*#دیوبندی ہے یا منکر سیکیولر مردود۔۔۔؟؟وہابیت نجدیت لال رومال غیرمقلدیت مرزائیت نیچری مودودیت سرسیدیت مرزا جہلمیت اہلحدیثیت اور الحاد و سیکیولر ازم۔۔۔۔؟؟۔۔۔۔۔ انتہائی اہم ترین تحریر ہے ضرور ضرور ضرور مکمل پڑھیے وقت نکالیے جزاکم اللہ خیرا۔۔۔۔۔۔۔!!*
تمھید:
دیکھیں اہل سنت اور دیوبند کے درمیان اختلافات ہیں مگر کئ اختلافات تو ایسے ہیں کہ جو بالکل برداشت کے قابل ہے اور حل ہونا چاہیے لیکن ہم دونوں کا بہت بڑا دشمن سیکولر طبقہ ہے جو نہ کسی خدا کو مانتا ہے نہ کسی رسول کو مانتا ہے۔۔۔۔نہ کسی معجزے کو مانتا ہے نہ کرامت کو مانتا ہے۔۔۔۔نہ دعا کو مانتا ہے نہ تعویز کو مانتا ہے۔۔۔۔۔ لیکن دیوبند کے کئ چوٹی کے علماء محقق مناظر اہم عہدےدار ہوتے ہیں ہماری تحقیق کے مطابق وہ ان سیکولروں کے ایجنٹ ہوتے ہیں پس پردہ لامذہبیت گستاخیاں پھیلاتے ہیں انبیاء کرام علیہ السلام سے اور اولیاء کرام سے نفرت کروانا ان کا پس پردہ ایجنڈا ہوتا ہے
لیکن
عام دیوبندی اکثر ایسا نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ ہم نے ایسے بہت سارے دیوبندی دیکھے ہیں جو فقط اس لیے دیوبندی کہلاتے ہیں کہ مزار کو سجدہ کرتے ہیں سنی اس لیے ہم دیوبندی ہیں۔۔۔۔پیر صاحب کو سنی پوجتے ہیں ہم نہیں کرتے ہم دیوبندی ہیں۔۔۔۔ اس طرح کی جو اہل سنت کے بیچارے کم علم لوگ خرافات کرتے ہیں ان کو نہ مان کر دیوبندی کہلاتے ہیں۔۔۔۔۔ ایسے دیوبندی بھائیوں کو سمجھایا جائے گا کہ بھائی اپ اصل سنی کہلائیں کیونکہ اصل سنی ایسی خرافات جاہلیات نہیں کرتے بلکہ وہ تو روکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔عام دیوبندی کو اکثر طور پر وہ اختلافات پتہ ہی نہیں جو اصل اختلافات اہل سنت و دیوبند میں ہیں۔۔۔ اس پر پھر کبھی تفصیل سے لکھیں گے
فالحال
یہ تحریر ایک دیوبندی کی پڑھیں جو اپنے اپ کو بڑا تیس مار خاں سمجھتا ہے اس نے لکھی ہے ۔۔۔۔۔۔اور دل پر ہاتھ رکھ کر ضمیر سے پوچھیں کہ یہ برحق سچے بادب مسلمان کی تحریر ہے یا کسی منکر سیکولر مردود باطل ملحد کی تحریر ہے۔۔۔۔۔۔؟؟
۔
دیوبندی محقق صاحب قبلہ امیر اہل سنت الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کی تصویر لگا کر اس پر تبصرہ کرتے ہوا لکھتا ہے کہ:
کل میں الیاس قادری صاحب کی ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں وہ میز پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے انکے ایک مقلد نے ان سے پوچھا بابا جانی آپ پہلے نیچے بیٹھ کر کھاتے تھے اور اب آپ میز پر بیٹھ کر کھا رہے ہیں تو الیاس قادری صاحب نے جواب دیا کہ انکے گھٹنے میں تکلیف رہتی ہے تو ڈاکٹر نے انکو نیچے بیٹھنے سے منع کیا ہے لہذا مفتی صاحب سے مشورہ کرنے کے بعد اب وہ میز پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور نماز بھی کرسی پر پڑھتے ہیں۔
اس میں کچھ یاددہانی ہے اور میرے لکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ سند ہو جائے۔
1 قادری صاحب کو درد ہوئی انہوں نے درد والی جگہ پر ہاتھ رکھ کر وہ بابا جی کے ٹھلو والا دم نہیں کیا بلکہ ڈاکٹر کے پاس گئے۔
2 قابل غور بات یہ ہے کہ قادری صاحب مر کر نہیں بلکہ زندہ ہوتے ہوئے کسی دوسرے کی نہیں بلکہ اپنی تکلیف کو دور نہیں کر سکے۔
3 بلکہ قادری صاحب کو درد ہوا تو انہوں نے اس فیلڈ کے انسان سے رابطہ کیا نہ کسی دربار پر گئے نہ کوئی تعویز لیا کیونکہ انکو پتہ ہے اس مسئلہ کا حل کوئی زندہ اور اسی فیلڈ کا بندہ کر سکتے ہیں۔
4 قادری صاحب کسی مردہ ڈاکٹر کی قبر پر بھی نہیں گئے۔ بلکہ زندہ ڈاکٹر کے کلینک پر گئے۔اھل عقل کیلئے اسمیں نشانیاں
۔
*#دیوبندی کو جواب۔۔۔۔۔۔!!*
دیوبندی نے لکھا، کہ:
قادری صاحب کو درد ہوئی انہوں نے درد والی جگہ پر ہاتھ رکھ کر وہ بابا جی کے ٹھلو والا دم نہیں کیا بلکہ ڈاکٹر کے پاس گئے۔
۔
*#جواب*
الحدیث ملخصا:
دلیل1۔۔۔۔بےشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات میں جب اپنے بستر پر تشریف لے جاتے تو اپنے ہاتھ جمع کرکے ان میں پھونکتے جن میں"قل ھو ﷲ احد"اور"قل اعوذ برب الفلق"اور"اعوذ برب الناس"پڑھتے پھر جسم کے جس حصہ تک ہوسکتا وہ ہاتھ پھیرتے اپنے سر مبارک اور چہرے پاک کے سامنے والے حصے سے شروع فرماتے یہ تین بار کرتے تھے
(بخاری حدیث5012 ترمذی حدیث3402)
۔
دلیل2۔۔۔۔۔الحدیث:
ثُمَّ دَعَا بِمِلْحٍ وَمَاءٍ فَجَعَلَهُ فِي إِنَاءٍ، ثُمَّ جَعَلَ يَصُبُّهُ عَلَى إِصْبَعِهِ حَيْثُ لَدَغَتْهُ وَيَمْسَحُهَا وَيُعَوِّذُهَا بِالْمُعَوِّذَتَيْنِ»
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ نمک پانی لگاتے جہاں بچھو نے ڈنک لگایا تھا اور ساتھ میں قل شریف پڑھتے دم کرتے جاتے
(دیکھیے المصنف لاستاذ البخاری7/398)
.
شرم سے ڈوب مر منکر مردود دیوبندی۔۔۔۔۔ جس چیز کو تو بابا جی کا ٹھلو کہہ رہا ہے وہ تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ سے ثابت ہونے والا دم ہے۔۔۔۔تجھے شرم نہیں اتی۔۔۔کچھ تو تحقیق کی ہوتی۔۔۔۔۔کچھ تو پڑھا ہوتا۔۔۔۔توبہ کر اپنے جملے سے اعلانیہ توبہ ورنہ کفر کا فتوی خود بخود لگے گا، گستاخ ہونے کا فتوی خود بخود لگ جائے گا تم پر۔۔۔۔۔میں کون ہوتا ہوں اپنی طرف سے فتوی لگانے والا
.
*#کیا قبلہ الیاس قادری نے خود پے دم نہیں کیا یا دم نہیں کرایا فقط ڈاکٹر سے علاج کرایا۔۔۔۔۔۔؟؟*
دیوبندی کے اعتراض میں واضح ہے وہ کہہ رہا ہے کہ قبلہ الیاس قادری نے دم خود پر نہیں کیا اور نہ ہی کسی اور سے دم کرایا بلکہ ڈاکٹر کے کہنے پر چل پڑے۔۔۔۔۔ ویسے تو یہ دیوبندی نجدی علم غیب کے منکر ہوتے ہیں مکاشفہ مراقبہ وغیرہ کے منکر ہوتے ہیں لیکن قبلہ الیاس قادری امیر اہل سنت کے متعلق یہ کیسے جان لیا کہ انہوں نے دم نہیں کرایا۔۔۔۔؟؟ تمہارے پاس یہ علم غیب کی خبر کہاں سے ائی۔۔۔۔۔؟؟ ویڈیو میں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے کہ میں نے دم نہیں کرایا۔۔۔۔۔؟؟ لامحالہ یہ کہنا پڑے گا کہ یہ تمہاری بدگمانی ہے ، واہیات گندی سوچ و گناہ ہے ، بہتان ہے کیونکہ ڈاکٹر کے علاج پہ چلنے کا یہ ہرگز مطلب نہیں بنتا کہ بندہ دم بھی نہ کراتا ہو بلکہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو دوا دعا دم پرہیز تینوں چیزوں کی تاکید فرمائی ہے کہ نہ جانے کس وسیلے سے اللہ کریم شفا عطا فرمائے
۔
الحدیث:
أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رُقًى نَسْتَرْقِيهَا وَدَوَاءً نَتَدَاوَى بِهِ وَتُقَاةً نَتَّقِيهَا، هَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ شَيْئًا ؟ فَقَالَ : " هِيَ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ
ایک شخص نے رحمتِ عالم ﷺ کے حضور عرض کی :
یا رسول اللہ۔۔۔۔یہ جو دم(قرآن ، سنت ، حدیث وغیرہ ماثورہ وغیرہ دم درود دعائیں) ہیں، جن کےساتھ ہم دم کرتے ہیں ، اور دوائیں ، جن کے ذریعے علاج کرتے ہیں ، اور حفاظت و احتیاط و پرہیز کہ جن کے ذریعے ہم اپنا بچاؤ کرتے ہیں ؛ کیا یہ تقدیرِ الہی کو ٹال سکتے ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
یہ تو خود اللہ کی تقدیر سے ہیں ۔(یعنی دعا دوا پرہیز و احتیاط سب کو اپنانا چاہیے کہ نہ جانے کس وسیلے سے شفاء و راحت مل جائے)۔۔۔۔۔(ترمذی ،حدیث2148)
۔
اور اوپر دلیل نمبر ایک میں حدیث پاک گزری کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نمک پانی لگاتے جاتے یعنی دوا کرتے جاتے اور اس کے ساتھ ساتھ دم بھی فرماتے جاتے دونوں حدیثوں سے ثابت ہوا کہ اگر کوئی علاج کرائے دوا کرائے احتیاط کرے پرہیز کرے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دم درود کا منکر ہے بلکہ سنت کے پیروکار کے متعلق حسن ظن رکھنا واجب ہے کہ وہ خود پر خود دم بھی فرماتے ہوں گے یا کسی سید مفتی عالم سے دم کرواتے ہوں گے اور اس کے ساتھ ساتھ دوا علاج اور احتیاط بھی اپناتے ہوں گے
لیھذا
لوگوں کو گمراہ کرنا کہ تمہارا الیاس قادری بابا جانی دم نہیں کراتا اور تم لوگوں کو دم کا کہتا ہے یعنی چونا لگاتا ہے تمھیں بے وقوف بناتا ہے نعوذ باللہ۔۔۔۔ایسا اعتراض کرنا واہیات ادمی کا کام ہے۔۔۔۔ حق اور حسن ظن یہی ہے کہ قبلہ الیاس قادری خود بھی دم فرماتے ہیں اور قوی امید ہے کہ کسی دوسرے سے بھی اپنے اوپر دم کرواتے ہوں گے اور اس کے ساتھ ساتھ دوا علاج پرہیز بھی کرتے ہیں اور اپنے مریدوں کو اور اپنے خلفاء کو یہ تلقین فرماتے ہوں گے کہ دعا تعویز بھی دو اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو مشورہ بھی دو کہ علاج بھی کرائیں پرہیز بھی کریں
۔
*#ہاتھ پاؤں لباس کرتہ چھڑی بال ممبر وغیرہ تبرکات کی برکتوں کا ثبوت اور دم جھاڑ پھونک کا ثبوت۔۔۔۔۔۔!!*
دیوبندی کی تحریر سے تو یہ ثابت ہو رہا ہے کہ ہاتھ پاؤں کی کوئی برکات نہیں ہوتی اولیاء کرام کے ہاتھ پھیر دینے سے کچھ نہیں ہوتا اور دیگر تبرکات وغیرہ کوئی چیز نہیں ان میں شفا نہیں اور جھاڑ پھونک وغیرہ کچھ بھی نہیں اس میں شفا نہیں
جبکہ
احادیث مبارکہ سے بلکہ ایات مبارکہ سے تبرکات ثابت ہیں اور جھاڑ پھونک بھی ثابت ہے دو احادیث مبارکہ اوپر لکھا ہے بقایہ کچھ دلائل و حوالہ جات پڑہیے۔۔۔۔۔۔ !!
.
دلیل3۔۔۔۔كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى الغداة، جاء خدم المدينة بآنيتهم فيها الماء، فما يؤتى بإناء إلا غمس يده فيها
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز پڑھتے تو مدینے کے(مختلف گھر و مقامات سے) خادم اپنے برتنوں میں پانی لے کر آتے،جو برتن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہاتھ(تبرک و شفاء کے لیے)اس میں ڈبو دیتے
(مسلم حدیث6042 بَابُ قُرْبِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّاسِ ، وَتَبَرُّكِهِمْ بِهِ وَتوَاضُعِهِ لَهُمْ......باب:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کے قریب ہونا اور لوگوں(صحابہ)کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک حاصل کرنا اور آپ علیہ الصلاۃ و السلام کی عاجزی و تواضع)
.
دلیل4۔۔۔۔۔نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام کے جبہ مبارک سے تبرک حاصل کرنا، اس کے وسیلے سے شفاء حاصل کرنا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے ثابت ہے...سیدہ بی بی اسماء سیدِ عالم کے جبہ مبارک کے بارے میں فرماتی ہیں
فنحن نغسلها للمرضى يستشفى بها
ترجمہ:
ہم اس جبے مبارک کا دھون مریضوں کے لیے بناتے ہیں تاکہ اس سے (یعنی دھون کو پی کر یا جسم پر لگا کر) شفاء حاصل کی جائے.. (مسلم تحت حدیث2069)
۔
دلیل5۔۔۔۔۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک سے تبرک حاصل کیا صحابہ کرام نے دیکھیے مسلم حدیث 1305 وغیرہ
۔
دلیل6۔۔۔۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس جگہ نماز ادا فرمائی اس جگہ کو بابرکت سمجھ کر تبرک حاصل کیا صحابہ کرام نے.... دیکھیے بخاری حدیث 1186 وغیرہ
۔
دلیل7۔۔۔۔ حجر اسود کو تبرک کے طور پر چومنا صحابہ کرام سے ثابت ہے.... دیکھیے بخاری حدیث1611 وغیرہ
۔
دلیل8۔۔۔۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبرک کے لیے اپنی قمیض مبارک عطا فرمائی۔ ۔ ۔ اور صحابہ کرام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیض مبارک تبرک کے طور پر شفایابی کے لیے استعمال کی۔ ۔۔۔۔ دیکھیے بخاری نسائی و مسلم2069 وغیرہ
۔
دلیل9۔۔۔۔۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مسواک مبارک سے تبرک لیا گیا.... دیکھیے ابو داؤد حدیث52وغیرہ
۔
دلیل10۔۔۔11۔۔۔12۔۔۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ممبر مبارک سے اور اپ کی انگوٹھی مبارک سے اور اپ کی چادر مبارک سے تبرک لیتے رہے صحابہ کرام علیہم الرضوان۔ ۔۔ دیکھیے تاریخ الخلفاء للسیوطی ص20وغیرہ
۔
دلیل13۔۔۔۔۔۔ بعض صحابہ کرام نے اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ مبارک سے تبرک حاصل کیا۔۔۔ دیکھیے بخاری حدیث6281 وغیرہ
۔
دلیل14۔۔۔۔۔ بعض صحابہ کرام نے اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناخن مبارک کو بطور تبرک قبر میں ان کے سینے پر انکھوں پر رکھنے کے لیے کہا.... دیکھیےأسد الغابة ,5/201 وغیرہ
۔
تبرکات کے بہت سارے دلائل ہیں قران اور سنت سے دلائل ہیں صحابہ کرام اہل بیت کرام تابعین ہیں کرام کے عمل سے بہت سارے دلائل تبرکات کو ثابت کرتے ہیں ہم نے حق چار یار کی نسبت سے صرف چار دلائل تفصیلا لکھے ہیں اور کچھ کی طرف اشارہ کر دیا ہے
مذکورہ دلائل اور دیگر دلائل کی روشنی میں علمائے کرام نے ثابت کیا کہ دوا دعا کے ساتھ ساتھ اولیاء صالحین علماء کے ہاتھ پاؤں سے ، ان کی استعمالی اشیاء سے ، ان کے تبرکات سے ان کے دم سے جھاڑ پھونک سے تبرک و شفا حاصل کی جانی چاہیے۔۔۔۔۔ اس عمل کا مطلقا مذاق اڑانا گویا سنت کا مذاق اڑانا ہے کفر ہے لادینی ہے مذہبی ہے کفر ہے منکر و مردودیت ہے
.
مذکورہ بالا قسم کی احادیث مبارکہ و دیگر دلائل کو دلیل بناتے ہوئے علماء کرام نے لکھا
وَفِيهِ التَّبَرُّكُ بِآثَارِ الصَّالِحِينَ وَبَيَانُ مَا كَانَتِ الصَّحَابَةُ عَلَيْهِ مِنَ التَّبَرُّكِ بِآثَارِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَبَرُّكِهِمْ بِإِدْخَالِ يَدِهِ الْكَرِيمَةِ فِي الْآنِيَةِ وَتَبَرُّكِهِمْ بِشَعْرِهِ الْكَرِيمِ
امام نووی ایک حدیث پاک سے دلیل اخذ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ نیک صالحین اولیاء کرام انبیاء کرام صحابہ کرام وغیرہ کے اثار تبرکات وغیرہ سے برکت حاصل کرنی چاہیے۔۔۔۔صحابہ کرام حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے اثار و تبرکات سے برکت حاصل کرتے تھے۔۔۔برکت کے لیے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ مبارک پانی میں ڈلواتے تھے اور برکت کے لیے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے بال مبارک سے برکتیں حاصل کرتے تھے تبرک حاصل کرتے تھے
(شرح مسلم نووی15/82)
.
وفيه دليل على جواز أن يُطلب مثلُ ذلك وغيرُه ممَّا يُتبرك به من العلماء والصلحاء
ایک حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ علماء صالحین انبیاء کرام اولیاء عظام اہل بیت کرام وغیرہ سے وہ چیز لے لینی چاہیے جس سے تبرک حاصل کیا جا سکے
(مفاتیح شرح مصابیح6/142)
(شرح المصابیح ابن ملک6/233)
.
وَهُوَ أَصْلٌ فِي التَّبَرُّكِ بِآثَارِ الصَّالِحِينَ
امام زرقانی ایک حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ صالحین یعنی انبیاء کرام اولیاء کرام صحابہ کرام اہل بیت عظام وغیرہ نیک لوگوں علماء متقی پرہیزگار لوگوں کے اثار سے تبرکات سے برکتیں حاصل کرنی چاہیے تبرک حاصل کرنا چاہیے
(شرح الزرقانی علی الموطا2/72)
۔
وَهُوَ الثَّوْب الَّذِي يَلِي الْجَسَد وَإِنَّمَا أَمر بذلك تبركا وَفِيه دلَالَة على أَن التَّبَرُّك بأثار أهل الصّلاح مَشْرُوع
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے جسم مبارک سے متصل ہونے والے کپڑے کو تبرک کے طور پر دیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نیک لوگوں صالحین یعنی انبیاء کرام اولیاء کرام صحابہ کرام اہل بیت عظام وغیرہ نیک لوگوں علماء متقی پرہیزگار لوگوں کے اثار سے تبرکات سے برکتیں حاصل کرنی چاہیے تبرک حاصل کرنا چاہیے
(حاشیۃ السندی علی نسائی4/29)
۔
قَالَ ابْنُ حَجَرٍ: وَفِيهِ التَّبَرُّكُ بِفَضْلِهِ - عَلَيْهِ السَّلَامُ -، وَنَقْلُهُ إِلَى الْبِلَادِ، وَنَظِيرُهُ: مَاءُ زَمْزَمَ فَإِنَّهُ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - كَانَ يَسْتَهْدِيهِ مِنْ أَمِيرِ مَكَّةَ لِيَتَبَرَّكَ بِهِ أَهْلُ الْمَدِينَةِ، وَيُؤْخَذُ مِنْ ذَلِكَ أَنَّ فَضْلَةَ وَارِثِيهِ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَالصَّالِحِينَ كَذَلِكَ۔۔۔۔۔ قَالَ النَّوَوِيُّ: فِي الْحَدِيثِ التَّبَرُّكُ بِآثَارِ الصَّالِحِينَ وَلُبْسِ مَلَابِسِهِمْ۔۔۔۔۔۔۔(العرق) وَفِيهِ اسْتِحْبَابُ التَّبَرُّكِ وَالتَّقَرُّبِ بِآثَارِ الصَّالِحِينَ
امام ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ امام ابن حجر عسقلانی نے فرمایا ہے کہ اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے استعمال شدہ چیز سے تبرک حاصل کیا جا سکتا ہے تبرک حاصل کرنا چاہیے اور اس تبرک کو دوسرے شہروں تک دوسرے لوگوں تک پہنچانا چاہیے اور اس کی مثال زمزم کا پانی ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام یہ پانی تحفۃً دیا کرتے تھے تاکہ دوسرے لوگ اس سے تبرک حاصل کریں ان تمام باتوں سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہیں یعنی علماء کرام اور صالحین یعنی اولیاء کرام صحابہ کرام اہل بیت عظام وغیرہ نیک لوگوں علماء متقی پرہیزگار لوگوں کے اثار سے تبرکات سے برکتیں حاصل کرنی چاہیے تبرک حاصل کرنا چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک حدیث کے تحت امام نووی نے بھی فرمایا ہے کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صالحین کے اثار وتبرکات اور ملبوسات سے تبرک حاصل کرنا چاہیے
(مرقاۃ 2/603۔۔۔۔۔و 7/2800۔۔۔۔۔و9/3703)
۔
الحَدِيث أصل فِي التَّبَرُّك باثار الصَّالِحين ولباسهم كَمَا يَفْعَله بعض مريدي المشائخ۔ ۔۔۔ وَفِيه التَّبَرُّك بآثار الصَّالِحين حَيا وَمَيتًا
ایک حدیث پاک کے تحت علامہ سیوطی وغیرہ فرماتے ہیں اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صالحین یعنی انبیاء کرام علماء عظام اولیاء کرام صحابہ کرام اہل بیت عظام وغیرہ نیک لوگوں علماء متقی پرہیزگار لوگوں کے اثار سے تبرکات سے برکتیں حاصل کرنی چاہیے تبرک حاصل کرنا چاہیے، جیسے کہ بعض مشائخ کے مریدین تبرک حاصل کرتے ہیں یہ درست ہے ایک اور حدیث پاک کے متعلق لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صالحین یعنی انبیاء کرام علماء عظام اولیاء کرام صحابہ کرام اہل بیت عظام وغیرہ نیک لوگوں علماء متقی پرہیزگار لوگوں کے اثار سے تبرکات سے برکتیں حاصل کرنی چاہیے تبرک حاصل کرنا چاہیے چاہے وہ وفات پا گئے ہوں یہ چاہے وہ زندہ ہوں یا چاہے تبرک حاصل کرنے والا زندہ ہو یا تبرک حاصل کرنے والا وفات شدہ ہو مثلا اپنی لاش پہ مبارک قمیض یا مبارک بال یا مبارک ناخن یا کچھ بھی تبرکات رکھنے کی وصیت کر جائے تو یہ تبرکات بالکل جائز اور برحق ہیں
(حاشیۃ السیوطی وغیرہ علی ابن ماجہ ص254،105)
.
لِيَصِلَ بَرَكَةُ فَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ وَالْحَدِيثُ فِيهِ ثُبُوتُ التَّبَرُّكِ بِآثَارِ الصَّالِحِينَ۔ ۔۔۔۔ قَالَ الشَّوْكَانِيُّ فِيهِ مَشْرُوعِيَّةُ التَّبَرُّكِ بِشَعْرِ أَهْلِ الْفَضْلِ۔ ۔۔۔۔ وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ دَلِيلٌ عَلَى اسْتِحْبَابِ التَّبَرُّكِ بِآثَارِ الصَّالِحِينَ وَثِيَابِهِمْ
تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک کی برکت حاصل ہو جائے اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صالحین یعنی انبیاء کرام علماء عظام اولیاء کرام صحابہ کرام اہل بیت عظام وغیرہ نیک لوگوں علماء متقی پرہیزگار لوگوں کے اثار سے تبرکات سے برکتیں حاصل کرنی چاہیے تبرک حاصل کرنا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔ اور امام شوکانی نے کہا ہے ایک حدیث کے تحت کہ اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ فضیلت والے لوگوں یعنی انبیاء کرام اولیاء عظام علمائے کرام صحابہ کرام اہل بیت عظام وغیرہ نیک صالحین کے بالوں سے بھی تبرک حاصل کرنا جائز ہے ایک اور حدیث کے تحت فرماتے ہیں اس حدیث میں دلیل ہیں کہ صالحین یعنی انبیاء کرام علماء عظام اولیاء کرام صحابہ کرام اہل بیت عظام وغیرہ نیک لوگوں علماء متقی پرہیزگار لوگوں کے اثار و ملبوسات سے تبرکات سے برکتیں حاصل کرنی چاہیے تبرک حاصل کرنا چاہیے
(عون المعبود و حاشیۃ ابن القیم1/52 و5/317 و 11/70)
۔
فِيهِ مَشْرُوعِيَّةُ التَّبَرُّكِ بِمُلَامَسَةِ أَهْلِ الْفَضْلِ۔ ۔۔۔۔ وَهُوَ أَصْلٌ فِي التَّبَرُّكِ بِآثَارِ الصَّالِحِينَ۔۔۔۔۔۔ فِيهِ مَشْرُوعِيَّةُ التَّبَرُّكِ بِشَعْرِ أَهْلِ الْفَضْلِ وَنَحْوِهِ
امام شوکانی ایک حدیث کے تحت لکھتا ہے کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل فضل یعنی فضیلت والے لوگوں نے جس چیز کو چھوا اس چیز سے تبرک حاصل کیا جا سکتا ہے ایک اور حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صالحین کے تبرکات اثار سے تبرک حاصل کرنا چاہیے ایک اور حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ اہل فضل یعنی فضیلت والے لوگوں انبیاء کرام علماء کرام اولیاء عظام صحابہ کرام اہل بیت کرام نیک متقی لوگوں علماء مشائخ فضیلت والے لوگوں اولیاء کرام وغیرہ کے بالوں سے اور اس مثل دوسری چیزوں سے تبرک حاصل کیا جا سکتا ہے
(نیل الاطار شوکانی2/362۔۔۔۔4/40۔۔۔۔۔5/83)
۔
فما يؤتى بإناء إلا غمس يده فيها) تبريكاً منه عليهم فينال بركته كل أحد وفيه التبرك بآثار الصالحين
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس پانی لے کر ایا کرتے تھے صحابہ کرام تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام اس میں اپ ہاتھ مبارک ڈبویا کرتے تھے یہ صحابہ کرام کا تبرک حاصل کرنے کا طریقہ تھا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صالحین یعنی انبیاء کرام علماء عظام اولیاء کرام صحابہ کرام اہل بیت عظام وغیرہ نیک لوگوں علماء متقی پرہیزگار لوگوں کے اثار سے تبرکات سے برکتیں حاصل کرنی چاہیے تبرک حاصل کرنا چاہیے
(تنویر شرح جامع صغیر8/420)
۔
فيه التبرك بالفضلاء، ومشاهد الأنبياء وأهل الخير ومواطنهم، ومواضع صلاتهم
ایک حدیث پاک سے دلیل اخذ کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فضیلت والے لوگوں انبیاء کرام اولیاء کرام علماء کرام صحابہ کرام اہل بیت کرام نیک متقی پرہیزگار لوگوں کے جسم سے تبرک حاصل کیا جا سکتا ہے اور ان کی جگہوں سے بیٹھنے کی جگہوں سے ان کی نماز پڑھنے کی جگہوں سے مصلی وغیرہ سے تبرک حاصل کیا جا سکتا ہے
(اکمال المعلم شرح مسلم2/631)
۔
فأبدأ به فأستاك) تبركًا ومحبةً للنبي -صلى اللَّه عليه وسلم-، وفيه التبرك بآثار الصالحين۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وفي الحديث التبرك بفضله -صلى اللَّه عليه وسلم- ونقله إلى البلاد نظير ماء زمزم، ويؤخذ منه أن فضل وارثيه من العلماء والصلحاء كذلك۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ وهذا الحديث أصل في التبرك بآثار الصالحين ولباسهم
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے دہن مبارک سے تبرک لیا صحابہ کرام نے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ صالحین یعنی انبیاء کرام علماء عظام اولیاء کرام صحابہ کرام اہل بیت عظام وغیرہ نیک لوگوں علماء متقی پرہیزگار لوگوں کے اثار سے تبرکات سے برکتیں حاصل کرنی چاہیے تبرک حاصل کرنا چاہیے۔۔۔۔۔ ایک اور حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی استعمال شدہ چیزوں سے تبرک حاصل کرنا چاہیے اور اسے دوسرے شہروں تک بھی لے جانا چاہیے جیسے کہ زم زم کے پانی سے تبرک حاصل کیا جاتا ہے اور اسے دوسرے شہروں تک لے جایا جاتا ہے اور اس سے یہ بھی حاصل ہوا کہ جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یعنی علماء کرام نیک لوگ متقی لوگ صحابہ کرام اہل بیت عظام وغیرہ صالحین کے استعمال شدہ چیزوں سے بھی تبرک حاصل کیا جا سکتا ہے بلکہ تبرک حاصل کرنا چاہیے۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ایک اور حدیث پاک کی شرح میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث پاک دلیل ہے کہ صالحین یعنی انبیاء کرام علماء عظام اولیاء کرام صحابہ کرام اہل بیت عظام وغیرہ نیک لوگوں علماء متقی پرہیزگار لوگوں کے اثار ملبوسات سے تبرکات سے برکتیں حاصل کرنی چاہیے تبرک حاصل کرنا چاہیے
(لمعات شاہ دھلوی2/111۔۔۔۔ 2/477۔۔۔۔۔ 4/107)
۔
*#قرآن و سنت کے مطابق تبرک دم جھاڑ پھونک بھی شفاء کا ذریعہ وسیلہ ہیں کہ اصل میں تو شفاء اللہ ہی دیتا ہے....!!*
القرآن:
وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ
اور ہم قرآن کی(سورتیں ایات) نازل کرتے ہیں جو شفاء ہیں، رحمت ہیں
(سورہ بنی اسرائیل آیت82)
.
وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ في معنى كونه شفاء على القولين الْأَوَّلُ: أَنَّهُ شِفَاءٌ لِلْقُلُوبِ بِزَوَالِ الْجَهْلِ عَنْهَا وَذَهَابِ الرَّيْبِ وَكَشْفِ الْغِطَاءِ عَنِ الْأُمُورِ الدَّالَّةِ عَلَى اللَّهِ سُبْحَانَهُ. الْقَوْلُ الثَّانِي: أَنَّهُ شِفَاءٌ مِنَ الْأَمْرَاضِ الظَّاهِرَةِ بِالرُّقَى وَالتَّعَوُّذِ وَنَحْوِ ذَلِكَ، وَلَا مَانِعَ مِنْ حَمْلِ الشِّفَاءِ عَلَى الْمَعْنَيَيْنِ
قرآن پاک شفاء ہے مگر کس چیز سے شفاء ہے؟ اہل علم کا اختلاف ہے…بعض فرماتے ہیں کہ باطنی ذہنی دلی امراض سے شفاء ہے اس طرح کہ قرآن جہالت سے شفاء دیتا ہے، قرآن شکوک شبہات ختم کرکے شفاء دیتا ہے، قرآن اللہ کے وجود و توحید کے دلائل سے پردہ ہٹا کر شفاء دیتا ہے...بعض علماء فرماتے ہیں کہ قرآن جسمانی امراض سے شفاء ہے کہ قرآن سے تعویذ دم جھاڑ پھونک وغیرہ کرکے جسمانی امراض سے شفاء حاص کی جاتی ہے(غیر مقلدوں نجدیوں کا امام شوکانی کہتا ہے کہ)دونوں ہی معنی مراد لینے میں کوئی روکاوٹ نہیں
(غیر مقلدوں نجدیوں کا معتبر عالم شوکانی کی تفسیر فتح القدير ,3/300)
.
بےشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات میں جب اپنے بستر پر تشریف لے جاتے تو اپنے ہاتھ جمع کرکے ان میں پھونکتے جن میں"قل ھو ﷲ احد"اور"قل اعوذ برب الفلق"اور"اعوذ برب الناس"پڑھتے پھر جسم کے جس حصہ تک ہوسکتا وہ ہاتھ پھیرتے اپنے سر مبارک اور چہرے پاک کے سامنے والے حصے سے شروع فرماتے یہ تین بار کرتے تھے
(بخاری حدیث5012 ترمذی حدیث3402)
.
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے نجدیت وہابیت نیچریت الحادیت وغیرہ کے نظریہ کی دھجیاں اڑ گئیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن سے تبرک حاصل کیا، دم کیا تاکہ امت بھی پیروی کرے دوا بھی کرے کراءے اور دم و دعا بھی کرے کرائے کہ ان میں اللہ نے شفاء رکھی ہے کہ نہ جانے کس وسیلے سے اللہ شفاء دے دے
.
اللہ تعالی پر پورا پورا توکل کر کے یہ سوچ کر کہ اللہ تعالی نہ جانے کس وسیلے سے راضی ہو جائے اور شفا دے دے اس سوچ کے ساتھ قران مجید کی کسی بھی ایت کوئی بھی سورت پڑھ کر دم کیجئے یا نیک ادمی سے دم کرائیے کہ نیک ادمی کی دعا جلد قبول ہوتی ہے اور اللہ تعالی پر بھروسہ رکھتے ہوئے ان چیزوں کو وسیلہ سمجھ کر شفاء کی کامل امید رکھیے ان شاء اللہ تعالی فوائد و شفاء ضرور ملے گی اس کے ساتھ ساتھ دوا بھی کرائیے کہ اللہ تعالی نے رسول کریم نے دوا کا بھی حکم دیا ہے کیا پتہ دوا کے ذریعے سے شفا مل جائے کیا پتہ دعا و وظائف دم درود جھاڑ پھونک وغیرہ کے وسیلے سے شفاء مل جائے
.
اور یہ بھی ممکن ہے نہ دوا کے ذریعے سے شفا ملے نہ دعا کے ذریعے شفا ملے کہ جو اللہ چاہے وہی ہوتا ہے مگر ہمیں امید و کامل یقین و بھروسہ توکل کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ شفاء ضرور دے گا، کرم ضرور فرمائے گا....کبھی کسی وسیلے دعا دوا سے تو کبھی بظاہر کوئی وسیلہ بھی نہ سمجھ آئے گا مگر شفاء و راحت و مطلوب مل جائے گا....!!
.
كُنَّا نَرْقِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ ؟ فَقَالَ : " اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ
صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کی ہم جاہلیت میں دم جھاڑ پھونک کرتے تھے اب انکا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنا دم جھاڑ پھونک مجھے بتاؤ اگر اس میں کفر شرک کے الفاظ و اعتقاد نہ ہوں تو ایسے دم جھاڑ پھونک میں حرج نہیں
(مسلم حدیث5732 ابوداود حدیث3886)
یہ حدیث پاک انتہائی جامع ہے کہ جس میں کسی ایک طریقے کو مخصوص نہیں کیا گیا بلکہ بہت سارے طریقے اس میں آجائیں گے.....
کبھی صرف بسم اللہ شریف پڑھ کر پڑھوا کر
کبھی سورہ فاتحہ پڑھ کر پڑھوا کر
کبھی کوئی سورت پڑھ کر کبھی کوئی ایت پڑھ کر کبھی چار قل پڑھ کر کبھی کوئی ایک قل شریف پڑھ کر یا پڑھوا کر
کبھی اللہ تعالی کے 99 ناموں میں سے کسی نام کا ورد کر کے ورد کروا کے
کبھی دعائے ماثورہ پڑھ کر پڑھوا کر
کبھی فقط دعا کر کے التجا کر کے
کبھی کسی اور سے دعا کرا کے التجا کروا کے
کبھی نفل پڑھ کر تو کبھی نفل پڑھوا کر
کبھی درود شریف پڑھ کر تو کبھی پڑھوا کر
کبھی پیسہ صدقہ کر کے
کبھی بکرا بکری گائے وغیرہ صدقہ کر کے
کبھی ختم شریف نکلوا کر
کبھی فرض پڑھ کر کبھی سنت پڑھ کر کبھی نفل پڑھ کر کبھی نماز حاجات پڑھ کر کبھی تہجد پڑھ کر کبھی اشراق و چاشت پڑھ کر کبھی اوابین پڑھ کر کبھی نماز توبہ پڑھ کر کبھی فقط اللہ کی محبت میں بس اللہ کی محبت میں نفل پڑھ کر
کبھی استغفار کرکے استغفار پڑھ کے
کبھی کسی کے ساتھ کوئی تعاون کر کے نفلی صدقہ دے کے
کبھی جائز خوشی کسی کو دے کر اس کی دعائیں لے کے
کبھی علماء باعمل و اولیاء کے ہاتھ پاؤں چوم کر تبرک کے ذریعے
تو کبھی علماء و اولیاء سے دعا کرا کے
کبھی دربار اولیاء پے جاکر دعا کرکے دعا کراکے
کبھی ڈاکٹر تو کبھی ادویات
الغرض
کسی بھی جائز حیلے وسیلے کو اپنا پر شفاء کی دعا کیجیے،دعا کرائیے، راحت شفاء مطلوب و مقصود و مٹھاس حاصل کیجیے، فیوض و برکات حاصل کیجیے
.###################
۔
*#دیوبندی نے کہا*
دیوبندی کی بات سے واضح ہے کہ نعوذ باللہ انبیاء کرام شہدائے کرام اولیاء کرام وغیرہ سارے وفات پا چکے ہیں بلکہ ان کے بقول تو مٹی میں مل چکے نعوذ باللہ تو قبر سے یہ ہمیں کوئی فائدہ نقصان نہیں پہنچا سکتے یہ کچھ نہیں سن سکتے قبر پہ نہیں جانا چاہیے مزار میں نہیں جانا چاہیے وغیرہ وغیرہ
۔
*#مختصر جواب و تحقیق۔۔۔۔۔۔۔!!*
حدیث پاک میں ہے کہ:
حتى إنه ليسمع قرع نعالهم
ترجمہ:حتی کہ مردہ لوگوں کے جوتوں کی ہلکی سی آہٹ تک سنتا ہے...(بخاری حدیث1338)
.
ایک اور حدیث پاک ملاحظہ کیجیے
إذا وضعت الجنازة، فاحتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت صالحة قالت: قدموني، وإن كانت غير صالحة قالت لأهلها: يا ويلها أين يذهبون بها، يسمع صوتها كل شيء إلا الانسان
ترجمہ:
جب جنازہ رکھا جاتا ہے تو اسے لوگ اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں تو اگر مردہ نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے مجھے جلدی لے جاؤ.. اور مردہ نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے ہائے ہلاکت مجھے کہاں لے جا رہے ہو.. مردے کی آواز ہر چیز سنتی ہے سوائے انسان کے
(بخاری حدیث1316)
۔
مذکورہ احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد سب مُردوں کو برزخی حیات مل جاتی ہے وہ بولتے ہیں سنتے ہیں محسوس کرتے ہیں
مگر
ہمیں اسکا شعور نہیں ہوتا
.
كان النبي صلى الله عليه وسلم" إذا فرغ من دفن الميت، وقف عليه، فقال: استغفروا لاخيكم، وسلوا له بالتثبيت، فإنه الآن يسال"
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے: ”اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا مانگو، اور اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو، کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا(منکر نکیر فرشتے سوال کریں گے)
(ابوداؤد حدیث3221)
حدیث پاک سے ثابت ہوا کہ منکر نکیر فرشتوں کا سوال جواب برحق ہے۔۔۔اور یہ بھی ثابت ہوا کہ ہمیں دفن کرنے کے بعد فورا گھر نہیں جانا چاہیے بلکہ دفنانے کے بعد کچھ دیر وہاں پر ذکر اذکار دعا استغفار کرنا چاہیے
۔
قبر میں سوال جواب کا انکار کسی مسلمان کے لیے ممکن نہیں.. اسی طرح قبرستان میں مردوں کو سلام کرنا بھی سنت ہے جسکا حکم کئ احادیث میں ہے..قبر کی عذاب و نعمت کی احادیث متواتر ہیں اس سے بھی مردوں کا سننا بولنا سمجھنا محسوس کرنا جواب دینا بہت کچھ ثابت ہوتا ہے... بس ہمیں اس کا شعور نہیں
.
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر شھداء اور انبیاء کرام سارے لوگ مرنے کے بعد زندہ ہیں تو ہم سے ملتے کیوں نہیں....؟ دکھائی کیوں نہیں دیتے....؟؟
اسکا جواب بھی اللہ کریم نے قرآن پاک مین ارشاد فرما دیا ہے کہ:
بَلْ أَحْيَاء وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ
ترجمہ:
وہ (وفات کے بعد بھی) زندہ ہیں لیکن تمھیں اسکا شعور نہیں...(سورہ بقرہ ایت154)
جی ہاں وہ بلا شک و شبہ زندہ ہیں مگر ہمیں اسکا شعور نہیں...
.
عذاب قبر کی احادیث صحیح بلکہ متواتر ہیں اور متواتر کا انکار کفر ہوتا ہے....عذاب قبر آیات اور احادیث سے ثابت ہے اور عذاب قبر سے ثابت ہوتا ہے کہ مردے سنتے ہیں بولتے ہیں محسوس کرتے ہیں لیکن ہمیں اس کا شعور نہیں ہوتا۔۔۔
.
وَإِذا ثَبت التعذيب ثَبت الْإِحْيَاء والمساءلة، لِأَن كل من قَالَ بِعَذَاب الْقَبْر قَالَ بهما.وَلنَا أَيْضا أَحَادِيث صَحِيحَة وأخبار متواترة
عذاب قبر کی احادیث مبارکہ متواترہ ہیں اور عذاب قبر سے ثابت ہوتا ہے کہ مردے حیات برزخی کے ساتھ زندہ ہوجاتے ہیں(سنتے ہیں بولتے ہیں محسوس کرتے ہیں جواب دیتے ہیں لیکن ہمیں اس کا شعور نہیں ہوتا )
[عمدة القاري شرح صحيح البخاري ,8/146]
.
وقد كثرت الأحاديث في عذاب القبر، حتى قال غير واحد: إنها متواترة
اور بے شک عذاب قبر کی احادیث بہت زیادہ ہیں یہاں تک کہ علماء نے فرمایا ہے کہ یہ احادیث متواترہ ہیں
( إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري ,2/460)
.
اور متواتر کا انکار کفر ہوتا ہے:
وفي "المحيط": من أنكر الأخبار المتواترة في الشريعة كفر، "شرح فقه أكبر" ونحوه في "الهندية" عن الظهيرية. وتوارده الأصوليون في باب السنة، . فصار منكر المتواتر ومخالفه كافراً. "أصول بزدوى" و"الكشف".مأخوذ من "الفتح
قران اور احادیث سے یہ قاعدہ اصول ثابت اور متفقه بین المعتبرین ہے کہ: جو شخص شرعی متواتر کا انکار کرے تو اس سے کفر لازم اتا ہے ایسا ہی کچھ لکھا ہے محیط میں شرح فقہ اکبر میں فتاوی عالمگیری میں فتوی ظہیریہ میں اصول بزدوی میں کشف میں جیسے کہ فتح القدیر میں دیکھا جا سکتا ہے اور ایسا ہی کچھ قاعدہ قانون اصولی علماء نے اپنی کئ کتب میں جا بجا لکھا ہے
(إكفار الملحدين في ضروريات الدين ص65ملخصا)
.
الحدیث:
انزل من القبر لا تؤذ صاحب القبر ولا يؤذيك
قبر سے اتر جا، قبر والے کو اذیت نا پہنچا اور وہ تجھے اذیت نہین پہنچائے..(صحیح مستدرک حاکم حدیث6502
طبرانی..شرح معانی الاثار.. مجمع الزوائد.. مسند احمد.. مرقات.. معالم السنن... وغیرہ بہت کتب میں یہ حدیث موجود ہے)
.
اس حدیث پاک سے دو باتین نہایت واضح ہوتی ہیں کہ
1:قبر والے کو بھی اذیت ہوتی ہے
2:مردہ اذیت نقصان نفع بھی پہنچا سکتا ہے
لیھذا
مر کھپ گئے، مٹی میں مل گئے ، کچھ نہیں سنتے کچھ مدد نہیں کر سکتے وغیرہ کہنا بدعت ہے باطل ہے مردودیت ہے... اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے... اسلام قبرپرستی سے روکتا ہے مگر قبروں کا احترام بھی سکھاتا ہے... جب قبر والے نقصان پہنچا سکتے ہیں تو یقینا فائدہ بھی پہنچا سکتے ہیں یہ دلائل ان لوگوں کے منہ پر تماچہ ہیں ہدایت کا سامان ہیں جو کہتے ہیں کہ قبر والے مرگھپ گئے کچھ نہیں کرسکتے نہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ نعوذ باللہ۔۔۔۔۔ کس طرح نفع پہنچاتے ہیں کس طرح نقصان پہنچاتے ہیں وہ جانے ان کا اللہ جانے کہ اللہ ان کو کیسی طاقت عطا فرماتا ہے کہ جس کے ذریعے سے وہ نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں۔۔۔۔۔ یاد رہے کہ اس حدیث پاک کو علمائے کرام نے صحیح قرار دیا ہے مثلا علامہ ابن حجر فرماتے ہیں
اسنادہ صحیح...یعنی اس حدیث کی سند صحیح ہے
(فتح الباری3/225)
.
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ مَالِكِ الدَّارِ، قَالَ: وَكَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَى الطَّعَامِ، قَالَ: أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَسْقِ لِأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا، فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ لَهُ: " ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنَّكُمْ مُسْتَقِيمُونَ وَقُلْ لَهُ: عَلَيْكَ الْكَيْسُ، عَلَيْكَ الْكَيْسُ "، فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَبَكَى عُمَرُ ثُمَّ قَالَ: يَا رَبِّ لَا آلُو
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں قحط ہوا تو ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار مبارک کی طرف آیا اور عرض کی یا رسول اللہ اپنی امت کے لئے بارش کی دعا کیجئے وہ ہلاک ہو رہے ہیں، تو نبی پاک صلی اللہ وسلم اس شخص کے خواب میں آئے اور فرمایا کہ عمر کے پاس جاؤ، اسے میرا سلام کہو اور اسے خبر دو کہ تم عنقریب بارش سے نوازے جاؤ گے، اور عمر سے کہو کہ تم پر سمجھداری لازم ہے سمجھ داری لازم ہے تو وہ شخص سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا اور سب کچھ بتایا تو سیدنا عمر رونے لگے اور عرض کرنے لگے یا اللہ میں بھرپور کوشش کروں گا
(مصنف ابن ابی شیبہ استادِ بخاری روایت32002)
(كنز العمال ,8/431 روایت23535)
(دلائل النبوة للبيهقي مخرجا7/47)
(جامع الاحادیث للسیوطی حدیث 28209)
(فتح الباري شرح بخاری 494/2)
.
کتاب روضة المحدثين کے محققین نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور حدیث صحیح قابل حجت ، قابل قبول ، قابل دلیل ہوتی ہے....إسناده صحيح
(مجموعة من المؤلفين ,روضة المحدثين ,1/440)
.
امام زرقانی نے بھی اس واقعے کو لکھا دلیل بنایا اور اس کی سند کو صحیح قرار دیا
وروى ابن أبي شيبة بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان، عن مالك الدار....(شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية11/150)
.
مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے کہ جب کوئی جواب نہ بن پایا تو غیر کے مقلدین اور وسیلہ کے منکرین یہ کہتے ہیں کہ یہاں پر رجل لفظ ہے کوئی بندہ پتہ نہیں کون بندہ تھا لہذا مجہول ہے اور مجھول کی روایت ضعیف ہے....
ہمارا جواب:
ارے عقل سے کام لیجیے اگر سند کا راوی رجل ہو مجھول ہو تو ضعف آ سکتا ہے...یہاں سند میں کوئی مجھول نہیں رجل لفظ سند کا حصہ نہیں بلکہ متن میں رجل ہے متن میں رجل آئے تو ضعیف ہونا ثابت نہیں ہوتا دیکھیے امام بخاری حدیث پاک لکھتے ہیں کہ
كَانَ الرَّجُلُ فِيمَنْ قَبْلَكُمْ
( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلے کوئی بندہ ہوتا تھا....
(بخاری حدیث3612)
اب کیا رجل کی گردان پڑھ کر بخاری کی حدیث کو بھی ضعیف کہہ دو گے......؟؟
.
پھر بھی علماء کرام نے تحقیق فرما کر لکھا کہ وہ شخص صحابی بلال مزنی تھے
وَقَدْ رَوَى سَيْفٌ فِي الْفُتُوحِ أَنَّ الَّذِي رَأَى الْمَنَامَ الْمَذْكُورَ هُوَ بِلَالُ بْنُ الْحَارِثِ الْمُزَنِيُّ أَحَدُ الصَّحَابَةِ
امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ علامہ سیف نے اپنی کتاب الفتوح میں لکھا ہے کہ جس شخص نے خواب دیکھا تھا وہ سیدنا بلال بن حارث مزنی تھے جو کہ صحابہ کرام میں سے ہیں
(فتح الباری شرح بخاری ابن حجر2/496)
.
اس حدیث پاک سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وفات شدہ کا وسیلہ دیا جا سکتا ہے، وفات شدہ قبر والے سے فریاد و عرض کی جاسکتی ہے اور قبر والا فریاد سنتا بھی ہے تبھی تو رسول کریم نے فریاد سن کر حکم ارشاد فرمایا.... لہذا مزار پہ جانا اور اسے اللہ کی عطا سے زندہ سمجھنا یہ سمجھنا کہ وہ سنتا ہے دیکھتا ہے نفع دے سکتا ہے نقصان دے سکتا ہے یہ سب قرآن و حدیث اور عملِ صحابہ کرام سے ثابت ہے، کیوں کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یا دوسرے کسی صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے شرک بدعت کا فتویٰ نہیں لگایا۔۔۔۔۔۔!!
.
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كُنْتُ أَدْخُلُ بَيْتِي الَّذِي فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَأَبِي فَأَضَعُ ثَوْبِي فَأَقُولُ: إِنَّمَا هُوَ زَوْجِي وَأَبِي، فَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ مَعَهُمْ، فَوَاللَّهِ مَا دَخَلْتُهُ إِلَّا وَأَنَا مَشْدُودَةٌ عَلَيَّ ثِيَابِي ...رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ
سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار اقدس پر حاضر ہوا کرتی تھی اور میں عام پردہ والا لباس پہنا کرتی تھی کیونکہ میں سمجھتی تھی کہ رسول کریم میرے شوہر ہیں اور ساتھ میں سیدنا ابوبکر صدیق میرے والد ہیں... لیکن جب سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو ساتھ میں دفن کیا گیا تو میں جب بھی جاتی تو سخت پردے کے ساتھ حاضر ہوتی... امام ہیثمی فرماتے ہیں اس روایت کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے
(مجمع الزوائد روایت12704)
ثابت ہوا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا عقیدہ وہی ہے کہ جو اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ حیات بعد الوفات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام شہداء اولیاء اور دیگر مسلمان جو بھی وفات پا جاتے ہیں وہ قبروں میں زندہ ہوتے ہیں وہ دیکھتے ہیں ، سنتے ہیں... انہیں جنت کی نعمتیں عطا کی جاتی ہیں اور کفار پر جہنم کے عذاب نازل کیے جاتے ہیں اگرچہ ہمیں اس کا شعور نہیں ہوتا.... اور یہ بھی ثابت ہوا کہ قبروں پر حاضری دینا یہ کوئی بدعت نہیں ہے شرک نہیں ہے یہ صحابہ کرام کا طریقہ کار ہے...!!
.
.###############
*#اہم_ترین_نوٹ1*
الحدیث:
حدیث پاک میں ہے کہ جب نبی پاک وضو کرتے تو صحابہ کرام نبی پاک کے مبارک ہاتھوں سے لگے پانی کو حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر جلدی کرتے تھے تاکہ وہ اپنے جسموں اور چہروں پر لگائیں...اس پر آپ علیہ السلام نے فرمایا
" لم تفعلون هذا؟ "
رسول کریم نے فرمایا: تم ایسا کیوں کرتے ہو..؟ صحابہ کرام نے عرض کی "ہم اس سے تبرک، برکت حاصل کرتے ہیں، رسول کریم نے فرمایا:
جو یہ چاہتا ہو کہ وہ اللہ اور اسکے رسول کا محبوب ہو جائے تو اسے چاہیے کہ سچ بولے اور امانت ادا کرے(خیانت نا کرے) اور پڑوسیوں کو اذیت نا پہنچائے
(دیکھیے کتاب شعب الایمان حدیث9104، اور کتاب جامع الاحادیث حدیث42738)
.
تبرک حاصل کرنے پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار نہین فرمایا، شرک بدعت جہالت کا فتوی نہین لگایا، البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا انداز اپنایا کہ تبرک بھی برحق مگر تبرک کے ساتھ ساتھ نیک اعمال کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے، اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے...
تبرکات پر مذمت ہرگز نہیں کرنی چاہیے بلکہ تبرک کے ساتھ ساتھ نیک اعمال کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانی چاہیے...
ہم پر اور علماء پر اور خطیبوں پر لازم ہے کہ تبرک کے بیان کے ساتھ ہی نیک اعمال عقائد و عبادات کی تاکید کریں، ایسا نا ہو کہ عوام تبرکات میں گم ہوتی جائے اور نیک اعمال سے دور ہوتی جائے مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کچھ لوگ عمل کی طرف بلاتے ہین اور تبرکات کی نفی کرتے ہین جہالت قرار دیتے ہیں جو کہ ہرگز ہرگز ٹھیک نہیں..
۔
#####################
*#اہم_ترین_نوٹ2*
مقاصد کے حصول کے لیے اور بندش ختم کرنے کے لیے اور جن جادو نظر بد کے اثرات ختم کرنے کے لیے یا ان سے بچنے کے لیے اور دیگر فوائد حاصل کرنے کے لیے کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے شفایابی کے لیے فقط ایک طریقے پر انحصار مت کیجئے۔۔۔۔۔دم کیجئے دم کرائیے درود پڑھیے نوافل پڑھیے فرائض واجبات ادا کیجئے سنتیں ادا کیجئے دعا کیجئے دعا کرائیے تبرک حاصل کیجئے وسیلہ کر کے دعا کیجئے صدقہ خیرات کر کے دعا کیجئے دوا علاج پرہیز کیجئے محنت کیجئے دعا کیجئے توکل کیجئے مختلف طریقے اپنائیے کہ نہ جانے کس میں شفایابی ہو جائے
.
*#شریعت پے عمل کرکے شفاء و مقصود حاصل کرنا.......!!*
القرآن،ترجمہ:
جس نے میری یاد(ذکر، دعا، نماز،عبادات،فرائض واجبات، پابندیوں،ذمہ داریوں، تعلیمات اسلام)سے منہ موڑا(بےعمل بدعمل ہوا) اس کے لیے تنگ(بےسکون ،بےمزہ ،بےبرکت، بری)زندگانی ہے(سورۃ طحہ124)نماز و اسلامی تعلیمات اسلامی نطریات و عبادات و اخلاقیات پر خلوص و سچائی کے ساتھ عمل کیجیے...اسلامی نظریات و احکامات کی پابندی کیجیے... اسی میں دینی دنیاوی آخروی جسمانی معاشی معاشرتی ذہنی بھلائی و سکون اور برکت و شفاء ہے
.
برائی بے راہ روی بےحیائی الحاد نفس پرستی تکبر لالچ جوا شراب نشہ زنا چاپلوسی چمچہ گیری نوابیت انا پرستی کسی کو نہ ماننے کی بیماری وغیرہ میں کچھ دنیاوی فوائد عارضی ہوسکتے ہیں مگر اس سے ذاتی و معاشرتی مستقبل خراب ہوتا ہے...خدا کو نہ ماننا رسول کو نہ ماننا اولیاء و کرامات تبرکات وسیلے کو نہ ماننا انسان کے ذہن کو ذہنی بیماریوں وسوسوں میں ڈال دیتا ہے....ایمان و پابندی کی مٹھاس سے بندہ محروم ہوجاتا ہے... سچےعشق و وفا کی مٹھاس سے محروم ہوجاتا ہے....تعاون احسان کرنے کی مٹھاس سے محروم ہوجاتا ہے....خود بھی تباہ ہوتا ہے اور معاشرے میں بھی گند و زہر پھیلانے لگتا ہے...افراتفری نفسا نفسی عیاشی فحاشی تکبر وغیرہ میں سکون و راحت و مٹھاس نہیں....!!
.
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو حاجت روائی کے لیے نوافل پڑھ کر اللہ سے باوسیلہ نبی پاک دعا کرنے کا حکم دیا
ایک شخص جس کی بصارت میں کچھ نقص تھا اس نے عرض کی یارسول اللہ میرے لیے دعا کر دیجیے کہ اللہ تعالی مجھے شفا عطا فرمائے آپ نے فرمایا کہ اگر تم چاہے تو میں تمہارے لیے موخر کر دوں اور وہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر چاہے تو میں دعا کر دوں، صحابی نے عرض کی دعا فرما دیجیے کہ شفاء ملے تو حضور علیہ الصلاۃ و السلام نے اسے حکم دیا کہ وہ وضو کرے اور اچھا وضو کرے اور دو رکعت نفل(حاجات) پڑھے اور یہ دعا کرے کہ یا اللہ عزوجل میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں نبی الرحمۃ محمد مصطفی کے وسیلہ سے واسطے سے صدقے سے ، یارسول اللہ آپ کے صدقے سے وسیلے سے میں اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اپنی حاجت میں کہ اللہ میری حاجت پوری فرما دے یا اللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت(وسیلے واسطے کو) قبول فرما میرے معاملے میں
امام ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے
(سنن ابن ماجه ,1/441حدیث1385)
(ترمذی حدیث3578نحوہ)
(الجامع الصغير سیوطی حدیث2159)
۔
دوا دعا دم جھاڑ پھونک پرہیز کے متعلق اوپر حدیث پاک لکھ آیا
.################
*#اہم_اعتراض......!!*
بخاری میں ہے کہ سیدنا عمر نے فرمایا کہ یا اللہ ہم نبی پاک سے توسل کرتے تھے اب سیدنا عباس کا وسیلہ دیتے ہیں...یعنی نبی پاک کی وفات کے بعد نبی پاک سے توسل نہ کیا مطلب وفات شدہ سے توسل نہیں کیا جاسکتا
.
*#جواب.....!!*
یہ آپ نے اٹکل بچو سے مطلب نکال لیا ورنہ اسلاف نے اسکا یہ مطلب نہیں نکالا تھا بلکہ فرمایا تھا کہ سیدنا عباس سے توسل صلہ رحمی کی وجہ سے کیا...اوپر ہم نے ثابت کیا ہے کہ سیدنا عمر کی موجودگی میں صحابی نے وفات کے بعد نبی پاک کا وسیلہ دیا...اور واضح ہے کہ مزار اقدس سے دور رہ کر بھی توسل کیا اور اوپر قرآن و حدیث و افعال صحابہ مطلق دلائل سے بھی ثابت کیا کہ زندہ یا وفات شدہ قریب یا دور ہر صورت میں انبیاء کرام و اولیاء عظام وغیرہ اللہ کے پیاروں کا وسیلہ دینا واسطہ صدقہ دینا جائز ہے
.
وأما استسقاء عمر بالعباس، فإنما هو للرحم التى كانت بينه وبين النبى، (صلى الله عليه وسلم) ، فأراد عمر أن
يصلها
سیدنا عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ تھا قریبی رشتہ تھا تو سیدنا عمر نے چاہا کہ صلہ رحمی کریں اس لیے انہوں نے سیدنا عباس سے توسل کیا
(شرح بخاری ابن بطال3/9)
(ارشاد الساری شرح بخاری2/238نحوہ)
.###############
*#وسیلے کا فائدہ......؟؟*
1۔۔۔۔۔دعا کے لیے وسیلہ فرض واجب نہیں...وسیلے کے بغیر بھی دعا کر سکتے ہیں لیکن وسیلے سے دعا کرنا سنت ہے انبیاء کرام کی صحابہ کرام اور اولیاء و اسلاف کی.....!!
۔
2۔۔۔۔دعا میں وسیلے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ:
امید ہے کہ دعا جلد قبول ہوگی
(تفسير أبي السعود ,1/276)
۔
3۔۔۔۔۔اور وسیلے تبرک سے جائز تعظیم کا اظہار ہوتا ہے اور یہ تقوی قلوب میں سے ہے۔۔۔دیکھیے سورہ حج ایت30۔۔32
.#################
*#تبرک جائز وسیلہ اور بت پرستی میں فرق۔۔۔۔۔۔!!*
القرآن:
اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الۡوَسِیۡلَۃَ
وہ اللہ کے مقرب و نیک بندے اور دیگر جنکی عبادت کی جاتی ہے وہ تو خود اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں(تو بھلا وہ معبود کیسے ہوسکتے ہیں وہ تو خود اللہ کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں)
(سورہ بنی اسرائیل آیت57)
.
أُولَئِكَ الذين يعبدون من دون اللَّه يبتغون إلى ربهم الوسيلة؛ فكيف تعبدونهم
یہ اللہ کے نیک و مقرب بندے اور دیگر کہ اللہ کے علاوہ جن کی عبادت کی جاتی ہے یہ تو خود اللہ کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں تو تم ان کی عبادت کیسے کرتے ہو۔۔۔۔۔؟
(,تفسير الماتريدي = تأويلات أهل السنة ,7/66)
.
*#دلچسپ و اہم بات*
آیت میں دو وسیلوں کی طرف اشارہ ہے ایک وسیلہ شرک اور دوسرا سنت.....جی ہاں نیک بندے جو غیراللہ ہیں ان کی عبادت کرنا وسیلہ سمجھ کر یہ شرک میں سے ہے یعنی وسیلے کے طور پر نیک غیراللہ و سورج چاند بت وغیرہ کی عبادت کرنا شرک میں سے ہے...دوسرا وسیلہ برحق ہے سنت انبیاء ہے وہ یہ ہے کہ نیک بندے جو غیراللہ ہیں انکی عبادت نہ کرنا بلکہ اللہ کی عبادت کرنا اور زندہ یا وفات شدہ نیک غیراللہ کا وسیلہ پیش کرنا یہ ہے سنتِ انبیاء و صالحین ہے...یہ سب اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے، یہ وسیلہ شرک بدعت نہیں....بعض منکرین وسیلہ کہتے ہیں کہ وفات شدہ اور دور والے کا وسیلہ نہیں دے سکتے،منکرین وسیلہ کا یہ نظریہ دلائل کے خلاف و غلط ثابت ہوا
کیونکہ
یہاں آیت میں وسیلہ مطلق و عموم ہے کہ کسی بھی نیک و مقرب کا وسیلہ دیا جاسکتا ہے چاہے وہ حیات ہو یا وفات شدہ،چاہے دور ہو یا قریب...سب کو آیت شامل معناً شامل ہے
۔
1۔۔۔۔اولیاء انبیاء صالحین سے تبرک اور وسیلے میں انہیں خدا نہیں سمجھا جاتا جب کہ بت پرستی میں بتوں کو خدا سمجھا جاتا ہے
2۔۔۔۔۔اولیاء انبیاء صالحین کے وسیلہ اور تبرک میں اللہ تعالی کی اجازت قران و حدیث کے ذریعے سے ملی ہے جبکہ بت پرستی کی اجازت بت پرستانہ محبت بت پرستانہ عقیدت کی اجازت کسی بھی قران کی ایت یا حدیث میں نہیں ائی
3۔۔۔۔اولیاء انبیاء صالحین سے وسیلہ اور تبرک تو کیا جاتا ہے لیکن ان کے لیے وہ کام وہ عبادات نہیں کیے جاتے جو خدا کے لیے مخصوص ہیں جبکہ بت پرستی میں بتوں کے لیے وہ کام کیے جاتے ہیں جو خدا کے لیے مخصوص ہیں
4۔۔۔۔۔اولیاء انبیاء صالحین کو ذاتی اور مستقل شفا یابی والا نہیں سمجھا جاتا جبکہ بتوں کو مستقل اور چھوٹا یا بڑا خدا سمجھا جاتا ہے
5۔۔۔۔بتوں کی منت میں دودھ وغیرہ ضائع کیا جاتا ہے بہایا جاتا ہے جبکہ شرعی منت نذر و نیاز خیرات میں غرباء کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے
6۔۔۔۔۔ بتوں کے چڑھاوے میں ذبح کرتے وقت بتوں کا نام لیا جاتا ہے جبکہ صالحین انبیاء کرام اولیاء عظام اور وفات شدگان کے ایصال ثواب کے لیے ذبح کرتے وقت اللہ کا ہی نام لیا جاتا ہے اور ثواب غیر اللہ کو کیا جاتا ہے
۔
اور بھی بہت سارے فرق ہیں اللہ سمجھ عطا فرمائے اور ہمیں بھی احتیاط کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App,twitter nmbr
00923468392475
03468392475