سیدنا عمر کی وفات26ذوالحج یا یکم محرم؟ فضائل سادگی سختی نرمی اتباع و عشق رسول

 *#سیدنا_عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض فضائل،سادگی ، سختی نرمی،عشق رسول،اتباع رسول،منافقوں گستاخوں کا انجام، فاروق سیدنا علی یا سیدنا عمر؟ تاریخ شہادت26 ذوالحج یا یکم محرم؟ تنخواہ،کرپشن کی روک تھام...؟؟*

.
خلاصہ حدیث:
اللہ ابوبکر پرخصوصی رحم فرمائے اپنی بیٹی سےمیرا نکاح کرایا،سوار کرکے ہجرت کرائی،(مہنگےداموں خرید کر)بلال کو آزاد کرایا…اللہ عمر پر خصوصی رحم فرمائے وہ ہمشہ حق کہتے ہیں اگرچہ کسی کو کڑوا لگے…اللہ عثمان پر خصوصی رحم فرمائےکہ جس سےملائکہ بھی حیاء کرتےہیں…اللہ علی پر خصوصی رحم فرمائے جہاں وہ ہوں وہاں حق ہو
(ترمذی حدیث3714ملخصا)رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین حق چار یار…بیڑا پار
.
.
الحدیث:
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن الله جعل الحق على لسان عمر وقلبه
بےشک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ اللہ عزوجل نے حق کو عمر کی زبان و دل پے رکھا ہے
(ترمذی حدیث3682)
.
الحدیث:
لانظر إلى شياطين الإنس والجن قد فروا من عمر "
ترجمہ:
میں دیکھتا ہوں کہ انسانوں اور جنوں میں سےشیاطین عمر سےبھاگتےہیں(ترمذی حدیث3691)یہودی،کٹر شیعہ،کئ غیرمقلد،ملحد شیاطین آج بھی نام عمر سےچڑتے.و.بھاگتےہیں
.
👈سیدنا علی نے اپنے بیٹوں کے نام صدیق و عمر و عثمان رکھے..(ثبوت شیعوں کی معتمد کتاب:بحار الأنوار 42/74)شیعو رافضیو نام نہاد محبو ہمت کرو سیدنا علی کی سنت ادا کرو...عمر و صدیق و عثمان نام رکھو…مگر تم نام رکھنا تو کجا، نام زبان پےلانا تک گوارا نہیں کرتے، یہی تمھارے مکار منافق جھوٹے محب مردود ہونے کی دلیل کافی ہے
.
*#سیدنا_مولا_علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا فرمان و فتوی*
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:
خير الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم أبو بكر، وخير الناس بعد أبي بكر عمر
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں سے بہتر.و.افضل ابوبکر ہیں اور ابوبکر کے بعد سب لوگوں سے بہتر.و.افضل عمر ہیں...(ابن ماجہ روایت نمبر106)
.
أَلَا أُخْبِرُكَ بِخَيْرِ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ؟ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَيْحَكَ يَا أَبَا جُحَيْفَةَ، لَا يَجْتَمِعُ حُبِّي وَبُغْضُ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فِي قَلْبِ مُؤْمِنٍ»
سیدنا علی نےفرمایا(بعد از انبیاء)افضل ابوبکر.و.عمر ہیں،میری محبت ہو اور ابوبکر.و.عمر سےبغض ہو ایسا مومن کےدل میں نہیں ہوسکتا…رضی اللہ تعالیٰ عنھم(طبرانی اوسط4/182 ملخصا روایت3920)

.
*#صحابہ کرام بالخصوص سیدنا ابوبکر و عمر کی توہین پےاہلبیت کے عظیم چشم و چراخ سیدنا امام ابن سیرین اور سیدنا امام زین العابدین  کا فرمان و فتوی...........؟؟*
سیدنا ابن سیرین کا فرمان و فتوی:
مَا أَظُنُّ رَجُلاً يَنْتَقِصُ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ يُحِبُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ترجمہ:
👈جو حضرت ابوبکر و عمر(رضی اللہ عنھما) کی توہین و تنقیص کرے ، میں(امام ابن سیرین)اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا محب نہیں سمجھتا...(ترمذی روایت3585)اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا محب نہ ہو وہ بھلا سچا مسلمان کیسے ہوسکتا ہے…؟؟
.
کٹر شیعہ رافضی ، نیم رافضی ، مودودی ، سرسیدی نجدی خوارج ، بعض غیرمقلدین ، بعض اہلحدیث سب بےباک ہیں اور صحابہ کرام بالخصوص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما کی توہین کرتے ہیں، نقائص و عیب نکالتے ہیں،ظالم و غاصب کہتے ہیں سب جھوٹے مردود ہیں…جو رسول کریم کا محب نہیں وہ سچا مسلمان ہی نہیں اور محبِ رسول بندہ تب بنتا ہے جب صحابہ کرام سے بھی محبت رکھے...الحدیث:اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي
ترجمہ:
اللہ اللہ میرے صحابہ کے متعلق اللہ کا خوف کرو ، انہیں میرے بعد تنقید و مذمت کا نشانہ نہ بناؤ، جس نے میرے صحابہ سے محبت کی تو یہ مجھ سے محبت ہے اور میں ایسے شخص سے محبت کرتا ہوں(جو صحابہ کا محب ہو)....اور جس نے میرے صحابہ سے بغض کیا تو یہ مجھ سے بغض ہے اور ایسے کو میں ناپسند کرتا ہوں، جس نے میرے صحابہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی
(ترمذی حدیث3862)
.
سیدنا زین العابدین کا فرمان و فتوی:
وقدم عليه نفر من أهل العراق فقالوا في أبى بكر وعمر وعثمان رضي الله عنهم  فلما فرغوا من كلامهم قال لهم ألا تخبروني أنتم المهاجرون الأولون الذين أخرجوا من ديارهم وأموالهم يبتغون فضلا من الله ورضوانا وينصرون الله ورسوله أولئك هم الصادقون قالوا لا قال فأنتم الذين تبوأوا الدار والإيمان من قبلهم يحبون من هاجر إليهم ولا يجدون في صدورهم حاجه مما أوتوا ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة قالوا لا قال أما أنتم قد تبرأتم أن تكونوا من أحد هذين الفريقين وأنا أشهد انكم لستم من الذين قال الله فيهم والذين جاؤوا  من بعدهم يقولون ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذين سبقونا بالإيمان ولا تجعل في قلوبنا غلا للذين آمنوا) خرجوا عنى فعل الله بكم.
خلاصہ:
👈ایک دفعہ ایک محفل میں سیدنا ابوبکر عمر عثمان وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو کچھ لوگ برا کہہ رہے تھے، سیدنا زین العابدین نے سورہ حشر آپت نو اور دس تلاوت فرمائی اور اس سے صحابہ کرام کی شان و عظمت بیان کی اور صحابہ کرام کی برائی کرنے والوں سے کہا:
مجھ سے دور ہو جاؤ، اللہ اس پے (صحابہ کرام کی برائی کرنے ان سے بغض رکھنےپے)تمھاری پکڑ فرمائے سزا دے
👈(شيعه کتاب كشف الغمة الإربلي2/291)

.
.
*#تنخواہ_غربت_کا_حل*
خرچ کرنےمیں میانہ روی آدھی معیشت ہے(شعب الایمان حدیث6148)حضرت سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر کی تنخواہ بھی عام اوسط مہاجر مزدور جتنی تھی.(دیکھیے فیضان فارق اعظم2/78 تاریخ الخلفاء ص63)
👈حکومت موٹی موٹی تنخواہیں مرعات و غیرضروری اخراجات کم کردے اور زکاۃ سسٹم ٹھیک چلائے،زکواۃ ٹیکس امداد مستحقین تک پہنچائے،بہتر ہے کہ فقط امیروں تاجروں فیکٹریوں پےٹیکس لگا کر شفاف وصولی اور شفافا صحیح جگہ پےخرچ کرےتو مہنگائی.و.غربت خود بخود کم ہوتی جائےگی خوشحالی ترقی آتی جائے گی....ان.شاء.اللہ عزوجل
.
*#سادگی*
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ…تقریبا22لاکھ مربع میل،کئ سلطنتوں کا حکمران ، بیت المال کا نگہبان مگر قمیض پے 14 پیوند لگےتھے(دیکھیے الزہد لابی داود ر55)
.
.
*#احتساب…کرپشن کی روک تھام*
الحدیث،ترجمہ:
ایک شخص جو زکاۃ صدقات وغیرہ وصول کرنے پر مامور تھا اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حساب لیا تو اس نے کہا یہ آپ کے صدقات ہیں اور یہ میرے تحائف ہیں،
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے باپ یا ماں کے گھر کیون نہیں بیٹھا پھر دیکھتے کہ تجھے کتنے تحفے ملتے..(بخاری حدیث 6979)سیاست و عوامی خدمات پے تحائف کے ڈرامے بہانے کرپشن و ناحق ہیں…کرپشن میں پکڑی گئ دولت غرباء و بیت المال کو دے جائے گی
.
👈سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ جب کسی کو حاکم مقرر کرتے تو اس کے تمام مال و اثاثوں کی فہرست لکھوا کر محفوظ کر لیتے۔اور انکی تنخواہیں مقرر فرما دیتے- وقتا فوقتا احتساب پر جن افسران کے اثاثے زائد ہوتے اور وہ انکی کوئی صحیح وجہ بیان نہ کرپاتے تو ان زائد اثاثوں کو بیت المال میں جمع کروانے کا حکم فرما دیتے
فكان إذا استعمل عاملاً (موظفاً)  كتب ماله، ثم إذا وجد عنده فضلاً ليس له مصدر صادره، أو شاطره إياه على حسب قوة التهمة، ووضعه في بيت المال(القواعد الفقہیہ للزحیلی1/578)یا اللہ…سچےحکمران عطا فرما…عوام کو صحیح سلیکٹنگ کا شعور عطا فرما
.
.
*#بےمثال عمر……سختی نرمی نئےکام خدمات*
سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب خلافت سنبھالی تو آپ نے سرعام اعلان فرمایا کہ:
واعلموا أن شدتي التي كنتم ترونها ازدادت أضعفا إذ كان الأمر إلي على الظالم والمعتدي، وإن بعد شدتي تلك واضع خدي إلى الأرض لأهل العفاف وأهل الكفاف
ترجمہ:
👈لوگو سنو....!! تم جو میری سختی دیکھتے رہے ہو وہ اب کہ خلافت مجھے ملی ہے تو وہ سختی کئ گنا بڑھ گئ ہے مگر وہ سختی صرف ان پر ہوگی جو ظالم ہو، جو اسلامی حدود کی خلاف ورزی کرے(یعنی چور ڈاکو منافق گستاخ مکار ظالم فسادی وغیرہ پر شدید سختی ہوگی)
اور
اس کے علاوہ جو اہل عفاف ہیں، جو اہل کفاف ہیں(جو پاکیزہ پاکدامن ہوں، امن سلامتی والے ہوں، ڈاکہ ظلم چوری ناانصافی وغیرہ سے خود کو روکتے ہوں)ان کے لیے تو میں اپنی رخسار،چہرہ زمین کی طرف رکھ دونگا( یعنی ان کے ساتھ بہت نرمی ہوگی)
(تاریخ ابن عساکر جلد44 صفحہ265)
.
قال سعيد بن المسيب فوالله لقد وفى بما قال وزاد في موضع الشدة على أهل الريب والظلم والرفق بأهل الحق من كانوا
ترجمہ:
حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہین کہ بے شک حضرت عمر نے جو کہا وہ پورا کر دکھایا بلکہ سختی والی جگہوں میں اور بھی زیادہ سختی کی ان پر جو ظلم و دھوکے والے ہوں چاہے وہ کوئی بھی ہوں(امیر ہوں غریب ہوں کسی قوم قبیلے سے ہوں، جو سختی کے مستحق تھے ان پر سختی فرمائی حضرت عمر نے)اور خوب نرمی کی اس پر جو اہلِ حق ہو، چاہیے وہ کوئی بھی ہو(چاہے امیر ہو یا غریب، چاہے کسی بھی قوم قبیلے سے تعلق رکھتا ہو جو بھی حق پر ہو اس پر خوب نرمی فرمائی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے)
(تاریخ ابن عساکر جلد44 صفحہ265)
.
👈سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلامی معاملات میں بھی بے مثال تھے، دنیاوی معاملات میں بھی بے مثال تھے
سختی میں بھی بے مثال تھے...نرمی میں بھی بے مثال تھے
بہادری میں بھی بے مثال تھے... احتیاط مشاورت و سیاست میں بھی بے مثال تھے.. حق گوئی میں بھی بے مثال تھے ...حق تسلیم کرنے میں بھی بے مثال تھے
الغرض
سیدنا عمر ہر معاملے میں بے مثال تھے... عظیم تھے.. انکی خلافت انکی سیاست، انکے عمل ، انکی تعلیمات اور انکا نافذ کردہ "عظیم اسلامی مذہبی سیاسی فلاحی نظام"
 "نظامِ مصطفی"
ہمارے لیے بلکہ رہتی دنیا کے لیے مشعلِ راہ ہے..👈*#اردو میں سیدنا فاروق اعظم کی سیرت فضیلت خلافت سیاست کارنامے اولیات خدمات وغیرہ پر بہت ہی عمدہ و جامع کتاب "فیضان فاروق اعظم" معلوم ہوتی ہے…اسکا ضرور مطالعہ کیجیے، دوسروں کو اس کتاب کے مطالعہ کی ترغیب دیجیے*
.

سیدنا عمر اپنی کامیاب ترین عظیم خلافت.و.سیاست میں کوئی نئے اصول نہیں لے کر آئے تھے بلکہ اسلام کے بیان کردہ اصولوں کا سختی و پابندی کے ساتھ نفاذ کیا... عدل و انصاف کا سختی و پابندی سے نفاذ کیا.. آیات و احادیث اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھ کر سیاسی اسلامی فلاحی کام سرانجام دیے.. جو کچھ بظاہر نیا کام کیا وہ بھی دراصل قرآن و سنت سے اخذ و اجتہاد کردہ تھا.....!!
.
*#سیدنا عمر کی اتباع رسول،عشق رسول کی ایک جھلک*
روایت:
خرجت مع  شرحبيل بن السمط إلى قرية على راس سبعة عشر او ثمانية عشر ميلا، فصلى ركعتين "، فقلت له: فقال: رايت عمر صلى بذي الحليفة ركعتين، فقلت له: فقال: إنما افعل كما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعل
ترجمہ:
‏‏‏‏ جبیر نے کہا میں شرحبیل بن سمط کے ساتھ ایک گاؤں میں گیا کہ وہ سترہ یا اٹھارہ میل تھا تو انہوں نے دو رکعت پڑھیں۔ میں نے انہیں ٹوکا تو انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو  دیکھا کہ انہوں نے ذوالحلیفہ میں دو رکعت پڑھیں اور میں نے ان کو ٹوکا تو انہوں نے کہا میں ویسا ہی کرتا ہوں جیسا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو کرتے دیکھا ہے
(مسلم روایت1584)
.
*سیدنا عمر اور منافق و گستاخوں کا انجام، ایک جھلک*
حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے زمانہ میں  ایک یہودی او ر ایک منافق میں  کسی بات پر جھگڑا پیدا ہوگیا۔ یہودی چاہتا تھا کہ جس طرح بھی ہو میں  اسے حضرت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں  لے چلوں۔ چنانچہ وہ کوشش کرکے اسے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ عدالت میں  لے آیا اور حضور   صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے واقعات سنکر فیصلہ یہودی کے حق میں  دیا۔ وہ منافق یہودی سے کہنے لگا میں  تو عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس چلوں  گا اور ان کا ہی فیصلہ منظور کروں گا  وہ منافق نہ مانا او ر اس یہودی کو لیکر حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس آیا اور حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے فیصلہ طلب کرنے لگا ، یہودی بولاجناب پہلے یہ بات سن لیجئے کہ ہم اس سے قبل محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے فیصلہ لے آئے ہیں  اور انھوں نے فیصلہ میرے حق میں فرمادیا ہے مگر یہ شخص اس فیصلہ سے مطمئن نہیں  اور اب یہاں  آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کے پاس آپہنچا ہے ۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ بات سنی تو منافق سے پوچھا کیا یہودی جو کچھ بیا ن کر رہا ہے درست ہے؟منافق نے کہا ہاں  سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اس کے حق میں  فیصلہ کرچکے ہیں۔ فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : اچھا ٹھہرو میں  ابھی آیا اور تمھارا فیصلہ کرتا ہوں  یہ کہہ کر آ پ اندر تشریف لے گئے اور پھر ایک تلوار لیکر نکلے اور اس منافق کی گردن پر یہ کہتے ہوئے ماری کہ جوحضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فیصلہ نہ مانے اس کا فیصلہ یہ ہے۔
            حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم تک یہ بات پہنچی تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا واقعی عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کی تلوار کسی مومن پر نہیں  اٹھتی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت بھی نازل فرمادی ۔
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ (پ۵ ، النساء : ۶۵)
ترجمہ: تو اے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں  گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں  تمہیں  حاکم نہ بنائیں۔ 
پھر رسول پاک نے اس منافق کا خون رائیگاں قرار دیا
فَهدر دم ذَلِك الرجل وبرأ عمر من قَتله
دیکھیے👇
 (الدرالمنثور ،2/586)
(تفسير ابن كثير ت سلامة2/351)
(تفسير القرآن من الجامع لابن وهب1/71)
(تفسير ابن أبي حاتم، الأصيل - مخرجا3/994)
.========================
.
*#سیدنا_عمر_کا_لقب_فاروق*
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَزْرَقِيُّ الْمَكِّيُّ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَسَنٍ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم: «إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ، وَهُوَ الْفَارُوقُ
👈نبی پاک صلّى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے حق کو عمر کی زبان و دل پے رکھا ہے یہ فاروق ہیں
(الطبقات الكبرى ط دار صادر3/270)
(كتاب كنز العمال حدیث32717)
(الجامع الصغير وزيادته حدیث3510)
(تاريخ المدينة لابن شبة2/662)
(الصواعق المحرقة1/282)
.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، ثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ صَالِحٍ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللهِ عَنْ بْنِ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ....فَسَمَّانِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ الْفَارُوقَ
👈سیدنا عمر فرماتے ہیں کہ(جس دن میں ایمان لایا اور مسلمانوں کو سرعام نماز پڑھنے کا مشورہ دیا اور عمل کروایا اور تحفظ دیا)اس دن نبی پاک صلّى الله عليه وسلم نے مجھے فاروق کا لقب دیا 
1(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء1/40)
2(مرآة الزمان في تواريخ الأعيان3/114)
3(جامع الاحادیث للسیوطی 30159-)
4(الرياض النضرة في مناقب العشرة2/272)
5(تاريخ الإسلام للذھبی ت تدمري 1/180 میں اس کی تخریج میں لکھا ہے یہ روایت درج ذیل کتب میں بھی ہے
6(مناقب عمر لابن الجوزي 12/ 13 و 19،
7(صفة الصفوة 1/ 272، 373،
8(دلائل النبوّة لأبي نعيم 1/ 79، 80،
9(عيون التواريخ 1/ 75- 77)
.
.
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو  حَزْرَةَ يَعْقُوبُ بْنُ مُجَاهِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو ذَكْوَانَ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: " مَنْ سَمَّى عُمَرَ الْفَارُوقَ؟ قَالَتِ: النَّبِيُّ عَلَيْهِ السَّلَامُ
👈سیدہ عائشہ سے پوچھا کہ سیدنا عمر کو فاروق لقب کس نے دیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے فرمایا کہ نبی پاک صلّى الله عليه وسلم نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لقب فاروق دیا
(تاريخ الطبري 4/195)
(الطبقات الكبرى  ,3/205)
(تاريخ المدينة لابن شبة2/662)
(البداية والنهاية ط هجر10/188)
.
👈انفرادی طور پر مذکورہ روایات و حدیث کو ضعیف مان بھی لیا جائے تو بھی تعدد طرق کی وجہ سے حسن و معتبر کہلائے گی کیونکہ سنی شیعہ نجدی سب کا متفقہ اصول ہے کہ تعدد طرق سے ضعیف روایت حسن و معتبر بن جاتی ہے
وقد يكثر الطرق الضعيفة فيقوى المتن
تعدد طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے اور(حدیث و روایت کا) متن قوی(معتبر مقبول صحیح و حسن)ہوجاتا ہے
(شیعہ کتاب نفحات الازھار13/55)
أن تعدد الطرق، ولو ضعفت، ترقي الحديث إلى الحسن
بےشک تعدد طرق سے ضعیف روایت و حدیث حسن و معتبر بن جاتی ہے(اللؤلؤ المرصوع ص42)
لِأَنَّ كَثْرَةَ الطُّرُقِ تُقَوِّي
کثرت طرق(تعدد طرق)سے روایت و حدیث کو تقویت ملتی ہے(اور ضعف ختم ہوجاتا ہے)
(تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ,1/179)


.
*#سیدنا_علی_فاروق؟؟*
وَهَذَا الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ، وَهَذَا فارُوقُ هَذِهِ الْأُمَّةِ
روایت میں ہے کہ نبی پاک صلّى الله عليه وسلم نے سیدنا علی کے متعلق فرمایا کہ یہ صدیق اکبر ہیں اور اس امت کے فاروق ہیں
(اسد الغابۃ ر3105)

👈اس روایت کے متعلق علماء نے دوٹوک لکھا کہ شیعہ رافضی خبیث جھوٹے منکر راوی کی بیان کردہ من گھڑت روایت ہے، نبی پاک نے سیدنا علی کے متعلق ایسا فرمایا ہو کسی معتبر روایت میں نہیں آیا
.
*فهذا باطل* ولم أر أحدا ذكر داهر هذا حتى ولا بن أبي حاتم بلديه انتهى وإنما لم يذكروه لأن البلاء كله من ابنه عبد الله وقد ذكروه واكتفوا به وقد ذكره العقيلي كما مضى وقال كان يغلو في الرفض ثم ساق الحديث المذكور
خلاصہ
مذکورہ روایت باطل ہے، اسکا ایک راوی عبداللہ رافضیت میں غلو کرتا تھا
(لسان الميزان2/414)
.
رواه الْعُقَيْلِيُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَرْفُوعًا. وقال:  في إسناده داهر بن يحيى الرازي كان ممن يغلو في الرفض، ولا يتابع على حديثه، وابنه عبد الله بن داهر كذاب وهو الراوي عنه...وقد رواه الحاكم [في الكنى] من طريق أخرى، وقال: إسناده غير صحيح...وفي الميزان، في ترجمة إسحاق بن بشر الأسدي أنه كذاب وضاع، وأورد له هذا الحديث
خلاصہ:
مذکورہ روایت من گھڑت ہے کیونکہ اسکا راوی داھر رافضی تھا غلو کرتا تھا اسکی حدیث کی کسی معتبر راوی نے تائید نہیں کی، یہ بہت بڑا جھوٹا کذاب تھا،  روایات و احادیث اپنی طرف سے گھڑ لیتا تھا
( الفوائد المجموعة ص345)
.
وَإِسْحَاقُ بْنُ بِشْرٍ مِمَّنْ لا يُحْتَجُّ بِنَقْلِهِ إِذَا انْفَرَدَ لِضَعْفِهِ وَنَكَارَةِ حديثه
(الاستيعاب في معرفة الأصحاب ر3157)
.
[4295 - عبد الله بن داهر بن يحيى بن داهر الرازي، أبو سليمان المعروف بالاحمرى.]عن أبيه.وعنه أحمد بن أبي خيثمة.قال أحمد ويحيى: ليس بشئ.قال: وما يكتب حديثه إنسان فيه خير. وقال العقيلي: *#رافضي_خبيث* قال ابن عدي: عامة ما يرويه في فضائل علي، وهو متهم في ذلك.
قلت: قد أغنى الله عليا عن أن تقرر / مناقبه بالاكاذيب والاباطيل
خلاصہ
مذکورہ روایت کا راوی عبداللہ بن داھر رافضی خبیث ہے یہ سیدنا علی کے فضائل میں احادیث گھڑتا تھا
(میزان الاعتدال2/416)
.
 *هَذَا حَدِيث مَوْضُوع*
أما الطَّرِيق الأول: فَفِيهِ عباد بن يَعْقُوب.
قَالَ ابْنُ حِبَّانَ: يروي الْمَنَاكِير عَن  الْمَشَاهِير فَاسْتحقَّ التّرْك، وَفِيهِ عَليّ بن هَاشم. قَالَ ابْنُ حِبَّانَ: كَانَ يروي عَن الْمَشَاهِير *الْمَنَاكِير وَكَانَ غاليا فِي التَّشَيُّع*قَالَ الشَّيْخ عباد بن يَعْقُوب: أخرج عَنْهُ البُخَارِيّ فِي صَحِيحه.وَفِيهِ مُحَمَّد بن عبيد الله.
قَالَ يحيى: لَيْسَ بشئ.
وَأما الطَّرِيق الثَّانِي: فَفِيهِ أَبُو الصَّلْت  الْهَرَوِيّ وَكَانَ *كذابا رَافِضِيًّا خبيثا* فقد اجْتمع عباد وَأَبُو الصَّلْت فِي رِوَايَته عَن عَليّ بن هَاشم، فَالله أعلم أَيهمَا سَرقه
من صَاحبه.
وَقد ذكرنَا عَليّ بن هَاشم وَمُحَمّد بن عبيد الله.
وَأما طَرِيق ابْن عَبَّاس فالمتهم بِهِ عبد الله بن داهر فَإِنَّهُ كَانَ *غاليا فِي الرَّفْض* قَالَ يَحْيَى بْنُ معِين: لَيْسَ بشئ، مَا يكْتب عَنْهُ إِنْسَان فِيهِ خبر.
(الموضوعات لابن الجوزي1/345)
.
👈طبرانی کی یہ روایت بھی دلیل نہیں بن سکتی
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ الْوَزِيرُ الْأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى السُّدِّيُّ، ثنا عُمَرُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ أَبِي سُخَيْلَةَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، وَعَنْ سَلْمَانَ قَالَا: أَخَذَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ: «إِنَّ هَذَا أَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِي، وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ يُصافِحُنِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَهَذَا الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ، وَهَذَا فارُوقُ هَذِهِ الْأُمَّةِ، يُفَرَّقُ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ، وَهَذَا يَعْسُوبُ الْمُؤْمِنِينَ، وَالْمَالُ يَعْسُوبُ الظَّالِمِ»
(مجمع الزوائد،المعجم الكبير للطبراني ,6/269)
.
کیونکہ اسکا ایک راوی عمر بن سعید منکر متروک و مردود ہے....دیگر راویوں پے بھی غلو منکر و نکارت شیعیت وغیرہ کی جرح ہے
عمر بن سعيد البصري...قال ابن حبان: كان ممن يخطىء كثيرا حتى استحق الترك.وقال ابن عَدِي: منكر الحديث...قال البخاري: منكر الحديث
امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ عمر بن سعید بہت غلطیاں کرتا تھا اس لیے اس کی بیان کردہ روایات ترک کرنے کی مستحق ہیں...امام بخاری اور امام ابن عدی فرماتے ہیں عمر بن سعيد البصري منکر الحدیث ہے
(لسان الميزان ت أبي غدة93 ،6/108)
اور شیعہ اصول کے مطابق بھی منکر الحدیث مردود و ناقابل حجت ہے
فحديثه منكر مردود
ترجمہ:
(غیر ثقہ ثقہ کی مخالفت کرے تو)اسکی حدیث منکر مردود ہے..(شیعہ کتاب رسائل فی درایۃ الحدیث1/185)
.
*#پھر تو سارے صحابہ کرام فاروق....؟؟*
اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي
اللہ اللہ میرے صحابہ کے متعلق اللہ کا خوف کرو ، انہیں میرے بعد تنقید و مذمت کا نشانہ نہ بناؤ، جس نے میرے صحابہ سے محبت کی تو یہ مجھ سے محبت ہے اور میں ایسے شخص سے محبت کرتا ہوں...اور جس نے میرے صحابہ سے بغض کیا تو یہ مجھ سے بغض ہے اور ایسے کو میں ناپسند کرتا ہوں، جس نے میرے صحابہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی
(ترمذی حدیث3862)
اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام علیھم الرضوان سے بغض کفر و منافقت ہے، گویا ہر صحابی فاروق ہے.....؟؟
.
*#سیدنا_علی_فاروق*
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : لَقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَنَّهُ لَا يُحِبُّكَ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضُكَ إِلَّا مُنَافِقٌ
سیدنا علی فرماتے ہیں مجھ سے رسول کریم نے عہد کیا کہ تجھ سے محبت مومن کریگا اور تجھ سے بغض منافق کریگا
(ترمذی حدیث3736)
سیدنا علی مومن و منافق میں فرق کی وجہ ہیں تو گویا فاروق ہوئے......؟؟
.
*#انصار_فاروق؟؟*
آيَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ
ایمان کی نشانی انصاری صحابہ سے محبت رکھنا ہے اور انصاری صحابہ سے بغض منافقت کی نشانی ہے
(بخاری حدیث17)
منافق و مومن میں تفریق انصار صحابہ...گویا یہ بھی فاروق ہوئے......؟؟
.
*#الحاصل*
👈صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سے بغض منافقت و کفر کی علامت ہے تو اس لحاظ سے ہر صحابی فاروق کہلانے کے لائق ہے مگر سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خصوصی منزلت و فضیلت کی وجہ سے فقط ان دو کو فاروق کہنا قرینِ قیاس لگتا ہے
کیونکہ 
سیدنا عمر اول شخصیت ہیں کہ جن کی بدولت اسلام سرعام ہوا اور انکی بدولت حق و باطل میں فرق ہوا…اور سیدنا علی وہ عظیم ذات ہیں کہ جن کی بدولت دوسری بار حق و باطل یعنی اسلام و خارجیت ناصبیت میں فرق ہوا...لیھذا ان دو عظیم تر شخصیات کو فاروق کہنا حق بنتا ہے....سیدنا عمر کو فاروق اعظم یا فاروق اول اور سیدنا علی کو فاروق اصغر یا فاروق ثانی کہا جائے تو کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے مگر فاروق لقب نبی پاک صلّى الله عليه وسلم کی زبانی سیدنا عمر کو ملا ، سیدنا علی یا کسی اور صحابی کے لیے منقولا صحیحا ثابت نہیں....واللہ تعالیٰ و رسولہﷺاعلم بالصواب
.========================
👈*#سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تاریخِ شہادت 26ذوالحج یا یکم محرم یا.........؟؟*
طُعِنَ عُمَرُ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ  لِأَرْبَعٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ...وَدُفِنَ يَوْمَ الْأَحَدِ هِلَالَ الْمُحْرِمِ..وَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَحْمَسِيُّ: هَذَا  وَهْمٌ، تُوُفِّيَ عُمَرُ لِأَرْبَعِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ...وَقَالَ ابْنُ قُتَيْبَةَ:  ضَرَبَهُ أَبُو لُؤْلُؤَةَ لِأَرْبَعٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، وَمَكَثَ ثَلَاثًا وَتُوُفِّيَ
ترجمہ:
سیدنا عمر کو بدھ کے دن 26ذوالحج کے دن زخمی کیا گیا اور اتوار کے دن(یکم یا دو محرم) کو دفنایا گیا....عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَحْمَسِيُّ فرماتے ہیں کہ یہ وھم ہے 26ذوالحج کو زخمی نہ کیا گیا بلکہ 26 ذوالحج کو وفات پائی....ابن قتیبہ نے فرمایا کہ أَبُو لُؤْلُؤَةَ نے 26ذوالحج کو زخمی کیا تین دن سیدنا عمر زخمی حالت میں رہے پھر(یکم محرم) کو وفات پائی
(تاريخ المدينة لابن شبة3/943ملتقطا)
.
وقال الواقدي:طعن «عمر» يوم الأربعاء لسبع بقين من ذي الحجة، ومكث ثلاثة أيام ثم توفى  لأربع بقين من ذي الحجة
ترجمہ:
واقدی نے کہا ہے کہ سیدنا عمر کو 23ذوالحج کے دن زخمی کیا گیا اور تین دن سیدنا عمر زخمی حالت میں رہے پھر 26 ذوالحج کو وفات پائی
(كتاب المعارف1/183)
.
دفن عمر يوم الأربعاء لأربع بقين من ذي الحجة
ترجمہ:
26ذوالحج  بدھ کے دن سیدنا عمر کو دفنایا گیا
(معجم الصحابة للبغوي4/311)
.
روى أَبُو بَكْر بْن إِسْمَاعِيل بْن مُحَمَّد بْن سعد [عَنْ أَبِيهِ] أَنَّهُ قَالَ: طعن عُمَر يَوْم  الأربعاء لأربع ليال بقين من ذي الحجة، سنة ثلاث وعشرين، ودفن يَوْم الأحد [صباح]هلال المحرم سنة أربع  وعشرين، وكانت خلافته عشر سنين، وخمسة أشهر، وأحدًا وعشرين يومًا وقَالَ عثمان بْن مُحَمَّد الأخنسي : هَذَا وهم،  توفي عُمَر لأربع ليال بقين من ذي الحجة، وبويع عثمان يَوْم الأثنين لليلة بقيت من ذي الحجة.
وقَالَ ابْنُ قُتَيْبَة: ضربه أَبُو لؤلؤة يَوْم الأثنين  لأربع بقين من ذي الحجة، ومكث ثلاثًا، وتوفي
خلاصہ
محمد بن سعد کے مطابق سیدنا عمر کو بدھ کے دن 26ذوالحج کے دن زخمی کیا گیا اور اتوار کے دن(یکم یا دو محرم) کو دفنایا گیا....عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَحْمَسِيُّ فرماتے ہیں کہ یہ وھم ہے 26ذوالحج کو زخمی نہ کیا گیا بلکہ 26 ذوالحج کو وفات پائی....ابن قتیبہ نے فرمایا کہ أَبُو لُؤْلُؤَةَ نے 26ذوالحج کو زخمی کیا تین دن سیدنا عمر زخمی حالت میں رہے پھر(یکم محرم) کو وفات پائی
( أسد الغابة ط الفكر3/676)
(الطبقات الكبرى ط العلمية ,3/278نحوہ)


.
وَطَعَنَهُ صَبِيحَةَ الْأَرْبِعَاءَ لِأَرْبَعٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ.....وَمَاتَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَ ثلاث، ودفن في يَوْمَ الْأَحَدِ مُسْتَهَلَّ الْمُحَرَّمِ....فذكرت ذلك لعثمان الأخنس فَقَالَ:مَا أُرَاكَ إِلَّا وَهِلْتَ. تُوُفِّيَ عُمَرُ لِأَرْبَعِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ وَبُويِعَ لِعُثْمَانَ لِلَيْلَةٍ بَقِيَتْ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ
خلاصہ:
سیدنا عمر کو بدھ کے دن 26ذوالحج کے دن زخمی کیا گیا اور آپ تین دن زخمی رہے اور اتوار کے دن(یکم یا دو محرم) کو دفنایا گیا....عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَحْمَسِيُّ فرماتے ہیں کہ یہ وھم ہے 26ذوالحج کو زخمی نہ کیا گیا بلکہ 26 ذوالحج کو وفات پائی
(البداية والنهاية ط الفكر7/138ملتقطا)
.
: ثُمَّ تُوُفِّيَ لَيْلَةَ الأَرْبِعَاءِ لثلاث ليال  بقين من ذي الحج...قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: وَقَدْ قِيلَ إِنَّ وَفَاتَهُ كَانَتْ فِي غُرَّةِ الْمُحَرَّمِ...  فذكرت ذلك لعثمان الأخنسي، فقال: ما أراك إلا وهلت، توفي عمر رضي اللَّه تعالى عنه لأربع ليال بقين من ذي الحجة، وبويع لعثمان بْن عفان لليلة بقيت من ذي الحجة...قال أبو جعفر: وأما المدائني، فإنه قال فيما  حَدَّثَنِي عمر عنه، عن شريك، عن الأعمش- أو عن جابر الجعفي- عن عوف بْن مالك الأشجعي وعامر بْن أبي مُحَمَّد، عن أشياخ من قومه، وعثمان بْن عبد الرحمن، عن ابني شهاب الزهري، قالوا: طعن عمر  يوم الأربعاء لسبع بقين من ذي الحجة.قال: وقال غيرهم: لست بقين من ذي الحجة.....عن أبي معشر، قال: قتل عمر يوم الأربعاء لأربع  ليال بقين من ذي الحجة...هشام بْن مُحَمَّد، قال: قتل  عمر لثلاث ليال بقين من ذي الحجة
خلاصہ
27ذوالحج کو سیدنا عمر نے وفات پائی...ابوجعفر(امام طبری) کہتا ہوں کہ آپ کی وفات یکم محرم بیان کی گئ ہے،یہ بات عثمان الاخنسی سے کہی تو فرمایا کہ آپ کو وھم ہوا ہے سیدنا عمر کی وفات تو 26ذوالحج میں ہوئی...مدائنی اعمش جابر جعدی عثمان بن عبدالرحمن اور شھاب زہری کے بیٹوں سے مروی ہے کہ 23 ذوالحج کو سیدنا عمر زخمی کیے گئے(پھر تین دن زخمی رہ کر 26کو وفات پائی)لیکن ہشام بن محمد فرماتے ہیں کہ 27ذوالحج کو وفات پائی
(تاريخ الطبري4/193,194)
.
قال خليفة والواقدي لثلاث بقين من ذي الحجة وقال الذهلي كتب إلي أبو نعيم وأبو بكر بن أبي شيبة يوم الأربعاء لأربع بقين منه وقد مكث ثلاثا بعدما طعن ثم مات وقال خليفة عاش بعدما طعن ثلاثة أيام ثم مات قال عمرو بن علي مات يوم السبت غرة المحرم سنة أربع وعشرين وكانت خلافته عشر سنين وستة أشهر وثمانية أيام على ما ذكره خليفة ومات وهو ابن ثلاث وستين سنة ويقال ابن أربع وخمسين سنة ويقال ابن خمس وخمسين ويقال ابن اثنتين وخمسين سنة وقال ابن أسلم عن أبيه مات عمر وهو ابن ستين سنة وقال الواقدي هذا هو أثبت الأقاويل عندنا قال الواقدي في الطبقات طعن عمر في ثلاث ليال بقين من ذي الحجة وتوفي لهلال المحرم سنة أربع وعشرين وقال في التاريخ طعن يوم الأربعاء لأربع بقين من ذي الحجة
 خلیفہ اور واقدی کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو 27ذوالحج کو زخمی کیا گیا(تین چار دن زخمی رہ کر یکم محرم کو وفات پائی) اور ابوبکر بن ابی شیبہ فرماتے ہیں کہ 26 ذوالحج کو زخمی کیا گیا اور تین دن زخمی رہے اور پھر(یکم محرم کو) وفات پائی...عمرو بن علي نے فرمایا کہ یکم محرم کو وفات پائی
(كتاب تاريخ دمشق لابن عساكر44/14)
.
: طُعن عمر بن الخطّاب يوم الأربعاء لأربع ليالٍ بقين من ذى الحجّة سنة ثلاث وعشرين ودُفن يوم الأحد صَباحَ هلالِ المحرّم سنة أربعٍ وعشرين،...قال فذكرتُ ذلك لعثمان بن محمّد الأخْنسى فقال: ما أراك إِلَّا قد وَهِلت، توفّى عمر لأربع ليالٍ بقين من ذى الحجّة
 26 ذوالحج کو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کو زخمی کیا گیا(تین چار دن زخمی رہ کر یکم محرم کو وفات پائی)اور یکم کو دفن کیا گیا عثمان اخنسی سے یہ بات بیان کی گئ تو انہوں نے کہا کہ آپ کو وھم ہوا ہے،سیدنا عمر نے 26 ذوالحج کو وفات پائی
(الطبقات الكبرى - ط الخانجي3/338بحذف)
.
«طُعِنَ عُمَرُ فَتُوُفِّيَ لَيْلَةَ الْأَرْبِعَاءِ لِثَلَاثِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ،
 سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو زخمی کیا گیا اور 27 ذوالحج کو وفات پائی
(كتاب معرفة الصحابة لأبي نعيم1/44)
.
وتوفي لهلال المحرم
 عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات یکم محرم میں ہوئی
(كتاب أنساب الأشراف للبلاذري10/428)
.
الحاصل:
سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تاریخ شہادت میں اختلاف ہے....26ذوالحج اور یکم محرم زیادہ مشھور ہیں تو 26 کو یا یکم محرم کو یا دونوں دن *#یوم_عمر* منایا جائے تو کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے....واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہﷺاعلم بالصواب
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574
 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.