مولا علی کا معنی و پس منظر؟ عید غدیر؟علم غیب نبوی؟کیا سیدنا عثمان نے سیدہ رقیہ کو شہید کیا؟

*عیدِ غدیر...؟ اور حدیثِ غدیر....؟؟*
*سیدنا عثمان اور علم غیب نبوی.....؟؟*
*اختلاف و تفرقہ برداشت حق بیانی....؟؟*
*سیدنا علی مولا کا معنی و پسِ منظر.....؟؟*
*کیاسیدنا عثمان نےسیدہ رقیہ کو شہید کیا؟؟*
.
18ذوالحج کو شیعہ لوگ عید غدیر مناتے ہیں کہتے ہیں کہ اس روز حجۃ الوداع سے واپسی پر "غدیر خم" مقام پے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا " میں جس کا مولا علی اسکا مولی......حضور اکرم کے اس فرمان سے شیعہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رسول کریم نے حضرت علی کو اس قول کےذریعے  اپنا خلیفہ بلافصل بنایا
.
جواب.و.تحقیق:
عجیب بات ہے کہ حجۃ الوداع جو اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ کسی کو نہ بنایا اور واپسی پر تھوڑی تعداد کے سامنے غدیرخم پر خلیفہ کا اعلان کر دیا......؟؟
.
اگر خلافت کا اعلان رسول کریمﷺنےکرنا ہوتا تو اسکا صحیح و بہترین موقعہ حجۃ الوداع تھا........غدیرخم مقام پے تو رسول کریمﷺنے ایک تنازع کا حل فرمایا اور فرمایا کہ علی سے ناگواری مت رکھو، اس سے محبت کرو، جسکو میں محبوب ہوں وہ علی سے محبت رکھے
.
دراصل ہوا یہ تھا کہ مال غنیمت حضرت علی نے تقسیم کی تھی ، تقسیم پر کچھ صحابہ کرام کو ناگوار گذرا انہوں نے غدیرخم مقام پر رسول کریمﷺسے حضرت علی کی شکایت کی....رسول کریمﷺنے پوچھا اے بریدہ کیا تم علی سے(اس تقسیم کی وجہ سے)ناگواری محسوس کرتے ہو...؟ حضرت بریدہ نے فرمایا جی ہاں... رسول کریمﷺ نے فرمایا علی سے ناگواری مت رکھ، جتنا حصہ علی نے لیا ہےحق تو اس سے زیادہ حصہ بنتا ہے....بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بعد میری ناگواری ختم ہوگئ...اس تقسیم وغیرہ کی وجہ سے دیگر صحابہ کرام وغیرہ کو بھی ناگواری گذری ہو تو انکی بھی ناگواری ختم ہو اس لیے رسول کریمﷺنے اعلان فرمایا:
میں جسکا مولا علی اسکا مولا.... یعنی میں جسکو محبوب ہوں وہ علی سے بھی محبت رکھے،ناگواری ختم کردے
(دیکھیے بخاری حدیث4350,,المستدرك حدیث4578
مسند احمد23036...,22967...22945)
مرقاۃ شرح مشکاۃ11/247 البيهقي في الكبرى 6/342...7/309) الصواعق المحرقة 1/109 الاعتقاد للبيهقي ص 498 البداية والنهاية 5/227...البداية والنهاية ط هجر ,11/58)

.
شیعہ کتب سے بھی یہی پس منظر ثابت ہے
وخرج بريدة الأسلمي فبعثه علي عليه السلام في بعض السبي، فشكاه بريدة إلى رسول الله صلى الله عليه وآله فقال رسول الله صلى الله عليه وآله: من كنت مولاه فعلي مولاه
یعنی
بریدہ اسلمی نے رسول کریمﷺسے حضرت علی کی مال غنیمت کی تقسم کی شکایت تو رسول کریمﷺنے فرمایا میں جسکا مولا و محبوب ہوں علی بھی اس کے مولا و محبوب ہیں)لیھذا ناگواری نہ رکھو، ختم کرو)
(شیعہ کتاب بحار الانوار37/190)
.

فأصبنا سبيا قال: فكتب إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: أبعث لنا من يخمسه، قال: فبعث إلينا عليا رضي الله عنه وفي السبي وصيفه هي من أفضل السبي قال: وقسم فخرج ورأسه يقطر، فقلنا: يا أبا الحسن ما هذا؟ قال: ألم تروا إلى الوصيفة التي كانت في السبي فإني قسمت وخمست فصارت في الخمس، ثم صارت في أهل بيت النبي صلى الله عليه وآله، ثم صارت في آل علي ووقعت بها، قال: فكتب الرجل إلى نبي الله صلى الله عليه وآله، فقلت: ابعثني مصدقا، قال: فجعلت أقرأ الكتاب وأقول صدق، قال: فأمسك يدي والكتاب، قال: أتبغض عليا؟ قال: قلت: نعم قال: فلا تبغضه وان كنت تحبه فازدد له حبا، فوالذي نفس محمد بيده لنصيب علي في الخمس أفضل من وصيفة، قال: فما كان من الناس أحد بعد قول رسول الله صلى الله عليه وآله أحب إلي من علي
یعنی
بریدہ اسلمی کہتےہیں ہمیں مال غنیمت حاصل ہوا...رسول کریمﷺکی طرف خط لکھا کہ تقسیم کے لیے کسی کو بھیجیں،رسول کریمﷺنے علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا حضرت علی نے تقسیم کیا اور اپنا حصہ بھی نکالا، ابو بریدہ تقسیم کی شکایت لے کر (غدیر خم مقام پے) رسول کریمﷺ
کو پہنچے اور شکایت و ناگواری کا اظہار کیا رسول کریمﷺنے فرمایا علی نے جتنا لیا اس سے بڑھ کرحصہ ہے اگر علی سے ناگواری ہے تو ختم کردو اگر محبت ہےتو زیادہ محبت کرو
(شیعہ کتاب کشف الغمہ لاربیلی1/293)
.
.
یہ تھا اصل پس منظر کہ تنازع پے ناگواری و جگھڑا ختم کرایا گیا باقی نہ تو کوئی بیعت لی گئ اور نہ بیعت و خلافت کا اعلان کیا گیا....یہ تھا پس منظر جسکو جھوٹے مکار شیعوں نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا....لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العلیم و لعنۃ اللہ علی الماکرین الکاذبین
.
عید غدیر چونکہ شیعہ لوگ غلط نظریہ خلیفہ بلافصل کے تناظر میں مناتے ہیں اس لیے یہ کوئی عید نہیں، اسکی کوئی اصل نہیں بلکہ یہ جرم و گناہ ہے...کیونکہ سیدنا علی خلیفہ بلافصل نہیں بلکہ چوتھے خلیفہ ہیں
دما دم مست قلندر......سیدنا علی دا چوتھا نمبر
پہلا نمبر یعنی پہلا خلیفہ سیدنا ابوبکر پھر عمر پھر عثمان پھر علی....رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین
.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
إنه بايعني القوم الذين بايعوا أبا بكر وعمر وعثمان على ما بايعوهم عليه، فلم يكن للشاهد أن يختار ولا للغائب أن يرد، وإنما الشورى للمهاجرين والأنصار، فإن اجتمعوا على رجل وسموه إماما كان ذلك لله رضى
میری(سیدنا علی کی)بیعت ان صحابہ کرام نے کی ہےجنہوں نےابوبکر و عمر کی کی تھی،یہ مہاجرین و انصار صحابہ کرام کسی کی بیعت کرلیں تو اللہ بھی راضی ہے(اور وہ خلیفہ برحق کہلائے گا) تو ایسی بیعت ہو جائے تو دوسرا خلیفہ انتخاب کرنے یا تسلیم نہ کرنے کا حق نہیں(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ ص491)یہ سیدنا علی کا فرمان ان شیعوں کے منہ پےزناٹےدار تھپڑ ہیں جو سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر سیدنا عثمان  وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے متعلق دو ٹوک یا ڈھکے چھپے الفاظ میں گستاخی و بکواس کرتےہیں…مزید اس قول مبارک سے یہ بھی ثابت ہوا کہ
سیدنا علی کے مطابق سیدنا ابوبکر و عمر مہاجرین انصار صحابہ کرام برحق سچےاچھےتھے ،انکی خلافت برحق تھی تبھی تو سیدنا علی نے انکی بیعت کو دلیل بنایا.....!! اس قول سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا علی کے مطابق رسول کریمﷺنے دوٹوک کسی کو خلیفہ نہ بنایا اگر بنایا ہوتا تو مہاجرین و انصار صحابہ کرام کی رائے و انتخات کو وقعت نہ دیتے بلکہ وہ نص بیان فرماتے کہ میں تو فلاں آیت یا حدیث کی وجہ سے خلیفہ بلافصل ہوں....اس قول مبارک سے یہ بھی ثابت ہوا کہ  سیدنا علی کے مطابق خلافت میں پہلا نمبر ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اور دوسرا نمبر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا...یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا ابوبکر سیدنا عمر وغیرہ صحابہ کرام کافر مشرک مرتد منافق ظالم غاصب بدعتی نہ تھے، بلکہ نیک و عبادت گذار سچے تھے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ انکی تعریف و مدح کرتے تھے…
.
حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں:
بلغني أن أناسا يفضلوني على أبي بكر وعمر، لا يفضلني أحد على أبي بكر وعمر إلا جلدته حد المفتري
ترجمہ:
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے خبر ملی ہے کہ کچھ لوگ ابوبکر اور عمر پر مجھے فضیلت دیتے ہیں، مجھے ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین پر کوئی فضیلت نہ دے ورنہ اسے وہ سزا دونگا جو ایک مفتری(جھوٹ.و.بہتان والے)کی سزا ہوتی ہے(یعنی 80کوڑے مارونگا)
(فضائل الصحابہ روایت نمبر387)
.
یوم غدیر کے متعلق بہت کچھ شیعہ کتب میں ہے اسکا اکثر جھوٹ ہے، شیعوں نے اپنی طرف سے لکھا اور نام اہلبیت یا رسول کریم کا ڈال دیا ہے....امام جعفر صادق نے فرمایا:
الناس ﺃﻭﻟﻌﻮﺍ ﺑﺎﻟﻜﺬﺏ ﻋﻠﻴﻨﺎ،.....ﻭﻻ ﺗﻘﺒﻠﻮﺍ ﻋﻠﻴﻨﺎ ﻣﺎ ﺧﺎﻟﻒ ﻗﻮﻝ ﺭﺑﻨﺎ ﻭﺳﻨﺔ ﻧﺒﻴﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ
ترجمہ:
امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ و رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ لوگ جو(بظاہر)ہم اہلبیت کے محب کہلاتے ہیں انہوں نے اپنی طرف سے باتیں، حدیثیں گھڑ لی ہیں اور ہم اہلبیت کی طرف منسوب کر دی ہیں جوکہ جھوٹ ہیں،
تو
ہم اہل بیت کی طرف نسبت کرکے جو کچھ کہا جائے تو اسے دیکھو کہ اگر وہ قرآن اور ہمارے نبی حضرت محمد کی سنت کے خلاف ہو تو اسے ہرگز قبول نہ کرو
(شیعہ کتاب رجال کشی ﺹ135, 195، بحار الانوار 2/246,....2/250)
.
وہ جو کہتے ہیں کہ اسلام کے نام پر بننے والے فرقوں میں سے سب سے زیادہ جھوٹے شیعہ ہیں......بالکل سچ کہتے ہیں، جس کی تائید امام جعفر صادق فداہ روحی کے قول سے بھی ہوتی ہے
.
سیدنا امام جعفر صادق علیہ الرحمۃ کے فرمان مبارک سے واضح ہوتا ہے کہ اہلبیت بالخصوص حضرت علی، بی بی فاطمہ، امام جعفر صادق، حسن حسین رضی اللہ عنھم اجمعین وغیرہ کی باتیں اگر قرآن و سنت کے متصادم ہوں تو سمجھ لو کہ یہ انکا قول ہی نہیں بلکہ کسی نے اپنی طرف سے جھوٹ بول کر انکی طرف منسوب کر دیا ہے
لیھذا
کسی بھی عالم مفتی صوفی پیر فقیر فرقہ کسی کی بھی بات قرآن و سنت کے خلاف ہو تو ہرگز معتبر نہیں......!!
.
امام جعفر صادق فداہ روحی کی بات سے ثابت ہوتا ہے فقہ جعفریہ ، فقہ شیعہ ، عقائد شیعہ،  مذہب شیعہ جھوٹ و مکاری کا پلندہ ہے....شیعوں کی کتابیں قران و سنت کے خلاف سے بھری پڑی ہیں.....ہاں شیعوں کی وہ بات جو قرآن و سنت کے مخالف نہ ہو وہ قابل قبول و دلیل بن سکتی ہے..
.
*سیدنا عثمان کے متعلق شیعوں کی مکاری جھوٹ بہتان منافقت و بغض*
شیعہ لکھتے ہیں کہ
وعثمان قتل رقية
عثمان نے رقیہ(نبی پاکﷺ کی صاحبزادی) کو قتل کیا
(شیعہ کتاب أزواج النبي وبناته - الشيخ نجاح الطائي ص63)
.
، إن رقية لما قتلها عثمان....وفعل جميع ذلك، وقتل رقية بنت رسول الله صلى الله عليه وآله وزنا بجاريته
عثمان نے رقیہ(نبی پاکﷺکی صاحبزادی) کو قتل کیا...اور لعنتِ نبوی کے مذکورہ تمام کام کیے اور لونڈی سے زنا کیا
(شیعہ کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي -22/163...31/174)
.
حتى فعل جميع ما لعن عليه النبي...وأخذ خشب القتب وضرب بنت رسول الله (ص) رقية ....فلما إن رأى ما بظهرها قال: ما قتلك قتله الله: وكان ذلك يوم الأحد وبات عثمان ملتحفا بجاريته فمكثت رقية الاثنين والثلاثاء وماتت في اليوم
الرابع
 عثمان نے مذکورہ تمام کام کیے جس پر نبی پاکﷺنے لعنت کی تھی اور عثمان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی رقیہ کو مار مار کر شدید زخمی کر دیا، جب نبی پاک نے یہ زخم دیکھے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ قتل کرے اسے جس نے تمہیں قتل کیا ہے پھر زخمی سیدہ رقیہ دو چار دن بعد وفات پا گئیں
(شیعہ کتاب شجرة طوبى - الشيخ محمد مهدي الحائري 2/243)
.
پہلی بات تو یہ کہ شیعہ کی مکاری تضاد بیانی پکڑی گئ کہ ایک طرف کہتے ہیں سیدہ رقیہ و سیدہ ام کلثوم وغیرہ بنت رسول ہی نہیں جبکہ مذکورہ حوالوں میں دو ٹوک لکھا ہے کہ دونوں صاحبزادیاں بھی بنت رسول ہیں، صلی اللہ علیہ وسلم
.
دوسرہ بات یہ کہ مذکورہ تمام باتیں شیعوں کی جھوٹ بہتان مکاری منافقت اور صحابہ کرام سے بغض کی نشانی ہیں...کیونکہ حقیقت میں ایسا ہوتا تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اپنی بیٹی سے پوچھتے کہ کس نے بے دردی سے آپ کو شدید زخمی کیا......؟؟
.
 شیعہ سے سوال ہوا کہ اگر سیدنا عثمان لعنتی منافق ظالم تھے تو نبی پاکﷺ نے اپنی دوسری بیٹی انکے نکاح میں کیوں دی......؟؟
شیعوں نے جواب لکھا:إنه زوجه على الظاهر، وكان باطنه مستورا عنه
شیعوں نے جواب لکھا کہ عثمان کی منافقت ظلم زیادتی وغیرہ نبی پاک پر مخفی تھی
(شیعہ کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي 22/165)
ہمارا جواب:
①تم شیعوں کو منافقت ظلم زنا کا علم ہوگیا مگر نبی پاکﷺ کو ساری زندگی سیدنا عثمان کی منافقت کا علم نہ ہوا نعوذ باللہ؟
②تم نے خود لکھا کہ نبی پاکﷺنے سیدہ رقیہ کے جسم پر شدید زخم دیکھے تھے جو عثمان نے دییے تھے تو کیا نبی پاک اپنی بیٹی سے نہ پوچھا ہو گا کہ کس نے مارا تاکہ ظالم منافق کو اسلام سے دور کیا جاءے ، ظلم منافقت پے سزا دی جائے....؟؟
.
بعض شیعہ نے یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ پہلے ام کلثوم کا نکاح عثمان سے ہوا پھر رقیہ سے ہوا اور رقیہ کو عثمان نے مارا
ہمارا جواب:
①ہم پھر وہی کہیں گے کہ تم شیعوں کو منافقت ظلم زنا کا علم ہوگیا مگر نبی پاکﷺکو ساری زندگی سیدنا عثمان کی منافقت کا علم نہ ہوا نعوذ باللہ؟
②جھوٹ و تضاد بیانی مکاری مت کرو جھوٹ مت بولو دیکھو تمھاری کتب میں بھی لکھا ہے کہ رقیہ کا نکاح سیدنا عثمان سے پہلے ہوا پھر ام کلثوم سے نکاح ہوا...یہ لیجیے حوالے
ورقية كانت زوجة عتبة بن أبي لهب فطلقها قبل الدخول بأمر أبيه وتزوجها عثمان في الجاهلية فولدت له ابنا سماه عبد الله، وبه كان يكنى وهاجرت مع عثمان إلى الحبشة ثم هاجرت معه إلى المدينة وتوفيت سنة اثنتين من الهجرة والنبي (صلى الله عليه وآله) في غزوة بدر وتوفي ابنها سنة أربع وله ست سنين ويقال: نقره ديك على عينيه فمات، وأم كلثوم تزوجها عتيبة بن أبي لهب وفارقها قبل الدخول، *وتزوجها عثمان بعد رقية* سنة ثلاث، وتوفيت في شعبان سنة سبع
رقیہ کے بعد ام کلثوم سے نکاح کیا عثمان نے
(شیعہ کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي 22/167)
.

فلما ماتت رقية خطب عثمان حفصة بنت عمر، فأبى عمر أن يزوجه، فبلغ ذلك النبي (ص)، فتزوج هو حفصة، وزوج عثمان أم كلثوم
 جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی رقیہ کا انتقال ہوا تو عثمان نے حفصہ بنت عمر سے نکاح کرنا چاہا حضرت عمر نے انکار کیا اور یہ معاملہ نبی پاک تک پہنچا تو نبی پاک نے حفصہ بنت عمر سے خود نکاح کرلیا اور عثمان سے اپنی دوسری صاحبزادی ام کلثوم کا نکاح کر دیا
(الصحيح من سيرة النبي الأعظم (ص) - السيد جعفر مرتضى 5/236)
.
وزوجه مكان رقية " لاتفاق السير على تزوج عثمان برقية أولا وأم كلثوم أخيرا.
 تمام سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پہلے رقیہ کا نکاح عثمان سے ہوا پھر ام کلثوم کا بعد میں عثمان سے ہوا
(شیعہ کتاب قاموس الرجال - الشيخ محمد تقي التستري12/218)
.
جب یہ ثابت و متفق علیہ ہے کہ پہلے سیدہ رقیہ کا نکاح ہوا پھر سیدہ ام کلثوم کا نکاح ہوا تو اگر شیعہ کی بات سچ ہوتی کہ نعوذ باللہ سیدہ رقیہ کو سیدنا عثمان نے تشدد کرکے ہلاک کیا تو پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری لخت جگر کا نکاح سیدنا عثمان سے کیوں کیا.....؟؟ یہ وہ سوال ہے جو علماء نے کیا تو شیعہ لاجواب ہوگئے انکا بہتان جھوٹ مکاری منافقت بغض سب کچھ پکڑا گیا
فقلتُ له: قَتَلَ الواحدةَ، لِمَ زَوَّجه الأُخْرى
اگر نعوذ باللہ سیدنا عثمان نے سیدہ رقیہ کو قتل کیا تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بیٹی کا نکاح سیدنا عثمان سے کیوں کر دیا...؟؟
(سؤالات السلمي للدارقطني ص237)
(كتاب تاريخ الإسلام - ت تدمري8/572)
(تهذيب الكمال في أسماء الرجال32/507)
(تحفة الأشراف بمعرفة الأطراف...13/247)
.
الحدیث:
إِنَّ مِنْ أَرْبَى الرِّبَا الِاسْتِطَالَةَ فِي عِرْضِ الْمُسْلِمِ بِغَيْرِ حَقٍّ
ترجمہ:
مسلمان کےمتعلق ناحق زبان درازی سود سےبڑھ کےگناہ ہے(ابوداؤد4876شیعہ کتاب میزان الحکمۃ2/1033)
جب عام مسلمان کے متعلق زبان درازی اتنا بڑا مذموم جرم
تو
 سوچیےانبیاء علیھم السلام صحابہ کرام اہلبیت عظام اولیاء کرام اور برحق علماء و مشائخ کےگستاخ کتنےگھٹیا منافق مردود حاسد فسادی باطل ہوئے…؟؟
.
*#سیدنا عثمان اور علم غیب نبوی…اختلاف و برداشت و حق بیانی*
وَذَكَرَ الفِتَنَ فَقَرَّبَهَا، فَمَرَّ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ فِي ثَوْبٍ فَقَالَ: «هَذَا يَوْمَئِذٍ عَلَى الهُدَى»، فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ
نبی پاکﷺنے ذکر فرمایا کہ انقریب ایک فتنہ ہوگا اتنے میں ایک شخص گذرا جس نے چہرہ کپڑے سے چھپایا ہوا تھا نبی پاکﷺنے فرمایا یہ شخص اس دن ہدایت و حق پر ہوگا راوی کہتے ہیں کہ(نبی پاکﷺ کا یہ فرمان سنتے ہی)میں اس شخص کی طرف گیا(اور چہرے سے پردہ ہٹا کر دیکھا)تو وہ سیدنا عثمان بن عفان تھے رضی اللہ تعالیٰ عنھم
(سنن الترمذي حدیث3704)
.
صَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُحُدًا وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، فَرَجَفَ، وَقَالَ: «اسْكُنْ أُحُدُ - أَظُنُّهُ ضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ -، فَلَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، وَصِدِّيقٌ، وَشَهِيدَانِ»
نبی پاکﷺاحد پہاڑ پے تشریف فرما ہوئے اور آپ کے ساتھ سیدنا ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنھم تھے تو احد پہاڑ جنبش کرنے لگا نبی پاکﷺ نے فرمایا اے احد ساکن ہو جا راوی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں نبی پاکﷺنے اپنا پاؤں مبارک احد پہاڑ پے مار کر فرمایا تھا کہ ساکن ہوجا.....بےشک تجھ پر نبیﷺاور صدیق اور دو شہید(سیدنا عمر و عثمان) ہیں
(صحيح البخاري ,5/15حدیث3699)
.
ذَكَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِتْنَةً، فَمَرَّ رَجُلٌ فَقَالَ: " يُقْتَلُ فِيهَا هَذَا الْمُقَنَّعُ يَوْمَئِذٍ مَظْلُومًا "، قَالَ: فَنَظَرْتُ، فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ
نبی پاکﷺنے ذکر فرمایا کہ انقریب ایک فتنہ ہوگا اتنے میں ایک شخص گذرا جس نے چہرہ کپڑے سے چھپایا ہوا تھا نبی پاکﷺنے فرمایا یہ شخص اس دن ظلما شہید کیا جائے گا راوی کہتے ہیں کہ(نبی پاکﷺکا یہ فرمان سنتے ہی)میں نے اس شخص کی طرف(اس کےچہرے سے پردہ ہٹا کر)دیکھا تو وہ سیدنا عثمان بن عفان تھے رضی اللہ تعالیٰ عنھم
(مسند أحمد ط الرسالة ,10/169حدیث5953)
.
چھپے ہوئے چہرے کو پہچان کر وقت سے بہت پہلے غیب کی خبر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دی جو ہوباہو سچ ثابت ہوئی پھر بھی کچھ لوگ و فرقے کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ نبیﷺکو دیوار کےپیچھےکا بھی علم نہیں… اللہ انہیں ہدایت دے
اور
سچے اہلسنت علماء کا دامن تھامنے تھامے رہنے کی توفیق عطاء فرمائے ، چھوٹے موٹے فروعی ظنی یا اجتہادی اختلافات پے صبر و برداشت کی توفیق عطاء فرمائے...نبی پاک کی حیات مبارکہ میں صحابہ کرام کے درمیان اجتہادی اختلاف ہوا، فریقین نے اپنے اپنے اجتہاد پے عمل کیا لیکن ایک دوسرے کو برا نہ کہا بلکہ برداشت کیا، نبی پاک نے فریقین میں سے کسی کو برا و ناحق قرار نہ دیا(دیکھیے بخاری حدیث946 و طبرانی و ابن حبان1462 وغیرہ)مکارانہ منافقانہ اختلاف پے برداشت کی بات مت کیجیے،کفر و گمراہی کے اختلاف پے برداشت کی بات مت کیجیے،ایسا برداشت صبر نہیں جرم ہے یا منافقت ہے یا بزدلی ہے یا بہت بڑی جہالت و گمراہی ہے، نعوذ باللہ بات کفر تک پہنچ سکتی ہے...ایسوں کے عیوب کرتوت مکاریاں کفر و گمراہیاں بیان کرنا اسلام کا حکم و حق بیانی ہےتفرقہ غیبت حسد وغیرہ نہیں
القرآن..ترجمہ:
حق سے باطل کو نا ملاؤ اور جان بوجھ کر حق نہ چھپاؤ
(سورہ بقرہ آیت42)
.
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أترعون عن ذكر الفاجر؟، اذكروه بما فيه يعرفه الناس
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کیا تم(زندہ یا مردہ) فاجر(فاسق معلن ، منافق , خائن، دھوکے باز مکار کرپٹ گمراہ بدمزہب) کو واضح کرنے(مذمت کرنے) سے ہچکچاتے ہو...؟(جیسا وہ ہے ویسا کہنے سے گھبراتے ہو...؟؟)
اسے ان چیزوں(ان کرتوتوں، عیبوں اعلانیہ گناہوں ، خیانتوں، منافقتوں دھوکے بازیوں) کے ساتھ واضح کرو جو اس میں ہوں تاکہ لوگ اسے پہچان لیں(اور اسکی گمراہی خیانت منافقت بدعملی دھوکے بازی مکاری سے بچ سکیں)
(طبرانی کبیر حدیث1010)
یہ حدیث پاک  کتبِ حدیث و تفاسیر اور فقہ و تصوف کی کئی کتب میں موجود ہے... مثلا جامع صغیر، شعب الایمان، احیاء العلوم، جامع الاحادیث، کنزالعمال، کشف الخفاء ردالمحتار ، عنایہ شرح ہدایہ، فتاوی رضویہ، تفسیر ثعالبی، تفسیر درمنثور وغیرہ کتب میں موجود ہے
.

لیھذا ایسے فرقوں لکھاریوں وغیرہ کے عیوب مکاریاں منافقتیں خیانتیں دھوکے بازیاں بیان کرنا برحق ہے لازم ہے اسلام کا حکم ہے....یہ عیب جوئی نہیں غیبت نہیں،ایسوں کی پردہ پوشی کرنا جرم ہے... یہ فرقہ واریت نہیں،تفرقہ تو مکار منافق گمراہ پیدا کر رہے پھیلا رہے ہیں....اہل حق حق بتا رہے پھیلا رہے ہیں یہ حسد نہیں بغض نہیں بلکہ حق کی پرواہ ہے اسلام کے حکم کی پیروی ہے... ہاں حدیث پاک میں یہ بھی واضح ہے کہ وہ عیوب، وہ خیانتیں، وہ دھوکے بازیاں وہ کرتوت بیان کیے جائیں جو اس میں ہوں...جھوٹی مذمت الزام تراشیاں ٹھیک نہیں......!!
.
*#تاریخ_شہادت*
وكان قتل عثمان في أوسط أيام التشريق من سنة خمس وثلاثين، وقيل: قتل يوم الجمعة لثماني عشرة خلت من ذي الحجة
سیدنا عثمان کی شہادت 35ہجری ایام تشریق کے وسط میں ہوئی اور ایک قول یہ ہے کہ جمعہ کے دن 18ذوالحج میں ہوئی
(تاريخ الخلفاء ,page 127)
.
فَقَالَ الجمهور مِنْهُمْ: قتل لثماني عشرة ليلة مضت من ذي الحجة سنة خمس وثلاثين
جمھور و اکثر علماء کے مطابق سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت 18ذوالحج 35ہجری میں ہوئی
(تاريخ الطبري = تاريخ الرسل والملوك، وصلة تاريخ الطبري ,4/415)
ایصالِ ثواب کیجیے،مختلف طریقوں سے محبت کا اظہار کیجیے..........!!
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whatsApp bip nmbr
03468392475
00923468392475
other nmbr
03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.