام نے اجتہاد کیا اور امیر سے بغاوت و اختلاف کیا، ایسا اختلاف و بغاوت تو لازم ہے

.*****************

*#تیسری بات*

احادیث سے ثابت ہے کہ بغاوت و اختلاف اجتہاد کی بنیاد پر ہو اور اجتہاد میں خطاء ہو تو اس پر بھی اجر ہے

الحدیث...ترجمہ:

غزوہ احزاب سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم(یعنی صحابہ کرام) سے فرمایا کہ:

تم میں سے ہر ایک بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھے" (صحابہ کرام نے جلد پہنچنے کی بھر پور کوشش کی مگر)راستے میں عصر کا وقت ختم ہونے کو آیا تو کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ ہم عصر نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی پڑہیں گے اور کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ نبی پاک کا یہ ارادہ نا تھا(کہ نماز قضا ہو اس لیے) ہم عصر پڑھ لیں گے

(طبرانی ابن حبان وغیرہ کتب میں روایت ہے جس میں ہے کہ کچھ صحابہ نے راستے میں ہی عصر نماز پڑھ لی اور کچھ نے فرمایا کہ ہم رسول کریم کی تابعداری اور انکے مقصد میں ہی ہیں لیھذا قضا کرنے کا گناہ نہین ہوگا اس لیے انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر نماز پڑھی)

پس یہ معاملہ رسول کریم کے پاس پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک پر بھی ملامت نا فرمائی

(بخاری حدیث946)

.

دیکھا آپ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کا اجتہاد قیاس و استدلال اور اس میں اختلاف... صحابہ کرام نے اس برحق اختلاف پر ایک دوسرے کو کافر منافق فاسق گمراہ گستاخ نہیں کہا اور نبی پاک نے بھی کسی کی ملامت نا فرمائی...ایسا اختلاف قابل برداشت ہے بلکہ روایتوں میں ایسے فروعی برحق پردلیل باادب اختلاف کو رحمت فرمایا گیا ہے بلکہ ایسے اختلاف پے خطاء والے کو بھی اجر ملتا ہے، سیدنا معاویہ کا اختلاف بھی اجتہاد پر مبنی اسی قسم کا تھا

الحدیث:

فاجتهد، ثم اصاب فله اجران، وإذا حكم فاجتهد، ثم اخطا فله اجر

مجتہد نے اجتہاد کیا اور درستگی کو پایا تو اسے دو اجر اور جب مجتہد نے اجتہاد کیا خطاء پے ہوا اسے ایک اجر ملے گا

(بخاری حدیث7352)

توجیہ تنبیہ جواب تاویل ترجیح کی کوشش کرنی چاہیے جب یہ ممکن نا ہو تو خطاء اجتہادی پر محمول کرنا چاہیے.....ہاں تکبر عصبیت مفاد ضد انانیت ایجنٹی منافقت وغیرہ کے دلائل و شواہد ملیں تو ایسے اختلاف والے کی تردید و مذمت بھی برحق و لازم ہے

.*****************

*#چوتھی بات*

احادیث سے ثابت ہے کہ کسی مسلمان کو کافر کہنا کفر ہے...اسی طرح حلال کو حرام یا حرام کو حلال کہنا کفر ہے

عقائد کے مشھور و معتبر امام امام ابو الحسن اشعری فرماتے ہیں:

وندين بأن لا نُكَفرِّ أحداً من أهل القبلة بذنب

ہمارا عقیدہ ہے کہ گناہ کرنے کی وجہ سے کسی مسلمان کو کافر نہ قرار دیا جائے گا

(الإبانة عن أصول الديانة - ت العصيمي ص228)

.

فقہ و عقائد کے معتبر امام امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں:

وَلَا نكفر مُسلما بذنب من الذُّنُوب وَإِن كَانَت كَبِيرَة إِذا لم يستحلها

اگر کوئی گناہ کو حلال نہ سمجھے تو ہم اسے گناہ گار کہیں گے کافر نہ کہیں گے

( الفقه الأكبر ص43)

.

وهذا من الأصول المقررة في معتقد أهل السنة والجماعة وقد عبر عنه الإمام الطحاوي بقوله (ولا نكفر مسلما بذنب إلا إذا استحله)

اہلسنت کا مدلل متفقہ اصول ہے کہ کسی گناہ کرنے والے کو کافر نہ کہیں گے البتہ گناہ کو حلال سمجھے تو کفر ہے

(الموسوعة العقدية6/161)

.

الحدیث:

إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِأَخِيهِ : يَا كَافِرُ. فَقَدْ بَاءَ بِهِ أَحَدُهُمَا

جس نے مسلمان کو کافر کہا تو کفر کا فتوی دونوں میں سے کسی ایک پر لوٹے گا

(بخاری حدیث6103)

ثابت ہوا کہ بغاوت و اختلاف میں ناحق کفر کا فتوی لگانے والا خود کافر ہوجاتا ہے

.

*#الحاصل*

بغاوت و اختلاف کی کئ صورتیں ہیں، سب کا حکم قرآن و حدیث کے مطابق الگ الگ ہے جبکہ چمن زمان الگ الگ حکم لگانے کو ظلم زیادتی منافقت و بغض قرار دے رہا ہے جو کہ گمراہی و فساد تو کم از کم ضرور ہے بات کفر تک جاسکتی ہے

.****************

*#آئیے دیکھتے ہیں کہ خلافت راشدہ کے باغیوں کو کافر کہا گیا یا تفصیل و دلیل کی بنیاد پر الگ الگ فتوی لگایا گیا....؟؟*

.

قِتَالُ الصِّدِّيقِ مَانِعِي الزَّكَاةِ، ثُمَّ إِنْ كَانَ مُقِرًّا بِهَا فَمُسْلِمٌ، وَإِنْ جَحَدَهَا فَكَافِرٌ إِجْمَاعً

 سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت راشدہ میں جو مانعینِ زکوۃ باغی تھے ان میں سے جو زکواۃ کا منکر تھا تو وہ باغی کافر ہے اور جو منکر نہ تھا مگر زکواۃ ادا نہ کرتا تھا تو وہ فقط باغی ہے کافر نہیں 

(شرح زرقانی علی الموطا2/186)

.

امام خطابی فرماتے ہیں:

أن أهل الردة كانوا أصنافا منهم من ارتد عن الملة ودعا إلى نبوة مسيلمة وغيره، ومنهم من ترك الصلاة والزكاة وأنكر الشرائع كلها وهؤلاء الذين سماهم الصحابة كفارا...فأما مانعو الزكاة منهم المقيمون على أصل الدين فإنهم أهل بغي

 باغی جو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت راشدہ میں ظاہر ہوئے وہ تین طرح کے تھے ایک وہ تھے کہ جنہوں نے اسلام کو چھوڑ دیا تھا اور جھوٹے نبی کو نبی مان لیا تھا تو وہ لوگ مرتدین تھے اور دوسرے قسم کے وہ لوگ تھے جنہوں نے شریعت کا انکار کیا اور نماز زکواۃ کا انکار کیا انکو صحابہ کرام نے باغی کافر قرار دیا اور تیسرہ گروہ ایسا تھا کہ وہ دین اسلام کو اور اس کے فرائض و واجبات کو مانتے تھے لیکن زکوۃ ادا نہیں کرتے تھے تو وہ صرف باغی ہیں کافر مرتد نہیں ہیں

(معالم السنن 2/6)

.

امام نووی فرماتے ہیں:

فَأَمَّا مَانِعُو الزَّكَاةِ مِنْهُمُ الْمُقِيمُونَ عَلَى أَصْلِ الدِّينِ فَإِنَّهُمْ أَهْلُ بَغْيٍ.....وَلَمْ يُسَمَّوْا عَلَى الِانْفِرَادِ مِنْهُمْ كُفَّارًا وَإِنْ كَانَتِ الرِّدَّةُ قَدْ أُضِيفَتْ إِلَيْهِمْ لِمُشَارَكَتِهِمُ الْمُرْتَدِّينَ فِي مَنْعِ بَعْضِ مَا مَنَعُوهُ مِنْ حُقُوقِ الدِّينِ

 سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت راشدہ میں جن لوگوں نے دین اسلام کے کسی فرض واجب کا انکار نہ کیا لیکن زکوۃ نہ دی تو وہ فقط باغی ہیں کافر نہیں ہیں،لیکن زکواۃ نہ دینے والوں میں کچھ مرتد بھی تھے(کہ جنہوں نے فرض زکواۃ کا انکار کیا تھا)

(شرح نووی علی مسلم1/204)

.

امام ابن حجر فرماتے ہیں:

وَإِنَّمَا أُطْلِقَ فِي أَوَّلِ الْقِصَّةِ الْكُفْرُ لِيَشْمَلَ الصِّنْفَيْنِ فَهُوَ فِي حَقِّ مَنْ جَحَدَ حَقِيقَةً وَفِي حَقِّ الْآخَرِينَ مَجَازٌ تَغْلِيبًا

شروع شروع میں کہ جب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت راشدہ شروع ہوئی تو کئی لوگوں نے زکواۃ دینے سے انکار کر دیا ان سب پر کفار مرتدین کا اطلاق کیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے جو زکواۃ کا منکر تھا وہ کافر تھا اور جو منکر نہیں تھا وہ فقط باغی تھا 

(فتح الباری شرح بخاری12/277)

.

وكان أهل الردة ثلاثة أصناف: صنف كفر بعد إسلامه ولم يلتزم شيئاً وعاد لجاهليته أو (6) اتبع مسيلمة أو العنسىَّ وصدَّق بهما، وصنف أقرَّ بالإسلام إلا الزكاة فجحدها وأقر بالإيمان والصلاة، وصنف اعترف بوجوبها ولكن امتنع من دفعها إلى أبى بكر... ،فرأى أبو بكر والصحابة -رضى الله عنهم- قتال جميعهم، الصنفان الأوَّلان لكفرهم والثالث لامتناعه بزكاته

 تین قسم کے لوگوں نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت راشدہ میں بغاوت کی، ایک گروہ وہ جس نے اسلام کو ترک کر دیا اور جھوٹے نبیوں کی پیروی کی ... دوسرا گروہ وہ تھا جو نماز وغیرہ دیگر فرائض و واجبات کو مانتا تھا لیکن فقط زکواۃ کو نہیں مانتا تھا... تیسرا گروہ وہ تھا جو زکواۃ کو بھی مانتا تھا لیکن زکواۃ ادا نہیں کرتا تھا

 پہلے دونوں گروہ کافر مرتد ہیں اور تیسرا گروہ اگرچہ کافر نہیں لیکن باغی ہے لہذا صحابہ کرام نے اور سیدنا صدیق اکبر نے ان سے جہاد کیا

(اکمال المعلم شرح مسلم1/243, 244)

.

(إِن الله مقمصك قَمِيصًا فَإِن أرادك المُنَافِقُونَ على خلعه فَلَا تخلعه حَتَّى تَلقانِي

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عثمان اللہ کریم تجھے خلافت سے نوازے گا اور منافقین چاہیں گے کہ تو خلافت کو چھوڑ دے تو تم خلافت کو مت چھوڑنا حتی کہ تو مجھ سے آ ملے

(الصواعق المحرقة1/322)

 اس حدیث پاک میں رسول کریم نے خلیفہ ثالث کی خلافت راشدہ کے باغیوں کو منافق کہا ہے کافر نہیں کہا جبکہ چمن زمان کہتا ہے کہ تم لوگوں نے خلیفہ ثالث کی خلافت راشدہ کے باغیوں کو کافر کہا ہے.....پکڑا گیا ناں چمن زمان کا جھوٹ مکاری انتشار بازی.....؟؟

.

بل الْإِجْمَاع قَائِم على رد روايتهم لعدم الريب فِي كفرهم لاستحلالهم قَتله، وَالْكَافِر مَرْدُود إِجْمَاعًا وَأَن لم يستحلوه فَلَا ريب فِي فسقهم

اس بات پر اجماع ہے سب علماء حق متفق ہیں کہ خلیفہ ثالث سیدنا عثمان کی خلافت راشدہ کے باغی قاتلوں کا حکم یہ ہے کہ ان میں سے جو قتل کو جائز سمجھتے تھے وہ کافر ہیں اور جو قتل کو حلال نہ سمجھتے تھے لیکن پھر بھی قتل کیا تو وہ فاسق و گنہگار ہے

(تيسير التحرير شرح كتاب التحرير3/42)

دیکھیے علماء و اسلاف نے خلیفہ ثالث کی خلافت راشدہ کے بعض باغیوں کو فقط فاسق کہا ہے کافر نہیں کہا جبکہ چمن زمان کہتا ہے کہ تم لوگوں نے خلیفہ ثالث کی خلافت راشدہ کے باغیوں کو کافر کہا ہے.....پکڑا گیا ناں چمن زمان کا جھوٹ مکاری انتشار بازی.....؟؟

.

وَأَمَّا عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَخِلَافَتُهُ صَحِيحَةٌ بِالْإِجْمَاعِ وَقُتِلَ مَظْلُومًا وَقَتَلَتْهُ فَسَقَةٌ لِأَنَّ مُوجِبَاتِ الْقَتْلِ مَضْبُوطَةٌ وَلَمْ يَجْرِ مِنْهُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا يَقْتَضِيهِ وَلَمْ يُشَارِكْ فِي قَتْلِهِ أَحَدٌ مِنَ الصَّحَابَةِ وَإِنَّمَا قَتَلَهُ هَمَجٌ وَرُعَاعٌ مِنْ غَوْغَاءِ الْقَبَائِلِ وسفلة

 سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا شبہ صحیح ہے اس پر اجماع ہے .... سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو جنہوں نے قتل کیا وہ فاسق تھے(مجتہد باغی اجتہادی خطاء والے نہ تھے)کیونکہ وہ کم عقل وحشی چھچھورے تھے، سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے قتل میں کوئی بھی صحابی شریک نہیں تھا

(شرح النووي على مسلم15/148)

غور کیجیے علماء و اسلاف نے خلیفہ ثالث کی خلافت راشدہ کے باغیوں کو فقط فاسق کہا ہے کافر نہیں کہا جبکہ چمن زمان کہتا ہے کہ تم لوگوں نے خلیفہ ثالث کی خلافت راشدہ کے باغیوں کو کافر کہا ہے.....پکڑا گیا ناں چمن زمان کا جھوٹ مکاری انتشار بازی.....؟؟

.

امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

فكفره أهل السنة بتكفيره عثمان

 سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو جنہوں نے کافر قرار دیا اہل سنت نے ان کو کافر قرار دیا

(لسان الميزان ت أبي غدة4/135)

.

دخل عليه جماعة من الفجرة قتلوه

فاسق و فاجروں کی ٹولی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر داخل ہوئی اور انہیں شہید کر دیا

(فتح القريب المجيب على الترغيب والترهيب13/366)

یہاں بھی خلیفہ ثالث کی خلافت راشدہ کے باغیوں کو فقط فاسق فاجر کہا ہے کافر نہیں کہا جبکہ چمن زمان کہتا ہے کہ تم لوگوں نے خلیفہ ثالث کی خلافت راشدہ کے باغیوں کو کافر کہا ہے.....پکڑا گیا ناں چمن زمان کا جھوٹ مکاری انتشار بازی.....؟؟

.

وَإِنَّهُم لم يستندوا فِي شَيْء مِمَّا خَرجُوا إِلَيْهِ فِي أمره إِلَى مَا يُمكن أَن يكون شُبْهَة فضلا عَن أَن يكون حجَّة....فضلال وظلم لَا محَالة على أَنه لَو اسْتحق قَتله وخلعه وإبعاده لم يجز أَن يتَوَلَّى ذَلِك من أمره الَّذين سَارُوا إِلَيْهِ لأَنهم لَيْسُوا من أضرابه وَلَا أشكاله

 سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے قاتل گمراہ و ظالم ہیں( کافر نہین، اجتہادی خطاء والے نہیں) کیونکہ وہ اجتہاد کے اہل ہی نہ تھے اور نہ ہی انکی کوئی دلیل و حجت قرآن و سنت سے تھی

(تمهيد الأوائل وتلخيص الدلائل ص520)

خلیفہ ثالث کی خلافت راشدہ کے باغیوں کو گمراہ ظالم کہا ہے کافر نہیں کہا گیا جبکہ چمن زمان کہتا ہے کہ تم لوگوں نے خلیفہ ثالث کی خلافت راشدہ کے باغیوں کو کافر کہا ہے.....پکڑا گیا ناں چمن زمان کا جھوٹ مکاری انتشار بازی.....؟؟

.

وقد يكون مراده صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بهذا الخوارج لتكفيرهم المؤمنين. وهذا تأويل مالك ابن أنس

 امام مالک نے فرمایا کہ(خلیفہ راشد سیدنا علی کے بعض باغی یعنی) خوارج کافر ہیں کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کو کافر قرار دیا

(اکمال المعلم1/318)

چمن زمان کہتا ہے خلیفہ راشد سیدنا علی کے باغیوں کو کافر قرار نہیں دیا جبکہ اسکا جھوٹ و پول کھل گیا کہ کئ علماء نے سیدنا علی کے باغی غالی خوارج و روافض کو دلیل کی بنیاد پے کافر قرار دیا

.

.

(والمبتدع بِمَا) أَي ببدعة (هُوَ كفر) كغلاة الروافض والخوارج

(خلیفہ راشد سیدنا علی کے بعض باغی یعنی) غالی خوارج غالی روافض کافر ہیں( اگر غلو نہ کریں تو سیدنا علی کی خلافت راشدہ کے غیرغالی فقط باغی گناہ گار کہلائیں گے، کافر نہیں کہلائیں گے)

(تيسير التحرير شرح كتاب التحرير3/41)

خلیفہ راشد سیدنا علی کے باغیوں کو چمن زمان کے مطابق کافر قرار نہیں دیا گیا جبکہ اسکا جھوٹ و پول کھل گیا کہ کئ علماء نے سیدنا علی کے باغی غالی خوارج و روافض کو دلیل کی بنیاد پے کافر قرار دیا اور دلیل کی بنیاد پے ہی کچھ باغیوں کو کافر قرار نہ دیا جیسے کہ خلیفہ راشد اول سیدنا ابوبکر صدیق کے بعض باغیوں کو کافر نہیں قرار دیا گیا، ایسے ہی خلیفہ ثالث سیدنا عثمان کے بعض باغیوں کو کافر نہیں کہا گیا....لیھذا چمن زمان کا جھوٹ جہالت بغض انتشار بازی واضح ہوگئ

.

امام ابن ملقن امام ابومنصور سے منقولا لکھتے ہیں

 أنه يُكَفِّر الناس فيَكْفُر كما تفعل الخوارج

 خوارج اگر مسلمانوں کو کافر قرار دیں تو انہیں بھی کافر قرار دیا جائے گا

(التوضیح شرح جامع صحیح12/152)

.

واختار في أواخر "التحفة الإثنى عشرية" تكفير الخوارج ممن يكفر علياً - رضي الله عنه

 تحفہ اثنا عشریہ میں اس بات پر کو اختیار کیا ہے کہ جس نے سیدنا علی کی تکفیر کی اسے ہم کافر قرار دیں گے

(إكفار الملحدين في ضروريات الدين ص52)

.

 قاضی ابوبکر بن عربی نے صراحتا ذکر کیا ہے کہ خوارج جو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت راشدہ میں باغی ہوئے وہ (احادیث و دلائل کی بنیاد پے) کفار ہیں، امام سبکی کا بھی یہی نظریہ ہے، امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ ہمارے لیے یہی کافی ہے کہ جو صحابہ کرام کو کافر قرار دے وہ کافر ہے....یہی موقف صاحب شفاء اور صاحب الروضۃ کا ہے لیکن کئ اصولی خوارج کو اس وجہ سے کافر نہیں کہتے کہ وہ اسلام کے فرائض واجبات مانتے عمل کرتے ہیں بس کچھ معاملات میں تاویل فاسد کرکے باغی ہوئے

(فتح الباری شرح بخاری 12/299,300)

.

*#الحاصل......!!*

علماء اہلسنت کے قرآن و سنت سے دلائل و بحث کا خلاصہ یہ نکلا کہ:

خلیفہ راشد سیدنا ابوبکر کے خلاف نکلنے والے باغی مجتہد نہ تھے اور کئ تاویل فاسد بھی نہ رکھتے تھے اس لیے مرتد قرار پائے...بعض تاویل فاسد رکھتے تھے انہیں بعض علماء نے کافر مرتد نہیں کہا بلکہ گمراہ فسادی کہا

.

خلیفہ راشد سیدنا عثمان سے بغاوت کرنے والے مجتہد نہ تھے اور نہ ہی تاویل رکھتے تھے اور نہ ہی حلال کو حرام یا حرام کو حلال کہتے تھے اس لیے کافر مرتد قرار نہ پائے بلکہ باغی فسادی قرار پائے، بعض علماء نے لکھا کہ اگر ان میں سے کسی نے سیدنا عثمان کو کافر قرار دیا تو وہ کافر باغی ہے کیونکہ نہ اجتہاد ہے اس کے ساتھ نہ تاویل

.

خلیفہ راشد سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بغاوت کرنے والے تاویل فاسد رکھتے تھے تو وہ خوارج گمراہ فسادی بدترین قرار پائے،اگر خوارج سیدنا علی وغیرہ صحابہ کرام کو کافر کہیں تو بعض علماء نے لکھا کہ ایسے باغی خوارج کافر مرتد ہیں لیکن بعض علماء نے فرمایا کہ تاویل فاسد کے ذریعے کہیں تو گمراہ بدمذہب مردود ہیں اور جو سیدنا علی سے اجتہاد و دلیل سے اختلاف کرے جیسے سیدنا معاویہ تو انکا اجتہاد و دلیل کمزور ہے اس لیے اجتہادی خطاء والے باغی قرار پائے فاسق فاجر گمراہ بدمذہب نہ قرار پائے

.

یقینا یہ انصاف احتیاط و حق ہی ہے، جس میں دلائل کو مدنظر رکھا گیا ہے محض خلافت راشدہ کے دفاع کو وجہ بنا کر کافر نہیں کہا گیا، لیھذا چمن زمان کا قول جھوٹ جہالت و بغضِ صحابہ پر مبنی ہے، یہ شخص انتشار و تفرقہ پسند فسادی ہے جسکا علاج سمجھانا ورنہ بائیکاٹ و ٹھکانے لگانا ہے جیسے کہ ٹھکانے لگانے کی وضاحت شروع میں ہم کرچکے

.################

اب آتے ہیں چمن زمان کی دلیل کی طرف کہ حدیث پاک میں ہے کہ سیدنا عمار کا قاتل و سالب جہنمی ہے(مشھور یہی ہے کہ سیدنا عمار کو سیدنا معاویہ و انکے گروہ نے قتل کیا تو گویا چمن زمان کے مطابق نعوذ باللہ سیدنا معاویہ بمع گروہ کافر ہیں اور اہلسنت علماء نے سیدنا معاویہ بمع گروہ کو اجتہادی خطاء پے کہہ کر سیدنا علی سے بغض کیا زیادتی و ظلم کیا ناانصافی کی...نعوذ باللہ)

ہم

اوپر ثابت کر آئے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہ ناانصافی ظلم زیادتی نہیں بلکہ ہر خلافت راشدہ کے باغی پر دلیل کی بنیاد پے فتوی لگایا علماء اہلسنت نے اور اجتہادی خطاء کا فتوی بھی قرآن و سنت سے دلیل پیش کرکے دیا گیا

.

رہی بات حدیث پاک کی تو حدیث پاک میں ہی خود وضاحت موجود ہے کہ سیدنا عمار کا فقط قاتل جہنمی نہیں بلکہ جو قاتل بھی ہو اور سالب بھی ہو یعنی سیدنا عمار کے سامان کو مال غنیمت سمجھے اور مال غنیمت سمجھ کر لوٹ مار کرے کا مطلب ہوا کہ اسکے نزدیک سیدنا عمار کافر ہے اور اصول پڑھ چکے کہ بلادلیل کافر قرار دینا کفر و جہنمیوں کا کام ہے....جبکہ سیدنا معاویہ بمع گروہ نے سیدنا عمار کو شہید تو کیا مگر اسے کافر قرار نہ دیا سالب نہ ہوئے لیھذا یہ حدیث سیدنا معاویہ و گروہ پر فٹ نہیں آتی

.

امام سیوطی امام احمد بن حنبل امام نور الدین ھیثمی امام ابن حجر وغیرہ کئ محققین نے لکھا کہ:

إِنَّ قَاتِلَهُ وَسَالِبَهُ في النَّارِ، فَقِيلَ لِعَمْرٍو: هُوَ ذَا أنْتَ تُقَاتِلُهُ؟ فَقَالَ: إِنَّمَا قَالَ: قَاتِلُهُ وَسَالِبُهُ

 حدیث پاک میں ہے کہ سیدنا عمار کا قاتل و سالب جہنم میں ہے تو ان کے قاتل سے کہا گیا کہ اپ پھر کیوں قتل کر رہے ہیں عمار کو....؟؟ تو انہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قاتل و سالب فرمایا ہے فقط قاتل نہیں فرمایا

(جمع الجوامع 21/750)

.

فالّذي يتحمّل إثمه ووزره قاتله وسالبه، وليس من يُقاتله

 حدیث پاک میں جو جہنمی کافر ہونے کی وعید ہے یہ اس شخص کے لیے ہے کہ جو سیدنا عمار بن یاسر کا قاتل و سالب ہو....جو(اجتہاد کی بنیاد پے) فقط قاتل ہو وہ جہنمی کافر نہیں

(وأد الفتنة دراسة نقدية لشبهات المرجفين وفتنة الجمل وصفين على منهج المحدثين ص259)

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.