کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے افعال کردار فیصلے و سیرت سے براءت کا اعلان کیا۔۔؟؟ ایسے اعتراض کا مدلل تحقیقی جواب پڑھیے اس مختصر تحریر میں


🟥 *#کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے افعال کردار فیصلے و سیرت سے براءت کا اعلان کیا۔۔؟؟ ایسے اعتراض کا مدلل تحقیقی جواب پڑھیے اس مختصر تحریر میں۔۔۔۔۔!!*

۔

📣 توجہ:

نیچے دی گئ لنک پے آپ میری کافی ساری تحقیقی تحریرات پڑھ سکتے ہیں۔۔۔لنک یہ ہے👇

https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1

https://www.facebook.com/share/17EiysLaaj/

👈میرے واٹسپ چینل کو بھی ہو سکے تو ضرور فالوو کر لیجئے،لنک یہ ہے

https://whatsapp.com/channel/0029Vb5jkhv3bbV8xUTNZI1E

۔

🚨 *#رافضی نیم رافضی لکھتا ہے*

حضرت علی کا حضرات ابو بکر و عمر کی سیرت و فعل پر بیعت سے انکار

حضرت عبدالرحمن نے علی کا ہاتھ پکڑ کہا :کیا آپ کتاب اللہ اور اس کے نبی کی سنت اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم کے فعل پر بیعت کرتے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا : نہیں بلکہ میں اپنی جہد و طاقت پر بیعت کرتا ہوں

(تاریخ ابن کثیر اردو9/196)

۔

✅ *#جواب و تحقیق*

*#پہلی بات* 1️⃣

تاریخ ابن کثیر میں اس کی سند ہی نہیں اور جس کی سند ہی نہ ہو کیا اس پر کوئی عقیدہ ، اتنا بڑا عقیدہ کیا اس بےسند بات سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔۔؟؟ہرگز نہیں..

👈👈لیھذا مذکورہ روایت باطل و غیر معتبر ہے یا پھر اس کے درست معنی وہ ہیں جو ہم نیچے تفصیل سے تحریر کے اخر تک ثابت کریں گے کہ اگر بالفرض مذکور روایت درست مان لی جائے تو فرض ہے کہ اس کا درست معنی لیا جائے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ فرمایا کہ جتنی مجھ میں طاقت و استطاعت ہے میں کتاب اللہ پر عمل کروں گا سیرت رسول پر عمل کروں گا اور سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی سیرت پر ان کے کاموں پر ان کے فیصلوں پر عمل کرتا رہوں گا جتنی مجھ میں طاقت اور استطاعت ہے اور ایسے الفاظ بیعت کے وقت بولنا احادیث مبارکہ سے صحابہ کرام سے ثابت ہے جو کسی چیز کی نفی نہیں کرتے

۔

*#دوسری بات* 2️⃣

تاریخ ابن کثیر کی عربی عبارت کا جس نے بھی مذکورہ ترجمہ کیا، درست نہیں کیا۔۔۔ اس کا درست ترجمہ اور عربی عبارت یہ ہے

فَقَالَ: هَلْ أَنْتَ مُبَايِعِي عَلَى كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِعْلِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ؟ قَالَ: اللَّهمّ لَا وَلَكِنْ عَلَى جُهْدِي مِنْ ذَلِكَ وَطَاقَتِي

سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ اے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کیا اپ کتاب اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور سیدنا ابوبکر صدیق کے فعل افعال سیرت اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے فعل تمام افعال سیرت پر میری بیعت کرتے ہیں، سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا، ان میں سے جو کچھ میری طاقت و استطاعت میں ہے اس پر بھرپور کوشش کرتے ہوئے آپ کی بیعت کرتا ہوں

(تاریخ ابن کثیر اصل عربی7/146)

۔

🚨معترض نے جو ترجمہ پیش کیا اس میں ترجمہ کرنے والے نے "من ذالک" کا ترجمہ نہیں کیا۔۔۔ اعتراض میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فقط اپنی جہد و طاقت پر بیعت کی جبکہ اصل عربی الفاظ کے مستند ترجمے کو دیکھا جائے تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کتاب اللہ میں سے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے فعل و افعال سیرت میں سےاور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے فعل و افعال سیرت میں سے ان پر بیعت کی جن پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش و طاقت ہوگی✅اور اس طرح کے الفاظ سے صحابہ کرام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے الفاظ سے بیعت کرنے کا حکم ارشاد فرمایا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسے الفاظ بولنے سے کسی چیز کا انکار مقصد نہیں ہوتا بلکہ اپنی عجز و انکساری کا اظہار ہوتا ہے اور احتیاط بھی مقصود ہو سکتی ہے

۔

*#تیسری بات* 3️⃣

اگر اعتراض کرنے والے کا اعتراض مانا جائے تو نعوذ باللہ کہنا پڑے گا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کتاب اللہ یعنی قران مجید پر بھی بیعت کرنے سے انکار کر دیا اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔۔۔فقط اور فقط اپنی جہد و طاقت پر بیعت کے لیے راضی ہوئے،کیا کوئی ذی شعور ایسا کہہ سکتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اپنی جہد و طاقت رائے کو معتبر سمجھتے ہوں اور اسی پر بیعت کرتے ہوں۔۔۔۔؟؟ کیا معترض نعوذ باللہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو قران مجید کا منکر ثابت نہیں کر رہا۔۔۔؟؟ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر ثابت نہیں کر رہا۔۔۔؟؟ لازما معترض کا اعتراض اور ترجمہ درست نہیں ہے

۔

*#چوتھی بات* 4️⃣

هذا ما صالح عليه الحسن بن علي بن أبي طالب معاوية بن أبي سفيان: صالحه على أن يسلم إليه ولاية أمر المسلمين، على أن يعمل فيهم بكتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وآله وسيرة الخلفاء الصالحين

(شیعوں کے مطابق)امام حسن نے فرمایا یہ ہیں وہ شرائط جس پر میں معاویہ سے صلح کرتا ہوں، ایک شرط یہ ہے کہ معاویہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور سیرتِ نیک خلفاء کے مطابق عمل پیرا رہیں گے

(شیعہ کتاب بحار الانوار جلد44 ص65)

۔

1۔۔۔سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے "نیک خلفاء کی سیرت" فرمایا جبکہ اس وقت شیعہ کے مطابق فقط ایک خلیفہ برحق امام علی گذرے تھے لیکن سیدنا حسن "نیک خلفاء" جمع کا لفظ فرما رہے ہیں جسکا صاف مطلب ہے کہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ  کا وہی نظریہ تھا جو سچے اہلسنت کا ہے کہ سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم خلفاء برحق ہیں تبھی تو سیدنا حسن نے جمع کا لفظ فرمایا...اگر شیعہ کا عقیدہ درست ہوتا تو "سیرت خلیفہ" یعنی واحد کا لفظ بولتے امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ....!!

۔

2۔۔۔۔اور  مذکورہ حوالے سے دوسری بات یہ بھی اہلسنت کی ثابت ہوئی کہ "قرآن و سنت" اولین ستون ہیں کہ ان پے عمل لازم ہے جبکہ شیعہ قرآن و سنت کے بجائے اکثر اپنی طرف سے اقوال گھڑ لیتے ہیں اور اہلبیت کی طرف منسوب کر دیتے ہیں

۔

3۔۔۔۔اور مذکورہ حوالے سے سیدنا یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حکومت سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم و سیرت خلفاء کے مطابق تھی، اچھی تھی ورنہ اگر ظالمانہ ہوتی تو سیدنا حسن حسین رضی اللہ تعالی عنہما ضرور باءیکاٹ فرماتے ، صلح نہ فرماتے چاہے اس لیے جان ہی کیوں نہ چلی جاتی جیسے کہ یزید سے بائیکاٹ کیا

۔

4۔۔۔۔مذکورہ حوالے سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا عثمان وغیرہ تمام صحابہ کرام ظالم فاسق بدعتی منافق نہ تھے لہذا باغ فدک کا معاملہ ہو یا خلافت کا تمام معاملات میں سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین درست تھے،انکے تمام فیصلے کام درست قران و سنت کے مطابق و درست تھے ، انہوں نے کوئی ظلم کفر منافقت بدعت نہ کی کیونکہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے خلفاء راشدین یعنی رشد و ہدایت والے خلیفہ قرار دے رہے ہیں

۔

5۔۔۔👈جب سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے مطابق سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے کاموں کے مطابق فیصلوں کے مطابق سیرت کے مطابق بیعت کرنا ہوگی عمل کرنا ہوگا تو لازما سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ہی یہ سیکھا ہوگا ورنہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے اتنا بڑا اصولی اختلاف قرار دیا جائے تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو غلط قرار دینا پڑے گا یا پھر سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو غلط قرار دینا پڑے گا جبکہ حدیث پاک میں اور تمام کتب میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی درست قرار دیا گیا ہے اور سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی درست قرار دیا گیا ہے لہذا ثابت ہوا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور تمام اہل بیت کرام ہمیشہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے فعل افعال سیرت کا انکار نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے فعل افعال سیرت کے مطابق عمل کرنے کی شرط پر بیعت کرتے تھے

۔

*#پانچویں بات* 5️⃣

جو بات ہم نے چوتھی بات کے عنوان سے لکھی ہے وہ اہلسنت  کے امام امام ابن حجر ہیتمی نے بھی لکھی ہے آپ نے یوں الفاظ لکھے:

بِسم الله الرَّحْمَن الرَّحِيم هَذَا مَا صَالح عَلَيْهِ الْحسن بن عَليّ رَضِي الله عَنْهُمَا مُعَاوِيَة بن أبي سُفْيَان

صَالحه على أَن يسلم إِلَيْهِ ولَايَة الْمُسلمين على أَن يعْمل فيهم بِكِتَاب الله تَعَالَى وَسنة رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وسيرة الْخُلَفَاء الرَّاشِدين المهديين

بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ وہ دستاویز ہے جس میں اقرار ہے کہ میں امام حسن رضی اللہ عنہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ان شرائط پر سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے صلح کرتا ہوں کہ ایک شرط یہ ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ  کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرتِ خلفاء راشدین مھدین کے مطابق عمل پیرا رہیں گے

(الصواعق المحرقة2/399)

اس سے اوپر جو پوائنٹس ثابت کیے وہ بھی ثابت ہوتے ہیں اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ

سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا عثمان وغیرہ تمام صحابہ کرام ظالم فاسق بدعتی منافق نہ تھے لہذا باغ فدک کا معاملہ ہو یا خلافت کا تمام معاملات میں سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین درست تھے،انکے تمام فیصلے کام درست قران و سنت کے مطابق و درست تھے ، انہوں نے کوئی ظلم کفر منافقت بدعت نہ کی کیونکہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے خلفاء راشدین یعنی رشد و ہدایت والے خلیفہ قرار دے رہے ہیں

۔

👈جب سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے مطابق سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے کاموں کے مطابق فیصلوں کے مطابق سیرت کے مطابق بیعت کرنا ہوگی عمل کرنا ہوگا تو لازما سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ہی یہ سیکھا ہوگا ورنہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے اتنا بڑا اصولی اختلاف قرار دیا جائے تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو غلط قرار دینا پڑے گا یا پھر سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو غلط قرار دینا پڑے گا جبکہ حدیث پاک میں اور تمام کتب میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی درست قرار دیا گیا ہے اور سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی درست قرار دیا گیا ہے لہذا ثابت ہوا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور تمام اہل بیت کرام ہمیشہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے فعل افعال سیرت کا انکار نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے فعل افعال سیرت کے مطابق عمل کرنے کی شرط پر بیعت کرتے تھے

۔

*#چھٹی بات* 6️⃣

رافضی نیم رافضی معترض نے جو روایت پیش کی ہے وہی روایت تفصیل و سند کے ساتھ یوں لکھی ہے:

  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ، حَدَّثَنِي سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنِي قَبِيصَةُ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ: كَيْفَ بَايَعْتُمْ عُثْمَانَ وَتَرَكْتُمْ عَلِيًّا؟ قَالَ: مَا ذَنْبِي؟ قَدْ بَدَأْتُ بِعَلِيٍّ، فَقُلْتُ: أُبَايِعُكَ عَلَى كِتَابِ اللهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ، وَسِيرَةِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ. قَالَ: فَقَالَ:

 فِيمَا اسْتَطَعْتُ

سیدنا عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ میں اپ کی بیعت کرتا ہوں کتاب اللہ پر سنت رسول پر سیرت ابوبکر و عمر پر تو سیدنا علی نے فرمایا کہ جتنا مجھ میں استطاعت و طاقت ہے

مسند احمد روایت557

قال محققہ ضعیف

مسند احمد کے محقق نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا سفیان بن وکیع کی وجہ سے

حاشیہ مسند احمد تحت روایت557

۔

🚨اور امام ہیثمی نے اس روایت کو لکھنے کے بعد فرمایا

رَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ وَفِيهِ سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ وَهُوَ 

ضَعِيفٌ جِدًّا

مذکور و بالا روایت کو امام احمد بن حنبل کے بیٹے نے مسند احمد بن حنبل میں روایت کیا ہے اور اس روایت میں سفیان بن وکیع ہے جو کہ بہت ہی زیادہ سخت ضعیف ہے( لہذا یہ روایت انتہائی سخت ضعیف ہے ،ضعیف جدا ہے اور ضعیف جدا سخت ضعیف روایت و حدیث احکام تو کیا ، فضائل میں بھی مقبول نہیں)

مجمع الزوائد5/185

.

1۔۔۔كلام الحافظ ابن العربي فيحمل على شديد الضعف المتفق على عدم العمل به كما أشار إليه السخاوي. قوله: (في الفضائل) قال في  المجموع وغيره فضائل الأعمال وحذف هنا اما اكتفاء بالعلم من كون المقام لفضل العمل أو تنبيهاً على تعميم الفضائل الشاملة للعمل وغيره كما يدل له قولهم يجوز العمل بالضعيف فيما عدا الأحكام والعقائد. قوله: (والترغيب والترهيب) أي  بسائر فنونه وكذا كل ما لا تعلق له بالأحكام والعقائد كما قاله في الإرشاد. قوله: (ما لم يكن موضوعاً) وفي معناه  شديد الضعف فلا يجوز العمل بخبر من انفرد من كذاب ومتهم بكذب ومن فحش غلطه فقد نقل العلائي الاتفاق عليه

خلاصہ:

 حافظ ابن عربی کے کلام محمل یہ ہے کہ سخت ضعیف پر فضائل و احکام میں عمل نہ کیا جائے گا، موضوع متھم کذاب فحش غلط کی روایت فضائل میں بھی فضائل میں معتبر نہیں اس پر سب کا اتفاق ہے

(الفتوحات الربانية على الأذكار النواوية1/83)

.

2۔۔۔مراتب الضعف الشديد (التي لا يعبر بحديث أصحابها)

ـ متروك، ذاهب الحديث

یعنی

 متروک الحدیث یا ذاہب الحدیث کہا جائے تو یہ شدید ضعیف ہونے کی جرح ہے کہ ایسی شدید و سخت ضعیف روایت و حدیث فضائل و احکام میں معتبر نہیں

(خلاصة التأصيل لعلم الجرح والتعديل ص36)

.

3۔۔۔مَتْرُوك الحَدِيث یا ذَاهِب الحَدِيث  یا كَذَّاب یا فَهُوَ سَاقِط لَا يكْتب حَدِيثه یا مُتَّهم بِالْكَذِبِ ایا متھم بالْوَضع وغیرہ کی جرح ہوتو ایسی سخت ضعیف یا موضوع روایت و حدیث سے کوئی فضائل و احکام ثابت نہیں کیے جاسکتے اور نہ ہی ایسی روایت و حدیث بطور شاہد پیش کی جاسکتی ہے اور ایسی روایت و حدیث کسی بھی معاملے میں معتبر نہیں ہے

(الرفع والتكميل ص152، .153ملتقطا)

۔


4۔۔۔فقد ذكر الحافظ ابن حجر في شروط جواز العمل بالضعيف ثلاثة شروط أحدها: أن يكون الضعف غير شديد،

 علامہ ابن حجر عسقلانی نے فرمایا کہ حدیث ضعیف فضائل میں مقبول ہونے کی تین شرطیں ہیں، ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ روایت و حدیث شدید ضعیف نہ ہو۔۔۔اگر روایت و حدیث شدید ضعیف ہو تو فضائل اور احکام کسی میں بھی مقبول و معتبر نہیں

(أحكام الحديث الضعيف - ضمن «آثار المعلمي» ص164)

۔

👈اور مذکورہ بالا مسند احمد اور ابن کثیر کی روایت کو سخت ضعیف قرار دیا گیا ہے جیسا کہ اوپر مجمع الزوائد کے حوالے سے لکھا کیونکہ اس کا ایک راوی سفیان بن وکیع سخت ضعیف ہے لہذا اس کی روایت کردہ روایت و حادیث سخت ضعیف کہلائے گی جو کہ فضائل اور احکام دونوں میں معتبر نہیں ہوگی

۔

قال أبو زرعة: لا يشتغل به، قيل له: أكان متهم بالكذب؟ قال: نعم.وقال ابن عدي: كان إذا لقن تلقن.وقال النسائي: ليس بشيء.وقال ابن حبان: قيل له في أشياء لقنها، فلم يرجع عنها، فاستحق الترك

سفیان بن وکیع کے متعلق امام ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ اس کی روایت کردہ احادیث و روایات کو کوئی حیثیت نہ دی جائے تو ان سے کہا گیا کہ کیا وہ متھم بالکذب ہیں۔۔؟؟فرمایا جی ہاں یعنی ان پر جرح ہے کہ وہ کبھی حافظہ خراب ہونے کی وجہ سے روایت و حدیث میں جھوٹ بھی شامل کر دیتے ہیں۔۔۔اور امام ابن عدی فرماتے ہیں کہ جب ان کو کوئی بات(بغیر دلیل کے بھی) بتائی جاتی تھی تو بھی وہ اس کو مان لیتے تھے اور اس کو حدیث اور روایت میں شامل کر دیتے تھے... امام نسائی نے فرمایا کہ یہ راوی کوئی حیثیت نہیں رکھتا ...امام ابن حبان نے بھی یہی فرمایا کہ ان کی احادیث و روایات میں وہ باتیں بھی ہیں کہ جو اس نے دوسروں سے بطور تلقین لے کر شامل کر دیں اور ان سے رجوع بھی نہیں کیا تو لہذا اس کی روایت کردہ احادیث و روایات مستحق ہیں کہ انہیں ترک و رد کر دیا جائے گا

 الجامع لكتب الضعفاء والمتروكين والكذابين6/453

.

آجری۔۔حضرتُ أبا داود يُعرض عليه الحديث عن مشايخه، فعُرِض عليه حديثٌ عن سُفيان بن وكيع، فأبى أن يسمعهُ۔۔۔

وقال الخليلي: سُفيان بن وكيع سَمع أَباه وابن عُيينة، وقُدَماء الكوفة ومكة، لكنهم ضعفوه...وقال ابن حَجر: كان صدوقًا، إلا أنه ابتُلي بِوَرَّاقه فأَدخلَ عليه ما ليس من حديثه، فنُصِحَ فلم يقبل، فسَقَط حديثُه

امام اجری فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابو داؤد کے پاس حاضر ہوا تو ان کے پاس سفیان بن وکیع کی روایات پیش کرنے کی کوشش کی گئی تو اپ نے اسے سننے سے انکار فرمایا( یعنی اتنا بے وقعت بےحیثیت راوی ہے کہ امام ابوداؤد نے اس کی روایت کو سننا تک گوارا نہیں کیا) امام خلیلی نے فرمایا کہ اہل مکہ اور اہل کوفہ نے اور دیگر محدثین نے اس راوی کو ضعیف قرار دیا ہے۔۔۔ امام ابن حجر نے فرمایا کہ بذات خود تو یہ راوی صدوق ہے لیکن وراق وغیرہ کی وجہ سے مبتلا ہوا کہ وہ جو کچھ انکو بولتے تھے یہ راوی وہ بات روایات و احادیث میں شامل کر دیتا تھا حالانکہ ان کی کوئی دلیل نہ ہوتی تھی اور نہ ہی کوئی سند ہوتی تھی لہذا اس کی روایت کردہ احادیث و روایات گری ہوئی ہیں، ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے

المسند المصنف المعلل25/389شرحا

۔

قال أبو زرعة: كان وراقة نقمة، كان يعمد إلى أحاديث من أحاديث الواقدي

 امام ابو زرعہ نے فرمایا کہ یہ سفیان بن وکیع راوی تو وراق واقدی وغیرہ کی باتوں کی طرف اعتماد کر کے انکی باتیں احادیث و روایات میں شامل کر دیتا تھا اس لیے یہ غیر معتبر ہے، اس کی روایت کردہ احادیث و رواجات غیر معتبر ہیں

التذييل على تهذيب التهذيب ص150ماخوذا

۔

*#ساتویں بات* 7️⃣

اور اگر بالفرض مذکور روایت درست مان لی جائے تو فرض ہے کہ اس کا درست معنی لیا جائے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ فرمایا کہ جتنی مجھ میں طاقت و استطاعت ہے میں کتاب اللہ پر عمل کروں گا سیرت رسول پر عمل کروں گا اور سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی سیرت پر ان کے کاموں پر ان کے فیصلوں پر عمل کرتا رہوں گا جتنی مجھ میں طاقت اور استطاعت ہے اور ایسے الفاظ بیعت کے وقت بولنا احادیث مبارکہ سے صحابہ کرام سے ثابت ہے جو کسی چیز کی نفی نہیں کرتے

۔

الحدیث:

جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : بَايَعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، فَلَقَّنَنِي فِيمَا اسْتَطَعْتُ

صحابی سیدنا جریر بن عبداللہ جنہیں یوسف الامۃ کہا جاتا ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی کہ میں سنوں گا اور مانوں گا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تلقین فرمائی کہ یوں کہو کہ میں سنوں گا مانوں گا جتنی مجھ میں استطاعت و طاقت ہے

بخاری حدیث7204

۔

ابن عمر۔۔۔بِالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ لِعَبْدِ اللَّهِ عَبْدِ الْمَلِكِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى سُنَّةِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ مَا اسْتَطَعْتُ

عبداللہ عبدالملک کی بیعت سیدنا ابن عمر صحابی رسول رضی اللہ تعالی عنہ نے اس طرح کی کہ میں اپ کی بیعت کرتا ہوں اللہ کی اطاعت اور سنت رسول پر جتنا مجھ میں طاقت و استطاعت ہے

بخاری روایت7203

۔

َ كُنَّا نُبَايِعُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، وَيُلَقِّنُنَا : " فِيمَا اسْتَطَعْتَ

صحابی فرماتے ہیں کہ ہم صحابہ کرام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرتے تھے کہ ہم سنیں گے اور مانیں گے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں تلقین فرماتے تھے کہ بیعت میں یوں کہو کہ جتنا مجھ میں استطاعت و طاقت ہے

ابوداود حدیث2940

۔

✅ان تمام احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا، روایات سے ثابت ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلقین مبارک تھی کہ بیعت کرنی ہو تو یوں کہو کہ جتنا مجھ میں استطاعت و طاقت ہے اور صحابہ کرام نے اس طریقے پر بیعت بھی کی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ نعوذ باللہ ہم اللہ کی بعض معاملات میں نافرمانی کریں گے یا رسول کریم کے ہم بعض معاملات میں نافرمانی کریں گے ایسا مطلب اس کا ہرگز نہیں ہے

تو

👈👈اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے جو فرمایا کہ میں بیعت کرتا ہوں کہ اللہ کی اطاعت کروں گا سنت رسول پر چلوں گا اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے کاموں فعل افعال سیرت پر چلوں گا جتنی مجھ میں استطاعت و طاقت ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہما کے فعل کاموں کردار سیرت سے انکار کر دیا ، ہرگز نہیں ورنہ نعوذ باللہ کہنا پڑے گا کہ اگر استطاعت کے لفظ بولنا انکار ہے تو پھر نعوذ باللہ بیعت کرتے وقت استطاعت کا لفظ استعمال کر کے سیدنا علی نے صحابہ کرام نے اللہ کی اطاعت کا انکار کر دیا رسول کریم کی سنت کا انکار کر دیا جو کہ ہرگز درست مطلب نہیں لہذا جتنا میری طاقت و استطاعت ہے ان الفاظوں سے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کا انکار ثابت نہیں ہوتا

۔


✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

New whatsapp nmbr

03062524574

00923062524574

میرے نئے وٹسپ نمبر کو وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنائیے تاکہ میں تحریرات وہاں بھیج سکوں،سوالات اعتراضات کے جوابات دے سکوں۔۔۔۔دینی خدمات زیادہ سے زیادہ سر انجام دے سکوں۔۔۔جزاکم اللہ خیرا

 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.