صلواۃ التسبیح کی فضیلت اور پڑھنے کے دو طریقے اور نفل کی جماعت کا ثبوت

https://tahriratehaseer.blogspot.com/2023/04/blog-post_17.html

*#صلواۃ التسبیح پڑھنے کے دو طریقے اور نفل کی جماعت کرانے کی دلیل بخاری سے اور ایک پیسہ یا ایک روپیہ یا ایک ڈالر وغیرہ ایک کے بدلے دو کروڑ سے بھی زیادہ ثواب کا سنہری موقعہ.......؟؟*

سوال:

ایک بھائی کی وائس میں سوال کا خلاصہ:

محسن اہلسنت علامہ عنایت اللہ حصیر صاحب صلواۃ التسبیح کے متعلق حدیث پڑھی اس میں تو لکھا ہے کہ پہلے قراءت کرنی ہے پھر تسبیح پڑھنی ہے جبکہ ہم تو پہلے سبحانک اللھم پڑھتے ہیں پھر تسبیح پڑھتے ہیں پھر قراءت کرتے ہیں...یہ دوسرا طریقہ کہاں سے ثابت ہے....؟؟

.

*#جواب......!!*

نہ نہ یہ احسان نہیں کر رہا کہ میں محسن اہلسنت کہلاؤں، بعض احباب پی ڈی ایف بناتے وقت محقق اہلسنت مجھے لکھتے ہیں ، بعض احباب رئیس التحریر مجھے لکھتے ہیں جبکہ میں تو صرف ادنی سا خادم ہوں....اللہ تعالیٰ دین متین مسلک حق اہلسنت کا کام لے لے، بہت لے لے اور شرف قبولیت عطاء فرمائے،میں تو علامہ بھی خود کو نہیں سمجھتا، یہ تو میرے اساتذہ کرام کا حکم ہے کہ تحریر کے اخر میں نام کے ساتھ علامہ لکھوں تاکہ پڑھنے والے کو تسلی ہو کہ کسی عام آدمی کی ایسی ویسی تحریر نہیں نیز علامہ لکھنے کا یہ بھی فائدہ ہوگا کہ لوگ اپنے مسائل وغیرہ کے معاملے میں رابطہ کریں گے علمی فائدہ اٹھائیں گے

.

اللہ بہتر جانتا ہے کہ میں اگر اپنے نام کے ساتھ علامہ لکھتا ہوں تو علامہ ہونے کا غرور اور تکبر نہیں ہے غرور و تکبر کی وجہ سے نہیں لکھتا ہوں۔۔۔عالم ہونے کا جتانے کے لیے نہیں لکھتا ہوں۔۔۔بلکہ میرے استاد محترم نے مجھے یہ اجازت دی بلکہ حکم دیا کہ تحریر  میں نام کے ساتھ علامہ لکھو

کیونکہ

تحریر پھیلتے پھلتے نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے اگر علامہ نہیں لکھا ہوگا تو لوگوں کو زیادہ اطمینان حاصل نہ ہوگا لوگ سمجھیں گے کہ یہ شاید کسی عام مولوی لکھاری کی تحریر ہے جبکہ علامہ لکھا ہوگا تو تحریر میں وزن پڑے گا کہ یہ حوالہ جات معتبر اور درست ہیں کسی جاننے والے نے علامہ نے لکھے ہیں اور مزید اس کی یہ بھی فوائد ہوں گے کہ لوگ اعتراضات وغیرہ مسائل وغیرہ میں رہنمائی لیں گے

.

  فتاوی عالمگیری میں ہے کہ:

لا بأس للعالم أن يحدث عن نفسه بأنه عالم ليظهر علمه فيستفيد منه الناس وليكن ذلك تحديثا بنعم الله تعالى

(فتاوی عالمگیری جلد5 صفحہ377)

.

صاحبِ بہار شریعت خلیفہ اعلی حضرت اسکا تشریحی ترجمہ کرتے ہوے فرماتے ہیں:

عالم اگر اپنا عالم ہونا لوگوں پر ظاہر کرے تو اس میں حرج نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ تفاخر کے طور پر یہ اظہار نہ ہو

(کہ تفاخر حرام ہے)

بلکہ محض تحدیثِ نعمت الٰہی کے لیے یہ اظہار ہو اور یہ مقصد ہو کہ جب لوگوں کو ایسا معلوم ہوگا تو استفادہ کریں گے کوئی دین کی بات پوچھے گا اور کوئی پڑھے گا

(فتاوی عالمگیری جلد5 صفحہ377)

(بہار شریعت جلد3 حصہ16 صفحہ627)

.

صلواۃ التسبیح پڑھنے کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ دو طریقے ہیں.... جو عام رائج ہے اسے پڑھنا بہتر ہے تاکہ عوام تشویش میں مبتلا نہ ہو، یہاں پاکستان میں طریقہ دوئم رائج و مشھور ہے... ہاں البتہ جب علم خوب پھیل جائے کہ دو طریقے ہیں دونوں میں سے کبھی وہ کبھی دوسرا طریقہ پڑھا جائے تاکہ دونوں پے عمل ہو،  جب یہ بات مسئلہ مشھور ہوجائے تو پھر دونوں طریقوں میں سے کسی بھی طریقے پر پڑھیے حرج نہیں......!!

.

پہلا طریقہ:

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ : " يَا عَبَّاسُ، يَا عَمَّاهْ، أَلَا أُعْطِيكَ، أَلَا أَمْنَحُكَ، أَلَا أَحْبُوكَ ، أَلَا أَفْعَلُ بِكَ عَشْرَ خِصَالٍ إِذَا أَنْتَ فَعَلْتَ ذَلِكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ ذَنْبَكَ ؛ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ، قَدِيمَهُ وَحَدِيثَهُ، خَطَأَهُ وَعَمْدَهُ، صَغِيرَهُ وَكَبِيرَهُ، سِرَّهُ وَعَلَانِيَتَهُ ؟ عَشْرَ خِصَالٍ : أَنْ تُصَلِّيَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، تَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ وَسُورَةً، فَإِذَا فَرَغْتَ مِنَ الْقِرَاءَةِ فِي أَوَّلِ رَكْعَةٍ وَأَنْتَ قَائِمٌ قُلْتَ : سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً، ثُمَّ تَرْكَعُ فَتَقُولُهَا وَأَنْتَ رَاكِعٌ عَشْرًا، ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَكَ مِنَ الرُّكُوعِ فَتَقُولُهَا عَشْرًا، ثُمَّ تَهْوِي سَاجِدًا فَتَقُولُهَا وَأَنْتَ سَاجِدٌ عَشْرًا، ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَكَ مِنَ السُّجُودِ فَتَقُولُهَا عَشْرًا، ثُمَّ تَسْجُدُ فَتَقُولُهَا عَشْرًا، ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَكَ فَتَقُولُهَا عَشْرًا، فَذَلِكَ خَمْسٌ وَسَبْعُونَ، فِي كُلِّ رَكْعَةٍ تَفْعَلُ ذَلِكَ فِي أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ، إِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تُصَلِّيَهَا فِي كُلِّ يَوْمٍ مَرَّةً فَافْعَلْ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِي كُلِّ جُمُعَةٍ مَرَّةً، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِي كُلِّ شَهْرٍ مَرَّةً، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِي كُلِّ سَنَةٍ مَرَّةً، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِي عُمُرِكَ مَرَّةً "

ترجمہ:


سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ، اے عباس ، اے میرے چچا ! کیا میں آپ کو تحفہ نہ دوں ، کیا میں آپ کو گراں مایہ چیز مفت میں عطا نہ کردوں ، کیا میں آپ کے لیے دس خصلتیں بیان نہ کردوں کہ جب آپ ان کو کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کے اول وآخر ، قدیم وجدید ، غلطی سے سر زد ہونے والے اورجان بوجھ کر کیے ہوئے ، صغیرو کبیرہ ، مخفی وظاہری تمام گناہ معاف کردے ؟ وہ دس خصلتیں یہ ہیں کہ آپ چار رکعات ادا کریں۔ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ اورایک سورت پڑھیں ، پھرپہلی رکعت میں قرائت سے فارغ ہوکر قیام کی حالت میں ہی پندرہ دفعہ یہ دعا پڑھیں : سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ، وَلاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ (اللہ تعالیٰ پاک ہے ، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے)، پھر آپ رکوع کریں اور(رکوع کی تسبیحات کے بعد)رکوع کی حالت میں دس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھرآپ رکوع سے سراٹھائیں اور دس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھر آپ سجدے کے جھک جائیں اور سجدے کی حالت میں (تسبیحات کے بعد)دس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھر آپ سجدے سے اپنا سراٹھائیں اور دس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھر آپ دوسرا سجدہ کریں اوردس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھرآپ سجدے سے سر اٹھائیں اوردس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ۔ یہ ہررکعت میں کل پچھتر تسبیحات ہوجائیں گی ۔ چاروں رکعتوں میں اسی طرح کریں ۔ اگر آپ روزانہ یہ نماز پڑھ سکتے ہیں تو روزانہ پڑھیں ، ورنہ ہر ہفتے ، ورنہ ہر مہینے ایک مرتبہ پڑھ لیں ۔ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو سال میں ایک مرتبہ اوراگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو زندگی میں ایک مرتبہ یہ نماز پڑھ لیں۔

(ابوداود حدیث1297)

.

*#دوسرا طریقہ......!!*

یہ طریقہ پاکستان میں رائج و مشھور ہے

فضیلت وہی ہے جو اوپر حدیث میں ہے بس فرق ہے تو تھوڑا سا فرق ہے...فرق یہ ہے کہ پہلے طریقے میں پہلے قرات کرتے ہیں پھر تسبیح پڑھتے ہیں جبکہ اس طریقہ میں پہلے سبحانک اللھم کے بعد تسبیح پڑھتے ہیں پھر قراءت کرتے ہیں...یہ طریقہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا

وَأَمَّا حَدِيثُ عَلِيِّ ابْنِ أَبِي طَالِبٍ، فَأَخْرَجَهُ الدَّارَقُطْنِيُّ مِنْ طَرِيقِ عُمَرَ مَوْلَى غُفْرَةَ بِضَمِّ الْمُعَجْمَةِ وَسُكُونِ الْفَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيِّ ابْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «يَا عَلِيُّ! أُلَا أَهْدِي لَكَ؟ . . .» ، وَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَفِيهِ: حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ يُعْطِينِي جِبَالَ تِهَامَةَ ذَهَبًا، قَالَ: " إِذَا قَمْتُ إِلَى الصَّلَاةِ، فَقُلْ: اللَّهُ أَكْبَرُ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً. . . "، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَهَذَا يُوَافِقُ مَا نُقِلَ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ مِنْ تَقَدُّمِ الذِّكْرِ عَلَى الْقِرَاءَةِ

امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ امام دارقطنی نے سند کے ساتھ سیدنا علی سے روایت کی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صلواۃ التسبیح کا طریقہ و فضیلت بتائی....یہ وہی طریقہ ہے بس فرق یہ ہے کہ پہلے تسبیح پڑہیں گے پھر قراءت کریں گے جیسے کہ امام ابن مبارک نے طریقہ بتایا(جوکہ ترمذی میں بھی ہے...ہم نیچے وہ طریقہ مکمل لکھ رہے ہیں)

(دارقطنی،أمالي الأذكار ابن حجر33)

.

سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَكِ عَنِ الصَّلَاةِ الَّتِي يُسَبَّحُ فِيهَا، فَقَالَ : يُكَبِّرُ ثُمَّ يَقُولُ : سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ، وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ، ثُمَّ يَقُولُ - خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً - : سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ يَتَعَوَّذُ وَيَقْرَأُ : بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَفَاتِحَةَ الْكِتَابِ، وَسُورَةً، ثُمَّ يَقُولُ - عَشْرَ مَرَّاتٍ - : سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ يَرْكَعُ فَيَقُولُهَا عَشْرًا، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيَقُولُهَا عَشْرًا، ثُمَّ يَسْجُدُ فَيَقُولُهَا عَشْرًا، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيَقُولُهَا عَشْرًا، ثُمَّ يَسْجُدُ الثَّانِيَةَ فَيَقُولُهَا عَشْرًا، يُصَلِّي أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ عَلَى هَذَا، فَذَلِكَ خَمْسٌ وَسَبْعُونَ تَسْبِيحَةً فِي كُلِّ رَكْعَةٍ، يَبْدَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِخَمْسَ عَشْرَةَ تَسْبِيحَةً، ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يُسَبِّحُ عَشْرًا

امام ابن مبارک نے

صلواۃ التسبیح کا طریقہ یہ بتایا کہ تکبیر تحریمہ کہیں پھر سبحانک اللھم پوری پڑھیں پھر پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑہیں

سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ،


پھر اعوذ باللہ پھر بسم اللہ پوری پڑہیں پھر سورہ فاتحہ پھر کوئی سورت تلاوت کریں پھر دس دفعہ وہ تسبیح پڑہیں

پھر رکوع میں دس دفعہ تسبیح پڑہیں

پھر رکوع سے کھڑے ہوکر دس دفعہ تسبیح پڑہیں

پھر سجدہ میں دس دفعہ تسبیح پڑہیں

پھر سجدہ سے اٹھ کر دس دفعہ تسبیح پڑہیں پھر سجدے میں جائیں دس دفعہ تسبیح پڑہیں

پھر اسی طریقے پر چار رکعت پڑہیں ہر رکعت میں 75دفعہ تسبیح پڑھ چکے ہونگے...پہلے تسبیح پڑہیں پھر قراءت کریں

(ترمذی روایت481)

.

*#صلواۃ التسبیح یا دیگر نوافل کی جماعت کرانے کی کیا دلیل و حکم ہے......؟؟*

بخاری باب نوافل کی جماعت میں ایک واقعے کے ساتھ حدیث پاک ہے کہ ایک صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ بارش سیلاب ندی وغیرہ مجبوریوں کی وجہ سے کبھی مسجد نہیں جا پاتا تو آپ صلی اللہ علیک وسلم میرے گھر تشریف لائیں اور گھر کے ایک مخصوص حصے میں نماز ادا کریں تاکہ اس جگہ.کو میں نماز کے لیے خاص کر دوں.. آپ علیہ السلام اگلے دن سیدنا ابوبکر صدیق کے ہمراہ انکے گھر تشریف لے گئے.. پھر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کس جگہ نماز پڑھوں.. انہوں نے گھر کا ایک خاص حصہ کی طرف اشارہ کیا.. صحابہ کرام نے صف باندھی اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے  نفل کی جماعت کرائی..

(بخاری حدیث1186ملخصا)

.

اس حدیث کے تحت بہت سارے مسائل علماء نے ثابت کیے ہیں.. شارح بخاری علامہ عینی نے کوئی 55فوائد و مسائل ثابت کیے.. ان میں سے چند یہ ہیں

1:نفل کی جماعت کا ثبوت

2:تبرکات کا ثبوت

3:واقعی مجبوری ہوتو گھر میں فرض ادا کرنے کا ثبوت

4:بڑوں،بزرگوں کا ادب اور چھوٹوں پر ماتحتوں پر شفقت

5:سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت

.

نوافل صلواۃ التسبیح وغیرہ الگ بھی پڑھنا چاہیے اور جماعت کے ساتھ بھی پڑھ سکتے ہیں.. بلکہ دونون پر عمل کرنا چاہیے ڈبل ثواب ہوگا.. ان.شاء.اللہ

فقہ کی تقریبا ہر کتاب مین لکھا ہے کہ:

کبھی کبھار نفل کی جماعت ہوجایا کرے.. یا بغیرتداعی کے نوافل کی جماعت ہوتو جائز و ثواب ہے،اگر تداعی ہو تو مکروہ تنزیھی ہے مگر گناہ نہیں..

(دیکھیے فتاوی شامی جلد2 صفحہ604... فتاوی رضویہ جلد7 صفحہ430)

.

تداعی مطلب خاص نوافل کی جماعت ہی کے لیے بلانا...عام اجتماعات میں خاص نوافل ہی کے لیے نہین بلایا جاتا بلکہ اسلامی محفل کے لیے بلایا جاتا ہے اور ضمنا نوافل کی جماعت کرائی جاتی ہے

لیکن

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ تداعی کے ساتھ جماعت ہو تو بھی عوام کو مت روکو...تداعی کے ساتھ نوافل عبادت کرنے دو، یہی فی زمانہ بہتر ہے کہ ممانعت قطعی نہیں اور ترغیب و تکثیر بھی ہے

.

فتاوی رضویہ میں در مختار اور الحدیقہ الندیہ کے حوالے سے ہےکہ:

ًبہت اکابردین سے جماعت نوافل بالتداعی ثابت ہے اور عوام فعل خیر سے منع نہ کئے جائیں گے علمائے امت وحکمائے ملت نے ایسی ممانعت سے منع فرمایا ہے درمختارمیں ہے:

اما العوام فلایمنعون من تکبیر والتنفل اصلا لقلۃ رغبتھم فی الخیرات(عوام کو تکبیرات اور نوافل سے کبھی بھی منع نہ کیاجائے کیونکہ پہلے ہی نیکیوں میں ان کی رغبت کم ہوتی ہے)حدیقہ ندیہ میں ہے:

ومن ھذا القبیل نھی الناس عن صلٰوۃ الرغائب بالجماعۃ وصلٰوۃ لیلۃ القدر ونحوذلك وان صرح العلماء بالکراھۃ بالجماعۃ فیھا فلایفتی بذلك العوام لئلا تقل رغبتھم فی الخیرات وقد اختلف العلماء فی ذلك فصنف فی جوازھا جماعۃ من المتاخرین وابقاء العوام راغبین فی الصلٰوۃ اولٰی من تنفیرھم

اسی قبیل سے نماز رغائب کاجماعت کے ساتھ اداکرنا اور لیلۃ القدر کے موقع پر نماز وغیرہ بھی ہیں اگرچہ علماء نے ان کی جماعت کے بارے میں کراہت کی تصریح کی ہے مگر عوام میں یہ فتوٰی نہ دیاجائے تاکہ نیکیوں میں ان کی رغبت کم نہ ہو، علماء نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے اور متاخرین میں سے بعض نے اس کے جواز پر لکھا بھی ہے، عوام کونماز کی طرف راغب رکھنا انہیں نفرت دلانے سے کہیں بہتر ہوتا ہے

(فتاوی رضویہ جلد 7 ص,465,466, در مختار1/144 الحدیقۃ الندیہ2/150ملتقطا)

.

*مسجد میں جمع ہوکر قرآن و حدیث فقہ وغیرہ کا درس سننا سنانا علم پڑھنا پڑھانا نوافل پڑھنا پڑھانا ذکر و اذکار کرنا حقیقتا بدعت نہیں یا بری بدعت نہیں کہ ان سب کی اصل یہ دو احادیث مبارکہ بھی ہیں*

حدیث①

وما اجتمع قوم في بيت من بيوت الله يتلون كتاب الله ويتدارسونه بينهم إلا نزلت عليهم السكينة وغشيتهم الرحمة وحفتهم الملائكة، وذكرهم الله فيمن عنده

 لوگ جمع ہو کر اللہ کے گھر(مسجد) میں تلاوت کریں، قرآن (اور قرآن کے متعلقات یعنی حدیث فقہ و تصوف وغیرہ کا) درس دیں وعظ و بیان کریں تو ان پر اللہ کی رحمت اترے گی اور رحمت ان کو ڈھانپ لے گی اور فرشتے ان کو گھیر لیں گے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر کرے گا اپنے پاس رہنے والوں میں (یعنی فرشتوں میں)

(مسلم حدیث6853)

.

حدیث②

" لا يقعد قوم يذكرون الله عز وجل إلا حفتهم الملائكة، وغشيتهم الرحمة، ونزلت عليهم السكينة وذكرهم الله فيمن عنده "،

‏‏‏‏ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لوگ(مسجد یا کسی اور جگہ مل)بیٹھ کر اللہ کا ذکر کریں تو ان کو فرشتے گھیر لیتے ہیں اور رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور سکینہ (اطمینان اور دل کی خوشی) ان پر اترتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرشتوں میں ان کا ذکر کرتا ہے

(مسلم حدیث6855)

.

 ان دونوں احادیث مبارکہ اور دیگر احادیث مبارکہ سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ہر دن یا کسی وقت یا مخصوص ایام و راتوں میں مسجد یا کسی جگہ مل بیٹھ کر قران پڑھنا سننا، ذکر کرنا وعظ تقریر کرنا سننا، علم پھیلانا، نوافل عبادات پڑھنا پڑھانا وغیرہ یہ سب کچھ بری بدعت نہیں جائز و ثواب ہے...کیونکہ یا نیا اچھا طریقہ بدعت نہین کہ اسکی اصل مذکوعہ احادیث ہیں

.

*#ایک پیسہ یا ایک روپیہ یا ایک ڈالر وغیرہ ایک کے بدلے دو کروڑ سے بھی زیادہ.......؟؟*

آج رات مغرب کے بعد خوب خوب پیسہ خرچ کیجیے اللہ کی راہ میں....فطرانہ زکواۃ نفلی صدقہ تعاون کیجیے سچے اہلسنت علماء لکھاری مدرسین خطباء امام مسجد کو خوب پیسہ آج کی رات دیجیے، معتبر مدرسہ اہلسنت کے لیے خوب پیسہ دیجیے آج کی رات

کیونکہ

آج کی رات کے متعلق قوی امکان ہے کہ شب قدر ہے اور شب قدر ایک ہزار مہینے سے افضل ہے گویا ایک کے بدلے ایک ہزار مہینے جتنا ثواب....ہر مہینہ تیس انتیں کا ہوتا ہے تو

1×30×1000=30,000

اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا ثواب ایک کے بدلے سات سو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ثواب ہے تو

30000×700=21000000

.

تو ایک کے بدلے دو کروڑ سے بھی زیادہ خرچ کرنے کا ثواب....سنہری موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیجیے

.

دلائل:

القران:

لَیۡلَۃُ  الۡقَدۡرِ ۬ ۙ خَیۡرٌ  مِّنۡ  اَلۡفِ شَہۡرٍ ؕ

ترجمہ:شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے

(سورہ قدر آیت3)

.

وَقيل: سبع وَعشْرين، وَهُوَ قَول جمَاعَة من الصَّحَابَة،

جماعت ِصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کےمطابق امیدِ قوی ہےکہ شب قدر ستائیس رمضان کی رات ہے

(عمدۃ القاری شرح بخاری1/225)

.

لَيْلَةُ صَبِيحَةِ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ

سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے(رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعا یا معنا یا روایتا یا اجتہادا)فرمایا کہ شب قدر ستائیس رمضان کی رات ہے

(مسلم روایت762)

.

عن معاوية بن أبي سفيان، عن النبي صلى الله عليه وسلم في ليلة القدر قال: «ليلة القدر ليلة سبع وعشرين

ترجمہ:

حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے لیلۃ القدر کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے(سماعا یا معنا یا روایتا یا اجتہادا) کہا ہے کہ رمضان کی ستائیسویں رات شب قدر ہے

(ابو داؤد حدیث1386)

.

القرآن:

مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ  وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ

ان کی مثال جو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے اگائیاں سات بالیں ہر بال میں سو دانے  اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے

(سورہ بقرہ آیت261)

اللہ کی راہ خرچ کرنے کی اتنی فضیلت و ثواب ہے کہ ایک کے بدلے سات سو بلکہ اس سے بھی زیادہ اور شب قدر میں خرچ کرنا ایک ہزار مہینے جتنا خرچ کرنا ہے تو ایک کے بدلے دو کروڑ سے بھی زیادہ ثواب.....اور اہلسنت مدارس و طلباء علماء پر خرچ کرنا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے

.

فمن أنفق ماله فى طلبة العلم صدق انه أنفق فى سبيل الله

 پس جس نے طالب علموں(مدارس علماء طلباء) پر صدقہ(زکوٰۃ فطرہ کفارہ نفلی صدقہ مال)خرچ کیا بےشک اس نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا

(التفسير المظهري ,4/239)

تو اہلسنت مدارس پر طلباء پر خرچ کیجیے اور ایک کے بدلے دو کروڑ بھی زیادہ ثواب کمائیے....صدقے کے اور برکات بھی ہیں مثلا بلائیں دور ہوتی ہیں، رزق میں برکت ہوتی ہے،راحت و سکون ملتا ہے،کنجوسی وغیرہ باطنی امراض سے نجات ملتی ہے اور بھی بے شمار برکات ہیں

تو

پھر دیر کس بات کی.....؟؟ رمضان کی طاق راتوں اور بالخصوص اج ستائیس رمضان میں خوب پیسہ پانی کی طرح بہاءییے ڈھیروں اجر سکون رات و دعائیں پائیے اور اس کے ساتھ ساتھ عبادات ذکر ازکار بھی کیجیے، فرج واجب سنتوں مستحبات نیکیوں پے عمل کرتے رہیے اور گناہوں سے پچتے رہیے اور توبہ استغفار کرتے رہیے اور اللہ سے قبولیت کی امید رکھیے اور خوف خدا بھی رکھیے، اللہ کے قہر و عذاب و ناراضگی سے پناہ طلب کیجیے......!!

.

فطرانہ رسول کریم.صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا ہے ایک صاع کجھور یا جؤ یا آدھا صاع گندم

(ابو داود حدیث نمبر1622)

صاع ایک پیمانہ ہے.. آج کل کے وزن کے حساب سے ایک صاع میں تقریبا 4کلو 100گرام پڑتے ہیں.. اور آدھے صاع میں 2 کلو50 گرام پڑتے ہیں..اس طرح چار کلو سو گرام کجھور یا جؤ... یا دوکلو پچاس گرام گندم یا گندم کا آٹا

یا

مذکورہ چیزوں میں سے کسی کی قیمت ادا کرنا صدقہ فطر اور فطرانہ کہلاتا ہے(از فتاوی فیض الرسول 1/510)

مختلف ممالک علاقوں شہر صوبے میں ان چیزوں کے ریٹ مین کچھ کمی بیشی ہوتی ہے تو اس لیے فطرانہ کی رقم میں بھی کمی بیشی ہوتی ہے....اپنے علاقے میں مذکورہ اشیاء کی مذکورہ مقدار کا ریٹ پوچھیے اور احتیاطاً اس سے تھوڑا زیادہ رقم مکس کرکے فطرانہ ادا کیجیے

.

اپنے مال کا چالیسواں حصہ زکواۃ ادا کرو..(ابو داود حدیث نمبر 1572)کل رقم کو چالیس پر تقسیم کریں جو جواب آئے وہ زکواۃ ہے.......!!

.

شب قدر کی فضیلت اور شب بیداری کرنے کے کچھ اعمال اور بدعت کی تفصیل اوپر دی گئ لنک پے پڑہیے...!!

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

old but working whatsap nmbr

03468392475

00923468392475

New but second whatsapp nmbr

03062524574

00923062524574

رابطہ اولڈ وٹس اپ نمبر پے فرماءیے مگر دونوں نمبر سیو رکھیے اور گروپس میں بھی دونون نمبر شامل کرکے ایڈمین بنا دیجیے کہ پرانہ نمبر کبھی کبھار گربڑ کرتا ہے تو نیو نمبر سے دینی خدمات جاری رکھ سکیں...جزاکم اللہ خیرا

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.