مسافر کی نماز... قصر اور چمن زمان کی نفس پرستی چمچہ گیری... چمن کا راستہ...؟؟





*#چمن زمان چمچہ مکار اب لگتا ہے بےلگام ہوگیا...شاید اپنے زعم میں مجتہد یا اس سے بھی بڑھ کر ہونے کا دعوے دار نہ ہو......؟؟*

چمن زمان انگلینڈ سے واپسی پے کہتا ہے کہ...المفھوم:انگلینڈ میں فلاں کا گھر مجھے اپنا گھر لگا کہ میں مسافر ہوکر بھی دو رکعت کے بجاءے چار رکعت نماز پڑھی...وڈیو لنک پے ملاحظہ کی جاسکتی ہے

.

*#پہلی بات*

چمن کے کلام کے سیاق و سباق سے واضح ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ مسافر پر واجب فرض ہے کہ چار رکعت فرض کو دو رکعت کرکے پڑھے

لیکن

یہ چمچہ گیری بوٹ پالشی مکاری کا اتنا ماہر نفس پرست شخص ہے کہ شریعت مطہرہ کے حکم کو اپنی عقل و من پرستی کی بنیاد پر بدل ڈالتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ جی مجھے اپنا گھر جیسا لگا تو میں نے چار رکعت پڑھ لی…ابے نفس پرست چمچے بوٹ پالیشیے نفس پرست مکار چمن زمان تو کسی ایک صحابی کا فرمان دکھا دے کہ گھر جیسا لگے تو چار پڑھ لو.....!!

.

ہاں بعض صحابہ کرام یہ فرماتے تھے کہ سفر میں چار کو دو رکعت کرکے پڑھنا رخصت ہے چاہے تو رخصت پے عمل کرکے دو پرھو اور چاہو تو رخصت پے عمل نہ کرکے چار پڑھو

.

چمن زمان اگر تم کہتے کہ جی میں فقہ حنفی کو اب خیرآباد کہتا ہوں اس لیے فلاں فقہ پر عمل کرکے چار رکعت پڑھی تو معاملہ اور ہوتا.....یہاں تمھارے کلام کے سیاق و سباق سے واضح ہے کہ تم فقہ حنفی کے پیروکار ہو اور سفر میں چار فرض کو دو رکعت کرکے پڑھنا لازم سمجھتے ہو مگر ناجانے کہاں سے مکاری چمچہ گیری بوٹ پالشی نکال لی کہ جی مجھے اپنا گھر لگا تو چار پڑھ لی....ارے مکار منافق نفس پرست جو دل کرے گا اس پے عمل کرو گے یا احادیث مبارکہ صحابہ کرام و مجتہدین کی پیروی کو اپنا فخر سمجھو گے لازم سمجھو گے....؟؟

.

چمن زمان تمھارے کردار سے بدبو آ رہی ہے کہ تم چمچہ گیری بوٹ پالشی من چاہی میں کسی بھی حد تک گر سکتے ہو...لگتا تو یہ ہے کہ تمھارا راستہ قادیانی والا ہے کہ جب چاہا مجتہد اور جب چاہا ظلی نبی اور جب چاہا اصلی نبی ہونے کا دعوےدار بن بیٹھا....اللہ کرے تمھیں لگام لگے ورنہ راستہ تو تمھارا بڑا خطرناک لگتا ہے کہ قادیانی کی طرح انگریزوں کے اشارے پے چلتے ہوئے کچھ بھی کہہ سکتے ہو اور کسی بھی حد تک جاسکتے ہو اور جھوٹا سہارا لو گے ایات و اھادیث و اقوال اسلاف کا....اس طرح سہارا لو گے کہ غلط معنی نکالو گے اور لوگوں کو بھکاؤ گے....مکار چرب زبان نفس پرست شہرت پرست دولت پرست بولٹ پالشیے چمچے جو ٹہرے تم......!!

.

الحدیث:

لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ : { لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا } فَقَدْ أَمِنَ النَّاسُ، فَقَالَ : عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ : " صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللَّهُ بِهَا عَلَيْكُمْ، فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ

 کسی نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا کہ ایت میں تو بطاہر یہ تھا کہ اگر تمہیں سفر میں کوئی مجبوری ہو تو پھر نماز کو قصر(چار رکعت فرض کو دو رکعت) کر کے پڑھو لیکن اب تو کوئی ایسی مجبوری نہین تو پوری کیون نہ پڑہیں تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ مجھے بھی ایسی ہی تعجب والی بات لگی تھی (کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شروع کے زمانے میں تو مجبوریاں تھیں لیکن بعد میں تو کوئی مجبوری نہیں تھی پھر بھی رسول کریم بغیر کسی مجبوری کے سفر میں چار رکعت کو دو رکعت کرکے پڑھتے تھے اور ہم بھی سفر میں چار رکعت کو دو رکعت کرکے پڑھتے تھے)تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں سوال کیا تھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے تمہارے لیے تحفہ ہے تو تم اللہ تعالی کی طرف سے دیے گئے تحفے کو قبول کر لو( لہذا سفر میں مجبوری ہو نہ ہو ، اسانی ہو نہ ہو کچھ بھی ہو ہر حال میں اللہ کا تحفہ قبول کرنا ہے اور چار رکعت فرض کو دو رکعت پڑھنا ہے)

(مسلم حدیث686 ترمذی حدیث3034نحوہ ، ابوداود حدیث1199نحوہ)

.

إِنَّ اللَّهَ فَرَضَ الصَّلَاةَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَلَى الْمُسَافِرِ رَكْعَتَيْنِ

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ فرض قرار دے دیا ہے کہ مسافر(چار رکعت فرض کو) دو رکعت  ہی پڑھے گا

(مسلم687 ابوداؤد1247نحوہ ، ابن ماجہ1068نحوہ)

.

*#دوسری بات*

چمن زمان صاحب تم اور تمھاری پارٹی بڑے شور سے علی علی کرتے ہو....مکار کہیں کے جھوٹے محب کہیں کے دیکھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا عمل مبارک کیا تھا....؟؟

 «أَنَّ عَلِيًّا خَرَجَ فِي السَّفَرِ، فَكَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ حَتَّى يَرْجِعَ»

 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سفر میں چار فرض کے بجائے دو رکعت فرض پڑھتے تھے

(استاد بخاری المصنف روایت8168)

.

*#تیسری بات*

 صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ بعض ان میں سے چار کو چار رکعت ہی پڑھتے تھے اور چار کو بعض دو رکعت کر کے پڑھتے تھے اور ایک دوسرے پر ملامت نہیں فرماتے تھے تو اس کی وجہ بھی انہوں نے ارشاد فرما دی کہ یہ رخصت ہے کوئی عمل کرے تو ٹھیک کوئی عمل نہ کرے تو ٹھیک ہے لیکن ہماری تحقیق و تلاش میں یہ وجہ کسی نے نہیں بتائی کہ جی فلاں میرا گھر جیسا ہے میری پسند کی جگہ ہے مجھے اپنا گھر لگتا ہے تو اس لیے رخصت پے عمل نہیں کرتا....یہ نفس پرستی چمچہ گیری تمھارا بہت بڑا جرم ہے، یہ وہ راستہ ہے جس پے چل کر کوئی فرعون بنا تو کوئی قادیانی.....!!

ہاں اگر صحابہ کرام نے ایسا فرمایا ہے کہ فلاں مجھے گھر جیسا لگتا ہے اس لیے چار رکعت پڑھتا ہوں تو ہم تمھیں اے چمن زمان اس معاملے میں صحیح سمجھیں گے ورنہ ہم نے آج تک نہ پڑھا نہ سنا کہ جی فلاں اپنا گھر جیسا لگتا ہے تو چار پڑھ لیتا ہوں......!!


 حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي نَجِيحٍ الْمَكِّيِّ، قَالَ: «اصْطَحَبَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّيْرِ، فَكَانَ بَعْضُهُمْ يُتِمُّ وَبَعْضُهُمْ يَقْصُرُ، وَبَعْضُهُمْ يَصُومُ وَبَعْضُهُمْ يُفْطِرُ، فَلَا يَعِيبُ هَؤُلَاءِ عَلَى هَؤُلَاءِ، وَلَا هَؤُلَاءِ عَلَى هَؤُلَاءِ»

 صحابہ کرام میں سے بعض سفر میں چار رکعت پڑھتے تھے اور بعض دو رکعت کرکے پڑھتے تھے اور بعض روزہ رکھتے تھے بعض روزہ نہ رکھتے تھے تو ان میں سے کوئی بھی ایک دوسرے پر عیب و ملامت نہ کرتا تھا

(استاد بخاری المصنف روایت8190)

.

 «إِنْ قَصَرْتَ فَرُخْصَةٌ، وَإِنْ شِئْتَ أَتْمَمْتَ»

 سفر میں اگر اپ چاہیں تو تو اپ کو رخصت ہے کہ دو رکعت فرض پڑھیں اور اگر اپ چاہیں تو چار رکعت فرض مکمل ہی پڑھیں

(استاد بخاری المصنف روایت8191)

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.