میلاد کے دلائل..بارہ کو وفات یا ولادت؟...میلاد دور نبوی دور صحابہ میں تھا؟ بدعت کیا ہے؟ حاضر ناظر؟

*...میلاد کے بارے میں اہم سوالات جوابات...*

سوالات:

①میلاد کیا ہے، کس حدیث میں ہے کہ میلاد مناو یا کس حدیث میں ہے کہ میلاد نا مناو.....؟؟

سب سے پہلے کس نے منایا.؟

②فرض ہے یا واجب..کوئی نہ مناے، جلوس میں نہ آے تو..؟؟

③اسلام کے مرکز مکہ مدینہ میں میلاد نہیں منایا جاتا تو تم لوگ کیوں مناتے ہو......؟؟

④بارہ ربیع الاول کے دن تو نبی پاک کی وفات ہوئی، وفات پر خوشی تو شیطان کرتا ہے.....؟؟

نبی پاک کی ولادت اور وفات کی تاریخ کیا ہے....؟؟

⑤میلاد دور نبوی میں نہیں تھا، خلفاء راشدین صحابہ کرام تابعین کے دور میں نہیں تھا تو یہ بدعت ہوا.........؟؟

بدعت کیوں نہیں، بدعت کیا ہے......؟؟

⑥آپ نے کہا میلاد کی اصل ثابت ہے تو قرآن و سنت سے وہ اصل وہ دلائل پیش کریں

⑦میلاد پے ہزاروں لاکھوں عاشقانِ رسول اور مسجدیں ویران

یہ عاشقِ رسول ہیں یا بدعتی ٹھگ جعلی عاشق......؟؟

⑧میلاد کے جلسے جلوس جھندے ناچنا کہاں سے ثابت ہے....؟؟

⑨تم سمجھتے ہو کہ نبی پاک حاضر ناظر ہیں اور تمھاری محفل جلسے جلوس میں آئے ہیں اس لیے آمد مصطفی مرحبا کے نعرے لگاتے ہو،اسکی کیا دلیل ہے.....؟؟

10=میلاد کی مبارکباد، ماہ ربیع الاول کی مبارکباد کی دلیل کیا ہے.....؟؟

.

.

جواب①:

*میلاد کیا ہے،سب سے پہلے کس نے منایا*

میلاد کوئی مقرر و متعین کردہ مخصوص عبادت.و.عمل نہیں..قرآن و حدیث میں صاف صاف دو ٹوک الفاظ میں میلاد منانے یا نا منانے کا حکم نہیں بلکہ قرآن و حدیث اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین و عمل اور صحابہ کرام و اہل بیت و اسلاف کے اقوال و عمل میں غور کیا تو واضح ہوا کہ:

"نبی پاک صلی اللہ علیہ و علی آلہ و اصحابہ وسلم کی ولادت کی مناسبت سے اچھے،جائز طریقوں سے شکر ادا کرنا، درود ذکر و اذکار کرنا، روزے رکھنا، عبادات کرنا، ذکرِ نبی کرنا، صحیح طریقے سے خوشی کا اظھار کرنا میلاد کہلاتا ہے

حسن المقصد کی عربی عبارت:

عمل المولد النبوي في شهر ربيع الأول...ما حكمه من حيث الشرع؟هل هو محمود أو مذموم ؟وهل يثاب فاعله ، أم لا ؟

والجواب [ عندي ]: أن أصل عمل المولد الذي هو اجتماع الناس ، وقراءة ما تيسر من القرآن، ورواية الأخبار الواردة في مبدأ [ أمر ] النبي ﷺ ، وما وقع في مولده من الآيات ، ثم يمد لهم ساطاً يأكلونه ، وينصرفون من غير زيادة على ذلك من البدع [ الحسنة ] التي يثاب عليها صاحبها ؛ لما فيه من تعظيم قدر

، وإظهار الفرح والاستبشار بمولده [ ﷺ ]الشريف.... اول كلامه صريح في أنه ينبغي أن يخص هذا الشهر بزيادة فعل البر،

وكثرة الخيرات والصدقات ، إلى غير ذلك من وجـوه القـربـات ،

وهذا ] هو عمل المولد الذي استحسناه،  .

(ماخذ:حول الاحتفال صفحہ13تا35 المکتبۃ العصریہ بیروت

.... حسن المقصد ص41...61دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)

.

جلسے جلوس جھنڈے عمدہ لباس...عبادت ذکر اذکار درود کی کثرت....روزہ نوافل عبادت ذکر حمد نعت تحریر تقریر صدقہ خیرات وغیرہ اگر "نبی پاک کی ولادت کی مناسبت سے ہوں صحیح طریقے سے ہوں تو یہ سب میلاد میں شامل ہیں

(ماخذ حول الاحتفال ص13تا35 المکتبۃ العصریہ بیروت)

.

سب سے پہلے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے میلاد منایا

إن أول المحتفلين بالمولد هو صاحب المولد وهو النبي ﷺ

(حول الاحتفال صفحہ16 المکتبۃ العصریہ بیروت)

.

.

سوال②

*میلاد فرض ہے یا واجب...؟ کوئی نا منائے تو...؟*

جواب:

میلاد کی اصل سنت ہے، مروجہ طریقے سے میلاد مستحب ہے جائز و ثواب ہے فرض واجب نہیں،کسی ایک طریقے یا مختلف طریقوں سے میلاد منا سکتے ہیں تو اگر کوئی ایک طریقے سے میلاد منائے اور جلوس وغیرہ باقی طریقوں میں شرکت نا کرے مگر توہین اور بے ادبی بھی نا کرے تو اسے گستاخ یا گناہ گار یا محبت نا کرنے والا نہیں کہہ سکتے

أننا لم نقل أبدأ إن الاحتفال بالمولد هو الدليل الوحيد على محبته ، وأن من لم يحتفل فليس بمحب، بل إننا نقول : إن الاحتفال بالمولد مظهر من مظاهر محبته، وهو دليل من دلائل التعلق به واتباعه، ولا يلزم أن من لم يحتفل لا يكون محباً ولا متبعاً .

(ماخذ حول الاحتفال ص63 المکتبۃ العصریہ بیروت)

علامہ شامی نے فرمایا:

ان راتوں میں کثرت سے درود و سلام پڑھا جاے تو بھی کافی ہے(جواہر البحار 3/340 باحوالہ شرح مسلم علامہ سعیدی3/184فرید بک اسٹال)

.

.

سوال③:

*اسلام کے مرکز مکہ مدینہ میں میلاد نہیں منایا جاتا تو تم لوگ کیوں مناتے ہو......؟؟*

جواب:

موجودہ قسم کی حکومت سے پہلے حرمین شریفین میں میلاد منایا جاتا تھا...حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی جو تھانوی گنگوہی وغیرہ علماء دیوبند کے مرشد ہیں فرماتے ہیں:

تمامی حرمین کے لوگ میلاد مناتے ہیں ہمارے لیئے یہی حجت کافی ہے.(شمائم امدادیہ صفحہ 87 در قومے پریس لکھنؤ)

غیر مقلدوں وہابیوں کے معتبر محدث کبیر علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں ’’یہ اچھا عمل (یعنی میلاد) ہمیشہ سے حرمین شریفین یعنی مکہ و مدینہ، مصر، یمن و شام تمام بلاد عرب اور مشرق و مغرب کے رہنے والے مسلمانوں میں جاری ہے اور وہ میلاد النبیﷺ کی محفلیں قائم کرتے اور لوگ جمع ہوتے ہیں(بیان المیلاد النبوی ص..58نقلا عن بعض الکتب مثلا الدر المنظم)

حضرت شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ اور ان کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ کا معمول تھا کہ 12 ربیع الاول کو ان کے ہاں لوگ جمع ہوتے، آپ ذکر ولادت فرماتے پھر کھانا اور مٹھائی تقسیم کرتے (دیکھیے الدر المنظم ص 103 مکتبہ حضرت میاں صاحب شرقپور شریف شیخوپورہ)

.

نوٹ:

ﺑﮯ ﺷﮏ ﻣﮑﮧ ﻣﺪﻳﻨﮧ ﻣﺮﮐﺰ ﮨﻴﮟ ﻣﮕﺮ ﺍﻥ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﺾ ﻟﻮﮒ..ﻗﺎﺑﺾ ﺳﻮﭺ...ﻗﺎﺑﺾ ﮔﺮﻭﭖ ﻣﺮﮐﺰ ﻧﮩﻴﮟ...!!

ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺗﻮ ﺷﻴﻌﮧ ﻗﺎﺩﻳﺎﻧﯽ ﻣﻨﺎﻓﻖ ﺍﻳﺠﻨﭧ ﻭﻏﻴﺮﮦ ﮐﻮﺉ ﻣﮑﮧ ﻣﺪﻳﻨﮧ ﭘﮯ ﻗﺎﺑﺾ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﻴﺎ ﮐﮩﻮ ﮔﺌﮯ..؟؟الغرض ﻗﺮﺍن ﻭﺳﻨﺖ ﻣﺮﮐﺰ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﭘﺮ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﺍﮨﻞ ﺑﻴﺖ ﺍﻭﻟﻴﺎﺀ ﺍﺳﻼﻑ ﻧﮯ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﮐﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎﻳﺎ، ﺑﺘﺎﻳﺎ ﻭہی ﺗﻌﻠﻴﻤﺎﺕ ﻣﺮﮐﺰ ﮨﻴﮟ..!!

لیھذا کسی ملک شہر حکومت گروپ کے وہ نظریات و اعمال مرکز کہلائیں گے جو قرآن و سنت کے مطابق ہونگے

.


سوال④:

*بارہ ربیع الاول کے دن تو نبی پاک کی وفات ہوئی، وفات پر خوشی تو شیطان کرتا ہے.....؟؟ نبی پاک کی ولادت اور وفات کی تاریخ کیا ہے....؟؟*

.

جواب:

*ولادت*

وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِاثْنَتَيْ عَشْرَةَ لَيْلَةً مَضَتْ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ

حضرت سیدنا ابن عباس اور سیدنا جابر رضی اللہ عنھما وغیرہ فرماتے ہیں کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پیر کے دن بارہ ربیع الاول میں ہوئی...(مستدرک حاکم روایت4182... البدایہ والنھایہ3/375 دار هجر للطباعة والنشر والتوزيع والإعلان.... سیرت ابن ہشام1/58 شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده بمصر....فتاوی رضویہ26/411 رضا فاؤنڈیشن لاھور پاکستان.... , سیرت رسول مصنف مفتی شفیع دیوبندی ص36 اداراہ اسلامیات انار کلی لاھور)سبل الھدی تاریخ طبری دلائل النبوہ عیون الاآثار زرقانی وغیرہ کئ کتب میں یہی بات لکھی ہے

.

*وفات*

وَكَانَتْ وَفَاتُهُ، عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، يَوْمَ الِاثْنَيْنِ لِلَيْلَتَيْنِ خَلَتَا مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الاول

اور نبی پاک کی وفات دو ربیع الاول میں ہوئی..

(البدایہ والنہایہ8/106 دار هجر للطباعة والنشر والتوزيع والإعلان....فتح الباری شرح بخاری8/129 دار المعرفۃ بیروت.... مرقاۃ شرح مشکاۃ 9/3845 دار الفکر بیروت)



.

کچھ کتابوں میں لکھا ہے کہ وفات بھی بارہ ربیع الاول میں ہوئی مگر علماء محققین کی تحقیق ہے کہ وفات بارہ کو ثابت نہین حتی کہ دیوبندیوں کے معتبر عالم اشرف تھانوی نے بھی لکھا کہ وفات بارہ کو ثابت نہیں

(دیکھیے تھانوی کی کتاب نشر الطیب ص241 تاج کمپنی لمیٹڈ... سبل الھدی 12/306 دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)

.

امام احمد رضا علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:

تحقیق یہ ہے کہ(وفات کی تاریخ) حقیقتا حسبِ رویت مکہ معظمہ ربیع الاول شریف کی تیرویں تھی..(نطق الھلال فتاوی رضویہ26/417 رضا فاؤنڈیشن لاھور پاکستان)

.

دیکھا آپ نے کہ وفات بارہ کو ثابت نہیں، پھر بالفرض بارہ کو وفات ہو تو بھی میلاد پر فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ ایک ہی دن ولادت و وفات ہو اور اسکو خوشی کا دن عید بھی کہا جائے یہ حدیث پاک سے ثابت ہے، جمعہ کو سیدنا آدم علیہ السلام کی ولادت بھی ہے اور وفات بھی ہے اور اسی جمعہ کے دن کو نبی پاک نے عید بھی فرمایا...

بہت ساری احادیث مبارکہ میں ہے کہ:

يَوْمَ الْجُمُعَةِ : فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ قُبِضَ

جمعہ کے دن آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے اور جمعے کے دن وفات پائی..

(ابو داود حدیث نمبر1047..ابن ماجہ حدیث1084)

اور

اسی جمعے کے دن کو نبی پاک نے صحابہ کرام نے عید کا دن بھی قرار دیا ہے....الحدیث: إِنَّ هَذَا يَوْمُ عِيدٍ 

بے شک جمعہ کا دن عید ہے..(ابن ماجہ حدیث نمبر1098)

.

دیکھا آپ نے جس دن حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش اسی دن وفات بھی....اور نبی پاک نے

اسی دن کو عید بھی قرار دیا....

.

اور پھر ایک ہی دن وفات بھی ہو اور ولادت بھی ہو تو غم منانے سے اسلام نے روکا ہے اور ولادت پر خوشی کی اجازت ہے لیھذا میلاد کی خوشی جائز ہے...الحدیث:

نبی پاک نے وفات کے(فورا بعد والے) تین دن کے بعد سوگ.و.غم کرنے سے روکا ہے....(بخاری حدیث 1279)

.

ربیع الاول،ولادتِ نبیﷺکی مناسبت سےجائز خوشی،شکر درود ذکر،عبادت وعظ نصیحت محافل صدقہ خیرات کا مہینہ ہے…وفات کا مہینہ کہہ کر غم کرنا جائز نہیں...ربيع الأول، فإنه شهر أمرنا بإظهار الحبور فيه كل عام، فلا نكدره باسم الوفاة(مجمع بحار)(از مجمع بحار الانور5/287,مطبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية....حول الاحتفال15تا35 المکتبۃ العصریہ بیروت)

.

اور عقل اور شعور کا بھی یہی تقاضا ہے کیونکہ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام گذرے....لاکھوں صحابہ کرام اور اہل بیت و سادات و اولیاء گذرے.... اور ہفتے میں صرف 7دن اور سال میں کوئی360 دن تو ہر دن کسی نا کسی کی وفات تو ہوئ ہوگی...تو پھر کیا سارا سال ساری زندگی عید منانا جرم...خوشی جرم...؟؟

ایسا ہرگز نہیں........!!

.

سوال⑤:

*میلاد دور نبوی میں نہیں تھا، خلفاء راشدین صحابہ کرام تابعین کے دور مین نہین تھا تو یہ بدعت ہوا.........؟؟ بدعت کیوں نہیں، بدعت کیا ہے......؟*

.

جواب:

میلاد ایک طریقے سے خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے منایا، صحابہ کرام تابعین اولیاء علماء اسلاف نے منایا ہے، لیھذا میلاد دور نبوی میں بھی تھا، دور صحابہ میں بھی تھا، دور تابعیں میں بھی تھا، خلفاء راشدین کے دور میں تھا،

میلاد کی اصل قران احادیث سنت سے ثابت ہے اور میلاد کا کوئی ایک طریقہ مقرر نہیں اس لیے میلاد کے مروجہ نئے طریقے بھی جائز و ثواب کہلائیں گے

.

حدیث پاک میں ہے کہ:

وما سكت عنه فهو مما عفا عنه

ترجمہ:

جس چیز کے متعلق(قرآن و احادیث میں)خاموشی ہو(مطلب دوٹوک حلال یا دوٹوک حرام نہ کہا گیا ہو تو)وہ معاف ہے، جائز ہے... (ابن ماجہ حدیث3368)

یہ حدیث ترمذی اور ابوداؤد وغیرہ بہت کتابوں میں ہے

.

حدیث پاک میں ہے:

من سن في الإسلام سنة حسنة، فعمل بها بعده، كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شيء

ترجمہ:

جس نے اسلام میں اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کے بعد

جو جو  اس پر عمل کرے گا ان سب کا ثواب اسے ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کمی نا آے گی

(مسلم حدیث نمبر1017)

یہ حدیث پاک ابن ماجہ سنن نسائی وغیرہ بہت کتابوں میں بھی ہے

.

ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ عبادت وہ نیک کام جسکا کوئی ایک طریقہ مقرر نا ہو تو اس کے نئے طریقے بدعت نہیں بلکہ اس کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں ہاں جس کام جس عبادت کے طریقے اسلام نے متعین و مخصوص کر دیے ہین ان میں نیا طریقہ نکالنا ٹھیک نہیں... جیسے نماز روزے کے نئے طریقے نکالنا ٹھیک نہیں مگر صدقہ خیرات ذکر اذکار درود میلاد فاتحہ وغیرہ کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں بشرطیکہ اسلام کے کسی اصول کے خلاف نا ہوں..

.

جب نئے طریقے بدعت نہیں تو #پھر_آخر_بدعت_ہے_کیا.....؟؟

جواب اور #چیلنج:

دراصل بدعت کی تعریف واضح الفاظ میں کسی آیت کسی حدیث میں نہیں آئی، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو کام صحابہ کرام نے نہیں کیا وہ بدعت ہے ہم انہیں چیلنج کرتے ہیں کہ کسی حدیث میں یہ دکھا دیں کہ بدعت وہ ہے جو کام صحابہ نے نا کیا ہو... چیلنج چیلنج...

کچھ لوگ کہتے ہیں جو سنت نہیں وہ بدعت ہے، یہ بھی ٹھیک نہیں کیونکہ اوپر احادیث کی زبانی بتایا جا چکا ہے کہ جو کام سنت نا ہو وہ جائز بھی کہلا سکتا ہے، سنت کے بعد جائز بھی ایک قیمتی چیز ہے، جائز بھی دین کی تعلیمات میں سے ہے.. سنت سنت کی رٹ لگانے کے ساتھ ساتھ جائز جائز کی رٹ لگانا بھی ضروری ہے..

.

پھر آخر بدعت ہے کیا.....؟؟

ایات احادیث میں غور کرکے بدعت کی تعریف اخذ کی گئ ہے جسے علماء کرام نے جامع انداز میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے کہ:

المراد بھا ما احدث ولیس لہ اصل فی الشرع،،ویسمی فی عرف الشرع بدعۃ، وماکان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس ببدعۃ

فالبدعۃ فی عرف الشرع مذمومۃ بخلاف اللغۃ

ترجمہ:

بدعت اس نئ چیز کو کہتے ہیں جسکی شریعت میں کوئی اصل نا ہو،،شریعت میں اسی کو بدعت کہا جاتا ہے

اور

جس نئے کام کی اصل ہو کہ اس پر شریعت رہنمائی کرے وہ تو بدعت نہیں، بدعۃ شریعت میں مذموم ہی ہوتی ہے"با خلاف لغت کے"

(فتح الباری 13/253 دار المعرفۃ بیروت

 حاشیہ اصول الایمان ص126 وزارة الشؤون الإسلامية والأوقاف والدعوة والإرشاد - المملكة العربية السعودية

اصول الرشاد ص64 ادارہ اہل سنت کراچی)

مرعاۃ،عمدۃ القاری، مجمع بحار الانوار

فتح المبین،وغیرہ بہت کتابوں میں بھی یہی تعریف ہے

جن تین کتابوں کا مکمل حوالہ لکھا ہے وہ اس لیے کہ پہلی کتاب تمام کے ہاں معتبر ہے خاص کر اہل حدیث کے لیے

اور دوسری کتاب وہابیوں کی ہے سعودی عرب کی حکومت نے چھاپی ہے اور تیسری کتاب امام احمد رضا کے والد صاحب کی کتاب ہے)

.

نوٹ:

صحابہ کرام کا فتویٰ:

نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ

یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے

(بخاری روایت2010)

یہ فتوی دیگر بہت کتابوں میں بھی ہے

سنی وہابی نجدی شیعہ اہل ھدیث وغیرہ تمام کی کتابوں.میں "موضوع حدیث" لفظ بولا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں کوئ "حدیث" موضوع نہیں ہوتی ..اسکو فقط ظاہر کے لحاظ سے اور لغت و معنی مجاز کے لحاظ سے "حدیث" کہا جاتا ہے

اسی طرح "اچھی بدعت" حقیقت میں بدعت نہیں اسے فقط ظاہر کے لحاظ سے لغت و مجاز کے لحاظ سے بدعت کہا جاتا ہے... اوپر صحابہ کرام کے فتوے میں جو اچھی بدعت فرمایا گیا وہ بھی حقیقت میں بدعت نہیں...اسے ظاہر و لغت کے لحاظ سے بدعت فرمایا گیا ہے... بدعت کی جو پانچ اقسام بتائی جاتی ہیں وہ بھی دراصل ظاہر و لغت کے لحاظ سے ہیں ورنہ بدعت حسنہ حقیقتا بدعت ہی نہیں، بدعت کی تعریف میں"بخلاف لغت کے" الفاظوں میں اسی چیز کو بیان کیاگیا ہے



.

*کل بدعۃ ضلالۃ(ہر بدعت گمراہی ہے)کی وضاحت ابن تیمیہ وہابی سے سنیے...لکھتا ہے*

عَنْهُ فَيَعُودُ الْحَدِيثُ إلَى أَنْ يُقَالَ: " كُلُّ مَا نُهِيَ عَنْهُ " أَوْ " كُلُّ مَا حُرِّمَ " أَوْ " كُلُّ مَا خَالَفَ نَصَّ النُّبُوَّةِ فَهُوَ ضَلَالَةٌ " وَهَذَا أَوْضَحُ مِنْ أَنْ يَحْتَاجَ إلَى بَيَانٍ بَلْ كُلُّ مَا لَمْ يُشْرَعْ مِنْ الدِّينِ فَهُوَ ضَلَالَةٌ. وَمَا سُمِّيَ " بِدْعَةً " وَثَبَتَ حُسْنُهُ بِأَدِلَّةِ الشَّرْعِ فَأَحَدُ " الْأَمْرَيْنِ " فِيهِ لَازِمٌ: إمَّا أَنْ يُقَالَ: لَيْسَ بِبِدْعَةِ فِي الدِّينِ وَإِنْ كَانَ يُسَمَّى بِدْعَةً مِنْ حَيْثُ اللُّغَةُ. كَمَا قَالَ عُمَرُ: " نِعْمَت الْبِدْعَةُ هَذِهِ " وَإِمَّا أَنْ يُقَالَ: هَذَا عَامٌّ خُصَّتْ مِنْهُ هَذِهِ الصُّورَةُ لِمُعَارِضِ رَاجِحٍ كَمَا يَبْقَى فِيمَا عَدَاهَا عَلَى مُقْتَضَى الْعُمُومِ كَسَائِرِ عمومات الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، وَهَذَا قَدْ قَرَّرْته فِي " اقْتِضَاءِ الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِيمِ " وَفِي " قَاعِدَةِ السُّنَّةِ وَالْبِدْعَةِ " وَغَيْرِهِ.

خلاصہ


 ہر بدعت گمراہی ہے تو اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے اور ایسی ہر بدعت گمراہی ہے.... اور جس کی اصل ثابت ہو وہ بدعت ہی نہیں ہے تو وہ لغت و ظاہر کے اعتبار سے بدعت ہے اور وہ گمراہی نہیں ہے ، وہ بدعت حسنہ ہے... یا پھر یہ کہا جائے گا کہ ہر بدعت گمراہی ہے اس عموم سے بدعت حسنہ مستثنی ہے جیسے کہ قرآن و حدیث کے کئ عموم ہوتے ہیں اور اس سے کچھ چیزیں مستثنی ہوتی ہیں

( مجموع الفتاوى ابن تيميه10/371 مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية)



.

*ابن حزم اور بدعت قولی فعلی بدعت حسنہ*

البدعة: كل ما قيل أو فعل مما ليس له أصل في ما نسب إليه، وهو في الدين كل ما لم يأت [في القرآن ولا] عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، إلا منها ما يؤجر عليه صاحبه ويعذر فيما قصد به الخير، ومنها ما يؤجر عليه صاحبه جملة

 ويكون حسنا

 بدعت ہر اس قول کو کہتے ہیں ہر اس فعل کو کہتے ہیں کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو... شریعت میں بدعت وہ ہے کہ جس کی اصل قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو... جس کی اصل ثابت ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اس پر اجر دیا جاتا ہے

(رسائل ابن حزم4/410 المؤسسة العربية للدراسات والنشر بیروت)

.

*ابن جوزی اور بدعت*

 ومتى أسند المحدث إِلَى أصل مشروع لم يذم

 جس بدعت کی اصل ثابت ہو اس کی مذمت نہیں ہے( وہ تو دراصل بدعت ہے ہی نہیں اسے تو ظاہر اور لغت کے اعتبار سے بدعت کہا جاتا ہے)

(ابن جوزي تلبيس إبليس ص18 دار الفكر للطباعة والنشر، بيروت، لبنان

.

*وہابیوں اہلحدیثوں غیرمقلدوں نجدیوں کا امام شوکانی علامہ ابن حجر کی عبارت لکھتا ہے اور اسکی نفی نہیں کرتا جسکا صاف مطلب ہے کہ یہ عبارت، یہ نظریہ بھی یا یہی نظریہ ٹھیک ہے*

وَالتَّحْقِيقُ أَنَّهَا إنْ كَانَتْ مِمَّا يَنْدَرِجُ تَحْتَ مُسْتَحْسَنٍ فِي الشَّرْعِ فَهِيَ حَسَنَةٌ، وَإِنْ كَانَتْ مِمَّا يَنْدَرِجُ تَحْتَ مُسْتَقْبَحٍ فِي الشَّرْعِ فَهِيَ مُسْتَقْبَحَةٌ، وَإِلَّا فَهِيَ مِنْ قِسْمِ الْمُبَاحِ، وَقَدْ تَنْقَسِمُ إلَى الْأَحْكَامِ الْخَمْسَةِ

 تحقیق یہ ہے کہ جو ظاہر اور لغت کے اعتبار سے بدعت ہو تو اس کی تقسیم کچھ یوں ہوگی کہ اگر وہ شریعت کے کسی اصول کے  تحت اچھی درج ہو سکتی ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر وہ شریعت کے کسی اصول کے تحت بری ہو تو وہ بری بدعت ہے اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہو تو وہ بدعت مباحہ ہے اور بدعت کی پانچ قسمیں بیان کی جاتی ہے

(كتاب نيل الأوطار3/65 دار الحدیث مصر)

.

سوال⑥:

*آپ نے کہا میلاد کی اصل ثابت ہے تو قرآن و سنت سے وہ اصل وہ دلائل پیش کریں*

جواب:

علماء کرام نے باقاعدہ میلاد پر کتابیں لکھی ہیں اور قرآن و سنت سے کئ دلائل پیش کیے ہیں، یہاں تمام دلائل کا احاطہ مقصود نہیں..چند دلائل پیش ہیں

.

دلیل:1

القرآن...ترجمہ:

اپنے رب کی نعمت کا چرچہ کر..(سورہ والضحی آیت11)

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی نعمت ہیں(بخاری روایت3977)میلاد میں اللہ کریم کی عظیم نعمت یعنی حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچہ ہی تو ہوتا ہے

.

دلیل:2

القرآن...ترجمہ:

کہہ دیجیے اللہ کے فضل و رحمت اور اسی پر خوشی کرنا چاہیے..(سورہ یونس آیت58)میلاد میں اللہ کی عظیم رحمت اور  اللہ کی عظیم نعمت پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے

.

دلیل:3

نبی پاک نے کئ بار ایک طریقے سے میلاد منایا...نبی پاک سے پیر کے دن روزہ رکھنے کی وجہ پوچھی گئ تو آپ نے فرمایا:

یہ دن میری ولادت کا دن ہے..(مسلم حدیث2747)

یہ حدیث کئ کتابوں میں ہے

.

دلیل:4

اسی طرح صحابہ کرام نے بھی روزہ رکھ کر میلاد منایا ہے

دیکھیے ابو داود 1/331)

.

دلیل:5

نبی پاک کی ولادت پر عقیقہ ہوا تھا اس کے باوجود آپ نے دوبارہ  اپنا عقیقہ کیا جو کہ میلاد کی دلیل ہے

دیکھیے سنن کبری  بیہقی روایت19273 ... فتح الباری9/595 دار المعرفۃ بیروت)


.

دلیل:6

صحابہ کرام ایک دن محفل سجائے بیٹھے تھے اللہ کا ذکر کر رہے تھے حمد کر رہے تھے، نبی پاک کی آمد و بعثت کا تذکرہ کر رہے تھے کہ یہ اللہ کا عظیم احسان ہے تو نبی پاک نے صحابہ کرام سے فرمایا:

اللہ فرشتوں سے تم پر فخر کر رہا ہے...(صحیح سنن نسائی حدیث5426) مسند احمد طبرانی وغیرہ کتب مین بھی یہ واقعہ درج ہے

.

دلیل:7

*ہر سال دن معین کرکےمیلاد منانےکی ایک دلیل......!!*

الحدیث:

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمَّا قَدِمَ المَدِينَةَ، وَجَدَهُمْ يَصُومُونَ يَوْمًا، يَعْنِي عَاشُورَاءَ، فَقَالُوا: هَذَا يَوْمٌ عَظِيمٌ، وَهُوَ يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ فِيهِ مُوسَى، وَأَغْرَقَ آلَ فِرْعَوْنَ، فَصَامَ مُوسَى شُكْرًا لِلَّهِ، فَقَالَ «أَنَا أَوْلَى بِمُوسَى مِنْهُمْ» فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ

ترجمہ:

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگ ایک دن یعنی عاشورا کے دن روزہ رکھتے تھے۔ ان لوگوں نے کہا کہ یہ بڑی عظمت والا دن  ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی تھی اور آل فرعون کو غرق کیا تھا۔ اس کے *#شکر* میں موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ میں موسیٰ علیہ السلام کا ان سے زیادہ قریب ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے  خود بھی اس دن کا روزہ رکھنا شروع کیا اور صحابہ کرام کو بھی اس کا حکم فرمایا۔

[صحيح البخاري ,4/153حدیث3397]

ایسی حدیث پاک مسلم ابن ماجہ طبرانی شعب الایمان صحیح ابن حبان وغیرہ کئ کتب میں ہے


.

علامہ شامی علیہ الرحمۃ مذکورہ حدیث پاک سے دلیل نقل فرماتے ہیں کہ:

فيستفاد من فعل ذلك شكرا لله تعالى على ما من به في يوم معين من إسداء نعمة أو دفع نقمة، ويعاد ذلك في نظير ذلك اليوم من كل سنة، والشكر لله تعالى يحصل بأنواع العبادات والسجود والصيام والصدقة والتلاوة، وأيّ نعمة أعظم من النعمة ببروز هذا النبي الكريم نبيّ الرحمة في ذلك اليوم؟

ترجمہ:

اس حدیث پاک، نبی پاک و صحابہ کرام کے اس فعل سے ثابت ہوتا ہے کہ جن پر کسی معین دن میں کوئی نعمت ملی ہو یا عذاب و برائی ٹلی ہو اس دن اللہ تعالیٰ شکر کا دن منانا چاہیے اور یہ دن ہر سال منانا چاہیے اور مختلف قسم کی عبادات سجود روزے صدقہ تلاوت وغیرہ بہت طریقوں سے شکر ادا کیاجاسکتا ہے اور ہمارے پیارے نبی رحمت کی جس دن دنیا میں تشریف آوری ہوئی اس دن سے بڑھ کر شکر و نعمت والا دن بھلا کوئی ہوسکتا ہے....؟؟(لیھذا ہر سال بارہ ربیع الاول یوم ولادت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشی جشن منا کر ، روزہ نوافل صدقہ خیرات کرکے مختلف نیکیاں و عبادات کرکے کسی بھی نئے پرانے اچھے طریقے سے شکر و نعمت کے دن کے طور پر منانا مذکورہ حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے)

[سبل الهدى والرشاد1/366 دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)

.

سب کے مستند علامہ امام ابن حجر عسقلانی علامہ امام ابن حجر ہیتمی علامہ امام سیوطی علامہ امام سخاوی نے فرمایا کہ:بخاری و مسلم(بخاری حدیث3397)سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر سال معین دن( بارہ ربیع الاول)یوم ولادت نبیﷺکو جائز خوشی کرکے،روزہ نوافل صدقہ خیرات کرکے مختلف نیکیاں و عبادات کرکے کسی بھی اچھےطریقےطریقوں سےمیلاد منانا ثواب ہے(سبل الهدى والرشاد1/366 دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان... الاجوبہ المرضیۃ3/1118… الحاوی للفتاوی1/229 دار الفكر للطباعة والنشر، بيروت-لبنان… تحفۃ المحتاج7/424 المكتبة التجارية الكبرى بمصر لصاحبها مصطفى محمد...ملخصا)

.

امام ابن حجر امام سیوطی امام سخاوی نے ملتی جلتی عبارت لکھی ہے جسکا خلاصہ ہم نے ابھی اوپر لکھا، اسکی عربی الفاظ یہ ہیں:

وَقَدْ سُئِلَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ حَافِظُ الْعَصْرِ أبو الفضل ابن حجر عَنْ عَمَلِ الْمَوْلِدِ، فَأَجَابَ بِمَا نَصُّهُ: أَصْلُ عَمَلِ الْمَوْلِدِ بِدْعَةٌ لَمْ تُنْقَلْ عَنْ أَحَدٍ مِنَ السَّلَفِ الصَّالِحِ مِنَ الْقُرُونِ الثَّلَاثَةِ، وَلَكِنَّهَا مَعَ ذَلِكَ قَدِ اشْتَمَلَتْ عَلَى مَحَاسِنَ وَضِدِّهَا، فَمَنْ تَحَرَّى فِي عَمَلِهَا الْمَحَاسِنَ وَتَجَنَّبَ ضِدَّهَا كَانَ بِدْعَةً حَسَنَةً وَإِلَّا فَلَا، قَالَ: وَقَدْ ظَهَرَ لِي تَخْرِيجُهَا عَلَى أَصْلٍ ثَابِتٍ وَهُوَ مَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ مِنْ «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَوَجَدَ الْيَهُودَ يَصُومُونَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَسَأَلَهُمْ فَقَالُوا: هُوَ يَوْمٌ أَغْرَقَ اللَّهُ فِيهِ فرعون وَنَجَّى مُوسَى فَنَحْنُ نَصُومُهُ شُكْرًا لِلَّهِ تَعَالَى» ، فَيُسْتَفَادُ مِنْهُ فِعْلُ الشُّكْرِ لِلَّهِ عَلَى مَا مَنَّ بِهِ فِي يَوْمٍ مُعَيَّنٍ مِنْ إِسْدَاءِ نِعْمَةٍ أَوْ دَفْعِ نِقْمَةٍ، وَيُعَادُ ذَلِكَ فِي نَظِيرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنْ كُلِّ سَنَةٍ، وَالشُّكْرُ لِلَّهِ يَحْصُلُ بِأَنْوَاعِ الْعِبَادَةِ كَالسُّجُودِ وَالصِّيَامِ وَالصَّدَقَةِ وَالتِّلَاوَةِ، وَأَيُّ نِعْمَةٍ أَعْظَمُ مِنَ النِّعْمَةِ بِبُرُوزِ هَذَا النَّبِيِّ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ

(السيوطي ,الحاوي للفتاوي ,1/229 دار الفكر للطباعة والنشر، بيروت-لبنان)



.

نوٹ:

الحدیث:

صوموا يوم عاشوراء,وخالفوا اليهود صوموا قبله يوما أو بعده يوما...ترجمہ:

عاشورہ(دس محرم) کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو(اس طرح)کہ اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ بھی رکھو...(صحیح ابن خزیمہ حدیث2095)

.

اور بھی بہت دلائل علماء کرام نے کتابوں میں لکھے ہیں، عربی اردو میں میلاد پر کتابیں لکھی گئی ہیں، دو چار کتب تو ضرور پڑھنی چاہیے...

.

⑦ *میلاد پے لاکھوں عاشقانِ رسول اور مسجدیں ویران

یہ عاشقِ رسول ہیں یا بدعتی ٹھگ جعلی عاشق......؟؟*

.

سوال:

فیس بک پر ایک صاحب کی تحریر پڑھی، خلاصہ یہ تھا کہ میلاد پر گلی گلی کوچہ کوچہ ہزاروں لاکھوں عاشقانِ رسول نکلتے ہیں مگر مسجدیں ویران....یہ میلادی عاشقِ رسول نہیں بدعتی ٹھگ ہیں

.

جواب:

الحدیث:

ایک صحابی تھے جنکا لقب حمار رضی اللہ عنہ تھا، وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی محبت و عقیدت رکھتے تھے اور آپ علیہ السلام بھی ان سے بڑا پیار کرتے تھے

وہ صحابی شراب مکمل چھوڑ نہ پائے، ایک دفعہ شراب پینے کے جرم و گناہ میں حضور کے پاس لائے گئے تو ایک صحابی کہنے لگے:

اللَّهُمَّ العَنْهُ، مَا أَكْثَرَ مَا يُؤْتَى بِهِ؟ 

ترجمہ: اے اللہ اس پر لعنت فرما، کتنی دفعہ یہ شراب پینے کے جرم میں لایا گیا ہے

یہ سن کر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:

فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تَلْعَنُوهُ، فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ إِنَّهُ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ»

ترجمہ:

تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے لعنت مت کرو، اللہ کی قسم میں تو یہی جانتا ہوں کہ وہ اللہ اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے..(بخاری حدیث6780)

.

.

شراب نوشی کتنا بڑا جرم و گناہ ہے.......؟؟

القرآن:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ

ترجمہ:

اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہی ہیں تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ..(سورہ مائدہ آیت90)

.

شراب کی مذمت میں بہت سی آیات و احادیث ہیں حتی کہ ترمذی کی ایک حدیث میں اسے لعنتی عمل تک کہا گیا

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم َنے شراب کے بارے میں دس شخصوں پر لعنت کی: (1) شراب بنانے والے پر۔ (2) شراب بنوانے والے پر۔ (3) شراب پینے والے پر۔ (4) شراب اٹھانے والے پر۔ (5) جس کے پاس شراب اٹھا کر لائی گئی اس پر۔ (6) شراب پلانے والے پر۔ (7) شراب بیچنے والے پر۔ (8) شراب کی قیمت کھانے والے پر۔ (9) شراب خریدنے والے پر۔ (10) جس کے لئے شراب خریدی گئی اس پر۔( ترمذی، کتاب البیوع، باب النہی ان یتخذ الخمر خلاً،۳/۴۷، الحدیث: ۱۲۹۹)

مگر

یہی بدعمل برا عمل اگر ایسے شخص سے ہو جس میں عشقِ رسول کے آثار ہوں تو اسے لعنتی مردود کہنے کے بجائے محبِ رسول کہا رسول کریم نے..........!!

حضور اکرم کا یہ انداز یقینا شراب نوشی کی حمایت میں نہیں تھا بلکہ آپ نے اس عاشقِ رسول شراب پینے والے صحابی کو سزا بھی دی اور یقینا سمجھاتے بھی رہے، منع بھی کرتے رہے مگر عاشقِ رسول پھر بھی کہا ، جعلی عاشق ٹھگ منافق نہ کہا...گناہ بدعملی کی وجہ سے عشقِ الہی اور عشقِ رسول کی نفی نہیں کی جاسکتی،جعلی عاشق منافقت و ڈھونگ نہیں کہہ سکتے بلکہ محب رسول ہی کہا جائے گا اور عمل کرنے کے لیے سمجھایا جایا جائے گا

.


کچھ میلادی بے عمل، بدعمل ہوسکتے ہیں بلکہ ہوتے ہیں مگر میلادی عاشقِ رسول ضرور ہیں، بدعتی ٹھگ جعلی عاشقِ رسول نہیں...ہرگز نہیں...

میلاد عشقِ نبی کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے، بےعمل بدعمل عاشقِ رسول کو سمجھایا جاءے مگر ان سے عشقِ رسول کی نفی نہیں کرسکتے......ہرگز نہیں

.

نوٹ:

کسی صحابی کو شرابی گناہ گار نہیں کہہ سکتے کیونکہ صرف اور صرف دو چار صحابہ کرام سے اگر گناہ ہو بھی گئے تو انہوں نے توبہ کرلی، مجتنب رہے، اور جرائم و گناہ پر حد.و.سزا پا کر پاک پاکیزہ ہوگئے....توبہ و سزا سے پاک ہوجانے کے بعد انکا کوئی گناہ ثابت نہیں....لہھذا وہ توبہ و سزا پاکر پاک ہوگئے... توبہ و سزا کے بعد انہیں گناہ گار فاسق نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ ان فضائل کے بیان کے حقدار ہیں کہ جو صحابہ کرام کے متعلق آئے...صحابہ کرام کی تفسیق و مذمت جائز نہیں بلکہ تعریف مدح و تطبیق لازم ہے........!!

.

.

⑧جلوس جھنڈے محافل جھومنا:

*میلاد اسٹیج نعت*

نبی علیہ الصلاۃ والسلام حضرت حسان کے لیے منبر (اسٹیج) رکھواتے اور وہ اس پر کھڑے ہوکر  شانِ مصطفی بیان کرتے، نعتِ نبی بیان کرتے، کافروں مشرکوں کی مذمت بیان کرتے تھے، نبی پاک کا دفاع بیان کرتے تھے..

(دیکھیے بخاری حدیث3212 ترمذی حدیث2846)

.

*میلاد ولادت اور سلام*

القرآن..ترجمہ:

مجھ(حضرت عیسی علیہ السلام) پر سلام ہو میری ولادت کے دن..(سورہ مریم آیت33)

.

*میلاد جلسے جلوس نعت جھنڈےنعرے*

جب نبی پاک مدینہ تشریف لا رہے تھے تو اس وقت عظیم الشان جلوس کے ساتھ آپ علیہ السلام کا استقبال کیا گیا، طلع البدر علینا اور دیگر نعت پڑھی گئ، جھنڈا نہیں تھا تو ایک صحابی نے اپنے عمامے کو اتار کر بڑا جھنڈا بنا لیا، یا محمد یا رسول اللہ کے نعرے لگائے گئے

لا تدخل المدينة إلا ومعك لواء، فحل عمامته ثم شدّها في رمح ثم مشى بين يديه صلّى الله عليه وسلّم(الوفا).....فَثَارَ الْمُسْلِمُونَ إِلَى السِّلَاحِ، فَتَلَقَّوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِظَهْرِ الْحَرَّةِ، فَعَدَلَ بِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ حَتَّى نَزَلَ بِهِمْ فِي بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ وَذَلِكَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ(بخاري)....فصعد الرجال والنساء ، فوق البيوت وتفرق الغلمان ، والخدم في الطرق ينادون يا محمد يا رسول الله ، يا محمد يا رسول الله(مسلم)

(دیکھیےوفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى ,1/190 دار الکتب العلمیہ بیروت... بخاری روایت3905 مسلم روایت5722)

.

*ہر لنگر اور بالخصوص میلاد کے لنگر کا احترام کیجیے*

بسکٹ وغیرہ میلاد کا لنگر عوام کیطرف پھینکنا بےادبی،ضیاع کاخطرہ ہے، اس لیے منع و گناہ ہے...ایسا نہ کریں لنگر سلیقےسےبانٹیں (دیکھیے فتاوی رضویہ 24/495رضا فاؤنڈیشن لاھور پاکستان)

.

سیدی امام احمد رضا لکھتے ہیں:

روٹیاں پکا کر تقسیم کرنا بھی خیر ہے مگر پھینکنا منع ہے اور ان کا پاؤں کے نیچے آنا یا ناپاک جگہ گرنا سخت شدید مواخذہ کا موجب، ایک تو روٹی کی بیحرمتی جس کی تعظیم کا حدیث میں حکم فرمایا، دوسرے نیاز کی چیز کی بے توقیری، نیاز کی چیز معظم ہوتی ہے(فتاوی رضویہ 24/495رضا فاؤنڈیشن لاھور پاکستان)

.

*میلاد کا کیک..........؟؟*

سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےعرض کیا:

نہیں،اللہ کی قسم آپﷺکا نام مبارک کبھی نہیں مٹاؤنگا…پھر نبی پاک نےخود مٹایا(ماخذ بخاری حدیث3184)

نیکی روزہ نوافل تلاوت درود ،جائز خوشی،عبادات خیرات کرکے میلاد منانا بہتر…میلاد پےکیک کاٹیں یا نہ ، یہ مسلہ اپنی جگہ مگر کم سےکم کیک پےنام مبارک تو ہرگز ہرگز نہ لکھا جائےکہ نام مٹےگا جو عشاق کا طریقہ نہیں،ہاں ضرورتا لکھنا مٹانا جائز جیسےبلیک بورڈ

.


*معتدل جھومنا.................!!*

الحدیث:

عن علي قال: أتيت النبي - صلى الله عليه وسلم - وجعفر وزيد، قال: فقال لزيد: أنت مولاي، فحجل! قال: وقال لجعفر: أنت أشبهت خلقى وخلقي، قال: فحجل وراء زيد! قال لي: أنت مني وأنا منك، قال: فحجلت وراء جعفر

ترجمہ:

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اور حضرت جعفر اور حضرت زید رضی اللہ عنھم اجمعین تینوں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے

حضور نے حضرت زید کہا "انت مولائی"(یہ سن کر حضرت زید خوشی سے) ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر جھومنے لگے

پھر

حضور نے حضرت جعفر سے فرمایا کہ تم میری صورت اور سیرت میں مجھ سے مشابہت رکھتے ہو(یہ سن کر حضرت جعفر خوشی سے) ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر حضرت زید کے پیچھے جھومنے لگے

پھر

حضور نے مجھ(حضرت علی) سے کہا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں(تو یہ سن کر خوشی سے) میں حضرت جعفر کے پیچھے ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر جھومنے لگا

(مسند احمد حدیث857)

.

امام بیھقی اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں

فَالرَّقْصُ الَّذِي يَكُونُ عَلَى مِثَالِهِ يَكُونُ مِثْلَهُ فِي الْجَوَازِ

ترجمہ:

اس قسم سے ملتا جلتا(غیرِ فحش)رقص و جھومنا جائز ہے

(سنن کبری بیھقی تحت روایت21027)

.

حمد و نعت ، نثر و بیان میں اللہ اور اسکے رسول کی محبت و تذکرے میں اور خاص کر میلاد کے مواقع پر معتاد معتدل بلاترتیبِ رقاصِ مذموم محض جھومنا جائز و ثواب ہے مگر فرض واجب نہیں، ایسا نہیں کہ جو نہ جھومے وہ محب نہیں....ہرگز نہیں، اور اسی طرح بلادلیل و شواہد جھومنے والوں پر دکھاوے جہالت و مذمت کے فتوے لگانا بھی ٹھیک نہیں..

.

ہم معتدل جھومنے کو جائز کہتے ہیں مگر مذموم ڈھول دھماکے ناچ گانے اور عورتوں مردوں کے اختلاط کو ہر گز جائز نہیں سمجھتے....ہم اہلسنت ہمیشہ لکھتے رہتے ہیں ، کہتے رہتے ہیں کہ میلاد گناہوں خرافات سے پاکیزہ ہونا ضروری ہے....کچھ جاہل لوگ یا سازشی لوگ میلاد پے ایسی خرافات کرتے ہیں تو ان خرافات کی مذمت کیجیے میلاد کی مزمت و تردید مت کیجیے بلکہ میلاد کو پاکیزہ رکھنے کی ہدایات و تلقین کیجیے.

.

مخالفین اور ہمارے معتبر عالمِ دین، عظیم شخصیت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:

اس موقعہ(میلاد، جلوس محافل) پر جو "بری بدعتیں" پیدا کر لی گئ ہیں اور آلاتِ محرمہ کے ساتھ گانا باجا ہوتا ہے ان سے محفل خالی ہو...(مدارج النبوۃ2/19باحوالہ شرح مسلم علامہ سعیدی3/175 فرید بک اسٹال لاھور)

.

.

⑨ *آمد مصطفی مرحبا کا مقصد اور عقیدہ حاضر ناظر کی وضاحت و دلائل.....!!*

*آمدِ مصطفی مرحبا کے نعرے*

معراج کی رات آسمانوں پر آمدِ مصطفی پے انبیاء کرام نے یہ کہتے ہوئے استقبال فرمایا...ترجمہ: آپ کی آمد مرحبا

(دیکھیے بخاری حدیث2968)

اسی ادا کی یاد تازہ کرتے ہوئے، انبیاء کرام کی اتباع کرتے ہوئے آمدِ مصطفی کے مہینے دن کی مناسبت سے آمد مصطفی مرحبا مرحبا کے نعرے جائز و ثواب ہیں، بدعت نہیں.........!!

ہمارا یہ عقیدہ نہیں کہ میلاد کی محفل و جلوس میں نبی کریم ضرور تشریف لائے ہیں اس لیے امد پر مرحبا....ایسا عقیدہ ہرگز نہیں، بلکہ ہمارا عقیدہ حاضر ناظر یہ ہے کہ نبی کریم سب جانتے ہیں دیکھتے ہیں اور جب چاہیں جس جگہ چاہیں جا سکتے ہیں....لیھذا میلاد کی محفل و جلوس میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی تشریف آوری ضروری نہیں مگر ممکن ضرور ہے البتہ نبی کریم جانتے دیکھتے ضرور ہیں

.

*عقیدہ نظریہ حاضر ناظر کے چند دلائل*

الحدیث:

جب بھی غیب کا سوال ہوتا یا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سوال فرماتے تو صحابہ کرام حضور کی بارگاہ میں جواب اس طرح عرض کرتے کہ "الله ورسوله اعلم"

ترجمہ:

اللہ کو اور اسکے رسول کو علم ہے..... "اللہ اور رسول جانے"کہنا ایک دو دفعہ کا واقعہ نہیں بلکہ یہ تو صحابہ کرام تابعین عظام کی عادت مبارکہ تھی، نبی کریم کے سامنے یہ کہا کرتے تھے مگر کبھی نبی کریم نے ان پر شرک و بدعت کا فتوی نہیں دیا، بخاری مسلم میں کم و بیش ساٹھ سے زائد مقامات پر اللہ ورسولہ اعلم جملہ آیا ہے...جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جملہ اہل اسلام کا عقیدہ تھا نظریہ تھا کہ اللہ کو علم ہے اور اللہ کے بتانے سے نبی کریم کو بھی علم ہے

(مثلا دیکھیے مسلم حدیث 159 بخاری حدیث3199)

.


الحدیث:

عرضت علي ، اعمال امتي حسنها وسيئها ،

مجھ پر میری امت کے تمام اچھے برے اعمال پیش کیے گئے.(مسلم حدیث نمبر1233 سند صحیح ہے)

.

الحدیث:

تعرض علی اعمالکم

تمھارے تمام اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں

(مجمع الزوائد حديث 14250 سند صحیح ہے)

.

الحدیث:

إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ رَفَعَ لِيَ الدُّنْيَا فَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهَا وَإِلَى مَا هُوَ كَائِنٌ فِيهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، كَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلَى كَفِّي هَذِه

بے شک اللہ نے میرے لیے دنیا کو اس طرح مرتفع کر دیا کہ میں اسے اور اس میں ہونے والے تمام معاملات قیامت تک ایسے دیکھتا ہوں جیسے اپنی اس ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں

(مجمع الزوائد حدیث14067)اسکی سند اگرچہ ضعیف ہے مگر اوپر والی احادیث کی تائید کی وجہ سے ضعیف ہونے سے فرق نہیں آئے گا..

.

ان تینوں احادیث مبارکہ میں صاف ظاہر ہے کہ نبی کریم تمام اعمال و افعال جانتے ہیں، دنیا انکی نظر میں ایسے ہے جیسے جیسے دنیا ان کے ہاتھ کی ہتیھلی پر رکھی ہوئی ہو.....!! یہی تو حاضر ناظر نظریہ ہے

.

شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں..ترجمہ:

علماء میں کثرت اختلاف اور بہت سے مذاہب ہیں لیکن اسکے باوجود سب کا اس میں اتفاق ہے کہ رسول اللہ.صلی اللہ علیہ وسلم(وفات کے بعد)حقیقتا بلا شک و شبہ بلا توھم و تاویل کے زندہ ہیں،دائم.و باقی ہیں.. امت کے تمام اعمال پر حاضر و ناظر ہیں،حقیقت کے.طلبگاروں اور متوجہ ہونے والوں کو فیض پہنچاتے ہیں..

(مکتوبات علی ہامش اخبار الاخیار ص155بحوالہ سعید الحق ص366 مکتبہ غوثیہ کراچی)

.

غیرمقلدوں اہل حدیثوں وہابیوں دیوبندیوں کے معتمد عالم شمس الحق اور قاضی شوکانی لکھتے ہیں:

ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حی بعد وفاتہ وانہ یسر بطاعات امتہ

ترجمہ:

بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم وفات کے بعد زندہ ہیں اور وہ امت کی نیکیوں سے خوش ہوتے ہیں

(نيل الأوطار ,3/295 دار الحدیث مصر)

.

سوال10=

میلاد کی مبارکباد، ماہ ربیع الاول کی مبارکباد کی دلیل کیا ہے.....؟؟

*ربیع الاول کی مبارکباد دینا کیسا....؟؟ جشن ولادت بارہ ربیع الاول پے مبارکباد دینا کیسا.....؟؟ بلکہ ہر جائز خوشی و نعمت کے موقعہ و دن پے مبارکبادی دینا کیسا......؟؟ اور عمل.....؟؟*

تحت الحدیث:

فَيَتَلَقَّانِيَ النَّاسُ فَوْجًا فَوْجًا يُهَنُّونِي بِالتَّوْبَةِ

 صحابی فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام گروہ در گروہ آتے اور مجھے مبارکباد دیتے کہ تمہاری توبہ قبول ہو گئی ہے

(بخاری تحت الحدیث4418)

.

اس واقعہ کو دلیل بنا کر امام عینی فرماتے ہیں:

واستحباب التبشير عِنْد تجدّد النِّعْمَة واندفاع الْكُرْبَة

نعمت رحمت ملنے یا نعمت رحمت دوبارہ آنے یا مشکل دور ہونے کے تمام مواقع پے مبارکبادی دینا ثواب ہے،یہ حکم بخاری کی مذکورہ روایت سے ثابت ہوتا ہے

(عمدۃ القاری شرح بخاری 18/55مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت)

رحمت نعمت کے عظیم مہینے ربیع الاول کی آمد اور جشن ولادت اور یوم ولادت اور بارہ ربیع الاول کی بہت بہت مبارک ہو...مباردکباد دیجیے، خوشی کیجیے، خوشی کا اظہار کیجیے،نظریات درست رکھیے، نظریات درست کیجیے، نیک اعمال کیجیے،صدقہ خیرات کیجیے، خوشی کے اظہار کے جائز طریقے اپنائیے بلکہ وہ طریقے اپنائیے جنکا فائدہ ذات کو معاشرے کو زیادہ ہو....کہیں میلاد کے طور پر خیرات کرنا لوگوں کے لیے معاشرے کے لیے مفید ہوتا ہے اور کہیں مالی تعاون کرنا اور کہیں گرم جوشی دکھانا اور کہیں پرجوش و علمی خطابات کرانا زیادہ مفید ہوتا ہے اور کہیں عشق و محبت بھری محفلِ نعت دلوں کو جگماتی ہے زیادہ مفید ہوتی ہے اور محفل یادِ مدینہ دلوں کو منور کرتی ہے تو کہیں عشق نبوی میں للکار ایمان تازہ کرتی ہے....مگر ہر حال میں کوشش کی جائے کہ ہر طریقے کے ساتھ ساتھ عمل عقیدے فرائض واجبات سنتوں کی طرف متوجہ کیا جائے

.

بابرکت و رحمت و نعمت کے مہینے رمضان و ربیع الاول میں کثرتِ اظہار عشق و محبت اور کثرتِ نیک اعمال کا یہ مطلب نہیں کہ دیگر مہینوں میں اعمال چھوڑ دییے جائیں،درست عقائد فرائض واجبات سنتیں علم عمل تصوف پے عمل ہر ماہ ہر دن کرنا چاہیے مگر بابرکت و رحمت و نعمت کے مہینوں دنوں راتوں میں خصوصی کثرت کی جائے، ہر ماہ ہر دن خصوصی کثرت ہو تو کیا ہی بات ہے مگر کیا کریں جائز دنیا بھی ضروری ہے اس لیے ہر ماہ ہر دن موقعہ نہیں ملتا تو خصوصی مہینوں دن رات میں موقعہ ملتا ہے تو بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے

.

ربیع الاول رحمت نعمت کا مہینہ ہے دلیل یہ ہے

القرآن:

وَ مَاۤ  اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً  لِّلۡعٰلَمِیۡنَ

 اے محبوب(صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے اپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے

(سورہ انبیاء آیت107)

اللہ کی یہ عظیم رحمت ربیع الاول میں ملی

.

القرآن:

قُلۡ بِفَضۡلِ اللّٰہِ وَ بِرَحۡمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلۡیَفۡرَحُوۡا

 کہہ دو کہ اللہ کے فضل اور اللہ کی رحمت پر مومنوں کو خوشی کرنی چاہیے

(سورہ یونس آیت58)

تو رحمت عالم کی تشریف آوری کے مہینے میں خوشی کے اظہار کے جائز طریقے اپنائیے...مبارکیں دیجیے،خوشیاں پھیلائے،نیک عمل عبادات کیجیے

.

القرآن...ترجمہ:

اپنے رب کی نعمت کا چرچہ کر..(سورہ والضحی آیت11)

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی نعمت ہیں(بخاری روایت3977)میلاد میں اللہ کریم کی عظیم نعمت یعنی حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچہ کیجیے اور انکی سیرت معتبر کتب و بیانات و تحریرات سے پڑھیے پھیلائیے اور عمل کرتے رہنے کی بھرپور کوشش کیجیے

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

آپ میرا نام و نمبر مٹا کر بلانام یا ناشر یا پیشکش لکھ کر اپنا نام ڈال کے آگے فاروڈ کرسکتے ہیں،کاپی پیسٹ کرسکتے ہیں،شئیر کرسکتے ہیں...نمبر اس لیے لکھتاہوں تاکہ تحقیق رد یا اعتراض کرنے والے یا مزید سمجھنے والےآپ سے الجھنے کےبجائے ڈائریکٹ مجھ سے کال یا وتس اپ پے رابطہ کرسکیں...بہتر تو یہ ہے کہ آپ تحریرات اپنے فیس بک اور وتس اپ گروپ پے کاپی پیسٹ کیا کریں،شیئر کریں

اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنی تحریرات اپ کے وتس اپ گروپ یا فیس گروپ پےبھیجا کروں تو آپ مجھے ایڈ کردیں..جزاکم اللہ، شکریہ

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.