مرزا جہلمی نے اللہ تبارک و تعالی کی شان میں گستاخی کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کئی دفعہ گستاخیاں کیں۔۔اس کی ایک جھلک ملاحظہ کیجئے دلائل کے ساتھ، اور ہوسکے تو خوب پھیلائیے

 🛑 *#مرزا جہلمی نے اللہ تبارک و تعالی کی شان میں گستاخی کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کئی دفعہ گستاخیاں کیں۔۔اس کی ایک جھلک ملاحظہ کیجئے دلائل کے ساتھ، اور ہوسکے تو خوب پھیلائیے۔۔۔۔!!*

📌نوٹ:

یہ ایک تحقیقی معلوماتی تحریر ہے ، کوئی افیشل فتوی نہیں ہے، افیشل فتوی مفتیان کرام ہی دیں گے...نیچے دی گئ لنک پے آپ میری کافی ساری تحقیقی تحریرات پڑھ سکتے ہیں۔۔۔لنک یہ ہے👇

https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1

۔

🚨 *#مرزا جہلمی کہتا ہے کہ*

فرض نماز کے علاوہ جو نمازیں ہیں وہ نفل ہیں اور حیران کن بات کہ عربی میں نفل کہتے ہیں فالتو کو،مال غنیمت کے لیے ایا ہے انفال،یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم سنت کہتے ہیں،یہ سنت کا لفظ کسی حدیث میں موجود نہیں ہے ،حدیث میں دو ہی الفاظ ہیں فرض اور نفل، سنت فقہاء کی ٹرم ہے،نفل وہ فالتو ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شوق سے کیا، لیکن ہے فالتو

۔

✅ *#جواب و تحقیق۔۔۔۔۔۔!!*

مرزا جہلمی نے بڑے زور و شور سے کہا کہ نفل کہتے ہیں فالتو کو،اور بے شرمی کی انتہا کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نفل پڑھے وہ ہیں فالتو۔۔۔جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل مبارک کو فالتو قرار دے یقینا وہ گستاخ رسول ہے اور گستاخ رسول کی سزا سب کو معلوم ہے،اور نوافل کا حکم اللہ تعالی نے دیا ہے تو نعوذ باللہ مرزا جہلمی کے کلام سے ثابت ہوتا ہے کہ جہلمی کے مطابق نعوذ باللہ اللہ نے فالتو چیزوں کا حکم دیا ہے تو یہ بھی اللہ تبارک و تعالی کی شان میں گستاخی ہے۔۔۔ اے وہ احباب جو مرزا جہلمی سے متاثر ہیں خدارا اب تو انکھیں کھولیے یہ لیجیے دلائل پڑھیے 

۔

👈عربی میں فالتو کے لیے نفل لفظ استعمال نہیں ہوتا بلکہ فالتو کے لیے لفظ "عبث" وغیرہ استعمال ہوتے ہیں، اردو ڈکشنری کی مشہور ہو معروف کتاب فیروز اللغات میں لفظ فالتو کے یہ معنی لکھے ہیں:

بےکار، فضول ، پہاڑی لوگ ، قلی وغیرہ

فیروز اللغات ص923

۔

⏪ *#اب دلائل پڑھیے کہ کس طرح مرزا جہلمی نے اللہ تبارک و تعالی کی شان میں گستاخی کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی... پڑھیے دلائل۔۔۔۔!!*

1️⃣ *#دلیل1* 

القران

مِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً  لَّکَ

اللہ تعالی نے رسول کریم سے فرمایا کہ رات کو تہجد کی نماز پڑھیے جو کہ اپ کے لیے نفل ہے

سورہ بنی اسرائیل ایت79

خدارا انکھیں کھول کر، ضمیر کو جھنجوڑ کر سوچیے کہ کیا اللہ تعالی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کے نوافل یعنی فالتو، فضول، بےکار، بےفائدہ چیز کا حکم دے رہا ہے۔۔۔۔؟؟ جہلمی اور کے ماننے والوں کو اللہ ہدایت ورنہ ان خبیثوں کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔۔کیونکہ اللہ تعالی کی یہ شان نہیں کہ وہ فضول بے کار بے فائدہ فالتو چیزوں کا حکم دے۔۔۔ اللہ کریم ہر عیب سے پاک ہے۔۔۔جہلمی کی چرب زبانی اور جھوٹ اور مکاری عیاری کی چال میں پھنسنے والے احباب کرام غور کرو،جھنجوڑو اپنے ضمیر کو۔۔۔ورنہ اے اہل حق اور اے حکمرانوں پہچانو ضدی فسادی لوگوں کو اور انہیں کیفر کردار تک پہنچاؤ

۔

نَافِلَةً} فَضِيلَة {لَّكَ} وَيُقَال خَاصَّة لَك

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نفل ہیں اپ کے لیے یعنی اپ کے لیے ایک فضیلت والی چیز ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اپ کے لیے خاص چیز ہیں

تفسیر ابن عباس ص240


۔

قَتَادَةَ، {نَافِلَةً لَكَ} [الإسراء: 79] قَالَ: تَطَوُّعًا وَفَضِيلَةً لَكَ

سیدنا قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نفل ہیں اپ کے لیے یعنی فرض واجب نہیں لیکن فضیلت والے ہیں اپ کے لیے

تفسیر طبری15/42

۔

أن النوافل كفارات لذنوب العباد والنبي صلّى الله عليه وسلّم، قد غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر فكانت له نافلة وزيادة في رفع الدرجات

تہجد کی نفل اور دیگر نفل عام لوگوں کے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں بخشوا دیتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو بخشے بخاشے معصوم گناہوں سے پاک ہیں تو اپ کے لیے نوافل درجات میں بلندی کے لیے ہیں

تفسیر خازن3/140

۔

بل لكونها زيادة له صلى الله عليه وسلم في الدرجات۔۔۔فيكون تطوعُه زيادةً في درجاته بخلاف من عداه من الأمة فإن تطوعَهم لتكفير ذنوبهم وتدارُكِ الخللِ الواقعِ

 في فرائضهم

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نوافل درجات کی بلندی کے لیے ہیں،اور امتیوں کے لیے نوافل یہ فائدہ دیتے ہیں کہ اگر ان سے کوئی گناہ ہو جائے تو یہ گناہ مٹوا دیتے ہیں ، بخشوا دیتے ہیں اور فرائض واجبات ادا کرنے میں اگر کوئی خلل ہو گیا ہو تو یہ نفل اس کی بھرپائی کر دیتے ہیں

تفسیر ارشاد العقل السلیم5/190

۔

✅ مذکورہ ایت مبارکہ اور صحابہ کرام و تابعین و دیگر مفسرین کی تفسیر سے واضح ہوتا ہے کہ نفل فالتو چیز کو نہیں کہتے بلکہ نفل انتہائی قیمتی چیز ہیں، فائدہ مند ہیں

۔

2️⃣ *#دلیل2*  

القرآن:

وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ  اِسۡحٰقَ ؕ وَ یَعۡقُوۡبَ  نَافِلَۃً

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں نے انہیں اسحاق علیہ السلام بیٹا دیا اور یعقوب علیہ السلام دیا  نفل کر کے

سورہ الانبیاء ایت72

اب مرزا جہلمی کے مطابق نعوذ باللہ اللہ تعالی نے سیدنا یعقوب علیہ السلام کو فالتو قرار دے دیا ہے، فضول قرار دے دیا، بیکار قرار دے دیا نعوذ باللہ تعالی۔۔۔جہلمی کی چرب زبانی اور جھوٹ اور مکاری عیاری کی چال میں پھنسنے والے احباب کرام غور کرو۔۔۔جھنجوڑو اپنے ضمیر کو۔۔۔ورنہ اے اہل حق اور اے حکمرانوں پہچانو ضدی فسادی لوگوں کو اور انہیں کیفر کردار تک پہنچاؤ

۔

قَالَ مُجَاهِدٌ وَعَطَاءٌ: مَعْنَى النَّافِلَةِ الْعَطِيَّةُ

سینا مجاہد رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا عطاء رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نفل کا معنی ہے عطیہ تحفہ

تفسیر بغوی5/330

۔

نافِلَةً عطية

نفل کا معنی ہے عطیہ تحفہ

تفسیر بیضاوی4/56

۔

سفيان عن بن جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءٍ فِي قَوْلِهِ ووهبنا له إسحق  ويعقوب نافلة قَالَ يَعْقُوبُ النَّافِلَةُ

 وَالنَّافِلَةُ عَطِيَّةٌ

امام سفیان ثوری نے فرمایا کہ سیدنا عطا رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ہے کہ اس ایت مبارکہ میں نفل سے مراد سیدنا یعقوب علیہ السلام ہیں اور نفل کا معنی ہوتا ہے عطیہ تحفہ

تفسیر سفیان الثوری ص202

۔

ثُمَّ إِنَّهُ سُبْحَانَهُ ذَكَرَ النِّعَمَ الَّتِي أَفَاضَهَا عَلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ ثُمَّ النِّعَمَ الَّتِي أَفَاضَهَا عَلَى لُوطٍ، أَمَّا الْأَوَّلُ فَمِنْ وُجُوهٍ: أَحَدُهَا: وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ وَيَعْقُوبَ نافِلَةً وَاعْلَمْ أَنَّ النَّافِلَةَ الْعَطِيَّةُ خَاصَّةً وَكَذَلِكَ النَّفْلُ وَيُسَمَّى الرَّجُلُ الْكَثِيرُ الْعَطَايَا نَوْفَلًا

اللہ سبحانہ و تعالی نے ان نعمتوں کا ذکر فرمایا کہ جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر ہیں اور ان نعمتوں میں سے یہ بھی ہے کہ سیدنا اسحاق علیہ السلام اور سیدنا یعقوب علیہ السلام عطا فرمائے نفل کر کے۔۔۔۔ اور جان لو کہ بے شک نفل کا معنی عطیہ تحفہ ہوتا ہے، اسی وجہ سے نماز کے نوافل کو بھی نفل کہتے ہیں کہ وہ اللہ کا تحفہ ہوتے ہیں اور جو شخص بہت زیادہ تحائف دیتا ہو اسے نوفل کہتے ہیں

تفسیر کبیر رازی22/160

۔

✅ایت مبارکہ اور اس کی تفاسیر سے واضح ہوتا ہے کہ نفل انتہائی اہم چیز کو کہتے ہیں تحفے کو کہتے ہیں ، عطیہ کو کہتے ہیں، اللہ تبارک و تعالی کی خاص نعمتوں کو بھی نفل کہتے ہیں وہ نعمتیں کہ جو فرض واجب نہ ہوں، کیونکہ ایت مبارکہ میں اور تفسیر کبیر میں اس کی وضاحت موجود ہے کہ اللہ تعالی نے نعمتوں کا ذکر فرمایا اور ان نعمتوں میں سے ایک نعمت کو نفل فرمایا، تو ایت مبارکہ اور تفاسیر سے ثابت ہو گیا کہ نفل فالتو چیز کو نہیں کہتے بلکہ اللہ کی نعمت کو خاص نعمت کو کہتے ہیں اور تحفے کو کہتے ہیں اور فضیلت والی چیز کو کہتے ہیں،فائدہ مند چیز کو کہتے ہیں

۔

3️⃣ *#دلیل3* 

القرآن

لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ  فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ  اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ

بے شک تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی اسوہ حسنہ ہے

سورہ احزاب ایت21

۔

أي في أخلاقه وأفعاله قدوة حسنة

یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اخلاق اور کردار اور تمام کام ہر چیز اسوہ حسنہ ہیں کہ ان کی پیروی کی جائے

تفسیر محاسن التاویل8/57

۔

وفي نبينا مُحَمَّدٍ- عليه السلام- أسوةٌ حسنةٌ على 

الإطلاق

اور ہمارے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم مطلق طور پر یعنی ان کی ہر چیز ہر کام ہر فعل ہر قول مبارک سب کچھ اسوہ حسنہ ہے ، اس کی پیروی کرنی ہے

تفسیر ثعالبی5/419

۔

فَهِيَ عَامَّةٌ فِي كُلِّ شَيْءٍ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ ایت عام ہے یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر چیز ہر فعل ہر قول اسوہ حسنہ ہے، اس کی پیروی کرنی ہے

تفسیر فتح القدیر4/312

۔

 بِهِ اقْتِدَاءٌ حَسَنٌ

ہر معاملے میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی پیروی کرنا اسوہ حسنہ ہے

تفسیر بغوی6/335

۔

✅ایت مبارکہ اور تفاسیر سے واضح ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فعل ، کوئی قول، کوئی کام ، کوئی عبادت، کوئی بات ، کوئی بھی چیز بیکار و فالتو نہیں ہیں،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اخلاق عادات قول فعل ہر چیز ساری زندگی اپ کی اسوہ حسنہ ہے، فالتو بے کار اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ذرہ برابر بھی نہیں۔۔۔۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوافل پڑھے تو اس ایت مبارکہ اور تفاسیر سے ثابت ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نوافل فالتو نہیں بلکہ عظیم الشان چیزیں ہیں۔۔۔جبکہ مرزا جہلمی کہہ رہا ہے کہ نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ہمارے نوافل فالتو چیز ہیں

۔

اب ائیے ایک جھلک دیکھیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ نفل کے بارے میں کیا ہے

الحدیث:

: إِنْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَقُومُ لِيُصَلِّيَ حَتَّى تَرِمُ قَدَمَاهُ أَوْ سَاقَاهُ، فَيُقَالُ لَهُ فَيَقُولُ : " أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا

شَكُورًا

بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اتنے نوافل پڑھا کرتے تھے کہ اپ کے قدم مبارک یا ایڑیاں مبارک سوج جاتی تھیں،ان سے عرض کیا جاتا(کہ اپ تو عظیم الشان ہی،گناہوں سے پاک ہیں تو آپ اتنے نوافل کیوں ادا فرماتے ہیں، بظاہر اتنی تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں)تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ کیا میں اللہ تعالی کا شکر گزار بندہ نہ بنوں

بخاری حدیث1130

✅رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک سے بالکل واضح ہے کہ نفل کبھی بھی فالتو نہیں ہوتے ، شکر گزاری کے لیے بھی ہوتے ہیں تو دیگر مقاصد کے لیے بھی ہوتے ہیں، دیگر فوائد کے بھی حامل ہوتے ہیں

۔

وروى أبو يعلى برجال الصحيح عنه وهو ثقة ثبت عن علي- رضي الله تعالى عنه- قال: كان رسول الله- صلى الله عليه وسلم- يصلي من الليل التّطوع ثمان ركعات، وبالنهار اثنتي عشرة ركعة»

امام ابو یعلی نے صحیح سند کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث روایت کی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو 8 رکعت اور دن کو 12 رکعت فرائض کے علاوہ ادا فرماتے تھے

سبل الھدی و الرشاد8/263

✅حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ عمل مبارک یہ سنتیں ادا کرنا ایک دو دن کا کام نہیں بلکہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ فرما رہے ہیں کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ادا فرماتے تھے یعنی ان کا معمول تھا یعنی پابندی کے ساتھ ادا فرماتے تھے۔۔۔اور جو چیز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہ ہو لیکن اپ علیہ الصلوۃ والسلام پابندی کے ساتھ ادا فرمائیں تو وہ ہمارے لیے سنت موکدہ بن جاتی ہے، سنت موکدہ کا تصور بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک سے ہی ثابت ہے جو کہ اگے حدیث پاک ارہی ہے

.


عَائِشَةَ ، قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنَ السُّنَّةِ بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ : أَرْبَعٍ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو 12 رکعت سنت  پابندی کے ساتھ ادا کرتا رہے تو اللہ تعالی اس کے لیے جنت میں ایک خاص گھر بنواتا ہے،وہ 12 رکعت سنت یہ ہیں 

چار رکعت سنت ظہر سے پہلے اور دو رکعت سنت ظہر کے بعد اور دو رکعت مغرب کے بعد اور دو رکعت عشاء کے بعد اور دو رکعت فجر سے پہلے

ابن ماجہ حدیث1140

ترمذی حدیث414نحوہ

استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث5975نحوہ

۔

✅حدیث مبارکہ سے دو ٹوک ثابت ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرائض و واجبات کے علاوہ 12 رکعت کو نفل نہیں فرمایا بلکہ سنت فرمایا اور تاکید فرمائی کہ اس کو پابندی کے ساتھ ادا کیا کرو،جبکہ مرزا جہلمی کہتا ہے کہ کسی حدیث میں نہیں ہے کہ سنت ہیں یہ، مرزا جہلمی کہتا ہے کہ ان کو پابندی سے ادا کرنا غلط بات ہے غیر ضروری ہے جبکہ اپ کے سامنے حدیث مبارکہ واضح طور پر موجود ہے

۔

4️⃣ *#دلیل4*

انفال یعنی مال غنیمت کا معنی فالتو چیز نہیں ہیں۔۔۔تفصیل پڑھیے

القرآن:

 قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ

اے محبوب فرما دیجئے کہ انفال اللہ کے لیے ہے اور رسول کے لیے ہے

سورہ انفال ایت1

✅بتائیے اگر انفال فالتو چیز کو کہتے ہیں تو پھر فالتو چیز اللہ کے لیے ہے۔۔۔؟؟ فالتو چیز رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔۔۔؟؟ کیا یہ اللہ کی شان ہے۔۔۔؟؟ کیا یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائق ہے کہ اپ کو فالتو چیز تھما دی جائے۔۔۔؟؟

.

وَمَعْنَى الْأَنْفَالِ فِي كَلَامِ الْعَرَبِ: كُلُّ إِحْسَانٍ فَعَلَهُ فَاعِلٌ تَفَضُّلًا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَجِبَ ذَلِكَ عَلَيْهِ،

انفال کا معنی کلام عرب میں لغت عرب میں یہ ہے کہ ہر وہ نیکی بھلائی کہ جو واجب نہ ہو وہ نفل کہلاتی ہے

تفسیر ابن کثیر4/9

یعنی نفل فالتو نہیں ہوتے بلکہ وہ نیکی ہوتے ہیں بھلائی ہوتے ہیں۔۔۔ہاں وہ ایسی نیکی ایسی بھلائی ہوتے ہیں کہ جو فرض واجب کے علاوہ ہے

۔

النفل الغنيمة لانها من فضل الله وعطائه

مال غنیمت کو نفل اس لیے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے فضل اور عطا سے ہے

تفسیر نسفی1/629

۔

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الانفال} النفل الغنيمةُ سُمّيت به لأنها عطيةٌ من الله تعالى زائدة على ما هو أصلُ الأجرِ في الجهاد من الثواب الأخروي

اپ سے انفال کے بارے میں سوال کرتے ہیں اس ایت میں جو انفال ہے وہ نفل کی جمع ہے اور نفل سے مراد یہاں مال غنیمت ہے، مال غنیمت کو نفل اس لیے کہتے ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے جہاد کے اخروی ثواب کے علاوہ ایک عطیہ تحفہ ہے

تفسیر ارشاد العقل السلیم4/2

.

عَنِ الْأَنْفالِ يعنى ان الغنائم لمن هى والنفل الغنم لانها من فضل الله وعطائه

ایت میں جو افال ہے اس سے مراد غنیمتیں ہیں اور انفال نفل سے نکلا ہے نفل کا یہاں معنی ہے مال غنیمت اور مال غنیمت کو نفل اس لیے کہتے ہیں کیونکہ وہ اللہ کے فضل اور عطا سے ہے

تفسیر مظہری4/6

۔

✅ہم نے قران مجید سے چار ایات مبارکہ اور ہر ایت کی تفسیر میں چار تفاسیر کے حوالہ جات بطور تبرک دیے ہیں ورنہ حوالہ جات نکالے جائیں تو بہت طویل کتاب بن جائے۔۔

سمجھنے والے کے لیے تو ایک ایت بھی کافی ہے ایک حدیث بھی کافی ہے لیکن ہم نے بطور تبرک حق چار یار کی نسبت سے چار ایت مبارکہ اور ہر ایت کی چار تفاسیر سے حوالہ جات دیے ہیں تاکہ تھوڑی تفصیل ہو جائے شاید کہ منکرین کے دلوں کو جھنجھوڑے اور ہماری یہ تحریری ہدایت کا باعث بن جائے۔۔۔ امین یا رب العالمین


۔

5️⃣ *#دلیل5*

الحدیث القدسی:

وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میرا بندہ نوافل کے ساتھ اتنا قرب پاتا ہے کہ وہ میرا محبوب ترین بن جاتا ہے

بخاری حدیث 6502

✅جہلمی اور اس کے ماننے والو جنجوڑو اپنی ضمیر کو۔۔دیکھو کہ اللہ تعالی حدیث قدسی میں فرمایا ہے کہ نفل کوئی فالتو چیز نہیں بلکہ یہ ایسی عظیم الشان عبادت ہے کہ اس کے ذریعے سے بندہ اللہ کا خاص قرب پاتا ہے

۔

6️⃣ *#دلیل6*

الحدیث 

 وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ ؛ صَلَاةُ اللَّيْلِ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کے فرائض کے بعد افضل نماز وہ ہے کہ جو اور رات کو نوافل پڑھے جائیں

مسلم حدیث1163, 2756

✅اور کتنے دلائل چاہیے۔۔۔۔؟؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نوافل کو افضل ترین نماز قرار دیا جا رہا ہے، بتاؤ کہ کیا فالتو چیز بھی افضل ہو سکتی ہے۔۔۔۔؟؟ جہلمی اور اسکے ماننے والو اللہ تمہیں ہدایت دے

۔

7️⃣ *#دلیل7*

الحدیث 

وَإِنْ كَانَ انْتَقَصَ مِنْهَا شَيْئًا قَالَ : انْظُرُوا هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ ؟ فَإِنْ كَانَ لَهُ تَطَوُّعٌ قَالَ : أَتِمُّوا لِعَبْدِي فَرِيضَتَهُ

 مِنْ تَطَوُّعِهِ

قیامت کے روز اللہ تعالی فرمائے گا کہ اگر میرے بندے کے فرائض میں کوئی کمی ہے تو دیکھو اس نے کوئی نوافل پڑھے ہیں، اگر اس نے نوافل پڑھے ہیں تو اس کمی کو نوافل سے پوری کر دو

ابو داؤد حدیث864

✅نوافل کا فائدہ یہ بھی ہے جو اپ نے مذکورہ حدیث پاک میں پڑھا۔۔۔اتنے بڑے فائدے والی چیز کو فالتو کہتے ہوئے شرم نہیں اتی۔۔۔۔؟؟

۔

8️⃣ *#دلیل8*

سنت کی ٹرم یعنی سنت کی اصطلاح مرزا چہلمی کے مطابق بعد کے فقہاء نے ایجاد کی ہے 👈جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان نوافل کو سنت قرار دیا ہے یہ دیکھیے حدیث پاک

عَائِشَةَ ، قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنَ السُّنَّةِ بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ : أَرْبَعٍ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ 

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو 12 رکعت سنت  پابندی کے ساتھ ادا کرتا رہے تو اللہ تعالی اس کے لیے جنت میں ایک خاص گھر بنواتا ہے،وہ 12 رکعت سنت یہ ہیں 

چار رکعت سنت ظہر سے پہلے اور دو رکعت سنت ظہر کے بعد اور دو رکعت مغرب کے بعد اور دو رکعت عشاء کے بعد اور دو رکعت فجر سے پہلے

ابن ماجہ حدیث1140

ترمذی حدیث414نحوہ

استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث5975نحوہ

۔

9️⃣ *#دلیل9*

👈سنت کو موکدہ کہنے یعنی سنت کو لازمی قرار دینے کی دلیل بھی خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے اور عمل مبارک بھی اس کی دلیل ہے،عمل مبارک اس طرح دلیل ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سنتوں پر ہمیشگی فرمائی یعنی مستقل یہ سنتیں پڑھتے رہے اور حضور نے فرمایا کہ تم پر میری سنتیں لازم ہیں،

👈بلکہ خود حدیث پاک میں ہے کہ رسول کریم نے فرمایا کہ جو میری سنتوں سے دور بھاگے گا وہ مجھ سے نہیں ہے یعنی رسول کریم اس سے لا تعلقی فرما رہے ہیں جو سنتوں کو چھوڑتا پھرے تو بتائیے بعد کے فقہاء نے ایجاد کیا یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول مبارک اور عمل مبارک سے یہ ثابت ہے کہ سنت موکدہ لازمی ہیں، ان پر عمل لازمی ہے۔۔۔۔؟؟

۔

الحدیث:

أَنَا فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا، وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلاَ أُفْطِرُ، وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلاَ أَتَزَوَّجُ أَبَدًا، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: «أَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا، أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي»

ایک صحابی  نے عزم کیا کہ میں ساری رات ہمیشہ نوافل پڑھا کروں گا اور دوسرے صحابی نے عزم کیا کہ میں ساری زندگی، ہر دن روزہ رکھوں گا اور کبھی بھی کوئی روزہ نہیں چھوڑوں گا،ایک اور صحابی نے عزم کیا کہ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عورتوں سے دور ہو جاؤں گا اور کوئی شادی نہ کروں گا۔۔۔۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان سے کہا کہ کیا تم وہی ہو کہ جس نے یہ یہ بات کہی ہے، سنو خدا کی قسم میں محمد رسول اللہ سب سے زیادہ اللہ کا خوف رکھتا ہوں اور سب سے زیادہ تقوی والا ہوں اور میں نفلی روزے بھی رکھتا ہوں اور روزے کسی دن نہیں بھی رکھتا، نفلی نمازیں پڑھتا ہوں اور (بظاہر) نیند بھی کرتا ہوں،اور میں عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں تو یہ ساری میری سنتیں ہیں اور جس نے میری سنتوں سے منہ موڑا وہ مجھ سے نہیں ہے ، میں اسے لا تعلقی کا اعلان کرتا ہوں

بخاری حدیث5063

✅حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فرمان مبارک سے ثابت ہو گیا کہ جس سنت مبارکہ پر اپ نے ہمیشگی فرمائی اور ہم اس کو نفل نفل کے کر چھوڑتے پھریں تو یہ بہت خطرناک چیز ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے شخص سے اللہ تعلقی کا اظہار فرما رہے ہیں، 🚨 جبکہ مرزا جہلمی اس مشن پر لگا ہے کہ کسی طرح امت کو سنت موکدہ سے دور کر دیا جائے، ان کے دلوں میں سنت کی عظمت ختم کر دی جائے۔۔۔پہچانو ، لوگو پہچانو یہ علمی کتابی نہیں ہے بلکہ مکار فسادی ہے اور مکار اگر سمجھائے نہ سمجھے تو ایسے ضدی فسادی کو ٹھکانے لگانا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مبارک ہے

.

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشگی سے سنتیں پڑھا کرتے تھے یہ لیجئے حوالہ حدیث مبارک سے

الحدیث

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ التَّطَوُّعَ ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ، وَبِالنَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً....إسناده صحيح

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھ رکعت اور دن کو 12 رکعت پڑھا کر دیتے تھے، اس حدیث کی تحقیق میں محقق کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے

مسند ابی یعلی حدیث495

.

۔

🔟 *#دلیل10*

لغت میں نفل کے معنی وہ نہیں جو مرزا جہلمی نے بتائے ہیں عربی میں فالتو کے لیے "عبث" لفظ استعمال ہوتا ہے.. عربی لغت میں نفل کے معنی اوپر دیے گئے دلائل میں سے قران مجید کی ایات کی تفسیر میں بھی بتائے گئے ہیں

کہ 👈👈نفل "فضیلت تحفہ نعمت" کو کہتے ہیں اور مزید عربی لغت سے نفل کے معنی یہ ہیں

۔

1۔۔۔نَافِلَةُ الصَّلاَة، (كالنَّفْلِ) ، سُمِّيت صَلَاة التَّطَوُّع نافِلَةً وَنَفْلاً؛ لِأَنَّها زِيادَةُ أَجْرٍ لَهُمْ عَلى مَا كُتِبَ لَهُم مِن ثَوابِ مَا فُرِضَ

 عَلَيْهِم

نفل نماز کو نفل اس لیے کہتے ہیں کیونکہ یہ فرائض کے ثواب کے علاوہ زیادہ اجر دینے والی چیز ہے

تاج العروس31/18

ثابت ہوا کہ نفل اجر و ثواب یعنی فضیلت والی چیز کو کہتے ہیں

۔

2۔۔۔نافلة، أي: فضيلةً

نفل کا معنی ہے فضیلت والی چیز

العین3/385

۔

3...وصلاةُ التطوُّع نَافِلةٌ لأَنها زِيَادَةُ أَجْرٍ لَهُمْ عَلَى مَا كُتِبَ لَهُمْ مِنْ ثَوَابِ مَا فُرِضَ عَلَيْهِمْ

نفل نماز کو نفل اس لیے کہتے ہیں کیونکہ یہ فرائض کے ثواب کے علاوہ زیادہ اجر دینے والی چیز ہے

لسان العرب11/671

.

4...نفل: النفل: الغنم، والجمع الأنفال، ونفلتك: أعطيتك نفلا.

والنافلة: عطية الطوع من حيث لا يجب، ومنه نافلة

الصلاة

نفل "مال غنیمت" کو بھی کہتے ہیں جس کی جمع انفال ہوتی ہے اور اس کا معنی ہے میں نے تمہیں تحفہ دیا... نفل نماز کو نفل اس لیے کہتے ہیں کہ وہ تحفہ ہوتی ہے لیکن واجب نہیں ہوتی

مجمل اللغۃ ص877

۔

5...سُمِّيت الغَنائم أَنفالاً، لأنّ الْمُسلمين فُضِّلُوا على سَائِر الأُمم الَّذين لم تَحِلّ لَهُم الغَناثم.وسُمّيت صَلَاة التطوُّع: نَافِلَة، لِأَنَّهَا زِيَادَة أَجْر لَهُم على مَا كُتب من ثَواب مَا فُرض

 عَلَيْهِم

مال غنیمت کو انفال کہتے ہیں کیونکہ یہ وہ فضیلت والی چیز ہے کہ جو دوسری امتوں کے لیے حلال نہیں تھی لیکن اللہ کی طرف سے تحفہ ہو کر مسلمانوں کے لیے حلال کر دی گئی اور نفل نماز کو نفل اس لیے کہتے ہیں کہ فرض کے علاوہ جو زیادہ ثواب ملتا ہے وہ ان نوافل سے ملتا ہے

تھذیب اللغۃ15/265

۔

✅عربی لغت کی مشہور و معروف معتبر ترین کتب سے ہم نے چند حوالے پیش کیے ہیں ، سمجھنے والے کے لیے تو ایک حوالہ بھی کافی تھا لسان العرب کا یا تاج العروس کا۔۔۔اللہ کریم سمجھ عطا فرمائے ہدایت عطا فرمائے اور ہدایت کا باعث بنائے

۔

1️⃣1️⃣ *#دلیل11*

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال مبارک کردار مبارک احوال مبارک حتی کہ اپ علیہ الصلوۃ والسلام سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کا ادب ضروری ہے اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کام کو فالتو کہے تو یہ گستاخی ہے۔۔۔مرزا جہلمی لفظ فالتو کی کوئی تاویل کر کے بچ نہیں سکتا کیونکہ عرف میں لفظ فالتو اور مرزا جہلمی کا انداز دونوں ہی گستاخی اور توہین ہیں ، کوئی ذی شعور ایسے الفاظ وہ انداز کو ادب کا الفاظ و انداز نہیں کہہ سکتا،اگرچہ لغت میں فالتو کا دوسرا کوئی خفیہ معنی نکلتا ہو کہ جس سے بچنے کی کوشش کرے تو بھی یہ اس کی کوشش نا قابل قبول ہوگی کیونکہ کسی چیز کے گستاخی ہونے کا دارومدار الفاظ پہ بھی ہے اور اس پر بھی ہے کہ عرف میں اس کو گستاخی سمجھا جاتا ہے یا نہیں۔۔۔عرف عام میں جس چیز کو گستاخی سمجھا جاتا ہو تو اس کی لاکھ تاویل کیجئے، کوئی خفیہ بعید معنی مراد لے کر تاویل کیجیے تو بھی قابل قبول نہیں ہوگی کیونکہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم اور معزز ہستیوں کے متعلق قران اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسے الفاظ انداز گستاخی ہیں کہ جو عرف میں توہین کے لیے استعمال ہوتے ہوں یا اشارتا کنایتا کسی بھی طریقے سے توہین کے لیے استعمال ہوں تو وہ گستاخی ہیں، کوئی تاویل وغیرہ نہ سنی جائے گی

.

القرآن

 لِّتُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ  وَ تُعَزِّرُوۡہُ وَ تُوَقِّرُوۡہُ ؕ وَ تُسَبِّحُوۡہُ  بُکۡرَۃً  وَّ اَصِیۡلًا

اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو

(سورہ فتح آیت9)

.

وعزَّروه"، يقول: وَقَّروه وعظموه

معنی ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ(ہر حال میں)رسول کی تعظیم و توقیر کرو

(تفسیر طبری13/168)

.

وَذِكْرِ تِلْكَ الْأَحْوَالِ الْوَاجِبِ مِنْ تَوْقِيرِهِ وَتَعْظِيمِهِ، وَيُرَاقِبُ حَالَ لِسَانِهِ وَلَا يُهْمِلُهُ وَتَظْهَرُ عَلَيْهِ عَلَامَاتُ الْأَدَبِ

1️⃣حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے احوال کو بیان کرے تو اس پر واجب ہے کہ تعظیم و توقیر سے بیان کرے اور اپنی زبان کی سخت نگرانی رکھے، اسے کھلا نہ چھوڑ دے اور اس پر ادب کی علامات بالکل ظاہر ہونے چاہیے

شفاء شریف2/544

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز مبارک کو فالتو کہنے والا اور انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ مکاری کے ساتھ اور بار بار فالتو کہنے والا ادب کا انداز ہے یا گستاخی کا ، اندازہ لگانا مشکل نہیں۔۔۔۔!!

۔

فمن ذلك أن من سبّ نبيا عليه أفضل الصلاة والسلام ۔۔۔۔- أو عابه أو الحق به نقصا في نفسه أو في نسبه أو دينه أو خصلة من خصاله، أو عرض به أو شبهه بشيء على طريق السب والازدراء أو التصغير بشأنه أو الغض منه، أو العيب له، أو لعنه أو دعا عليه، أو تمنى له مضرة أو نسب إليه ما لا يليق بمنصبه على طريق الذم، أو عبث في جهته

 العزيزة

2️⃣جس کسی نے نبی (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کو برا  کہا، یا عیب لگایا، یا ان کی ذات، انکے نسب، انکے دین اور انکی کسی صفات یا کسی بھی خصلت عادت طور طریقہ عمل میں نقص کی نسبت کی، یا ان کی طرف اشارے میں گستاخی کی، یا کسی حقیر یا ناپسندیدہ چیز سے ان کا تمثیلی یا تشبیہی تعلق جوڑا اور گستاخی توہین، یا چھوٹا دکھانے کے انداز میں، یا ان کے مقام و مرتبہ میں کمی کرنے کی کوشش کی، یا ان پر کوئی عیب لگایا، یا ان پر لعنت کی، یا ان پر بددعا کی، یا ان کے لیے کسی نقصان کی خواہش کی، یا ان کی شان کے خلاف کوئی بات اس نیت سے کہی جو ان کے مرتبے کے شایان شان نہ ہو، یا  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جہت عزیزہ کی طرف فالتو کی نسبت کی تو وہ کافر و گستاخ ہے

الإعلام بقواطع الإسلام ص177

۔

. ومن توقيره - صلى الله عليه وسلم - تعظيم شأنه احترامًا، وإكبارًا لكل ما يتعلق به من اسمه وحديثه، وسنته وشريعته، وآل بيته، وصحابته - رضوان الله عليهم - وكل ما اتصل به - صلى الله عليه وسلم

3️⃣حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی توقیر(کہ جو اسلام کا ایک ستون ہے اسی تعظیم و توقیر) میں سے ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے تمام معاملات کی تعظیم کی جائے احترام کیا جائے اور بڑائی اور تعظیم دی جائے ہر اس چیز کو جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق رکھتی ہے جیسے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا نام مبارک، اپ کی احادیث مبارک اور اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں، قول مبارک، کردار مبارک، شریعت اور اہل بیت اور صحابہ کرام اور ہر وہ چیز کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق رکھتی ہے نسبت رکھتی ہے ان کی تعظیم و توقیر کرنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تعظیم و توقیر میں سے ہے

موسوعہ محاسن الاسلام1/168

۔

مَنْ سَبَّهُ أَوْ شَتَمَهُ، أَوْ عَابَهُ أَوْ تَنَقَّصَهُ فَإِنَّهُ يُقْتَلُ، وَحُكْمُهُ عِنْدَ الْأُمَّةِ الْقَتْلُ كَالزِّنْدِيقِ وَقَدْ فَرَضَ اللَّهُ تعالى

 توقيره

4️⃣جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا کہا ، گالی دی یا عیب لگایا یا ان کی شان میں کمی کی، بے شک اس کو قتل کر دیا جائے گا اس کا حکم ساری امت کے نزدیک قتل ہے جیسے کہ زندیق کو قتل کیا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر کو فرض قرار دیا ہے

شفاء شریف2/477

۔

 شتمه أو عابه أو تنقصه فإنه يقتل، وحكمه عند الأمة

 القتل

5️⃣جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا کہا یا عیب لگایا یا ان کی شان میں کمی کی اس کو قتل کیا جائے گا اس کا حکم تمام امت کے مطابق قتل ہے

السیف المسلول ص127

۔

وَيُعْتَبَرُ سَابًّا لَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُل مَنْ أَلْحَقَ بِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَيْبًا أَوْ نَقْصًا، فِي نَفْسِهِ، أَوْ نَسَبِهِ، أَوْ دِينِهِ، أَوْ خَصْلَةٍ مِنْ خِصَالِهِ، أَوِ ازْدَرَاهُ، أَوْ عَرَّضَ بِهِ، أَوْ لَعَنَهُ ، أَوْ شَتَمَهُ، أَوْ عَابَهُ، أَوْ قَذَفَهُ، أَوِ اسْتَخَفَّ بِهِ،

وَنَحْوَ ذَلِكَ

6️⃣جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی عیب لگایا یا کمی کی یا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات مبارک یا ان کے نسب مبارک یا ان کے دین مبارک یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی عادت فعل کے متعلق عیب و کمی کی نسبت کی، یا ان کو کمتر سمجھا یا اشارے کنائے سے گستاخی کی یا لعنت کی یا برا کہا یا عیب لگایا یا تہمت لگائی یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہ کسی کام یا ذات مقدس یا قول مبارک یا متعلقات کو ہلکا جانا، یا اس قسم کی دیگر چیزیں کی تو ایسا کرنے والا گستاخ شمار ہوگا

موسوعہ فقہیہ کوئیتیہ22/144

۔

مَنْ سَبَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَوْ عَابَهُ أَوْ أَلْحَقَ بِهِ نَقْصًا فِي نَفْسِهِ أَوْ نَسَبِهِ أَوْ دِينِهِ أَوْ خَصْلَةٍ مِنْ خِصَالِهِ أَوْ عَرَّضَ بِهِ أَوْ شَبَّهَهُ بِشَيْءٍ عَلَى وَجْهِ السَّبِّ أَوِ الِازْدِرَاءِ أَوِ التَّصْغِيرِ لِشَأْنِهِ أَوِ الْغَضِّ مِنْهُ يُقْتَلُ كَالسَّابِّ وَيَسْتَوِي التَّصْرِيح

 وَالتَّلْوِيحُ

7️⃣جس نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی مذمت کی یا گستاخی کی یا ان پر عیب لگایا یا ان کی ذات میں یا ان کے نسب میں یا ان کے دین میں کسی قسم کی کمی کی، یا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے کسی حالت عادت قول فعل وغیرہ میں کمی کی نسبت کی،اشارتا گستاخی کی یا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو کسی شے کے ساتھ تشبیہ دی گستاخی کے طور پر حقارت کے طور پر کمی کے طور پر یا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی شان میں کوئی کمی کی نسبت کی تو اس کو قتل کیا جائے گا کیونکہ وہ گستاخ ہے اور ان تمام معاملات میں وہ گستاخی دو ٹوک الفاظ و انداز سے کرے یا اشارے کنائے سے کرے ہر حال میں اسے گستاخ قرار دیا جائے گا

 الذخيرة للقرافي12/22

۔

عابه) أي ذمه (أو ألحق به نقصا في نفسه) أي ذاته أو صفاته (أو نسبه) بفتحتين (أو دينه) أي شريعته وسيرته وحكوماته (أو خصلة من خصاله) أي حالة من حالاته أو كلمة من مقالاته سواء صرح به (أو عرض به) بتشديد الراء أي لوح فيه (أَوْ شَبَّهَهُ بِشَيْءٍ عَلَى طَرِيقِ السَّبِّ لَهُ أو الإزراء عليه) أي احتقارا به واستخفافا بحقه (أو التّصغير لشأنه) أي الاحتقار لعظيم قدره (أو الغضّ منه) أي الخفض والنقص من أمره (والعيب له) في حكمه (فهو) بكل واحد مما ذكر

 (سَابٌّ لَهُ

8️⃣جس نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر عیب لگایا یا مذمت کی یا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات یا صفات یا نصب میں کوئی کمی کی نسبت کی،یا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی شریعت سیرت حکومت فیصلے کی طرف کمی کی نسبت کی،یا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی کسی خصلت یعنی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے حالات میں سے کسی بھی ایک حالت یا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے تمام کلمات میں سے کسی ایک لفظ میں واضح طور پر کمی کی نسبت کی یا اشارے کے طور پر کمی کی نسبت کی۔۔۔۔یا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تشبیہ کسی شے کے ساتھ عیب کے طور پر حقارت کے طور پر کی یا اپ کی شان گھٹانے کے لیے کی،یا عیب لگایا تو ان تمام صورتوں میں وہ شخص گستاخ کہلائے گا

شرح شفاء ملا علی قاری2/391

۔

وَأَلْحَقَ نَقْصًا فِي نَسَبِهِ أَوْ دِينِهِ أَوْ عِرْضِهِ أَوْ خَصْلَةٍ مِنْ خِصَالِهِ أَوْ قَالَ تَعْبِيرًا رِدَاءُ النَّبِيِّ وَسِخٌ أَوْ عَيَّرَهُ بِرَعْيِ الْغَنَمِ أَوْ السَّهْوِ أَوْ النِّسْيَانِ أَوْ نَسَبَ إلَيْهِ سَفَهًا مِنْ الْقَوْلِ أَوْ قَالَ اسْتِخْفَافًا هُزِمَ النَّبِيُّ أَوْ قَالَ أَنَّهُ لَيْسَ مِنْ الْعَرَبِ كَفَرَ فِي

 الْكُلِّ

9️⃣جس نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نسب مبارک یا دین مبارک یا شان مبارک یا اپ کے کسی کام و خصلت کے متعلق نقص و کمی کی نسبت کی، یا تعبیرا کہا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر میلی ہے،یا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو طعنہ مارتے ہوئے کہا کہ وہ تو بکریاں چراتے تھے، یا  کہا کہ وہ تو بھول جاتے تھے یا ان کی طرف کوئی بیہودہ بات منسوب کی یا حضور کی شان میں کمی کرتے ہوئے کہا کہ حضور کو تو شکست ہو گئی،یا کہا کہ وہ عربی نہیں ہے تو ان تمام صورتوں میں وہ گستاخ و کافر ہے

بريقة محمودية2/62

۔

سبا الی العرف

🔟توہین اور گستاخی کے معاملے میں عرف کو دیکھا جائے گا (اگر عرف میں وہ توہین و گستاخی شمار ہوتی ہے تو اسے گستاخ قرار دیا جائے گا)

السیف الجلی ص190


سبًا، وهو أمر يرجع فيه إلى العرف

توہین اور گستاخی یہ وہ معاملہ ہے جس میں عرف عام کی طرف رجوع کیا جائے گا

السیف المسلول ص432

۔

فيجب أن يرجع في الأذى والشتم إلى العرف، فما عدَّه أهل العرف سبًّا أو انتقاصًا أو عيبًا أو طعنًا ونحو ذلك فهو من السب

توہین گستاخی اذیت گالی وغیرہ معاملات میں عرف کی طرف رجوع کیا جائے گا جس لفظ و انداز کو اہل عرف (عام طور پر لوگ) گالی گستاخی عیب طعنہ، کمتری،حقارت

 شمار کریں تو وہ لفظ و انداز توہین و گستاخی شمار ہوگی

الاختيارات الفقهية ص352

۔

🔴 القرآن:

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ اللّٰہَ  وَ رَسُوۡلَہٗ  لَعَنَہُمُ  اللّٰہُ  فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ  وَ اَعَدَّ لَہُمۡ  عَذَابًا مُّہِیۡنًا

 بے شک وہ لوگ جو اللہ کو اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں(رسول کی گستاخی کرکے انکار کر کے کسی بھی طریقے سے)تو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور اللہ نے ان(گستاخوں منکروں) کے لیے ذلت کا عزاب تیار کر رکھا ہے

(سورہ الاحزاب آیت57)

.

1️⃣وفي الآية دلالة عصمة رسول اللَّه، وألا يكون منه ما يستحق الأذى بحال

اس آیت میں واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معصوم ہیں اور ان کی کسی بھی حال میں اذیت و گستاخی نہیں کرسکتے

(تفسیر الماتریدی8/413)

.

لما أمر تعالى بتعظيم رسوله صلى الله عليه وسلم، والصلاة والسلام عليه، نهى عن أذيته، وتوعد عليها فقال: {إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ} وهذا يشمل كل أذية، قولية أو فعلية، من سب وشتم، أو تنقص له، أو لدينه، أو ما يعود إليه بالأذى. {لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا} أي: أبعدهم وطردهم..{وَالآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا} جزاء له على أذاه، أن يؤذى بالعذاب الأليم، فأذية الرسول، ليست كأذية غيره، لأنه -صلى الله عليه وسلم- لا يؤمن العبد بالله، حتى يؤمن برسوله صلى الله عليه وسلم. وله من التعظيم، الذي هو من لوازم الإيمان،

ما يقتضي ذلك

2️⃣ جب اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا حکم دیا اور انکو اذیت دینے انکی گستاخی کرنے سے روکا تو یہ بھی ڈر سنایا کہ دنیا و آخرت میں لعنت و عذاب ہوگا...رسول کی ہر قسم کی گستاخی سے اللہ نے روکا ہے چاہے وہ گستاخی قول سے ہو، فعل و عمل سے ہو، سب و شتم سے ہو،یا انکی ذات میں یا انکے دین میں تنقیص کی جائے یا کوئی بھی گستاخی ہو اسکی جزا دنیا و آخرت میں لعنت و سزا ہے....رسول کریم کو اذیت دینا گستاخی کرنا دوسروں کی اذیت و گستاخی کی طرح نہیں کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہے کہ اللہ پر کوئی بندہ اس وقت ایمان لائے گا جب وہ رسول پر ایمان لائے گا اور رسول کی تعظیم کرے گا یہ ایمان کے لوازمات میں سے ہے ایمان کا تقاضا ہے

(تفسیر السعدی ص671)

.

3️⃣عبر بإيذاء الله ورسوله عن فعل ما لا يرضى الله ورسوله

 اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دینا اسکی وضاحت یوں ہے کہ ایسا قول و فعل بیان کیا جائے جس سے اللہ راضی نہ ہو اور رسول راضی نہ ہو

(تفسیر نسفی3/44)


.

4️⃣نزلت في الذين طعنوا على النبي صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر طعنے مارے گئے تو یہ آیت نازل ہوئی( کہ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت نہ دو گستاخی نہ کرو)

(تفسیر طبری20/323)


.

من أذى رسول الله صلى الله عليه وسلم بطعن فى شخصه او دينه او نسبه او صفة من صفاته او بوجه من وجوه الشين فيه صراحة او كناية او تعريضا او اشارة كفر

ولعنه الله

5️⃣ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے ان کو اذیت پہنچائے کوئی طعنہ دے کہ ان کی ذات میں طعنہ دے یا ان کے دین میں طعنہ دے یا ان کے نسب میں طعنہ دے یا ان کی صفات میں سے کسی صفت میں طعنہ دے یا کسی بھی طریقے کی توہین کرے صراحتاً کرے یا کنایۃ کرے ، تعریضا کرے یا اشارتا کرے کسی بھی طرح کرے  سب کفر ہے اور اللہ کی اس پر لعنت ہے

(تفسیر مظہری7/381)

.

6️⃣عَيَّرَهُ بِشَيْءٍ مِمَّا جَرَى مِنَ الْبَلَاءِ وَالْمِحْنَةِ عَلَيْهِ، أَوْ غَمَصَهُ «١» بِبَعْضِ الْعَوَارِضِ الْبَشَرِيَّةِ الْجَائِزَةِ وَالْمَعْهُودَةِ لَدَيْهِ، وَهَذَا كُلُّهُ إِجْمَاعٌ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَأَئِمَّةِ الْفَتْوَى مِنْ لَدُنِ الصَّحَابَةِ رِضْوَانُ اللَّهِ عليهم إلى هلم جرا

 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو عار دی(طعنہ مارا) ان چیزوں کے ذریعہ سے کہ جو اللہ تعالی نے ان پر امتحانات ڈالے مصائب ڈالے تو یہ کفر ہے

یا

پھر عوارض بشریہ(یعنی کھانا پینا سونا جاگنا شادی کرنا سردی گرمی لگنا وغیرہ)کے ذریعے توہین و گستاخی کی تو بھی کفر ہے....اس پر آج تک کے معتبر علماء کا اجماع ہے مفتیان کرام کا اجماع ہے صحابہ کرام کا اجماع ہے

(الشفا بتعريف حقوق المصطفى2/474)

.

أو عيّره بشيء مما جرى من البلاء والمحنة عليه، أو غمصه ببعض العوارض البشرية الجائزة والمعهودة لديه كان كافرا بالإجماع

7️⃣یا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو عار دی(طعنہ مارا) ان چیزوں کے ذریعہ سے کہ جو اللہ تعالی نے ان پر امتحانات ڈالے مصائب ڈالے تو یہ کفر ہے یا پھر عوارض بشریہ(یعنی کھانا پینا سونا جاگنا شادی کرنا سردی گرمی لگنا وغیرہ)کے ذریعے توہین و گستاخی کی تو بھی کفر ہے اس پر اجماع ہے

(الإعلام بقواطع الإسلام ص117)

.

يَسُبُّهُ أَوْ يَسْتَخِفُّ أَوْ يَسْتَهْزِئُ بِهِ أَوْ بِشَيْءٍ مِنْ أَفْعَالِهِ كَلَحْسِ الْأَصَابِعِ، أَوْ يُلْحِقُ بِهِ نَقْصًا فِي نَفْسِهِ أَوْ نَسَبِهِ أَوْ دِينِهِ أَوْ فِعْلِهِ، أَوْ يُعَرِّضُ ذَلِكَ أَوْ يُشَبِّهُهُ بِشَيْءٍ عَلَى طَرِيقِ الْإِزْرَاءِ أَوْ التَّصْغِيرِ لِشَأْنِهِ أَوْ الْغَضِّ مِنْهُ، أَوْ تَمَنَّى لَهُ مَضَرَّةً أَوْ نَسَبَ إلَيْهِ مَا لَا يَلِيقُ بِمَنْصِبِهِ عَلَى طَرِيقِ الذَّمِّ أَوْ عَبِثَ فِي جِهَتِهِ الْعَزِيزَةِ بِسُخْفٍ مِنْ الْكَلَامِ وَهَجْرٍ وَمُنْكَرٍ مِنْ الْقَوْلِ وَزُورٍ أَوْ غَيْرِهِ بِشَيْءٍ مِمَّا جَرَى مِنْ الْبَلَاءِ وَالْمِحْنَةِ عَلَيْهِ، أَوْ غَمَصَهُ بِبَعْضِ الْعَوَارِضِ الْبَشَرِيَّةِ الْجَائِزَةِ وَالْمَعْهُودَةِ لَدَيْهِ فَيُكَفَّرُ بِوَاحِدٍ

مِمَّا ذُكِرَ إجْمَاعًا

8️⃣ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو گالم گلوچ کرے یا اس کی توہین و گستاخی کرے یا انکی ذات کا مذاق اڑائے یا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کام کا مذاق اڑائے جیسے کہ انگلیاں چاٹنا یہ سب کفر ہے... اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات یا نسب میں کوئی عیب نکالنا  اس کے دین میں یا نبی پاک کے کسی بھی کام میں عیب و نقص نکالنا بولنا سمجھنا کفر ہے...یا ابھام و تشبیہ و اشارے کی آڑ میں گستاخی کرے یا کمتری و تذلیل کرے تو یہ سب بھی کفر ہے...نبی پاک کا نقصان و کمی چاہے یا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی ایسی چیز یا قول یا فعل منسوب کرے کہ جو رسالت کے منصب کے لائق نہ ہو تو اس طرح توہین و گستاخی کرنا بھی کفر ہے...تو توہین و کمتری کرے اس طرح کہ نبی پاک کا کلام کم عقل والا ہے یا ھجر و منکَر ہے تو بھی کفر ہے،یا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو عار دی(طعنہ مارا توہین کی کمتری بیان کی) ان چیزوں کے ذریعہ سے کہ جو اللہ تعالی نے ان پر امتحانات ڈالے مصائب ڈالے تو یہ کفر ہے یا پھر عوارض بشریہ(یعنی کھانا پینا سونا جاگنا شادی کرنا سردی گرمی لگنا وغیرہ)کے ذریعے توہین و گستاخی کی تو بھی کفر ہے...یہ سب کفر ہیں اس پر اجماع ہے

(الزواجر عن اقتراف الكبائر ابن حجر1/48)

.

حقره (ببعض العوارض البشريّة الجائزة) جريانها (عليه المعهودة لديه) كالجوع والإغماء ونحوهما (وهذا) الذي ذكرناه (كلّه إجماع من العلماء) من المفسرين والمحدثين (وأئمّة الفتوى) من المجتهدين (من لدن الصّحابة رضي الله تعالى عنهم أجمعين إلى هلمّ جرّا

9️⃣ صحابہ کرام کا اجماع ہے اور صحابہ کرام سے لے کر آج تک جتنے بھی معتبر علماء محدثین مفسرین اور مفتیان کرام گزرے ہیں ان سب کا اجماع ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر عار دی(طعنہ مارا توہین کی کمتری بیان کی) ان چیزوں کے ذریعہ سے کہ جو  عوارض بشریہ ہیں(یعنی کھانا پینا سونا جاگنا شادی کرنا سردی گرمی لگنا وغیرہ کے ذریعے توہین و گستاخی کی)تو سب کا اجماع ہے کہ یہ کفر ہے

(شرح ملا علی قاری علی الشفاء2/391)

۔


✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

New whatsapp nmbr

03062524574

00923062524574

میرے نئے وٹسپ نمبر کو وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنائیے تاکہ میں تحریرات وہاں بھیج سکوں،سوالات اعتراضات کے جوابات دے سکوں۔۔۔۔دینی خدمات زیادہ سے زیادہ سر انجام دے سکوں۔۔۔جزاکم اللہ خیرا

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.