غیر اللہ یعنی وہ غیراللہ کہ جو اللہ کے پیارے ہوں ان سے مافوق الاسباب استمداد و مدد مانگنا بھی جائز ہے، کفر و شرک نہیں بشرطیکہ۔۔؟؟ ہندو غیر اللہ کو پکارے تو شرک اور مسلمان غیر اللہ کو پکارے تو شرک نہیں ، کیوں۔۔۔؟؟ دعائیں کب قبول نہیں ہوتیں۔۔؟؟ اللہ سے مدد مانگنے ، اللہ کے پیاروں سے مدد مانگنے کے باوجود مسجد مزارات گھر فصلوں کو بظاہر نقصان کیوں ہو رہا ہے۔۔؟؟ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔۔۔؟؟ پڑھیے اس مدلل تحریر میں

 🛑 *#غیر اللہ یعنی وہ غیراللہ کہ جو اللہ کے پیارے ہوں ان سے مافوق الاسباب استمداد و مدد مانگنا بھی جائز ہے، کفر و شرک نہیں بشرطیکہ۔۔؟؟ ہندو غیر اللہ کو پکارے تو شرک اور مسلمان غیر اللہ کو پکارے تو شرک نہیں ، کیوں۔۔۔؟؟ دعائیں کب قبول نہیں ہوتیں۔۔؟؟ اللہ سے مدد مانگنے ، اللہ کے پیاروں سے مدد مانگنے کے باوجود مسجد مزارات گھر فصلوں کو بظاہر نقصان کیوں ہو رہا ہے۔۔؟؟ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔۔۔؟؟ پڑھیے اس مدلل تحریر میں۔۔۔۔!!*

۔

👈نیچے دی گئ دو لنکس پے آپ میری کافی ساری تحقیقی تحریرات پڑھ سکتے ہیں۔۔۔لنکس یہ ہیں👇

https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1

https://www.facebook.com/share/1777H3Dtjr/

📣 *#تحت الاسباب اور مافوق الاسباب اور مدد کے طریقے۔۔۔۔۔؟؟*

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ما تحت الاسباب والے معاملے میں غیر اللہ یعنی انبیاء کرام اولیاء عظام سے مدد طلب کرنا شرک کفر نہیں لیکن جو مافوق الاسباب ہو اس میں فقط اللہ سے مدد طلب کی جائے گی،اس صورت میں غیر اللہ سے مدد طلب کرنا شرک ہوگا،جیسے بخار ہو تو ڈاکٹر سے مدد طلب کرنا جائز ہے کیونکہ بخار اترنے کے ظاہری اسباب ہیں اور وہ ہیں ادویات لہذا یہ مدد طلب کرنا شرک و کفر نہیں لیکن بیٹا بارش وغیرہ طلب کرنا شرک و کفر ہوگا کیونکہ یہ ظاہری اسباب کے تحت نہیں، اس پر میرا تبصرہ پڑھیے👇

۔

🧐 *#تبصرہ اور مدد کی صورتیں*

✅اللہ تعالی مدد فرماتا ہے 

1۔۔۔کبھی اللہ مدد فرماتا ہے بغیر کسی وسیلے کے

2۔۔۔کبھی اللہ مدد فرماتا ہے کسی مقرب نیک کی دعا برکت سفارش و وسیلے سے

3۔۔۔کبھی اللہ تعالی مدد فرماتا ہے ہم سے راضی ہو کر

4۔۔۔اللہ مدد فرماتا ہے ذاتی کرم نوازی فرماتے ہوئے

5۔۔اللہ تعالی مدد فرماتا ہے ہمیشہ ذاتی طاقت سے

۔

✅اللہ تعالی کے پیارے لوگ یعنی انبیاء کرام اور اولیاء عظام مدد فرماتے ہیں 

1۔۔۔اللہ کے حکم سے، اللہ کی اجازت سے ، اللہ کی عطا کردہ طاقت سے معجزہ دکھا کر انبیاء کرام مدد فرماتے ہیں

2۔۔۔انبیاء کرام اور اولیاء کرام کبھی اللہ کی بارگاہ میں دعا فرماتے ہیں سفارش فرماتے ہیں اس طرح دعا اور سفارش کے ذریعے سے ہماری مدد کرتے ہیں

3۔۔اللہ کے حکم سے، اللہ کی اجازت سے ، اللہ کی عطا کردہ طاقت سے کرامت دکھا کر اولیاے عظام مدد فرماتے ہیں

4۔۔اللہ کی عطاء و اجازت سے عطائی کرم نوازی فرما کر مدد فرماتے ہیں

۔

🧠اب غور کیجئے کہ اللہ تعالی اپنی طاقت اپنی مرضی سے مدد فرماتا ہے جبکہ انبیاء کرام اور اولیاء عظام جو مدد فرماتے ہیں وہ خالصتاً ڈائریکٹ نہیں فرماتے بلکہ وہ اللہ کی عطا سے ، اللہ کی اجازت سے معجزہ و کرامت کے ذریعے، عطائی کرم نوازی کے ذریعے مدد فرماتے ہیں، اللہ کی بارگاہ میں دعا فرما کر سفارش فرما کر مدد فرماتے ہیں

۔

لہذا مسلمان جو غیر اللہ یعنی وہ غیراللہ جو اللہ کے پیارے ہوں ان سے مدد طلب کرتے ہیں اس کی صورت یہی ہوتی ہے نظریہ یہی ہوتا ہے کہ

یہ اللہ کے پیارے اللہ تعالی کی اجازت و عطاء سے معجزہ یا کرامت کے ذریعے مدد فرمائیں گے یا پھر اللہ کی بارگاہ میں سفارش فرمائیں گے دعا فرمائیں گے، اللہ کی عطاء سے کرم فرمائیں گے تو ہمارا کام بن جائے گا ہماری مدد ہو جائے گی۔۔۔بیٹا طلب کرنا ، بارش طلب کرنا شفایابی طلب کرنا ، نقصان دہ بارش سیلاب زلزلوں سے بچنے کی مدد طلب کرنا۔۔۔یہ سب اسباب کے تحت ہی تو ہیں کہ ان سب کے اسباب

معجزہ

کرامت

 دعا 

سفارش

تبرک

عطائ کرم نوازی

 بھی ہیں۔۔تو یہ تمام امور اور ایسے تمام معاملات میں مدد طلب کرنا بھی تو حقیقت میں ما تحت الاسباب ہی تو ہے، اگر

ان کو مافوق الاسباب بھی کہو تو ایسے مافوق الاسباب میں بھی اللہ کے پیارے مدد کرتے ہیں، ہم ان سے مدد طلب کر سکتے ہیں

۔

🟫🟫🟫🟫🟫🟫🟫___p1️⃣

🛑 *#ہندو مدد کے لیے پکارے تو شرک اور مسلمان مدد کے لیے پکارے تو شرک نہیں۔۔کیوں۔۔۔؟؟ جواب پڑھیے غور سے درج ذیل پانچ پوائنٹس میں۔۔۔۔!!*

👈1۔۔۔ہندو بتوں کو خدا سمجھ کر پکارتے ہیں جبکہ مسلمان انبیاء کرام کو اور اولیاء عظام کو پکارتے ہیں لیکن خدا سمجھ کر نہیں

📗 *#دلیل*

سورہ المومنون ایت نمبر 117 میں اللہ تعالی نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو خدا و معبود سمجھ کر مت پکارو کہ اس غیراللہ کے خدا و معبود پر کوئی دلیل ہی قران و حدیث سے نہیں۔۔۔جس سے واضح ہوتا ہے کہ کسی غیر اللہ کو خدا و معبود سمجھ کر پکارنا کرنا شرک ہے لیکن

کسی غیر اللہ جو اللہ کو محبوب ہو اس کو خدا و معبود سمجھے بغیر اس طرح پکارنا جائز ہے کہ وہ اللہ کی عطا سے اجازت سے معجزہ کرامت دعا سفارش وغیرہ کے ذریعے مدد کریں گے، اور ان کی معجزہ کرامت دعا سفارش پر قران و حدیث سے جائز ہونے پر دلائل بھی ہیں

جبکہ بتوں کے متعلق قران و حدیث میں کوئی دلیل نہیں کہ وہ معجزہ کر سکتے ہیں کرامت دکھا سکتے ہیں سفارش کر سکتے ہیں دعا کر سکتے ہیں ایسا کچھ بھی بتوں کے متعلق قران و حدیث میں نہیں

۔

👈2۔۔۔ہندو اگر بت سورج وغیرہ باطل معبود کو وسیلہ سمجھیں کہ یہ بت سورج وغیرہ اللہ سے لے کر ہمیں دیں گے تو بھی باطل مردود کیونکہ اللہ تعالی نے معجزہ کرامت دعا جائز وسیلے کی اجازت دی ہے لیکن اللہ کی طرف سے کوئی ایسی اجازت نہیں کہ بت سوج وغیرہ کو وسیلہ بنایا جائے

📗 *#دلیل*

سورہ زمر ایت نمبر3 میں اللہ تعالی نے یہ ذکر فرمایا ہے کہ بتوں کی عبادت اگر اس لیے کرو تاکہ وہ اللہ تک پہنچا دیں یعنی وسیلہ بنیں تو بھی یہ غلط باطل مردود ہے کیونکہ یہ جھوٹ ہے۔۔۔ اللہ نے لفظ "زلفی" یعنی بتوں کے وسیلے کی نفی "کذاب" کہہ کر فرمائی۔۔۔ یعنی بتوں کی عبادت کرنے والے پوجا کرنے والے  تم نے جھوٹا نظریہ بنا لیا ہے کہ بت اللہ تک پہنچاتے ہیں وسیلہ بنتے ہیں کیونکہ میں اللہ نے تو ایسا کچھ نہیں کہا تو تم نے اپنی من مرضی سے یہ نظریہ بنا کر عبادت کرنا شروع کر دی لہذا یہ وسیلہ بنانا جھوٹا ہے 

جبکہ

سورہ ص ایت40 میں اللہ تعالی نے غیر اللہ یعنی اللہ کے پیارے محبوب بندوں میں سے ایک پیارے بندے کے لیے "زلفی" وسیلہ کو ثابت قرار دیا ہے۔۔۔اسی طرح دیگر جائز وسیلے کہ اللہ تعالی نے قران اور احادیث کے ذریعے سے ہمیں انکو وسیلہ بنانے کی اجازت عطا فرمائی

۔

👈3۔۔۔بت سورج وغیرہ باطل معبودوں کو اللہ تعالی نے قران اور احادیث میں متبرک قرار نہیں دیا کہ ان سے تبرک لیا جائے جبکہ اللہ تعالی نے انبیاء کرام اور اولیاء کرام کے متعلقات کو متبرک قرار دیا ہے لہذا ان سے تبرک لینا جائز ہے

📗 *#دلیل*

سورہ یوسف ایت نمبر 93 میں واضح ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کی قمیض کی برکت سے ان کے والد کی بینائی لوٹ ائی۔۔۔جبکہ بتوں کے متبرک ہونے کے لیے قران اور احادیث میں کوئی دلیل نہیں

۔

👈4۔۔ہندو نظریہ رکھتے ہیں کہ اللہ کی کوئی صفت ان بتوں میں اگئی ہے لہذا ان کے مختلف کاموں کے مختلف بت ہیں جن کے متعلق وہ نظریہ رکھتے ہیں کہ فلاں کام کی خدائی صفت طاقت اب فلاں بت میں اگئی ہے جو کہ انہوں نے اپنی اپ یہ نظریہ باطل نظریہ بنا لیا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے ایسا کچھ نہیں فرمایا کہ میری فلاں خدائی صفت فلاں چیز میں اگئی ہے ایسا کچھ نہیں فرمایا،اور مسلمان بھی یہ نظریہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ انبیاء کرام میں یا اولیاء عظام میں فلاں خدائی صفت اگئی ہے نعوذ باللہ تعالی۔۔۔ ایسا کوئی نظریہ مسلمان نہیں رکھتے

📗 *#دلیل*

سورہ الروم ایت 35 میں اللہ تعالی نے یہ واضح ارشاد فرمایا ہے کہ مجھ اللہ  کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو کیا اس پر میں نے کوئی سند و اجازت دی ہے کہ جو تم شریک ٹھہرا رہے ہو۔۔۔مطلب واضح ہے کہ مکمل طور پر اللہ کا کوئی شریک ٹھہرایا جائے یا پھر اللہ کی کسی ایک خاص صفت میں کسی کو شریک کر دیا جائے اور کہا جائے کہ اللہ کی وہ خاص صفت اس مخلوق میں بھی اگئی ہے تو یہ بھی شرک ہے شریک ٹھہرانا ہے جس کی نفی اللہ تعالی نے یہ فرمائی کہ اس پر میں نے کوئی اجازت و سند تو نہیں دی لہذا اس طرح کا شرک بھی جھوٹ پر مبنی ہے

۔

👈5۔۔۔بالفرض ہندو نظریہ رکھیں کہ بت اللہ کی عطا سے عطا کرتا ہے تو بھی باطل مردود کیونکہ اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ میں فلاں بت کی وجہ سے عطا کرتا ہوں جبکہ اللہ تعالی نے یہ فرمایا ہے کہ انبیاء کرام اولیاء عظام میری عطا سے عطا کرتے ہیں اور میں اللہ عطا کرتا ہوں ان اللہ کے پیاروں کی سفارش و دعا سے

📗 *#دلیل*

جیسا کہ پوائنٹ نمبر دو میں واضح ہے کہ اللہ تعالی نے نفی کی ہے کہ بت وسیلہ نہیں بنتے یعنی اللہ بتوں کو عطا کرے اور بت اللہ کی عطا سے عطا کریں وسیلہ بنیں ایسا ہرگز اللہ تعالی نے نہیں فرمایا

 جبکہ

 اللہ کے پیارے بندوں کو اللہ تعالی نے جائز وسیلہ بنانے کی اجازت دی ہے اور قران و حدیث میں ایا ہے کہ اللہ کے پیارے بندے اللہ کی عطا سے عطا کرتے ہیں جیسا کہ اس تحریر میں نیچے تفصیل ارہی ہے

۔

👈6۔۔۔اور بھی بہت سارے فرق ہیں جنہیں مد نظر رکھنا ایمان و کفر شرک کے درمیان فرق مد نظر رکھنے کے مترادف ہے

اور

🚨علماء کرام ہمیشہ واضح کرتے رہتے ہیں، توجہ دلاتے رہتے ہیں کہ لوگوں خوب ذہن نشین کر لو مذکورہ بالا تمام فرق کو۔۔۔اور اس قسم کے فرق ہمیشہ نظر میں رکھ کر ہی اللہ کے پیاروں سے مدد مانگو

📌یہی نظریہ رکھو کہ اللہ کے پیارے یعنی انبیاء کرام اولیاء عظام تو اللہ تعالی کی اجازت و عطاء سے معجزہ یا کرامت اور عطائی کرم نوازی کے ذریعے مدد فرمائیں گے، اللہ کی بارگاہ میں سفارش فرمائیں گے ، دعا فرمائیں گے تو ہمارا کام بن جائے گا ہماری مدد ہو جائے گی

۔

🚨📣لیکن بعض اہلسنت بریلوی علماء نے یہاں تک لکھا ہے کہ احتیاط کے پیش نظر عوام اللہ کے پیاروں سے مانگنے کے بجائے اللہ کے پیاروں کا وسیلہ دیکر اللہ سے مانگیں تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام فرق بھولتی جائے اور اللہ کے پیاروں کو ہی اصلی دینے والا نہ سمجھ بیٹھے

دیکھیے عقائد و نظریات ص186

۔

🟫🟫🟫🟫🟫🟫🟫🟫__p2️⃣

💡 *#اہم_نوٹ1*

اللہ کے پیاروں محبوب بندوں سے مدد طلب کرنے کی اجازت اللہ تعالی نے دی اور صحابہ کرام و دیگر مومنین نے اللہ کے پیاروں سے مدد طلب کی اس میں حکمت و راز  یہ سمجھ میں آ رہا ہے کہ اللہ کے پیاروں سے مدد طلب کرو تاکہ اللہ کے پیاروں کی شان واضح ہو۔۔اور جب ولی اللہ کی اتنی شان و طاقت ہے تو طاقت عطاء کرنے والے رب تعالی کی کیا ہی طاقت و قدرت و عظیم شان واضح ہوگی

۔

💡 *#اہم_نوٹ2*

دلائل میں اپ پڑھیں گے کہ اللہ کے پیاروں سے جب مدد طلب کی گئی تو انہوں نے یہ نہیں فرمایا کہ میں تو کچھ نہیں کر سکتا, میرے پاس کیوں ائے ہو، جاؤ اللہ کی بارگاہ میں دعا کرو،اللہ سے مدد طلب کرو،اور دوبارہ کلمہ پڑھو کیونکہ تم نے مجھ سے مدد طلب کر کے فریاد کر کے شرک کیا ہے نعوذ باللہ....ایسا کچھ بھی نہیں فرمایا بلکہ ان کی مدد کے لیے اللہ تعالی سے دعا کی اور اللہ تعالی کی عطا سے مدد کی معجزہ دکھایا کرامت دکھائی

لیھذا

اگر کسی اللہ کے پیارے نے فرمایا بھی ہو کہ میرے پاس کیوں ائے ہو، میرے پاس مت اؤ، اللہ سے مانگو تو بھی اس کا مطلب یہ ہوگا کہ شرک تو تم نے نہیں کیا لیکن وہ اللہ کا پیارا عاجزی کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ میں خود سے تو کچھ نہیں کر سکتا تو جاؤ کوئی اور راستہ تلاش کرو، یا دیگر شرعی مقاصد ملحوظ ہوتے ہیں اس کے ذہن میں کہ جس کی وجہ سے اپنے پاس انے سے منع کرتے ہوں گے لیکن شرک قرار نہیں دیا

🟫🟫🟫🟫🟫🟫🟫🟫__p3️⃣

🛑 *#اب دلائل پڑھیے کہ غیراللہ یعنی وہ غیراللہ جو اللہ کے پیارے ہوں ان سے مدد مانگ سکتے ہیں۔۔۔۔۔!!*

*#دلیل1*  🟢

القران:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَا وَ قُوۡلُوا انۡظُرۡنَا

اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارو تو راعنا اب نہ کہو بلکہ کہو انظرنا (یعنی پکار کر عرض کرو کہ ہمارے امور کی رعایت کیجئے نظر کرم کیجئے)

(سورہ بقرہ ایت104)

۔

وذلك أن المسلمين كانوا يقولون لرسول الله - صلى الله عليه وسلم -: راعنا يا رسول الله، وأرعِنا سمعك. يعنون من المراعاة۔۔۔هذِه اللفظة شيئًا قبيحًا باليهودية۔۔۔فأنزل الله -عز وجل-: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا}وَقُولُوا انْظُرْنَا

صحابہ کرام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کرتے تھے کہ ہمارے امور کی رعایت کیجئے، ہم پر نظر کرم کیجئے اور ان کی مراد مراعاۃ ہوا کرتی تھی لیکن یہود اس سے غلط معنی مراد لیتے تھے (راعنا کو کھینچ کر راعینا کہتے تھے اور راعینا کا معنی ہے ہمارے چرواہے) اس لیے اللہ عزوجل نے اس لفظ سے منع فرما دیا اور فرمایا کہ انظرنا کہا کرو (جو کہ راعنا اچھے معنی والے لفظ کا متبادل معنی رکھنے والا ہے اور اس میں  بے ادبی کا پہلو نہیں نکلتا)

تفسیر ثعلبی3/510

۔

وَالظَّاهِرُ اسْتِدْعَاءُ نَظَرِ الْعَيْنِ الْمُقْتَرِنِ بِتَدَبُّرِ الْحَالِ، وَهَذَا هُوَ مَعْنَى رَاعِنَا، فَبُدِّلَتِ اللَّفْظَةُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَزَالَ تَعَلُّقُ الْيَهُودِ

انظرنا صحابہ کرام کہا کرتے تھے ، اللہ نے ان کو حکم دیا کہ یہ لفظ کہا کریں، عرض کیا کریں،  اس کا معنی مراد یہ ہے کہ ہم پر وہ نظر کرم کیجئے کہ جو ہمارے حالات کی تدبیر کرے اور یہی معنی ہے راعنا کا، تو لفظ بدل دیا گیا معنی اور مقصود پکارنے کا وہی رہا اور یہود کا طنز ناکام ہو گیا

تفسیر قرطبی2/60


والجمهور على أن «راعنا» أمر من المُرَاعاة، وهيى النظر في مصالح الإنسان، وتدبر أموره

جمہور کے مطابق لفظ راعنا کا معنی مراعاۃ ہے یعنی ایسی نظر کرم فرمائیے کہ جو انسان کے لیے درستگی و نفع والے ہونے کی نظر کرم ہو اور اس کے تمام معاملات کی تدبیر پر نظر کرم ہو

تفسیر اللباب2/360

۔

المراعاةُ المبالغةُ في الرعى وهو حِفظُ الغير وتدبيرُ أموره وتدارُكُ مصالحِه

مراعاۃ کا معنی یہ ہے کہ نظر کرم کرنے میں رعایت کرنے میں بہت زیادہ مبالغہ کیا جائے یعنی دوسروں کو بچایا جائے اور ان کے امور کی تدبیر کی جائے اور ان کے لیے جو کچھ درست اور اچھا ہو نفع مند ہو اس کو حاصل کرکے دیا جائے

تفسیر ابی سعود1/141

۔

✅ *#ثابت ہوا کہ*

ایت اور اس کی تفاسیر سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کریں عرض کریں مدد طلب کریں کہ یا رسول اللہ ہم پر کرم فرمائیے ، ہمارے لیے جو بہتر ہو ، جو نفع مند ہو وہ ہمیں عطاء ہو،ہمیں ہمارے حالات کے مطابق احکامات عطا فرمائیے بلکہ حالات سے بھی ہلکے احکامات عطا فرمائیے کہ ہم اسانی کے ساتھ کر سکیں کہ یہی تو نظر کرم ہے۔۔۔یہ دو ٹوک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب کرنا نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔؟؟ فریاد کرنا عرض کرنا سب مدد طلب کرنے کے بہترین الفاظ و انداز ہی تو  ہیں

اور

📌مدد بھی وہ کہ جو ما فوق الاسباب ہو یا ما تحت الاسباب ہر قسم کی مدد فرمائیے یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم

۔

تدبیر امور۔۔مصالح الناس لفظوں پہ غور فرمائیے، صحابہ کرام عرض کر رہے ہیں فریاد کر رہے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے اپنے امور اپ کے حوالے کر دیے، ہم نے اپنی زندگی اپ کے حوالے کر دی تو اپ ہمارے امور ہماری زندگی میں جو بہتر ہو اس کی تدبیر کر دیجئے جو ہمارے لیے اچھا ہو نفع مند ہو اس کی تدبیر کر دیجئےوہ ہمیں عطا کر دیجئے۔۔۔۔اور یہ عرض صحابہ کرام اپنی طرف سے نہیں کر رہے بلکہ اللہ تعالی نے ان کو حکم دے دیا ہے کہ تم ایسی عرض کرو ، امداد طلب کرو 

۔

اگر نعوذ باللہ تعالی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ بھی اختیار نہ ہوتا وہ کچھ بھی ہمیں مدد نہ کر سکتے تو پھر عرض کرنے فریاد کرنے نفع والی چیز مانگنے تدبیر امور کی درخواست کرنے کا کیا مطلب بنتا ہے۔۔۔۔؟؟

@@@@@@@@@@@@@

*#دلیل2* 🟢

القرآن

وَ  اَوۡحَیۡنَاۤ  اِلٰی مُوۡسٰۤی  اِذِ  اسۡتَسۡقٰىہُ قَوۡمُہٗۤ  اَنِ اضۡرِبۡ بِّعَصَاکَ الۡحَجَرَ ۚ فَانۡۢبَجَسَتۡ مِنۡہُ اثۡنَتَا عَشۡرَۃَ عَیۡنًا ؕ قَدۡ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشۡرَبَہُمۡ ؕ وَ ظَلَّلۡنَا عَلَیۡہِمُ الۡغَمَامَ وَ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡہِمُ الۡمَنَّ وَ السَّلۡوٰی ؕ کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ ؕ وَ مَا ظَلَمُوۡنَا وَ لٰکِنۡ  کَانُوۡۤا  اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ

جب موسی کی قوم نے ان سے پانی طلب کیا تو ہم نے ان کی طرف وحی کی کہ اس پتھر پر اپنا عصا مارو، تو اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے، ہر گروہ نے اپنے پانی پینے کی جگہ جان لی، اور ہم نے ان پر بادل کا سایہ کردیا اور ہم نے ان پر من وسلوی نازل کیا، ان پاک چیزوں کو کھاؤ جو ہم نے تم کو دی ہیں، اور انہوں نے ہم پر کوئی ظلم نہیں کیا لیکن وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے

(سورہ اعراف ایت160)

۔

✅ *#ثابت ہوا کہ*

بنی اسرائیل نے غیراللہ یعنی وہ غیراللہ جو اللہ کو پیارا ہے ان سے ما تحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی مدد طلب کی حالت ایمان میں۔۔۔۔ اور اللہ نے انہیں مشرک قرار نہیں دیا بلکہ ان پر مزید نعمتیں نازل کی پھر بعد میں وہ نافرمانی اور کفر پر اتر ائے۔۔۔پوری قوم حالت ایمان میں ہے اور حالت ایمان میں ہو کر سیدنا موسی علیہ السلام سے پانی مانگ رہی ہے،ساری قوم کے لیے پانی مہیا کرنا اسباب سے باہر ہے یعنی ما فوق الاسباب ہے اور یہ ما فوق الاسباب مدد

 بنی اسرائیل کے مومنوں نے طلب کی اور اللہ نے ان پر مزید انعامات کی بارش کی اگر شرک ہوتا تو اللہ تعالی انعامات کی بارش نہ فرماتا

۔

📌مومنوں نے یہاں ڈائریکٹ  سیدنا موسی علیہ السلام  سے مافوق الاسباب پانی طلب کیا،جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے پیاروں سے ما فوق الاسباب کی بھی مدد طلب کی جا سکتی ہے اس نظریے کے تحت کہ وہ اللہ کی عطا اور مدد سے معجزہ یا کرامت دعا سفارش وغیرہ کے ذریعے سے مدد کریں گے جو حقیقت میں اللہ ہی کی مدد ہمیں ہوگی

۔

اس بات کی دلیل خود قران مجید کی ایت ہے کہ ایت میں ہے کہ اس مدد طلب کرنے کے بعد اللہ تعالی نے انہیں نعمتوں سے نوازا تو بھلا سوچیے شرک کرنے پر نعمتیں ملتی ہیں کیا۔۔۔؟؟ یہی وجہ ہے کہ مفسرین نے بھی وہی لکھا جو ہم نے عرض کیا


فأخبرهم الله جل ثناؤه أنه يبدلهم بالعز ذلا وبالنعمة بؤسا، وبالرضا عنهم غضبا، جزاء منه لهم على كفرهم بآياته

اللہ تبارک و تعالی نے بنی اسرائیل کو خبر دے دی کہ تم عزت والے تھے ، سوال کرتے گئے میں تمہیں نعمتیں دیتا گیا لیکن تم نے اس کے بعد میری ایات کا انکار کیا کفر کیا تو اب عزت کے بدلے ذلت اور نعمتوں کے بدلے سختیاں اور میری رضامندی کے بدلے میرا غضب تمہارے لیے سزا ہے

تفسیر طبری2/137


۔

فَبَيَّنَ أَنَّهُ إِنَّمَا ضَرَبَ الذِّلَّةَ وَالْمَسْكَنَةَ عَلَيْهِمْ وَجَعَلَهُمْ مَحَلَّ الْغَضَبِ وَالْعِقَابِ مِنْ حَيْثُ كَانُوا يَكْفُرُونَ لَا لِأَنَّهُمْ

سَأَلُوا ذَلِكَ

بنی اسرائیل پر جو ذلت اور دربدری اور غضب اور عذاب نازل ہوا وہ اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے کفر کیا اس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے مدد طلب کی تھی نعمتوں کا سوال کیا تھا

تفسیر کبیر رازی3/532

.@@@@@@@@@@

*#دلیل3* 🟢

القرآن:

قَالَ یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَؤُا اَیُّکُمۡ یَاۡتِیۡنِیۡ بِعَرۡشِہَا

سلیمان علیہ السلام نے فرمایا، اے درباریو تم میں کون ہے کہ وہ اس کا تخت میرے پاس لے آئے

سورہ نمل ایت38

۔

قَالَ الَّذِیۡ عِنۡدَہٗ  عِلۡمٌ  مِّنَ  الۡکِتٰبِ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبۡلَ  اَنۡ یَّرۡتَدَّ اِلَیۡکَ طَرۡفُکَ فَلَمَّا رَاٰہُ  مُسۡتَقِرًّا عِنۡدَہٗ  قَالَ ہٰذَا مِنۡ 

فَضۡلِ رَبِّیۡ

جس شخص کے پاس کتاب کا علم تھا اس نے کہا میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اس تخت کو آپ کے پاس حاضر کر دوں گا، سو جب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا یہ میرے رب کے فضل سے ہے

سورہ نمل ایت40

۔

✅ *#ثابت ہوا کہ*

وہ غیر اللہ کہ جو اللہ کے محبوب ہوں پیارے بندے ہوں چاہے وہ انبیاء ہوں یا اولیاء ہوں ان سے ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب مدد طلب کی جا سکتی ہے کہ وہ معجزہ دکھا کر یا کرامت دکھا کر اللہ کے فضل سے مدد کر دیں گے،کیونکہ اس ایت میں صرف اللہ کے کسی نبی سے مدد طلب نہیں کی گئی بلکہ مطلقا سب درباریوں سے کہا گیا کہ کون مدد کرے گا۔۔اور اللہ کے ایک ولی نے کرامت دکھاتے ہوئے اللہ کے فضل و کرم سے، اللہ کی عطا سے کرامت دکھاتے ہوئے تخت کو لا کر پیش کیا

۔

 اللہ کے پیارے نبی سیدنا سلیمان علیہ السلام نے غیر اللہ یعنی وہ غیر اللہ کے جو اللہ کا محبوب ہو اللہ کا ولی ہو اس سے مدد لی ،  سیدنا سلیمان علیہ السلام نے یہ عقیدہ واضح کر دیا کہ اللہ کے پیارے محبوب بندوں سے مدد لی جا سکتی ہے وہ اللہ کی عطا سے اللہ کی دی گئی طاقت سے معجزہ کرامت دکھا کر دعا سفارش کر کے مدد کر سکتے ہیں

@@@@@@@@@@

*#دلیل4* 🟢

القرآن

قُلۡ لَّاۤ  اَمۡلِکُ  لِنَفۡسِیۡ  نَفۡعًا وَّ لَا  ضَرًّا  اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ

 اے محبوب فرما دیجئے کہ میں تو اپنے لئے نفع نقصان کا مالک نہیں(تو تمھیں کیسے نفع نقصان پہنچا سکتا ہوں) مگر یہ کہ نفع و نقصان کا جتنا مالک مجھے اللہ نے بنانا چاہا بنایا

(سورہ الاعراف آیت188)


.إِلَّا ما شاءَ اللَّهُ من ذلك فيعلمنى به وحيا جليا او خفيا ويعطنى قدرة على جلب النفع او دفع الضرر

 جتنا اللہ نے مجھے مالک بنانا چاہا اتنا مجھے مالک بنایا نفع نقصان کا... تو اللہ تعالی مجھے وحی جلی یا وحی خفی کے ذریعے نفع نقصان کا علم عطا فرما دیتا ہے اور مجھے قدرت دے دیتا ہے کہ میں نفع اٹھاؤ نفع دوں اور نقصان کو دور کروں(اللہ کی عطاء سے)

(تفسیر مظہری3/443)

.

إلا ما شاء الله أن أملكه من ذلك، بأن يقوّيني

 عليه ويعينني

 میں نفع نقصان کا اتنا ہی مالک ہوں جتنا کہ اللہ تعالی نے مجھے مالک بنانا چاہا، اس طرح کہ اللہ تعالی مجھے قوت عطا فرماتا ہے اور میری مدد فرماتا ہے

(تفسیر طبری13/302)

.

إِلاَّ مَا شَآءَ اللَّهُ} أن يملكني إياه فأملكه بمشيئته

 نفع نقصان کا میں مالک نہیں مگر یہ کہ جتنا اللہ نے مجھے مالک بنانا چاہا تو میں اللہ کی مشیت اور رضا مندی سے نفع نقصان کا مالک ہوں

(تفسیر الماوردی2/285)

۔

✅ *#ثابت ہوا کہ*

📌جن ایات مبارکہ میں ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی مدد نہیں کر سکتا کوئی نفع نقصان نہیں پہنچا سکتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ذاتی طور پر نفع نقصان نہیں پہنچا سکتا ہاں البتہ اللہ جس کو طاقت دے جس کو چاہے طاقت دے کہ وہ نفع نقصان پہنچا سکتا ہے یہ خود ایت کریمہ میں ہے لہذا ایت مبارکہ کی وضاحت ایات سے ہو گئی

۔

 اور جب یہ ثابت ہو گیا کہ اللہ کی عطا سے کوئی بھی اللہ کا محبوب یعنی کوئی رسول کوئی نبی کوئی ولی مدد کر سکتا ہے نفع دے سکتا ہے اور نقصان سے بچا سکتا ہے تو پھر ان سے نفع مانگنا بھی جائز ہوا اور نقصان سے بچنے کا مدد طلب کرنا بھی جائز ثابت ہوا،

۔

اور اللہ نے یہ مطلق بغیر کسی قید کے ارشاد فرمایا ہے لہذا ماتحت الاسباب کا معاملہ ہو یا مافوق الاسباب کا معاملہ ہو ہر معاملے میں اللہ کے پیاروں سے مدد طلب کر سکتے ہیں کیونکہ وہ ما فوق الاسباب کے معاملے میں بھی مدد فرما سکتے ہیں معجزے کے ذریعے سے یا کرامت کے ذریعے سے یا اللہ کی بارگاہ میں سفارش کر کے کسی نہ کسی طریقے سے مدد فرما سکتے ہیں

۔

لہابی اور ان جیسے عقیدہ رکھنے والے لوگ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو کچھ بھی اختیار نہیں اگے والی بات وہ بتاتے ہی نہیں کہ حقیقت میں ایت میں تو یہ ہے کہ مجھے ذاتی طور پر کچھ اختیار نہیں لیکن عطائ طور پر اتنا اختیار ہے جتنا اللہ نے مجھے دینا چاہا اور دیا۔۔تو جس کے پاس اللہ کا عطا کردہ اختیار اور طاقت ہو تو اس سے مانگنا بھی جائز کہلائے گا

@@@@@@@@@@@

*#دلیل5* 🟢

الحدیث:

فَقَالَ لِي : " سَلْ ". فَقُلْتُ : أَسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ. قَالَ : " أَوَغَيْرَ ذَلِكَ ؟ ". قُلْتُ : هُوَ ذَاكَ. قَالَ : " فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ

ایک صحابی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ سے جو مانگنا ہے مانگ، صحابی عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ جنت میں اپ کی رفاقت مانگتا ہوں،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اور کچھ۔۔۔؟؟ صحابی نے عرض کی بس یہی یا رسول اللہ، حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ زیادہ سجدے کر کے معاون ہو جا

مسلم حدیث489 ابوداود حدیث1320نحوہ

۔

✅ *#ثابت ہوا کہ*

غیر اللہ یعنی وہ غیر اللہ کے جو اللہ کے پیارے ہوں ان سے ما فوق الاسباب اور ماتحت الاسباب ہر قسم کی مدد طلب کر سکتے ہیں، ایک تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے خود ارشاد فرمایا کہ جو بھی مدد چاہیے وہ مجھ سے مدد مانگ لو، پھر صحابی نے وہ مدد مانگی کہ جو ما فوق الاسباب ہے، کہ جنت اللہ کی رحمت سے ہی ملتی ہے،لیکن صحابی نے یہ مافوق الاسباب مدد طلب کی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر شرک کا فتوی نہیں لگایا اور دوبارہ کلمہ نہیں پڑھوایا بلکہ حامی بھر لی اور فرمایا کہ نیک اعمال بھی کرتے رہنا

۔

اس حدیث پاک میں جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے پیاروں سے ہر قسم کی مدد طلب کرنا جائز ہے شرک نہیں تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ فقط مدد طلب کرنے کے ساتھ ساتھ نیک اعمال کرو ، عبادات کرو ، سخاوتیں کرو، اسلام پہ عمل کرو، اسلام کی سر بلندی کے لیے کوششیں کرو

۔

📌یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈائریکٹ مدد طلب کی صحابی نے

۔

ويؤخذ من إطلاق قوله -صلى اللَّه عليه وسلم- الأمر بالسؤال أن اللَّه تعالى مكَّنه من إعطاء كل ما أراد من

خزائنه تعالى

حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ ارشاد فرمایا کہ جو کچھ مانگنا ہے مانگو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے خزانوں میں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ سب کچھ دے دیا جو وہ چاہتے

لعمات شرح مشکواۃ3/30

۔

@@@@@@@@@@@

*#دلیل6* 🟢

الحدیث:

فَإِذَا صَلَّيْتُ الظُّهْرَ فَقُومُوا فَقُولُوا : إِنَّا نَسْتَعِينُ بِرَسُولِ اللَّهِ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے ایک گروہ کو تعلیم دی بتایا کہ تم جب نماز ظہر پڑھو تو پھر تم اس طرح کہو کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب کرتے ہیں

نسائی حدیث3688

@@@@@@@@@@

*#دلیل7* 🟢

الحدیث:

اطْلُبُوا الْخَيْرَ عِنْدَ حِسَانِ الْوُجُوهِ۔۔۔قَالَ السُّيُوطِيّ وَهَذَا الحَدِيث فِي نقدي حسن صَحِيح

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر قسم کی بھلائی خوش رویوں نیک صالحین سے مانگو۔۔۔اس حدیث کو امام سیوطی نے حسن صحیح معتبر قرار دیا ہے

تنزیہ الشریعۃ2/133

مجدد دین و ملت امام اہل سنت امام احمد رضا نے اس حدیث کک کم و بیش 30 سندیں لکھیں دیکھیے فتاوی رضویہ شریف

۔

@@@@@@@@@@

🛑 *#اصول*

اشْتَكَى) شكا۔۔۔وَاتخذ الشكوة وَإِلَيْهِ لَجأ إِلَيْهِ ليزيل شكواه

 شکا یشکو اشتکی وغیرہ کا معنی ہے کہ پکارنا، کسی سے التجا کرنا فریاد کرنا تاکہ اس کی مصیبت و مشکل کو وہ ختم کر دے، ٹال دے

المعجم الوسيط1/492

.

إنما اشكوا إلى ربي داعياً له وملتجئاً إليه

ایت میں ہے کہ میں اللہ سے فریاد کرتا ہوں یعنی اشکو(جس سے یشکو اشتکی وغیرہ بنتے ہیں) کا معنی یہ ہے کہ دعا کرتا ہوں، پکارتا ہوں، فریاد اور التجا کرتا ہوں (تاکہ وہ مصیبت و مشکل ختم کر دے ، ٹال دے)

تفسیر نسفی2/130

۔

🛑 *#اب پڑھیے کہ شکا اشکو اشتکی سے بنے الفاظوں کے ساتھ اللہ کو پکارا جاتا ہے لیکن انہی الفاظوں کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارا گیا اور اللہ تعالی نےرسول کریم نے اس کو شرک قرار نہ دیا* 🛑

.

*#دلیل8* 🟢

الحدیث:

فَاشْتَكَى إِلَيْهِ النَّاسُ مِنَ الْعَطَشِ،....وَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِنَاءٍ فَفَرَّغَ فِيهِ مِنْ أَفْوَاهِ الْمَزَادَتَيْنِ أَوْ سَطِيحَتَيْنِ، وَأَوْكَأَ أَفْوَاهَهُمَا وَأَطْلَقَ الْعَزَالِيَ، وَنُودِيَ فِي النَّاسِ : اسْقُوا وَاسْتَقُوا، فَسَقَى مَنْ شَاءَ وَاسْتَقَى مَنْ شَاءَ،

صحابہ  کرام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے التجا و فریاد کی تاکہ رسول کریم مدد فرمائیں، انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ سخت پیاس ہے، پانی نہیں ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا برتن منگوایا اور اس میں دو مشکیزے کھول کر ڈال دیے اور مشکیزوں کا منہ بند کر دیا اور بڑے برتن کے پرنالے کھول دیے اور لوگوں میں اعلان کر دیا گیا کہ جتنا پانی پینا ہے پیو اور جتنا پانی جانوروں کو پلانا ہے پلاو، کسی اور کو پلانا ہے پلاؤ، کوئی کمی نہیں ہوگی۔۔۔ تو سب نے پانی پیا اور جس کو چاہا پانی پلایا 

بخاری حدیث344

۔

✅ *#ثابت ہوا کہ*

ما فوق الاسباب اور ماتحت الاسباب کے معاملے میں بھی صحابہ کرام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے التجا کی فریاد کی مدد طلب کی کیونکہ سارے گروہ کو پانی پلانا ظاہری اسباب سے باہر ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معجزہ اللہ کے کرم و عطاء سے دکھاتے ہوئے پانی میں برکت اتنی کر دی کہ سب نے پیا پلایا۔۔۔لہذا غیر اللہ یعنی وہ غیر اللہ کہ جو اللہ کے پیارے ہوں ان سے مدد طلب کرنا ما فوق الاسباب کی مدد طلب کرنا بھی جائز ہے، اس نظریے کے 

 تحت کہ وہ اللہ کی عطا اور مدد سے مدد کریں گے،معجزہ دکھائیں گے کرامت دکھائیں گے یا برکت کی دعا فرمائیں گے سفارش فرمائیں گے اور اللہ کرم فرمائے گا۔۔یہ ڈائریکٹر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب کی گئی

@@@@@@@@

*#دلیل9* 🟢

الحدیث:

أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ : شَكَوْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي أَشْتَكِي

سیدہ ام سلمہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے التجا و فریاد کی تاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حل فرمائیں التجا و فریاد یہ کی کہ یا رسول اللہ میں کمزور ہوں بیمار ہوں ( حج عمرہ کے معاملات کیسے کروں پھر رسول کریم نے انکو حل بتایا)

بخاری حدیث464

۔

✅ *#ثابت ہوا کہ*

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کرنا التجا کرنا مدد طلب کرنا جائز ہے کہ سیدہ ام سلمہ کا نظریہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حل فرمائیں گے یا تو مجھے اللہ کے عطا سے طاقت عطا فرمائیں گے میری کمزوری ختم فرما دیں گے یا پھر میرے لیے کوئی مخصوص خصوصی حکم ارشاد فرمائیں گے اس طرح میری مدد ہو جائے گی، یہ ڈائریکٹ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب کی گئی, یہ نہیں فرمایا گیا کہ اللہ سے پوچھ کر بتائیے میں کیا کروں۔۔۔؟؟

@@@@@@@@

*#دلیل10* 🟢

الحدیث:

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ جُمُعَةٍ، فَقَامَ النَّاسُ فَصَاحُوا فَقَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَحَطَ الْمَطَرُ، وَاحْمَرَّتِ الشَّجَرُ، وَهَلَكَتِ الْبَهَائِمُ، فَادْعُ اللَّهَ يَسْقِينَا

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ لوگ اواز سے فریاد کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم بارش کا قحط ہے اور درخت سرخ ہو گئے ہیں مویشی ہلاک ہو رہے ہیں اللہ سے دعا کیجئے کہ ہمیں بارش عطا کرے (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور بہت بارش ہوئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے ہی بارش رکی) 

بخاری1021

۔

✅ *#ثابت ہوا کہ*

خود بھی دعا کرنی چاہیے نیک اعمال کرنے چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ انبیاء کرام سے دعا کروانی چاہیے انبیاء کرام کے وارثوں یعنی علماء اولیاء کہ پاس جا کر عرض کرنی چاہیے کہ دعا فرمائیں فلاں چیز ہو جائے فلاں مشکل ختم ہو جائے۔۔۔یہ بھی ایک قسم کی مدد طلب کرنا ہے

@@@@@@@@

*#دلیل11* 🟢

الحدیث:

اشْتَكَى فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ عَلَيْهِمْ أَغْنِيَاءَهُمْ، فَقَالَ : " يَا مَعْشَرَ الْفُقَرَاءِ، أَلَا أُبَشِّرُكُمْ ؛ إِنَّ فُقَرَاءَ الْمُؤْمِنِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِنِصْفِ يَوْمٍ ؛ خَمْسِمِائَةِ عَامٍ

مہاجرین صحابہ کرام کے جو غریب تھے انہوں نے فریاد و التجا کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حل نکالیں اور مدد فرمائیں، انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو امیر ہیں وہ صدقہ وغیرہ زیادہ کرتے ہیں ہم سے وہ بڑھے جا رہے ہیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے گروہ فقراء غرباء تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ مومن فقراء غرباء جنت میں 500 سال و ادھا دن پہلے جنت میں داخل ہوں گے بعد میں امیر داخل ہوں گے 

ابن ماجہ حدیث4124

۔

✅ *#ثابت ہوا کہ*

اللہ کے پیارے محبوب سے فریاد کرنا اور اللہ کے پیاروں سے مدد طلب کرنا فریاد کرنا جائز ہے تاکہ وہ اللہ کی مدد سے حل نکال کر دیں

@@@@@@@@@

*#دلیل12* 🟢

الحدیث:

 : كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَهُ رَجُلَانِ، أَحَدُهُمَا يَشْكُو الْعَيْلَةَ، وَالْآخَرُ يَشْكُو قَطْعَ السَّبِيلِ، فقال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا قَطْعُ السَّبِيلِ فَإِنَّهُ لَا يَأْتِي عَلَيْكَ إِلَّا قَلِيلٌ

صحابی فرماتے ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھا کہ دو شخص ائے اور انہوں نے فریاد کی تاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدد فرمائیں حل نکالیں، ایک نے عرض کی کہ مجھے فقر و فاقہ بہت ہے اور دوسرے نے عرض کی کہ مجھے ڈاکوؤں کا بہت خوف ہے،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عنقریب بالکل تھوڑے وقت میں ہی تم پر ایسا وقت ائے گا کہ تمہیں ڈاکوں کا کوئی خوف نہیں ہوگا

بخاری حدیث1413

@@@@@@@@@@@

*#دلیل13* 🟢

فَإِنِّي وَاللَّهِ لَقَدِ اشْتَكَيْتُ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَسَأَلْتُهُ: مَا الَّذِي يُنْجِينَا مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ الَّذِي يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِي أَنْفُسِنَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " يُنْجِيكُمْ مِنْ ذَلِكَ أَنْ تَقُولُوا مِثْلَ الَّذِي أَمَرْتُ بِهِ عَمِّي عِنْدَ الْمَوْتِ فَلَمْ يَفْعَلْ»

سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں فریاد کی التجا کی کہ مجھے وسوسے بہت اتے ہیں مدد فرمائیے تو اپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ وسوسوں سے نجات کا ایک طریقہ یہ ہے کہ تم اس کلمے کا ورد کیا کرو کہ جس کلمے کو میرے چچا نے نہیں پڑھا یعنی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا ورد کرو

أَبُو يَعْلَى حدیث133

۔

✅ #ثابت ہوا کہ*

اللہ کے پیارے بندوں سے ما فوق الاسباب معاملے میں بھی مدد طلب کی جا سکتی ہے التجا فریاد کی جا سکتی ہے کیونکہ وسوسہ کا علاج ما فوق الاسباب میں سے ہے اور اس کے متعلق سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب کی التجا کی فریاد کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حل بھی ارشاد فرما دیا

@@@@@@@@@@@@

*#دلیل14* 🟢

 «أَنَّ رَجُلًا اشْتَكَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - الْوَحْشَةَ، فَقَالَ: " قُلْ: سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ، رَبِّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ [جَلَّلْتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْعِزَّةِ وَالْجَبَرُوتِ " فَقَالَهَا الرَّجُلُ فَأَذْهَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْهُ الْوَحْشَةَ]

ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد و التجا کی تاکہ اپ مدد فرمائیں اس کا حل ارشاد فرمائیں،انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ مجھے تنہائی خوف و ڈر اداسی بہت ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ، رَبِّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ [جَلَّلْتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْعِزَّةِ وَالْجَبَرُوتِ "

کا ورد کرو تو اس شخص نے اس وظیفے پر عمل کیا تو اللہ تعالی نے اس سے یہ سب کچھ بیماریاں ختم کر دیں

مجمع الزوائد حدیث،16072

۔

✅ *#ثابت ہوا کہ*

روحانی امراض پوشیدہ امراض کہ جن کا علاج اسباب سے باہر ہے اس کے متعلق صحابی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد مانگی فریاد کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدد فرمائی، ظاہری امراض جیسے فقر و فاقہ غربت وغیرہ انکھ نکل جانا انکھ کا درد زخم چوٹ وغیرہ کے متعلق بھی بہت ساری احادیث ہیں اور ان میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی مدد کی کسی کی انکھ ٹھیک ہو گئی کسی کا درد چلا گیا کسی کا پاؤں درست ہو گیا کسی کا پیٹ ٹھیک ہوگیا

@@@@@@@@@

*#دلیل15* 🟢

الحدیث:

 حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ يَشْكُو امْرَأَتَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ بِرُءُوسِهِمَا، وَقَالَ: «اللَّهُمَّ آدِمْ بَيْنَهُمَا»

ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور فریاد کی مدد طلب کی کہ یا رسول اللہ میری بیوی اور میرے درمیان ناگواری رہتی ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے سروں کو پکڑ کر دعا فرمائی کہ اللہ تعالی ان کے درمیان ہمیشگی فرما

استاد بخاری المصنف حدیث 29875

۔

✅ *#ثابت ہوا کہ*

صحابہ کرام ناممکن کام بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس حل کرانے کے لیے حاضر ہوتے تھے اور مدد طلب کرتے تھے اور ان کی مدد ہو جاتی تھی جس میں سبق ہے کہ اللہ کے پیاروں سے دعا کرانی چاہیے، اور اللہ کے پیاروں سے ان کے ہاتھوں سے اس طرح کا عمل بھی کرانا چاہیے کہ ان کے ہاتھوں کی بھی برکت ہے

@@@@@@@@@

*#دلیل16* 🟢

الحدیت

فَإِنَّهُ شَكَا إِلَيَّ أَنَّكَ تُجِيعُهُ وَتُدْئِبُهُ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اونٹنی مجھ سے فریاد کر رہی ہے کہ تم اس کے مالک اسے بھوکا رکھتے ہو پورا کھانا نہیں دیتے اور اس پر طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالتے ہو

ابوداود حدیث2549

۔

✅ *#ثابت ہوا کہ*

جانور بھی سمجھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کریں گے مدد طلب کریں گے تو اللہ کا کرم ہوگا لیکن جانوروں سے بھی بدتر ہیں وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے پیارے تو کچھ نہیں کر سکتے انہیں پکارنا فریاد کرنا شرک ہے نعوذ باللہ تعالی

@@@@@@@@

*#دلیل17* 🟢

الحدیث:

شَكَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ الْمَخْزُومِيُّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَنَامُ اللَّيْلَ مِنَ الْأَرَقِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ ؛ فَقُلِ : اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَمَا أَظَلَّتْ، وَرَبَّ الْأَرَضِينَ وَمَا أَقَلَّتْ، وَرَبَّ الشَّيَاطِينِ وَمَا أَضَلَّتْ، كُنْ لِي جَارًا مِنْ شَرِّ خَلْقِكَ كُلِّهِمْ جَمِيعًا ؛ أَنْ يَفْرُطَ عَلَيَّ أَحَدٌ مِنْهُمْ، أَوْ أَنْ يَبْغِيَ، عَزَّ جَارُكَ، وَجَلَّ ثَنَاؤُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ

سیدنا خالد بن ولید المغخزومی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں فریاد لے کر ائے مدد طلب کرنے ائے کہ یا رسول اللہ رات کو نیند نہیں اتی۔۔۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا سوتے وقت اس دعا کا ورد کرو

اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَمَا أَظَلَّتْ، وَرَبَّ الْأَرَضِينَ وَمَا أَقَلَّتْ، وَرَبَّ الشَّيَاطِينِ وَمَا أَضَلَّتْ، كُنْ لِي جَارًا مِنْ شَرِّ خَلْقِكَ كُلِّهِمْ جَمِيعًا ؛ أَنْ يَفْرُطَ عَلَيَّ أَحَدٌ مِنْهُمْ، أَوْ أَنْ يَبْغِيَ، عَزَّ جَارُكَ، وَجَلَّ ثَنَاؤُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ

ترمذی حدیث3523

۔

✅ *#ثابت ہوا کہ*

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اللہ کے پیاروں سے علماء سے اولیاء سے دعا وظیفہ لے سکتے ہیں، مدد طلب کر سکتے ہیں، اگرچہ معاملہ ظاہری اسباب کا ہی ہو، کہ اس وقت بھی طبیب ہوا کرتے تھے کہ جو مختلف قسم کی بیماریوں کا علاج کرتے تھے تو بے خوابی کا علاج جڑی بوٹیوں سے بھی ممکن تھا لیکن عشق رسول دیکھیے کہ صحابی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روحانی علاج کرانے کو ترجیح دی۔۔۔لیکن یہ بھی یاد رہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم بھی ارشاد فرمایا کہ دوا دعا احتیاط تینوں چیزیں اپناؤ کہ نہ جانے کس وسیلے سے شفا مل جائے، راحت مل جائے ، کم نقصان ہو 

دیکھیے ترمذی حدیث2065

@@@@@@@@@

*#دلیل18* 🟢

الحدیث:

شَكَا أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ الْعَطَشَ، قَالَ : فَدَعَا بِعُسٍّ ، فَصُبَّ فِيهِ شَيْءٌ مِنْ مَاءٍ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ يَدَهُ وَقَالَ : " اسْقُوا ". فَاسْتَقَى النَّاسُ، قَالَ : فَكُنْتُ أَرَى الْعُيُونَ تَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

صحابہ کرام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے التجا و فریاد کی کہ یا رسول اللہ پیاس بہت ہے اور پانی نہیں ہے کرم فرمائیے مدد فرمائیے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک برتن منگوایا اور اس میں تھوڑا پانی ڈالا اور اپنا ہاتھ مبارک اس میں رکھ دیا اور فرمایا پانی پیو تو سب لوگوں نے پانی پیا اور صحابی فرماتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی انگلیوں مبارک سے چشمے بہہ رہے تھے

مسند احمد14697

۔

✅ *#ثابت ہوا کہ*

اللہ کے پیاروں سے ما فوق الاسباب معاملے میں بھی مدد طلب کر سکتے ہیں فریاد کر سکتے ہیں اور وہ معجزے کے ذریعے سے کرامت کے ذریعے سے ، اللہ سے دعا و سفارش کرکے کسی بھی طریقے سے ہماری مدد فرمائیں گے

🟫🟫🟫🟫🟫🟫🟫🟫___p4️⃣

🛑اولیاء سے مدد طلب کرنے کا ثبوت🛑

*#دلیل19* 🟢

اوپر دلیل نمبر 3 میں جو ایت مبارکہ ہے اس میں صاف واضح ہے کہ اللہ کے ایک ولی سے مدد کے لیے کہا گیا اور اللہ کے ولی نے اللہ کی عطا سے اللہ کے کرم سے مدد کی کرامت کے ذریعے سے

۔

✅ *#ثابت ہوا کہ*

انبیاء کرام سے بھی مدد طلب کر سکتے ہیں اور انبیاء کرام کے وارثوں یعنی معتبر سچے علماء اولیاء سے بھی مافوق الاسباب کی بھی مدد طلب کر سکتے ہیں کہ وہ کرامت کے ذریعے سے مدد کر سکتے ہیں اور اللہ سے دعا کر کے اللہ سے سفارش کر کے بھی ہماری مدد کر سکتے ہیں 

۔

@@@@@@@@@@

*#دلیل20* 🟢

عمر يخطب جعل ينادي: يا سارية الجبل ثلاثًا

وهو -كما قال شيخنا- إسناد حسن... ففی الحاشیۃ وقال ابن كثير في "البداية والنهاية"هذا إسناد جيد

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے میلوں دور جہاد کے لیے سیدنا ساریہ کو بھیجا اور وہ جنگ کر رہے تھے تو میلوں دور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جمعہ کی خطبے کے دوران جنگ کا منظر دیکھتے ہوئے اواز دی کہ اے ساریہ پہاڑ پہاڑ پہاڑ۔۔۔اور اس طرح مسلمانوں کو فتح ملی 

امام سخاوی فرماتے ہیں کہ اس روایت کی سند حسن معتبر قابل دلیل ہے جیسے کہ ہمارے شیخ نے فرمایا ہے اور حاشیہ میں ہے کہ امام ابن کثیر نے اس کو جید معتبر سند قرار دیا ہے

( المقاصد الحسنة في بيان كثير من الأحاديث المشتهرة على الألسنة - ط الميمنة5/423 مع الحاشیۃ مشرحا)

۔

✅ *#ثابت ہوا کہ*

انبیاء کرام کے وارثوں یعنی معتبر علماء کرام صوفیائے کرام اولیاء عظام بھی مافوق الاسباب مدد فرماتے ہیں وہ اللہ کی عطا سے طاقت سے غیب دیکھ رہے ہوتے ہیں اور جو اواز مسجد کے باہر تک نہیں پہنچ سکتی اس اواز کو میلوں دور تک پہنچا سکتے ہیں اللہ کی مدد سے۔۔۔لہذا جب اللہ نے ان کو  طاقت دی ہے کہ وہ کرامت دکھا سکتے ہیں اللہ کی اجازت سے۔۔۔۔وہ اللہ سے دعا اور سفارش کرسکتے ہیں۔۔۔اور اس طرح ہماری مدد کر سکتے ہیں تو پھر ان سے مدد طلب کرنا بھی جائز ثابت ہوا جیسے کہ دلیل نمبر تین میں تھا کہ ایک عالم و ولی سے مدد طلب کی گئی لہذا تمام معتبر سچے علماء و اولیاء کرام سے مدد طلب کر سکتے ہیں 

@@@@@@@@@@@

*#دلیل21* 🟢

الحدیث:

رب أشعث مدفوع بالأبواب لو أقسم على الله لأبره

کچھ ایسے بکھرے بالوں والے گرد و غبار لگے ہوئے بھی ہوتے ہیں جنہیں دروازوں سے دھتکارا جاتا ہے مگر اللہ کی قسم اٹھا کر اگر وہ کچھ کہہ دیں تو اللہ انکی وہ بات ضرور پوری فرماتا ہے 

(مسلم حديث6682)

۔

✅ *#ثابت ہوا کہ* 

اللہ کے پیارے بندے اولیاء کرام سے بھی مدد طلب کر سکتے ہیں، چاہے وہ مدد مافوق الاسباب ہو یا ما تحت الاسباب کیونکہ اللہ تعالی نے فرما دیا ہے کہ ایسے پیارے بندے اولیاء کرام اگر اللہ کی بارگاہ میں سوال کر دیں قسم اٹھا کر کچھ عرص کر دیں تو اللہ تعالی انہیں رسوا نہیں فرماتا اور ان کی ضرور سنتا ہے اور ان کی دعا پوری فرماتا ہے اس طرح ہماری مدد ہو جائے گی ان اولیاء کرام کے ذریعے سے لہذا اولیاء کرام سے مدد مانگ سکتے ہیں

@@@@@@@@@@@@@

*#دلیل22* 🟢

حدیثِ قدسی ہے میں ہے کہ

، وإن سألني لأعطينه

اگر وہ(باعمل نیک عبادت گذار پرہیزگار ولی اللہ) مجھ سے کچھ سوال کرتا ہے تو میں ضرور اسے دیتا ہوں

(بخاری حدیث6502)

۔

✅ *#ثابت ہوا کہ*

اللہ کے نیک بندے علماء اولیاء اگر اللہ تعالی سے کوئی سوال کریں تو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں ان کا سوال ضرور پورا کروں گا تو ثابت ہوا کہ ہم مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب کوئی بھی حاجت مدد کا سوال ان سے کر سکتے ہیں اور وہ اللہ کی بارگاہ میں سوال کریں گے تو ہماری مراد پوری ہو جائے گی 

🟫🟫🟫🟫🟫🟫🟫🟫___p5️⃣

🛑تبرک کے ذریعے سے مدد🛑

*#دلیل23* 🟢

القرآن:

وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ

اور ہم قرآن کی(سورتیں ایات) نازل کرتے ہیں جو شفاء ہیں، رحمت ہیں

(سورہ بنی اسرائیل آیت82)

.


وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ في معنى كونه شفاء على القولين الْأَوَّلُ: أَنَّهُ شِفَاءٌ لِلْقُلُوبِ بِزَوَالِ الْجَهْلِ عَنْهَا وَذَهَابِ الرَّيْبِ وَكَشْفِ الْغِطَاءِ عَنِ الْأُمُورِ الدَّالَّةِ عَلَى اللَّهِ سُبْحَانَهُ. الْقَوْلُ الثَّانِي: أَنَّهُ شِفَاءٌ مِنَ الْأَمْرَاضِ الظَّاهِرَةِ بِالرُّقَى وَالتَّعَوُّذِ وَنَحْوِ ذَلِكَ، وَلَا مَانِعَ مِنْ حَمْلِ الشِّفَاءِ عَلَى الْمَعْنَيَيْنِ

قرآن پاک شفاء ہے مگر کس چیز سے شفاء ہے؟ اہل علم کا اختلاف ہے…بعض فرماتے ہیں کہ باطنی ذہنی دلی امراض سے شفاء ہے اس طرح کہ قرآن جہالت سے شفاء دیتا ہے، قرآن شکوک شبہات ختم کرکے شفاء دیتا ہے، قرآن اللہ کے وجود و توحید کے دلائل سے پردہ ہٹا کر شفاء دیتا ہے...بعض علماء فرماتے ہیں کہ قرآن جسمانی امراض سے شفاء ہے کہ قرآن سے تعویذ دم جھاڑ پھونک وغیرہ کرکے جسمانی امراض سے شفاء حاص کی جاتی ہے(غیر مقلدوں نجدیوں کا امام شوکانی کہتا ہے کہ)دونوں ہی معنی مراد لینے میں کوئی روکاوٹ نہیں 

(غیر مقلدوں نجدیوں کا معتبر عالم شوکانی کی تفسیر فتح القدير ,3/300)

@@@@@@@@@@@@

*#دلیل24* 🟢

القرآن:

اِذۡہَبُوۡا بِقَمِیۡصِیۡ ہٰذَا فَاَلۡقُوۡہُ عَلٰی وَجۡہِ اَبِیۡ یَاۡتِ بَصِیۡرًا

یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ میری قمیض لے جاؤ اور میرے والد کے چہرے پر ڈال دو تو اس کی بینائی واپس ا جائے گی

سورہ یوسف ایت93

فَلَمَّاۤ  اَنۡ جَآءَ الۡبَشِیۡرُ اَلۡقٰىہُ عَلٰی وَجۡہِہٖ فَارۡتَدَّ بَصِیۡرًا

جب خوشخبری سنانے والا ایا اور اس نے ان کے والد کے چہرے پر یوسف کی قمیض ڈالی تو ان کی بینائی واپس اگئی 

سورہ یوسف ایت96

۔

✅ *#ثابت ہوا کہ* 

عظیم ذات کی بابرکت قمیض کی برکت سے ما تحت الاسباب اور ما فوق الاسباب تمام معاملات میں برکت مل جاتی ہے اور مدد مل جاتی ہے اور مرادیں پوری ہو جاتی ہیں۔۔۔اس طرح تبرک کے ذریعے سے بھی مدد حاصل کی جا سکتی ہے 

@@@@@@@@@@@

*#دلیل25* 🟢

نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام کے جبہ مبارک سے تبرک حاصل کرنا، اس کے وسیلے سے شفاء حاصل کرنا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے ثابت ہے...سیدہ بی بی اسماء  سیدِ عالم کے جبہ مبارک کے بارے میں  فرماتی ہیں

فنحن نغسلها للمرضى يستشفى بها

ہم اس جبے مبارک کا دھون مریضوں کے لیے بناتے ہیں تاکہ اس سے (یعنی دھون کو پی کر یا جسم پر لگا کر) شفاء حاصل کی جائے.. (مسلم تحت حدیث2069)

🟫🟫🟫🟫🟫🟫🟫🟫___p6️⃣

🛑دم تعویذ دعا دوا احتیاط کے ذریعے مدد🛑

*#دلیل26* 🟢

جیسا کہ دلیل نمبر ،22، 21 میں ہے کہ قران مجید سے دم کر کے اور متبرک کا دھون پی کر یا دھون لگا کر بھی مدد و شفا حاصل کی جا سکتی ہے

@@@@@@@@@@@

*#دلیل27* 🟢

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

 👈یہ جو دم(قرآن ، سنت ، حدیث ذکر اذکار اسمائے حسنی وغیرہ ماثورہ وغیرہ دم درود دعائیں) ہیں، جن‌ کےساتھ ہم دم کرتے ہیں

👈اور دوائیں ، جن کے ذریعے علاج کرتے ہیں ،‌

👈 اور حفاظت و احتیاط، جن کے ذریعے ہم اپنا بچاؤ کرتے ہیں ؛ کیا یہ تقدیرِ الہی کو ٹال سکتے ہیں ؟

 نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یہ تو خود اللہ کی تقدیر سے ہیں ۔(یعنی دعا دوا پرہیز و احتیاط سب کو اپنانا چاہیے کہ نہ جانے کس وسیلے ذریعے سے شفاء و راحت مل جائے اور تقدیر بدل جائے) 

(ترمذی ،حدیث 2065)

۔

@@@@@@@@@

*#دلیل28* 🟢

كُنَّا نَرْقِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ ؟ فَقَالَ : " اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ

صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کی ہم جاہلیت میں دم جھاڑ پھونک کرتے تھے اب انکا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنا دم جھاڑ پھونک مجھے بتاؤ اگر اس میں کفر شرک کے الفاظ و اعتقاد نہ ہوں تو ایسے دم جھاڑ پھونک میں حرج نہیں

(مسلم حدیث5732 ابوداود حدیث3886)

🟫🟫🟫🟫🟫🟫🟫___p7️⃣

🛑وفات کے بعد انبیاء کرام اولیاء عظام سے مدد🛑

*#دلیل29* 🟢

حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ مَالِكِ الدَّارِ، قَالَ: وَكَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَى الطَّعَامِ، قَالَ: أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَسْقِ لِأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا، فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ لَهُ: " ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنَّكُمْ مُسْتَقِيمُونَ وَقُلْ لَهُ: عَلَيْكَ الْكَيْسُ، عَلَيْكَ الْكَيْسُ "، فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَبَكَى عُمَرُ ثُمَّ قَالَ: يَا رَبِّ لَا آلُو

 سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں قحط ہوا تو ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار مبارک کی طرف آیا اور عرض کی یا رسول اللہ اپنی امت کے لئے بارش کی دعا کیجئے وہ ہلاک ہو رہے ہیں، تو نبی پاک صلی اللہ وسلم اس شخص کے خواب میں آئے اور فرمایا کہ عمر کے پاس جاؤ، اسے میرا سلام کہو اور اسے خبر دو کہ تم عنقریب بارش سے نوازے جاؤ گے، اور عمر سے کہو کہ تم پر سمجھداری لازم ہے سمجھ داری لازم ہے تو وہ شخص سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا اور سب کچھ بتایا تو سیدنا عمر رونے لگے اور عرض کرنے لگے یا اللہ میں بھرپور کوشش کروں گا

(مصنف ابن ابی شیبہ استادِ بخاری روایت32002)

(كنز العمال ,8/431 روایت23535)

(دلائل النبوة للبيهقي مخرجا7/47)

(جامع الاحادیث للسیوطی حدیث 28209)

(فتح الباري شرح بخاری 494/2)

.

کتاب روضة المحدثين کے محققین نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور حدیث صحیح قابل حجت ، قابل قبول ، قابل دلیل ہوتی ہے....إسناده صحيح

(مجموعة من المؤلفين ,روضة المحدثين ,1/440)

.

امام زرقانی نے بھی اس واقعے کو لکھا دلیل بنایا اور اس کی سند کو صحیح قرار دیا

وروى ابن أبي شيبة بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان، عن مالك الدار....(شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية11/150)

.

 مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے کہ جب کوئی جواب نہ بن پایا تو غیر کے مقلدین اور وسیلہ کے منکرین یہ کہتے ہیں کہ یہاں پر رجل لفظ ہے کوئی بندہ... پتہ نہیں کون بندہ تھا لہذا مجہول ہے اور مجھول کی روایت ضعیف ہے....

ہمارا جواب:

ارے عقل سے کام لیجیے اگر سند کا راوی رجل ہو مجھول ہو تو ضعف آ سکتا ہے...یہاں سند میں کوئی مجھول نہیں رجل لفظ سند کا حصہ نہیں بلکہ متن میں رجل ہے متن میں رجل آئے تو ضعیف ہونا ثابت نہیں ہوتا دیکھیے امام بخاری حدیث پاک لکھتے ہیں کہ

كَانَ الرَّجُلُ فِيمَنْ قَبْلَكُمْ

( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلے کوئی بندہ ہوتا تھا....

(بخاری حدیث3612)

اب کیا رجل کی گردان پڑھ کر بخاری کی حدیث کو بھی ضعیف کہہ دو گے......؟؟

.

پھر بھی علماء کرام نے تحقیق فرما کر لکھا کہ وہ شخص صحابی بلال مزنی تھے

وَقَدْ رَوَى سَيْفٌ فِي الْفُتُوحِ أَنَّ الَّذِي رَأَى الْمَنَامَ الْمَذْكُورَ هُوَ بِلَالُ بْنُ الْحَارِثِ الْمُزَنِيُّ أَحَدُ الصَّحَابَةِ

 امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ علامہ سیف نے اپنی کتاب الفتوح میں لکھا ہے کہ جس شخص نے خواب دیکھا تھا وہ سیدنا بلال بن حارث مزنی تھے جو کہ صحابہ کرام میں سے ہیں

(فتح الباری شرح بخاری ابن حجر2/496)

.

✅ *#ثابت ہوا کہ*

بعد از وفات بھی مدد مانگ سکتے ہیں، دعا کی عرض کر سکتے ہیں

@@@@@@@@@

*#دلیل30* 🟢

اصول

وفات کے بعد بھی وفات شدگان بولتے ہیں سنتے ہیں مگر ہمیں اسکا شعور نہیں کہ یہ اللہ کا بنایاط ہوا نظام ہے۔۔۔جب وفات شدگان سنتے بولتے ہیں تو ہم انہیں مدد کی عرض کر سکتے ہیں وہ معجزے کرامت یا اللہ سے دعا و سفارش کے ذریعے ہماری مدد کر سکتے ہیں

.

 1...حتى إنه ليسمع قرع نعالهم

حتی کہ مردہ لوگوں کے جوتوں کی ہلکی سی آہٹ تک سنتا ہے...(بخاری حدیث1338)

.

2...قران مجید کی سورہ غافر ایت46 اور سورہ انعام ایت93 اور بخاری حدیث1372 اور دیگر کئ ایات و احادیث سے عذاب قبر اور راحت قبر کا ثبوت ہے یعنی وفات کے بعد قبر والے محسوس کرتے ہیں سنتے ہیں بولتے ہیں

لیھذا

ان سے مدد طلب کرنا جائز ہے

۔

وَإِذا ثَبت التعذيب ثَبت الْإِحْيَاء والمساءلة، لِأَن كل من قَالَ بِعَذَاب الْقَبْر قَالَ بهما.وَلنَا أَيْضا أَحَادِيث صَحِيحَة وأخبار متواترة

عذاب قبر کی احادیث مبارکہ متواترہ ہیں اور عذاب قبر سے ثابت ہوتا ہے کہ مردے حیات برزخی کے ساتھ زندہ ہوجاتے ہیں(سنتے ہیں بولتے ہیں محسوس کرتے ہیں جواب دیتے ہیں لیکن ہمیں اس کا شعور نہیں ہوتا )

عمدة القاري شرح صحيح البخاري ,8/146

.

3۔۔۔اہل قبور کو سلام کرنےکی احادیث مبارکہ موجود ہیں۔اگر قبر والے نہ سنتے تو انہیں سلام کرنا فضول نعوذ باللہ۔۔۔۔؟؟

.

4۔۔۔الحدیث:

مررت - على موسى ليلة أسري بي عند الكثيب الأحمر، وهو قائم يصلي في قبره

(نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ) معراج کی رات میں موسی علیہ السلام کے پاس سے گذرا، وہ کثیب احمر کے نزدیک اپنی قبر مبارک میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے

(صحیح مسلم حدیث2375)

.

5۔۔۔۔معراج کی رات انبیاء کرام سے ملاقات کرنا اور انبیاء کرام کا مرحبا کہنا اور پھر حضرت موسی علیہ السلام کا رونا اور نمازیں کم کروانے کا مشورہ دینا، یہ سب حدیث پاک میں ہے جسکو امام بخاری نے بھی روایت کیا ہے

(دیکھیے صحیح بخاری حدیث نمبر3887)

.

6۔۔۔الحدیث:

دخلت بيت المقدس فجمع لي الأنبياء عليهم السلام , فقدمني جبريل حتى أممتهم

(نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہین کہ معراج کے سفر کے دوران) میں بیت المقدس(جو فلسطین میں ہے) داخل ہوا تو میرے لیے انبیاء کرام علیھم السلام کو جمع کیا گیا اور جبرائیل نے مجھے آگے کر دیا حتی کہ میں نے تمام انبیاء کرام کو نماز پڑھائی(جماعت کرائی)

(سنن نسائی حدیث450)

.

7۔۔۔۔الحدیث:

إن الله عز وجل حرم على الأرض أجساد الأنبياء


بے شک اللہ عزوجل نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انیباء کرام کے جسموں کو کھائے...(ابو داؤد حدیث 1047)

یہ حدیث پاک ایک نہین بلکہ بہت ساری کتابوں میں موجود ہے حتی کہ انہیں کے محدث وقت البانی کو بھی اقرار کرنا پڑا کہ یہ حدیث صحیح ہے

.

8۔۔۔۔الحدیث:

وبعد الموت، إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء، فنبي الله حي يرزق


میری وفات کے بعد بھی تمھارا درود مجھ تک پہنچے گا کیونکہ بے شک اللہ عزوجل نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انیباء کرام کے جسموں کو کھائے، تو اللہ عزوجل کے انبیاء کرام وفات کے بعد بھی زندہ ہوتے ہیں، رزق دیے جاتے ہیں

(ابن ماجہ حدیث1638)


✅ *#ثابت ہوا کہ*

ان احادیث مبارکہ میں غور کیجئے ...کسی حدیث پاک میں ہے کہ انبیاء کرام قبروں میں زندہ ہیں رزق دیے جاتے ہیں نماز پڑھتے ہیں اور کسی حدیث پاک میں ہے کہ رسول کریم نے سب انبیاء کرام کو بیت المقدس پہ نماز پڑھائی اور ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ ہر اسمان پہ نبی کریم کی ملاقات کسی نہ کسی نبی سے ہوئی.... اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام قبروں میں زندہ ہیں لیکن قبروں میں قید نہیں ہیں ..... وہ جب چاہیں جس وقت چاہیں اللہ کے حکم سے کسی بھی جگہ جا سکتے ہیں، رہ سکتے ہیں،مدد کر سکتے ہیں، دعا کرسکتے ہیں لیھذا اللہ کے پیاروں کی وفات کے بعد بھی ان سے مدد طلب کر سکتے ہیں

🟫🟫🟫🟫🟫🟫🟫🟫🟫

🛑اللہ سے مدد مانگنے ، اللہ کے پیاروں سے مدد مانگنے کے باوجود مسجد مزارات گھر فصلوں کو بظاہر نقصان کیوں ہو رہا ہے۔۔؟؟ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔۔۔؟؟🛑

جواب:

1۔۔۔۔اللہ کی مرضی ہے کہ مدد کرے یا نہ کرے اور اپنے پیاروں کو مدد کرنے سے روکے یا مدد کرنے کی اجازت دے اس کے ہر کام میں بےشمار حکمتیں و راز ہیں

الحدیث:

مَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ وَمَا لَمْ يَشَأْ لَمْ يَكُنْ

جو اللہ چاہے وہ ہوتا ہے، جو وہ نہ چاہے نہیں ہوتا

ابوداود حدیث5075

۔

2۔۔۔امتحان کے لیے کہ کون ممومن رہتا ہے اور کون منکر کافر بن جاتا ہے

القران:

ونبلوكم بالشر والخير  فِتۡنَۃً ؕ وَ اِلَیۡنَا  تُرۡجَعُوۡنَ

تشریحی ترجمہ:

اور ہم تمھارا امتحان لیں گے خیر(خوشحالی وغیرہ پسندیدہ اچھی چیزوں)کے ذریعے اور شر(تکلیف آفات زلزے سیلاب نقصادن دہ بارشیں بیماریاں مصیبتیں خواہشات پوری نہ ہونا وغیرہ ناپسندیدہ چیزوں) کے ذریعے۔۔۔اور یاد رکھو تمھیں ہماری طرف( اللہ کی طرف) ہی آنا ہے(اور وہ اس دن تمھارا حساب لے گا کہ تم نے کفر و گستاخی کی یا صبر و عمل۔۔۔؟؟)

(سورہ انبیاء آیت35)

۔

خانہ کعبہ مساجد جو اللہ کے محبوب ترین مقامات میں سے ہیں ، دشمنوں نے انہیں نقصان بھی پہنچایا اور کئی مساجد سیلاب بارش وغیرہ کی زد میں ا کر شہید بھی ہو گئیں جو ہمیں یقینا پسند نہیں کہ ہماری تو خواہش یہ ہے کہ اللہ تعالی ان کی حفاظت فرماتا ، اسی طرح اللہ تعالی کے پیارے اولیاء کرام کے مزارات بھی سیلاب بارش وغیرہ کی زد میں ا کر شہید ہوئے جو کہ ہمیں پسند نہیں کہ ہماری تو خواہش ہے کہ اللہ تعالی ان کی حفاظت فرماتا اور اللہ تعالی ان اولیاء کرام کو اجازت عطا فرماتا، طاقت عطا فرما کر طاقت کا اظہار کرنے کی اجازت بھی عطا فرماتا کہ یہ اولیاء کرام مساجد کی حفاظت فرماتے اور اپنے مزارات کی حفاظت فرماتے 

مگر

یہ سب ہماری ازمائش کے لیے ہے ، ہمارے امتحان کے لیے ہے،کہ ہم منکر گستاخ بن جاتے ہیں یا پھر اللہ کی رضا و مشیت پر صبر کرنے والے بن جاتے ہیں۔۔۔؟؟

۔

3۔۔تاکہ ہمیں توجہ ملے کہ کچھ تو ہم زمین و فضا فیکڑیوں عیاشی فحاشی وغیرہ غلط کر رہے جس پے اللہ نقصان دہ بارش سیلاب زلزلوں کے ذریعے تنبیہ فرما رہا ہے کہ سوچو کیا غلط کر رہے ہو اور پھر اسکی درستگی کرو احتیاط اپناو

۔

4۔۔۔ہم گناہوں میں لت پت ہوتے ہیں، اللہ نقصان دہ بارش سیلاب زلزلوں سے توجہ دلاتا ہے کہ گناہوں سے رک جاو ورنہ دعائیں قبول نہ کرونگا

الحدیث:ترجمہ:

اسکا کھانا پینا کمانا پہننا سب کچھ حرام تو یا رب یا رب کہتا پھرے اسکی دعا کیسے قبول ہوگی۔۔۔؟؟

(مسلم،ترمذی حدیث2989)

۔

5۔۔۔اس سے بڑی عافت آسکتی تھی دعا وسیلے مدد طلب کرنے سے مدد ہوئی اور کم مصیبت ائی یا دیگر کئ مصیبتیں ٹل گئیں

الحدیث

كَفَّ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهُ

کبھی دعا کے بدلے دیگر مصیبتوں کو اللہ ٹال دیتا ہے

(ترمذی حدیث3381)

.

۔

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

New whatsapp nmbr

03062524574

00923062524574

https://wa.me/923062524574

مجھ سے سوال کیجیے، تصدیق تحقیق تردید پوچھیے ، کوشش ہوگی کہ جلد جواب دوں اور میرے نئے وٹسپ نمبر کو وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنائیے تاکہ میں تحریرات وہاں بھیج سکوں،سوالات اعتراضات کے جوابات دے سکوں۔۔۔۔دینی خدمات زیادہ سے زیادہ سر انجام دے سکوں۔۔۔جزاکم اللہ خیرا

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.