کیا سیدہ فاطمہ نے سیدنا ابوبکر سے ناراض رہ کر وفات پائی؟ جنازہ کس نے پڑھایا؟ کیا سیدنا عمر نے سیدہ فاطمہ کو مکا مارا؟ شیعوں کو مدلل جواب

 *#کیا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ناراض رہ کر وفات پاگئیں...؟؟ کیا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شہید کیا...؟؟ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ کس نے پڑھایا...؟؟*

خلاصہ:

سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالیٰ عنھا  سیدنا صدیق اکبر سے ناراض نہ ہوئی تھیں،اگر ذرا سا ناراض یا خفاء ہوئیں بھی تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے راضی کر لیا تھا،اور سنی شیعہ تمام کتب سے ثابت ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی مالی میراث نہ تھی، سیدہ فاطمہ نے جو باغ فدک کا مطالبہ کیا تھا تو یہ شاید لاعلمی بےتوجہی یا غلط فھمی یا اجتہاد تھا لیکن جب سیدہ پاک کو حدیث پاک سنا دی گئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا جو مال ہے وہ سب صدقہ ہے،اس میں میراث جاری نہ ہوگی...یہ حدیث پاک سن کر سیدہ فاطمہ نے اسکے بعد کبھی مطالبہ نہ کیا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی خلافت میں اس باغ کو میراث کے طور پر تقسیم نہ کیا، ہاں سیرتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور  سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ وغیرہ بغیر مالک بنائے محض خرچہ چلانے کے لیے اس باغ سے نفع سیدہ فاطمہ سیدنا علی اور سیدعالم کی ازواج مطہرات وغیرہ کو دیا کرتے تھے ...تھوڑی سی ناراضگی تو سیدنا علی سے بھی سیدہ فاطمہ کی ہوئی تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ سیدنا علی اور سیدنا صدیق اکبر نے جان بوجھ کر یا ناحق ناراض کیا اور جو سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو فاطمہ کو ناراض کرے گا وہ مجھے ناراض کرے گا اس سے مراد یہی ہے کہ ناحق ناراض کرے گا یا پھر جان بوجھ کے ناراض کرے گا جبکہ کسی نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کو ناحق یا جان بوجھ کر ناراض نہ کیا.....اور ایک مضبوط قول کے مطابق سیدہ فاطمہ کا جنازہ بھی سیدنا صدیق اکبر نے پڑھایا اور وہ جو کہا جاتا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کو سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے مکا مارا اور سیدہ کے پیٹ میں بچہ شہید ہو گیا اور سیدہ کا گھر جلایا وغیرہ وغیرہ یہ سب شیعہ کے جھوٹ اور بہتان تراشیں ہیں

.

*#سوال.....!!*

ایک درگاہ شریف سے ایک پیر صاحب نے مسج کیا اور اسکا تحقیقی علمی جواب لکھنے کا حکم فرمایا...سوال کا خلاصہ یہ تھا کہ:

علامہ صاحب شیعہ رافضی کہتے ہیں کہ تمہاری کتابوں میں ہے کہ جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض کیا اور تمہاری کتابوں میں ہے کہ فاطمہ ابوبکر سے ناراض ہو رہ کر وفات پاگئیں...شیعہ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ بخاری مسلم میں ہے کہ سیدہ کا جنازہ سیدنا علی نے پڑھایا اور ابوبکر و عمر کو خبر تک نہ ہونے دی ، راتوں رات دفن کر دیا...نیز یہ بھی بتائیے کہ سیدہ کی وفات کیسے ہوئی...؟؟ شیعہ کہتے ہیں کہ میزان الاعتدال اور ملل اہلسنت کتب میں ہے کہ سیدہ کو عمر نے مکا مارا جس سے انکی شہادت ہوئی....؟؟ مدلل لکھیں

.

جواب.و.تحقیق.......!!

*#پہلی_بحث: کیا سیدہ ناراض تھیں یا رہیں......؟؟*

اول بات تو یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا ناراض نہ ہوئیں تھیں، بعض کتب میں جو مہاجرت و ترک کلام لکھا ہے اسکا معنی علماء نے یہ لکھا ہے کہ فدک وغیرہ کے متعلق کلام ترک کردیا مطالبہ ترک کر دیا...(دیکھیے ارشاد الساری شرح بخاری5/192 ،عمدۃ القاری15/20وغیرہ کتب)

بالفرض

اگر سیدہ فاطمہ ناراض بھی ہوئی تھیں تو سیدنا ابوبکر نے انہیں منا لیا تھا راضی کر لیا تھا اور سیدہ فاطمہ راضی ہوگئ تھیں

ترضاھا حتی رضیت

سیدناصدیق اکبر بی بی فاطمہ کو مناتے رہے حتی کہ سیدہ فاطمہ راضی ہوگئیں(سنن کبری بیہقی12735 عمدۃ القاری15/20,السیرۃ النبویہ ابن کثیر4/575)

سیدنا علی راضی سیدہ فاطمہ راضی ، ہدایت ملے ورنہ جل بھن جائے رافضی نیم رافضی......!!

.

ابوبکر…فرضیت عنہ

فاطمہ ابوبکر(کی وضاحت،اظہارمحبت کےبعد)راضی ہوگئیں(شیعہ کتاب شرح نہج بلاغۃ2/57)

.

امام قسطلانی فرماتے ہیں:

معنى قول فاطمة لأبي بكر وعمر: لا أكلمكما أي في هذا الميراث.....وأما هجرانها فمعناه انقباضها عن لقائه لا الهجران المحرم من ترك السلام ونحوه ...والهجران المحرم إنما هو أن يلتقيا فيعرض هذا وهذا

 سیدہ فاطمہ نے جو فرمایا کہ میں بات نہ کروں گی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب باغ فدک وغیرہ کے متعلق بات و مطالبہ نہ کروں گی... کچھ روایات میں جو ہے کہ سیدہ فاطمہ نے مہاجرت(قطع تعلقی) کر لی( تو یہ راوی کا وھم ہے ، حقیقت یہ ہے کہ)اسکا معنی یہ ہے کہ اس کے بعد ملاقات بحث و مباحثہ وغیرہ سب کچھ کی نوبت ہی نہ ائی، قطع تعلقی تو یہ ہے کہ ایک دوسرے سے ملاقات ہو اور سلام دعا نہ کریں یہ حرام ہے

(ارشاد الساری شرح بخاری5/192 ملتقطا)

.

امام ابن ملقن فرماتے ہیں:

وإنما كان هجرانها له انقباضًا عن لقائه وترك مواصلته. وليس هذا من الهجران المحرم، وإنما المحرم من ذَلِكَ أن يلتقيا فلا يسلم أحدهما على صاحبه. ولم يرو واحد أنهما التقيا وامتنعا من التسليم،ولسنا نظن به إضمار الشحناء والعداوة، وإنما هم كما وصفهم الله رحماء بينهم.وروي عن علي أنه لم يغير شيئًا من سيرة أبي بكر وعمر بعد ولايته في تركة رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، بل أجرى الأمر فيها على ما أجرياه في

حياتهما

 کسی بھی روایت میں یہ نہیں ہے کہ سیدہ فاطمہ اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی آپس میں ملاقات ہوئی ہو اور ان دونوں نے سلام دعا نہ کی ہو، جب ایسا ثابت نہیں ہے تو ثابت ہوا کہ قطع تعلقی نہیں ہوئی تھی، قطع تعلقی تو یہ ہے کہ اپس میں ملیں لیکن سلام دعا نہ کریں، اور ہمارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم وہم و گمان کرتے پھریں کہ ان کے درمیان نفرت و دشمنی تھی، ایت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ تو اپس میں بہت رحم دل اور محبت کرنے والے تھے، ہاں پہلی ملاقات کے بعد دوسری ملاقات بحث و مباحثہ مطالبہ وغیرہ کی نوبت ہی نہیں ائی تھی(جسے راوی کو وھم ہوا کہ قطع تعلقی کی)... نیز سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی مروی ہے کہ اپ نے سیدنا ابوبکر صدیق و سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی سیرت و فیصلوں پر عمل کیا اور باغ فدک وغیرہ کے معاملے میں بھی وہی کچھ جاری رکھا جو ان دونوں نے جاری کیا تھا

( التوضیح شرح جامع صحیح18/373ملتقطا)


.

امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:

إِنَّمَا كَانَتْ هِجْرَتُهَا انْقِبَاضًا عَنْ لِقَائِهِ وَالِاجْتِمَاعِ بِهِ وَلَيْسَ ذَلِكَ مِنَ الْهُجْرَانِ الْمُحَرَّمِ لِأَنَّ شَرْطَهُ أَنْ يَلْتَقِيَا فَيُعْرِضُ هَذَا وَهَذَا

(کچھ روایات میں جو ہے کہ)سیدہ فاطمہ نے مہاجرت(قطع تعلقی) کر لی( تو یہ راوی کا وھم ہے ، حقیقت یہ ہے کہ)اسکا معنی یہ ہے کہ اس کے بعد ملاقات بحث و مباحثہ وغیرہ سب کچھ کی نوبت ہی نہ ائی، قطع تعلق کی تو یہ ہے کہ ایک دوسرے سے ملاقات ہو اور سلام دعا نہ کریں یہ حرام ہے

(فتح الباری شرح بخاری6/202)

.

امام قاضی عیاض فرماتے ہیں:

وأنها لما بلغها الحديث أو بين لها التأويل تركت رأيها إذ لم يكن بعد ولا أحد من ذريتها فى ذلك طلب بالميراث، وإذ قد ولى على - الأمر فلم يعدل به عما فعل فيه أبو بكر وعمر

 سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے باغ فدک وغیرہ کا مطالبہ کیا تھا مگر جب انہیں حدیث پاک بتائی گئ تو سیدہ نے اپنی رائے اپنے فیصلے مطالبے سے رجوع کر لیا،اسکی دلیل یہ بھی ہے کہ اس کے بعد انکی اولاد نے یا سیدنا علی نے بطور میراث مطالبہ نہیں کیا حالانکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو کچھ بھی کرسکتے تھے مگر پھر بھی باغ فدک وغیرہ میں وہی طریقہ و فیصلہ جاری رکھا جو سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما نے جاری کیا تھا

( اکمال المعلم شرح صحیح مسلم 6/81)

.

امام بدرالدین عینی فرماتے ہیں:

إِنَّمَا كَانَ هجرها انقباضاً عَن لِقَائِه وَترك مواصلته، وَلَيْسَ هَذَا من الهجران الْمحرم، وَأما الْمحرم من ذَلِك أَن يلتقيا فَلَا يسلم أَحدهمَا على صَاحبه وَلم يرو أحد أَنَّهُمَا التقيا وامتنعا من التَّسْلِيم....لما ولي عَليّ، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، لم يُغير هَذِه الصَّدَقَة عَمَّا كَانَت فِي أَيَّام الشَّيْخَيْنِ

پہلی ملاقات کے بعد دوبارہ ملاقات بحث مباحثہ وغیرہ کی نوبت نہ آئی تھی تو ملاقات نہ ہو پائی(اس سے راوی کو وھم ہوا کہ قطع تعلقی ہوئی)حالانکہ یہ قطع تعلقی نہیں، گناہ نہیں، قطع تعلقی و گناہ تو یہ ہے کہ ملاقات ہو اور دعا سلام نہ ہو اور کسی بھی روایت میں نہیں کہ سیدہ فاطمہ و سیدنا ابوبکر صدیق کی ملاقات ہوئی ہو اور سلام دعا نہ ہوئی ہو.....نیز سیدنا علی رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے تو آپ نے فدک وغیرہ میں سیدنا ابوبکر و عمر کے فیصلوں کو نہ بدلہ بلکہ وہی جاری رکھے

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري 21 ,15/20 ملتقطا)

.

*#سیدنا صدیق اکبر کی اہلبیت سے محبت و خدمت کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے......!!*

سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " لَا نُورَثُ ؛ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ". إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ فِي هَذَا الْمَالِ، وَاللَّهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي

 سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم انبیاء کرام کی کوئی مالی وراثت نہیں ہے ہم جو کچھ مال چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے... سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ الِ رسول، اہل بیت رسول کو(اسی طرح)خرچہ ملا کرے گا(جیسے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم خرچہ دیا کرتے تھے)... سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی کہ اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار اور ان کی آل اولاد وغیرہ مجھے میری آل اولاد سے زیادہ محبوب و عزیز ہیں کہ میں آل رسول پر خرچ کیا کرونگا، اچھا سلوک جاری رکھوں گا

(بخاری حدیث4036)

اللہ کی قسم یہ الفاظ یہ انداز کسی ظالم غاصب دشمن کے نہیں ہوسکتے... سیدنا صدیق اکبر تو ال رسول پر جان فدا کرتے رہے، خرچہ دیتے رہے،اچھا سلوک و خدمت کرتے رہے

لیکن

کالے کمینے رافضی لوگوں نے اتنا جھوٹ لکھ دیا پھیلا دیا کہ جیسے صحابہ کرام اہلبیت عظام کے مخالف و دشمن و ظالم تھے...نعوذ باللہ.... فلعنۃ اللہ علی الکاذبین الماکرین

.

إِنَّ اللَّهَ قَدْ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْفَيْءِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ. ثُمَّ قَرَأَ : { وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ }. إِلَى قَوْلِهِ : { قَدِيرٌ }. فَكَانَتْ هَذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ، وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ، قَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيكُمْ، حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ، فَعَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ حَيَاتَهُ. أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ ؟ قَالُوا : نَعَمْ. ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ : أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ ؟ قَالَ عُمَرُ : ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَبَضَهَا أَبُو بَكْرٍ فَعَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ فِيهَا لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ

ترجمہ:

اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس غنیمت کا ایک مخصوص حصہ مقرر کر دیا تھا۔ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی دوسرے کو نہیں دیا تھا(جب نبی کریم نے اپنا حصہ کسی کو زندگی میں نہیں دیا تو ثابت ہوا کہ انبیاء کرام کے مال صدقہ ہوتے ہیں، کسی کی ملکیت نہیں بنتے) پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی «وما أفاء الله على رسوله منهم‏» سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «قدير‏» تک اور وہ حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص رہا۔ مگر قسم اللہ کی یہ جائیداد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو چھوڑ کر اپنے لیے جوڑ نہ رکھی ‘ نہ خاص اپنے خرچ میں لائے ‘ بلکہ تم  لوگوں کو(بغیر مالک بنائے صرف خرچہ اٹھانے کے لیے)دیں اور تمہارے ہی کاموں میں خرچ کیں۔ یہ جو جائیداد بچ رہی ہے اس میں سے آپ اپنی بیویوں کا سال بھر کا خرچ لیا کرتے اس کے بعد جو باقی بچتا وہ اللہ کے مال میں شریک کر دیتے... خیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی زندگی میں ایسا ہی کرتے رہے۔ حاضرین تم کو اللہ کی قسم! کیا تم یہ نہیں جانتے؟ انہوں نے کہا بیشک جانتے ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما سے کہا میں آپ حضرات سے بھی قسم دے کر پوچھتا ہوں ‘ کیا آپ لوگ یہ نہیں جانتے ہیں؟ (دونوں حضرات نے جواب دیا ہاں!) پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یوں فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے اٹھا لیا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں ‘ اور اس لیے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال و جائیداد اپنی نگرانی میں لیے اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کرتے تھے اسی طرح سیدنا صدیق اکبر(اہلبیت وغیرہ پر)خرچ کرتے رہے۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے اس طرز عمل میں سچے مخلص ‘ نیکوکار اور حق کی پیروی کرنے والے تھے...(پھر سیدنا عمر نے بھی رسول کریم اور سیدنا ابوبکر کے طرز پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا جسے سیدنا علی سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے بھی تسلیم کیا)

(صحیح بخاری 3094)

.

*#سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی سیدنا صدیق اکبر کا فیصلہ جاری رکھا اور فدک وغیرہ کو بطور میراث تقسیم نہ کیا......ایک جھلک....!!*

اس پر کچھ حوالے اوپر گذرے، کچھ حاضر خدمت ہیں:

قَالَ : فَهُمَا عَلَى ذَلِكَ إِلَى الْيَوْمِ.

راوی فرماتے ہیں کہ سیدنا ابو بکر صدیق سے لے کر سیدنا علی وغیرہ تک یہ اسی طریقے پر جاری ہے( کہ اموال رسول  کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی ملکیت نہیں ہے وہ صدقہ ہیں وہ اہل بیت و دیگر رشتہ داروں اور دیگر مسلمانوں اور اللہ کی راہ میں خرچ ہوتا رہا سب خلفاء راشدین کے دور میں)

(ابوداؤد روایت2968)

.

ولهذا لَمَّا صارت الخِلافة إلى عليٍّ لم يُغيِّرْها عن كونها صدَقة

 جب سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اسی طریقے کو جاری رکھا جو سیدنا ابوبکر صدیق نے جاری رکھا تھا اور اموالِ رسول کریم کو صدقہ قرار دیا

(اللامع الصبيح بشرح الجامع الصحيح9/156)

(منحة الباري بشرح صحيح البخاري6/209)


.

ومما يدل على ما قلناه: ما قاله أبو داود: أنه لم يختلف على - رضى الله عنه - أنه لما صارت الخلافة إليه لم يغيرها عن كونها صدقة

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال صدقہ ہیں اس بات پر یہ بھی دلیل ہے کہ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ جب سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اسے صدقہ قرار دیا اور جس طرح سیدنا صدیق اکبر نے خرچہ جاری کیا تھا سیدنا علی نے اسی طریقے پر اسی طرز کو جاری رکھا اس سے تبدیل نہ کیا کسی کی ملکیت قرار نہ دیا

(إكمال المعلم بفوائد مسلم6/79)

.

*#رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مالی میراث نہیں، انکا مال صدقہ ہے،شیعہ کتب سے کچھ حوالے جات......!!*

رسول الله صلى الله عليه وآله يقول: " نحن معاشر الأنبياء لا نورث ذهبا ولا فضة ولا دارا ولا عقارا وإنما نورث الكتاب والحكمة والعلم والنبوة وما كان لنا من طعمة فلولي الأمر بعدنا أن يحكم فيه بحكمه

 شیعہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم گروہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے سونے کا نہ چاندی کا نہ ہی گھر کا نہ ہی زمینوں کا... ہم تو کتاب اور حکمت اور علم کا وارث بناتے ہیں... جو کچھ ہمارا مال ہے وہ ہمارے بعد جو خلیفہ آئے گا اس کے سپرد ہے اس کی صوابدید پر موقوف ہے کہ وہ کس طرح خرچ کرتا ہے

(شیعہ کتاب الاحتجاج - الشيخ الطبرسي1/142)

.

، وإن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم

 شیعہ کہتے ہیں کہ بے شک علماء انبیاء کرام کے وارث ہیں اور انبیائے کرام نے کسی کو درہم اور دینار( مالی وراثت )کا وارث نہیں بنایا انکی وراثت تو فقط علم ہے

(شیعہ کتاب الكافي - الشيخ الكليني1/34)


.

أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله يقول: نحن معاشر الأنبياء لا نورث ذهبا ولا فضة ولا دارا ولا عقارا وإنما نورث الكتب (3) والحكمة والعلم والنبوة، وما كان لنا من طعمة فلولي الامر بعدنا ان يحكم فيه بحكمه

شیعہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم گروہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے سونے کا نہ چاندی کا نہ ہی گھر کا نہ ہی زمینوں کا... ہم تو کتاب اور حکمت اور علم کا وارث بناتے ہیں... جو کچھ ہمارا مال ہے وہ ہمارے بعد جو خلیفہ آئے گا اس کے سپرد ہے اس کی صوابدید پر موقوف ہے کہ وہ کس طرح خرچ کرتا ہے

(شیعہ کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي29/231)


.

وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: (إنا معاشر الأنبياء لا نورث ذهبا ولا فضة، ولا دارا ولا عقارا. وإنما نورث الكتاب والحكمة، والعلم والنبوة

شیعہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم گروہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے سونے کا نہ چاندی کا نہ ہی گھر کا نہ ہی زمینوں کا... ہم تو کتاب اللہ اور حکمت اور علم کا وارث بناتے ہیں

قال: فلما وصل الأمر إلى علي بن أبي طالب عليه السلام كلم  في رد فدك، فقال: إني لأستحي من الله أن أرد شيئا منع منه أبو بكر وأمضاه عمر

شیعہ لکھتے ہیں کہ جب سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے باغ فدک کے بارے میں بات کی اور فرمایا کہ مجھے اللہ سے حیا آتی ہے کہ میں ایسا کام کرو کہ سیدنا ابو بکر صدیق نے جس سے منع کیا ہو اور اس کو سیدنا عمر نے جاری کیا ہو

(شیعہ کتاب الشافي في الامامة - الشريف المرتضى4/76)

.

ویسے تو ہم شیعہ کتب کے متعلق کہتے ہیں کہ جھوٹ تضاد گستاخی سے بھری پڑی ہیں مگر کچھ سچ بھی لکھا ہے انہون نے لیھذا کتب شیعہ کی بات قرآن و سنت معتبر کتب اہلسنت کے موافق ہوگی تو وہی معتبر...مذکورہ حوالہ جات موافق قرآن و سنت ہیں، موافق کتب اہلسنت ہین لیھذا معتبر

کیونکہ شیعہ ناصبی جیسے جھوٹے بھی کبھی سچ بول جاتے ہیں ، لکھ جاتے ہیں اگرچہ الٹی سیدھی تاویلیں اپنی طرف سے کرتے ہیں جوکہ معتبر نہیں

قَدْ يَصْدُقُ الْكَذُوبَ

ترجمہ:

بہت بڑا جھوٹا کبھی سچ بول دیتا ہے

(فتح الباری9/56، شیعہ کتاب شرح اصول کافی2/25)

.###############

*#دوسری بحث...ناراضگی کی تحقیق......!!*

شیعہ رافضی کہتے ہیں کہ تمہاری کتابوں میں ہے کہ جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض کیا اور تمہاری کتابوں میں ہے کہ فاطمہ ابوبکر سے ناراض ہو رہ کر وفات پاگئیں

.

*#جواب.و.تحقیق.....!!*

فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي... نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے فاطمہ کو( جان بوجھ کر یا ناحق) ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا...(بخاری حدیث 3767)

.

دیگر احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث پاک کے دو معنی بنتے ہیں

*#پہلا معنی......!!*

جان بوجھ کر ناراض کرے ناحق ناراض کرے.....جبکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جان بوجھ کر یا ناحق ناراض نہ کیا تھا

.

یہ معنی کرنے کی دلیل یہ ہے کہ  دوسروں کے متعلق بھی سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کچھ ارشاد فرمایا ہے

فَمَنْ أَحَبَّ الْعَرَبَ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَ الْعَرَبَ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ

جو عربوں سے محبت کرے تو یہ مجھ سے محبت ہے اور جس نے اہل عرب کو ناراض گیا اس نے مجھے ناراض کیا

(شعب الایمان حدیث1330)سارے عرب تو مسلمان نہیں ہوئے تو  جو کفار عرب میں سے دشمنان اسلام تھے اس سے دشمنی کرنا سے ان کو غضبناک کرنا اللہ و رسول کو ناراض کرنا تو نہیں...اسی طرح اہل عرب میں سے جو مسلمان ہیں اگر وہ ہم سے ایسی بات و حکم و فیصلے چاہیں جو قرآن و احادیث پاک کے خلاف ہوں تو انکی پیروی نہیں کرنی... چاہے وہ ناراض ہی کیوں نہ ہوجائیں....لیھذا کہنا پڑے گا کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان عرب کو ناحق یا جان بوجھ کر غضبناک کرنا ناراض کرنا رسول کریم کو ناراض کرنا ہے

جبکہ

سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو جان بوجھ کر یا ناحق ناراض نہیں کیا تھا سیدنا سدیق اکبر نے تو لیھذا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ پر کوئی اعتراض نہیں بنتا....!!

.

مَنْ أَحَبّ قُرَيْشًا فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَبْغَضَ قُرَيْشًا فَقَدْ أَبْغَضَنِي

جس نے قریش سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی، جس نے قریش کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا

(طبرانی کبیر حدیث201) سارے قریش تو مسلمان نہیں ہوئے تو  جو کفار قریش میں سے دشمنان اسلام تھے اس سے دشمنی کرنا سے ان کو غضبناک کرنا اللہ و رسول کو ناراض کرنا تو نہیں...اسی طرح قریش میں سے جو مسلمان ہیں اگر وہ ہم سے ایسی بات و حکم و فیصلے چاہیں جو قرآن و احادیث پاک کے خلاف ہوں تو انکی پیروی نہیں کرنی...چاہے وہ ناراض ہی کیوں نہ ہوجائیں....لیھذا کہنا پڑے گا کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان قریش کو ناحق یا جان بوجھ کر غضبناک کرنا ناراض کرنا رسول کریم کو ناراض کرنا ہے

جبکہ

سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو جان بوجھ کر یا ناحق ناراض نہیں کیا تھا سیدنا سدیق اکبر نے تو لیھذا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ پر کوئی اعتراض نہیں بنتا....!!

.

رِضَا الرَّبِّ فِي رِضَا الْوَالِدِ، وَسَخَطُ الرَّبِّ فِي سَخَطِ الْوَالِدِ 

والد کی رضامندی میں اللہ کی رضامندی ہے اور والد کی نافرمانی و ناراضگی میں اللہ کی نافرمانی ناراضگی ہے

(ترمذی حدیث1899)

اب اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم حق کریں کہیں لیکن والدین ناراض ہوں تو اللہ بھی ناراض ہوگا.....؟؟ ہرگز نہیں، کہنا پڑے گا کہ جو جان بوجھ کر یا ناحق والدین کو ناراض کریگا تو اس سے اللہ کی ناراضگی ہے

اور

سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو جان بوجھ کر یا ناحق ناراض نہیں کیا تھا سیدنا سدیق اکبر نے تو لیھذا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ پر کوئی اعتراض نہیں بنتا....!!

.

ان احادیث مبارکہ کی طرح سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے متعلق حدیث پاک کا بھی یہ مطلب بنے گا کہ جو سیدہ فاطمہ کو جان بوجھ کر یا ناحق ناراض کرے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض کرنے والا کہلائے گا...

.

رسول کریمﷺنےفرمایا جس نےفاطمہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی(ترمذی حدیث3869)رسول کریمﷺنےفرمایا جس نےمیرےصحابہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی(ترمذی حدیث3862)دونوں قسم کی حدیثیں عام کریں پھیلائیں تاکہ ناصبیت اور رافضیت دونوں کا رد ہو

.

 سیدہ فاطمہ کو  ناراض کرنے والی حدیث لکھنے کے بعد امام ملا علی قاری نے اوپر دی گئی کچھ احادیث بھی ذکر فرمائی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ عظیم فضیلت ہے لیکن اس سے ملتی جلتی فضیلت دوسروں کو بھی حاصل ہے

(دیکھیے مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح9/3965)

.

ولا يقدح فيه غضبها، فإن الوعيد في إغضابها، والضابط في الإغضاب أن يقول الإنسان قولا أو فعلا يقصد بذلك أذى شخص فيغضب به. ولم يقصد أبو بكر أذاها، حاشاه ثم حاشاه

عن ذلك

 سیدہ فاطمہ کے متعلق جو ہے کہ جو ان کو غضبناک کرے گا ناراض کرے گا وہ رسول کریم کو ناراض کرے گا تو سیدنا صدیق اکبر نے انہیں ناراض نہیں کیا تھا کیونکہ ناراض تو اس طرح کرنا ہوتا ہے کہ ناراض کرنا مقصود ہو اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہو سکتا

(السيوف المشرقة ومختصر الصواقع المحرقة ص532)

.

نوٹ:

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی شان میں ناراضگی والی حدیث ہے تو یہ بھی معلومات میں رہے کہ صحابہ کرام کے متعلق بھی سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کچھ فرمایا ہے...مثلا

اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ

 اللہ اللہ میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو ان کو میرے بعد انکو طعن و مذمت کا نشانہ نہ بناؤ، جو ان سے محبت کرے گا تو یہ مجھ سے محبت ہے اور میں بھی اس سے محبت رکھوں گا اور جو ان سے بغض رکھے گا انہیں ناراض کرے گا تو انہوں نے بیشک مجھے ناراض کیا جو انہیں اذیت پہنچائے گا بے شک اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ کو اذیت دی

(ترمذی حدیث3862)

.

الْأَنْصَارُ لَا يُحِبُّهُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضُهُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ اللَّهُ

 انصار صحابہ کرام سے محبت ایمان والا ہی کرے گا اور انہیں ناراض اور ان سے بغض نہ کرے گا مگر یہ کہ منافق....جو ان سے محبت کرے گا تو اس سے اللہ محبت فرمائے گا... جس نے ان سے بغض رکھا ان کو ناراض کیا اس نے اللہ کو ناراض کیا

(بخاری حدیث3783)

.

*#دوسرا معنی*

 رسول کریم نے جو فرمایا ہے کہ سیدہ فاطمہ کو جو ناراض کرے گا اس نے مجھے ناراض کیا اس کا ایک معنی یہ ہے کہ جو مباح کام کرکے سیدہ کو ناراض کریے گا ناحق ناراض کرے گا یا جان بوجھ کے ناراض کرے گا تو وہ مجھے ناراض کرے گا.... مباح کام کیا جائے اس سے کوئی شخص ناراض ہو جائے تو مباح کام کرنے والے پر کوئی وبال نہیں ہوتا لیکن یہ سیدہ فاطمہ کی خاصیت ہے کہ رسول کریم نے انہیں خصوصیت عطا فرمائی کہ سیدہ فاطمہ کو مباح کام کرکے بھی ناراض نہیں کیا جا سکتا

، وإن توليد الإيذاء مما كان أصله مباحاً وهو من خواصه صلى الله عليه وسلم

 جو سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو مباح کام کرکے ناراض کرے گا تو یہ رسول کریم کو ناراض کرنا ہے اور یہ انکی خصوصیات میں سے ہے

(شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن12/3903)

(لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح9/699نحوہ)

 اس معنی کے تحت بھی سیدہ فاطمہ کو سیدنا ابوبکر صدیق نے اذیت نہیں پہنچائی غضبناک نہیں کیا کیونکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرض واجب کی تکمیل کی کہ وراثت نبوی کو بحکم نبوی صدقہ کرنا فرض تھا،کسی کی ملکیت میں نہ دینا فرض تھا جو آپ نے پورا کیا

.

ولو أجابها إلى سؤالها كان معصية من وجهين:الأول: مخالفة أمر رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وإبطال صدقته.الثاني: أنه كان ما يعطي لفاطمة مالًا حرامًا بلا خلاف

سیدہ فاطمہ کے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے سیدنا ابوبکر صدیق اگر فدک وغیرہ سیدہ کی ملکیت کر دیتے تو گناہ گار ہوتے کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و حدیث کو باطل قرار دینا کہلاتا اور اگر ملکیت میں دے دیتے تو انکے لیے بطور ملکیت مالِ حرام ملکیت میں دینا قرار پاتا کہ سیدعالم کی تو میراث نہیں تھی تو یہ مال بطور میراث مالک بنانا حرام تھا

(الکوثر الجاری شرح بخاری6/88)

البتہ جس طرح سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم اہل بیت پر خرچ فرماتے رشتہ داروں پر خرچ فرماتے مسلمانوں پر خرچ فرماتے اسی طرح سیدنا ابوبکر صدیق بھی اہل بیت نبوی پر نبی پاک کے رشتے داروں پر اور مسلمانوں پر خرچ فرماتے تھے...اسی طرح کا عمل سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا علی وغیرہ خلفاء راشدین نے کیا جیسے کہ کچھ حوالہ جات اوپر لکھ آیا اور فدک پر مکمل مضمون بھی لکھا ہے جسے آپ میرے بلاگ پے پڑھ سکتے ہیں

.

شیعہ کتب میں بھی لکھا ہے کہ گناہ معصیت کا معاملہ ہو تو اس میں کسی کی پیروی نہیں کرنی

وفي العلل عنه (عليه السلام) لا طاعة لمن عصىگ

علل میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گناہ و معصیت میں کسی کی بات نہیں ماننی

(شیعہ کتاب التفسير الصافي 1/464)

.

لیھذا گناہ و معصیت کے معاملے میں اہل عرب یا قریش یا کسی قوم کسی لیڈر حتی کہ سادات کرام و والدین کی بھی بات نہیں ماننی....اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرنی ہے

سیدہ فاطمہ نے جان بوجھ کر معصیت و گناہ کا حکم نہیں دیا تھا کیونکہ لگتا ہے انکو حدیث پاک معلوم نہ تھی اس لیے سیدہ فاطمہ سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ہونے کی دعوےدار تھیں لیکن حدیث پاک میں ہے کہ انبیاء کرام کی میراث نہیں تو اس حدیث پاک کی روشنی میں سیدہ پاک کا مطالبہ درست نہ تھا،سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے معصیت و گناہ ہوتا اگر آپ فدک وغیرہ کا مالک سیدہ کو بنا دیتے....جبکہ سیدعالم کا ہی حکم ہے کہ معصیت و گناہ کرکے کسی کو راضی مت کرو، اس لیے سیدنا ابوبکر صدیق نے گناہ سے بھی خود کو بچایا اور سیدہ سے باادب عرض کرکے جان بوجھ کر یا ناحق ناراض نہ کیا حتی کہ انتہاء درجے کی محبت کا اظہار کیا اور خرچہ بھی دیتے رہے اور جب گمان ہوا کہ شاید سیدہ ناراض ہیں تو ان کے گھر جاکر انکو خوش کیا 

.

*#سیدنا علی نے سیدہ فاطمہ کو ناراض کیا،کیا کہو گے...؟؟*

جَاءَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ بَيْتَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ فَلَمْ يَجِدْ عَلِيّاً فِي اَلْبَيْتِ فَقَالَ اِبْنُ عَمِّكَ فَقَالَتْ كَانَ بَيْنِي وَ بَيْنَهُ شَيْءٌ فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمہ کے گھر تشریف لائے تو سیدنا علی کو گھر میں نہ پایا تو فرمایا کہاں ہیں؟ تو سیدہ فاطمہ نے فرمایا کہ ہم دونوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا اور ہم دونوں ایک دوسرے پر ناراض ہو گئے اس لیے وہ گھر سے چلے گئے ہیں(پھر سیدعالم نےانکی صلح کرائی)

(شیعہ کتاب کشف الغمۃ1/66)

(شیعہ کتاب بحار الأنوار35/65نحوہ)

یہی کہنا پڑے گا کہ سیدنا علی نے جان بوجھ کر یا ناحق ناراض نہ کیا تھا....اسی طرح سیدنا ابوبکر صدیق نے بھی جان بوجھ کر ناحق ناراض نہ کیا سیدہ فاطمہ کو.......رضی اللہ عنھم اجمعین 

.

*سیدہ فاطمہ کی سیدنا ابوبکر صدیق سے رضامندگی کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ.....!!*

سیدنا ابوبکر کی زوجہ سیدہ فاطمہ کی بیماری میں ان کی دیکھ بھال کرتی رہیں، سیدہ فاطمہ نے انہیں وصیت کی تھی کہ وہ انہیں غسل دیں، یہ بات شیعہ کتب سے بھی ثابت ہے

سیدہ فاطمہ کی وصیت:میری میت کو غسل ابوبکر کی زوجہ اور علی دیں(شیعہ کتاب مناقب شہرآشوب3/138)سیدہ فاطمہ کے نزدیک سیدنا ابوبکر ظالم غاصب دشمن ہوتے تو بھلا دشمن ظالم کی بیوی سے کوئی اتنا گہرا تعلق و محبت کوءی رکھے گا....؟؟ہرگز نہیں...اسکا مطلب سیدہ فاطمہ سیدنا ابوبکر صدیق سے راضی تھیں یا تھوڑا اگر خفا بھی تھیں تو راضی ہوگئ تھیں

.

وقالت أسماء بنت عميس: أوصت إلي فاطمة ألا يغسلها إذا ماتت إلا انا وعلي..سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نےحضرت سیدنا ابوبکر کی زوجہ سیدہ بی بی اسماء کو وصیت کی تھی کہ جب میری وفات ہو تو وہ اور حضرت علی غسل دیں اور کوئ بھی نا ہو..(مصنف عبدالرزاق3/409 سنن دارقطنی2/447نحوہ، التلخیص الحبیر ابن حجر 3/1268نحوہ ..شیعہ کتاب مناقب شہرآشوب3/138) سیدہ فاطمہ کے نزدیک سیدنا ابوبکر ظالم غاصب دشمن ہوتے تو بھلا دشمن ظالم کی بیوی سے کوئی اتنا گہرا تعلق و محبت کوءی رکھے گا....؟؟ہرگز نہیں...اسکا مطلب سیدہ فاطمہ سیدنا ابوبکر صدیق سے راضی تھیں یا تھوڑا اگر خفا بھی تھیں تو راضی ہوگئ تھیں

.#################

*#دوسری بحث.....سیدہ فاطمہ کا جنازہ ایک مضبوط قول کے مطابق سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پڑھایا......!!*

بخاری حدیث نمبر 4240 اور مسلم حدیث نمبر1759 کے تحت امام زہری کا قول ہے ناکہ حدیث کہ سیدہ فاطمہ کی وفات کی خبر ابوبکر کو نہ دی گئ اور راتوں رات دفن کیا گیا حضرت علی نے جنازہ پڑھایا

یہ امام زہری کا تفرد  اضافہ و ادراج ہے امام زہری کے علاوہ گیارہ راویوں نے یہی حدیث بیان کی مگر زہری والا اضافہ نہ کیا لیھذا زہری کا اضافہ بلاسند و بلادلیل ہے جوکہ مدرج و مرجوح ہے راجح اور صحیح یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق نے جنازہ پڑھایا...علماء کا اتفاق ہے کہ بخاری مسلم میں موجود اقوال ، تفردات  تعلیقات ادجات صحیح ہوں یہ لازم نہیں..(دیکھیے نعمۃ الباری شرح بخاری7/615وغیرہ)

.

امام ابن رجب فرماتے ہیں:

فإن الزهريَ كان كثيراً ما يروي الحديث، ثم يدرجُ فيه أشياءَ، بعضها مراسيلُ، وبعضها من رأيه وكلامه

 امام زہری بہت دفعہ ایسا کیا کرتے تھے کہ حدیث کو روایت کرتے تھے اور اس میں کچھ چیزیں ادراج کر لیا کرتے تھے بعض مراسیل ہوتی تھی بعض ان کی رائے ہوتی تھی بعض ان کا اپنا کلام ہوتا تھا

(فتح الباری لابن رجب8/12)

.

أن هذا الكلام كله للزهري

(سیدہ فاطمہ ناراض رہیں،انکی وفات کی خبر سیدنا ابوبکر صدیق کو نہ دی گئ اور چھپکے سے راتوں رات دفنایا گیا)یہ سب گفتگو زہری کی ہے،ادراج ہے

(الکوکب الوہاج 19/117)

.

وَأَشَارَ الْبَيْهَقِيُّ إِلَى أَنَّ فِي قَوْلِهِ وَعَاشَتْ إِلَخْ إِدْرَاجًا

امام بیھقی نے اشارہ فرمایا کہ(سیدہ فاطمہ ناراض رہیں،انکی وفات کی خبر سیدنا ابوبکر صدیق کو نہ دی گئ اور چھپکے سے راتوں رات دفنایا گیا)یہ سب گفتگو زہری کی ہے،ادراج ہے

(فتح الباری شرح بخاری7/494)

.

وإذا تبيّن الإدراج فإنه لا يكون حجة

جب یہ ثابت ہو کہ ادارج ہے تو ادراج والی گفتگو بذات خود کوئی دلیل و ثابت شدہ بات نہیں کہلائے گی(ہاں دیگر دلائل سے وہ ادراج والی بات ثابت ہو تو یہ الگ معاملہ ہے)

(الکواکب الدریہ  ص117)

.

امام زہری نے بلادلیل فرمایا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا جنازہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھایا جبکہ دیگر اقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے جنازہ پڑھایا

.

*#حوالہ نمبر 1…2 …3*

سیدنا امام مالک، سیدنا امام جعفر سیدنا امام زین العابدین جیسے عظیم الشان آئمہ سے روایت ہے کہ

عن مالك عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جده علي بن الحسين

ماتت فاطمة بين المغرب والعشاء فحضرها أبو بكر وعمر وعثمان والزبير وعبد الرحمن بن عوف فلما وضعت ليصلى عليها قال على تقدم يا أبا بكر قال وأنت شاهد يا أبا الحسن قال نعم تقدم فو الله لا يصلى عليها غيرك فصلى عليها أبو بكر رضى الله عنهم أجمعين ودفنت ليلا

ترجمہ:

سیدہ فاطمہ کی وفات مغرب و عشاء کے درمیان ہوئی تو فورا سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا زبیر سیدنا عبدالرحمن(وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین) پہنچ گئے، سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھیے جنازہ کی امامت کیجیے، حضرت ابوبکر نے فرمایا آپ کے ہوتے آگے بڑھوں؟ حضرت علی نے فرمایا جی بالکل اللہ کی قسم آپ کے علاوہ کوئی جنازہ کی امامت نہیں کرا سکتا تو سیدنا ابوبکر نے سیدہ فاطمہ کے جنازے کی امامت کرائی اور رات کو ہی دفنایا گیا

(تاریخ الخمیس1/278 الریاض النضرۃ1/176

سمط النجوم1/536)

.

.

*#حوالہ نمبر4،5*

ثنا محمد بن هارون بن حسان البرقي بمصر ثنا محمد بن الوليد بن أبان ثنا محمد بن عبد الله القدامي كذا قال وإنما هو عبد الله بن محمد القدامي قال مالك بن أنس أخبرنا عن جعفر بن  محمد عن أبيه عن جده قال توفيت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلا فجاء أبو بكر وعمر وعثمان وطلحة والزبير وسعيد وجماعة كثير سماهم مالك فقال أبو بكر لعلي تقدم فصل عليها قال لا والله لا تقدمت وأنت خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فتقدم أبو بكر فصلى عليها فكبر  عليها أربعا ودفنها ليلا..

سیدہ فاطمہ رات کےوقت وفات پاگئیں تو فورا سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا طلحۃ سیدنا زبیر سیدنا سعید اور دیگر کئ صحابہ کرام علیھم الرضوان جن کےنام امام مالک نے گنوائے سب آئے،حضرت ابوبکر نے سیدنا علی سے کہا آگے بڑھیے جنازہ پڑھیے،سیدنا علی نے جواب دیا اللہ کی قسم آپ خلیفہ رسول کے ہوتے ہوئے میں آگے نہیں بڑھ سکتا پس ابوبکر آگے بڑھے اور جنازہ پڑھایا چار تکبیریں کہیں اور اسی رات دفنایا گیا

 (الكامل في ضعفاء الرجال5/422,423، ذخیرۃ الحفاظ روایت نمبر2492)

.

*#حوالہ نمبر6*

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا فُرَاتُ بْنُ السَّائِبِ حَدَّثَنَا مَيْمُونُ بْنُ مِهْرَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ قَالَ … كَبَّرَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى فَاطِمَةَ أَرْبَعًا …

سیدنا صدیق اکبر نے سیدہ فاطمہ کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں

(بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث1/381)

.

.

*#حوالہ نمبر7*

حدثنا عبدالله بن محمد بن جعفر ثنا محمد بن عبدالله رشتة ثنا شيبان ابن فروخ ثنا محمد بن زياد عن ميمون بن مهران عن ابن عباس … كبر أبو بكر على فاطمہ اربعا

سیدنا صدیق اکبر نے سیدہ فاطمہ کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں

(حلیۃ الاولیاء4/96,)

.

.

*#حوالہ نمبر8*

 عن جعفر بن محمد عن أبيه عن  جده قال توفيت فاطمة ليلا فجاء أبو بكر وعمر وجماعة كثيرة فقال أبو بكر لعلي تقدم فصل قال والله لا تقدمت وأنت خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم فتقدم أبو بكر وكبر أربعا

سیدہ فاطمہ رات کےوقت وفات پاگئیں تو فورا سیدنا ابوبکر سیدنا عمر اور دیگر کئ صحابہ کرام آئے،حضرت ابوبکر نے علی سے کہا آگے بڑھیے جنازہ پڑھیے،سیدنا علی نے جواب دیا اللہ کی قسم آپ خلیفہ رسول کے ہوتے ہوئے میں آگے نہیں بڑھ سکتا پس ابوبکر آگے بڑھے اور جنازہ پڑھایا چار تکبیریں کہیں

 (ميزان الاعتدال2/488)

.

.

*#حوالہ نمبر9*

أخبرنا محمد بن عمر حدثنا قيس بن الربيع عن مجالد عن الشعبي قال صلى عليها أبو بكر رضي الله عنه

سیدنا صدیق اکبر نے سیدہ فاطمہ کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں

(الطبقات الكبرى8/24)

 ، 

.

.

*#حوالہ نمبر10*

أَخْبَرَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ أَبِي الْمُسَاوِرِ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: صَلَّى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم فَكَبَّرَ عَلَيْهَا أَرْبَعًا.

سیدنا صدیق اکبر نے بنت رسول سیدہ فاطمہ کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں

(الطبقات الكبرى8/24)


.

*#حوالہ نمبر11ta14*

وكبر أبو بكر على فاطمة أربعا

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں

البدایہ و النہایۃ1/98

اتحاف الخیرۃ2/460

حلیۃ الاولیاء4/96

کنزالعمال15/718


.

.

*#حوالہ نمبر15*

امام شعبی فرماتے ہیں

فأخبرنا أبو عبد الله الحافظ، ثنا أبو بكر أحمد بن كامل بن خلف بن شجرة القاضي، ثنا محمد بن عثمان بن أبي شيبة، ثنا عون بن سلام، ثنا سوار بن مصعب، عن مجالد، عن الشعبي

 أن فاطمة، رضي الله عنها لما ماتت دفنها علي رضي الله عنه ليلا، وأخذ بضبعي أبي بكر الصديق رضي الله عنه فقدمه يعني في الصلاة عليها

بےشک سیدہ فاطمہ کی جب وفات ہوئی تو حضرت علی نے حضرت ابوبکر کے کندھوں سے پکڑ کر جنازہ پڑھانے کے لیے آگے کیا اور رات ہی میں سیدہ فاطمہ کو دفنایا

(سنن کبری بیھقی روایت نمبر6896)

.

انفرادی طور پر مذکورہ روایات و حدیث کو ضعیف مان بھی لیا جائے تو بھی تعدد طرق کی وجہ سے حسن و معتبر کہلائے گی کیونکہ سنی شیعہ نجدی سب کا متفقہ اصول ہے کہ تعدد طرق سے ضعیف روایت حسن و معتبر بن جاتی ہے

وقد يكثر الطرق الضعيفة فيقوى المتن

تعدد طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے اور(حدیث و روایت کا) متن قوی(معتبر مقبول صحیح و حسن)ہوجاتا ہے

(شیعہ کتاب نفحات الازھار13/55)

أن تعدد الطرق، ولو ضعفت، ترقي الحديث إلى الحسن

بےشک تعدد طرق سے ضعیف روایت و حدیث حسن و معتبر بن جاتی ہے(اللؤلؤ المرصوع ص42)

لِأَنَّ كَثْرَةَ الطُّرُقِ تُقَوِّي

کثرت طرق(تعدد طرق)سے روایت و حدیث کو تقویت ملتی ہے(اور ضعف ختم ہوجاتا ہے)

(تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ,1/179)

.################

*#تیسری بحث....کیا سیدہ فاطمہ کو سیدنا عمر نے مکا مارا....کیا گھر جلایا.....؟؟*

پہلا اور دوسرا حوالہ:

شیعہ(الشيخ محمد فاضل المسعودي اور ابن شہرآشوب اور محشی جواہر المطالب وغیرہ رافضی نیم رافضی)بڑے فخر سے پیش کرتے ہیں کہ سیر اعلام اور میزان االاعتدال وغیرہ کتب اہلسنت میں لکھا ہے کہ عمر نے سیدہ فاطمہ کو مکا مارا اور پیٹ میں بچہ محسن شہید کردیا

انَّ عُمر رفَسَ فَاطِمَة حَتَّى أَسقطتْ محسّناً

بے شک عمر نے فاطمہ کو مکا مارا یہاں تک کہ فاطمہ کا بچہ محسن پیٹ میں شہید ہوگیا 

(سیر اعلام النبلاء،میزان الاعتدال)

.

*#جواب.و.تحقیق...!!*

ایک راوی أحمد بن محمد بن السري بن يحيى بن أبي دارم المحدث کے ترجمہ و حالات میں یہ بات بیان کی ہے کہ یہ محدث غیر معتبر اور غیر ثقہ جھوٹا رافضی کذاب ہے اس کے جھوٹ اور خرابیوں میں سے یہ ہے کہ اس کے پاس کہا جاتا تھا کہ حضرت عمر نے مکا مارا اور بی بی فاطمہ کا پیٹ میں بچہ شہید ہو گیا۔۔۔یہ اس بات پر خاموش رہتا تھا گویا کہ یہ اقرار کر رہا ہوں کہ یہ بات ٹھیک ہے۔۔لہذا یہ اس کے عیوب و جھوٹ خرابیوں میں سے ہے, یہ اس کی غیر مستند باتوں میں سے ہے۔۔۔سیر اعلام النبلاء اور میزان الاعتدال میں اس کی بات کو مستند بات کہہ کر لکھا نہیں ہے بلکہ جھوٹ و بہتان عیوب و تہمت والی غیر مستند غیر معتبر  باتوں میں سے لکھا ہے

۔

شیعوں رافضیوں نیم رافضیوں نے حسبِ عادت بڑی چالاکی اور مکاری دھوکہ دہی سے کام لیتے ہوئے ان دونوں کتابوں کی آدھی عبارت پیش کی اور آدھی کو چھوڑ دیا۔۔۔ہم آپ کے سامنے پوری عبارت پیش کر رہے ہیں ملاحظہ فرمائیے 

.قَالَ الحَاكِمُ: هُوَ رَافضي، غَيْرُ ثِقَةٍ .

وَقَالَ مُحَمَّدُ بنُ حَمَّاد الحَافِظ: كَانَ مُسْتَقِيْمَ  الأَمْر عَامَّة دَهْره، ثُمَّ فِي آخر أَيَّامه كَانَ أَكْثَرَ مَا يُقرأُ عَلَيْهِ المَثَالب، حَضَرْتُه وَرَجُل يَقْرأُ عَلَيْهِ أَنَّ عُمر رفَسَ فَاطِمَة حَتَّى أَسقطتْ

محسّناً

أحمد بن محمد بن السري بن يحيى بن أبي دارم المحدث کے متعلق امام حاکم نے فرمایا ہے کہ یہ رافضی ہے یہ غیر ثقہ ہےمُحَمَّدُ بنُ حَمَّاد الحَافِظ نے فرمایا کہ یہ راوی شروع میں ٹھیک تھا پھر آخری ایام میں اس کے پاس زیادہ تر عیوب و خرابیوں والی باتیں جھوٹ بہتان  تہمت والی باتیں پڑھی جاتی تھی۔۔۔(انہیں خرابیوں اور بہتان اور جھوٹ والی باتوں میں سے ہے کہ) ایک دن میں اس کے پاس آیا اور اس کے پاس ایک شخص پڑھ رہا تھا کہ حضرت عمر نے فاطمہ کو مکا مارا یہاں تک کے سیدہ فاطمہ کے پیٹ میں بچہ محسن شہید ہوگیا 

(سیر اعلام النبلاء15/578)

.

أحمد بن محمد بن السري بن يحيى بن أبي دارم المحدث.

الكوفي الرافضي الكذاب.الحاكم، وقال: رافضي، غير ثقة.

وقال محمد بن أحمد بن حماد الكوفي الحافظ - بعد أن أرخ موته: كان مستقيم  الأمر عامة دهره، ثم في آخر أيامه كان أكثر ما يقرأ عليه المثالب، حضرته ورجل يقرأ عليه: إن عمر رفس فاطمة حتى أسقطت

بمحسن.

أحمد بن محمد بن السري کوفی ہے رافضی ہے کذاب بہت بڑا جھوٹا ہے امام حاکم فرماتے ہیں کہ یہ رافضی ہے غیر ثقہ ہے

 مُحَمَّدُ بنُ حَمَّاد الحَافِظ نے فرمایا کہ یہ راوی شروع میں ٹھیک تھا پھر آخری ایام میں اس کے پاس زیادہ تر عیوب و خرابیوں والی باتیں جھوٹ بہتان  تہمت والی باتیں پڑھی جاتی تھی۔۔۔(انہیں خرابیوں اور بہتان اور جھوٹ والی باتوں میں سے ہے کہ) ایک دن میں اس کے پاس آیا اور اس کے پاس ایک شخص پڑھ رہا تھا کہ حضرت عمر نے فاطمہ کو مکا مارا یہاں تک کے سیدہ فاطمہ کے پیٹ میں بچہ محسن شہید ہوگیا

(میزان الاعتدال1/139ملتقطا)

.

*#تیسرا حوالہ*

درج ذیل فوٹو میں شیعہ کذاب مکار نام نہاد علامہ جعلی محقق شہنشاہ نقوی کتاب لہرا لہرا کر کہہ رہا ہے کہ اہلسنت کی کتاب الملل و النحل میں لکھا ہے کہ حضرت عمر نے بی بی فاطمہ کے پیٹ پے مارا اور(پیٹ میں موجود بچہ) محسن شہید کر دیا...شیعہ اسے بڑے فخر سے خوب پھیلا رہے ہیں

.

*#جواب و تحقیق*

دوستو بھائیو ایک اصول یاد رکھیں بہت کام آئے گا، اصول یہ ہے کہ شیعہ جھوٹ بولتے ہیں اور نام اہلسنت کتاب کا ڈال دیتے ہیں جلد نمبر صفحہ نمبر حتی کہ لائن نمبر بتاتے ہیں تاکہ رعب بیٹھے اور سننے پڑھنے والا سچ سمجھ لیے.... یہ ان کی مکاری دھوکہ بازی جھوٹ و افتراء ہے

لیھذا

شیعہ کی باحوالہ بات کو بھی فورا سچ مت سمجھیے بلکہ معتبر پرمغز اہلسنت عالم سے تصدیق و تردید تحقیق کرائیے

.

الملل و النحل کی پوری بات پڑھیے لکھا ہےکہ

وزاد في الفرية فقال: إن عمر ضرب بطن فاطمة يوم البيعة حتى ألقت الجنين من بطنها

ترجمہ:

(فرقہ نظامیہ کا بانی إبراهيم بن يسار بن هانئ النظام نے)مزید جھوٹ و بہتان باندھتے ہوئے کہا کہ عمر نے فاطمہ کے پیٹ پے مارا اور اپ کے پیٹ میں بچہ گر گیا

(الملل و النحل1/57)

.

ذرا سی بھی عقل والا سمجھ سکتا ہے کہ ملل نحل میں تو اس کو جھوٹ بہتان و افتراء کہا ہے اور شیعہ آدھی بات پیش کرکے مکاری و دھوکہ بازی دیتے ہوئے مفھوم بدل کر پیش کر رہے ہیں....فلعنۃ اللہ علی الکاذبین الماکرین

.

لیھذا ثابت ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کو شہید نہ کیا نہ ہی گھر جلایا...اب رہ گئ یہ بات کہ سیدہ فاطمہ کی وفات کیسے ہوئی تو جواب ہے کہ انکی وفات طبعی مرض میں ہوئی

حوالہ:

بی بی ام سلمٰی رضی اللہ.تعالی عنھا فرماتی ہیں کہ بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے جس مرض میں وفات پائی تھی اس مرض کے دوران وہ انکی تیمار داری دیکھ بھال کرتی تھیں، حضرت علی کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے،

بی بی فاطمہ نے مجھے کہا کہ غسل کا پانی رکھو پھر اپ نے بہترین غسل کیا اور بہترین نئے کپڑے پہنے اور مجھ سے کہا کہ میرا بستر گھر کے بیچ مین رکھو، مین نے حکم کی تعمیل کی، پھر آپ قبلہ.کی طرف رخ کرکے اور ایک ہاتھ رخسار کے نیچے دے کر(سنت کے مطابق) بستر پر لیٹ گئیں

اور

فرمایا

اب میری وفات ہوگی.. اور اسی حالت مین اسی جگہ آپ کی روح پرواز کرگئ.. اناللہ وانا الیہ راجعون

(مسند احمد6/461,نحوہ شیعہ کتاب مناقب شہراشوب3/138,بحار الانوار78/335ملخصا)

.

نوٹ:

یہ غسل وفات کے بعد والے غسل کے لیے نہین تھا بلکہ وفات کی تیاری اور استقبال کے لیے تھا...اللہ کے حکم(موت) کو خوشی سے قبول کرنے کے لیے تھا..

کیونکہ

"آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نےحضرت سیدنا ابوبکر کی زوجہ سیدہ بی بی اسماء کو وصیت کی تھی کہ جب میری وفات ہو تو وہ اور حضرت علی غسل دیں اور کوئ بھی نا ہو..

(وفاء الوفاء3/904.. سبل الھدیٰ11/494

شیعہ کتاب مناقب شہرآشوب3/138)

.

اشتكت فاطمة شكواها التي قبضت فيها

سیدہ فاطمہ کی وفات بیماری کی وجہ سےہوئی

(شیعہ کتاب مناقب شہراشوب3/138,بحار الانوار78/335)

جو کہتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ کو شہید کیا گیا،ظلم کیاگیا،عمر نے مکا مارا…سب جھوٹ ہے

اشتكت فاطمة شكواها التي قبضت فيها سیدہ فاطمہ کی وفات بیماری کی وجہ سےہوئی (شیعہ کتاب مناقب شہراشوب3/138,بحار الانوار78/335)جو کہتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ کو شہید کیا گیا،ظلم کیاگیا،سیدنا عمر نے مکا مارا دروازہ گرایا،الگ لگائی یہ سب جھوٹ ہے

.

سیدہ فاطمہ کی وفات3رمضان میں ہوئی(مستدرک حاکم3/176تاریخ طبری11/598)انکو اور دیگر کو ایصال ثواب کیجیےرسول کریمﷺصحابہ کرام اہلبیت عظام علماء اولیاء اسلاف کی سیرت کا مطالعہ معتبر کتب سےکیجیے،سچی محبت و پیروی کیجیے.......!!

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574 

آپ میرا نام و نمبر مٹا کر بلانام یا ناشر یا پیشکش لکھ کر اپنا نام ڈال کے آگے فاروڈ کرسکتے ہیں،کاپی پیسٹ کرسکتے ہیں،شئیر کرسکتے ہیں...نمبر اس لیے لکھتاہوں تاکہ تحقیق رد یا اعتراض کرنے والے یا مزید سمجھنے والےآپ سے الجھنے کےبجائے ڈائریکٹ مجھ سے کال یا وتس اپ پے رابطہ کرسکیں

.

بہتر تو یہ ہے کہ آپ تحریرات اپنے فیس بک اور وتس اپ گروپ پے کاپی پیسٹ کیا کریں،شیئر کریں

اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنی تحریرات اپ کے وتس اپ گروپ یا فیس گروپ پےبھیجا کروں تو آپ مجھے ایڈ کردیں

.

بعض گروپس کےرولز ہوتے ہیں کہ جس تحریر پے نمبر رکھتا ہوتا ہے اسے اپروو نہیں کرتے فارورڈ نہیں کرتے....ان سے گذارش ہے کہ ہمارے معاملے میں نرمی فرمائیں یا تکلیف فرما کر ہماری تحریر سے نمبر کاٹ کر شئیر کر دیں یا مجھے ان باکس کردیں کہ نمبر کاٹ کر دوبارہ بھیجو

شکریہ،جزاکم اللہ خیرا

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.