لبیک صحیح یا دعوت اسلامی؟ جوش یا ہوش؟ جلاو گھیراؤ راستے بند کرنا کب جائز؟ اختلاف کیوں؟اوقات؟

 *#لبیک اور دعوت اسلامی میں سے کون حق پے.....؟؟ جوش یا تحمل مزاجی....؟؟ ہم کیا کریں......؟؟کیسے دین کو تخت پے لائیں...؟؟ اختلاف کیوں....؟؟حکمت عملی اور صلح کلی میں فرق....؟؟ مشروط محتاط سیاسی اتحاد....؟؟*

تمھید:

ایک علامہ صاحب نے یہ تحریر بھیجی اور فرمایا جواب لکھیں....تحریر یہ تھی:

نظریاتی تنظیم اور حادثاتی تحریک میں بہت فرق ہوتا ہے

 دعوتِ اسلامی ایک عظیم نظریاتی تنظیم ہے نظریاتی تنظیم سے پہلے مقصد و ہدف  ہوتا ہے جبکہ حادثاتی تحریک کسی حادثے کے سبب وجود میں آتی ہے  یہی وجہ ہے نظریاتی تنظیم کے کارکن مستقل مزاج مستقبل شناس اور تحمل مزاج ہوتے ہیں  جبکہ حادثاتی تحریک بس عارضی اور اس کے کارکن جوشیلے ہلڑ باز اور فصلی بٹیرے ہوتے ہیں  

 اھلِ سنت کی بقاء صرف نظریاتی تنظیم میں ہے  حادثاتی تحریک ضرر رساں ہے

.

*#جواب*

ہم نے چونکہ اس تحریر کا رد کرنا تھا لیکن تحریر قبلہ شاہ صاحب کی تھی تو رد کرتے ہوئے کچھ بےادبی نہ ہو جائے اس لیے شاہ صاحب کا نام مٹا کر ہم اسے عامی کی تحریر شمار کرکے رد لکھیں گے.......!!

.

*#پہلی بات*

لبیک بھی کسی نظریے کے تحت وجود میں آئی تھی، مانا کہ ایک حادثہ ہوا مگر حادثے سے پہلے اور بعد میں نظریہ ناموس رسالت پے حملے شروع ہوگئے تھے....ناموس رسالت کا تحفظ اولین نظریات میں سے جس کے لیے لبیک معرض وجود میں آئی....آج بھی یہ تحریک اس نظریے کی محافظ بن کر کھڑی ہے کہ اس نظریے کے تحفظ کے لیے اس کے کارکن کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں علماء کی صراحتاً یا اشارتاً رہنمائی کے ساتھ.....!!

.

*#دوسری بات*

جوشیلے جوان کارکن آپ کو دعوت اسلامی میں بھی ملیں گے....ذرا کھل کر اہم عہدے دار پے تنقید تو کیجیے، پھر دیکھنا دعوت اسلامی کے بعض جوشیلے کارکنان کے جوش..لیکن یہ جوشیلے جزباتی کارکن بھی اہم سرمایہ ہوتے ہیں تفصیل اگے عرض کرتا ہوں

.

*#تیسری بات*

منجھے ہوئے سمجھدار معتدل مزاج مستقل مزاج لوگ ہر تنظیم و تحریک میں ہونا انتہائی لازم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ جوشیلے جزبانی کارکن و افراد کا ہونا سخت مزاج کا ہونا بھی بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے...اسلام بےجا سختی کے خلاف ہے تو بےجا نرمی بےجا مٹھاس کو بھی منافقت کی علامت قرار دیا گیا ہے.....کبھی مناسب محتاط سختی جوش اور کبھی مناسب نرمی میٹھی زیان دونوں کا حسین امتزاج ہی برحق و لازم ہے،عقل و شعور کے لحاظ سے بھی لازم ہے...لیھذا جوش ہوش دونوں پے عمل پیرا دعوت اسلامی و لبیک و سنی تحریک و دیگر اہلسنت تنظیمیں سب مفید ہیں،ضرر رساں نہیں....بس سب کی اہمیت اجاگر کی جائے ، حوصلہ دیا جائے، عرض کی جائے، سمجھا سمجھایا جائے،

لیکن

نرمی ہو یا سختی اسے اسلامی حدود میں قید رکھنا ہی لازم ہے

.

*#جوش و جزبہ ایمانی سرمایہ زندگانی ہے مگر اس جوش و جذبے کو اسلام کے ماتحت رکھنا لازم ہے*

الحدیث:

إن لكل شيءشرة ولكل شرة فترة، فإن كان صاحبها سدد وقارب فارجوه

ترجمہ:

ہر ایک کے لیے جوش.و.نشاط ہے اور ہر جوش.و.نشاط کو زوال ہے…پس اگر جوش و جذبہ، نشاط والا بندہ سیدھا رہے اور (علماء اولیاء کا)قرب.و.مشاورت حاصل کرے تو اس سے خیر کی امید رکھو...(ترمذی حدیث2453)

.

*#منافق و مکار کی ایک نشانی حدیث پاک میں یہ بھی آئی ہے کہ*

الحدیث:

أَلْسِنَتُهُمْ أَحْلَى مِنَ السُّكَّرِ

ترجمہ:

ان(دینی لبادہ والے منافقوں،مکاروں)کی زبانیں (بےجا ہرجا) شکر سے بھی زیادہ میٹھی ہونگی...(ترمذی حدیث2404)

.

القرآن:

يا أيها النبي جاهد الكفار والمنافقين واغلظ عليهم

ترجمہ:اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)کافروں اور منافقوں(اسی طرح ضدی فسادی مکاروں بدمذہبوں عیاشوں ظالموں )سے جہاد کریں اور ان پر سختی کریں

(سورہ توبہ آیت73)

عقل.و.حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سمجھایا جائے، نرمی برتی جائے، اور اسی حکمت کا تقاضا ہے کہ منافق ضدی فسادی پر سختی برتی جائے، اسی حکمت کا تقاضا ہے کہ کچھ جرائم پر سزا مقرر کی جائے، سزا دی جائے.... اسی میں معاشرے کی بھلائی بھی ہے تو ضدی فسادی مفادی کم عقل کا علاج بھی..

.

اکثر فرقوں کے معتبر صوفی علامہ مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو جو خلق ِ عظیم کے ساتھ موصوف ہے، کافروں اور منافقوں پر جہاد کرنے اور سختی فرمانے کا ھکم دیا

يا أيها النبي جاهد الكفار والمنافقين واغلظ عليهم

تو ثابت ہوا کہ کفار اور منافقین پر سختی کرنا بھی خلقِ عظیم ہے..(مکتوب نمبر163 جلد اول ص165)

.

دیکھیے کوئی دماغی مریض یا عیاش ذہنیت والا یا شیطانی فسادی سوچ والا یا ہمت ہار جانے والا یا ضدی یا کم علم کم توجہ والا وغیرہ کسی بھی وجہ سے برائی کفر گستاخی وغیرہ میں پھنس چکا ہو تو سمجھانے کے ساتھ سختی زبردستی کرنا بھی لازم ہوتی ہے....سختی کے بعد مریض کو جب افاقہ ہونے لگتا ہے دماغ صحیح سمت کی طرف چلنے لگتا ہے تب اسے احساس ہوتا ہے کہ ہاں سختی کتنی اہم ہے، بالفرض وہ ٹھیک نہیں بھی ہوتا تو سختی مذمت کی وجہ سے اسکا گند اگے معاشرے میں نہیں پھیلتا یا کم پھیلتا ہے، اور اگر پھیل بھی جائے تو بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے ، دیکھیے چوری ڈاکہ زنا شراب جوا رشوت وغیرہ پر قوانین و سزائیں مقرر ہیں لیکن یہ برائیاں کبھی بڑھ رہی ہوتی ہیں تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ اچھے قانون و سزائیں ہی ختم کر ڈالو....؟؟ تب تو افراتفری پھیل جائے گی....سختی اور سمجھانا دونوں علاج جاری رکھنا حکمت و دانائی ہے، اسی میں ذاتی معاشرتی ہر طرح کی بھلائی ہے......!!

.

*#دھاندلی ہی دھاندلی ہورہی ہم کیا کریں، کس طرح کریں......؟؟*

①ہمت نہ ہاریں..جیتا وہی جس نے اسلام کی خاطر ووٹ دیا چاہے اسکا امیدوار کامیاب ہو نہ ہو…القراں،ترجمہ(اسلام و حق پے)نہ سستی کرو،نہ غم(آل عمران139)غم نہیں سستی نہیں،پہلےسےبڑھ کے اور بہتر انداز میں سمجھداری کے ساتھ سرگرم ہونگے،ان شاء اللہ عزوجل

.

②دعا کریں کہ حدیث پاک کے مطابق دعا مومن کا ہتھیار ہے...دعا کریں کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکمرانوں کو مفاد عیاشی فحاشی نوابی سے نفرت ہو اور اسلام پسند سمجھدار بن جائیں...جائز تفریح جائز لطف اندوزی کی طرف متوجہ ہوں مگر اکثر دین کی طرف متوجہ ہوں اور اسلام و مسلمین و سستائی و خودداری کے لیے سمجھداری کے ساتھ کچھ کرتے جاءیں

.

③پھر ہم یہ کرسکتے ہیں کہ کوئی بھی پارٹی اسلام و حق و سستاءی و آزادی وخودداری کے لیے جلوس دھرنے احتجاج کرے تو اس میں شامل ہوکر کامیاب بنائیں کیا پتہ پریشر کا فائدہ ہو اور حکمران و اسٹیبلشمنٹ امریکہ وغیرہ کے سامنے عوامی دباؤ کا بہانہ بنا کر یہ لوگ اسلام و خودداری ازاد تجارت سستائی وغیرہ کے لیے کچھ کریں

.

④یہودیوں سے عارضی سیاسی اتحاد میثاقِ مدینہ کیا تھا رسول کریمﷺنے تو لبیک یا اہلسنت کے احباب اگر کسی ظالم بدمذہب وغیرہ کسی پارٹی سے اسلام کی سربلندی کیلیےعارضی محتاط سیاسی اتحاد کرے تو عین وقت کا تقاضہ اچھا فیصلہ ہوگا...جس طرح یہود سیاست معیشت سب کچھ میں چھائے ہوئے تھے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال حکمت عملی سے میثاق مدینہ عارضی اتحاد کرکے سیاست معیشت میں مسلمانوں کے لیے جگہ بنائی...اسی طرح ہم بھی پارٹیوں سے محتاط سیاسی اتحاد کرکے سیاست معیشت تعلیم جدت ٹیکنالوجی عہدوں فوجی عہدوں میڈیا طب سائنس وغیرہ اہم اہم امور پے اپنے بندے داخل کرسکیں گے، ان امور میں موجود پہلے سے لوگوں کو سمجھا سکیں گے، اپنا بنا سکیں گے....پھر اصلاحات لا سکیں گے، مزید گند پھیلنے سے روک سکیں گے...یہ حکمت عملی ہے، صلح کلی نہیں....پارٹیاں ہمارے ساتھ اتحاد کیسے کرین گیں…؟؟ اس لیے ضروری ہے کہ اپ کے پاس ووٹ یا افراد کی طاقت ہو اور ایسے جوشیلے جوانوں کی طاقت ہو جو معتبر علماء کے  اشارے کنائیے کو سمجھ کر کچھ بھی کرسکتے ہو تب جاکر غنڈوں عیاشوں منافقوں کی عقل خوف یا لالچ کے ڈر سے ٹھکانے لگے گی اور وہ اتحاد کے لیے راضی ہونگے اور ساتھ ساتھ علماء محققین کی ایسی فوج بھی ہو جو دلیل و لاجک سے سمجھا کر دل جیت کر سمجھا کر اتحاد کرنے پے راضی کرے،

.

⑤اس کے لیے ہمیشہ تیار رہیں کہ کچھ بھی اہم مخالف اسلام کام ہوا تو ہم دھرنے جلوس احتجاج مجبورا جلاؤ گھیراؤ سختی وغیرہ کے ذریعے اسکا راستہ روکیں گے....اور ساتھ ساتھ ایک ٹیم بناءیں گے جو علمی طور پر سمجھائے گی، وضاحت پھیلائے گی ... اس طرح سمجھ کر یا حکمران عوامی پریشر میں آکر اہم برے کرتوتوں برے بل  قانون پاس کرنے سے رک جائین گے

.

*#جلاو گھیراو تخریب کاری راستے بازار بند کرانے کے جواز کی مختصر تحقیق..........!!*

.

عام حکم یہی ہے کہ جہاد میں لڑنے والے ظالم فسادیوں سے ہی لڑا جائے عورتوں بچوں بوڑھوں مریضوں کو تکلیف نہ پہنچائی جاءے،راستے بند نہ کییےجاءیں،عوام کو تکلیف نہ پہنچائی جائے اس پر کئ احادیث و آثار ہیں

مگر

اگر دیگر طریقوں سےناکامی ہو یا قوی اندیشہ ہو اور یہی راستہ بچا ہو تو حکومت حکمران کو شرعی معاہدے کرنے، معاہدے پورے کرنے،شرعی مطالبات منوانے کے لیے تخریب کاری، سرکاری املاک کا جلاو گھیراو ، کاروبار بازار راستے چوک بند کروانے کا جواز بھی علماء نے حدیث پاک سے ثابت کیا ہے

.


الحدیث:

عن النبي صلى الله عليه  وسلم،" انه حرق نخل بني النضير، وقطع وهي البويرة"، ولها يقول حسان: وهان على سراة بني لؤي حريق بالبويرة مستطير.

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بنی نضیر کے  کھجوروں کے باغ جلا دیئے اور کاٹ دیئے۔ ان ہی کے باغات کا نام بویرہ تھا۔ اور حسان رضی اللہ عنہ کا یہ شعر اسی کے متعلق ہے۔ بنی لوی (قریش) کے سرداروں پر (غلبہ کو) بویرہ کی آگ نے آسان بنا  دیا جو ہر طرف پھیلتی ہی جا رہی تھی۔

(بخاری حدیث2326)

.

واستدل الجمهور بذلك على جواز التحريق والتخريب في بلاد العدو إذا تعين طريقًا في نكاية العدو

ترجمہ:

جمھمور و اکثر علماء کے مطابق اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جب راستہ ہی یہی بچا ہوتو دشمن کے شہر میں(راستےبند)،تخریب کاری ، جلاؤ گھیراؤ جائز ہے

(إرشاد الساري شرح بخاري ,5/152)

(الكوكب الوهاج شرح صحيح مسلم ,19/124)

.

حَدِيث ابْن عمر دَال على أَن للْمُسلمين أَن يكيدوا عدوهم من الْمُشْركين بِكُل مَا فِيهِ تَضْعِيف شوكتهم وتوهين كيدهم وتسهيل الْوُصُول إِلَى الظفر بهم من قطع ثمارها وتغوير مِيَاههمْ والتضييق عَلَيْهِم بالحصار. وَمِمَّنْ أجَاز ذَلِك الْكُوفِيُّونَ، وَمَالك وَالشَّافِعِيّ وَأحمد

اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانون کے لیے مجبورا جائز ہے کہ دشمنوں کو کسی نہ کسی طریقے سے کمزور کرکے منواءیں یا انکی شان و شوکت گھٹائیں مثلا مجبورا جائز ہے کہ ان کے پھل کھیت اجاڑ دیں جلا دیں انکا کھانا پانی بند کریں باءیکاٹ کریں اور جلاو گھیراو کریں راستے بند کریں یہ سب مجبورا جائز ہے فقہ حنفی کے مطابق، فقہ مالکی ، فقہ شافعی اور فقہ حنبلی کے مطابق بھی

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري ,14/270)

.

.

اب آپ کے ذہن میں سوال ابھرے گا کہ یہ تو مشرکین کے ساتھ جائز ہے.....مسلمان مسلمان کے ساتھ ایسا کرے یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے

جواب:

عام مسلمانوں کے ساتھ ایسا واقعی جائز نہیں مگر نااہل ظالم خائن حکمران سےٹکرانا بھی جہاد ہے،یہی درس کربلا ہے.....

نا اہلوں سے جھاد اور وہ بھی تین طریقوں سے:

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،ترجمہ:

پہلے کی امتوں میں جو بھی نبی علیہ الصلاۃ والسلام گذرا اسکے حواری تھے،اصحاب تھے جو اسکی سنتوں کو مضبوطی سے تھامتے تھے اور انکی پیروی کرتے تھے،

پھر

ان کے بعد ایسے نااہل آے کہ جو وہ کہتے تھے اس پر عمل نہیں کرتے تھے،اور کرتے وہ کچھ تھے جنکا انھیں حکم نہیں تھا، جو ایسوں سے جہاد کرے ہاتھ سے وہ مومن ہے

اور جو ایسوں سے جھاد کرے زبان سے  وہ مومن ہے

اور جو ایسوں سے جھاد کرے دل سے   وہ مومن ہے

اور اس کے علاوہ میں رائ برابر بھی ایمان نہیں

(مسلم حدیث 50)

.

جب منافق یا نا اہل یا باغی ظالم حکمران و گروپ کے ساتھ جہاد کا حکم ہے تو مجبورا تخریب کاری  راستے کاروبار بازار چوک بند کرنے، سرکاری یا امیروں حکمرانوں لیڈروں کے املاک و اداروں کا جلاو گھیراو کا جواز بھی خود بخود ثابت ہوجائے گا....ہاں عام آدمی بےقصور کا لحاظ رکھنے کی بھرپور کوشش کی جائے، فوط سرکاری یا بڑے بڑے طاقتوروں کو سختی جلاو گھیراؤ سے قابو میں لایا جائے اور ساتھ ساتھ سمجھانے کی بھی بھرپور کوشش جاری رہے

.

اہم اسلامی مطالبات پے ملک گیر زبردست احتجاج دھرنے جلوس ریلیاں ہوں تو شرکت کرکے کامیاب بنائیے کہ اس سے حکومت کو بہانا مل جائے گا کہ وہ عالمی طاقتوں کو کہہ سکے گی کہ دیکھو ہم تو نہیں چاہتے مگر عوام کا دباو ہے…احتجاج مجبوری ہے لیھذا احتجاج کی وجہ ٹریفک جام،  کاروبار جام وغیرہ چھوٹے موٹے نقصانات و اذیت برداشت کیجیے

.

القرآن:

إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة، فاسعوا إلى ذكر الله وذروا البيع

ترجمہ:

جب جمعہ کے دن جمعہ نماز کے لیے ندا دی جائے(نماز جمعہ کے لیے بلایا جائے، اذان دی جائے) تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرو اور کاروبار چھوڑ دو

(سورہ جمعہ آیت9)

.

جمعہ نماز فرض ہے مگر تحفظِ اسلام اور تحفظِ ناموس رسالت اور تحفظِ ختمِ نبوت تو نمازِ جمعہ سے بڑھ کر عظیم فریضہَِ اسلام ہیں

جب جمعہ نماز کے لیے اسلام نے سختی کی، کاروبار بند کرایا تو یقینا حالتِ مجبوری میں تحفظِ اسلام اور تحفظ ناموس رسالت اور تحفظِ ختمِ نبوت وغیرہ اسلام کے اہم معاملات و نظریات کے لیے کاروبار اور اکثر راستے بند کرائے جاسکتے ہیں...احتجاج دھرنے دییے جاسکتے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ بھرہور کوشش کی جائے کہ کسی کی موت احتجاج دھرنے کی وجہ سے نا ہو...اس لیے کچھ راستے ایمبولینس ایمرجنسی کے لیے بھی کھلے رکھنا چاہیے...کوشش کے باوجود کسی کی موت ہوجائے تو عظیم مقصد کے لیے شہادت کہلائے گی، اس شہادت و قتل کا ذمہ دار مجبور احتجاجی ذمہ دار نہین کہلاءیں گے... احتجاج دھرنے مجبوری ہیں، موجودہ حالات میں ہم کمزوروں مجبوروں کے پاس احتجاج اور دھرنے کے علاوہ مفید راستہ ہی کیا بچا ہے.....؟؟

.

لیھذا جب بھی انتہاہی اہم اسلامی مقصد کے لیے مجبورا احتجاج یا دھرنے کی کال دی جائے تو دل و جان سے حصہ لیجیے...کاروبار بند کیجیے... تکلیف برداشت کیجیے... اور جنہین تکلیف ہو اسے سمجھائیے حوصلہ بڑھاءیے کہ بھائی آپ کو عظیم مقصد کی خاطر مشقت اٹھانا پڑ رہی ہے تو آپ کو اجر و ثواب دوگنا سے بھی زیادہ بڑھا کر دیا جائے گا

اسلام ہماری اذیت و مشقت نہین چاہتا، جان بوجھ کر تکلیف میں پڑنے اور دوسروں کو تکلیف میں ڈالنے سے روکتا ہے مگر اسلام یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ اچھے کام میں مشقت اٹھانی پڑے تو اجر و ثواب زیادہ ملتا ہے

.

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ولكنها على قدر نفقتك أو نصبك

ترجمہ:

اور تمھیں اسکا ثواب تمھارے خرچ یا تھکاوٹ و مشقت کے حساب سے ملے گا

(بخاری حدیث1787)

.


عظیم مقصد کے لیے تکالیف برداشت کرنا پڑتی ہیں...بلکہ عظیم مقصد میں ہمیں تکلیف پر تکلیف ہی نہیں ہونی چاہیے

.

.

مریض کا علاج کے وقت اسے کتنی تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے...؟؟کبھی تو جسم کا کوئی عضو بھی کاٹنا پڑتا ہے...مریض کے ناچاہتے ہوئے بھی اسے کڑوی دوائی دی جاتی ہے...کڑوی دوا کی اذیت برداشت کرنا پڑتی ہے...مریض پر مختلف پابندیاں اس کی بھلائی کے لیے لگائی جاتی ہیں... مرض موذی وبائی ہو تو معاشرتی بھلائی کے لیے دوسروں پر پابندی لگائی جاتی ہے...دوسروں کو بھی اپنی بھلائی اور مریض کی بھلائی کے لیے تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہیں

 اسی طرح

گستاخیِ رسول موذی وبائی مرض ہے

سیکیولر ازم من پرستی،فحاشی بھی وبائی مرض ہے

جو

پاکستان میں پھیلا گیا اور پھیلایا جا رہا تھا اس کے علاج کے لیے دیگر طریقوں کے علاوہ لبیک کے دھرنے اور احتجاج کریں تو اپنی بھلائی اور معاشرتی بھلائی کے لیے تکلیف برداشت کیجیے اور احتجاج دھرنوں میں شرکت کیجیے

.

لبیک وغیرہ اہلسنت قائدین ورکرز کی ذات کی گرفتاری نہیں بلکہ نظریہ کی گرفتاری ہے…لیھذا ایسے قائدین کے لیے نکلنا بھی اسلام کے لیے نکلنا ہے

.

پاکستان میں ایسے احتجاج دھرنے راستے کاروبار بند وغیرہ بہت سیاسی تنظیمیں کرتی ہیں تو اسے جمہوریت کا رنگ و حق کہا جاتا ہے لیکن افسوس کوءی دینی جماعت شرعی حقوق و مقاصد کے لیے مجبورا ایسے کرتی ہے تو اس پر تنقید و مذمت کی جاتی ہے جبکہ لبیک بھی رجسٹرڈ سیاسی پارتی ہے تو یہ اسکا حق و جمہوریت کا رنگ ہے اگرچہ ہم عوام سے یہی اپیل کرتے ہین کہ اولین ترجیح پرامن احتجاج ہے مگر ہم پر ظلم ہوا تو راستے کاروبار بند کرنا سرکاری املاک کا جلاو گھیراو کرنا مجبوری ہے

.

.القرآن،ترجمہ:

سچوں کے ساتھ ہو جاؤ(سورہ توبہ119)

القرآن:

وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ

اور اگر وہ تم سے دین کی خاطر مدد طلب کریں تو تم پر انکی مدد کرنا لازم ہے..(انفال ایت72)

لبیک اور دیگر اہلسنت تنظیموں کا ساتھ دیجیے، دھرنے جلوس ریلی احتجاج میں شرکت کیجیے,کامیاب بنائیے

.

*#دعوت اسلامی سنی تحریک اور لبیک وغیرہ سب اہلسنت ہیں تو اختلاف کیوں.........؟؟* 

الحدیث:

 قال النبي صلى الله عليه وسلم لنا لما رجع من الأحزاب: «لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة» فأدرك بعضهم العصر في الطريق، فقال بعضهم: لا نصلي حتى نأتيها، وقال بعضهم: بل نصلي، لم يرد منا ذلك، فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم، فلم يعنف واحدا منهم

ترجمہ:

غزوہ احزاب سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم(یعنی صحابہ کرام) سے فرمایا کہ:

تم میں سے ہر ایک بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھے" (صحابہ کرام نے جلد پہنچنے کی بھر پور کوشش کی مگر)راستے میں عصر کا وقت ختم ہونے کو آیا تو کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ ہم عصر نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی پڑہیں گے اور کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ نبی پاک کا یہ ارادہ نا تھا(کہ نماز قضا ہو اس لیے) ہم عصر پڑھ لیں گے

(طبرانی ابن حبان وغیرہ کتب میں روایت ہے جس میں ہے کہ کچھ صحابہ نے راستے میں ہی عصر نماز پڑھ لی اور کچھ نے فرمایا کہ ہم رسول کریم کی تابعداری اور انکے مقصد میں ہی ہیں لیھذا قضا کرنے کا گناہ نہین ہوگا اس لیے انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر نماز پڑھی)

پس یہ معاملہ رسول کریم کے پاس پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک پر بھی ملامت نا فرمائی

(بخاری حدیث946)

.

دیکھا آپ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کا قیاس و استدلال اور اس میں اختلاف... صحابہ کرام نے اس برحق اختلاف پر ایک دوسرے کو کافر منافق فاسق گمراہ گستاخ نہیں کہا اور نبی پاک نے بھی کسی کی ملامت نا فرمائی...ایسا اختلاف قابل برداشت ہے بلکہ روایتوں مین ایسے فروعی برحق پردلیل باادب اختلاف کو رحمت فرمایا گیا ہے

.

اختلاف ایک فطرتی چیز ہے.... حل کرنے کی بھر پور کوشش اور مقدور بھر علم و توجہ اور اہلِ علم سے بحث و دلائل کے بعد اسلامی حدود و آداب میں رہتے ہوئے پردلیل اختلاف رحمت ہے

مگر

آپسی تنازع جھگڑا ضد انانیت تکبر لالچ ایجنٹی منافقت والا اختلاف رحمت نہیں، ہرگز نہیں...اختلاف بالکل ختم نہیں ہو پاتا مگر کم سے کم ضرور کیا جا سکتا ہے،اس لیے اختلاف میں ضد ،انانیت، توہین و مذمت نہیں ہونی چاہیے بلکہ صبر اور وسعتِ ظرفی ہونی چاہیے... اور یہ عزم و ارادہ بھی ہونا چاہیے کہ اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، ختم نہیں ہو پایا تو اختلاف کو کم سے کم ضرور کیا جائے گا..اختلاف کو جھگڑے سے بچایا جائے گا..

.

اختلاف کی بنیاد حسد و ضد ہر گز نہیں ہونی چاہیے...

اختلاف اپنی انا کی خاطر نہ ہو

اختلاف لسانیت قومیت کی خاطر نہ ہو

اختلاف ذاتی مفاد لالچ کی خاطر نہ ہو

اختلاف شہرت واہ واہ کی خاطر نہ ہو

اختلاف فرقہ پارٹی کی خاطر کی نہ ہو

اختلاف کسی کی ایجنٹی کی خاطر نہ ہو

اختلاف منافقت، دھوکے بازی کی خاطر نہ ہو

اختلاف ہو تو دلیل و بھلائی کی بنیاد پر ہو، بہتر سے بہترین کی طرف ہو، علم و حکمت سے مزین ہو،

.

ہر شخص کو تمام علم ہو،ہر طرف توجہ ہو، ہر میدان میں ماہر ہو یہ عادتا ممکن نہیں، شاید اسی لیے مختلف میدانوں کے ماہر حضرات کی شوری ہونا بہت ضروری ہے، اسی لیے اپنے آپ کو عقل کل نہیں سمجھنا چاہیے....بس میں ہی ہوں نہیں سوچنا چاہیے...ترقی در ترقی کرنے کی سوچ ہو، ایک دوسرے کو علم، شعور، ترقی دینے کی سوچ ہو....!!

.


کسی کا اختلاف حد درجے کا ہو، ادب و آداب کے ساتھ ہو، دلائل و شواہد پر مبنی ہو تو اس سے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے...ایسے اختلاف والے کی تنقیص و مذمت نہیں کرنی چاہیے،ایسے اختلاف پے خطاء والے کو بھی اجر ملتا ہے

الحدیث:

فاجتهد، ثم اصاب فله اجران، وإذا حكم فاجتهد، ثم اخطا فله اجر

مجتہد نے اجتہاد کیا اور درستگی کو پایا تو اسے دو اجر اور جب مجتہد نے اجتہاد کیا خطاء پے ہوا اسے ایک اجر ملے گا

(بخاری حدیث7352)

توجیہ تنبیہ جواب تاویل ترجیح کی کوشش کرنی چاہیے جب یہ ممکن نا ہو تو خطاء اجتہادی پر محمول کرنا چاہیے.....ہاں تکبر عصبیت مفاد ضد انانیت ایجنٹی منافقت وغیرہ کے دلائل و شواہد ملیں تو ایسے اختلاف والے کی تردید و مذمت بھی برحق و لازم ہے

.


اسی طرح ہر ایک کو اختلاف کی بھی اجازت نہیں... اختلاف کے لیے اہل استنباط مین سے ہونا ضروری ہے... کافی علم ہونا ضروری ہے... وسعت ظرفی اور تطبیق و توفیق توجیہ تاویل ترجیح وغیرہ کی عادت ضروری ہے، جب ہر ایرے غیرے کم علم کو اختلاف کی اجازت نا ہوگی تو اختلافی فتنہ فسادات خود بخود ختم ہوتے جاءیں گے

.

ہم جیسے چھوٹے موٹے لوگ کارکنان اگر کچھ مشورہ دیں یا رائے کا اظہار کریں تو سیدھا سا جواب یہی ملتا ہے کہ اپنی اوقات دیکھو، اپنی اوقات میں رہو، کیا پدی کیا پدی کا شوربہ، بڑوں کو مشورہ دیتے ہو، بڑوں کو توجہ دلاتے ہو...بے ادب نافرمان کہیں کے...بلکہ اس سے بھی سخت جوابات ملتے ہیں...جبکہ ہر مسلمان کی بڑی اوقات ہے ... ہاں سمجھ نا سمجھ تجربہ علم عمل تدبر وغیرہ میں کمی بیشی ہوتی ہے تو سمجھائیے سلجھاءیے، طعنے نہ ماریے

.

القرآن..ترجمہ:

اللہ کے لیے عزت ہے اور اسکے رسول کے لیے عزت ہے اور مومنین کے لیے عزت ہے..(سورہ منافقون آیت8)

.

کسی چھوٹے، کسی ورکر، کسی"ہمسر"، الغرض کسی کو بھی سمجھائیے مگر اوقات دیکھو کے طعنے مت لگائیے، کسی کو بے وقوف بنانے، غلام بنانے کی کوشش مت کیجیے بلکہ دوست بنائیے، انکی اوقات کم مت سمجھیے بلکہ عزت دیجیے، حوصلہ ہمت بڑھائیے ،داد دیجیے، چھوٹی موٹی خدمات کا اعتراف کیجیے، کسی کی کاوشوں صلاحیتوں کو تسلیم کرنا بھی بڑا پن ہے،

بے شک  مزید آگے بڑھنے، مزید علم و حکمت حاصل کرنے، مزید شعور و بہتری لانے، صبر و وسعتِ ظرفی پیدا کرنے، سوال اور مشاورت کی عادت ڈالنے کا کہیے...

اگر کسی کا علم کم ہو، معلومات کم ہو تو بھی یہ نہین کہنا چاہیے کہ تمھاری اوقات یہ ہے کہ فلاں بات معلوم نہیں...نہیں نہیں یہ انداز اصلاح کا نہیں، اس سے ضد اور نفرتیں پھیلتی ہیں...بلکہ انہیں سمجھائیے کہ بھائی آپ کی معلومات کم ہے،پھر اس کے علم میں اضافہ کیجیے... مزید علمی ترقی کے لیے راہ کی نشاندہی کیجیے، اصلاح اکثر اکیلے میں کیجیے مگر کبھی مجبورا سرعام اصلاح کرنا پڑے مشورہ دینا پڑے تو بھی انداز جارحانہ نا ہو...نرمی ہی نرمی کیجیے

البتہ کچھ معاملات و مسائل میں سختی بھی برحق ہے،

تمام مسلمانوں کی بڑی عزت ہے، بڑی اوقات ہے، آپ کون ہوتے ہیں کسی کو کم اوقات کہنے والے، طعنے مارنے والے..؟؟

.

.

سمجھائیے پھر سمجھائیے، توجہ دلائیے کہ اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے،

القرآن:

وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ:

اور سمجھاو(یاد دلاو، توجہ دلاو، سمجھاو) کہ بے شک سمجھانا مومنوں کو فائدہ دیتا ہے

(سورہ الذاریات ایت55)

.

وضاحت پوچھیے، وضاحت عام کیجیے، مشورہ لیجیے دیجیے سوال کیجیے، پوچھنے کی عادت ڈالیے....اس میں عار مت کیجیے، اس سے غلط فہمیاں ختم ہوتی ہیں، علم میں اضافہ ہوتا ہے، جگھڑے فتنے فساد کم سے کم ہوتے جاتے ہیں... جہالت، کم علمی، بے توجہی اور غلط فہمیوں کا علاج سوال میں ہے، پوچھنے میں ہے

الحدیث..ترجمہ:

 مشکلات و عاجز ہو جانے کی شفاء سوال(پوچھنے، معلومات لینے مشورہ لینے) میں ہے..(ابو داود حدیث336)

.

مگر یہ بھی یاد رہے کہ سوال مشورہ وضاحت فتوی سب کچھ اچھے انداز میں ہو...

الحدیث..ترجمہ:

حسنِ سوال(اچھا سوال، اچھے انداز و الفاظ والا سوال) آدھا علم ہے...(مجمع الزوائد حدیث727)

.

تقاضا ہو یا مطالبہ ہو تو اچھے طریقے سے ہو

القرآن..ترجمہ:

اچھے طریقے سے تقاضا ہو اور اچھی طرح ادائیگی ہو..(سورہ بقرہ آیت178)

.

.

وضاحت کیجیے، غلط فہمیوں سے بچیے...ایسے اقدام سے بچیے ایسی باتوں سے بچیے، ایسے طریقے سے بچیے کہ جس سے بدگمانیاں غلط فہمیاں پیدا ہوں، غلط فھمیوں کا ازالہ کیجیے

الحدیث..ترجمہ:

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مغالطوں(غلط فہمیوں میں پڑنے اور غلط فہمیوں مغالطوں میں ڈالنے) سے منع کیا ہے

(ابو داؤد حدیث3656)

.

.

چھوٹوں کی بات، مشورے کو عار مت سمجھیے،

تسلی بخش افھام تفھیم والا جواب دیجیے ورنہ چھوٹے کی بات مشورہ قبول کر لیجیے

استاد لیڈر سربراہ کسی بڑے کو مشورہ دینا........؟؟

بن مانگے مشورہ رائے دینا.............؟؟

المفھم شرح مسلم میں ایک حدیث پاک سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے...ترجمہ:

امام اور سربراہ(لیڈر، کسی بڑے)کو مشورہ دینا چاہیے خواہ انہوں نے مشورہ طلب نا کیا ہو

(المفھم شرح مسلم 1/208بحوالہ تبیان القرآن تحت تفسیر سورہ الشوری آیت10)

امام نووی علیہ الرحمۃ ایک حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں.

ترجمہ:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب امام اور سربراہ(لیڈر اکابر) کوئی حکم مطلق دے اور اس کے متبعین میں سے کسی شخص کی رائے اس کے خلاف ہوتو اس کو چاہیے کہ وہ امیر و سربراہ کے سامنے اپنی رائے پیش کرے تاکہ امیر اس پر غور کرے، پس اگر امیر پر یہ منکشف ہو کہ اس متبع کی رائے(مشورہ) صحیح ہے تو اسکی طرف رجوع کر لے ورنہ اس متبع کے شبہ کو زائل کرے اور اسکی تسلی کرے..

(شرح مسلم للنووی1/581بحوالہ تبیان القرآن تحت تفسیر سورہ الشوری آیت10)

لیھذا اپنے آپ کو مشورے کا غیرمحتاج مت سمجھیے، کوئی اپ سے اختلاف کرے تو دلائل سے جواب دیجیے، تسلی بخش جواب دیجیے ورنہ قبول کر لیجیے....یہ مت کہیے کہ میں تو بڑا ہوں فلاں فلاں کا استاد ہو، میں تو لیڈر ہوں، میرے تو فلاں فلاں عہدے ہیں،  مرشد عالم مفتی ہونا مت جتائیے تسلی بخش جواب دیجیے ورنہ حق قبول کیجیے...مشورہ لیتے رہیے.. خطاء سے پاک مت سمجھیے...

.

اپنے آپ کو بہت بڑی توپ مت سمجھیے،اپنے آپ کو علمِ کل اور عقلِ کل مت سمجھیے، یہ مت سمجھیے کہ بس میں ہوں، بس میری پارٹی میری تنظیم ہی ہے، باقی سب کو گھاس نا ڈالنا، عزت نا دینا ٹھیک نہیں،ہاں دوسری کی بہتری ترقی کی کوشش کرنی چاہیے مگر خودپسندی میں نہیں رہنا چاہیے، خود پسندی ہلاکت خیز بیماری ہے

الحدیث:

 قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: " «المهلكات ثلاث: إعجاب المرء بنفسه، وشح مطاع، وهوى متبع»

ترجمہ:

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزیں ہلاک کر دیتی ہیں

1:خود پسندی

2:لالچ و بخل کی اطاعت

3:خواہشاتِ نفس کی پیروی

(مجمع الزوائد حدیث315)

.

الحدیث:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الأناة من الله والعجلة من الشيطان

ترجمہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:

انائت(جلد بازی نہ کرنا،مناسب وقت موقعہ الفاظ انداز کا لحاظ رکھنا ، ثابت قدمی، سنجیدگی، وقار، وسعتِ ظرفی،صبر) اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے..(ترمذی حدیث2012)

.

زندگی کا بہت ہی اہم اصول کہ جلدبازی نہیں کرنی چاہیے... چاہے دینی معاملہ ہو یا دنیاوی،

سیاسی معاملہ ہو یا ذاتی معاملہ....

باہر کا معاملہ ہو یا گھریلو معاملہ....

دوستی کا معاملہ ہو یا دشمنی کا....

محبت کا معاملہ ہو یا نفرت کا....

رشتہ توڑنے کا معاملہ ہو یا کسی سے رشتہ جوڑنے کا...

کسی پر اعتماد کا معاملہ ہو یا بے اعتمادی کا...

کسی کو سمجھنےسمجھانے کا معاملہ ہو یا تنقید کا.....

کسی کی تائید و تعریف کا معاملہ ہو یا تردید و مذمت کا...

الغرض

ہر معاملے میں جلد بازی ٹھیک نہیں، اہل علم سے، اہلِ شعور سے حتی کہ چھوٹوں سے بھی مشاورت کر لینی چاہیے مگر جلد بازی نہیں کرنی چاہیے...مناسب انداز و لحاظ رکھنا چاہیے، غصہ ہی غصہ تکبر جلدبازی میں نقصان و تباہی ہے.....اختلافات جگھڑے فسادات کی ایک بڑی وجہ عدمِ برداشت اور جلد بازی ہے

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.