Labels

محب صحابہ و اہلبیت؟سیدنا معاویہ کے محب دنیادار ہوتے ہیں کیا؟ دنیا دولت کی اہمیت؟ مدنی چینل پے اشتہار؟

*#کیا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت دنیاداروں کا شیوہ ہے...؟؟ اور اسلام میں دولت مندی کی اہمیت...؟؟ اگر دعوت اسلامی جائز اشتہار چلائے تو.....؟؟ اور سیدنا معاویہ کی عاجزی انکساری زھد و تقوی دینداری عادلانہ حکومت کی ایک جھلک.....!!*

اعتراض:

علامہ صاحب  رافضی نیم رافضی ٹولہ اور مشہدی چمنی ٹولہ فیس آئی ڈیز پیجز اور وٹس اپ گروپس پے یہ بات پھیلا رہے ہیں کہ عظیم صوفی سیدنا سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ دیندار علی کے حب دار ہوتے ہیں اور معاویہ سے محبت کرنے والے دنیادار ہیں(الاستیعاب) اور اس طرح یہ لوگ نام لے کر قبلہ الیاس قادری اور قبلہ Gلالی صاحب کو دیندار کی فہرست سے نکال رہے ہیں اور انکی تحریک دعوت اسلامی و لبیک کو چندہ کھانے والی دنیادار تحریک کہہ رہے ہیں اور ان کے پیروکاروں کو دنیادار کہہ رہےہیں......!!

.

*جواب.و.تحقیق......!!*

*#پہلی بات....یہ قول سیدنا سفیان ثوری سے ثابت ہی نہیں.......!!*

الاستیعاب میں اس قول کی سند یہ لکھی ہے:

حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ قَاسِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بن عمر، حدثنا أحمد بن محمد ابن الْحَجَّاجِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ الْجُعْفِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ الأَوْدِيِّ، قَالَ: أَدْرَكْتُ النَّاسَ وَهُمْ ثَلاثُ طَبَقَاتٍ:أَهْلُ دِينٍ يُحِبُّونَ عَلِيًّا، وَأَهْلُ دُنْيَا يُحِبُّونَ مُعَاوِيَةَ، وَخَوَارِجُ.

(كتاب الاستيعاب في معرفة الأصحاب3/1115)

.

اس سند کا ایک راوی احمد بن محمد بن حجاج ابن رشدین کے متعلق علماء لکھتے ہیں

سَمعتُ أحمد بن صالح يقول: إنك كذاب

احمد بن محمد بن حجاج ابن رشدین کے استاد احمد بن صالح کہتے ہیں کہ ابن رشدین بہت بڑا جھوٹا ہے

(الکامل فی ضعفاء الرجال1/326)

.

أحمد بن محمد بن الحجاج بن رشدين، كذبوه، صاحب مناكير، وبواطيل

أحمد بن محمد بن الحجاج بن رشدين کو علماء محدثین نے جھوٹا قرار دیا ہے، باطل و منکر(جو صحیح کے برخلاف ہوتی ہیں ان)روایات والا قرار دیا ہے

(الأحاديث الواردة في فضائل الصحابة2/382)

.

*#دوسری بات...تبع تابعین میں سے سیدنا سفیان ثوری کا قول ثابت نہیں جبکہ تبع تابعین میں سے سیدنا فضیل فرماتے ہیں کہ(سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ)سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ(اور دیگر صحابہ کرام و اہلبیت عظام علیھم الرضوان) سے محبت ہے مجھے.....!!*

الْفُضَيْلُ: أَوْثَقُ عَمَلِي فِي نَفْسِي حُبُّ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَأَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ , وَحُبِّي أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ جَمِيعًا، وَكَانَ يَتَرَحَّمُ عَلَى مُعَاوِيَةَ وَيَقُولُ: كَانَ مِنَ الْعُلَمَاءِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ

عظیم صوفی تبع تابعی سیدنا فضیل فرماتے ہیں کہ میرے اعمال میں سے سب سے زیادہ مضبوط عمل یہ ہے کہ میں سیدنا ابوبکر اور عمر اور ابو عبیدہ سے محبت کرتا ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام سے محبت کرتا ہوں اور معاویہ پر خصوصی رحمت ہو وہ بھی اصحاب محمد کے علماء صحابیوں میں سے تھے(تمام صحابہ کرام سے محبت کرنے کے دعوے کے بعد سیدنا معاویہ کا صحابہ میں شمار کرنے کا مقصد یہی ہے کہ کوئی سیدنا معاویہ کو محبوب صحابہ سے مستثنیٰ قرار نہ دے بلکہ دوٹوک فرمایا کہ سیدنا معاویہ بھی صحابہ میں سے ہیں، میں ان سے بھی محبت کرتا ہوں)

(السنة لأبي بكر بن الخلال2/438)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سب سے محبت و عقیدت رکھنی چاہیے، یہی اہلسنت کا نظریہ و عقیدہ ہے، یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ و علی وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام سے محبت دیندار رکھتے ہیں

.

*#تیسری بات....سیدنا علی سیدنا معاویہ وغیرہ تمام صحابہ کرام سے محبت اور انکی دینداری و عادل ہونا بیان کرنا اہلسنت  و دینداروں کی نشانی ہے......!!*

*صدیوں پہلے کا علماء و صوفیاء کا اعلامیہ.....!!*

قُرئ الاعتقاد القادريّ بالدّيوان. أخرجه القائم بأمر الله، فقُرئ وحضَره العلماء والزُّهّاد...هذا اعتقادُ المسلمين، ومَن خالفه فقد خالف وفَسَقَ وكَفَر....ويجب أن نحبّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ....ولا نقول في معاوية إلّا خيرًا ولا ندخل  في شيءٍ شَجَرَ بينهم

(اعلامیہ) اعتقاد قادری پڑھا گیا جس میں علما اور صوفیاء شامل ہوئے اس اعتقاد میں یہ لکھا تھا کہ یہ مسلمانوں کا اعتقاد ہے جو اس سے انحراف کرے گا مخالفت کرے گا تو وہ یا تو فاسق ہو جائے گا یا کافر ہو جائے گا... اس اعتقاد قادری میں یہ لکھا تھا کہ ہم (سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ) تمام کے تمام صحابہ کرام سے محبت کرتے ہیں اور بالخصوص سیدنا معاویہ کے متعلق بھلائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہتے اور ان کے درمیان جو کچھ ہوا اس میں ہم نہیں پڑتے

(تاريخ الإسلام - ت تدمري29/323ملتقطا)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سب سے محبت و عقیدت رکھنی چاہیے، یہی اہلسنت کا نظریہ و عقیدہ ہے، یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ و علی وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام سے محبت دیندار رکھتے ہیں

.

امام اہلسنت اما ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

وَلَا نذْكر أحدا من أَصْحَاب رَسُول الله إِلَّا بِخَير

 ہم اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ہر ایک کا تذکرہ بھلائی کے ساتھ کرتے ہیں

(الفقہ الاکبر ص48)

.

عقائد کی مشھور و معتبر کتاب عقیدہ طحاویہ میں امام اہلسنت امام طحاوی فرماتے ہیں

وَنُحِبُّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ وَلَا نُفَرِّطُ فِي حُبِّ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَلَا نَتَبَرَّأُ مِنْ أَحَدٍ مِنْهُمْ

 ہم اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ ہم (سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ)تمام کے تمام صحابہ کرام سے محبت کرتے ہیں اور کسی کی محبت میں غلو نہیں کرتے اور کسی بھی صحابی سے براءت(بے محبتی، لاتعلقی)کا اعلان نہیں کرتے

(امام طحاوی عقیدۃ الطحاوية ص81)

.

 امام طحاوی نے اپنی کتب میں جا بجا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے احادیث روایت کیں جس کا صاف مطلب ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی امام طحاوی کے نزدیک صحابہ کرام میں سے تھے...مثلا امام طحاوی فرماتے ہیں

أَنَّ مُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ...معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

(امام طحاوی شرح مشکل الاثار 4274)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سب سے محبت و عقیدت رکھنی چاہیے، یہی اہلسنت کا نظریہ و عقیدہ ہے، یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ و علی وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام سے محبت دیندار رکھتے ہیں

.

وكل أهل السنة يحبون آل محمد، صلى الله عليه وآله وسلم، ويجب عليهم ذلك، كما يجب عليهم حب أصحاب رسول الله، صلى الله عليه وسلم، أجمعين

 تمام اہل سنت آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور یہ ان پر واجب ہے جس طرح کہ (سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ)تمام کے تمام صحابہ کرام کی محبت واجب ہے

(ابن کثیر طبقات الشافعيين ص9)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سب سے محبت و عقیدت رکھنی چاہیے، یہی اہلسنت کا نظریہ و عقیدہ ہے، یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ و علی وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام سے محبت دیندار رکھتے ہیں

.

ما تنطق به الألسنة وتعتقده الأفئدة من واجب الديانات.....وأن نتولى أصحاب رسول الله صلى الله علية وسلم بأسهم ولا نبحث عن اختلافهم في أمرهم ونمسك عن الخوض في ذكرهم إلا بأحسن الذكر لهم

 یہ وہ عقائد ہیں کہ جو زبان سے بولے جاتے ہیں اور دل ان کو مانتا ہے... انہی عقیدوں میں سے یہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےتمام کے تمام صحابہ کرام(سیدنا معاویہ و سیدنا علی وغیرہ تمام کے تمام صحابہ کرام) سے محبت کریں اور ان میں جو آپس میں اختلاف ہوا اس میں مت پڑیں اور ان کا ذکر ہمیشہ بھلائی کے ساتھ ہی کریں

(الإرشاد إلى سبيل الرشاد ص8ملتقطا)

(طبقات الحنابلة - لابن أبي يعلى - ت الفقي2/181نحوہ)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سب سے محبت و عقیدت رکھنی چاہیے، یہی اہلسنت کا نظریہ و عقیدہ ہے، یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ و علی وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام سے محبت دیندار رکھتے ہیں

.

وإعتقاد أهل السّنة تَزْكِيَة جَمِيع الصَّحَابَة وَالثنَاء عَلَيْهِم كَمَا أثنى الله سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى وَرَسُوله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَلَيْهِم

وَمَا جرى بَين مُعَاوِيَة وَعلي رَضِي الله عَنْهُمَا كَانَ مَبْنِيا على الِاجْتِهَاد

 امام غزالی فرماتے ہیں کہ ہم اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ تمام کے تمام صحابہ کرام کو پاک پاکیزہ دیندار عادل  کہا جائے، سمجھا جائے، پاکیزگی بیان کی جائے اور ان کی تعریف کی جائے جیسے کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف کی ہے، اور جو سیدنا معاویہ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے درمیان ہوا تو وہ اجتہاد پر مبنی تھا(نعوذ باللہ دنیاداری مکاری وغیرہ پر مبنی نہ تھا)

(قواعد العقائد امام غزالي ص227)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سب سے محبت و عقیدت رکھنی چاہیے، یہی اہلسنت کا نظریہ و عقیدہ ہے، یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ و علی وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام سے محبت دیندار رکھتے ہیں

.

پیران پیر دستگیر فرماتے ہیں

واتفق أهل السنة على وجوب الكف عما شجر بينهم، والإمساك عن مساوئهم، وإظهار فضائلهم ومحاسنهم، وتسليم أمرهم إلى الله -عز وجل- على ما كان وجرى من اختلاف علي وطلحة والزبير وعائشة ومعاوية -رضي الله عنهم- على ما قدمنا بيانه، وإعطائه كل ذي فضل فضله،

تمام اہلسنت کا متفقہ نظریہ ہے کہ صحابہ کرام میں جو اختلافات و جگھڑے ہوئے، جو کچھ سیدنا علی و سیدنا طلحہ و سیدنا  زبیر و سیدہ عائشہ و سیدنا معاویہ میں جو کچھ ہوا اس میں ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی ربان کو لگام دیں، ان کی مذمت و برائی نہ کریں،ان کے فضائل و اچھائیاں بیان کریں..(غنیۃ الطالبین1/163ملخصا)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سب سے محبت و عقیدت رکھنی چاہیے، یہی اہلسنت کا نظریہ و عقیدہ ہے، یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ و علی وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام سے محبت دیندار رکھتے ہیں

.

واعتقاد أهل السّنّة تزكية جميع الصّحابة والثناء عليهم، كما أثنى اللَّه سبحانه وتعالى عليهم...، وجميع ذلك يقتضي طهارة الصّحابة والقطع على تعديلهم ونزاهتهم، فلا يحتاج أحد منهم مع تعديل اللَّه تعالى لهم، المطّلع على بواطنهم إلى تعديل أحد من الخلق له

امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ ہم اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ کرام کو پاک پاکیزہ دیندار عادل کہا جائے، سمجھا جائے، پاکیزگی بیان کی جائے اور ان کی تعریف کی جائے جیسے کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف کی ہے... اللہ سبحان و تعالی اور اس کے رسول کے احکامات سے جب ثابت ہوتا ہے کہ تمام صحابہ کرام پاک پاکیزہ عادل دیندار اور عیوب سے منزہ ہیں تو کسی اور کی طرف سے پاکیزگی ثابت کرنے کی حاجت نہیں

(الإصابة في تمييز الصحابة ابن حجر عسقلاني22, 1/24)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سب سے محبت و عقیدت رکھنی چاہیے، یہی اہلسنت کا نظریہ و عقیدہ ہے، یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ و علی وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام سے محبت دیندار رکھتے ہیں

.

أجمع أهل السنة والجماعة أنه يجب على كل مسلم تزكية جميع الصحابة وتعديلهم، والكفُّ عن سبهم والطعن فيهم، والثناءُ عليهم؛ لأن اللَّه تعالى ورسوله عدلهم وزكاهم وأثنى عليهم.

ہم اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ واجب ہے کہ تمام صحابہ کرام کو پاک پاکیزہ دیندار عادل کہا جائے،سمجھا جائے، پاکیزگی بیان کی جائے.. انہیں عادل نیک سچا کہا جائے، ان پر طعن کرنے سے اور انہیں گالی دینے سے روکا جائے اور ان کی تعریف کی جائے کیونکہ  اللہ تعالی نے اور اس کے رسول نے ان کو عادل قرار دیا ہے، ان کو پاکیزہ قرار دیا ہے اور ان کی تعریف کی ہے

(لمعات شرح مشكاة محدث دهلوي9/597)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سب سے محبت و عقیدت رکھنی چاہیے، یہی اہلسنت کا نظریہ و عقیدہ ہے، یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ و علی وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام سے محبت دیندار رکھتے ہیں

.

واعتقاد أهل السنة تزكية جميع الصحابة والثناء عليهم كما أثنى الله سبحانه وتعالى ورسوله - صلى الله عليه وسلم -. وما جرى بين معاوية وعلي رضي الله عنهما كان مبنيا على

الاجتهاد

اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ تمام کے تما صحابہ کرام کو پاک پاکیزہ دیندار عادل کہا جائے، سمجھا جائے، پاکیزگی بیان کی جائے اور ان کی تعریف کی جائے جیسے کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف کی ہے اور سیدنا معاویہ و سیدنا علی کے مابین ہوا وہ اجتہاد پر مبنی تھا(نعوذ باللہ دنیاداری مکاری وغیرہ پر مبنی نہ تھا)

(الأساليب البديعة في فضل الصحابة وإقناع الشيعة ص21)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سب سے محبت و عقیدت رکھنی چاہیے، یہی اہلسنت کا نظریہ و عقیدہ ہے، یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ و علی وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام سے محبت دیندار رکھتے ہیں

.

. وَالَّذِي أَجْمَعَ عَلَيْهِ أَهْلُ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةُ أَنَّهُ يَجِبُ عَلَى كُلِّ أَحَدٍ تَزْكِيَةُ جَمِيعِ الصَّحَابَةِ

 اور جس بات پر تمام اہل سنت و الجماعت کا اجماع ہے وہ یہ ہے کہ ہر ایک پر واجب ہے کہ تمام کے تمام صحابہ کرام کو پاکیزہ دیندار عادل کہے سمجھے، پاکیزگی بیان کرے

(لوامع الأنوار البهية2/388)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سب سے محبت و عقیدت رکھنی چاہیے، یہی اہلسنت کا نظریہ و عقیدہ ہے، یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ و علی وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام سے محبت دیندار رکھتے ہیں

.

اعْلَم أَن الَّذِي أجمع عَلَيْهِ أهل السّنة وَالْجَمَاعَة أَنه يجب على كل أحد تَزْكِيَة جَمِيع الصَّحَابَة

اور جان لو کہ جس بات پر تمام اہل سنت و الجماعت کا اجماع ہے وہ یہ ہے کہ ہر ایک پر واجب ہے کہ تمام کے تمام صحابہ کرام کو پاکیزہ دیندار عادل کہے سمجھے، پاکیزگی بیان کرے

( الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة2/603)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سب سے محبت و عقیدت رکھنی چاہیے، یہی اہلسنت کا نظریہ و عقیدہ ہے، یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ و علی وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام سے محبت دیندار رکھتے ہیں

.

قال ابن الصّلاح: «ثم إن الأمة مجمعة على تعديل جميع الصّحابة ومن لابس الفتن منهم، فكذلك بإجماع العلماء الذين يعتدّ بهم في الإجماع قال الخطيب البغداديّ في الكفاية» مبوبا على عدالتهم: عدالة الصحابة ثابتة معلومة بتعديل اللَّه لهم، وإخباره عن طهارتهم واختياره لهم في نص القرآن.

 علامہ ابن صلاح فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام عادل و دیندار ہیں( فاسق و فاجر دنیادار ظالم منافق نہیں) وہ صحابہ کرام بھی عادل و دیندار ہیں جو جنگوں فتنوں میں پڑے اس پر معتدبہ علماء کا اجماع ہے..خطیب بغدادی فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام عادل و دیندار ہیں(فاسق و فاجر ظالم دنیادار منافق نہیں)صحابہ کرام کی تعدیل اللہ نے فرمائی ہے اور اللہ نے ان کی پاکیزگی کی خبر دی ہے 

(امام ابن حجر عسقلانی.. الإصابة في تمييز الصحابة، 1/22)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سب سے محبت و عقیدت رکھنی چاہیے، یہی اہلسنت کا نظریہ و عقیدہ ہے، یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ و علی وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام سے محبت دیندار رکھتے ہیں

.

وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ مِنَ الْعُدُولِ الْفُضَلَاءِ وَالصَّحَابَةِ النُّجَبَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَمَّا الْحُرُوبُ الَّتِي جَرَتْ فَكَانَتْ لِكُلِّ طَائِفَةٍ شُبْهَةٌ اعْتَقَدَتْ تَصْوِيبَ أَنْفُسِهَا بِسَبَبِهَا وَكُلُّهُمْ عُدُولٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَمُتَأَوِّلُونَ فِي حُرُوبِهِمْ وَغَيْرِهَا وَلَمْ يُخْرِجْ شئ مِنْ ذَلِكَ أَحَدًا مِنْهُمْ عَنِ الْعَدَالَةِ لِأَنَّهُمْ مُجْتَهِدُونَ اخْتَلَفُوا فِي مَسَائِلَ مِنْ مَحَلِّ الِاجْتِهَادِ كَمَا يَخْتَلِفُ الْمُجْتَهِدُونَ بَعْدَهُمْ فِي مَسَائِلَ مِنَ الدِّمَاءِ وَغَيْرِهَا وَلَا يَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ نَقْصُ أَحَدٍ مِنْهُمْ

سیدنا معاویہ عادل و دیندار فضیلت والے نجباء صحابہ میں سے ہیں باقی جو ان میں جنگ ہوئی تو ان میں سے ہر ایک کے پاس شبہات تھے اجتہاد جس کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی عادل ہونے کی صفت سے باہر نہیں نکلتا اور ان میں کوئی نقص و عیب نہیں بنتا

(امام نووي ,شرح النووي على مسلم ,15/149)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سب سے محبت و عقیدت رکھنی چاہیے، یہی اہلسنت کا نظریہ و عقیدہ ہے، یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ و علی وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام سے محبت دیندار رکھتے ہیں


.

أن الصحابة كلهم عدول من لابس منهم الفتنة ومن لم يلابس

تمام صحابہ کرام عادل و دیندار ہیں( فاسق و فاجر ظالم دنیادار منافق نہیں)وہ بھی عادل و دیندار ہیں جو فتنوں جنگوں میں پڑے اور وہ بھی جو نہ پڑے 

(تفسير الألوسي = روح المعاني،6/140)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سب سے محبت و عقیدت رکھنی چاہیے، یہی اہلسنت کا نظریہ و عقیدہ ہے، یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ و علی وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام سے محبت دیندار رکھتے ہیں

.

الصَّحَابَةُ كُلُّهُمْ عُدُولٌ مَنْ لَابَسَ الْفِتَنَ وَغَيْرُهُمْ بِإِجْمَاعِ مَنْ يُعْتَدُّ بِهِ

تمام صحابہ کرام عادل و دیندار ہیں( فاسق و فاجر دنیادار ظالم منافق نہیں) وہ صحابہ کرام بھی عادل و دیندار ہیں جو جنگوں فتنوں میں پڑے اس پر معتدبہ علماء کا اجماع ہے

(امام سیوطی تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي2/674)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سب سے محبت و عقیدت رکھنی چاہیے، یہی اہلسنت کا نظریہ و عقیدہ ہے، یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ و علی وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام سے محبت دیندار رکھتے ہیں

.

إنهم كلهم عدول، كبيرهم وصغيرهم، من لابس الفتن وغيرهم بإجماع من يعتد بهم.

چھوٹے بڑے تمام صحابہ کرام عادل و دیندار ہیں( فاسق و فاجر ظالم دنیادار منافق نہیں)وہ بھی عادل و دیندار ہیں جو جنگوں فتنوں میں پڑے اور وہ بھی جو جنگوں میں نہ پڑے اس پر معتدبہ علماء اور امت کا اجماع ہے 

(مجمع بحار الأنوار5/276)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سب سے محبت و عقیدت رکھنی چاہیے، یہی اہلسنت کا نظریہ و عقیدہ ہے، یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ و علی وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام سے محبت دیندار رکھتے ہیں

.

*محبت صحابہ و اہلبیت قرآن و احادیث سے ثابت ہے، چند احادیث ملاحظہ کیجیے.....!!*

وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي....رسول کریمﷺنےفرمایا:

میرے صحابہ میری امت کے لیے (ستاروں کی طرح) امان ہیں

(مسلم حدیث6466)

.

الحدیث:

آيَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ

رسول کریمﷺنےفرمایا:

انصار صحابہ سے محبت ایمان کی نشانی ہے، اور ان سے بغض رکھنا منافقت کی نشانی ہے...(بخاری حدیث17)

.

وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي

رسول کریمﷺنےفرمایا:

جس نےمیرےصحابہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی(ترمذی حدیث3862)

.

فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيفَهُ

رسول کریمﷺنےفرمایا:

(میرے صحابہ کی تو ایسی عظیم شان و فضیلت و عظمت ہے کہ)تم میں سے کوئی احد پہاڑ جتنا سونا خرچ کرے تو میرے صحابہ کے ایک مد یا آدھے مد کے برابر نہیں

(بخاری حدیث3673)

.

الحدیث:

فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ،

رسول کریمﷺنےفرمایا:

جو میرے صحابہ سے محبت رکھے تو یہ مجھ سے محبت ہے اسی وجہ سے میں اس سے محبت رکھتا ہوں اور جو ان سے بغض کرے نفرت و گستاخی کرے تو یہ مجھ سے بغض و نفرت ہے...(ترمذی حدیث3862)

.

الحدیث

وَأَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِي بِحُبِّي

رسول کریمﷺنےفرمایا:

میرے اہل بیت سے محبت رکھو میری محبت کی وجہ سے...(ترمذی حدیث3789)

.

الحدیث:

مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ، وَالْحُسَيْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِي

رسول کریمﷺنےفرمایا:

جس نے حسن اور حسین سے محبت رکھی بے شک اس نے مجھ سے محبت رکھی، جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا

(ابن ماجہ حدیث143)

.

الحدیث

أَنَّهُ لَا يُحِبُّكَ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضُكَ إِلَّا مُنَافِقٌ

رسول کریمﷺنےفرمایا:

اے علی تجھ محبت مومن ہی رکھے گا اور تجھ سے بغض و نفرت منافق ہی رکھے گا

(ترمذی حدیث3736)

.

رسول کریمﷺنےفرمایا:

جس نےفاطمہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی(ترمذی حدیث3869)

.


*#چوتھی بات...سیدنا حسین کے مطابق سیدنا معاویہ  اور انکی حکومت دینداری والی تھی ، بری نہ تھی تو سیدنا حسین کی مخالفت کرتے ہوئے دیندار ہونے کی نفی کیسے کریں گے سیدنا سفیان ثوری.....؟؟*


فقَالَ الحسين إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ رحم الله معاوية

 سیدنا معاویہ کی وفات کی خبر سیدنا حسین کو دی تو سیدنا حسین نے فرمایا انا للہ وانا الیہ راجعون، اللہ سیدنا معاویہ پر خصوصی رحمت فرمائے

(المنتظم في تاريخ الملوك والأمم5/323)

(البداية والنهاية ط السعادة8/147نحوہ)


.

فنعى الوليد إليه معاوية فاسترجع الحسين...سیدنا حسین کو جب سیدنا معاویہ کی وفات کی خبر دی گئ تو آپ نےاِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا…(شیعہ کتاب اعلام الوری طبرسی1/434) مسلمان کو کوئی مصیبت،دکھ ملےتو کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ(سورہ بقرہ156) ثابت ہوا سیدنا معاویہ امام حسین کے مطابق کافر ظالم منافق دشمن برے ہرگز نہ تھے اچھے دیندار تھے کہ انکی وفات کو دکھ سمجھا...!!

.

*#پانچویں بات..سیدنا علی نے سیدنا معاویہ و انکی حکومت کو ناپسند نہ کرنے کی وصیت فرما گئے تھے اگر سیدنا معاویہ دیندار نہ تھے تو سیدنا علی نے کیسے تلقین کی اس کے متعلق جو دیندار نہ ہو.......؟؟*

سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: «لَا تَكْرَهُوا إِمَارَةَ مُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بادشاہت کو ناپسند نہ کرنا

(السنة لعبد الله بن أحمد2/550)

(حلم معاوية لابن أبي الدنيا ص20)

( الطبقات الكبرى ص120)

(استاد بخاری المصنف لابن ابي شيبة7/548)

(جامع الأحاديث سیوطی31/493)

.

*#چھٹی بات...دنیا کمانا احادیث کی روشنی میں...؟؟سیدنا سفیان ثوری کی نظر میں......؟؟*

سیدنا سفیان ثوری خود دولت مال بہت کمانے کی جائز تدابیر فرماتے تھے اور جائز دولتمندی کو ایک طرح سے لازم قرار دیتے تھے تو سیدنا معاویہ کا دولتمند ہونا سیدنا سفیان کے مطابق بھی اہم تھا ورنہ دشمن کفار برے بادشاہ مسلمانوں کو اور اسلام کو اور مسلمان بادشاہ کو دبانے میں شاید کامیاب ہوجاتے

اور

سیدنا سفیان کے قول و عمل سے اور قرآن و احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اچھے مسلمانوں کو، اچھی تحاریک مثلا آج کل کی تحاریک لبیک و دعوت اسلامی کو چاہیے کہ مال و دولت کمانے کی جائز تدابیر کریں، یہ کوئی دنیاداری عیب و جرم کی بات نہیں

.

جب جائز دولتمندی تو احادیث سے بھی ثابت ہے،سیدنا سفیان ثوری وغیرہ علماء صوفیاء سے بھی ثابت ہے

تو

لبیک و دعوت اسلامی و دیگر سچے اہلسنت علماء مشائخ ورکرز تحاریک اگر جائز مشروط اشتہار محتاط طریقے سےبنائیں بنوائیں اور چلائیں اور پیسہ کما کر اسلام میں لگائیں،اسکول کالج ہسپتال تجارت دوکان چلائیں پیسہ کمائیں، اسلام میں لگائیں تو آپ برا مت منائیے گا اور نہ ہی جانی مالی تعاون کم کیجیے گا کہ ایسے سچے اچھے لوگ جائز طریقے سے جتنے زیادہ دولت مند و طاقتور ہونگے اتنا ہی اسلام کے لیے اور حق کے لیے اور معاشرے کے لیے اچھا ہے

.

- وَعَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قَالَ: كَانَ الْمَالُ فِيمَا مَضَى يُكْرَهُ، فَأَمَّا الْيَوْمَ فَهُوَ تُرْسُ الْمُؤْمِنِ. وَقَالَ: لَوْلَا هَذِهِ الدَّنَانِيرُ لَتَمَنْدَلَ بِنَا هَؤُلَاءِ الْمُلُوكُ

سیدنا سفیان ثوری کے مطابق پہلے پہل دولت کمانا زیادہ پسندیدہ نہ تھا مگر(پھر اس کے بعد اور) آج مال و دولت(جائز طریقے سے)بہت کمانا جمع کرنا مومن کے لیے ایک ڈھال و بچاؤ ہے کہ ورنہ یہ(برے)بادشاہ(برے سرمایہ دار،  برے مالدار برےطاقتور)ہمیں رومال(غلام، چاپلوس) بنا لیتے

(مشکاۃ مع مرقاۃ8/3311)

.

قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: كَانَ الْمَالُ فِيمَا مَضَى يُكْرَهُ، فَأَمَّا الْيَوْمَ، فَهُوَ تُرْسُ الْمُؤْمِنِ

سیدنا سفیان ثوری کے مطابق پہلے پہل دولت کمانا زیادہ پسندیدہ نہ تھا مگر(پھر اس کے بعد اور) آج مال و دولت(جائز طریقے سے)بہت کمانا جمع کرنا مومن کے لیے ایک ڈھال و بچاؤ ہے

(شرح السنة للبغوي14/291)

.

الثوري: المال في هذا الزمان عزّ للمؤمن... وقال: المال سلاح المؤمن في هذا الزمان

 سیدنا سفیان ثوری فرماتے ہیں آج کے زمانے میں مومن کے لیے جائز طریقے سے دولتمند ہونا عزت کا باعث ہے اور آج کے زمانے میں جائز طریقے سے بہت دولت کمانا مومن کے لئے ہتھیار ہے

(روض الأخيار المنتخب من ربيع الأبرار ص122)

.

رواد بن الجراح: سمعت الثوري يقوّل: كان المال فيما مضى يكره،فاما اليوم فهو ترس المؤمن

رواد فرماتے ہیں کہ میں نےسیدنا سفیان ثوری کو فرماتے سنا کہ پہلے پہل دولت کمانا زیادہ پسندیدہ نہ تھا مگر(پھر اس کے بعد اور) آج مال و دولت(جائز طریقے سے)بہت کمانا جمع کرنا مومن کے لیے ایک ڈھال و بچاؤ ہے

(تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال4/72)

.

جَاءَ رَجُلٌ إِلَى الثَّوْرِيِّ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ اللهِ تَمْسِكُ هَذِهِ الدَّنَانِيرَ؟ فَقَالَ: اسْكُتْ لَوْلَا هَذِهِ الدَّنَانِيرُ لَتَمَنْدَلَ بِنَا هَؤُلَاءِ الْمُلُوكُ

 ایک شخص سیدنا سفیان ثوری کے پاس آیا اور عرض کی کہ آپ جیسا عظیم صوفی جو دنیا سے بے رغبت ہے وہ دیناروں کو پکڑے ہوئے ہے....؟؟ سیدنا سفیان ثوری نے فرمایا کہ خاموش ہو جا ، یہ دینار(جائز مال و دولت) نہ ہوتےتو(برے)بادشاہ(برے سرمایہ دار،  برے مالدار برےطاقتور)ہمیں رومال(غلام، چاپلوس) بنا لیتے

(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة6/381)

.

*جائز دولتمندی طاقتوری احادیث کی روشنی میں......!!*

لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ : رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا 

 دو لوگ قابل رشک ہیں(کہ ان کی پیروی کی جائے ان جیسا بنا جائے) ایک وہ جو(اچھے علم و عمل کے ساتھ ساتھ) اچھا دولت مند ہے اور اپنی دولت حق کے معاملے میں بہت خرچ کرتا ہے اور دوسرا وہ جس کو اللہ نے علم و حکمت سے نوازا ہے اور وہ علم و حکمت کے ذریعے فیصلہ کرتا ہے اور حکمت و علم سکھاتا ہے

(بخاری حدیث73)

.

ایک دفعہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس دولتمندی کا تذکرہ ہوا تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:

لا بأس بالغنى لمن اتقى، والصحة لمن اتقى خير من الغنى، وطيب النفس من النعيم

ترجمہ:

دولت مندی(جائز طریقے سے دولت پیسہ کمانے) میں کوئی مضائقہ نہیں اُس کے لیے جو تقوی کرے، اور صحت دولت سے بہتر ہے اُس کے لیے جو تقوی کرے،اور اچھی طبیعت(خوش اخلاقی، پاکیزہ طبیعت) نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے

(ابن ماجہ حدیث2141)

.

(دینی دنیاوی جسمانی معاشی طبی ٹیکنالوجی وغیرہ ہر جائز و مناسب میدان میں)طاقت حاصل کرنے والا مومن کمزور سےزیادہ بہتر و اللہ کو زیادہ محبوب ہے..(مسلم حدیث2664)

عبادات و دینی علم لینا دینا و عمل کرنے کے ساتھ ساتھ جائز دولت طاقت طب ٹیکنالوجی علوم فنون سیاست عدالت فوج و جائز دنیا میں جانا،چھا جانا،سخاوت کرنا،امداد علم شعور لینا دینا،جدت محنت "مناسب جائز تفریح" ترقی احتیاط دوا دعاء عبادت توبہ استغفار اور سچوں اچھوں کو دولت و اقتدار میں لانا وغیرہ سب پے عمل کرنا چاہیے کہ وقت کا صحیح استعمال اور مسائل کا یہی بہترین حل ہے اور ترقی کی یہی راہ ہے

.

جدت ممنوع نہیں بشرطیکہ کسی ممنوع شرعی میں شامل نہ ہو(فتاوی رضویہ22/191)اسلام مدارس اسکول کالج وغیرہ کی جدت،جدید تعلیم.و.ٹیکنالوجی،دولت کےخلاف نہیں مگر جدت تعلیم معیشت کےنام پر خفیہ سیکیولرازم،لبرل ازم،فحاشی سود چاپلوسی بےحیائی برائی کےخلاف ہے

.

الحدیث

نِعْمًا بِالْمَالِ الصَّالِحُ لِلرَّجُلِ الصَّالِحِ

کیا ہی اچھا ہے وہ "اچھا مال" (وہ پاکیزہ، حلال مال.و.دولت) جو اچھے شخص کے پاس ہو..(مسند احمد حدیث7309)

.

وَهُوَ جَالِسٌ يَأْخُذُ الدَّرَاهِمَ، فَقِيلَ لَهُ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا كَانَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ لَا بُدَّ لِلنَّاسِ فِيهَا مِنَ الدَّرَاهِمِ وَالدَّنَانِيرِ يُقِيمُ الرَّجُلُ بِهَا دِينَهُ ودُنْيَاهُ

یعنی

صحابی سیدنا مقدام دودھ بیچنےکے درھم لیئےبیٹھے تھے،کسی نےسوال کیا تو فرمایا:رسول کریمﷺنےفرمایا آخری زمانہ میں درھم و دینار(حلال دنیا دولت)ضروری ہوگی جسکےذریعےبندہ اپنا دین و دنیا قائم رکھےگا(طبرانی کبیر حدیث660)اےدیندارو دین کے ساتھ ساتھ سائنس، ٹیکنالوجی، سیاست، تجارت، طب، جدت، دولت علوم فنون میں آؤ…چھا جاؤ…بڑےدیندار امیر لیڈر طاقتور بن جاؤ…اےدنیادارو امیرو طاقتورو حکمرانو کاش تم بڑےدیندار بن جاؤ

.

*سیدنا معاویہ برے دولتمند نہ تھے، دیندار، کرم نوازی والے اور سخی تھے اور انکی حکومت عادلانہ برحق تھی سوائے کچھ عرصہ کے.....!!*

وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَسْوَدَ مِنْ مُعَاوِيَةَ.

سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا معاویہ سے بڑھ کر کسی کو کثرت سے کرم نوازی کرنے والا ، حلم و بردباری والا، سخاوت کرنے والا نہیں پایا

[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ,9/357 روایت15921]

[السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/441]

.

*بعض لوگ طلقاء مولفۃ القلوب کہہ کر سیدنا معاویہ کا مرتبہ لوگوں میں کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ سیدنا معاویہ اس کے بعد حسن الاسلام بڑے اچھے دیندار بن گئے تھے.....!!*

أسلم هو وأبوه يوم فتح مكة، وشهد حُنينًا وكان من المؤلفة قلوبهم، ثم حسن إسلامه

سیدنا معاویہ اور انکے والد سیدنا ابو سفیان فتح مکہ کے دن ایمان لائے جہاد حنین (وغیرہ) میں شریک ہوئے، پہلے پہل مولفۃ القلوب تھے پھر اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے

(تاريخ الخلفاء سيوطي ص148)

.

أبو سفيان بن حرب» ، و «معاوية» ابنه، ثم حسن إسلامهما

سیدنا معاویہ اور انکے والد سیدنا ابو سفیان فتح مکہ کے دن ایمان لائے(پہلے پہل مولفۃ القلوب تھے) پھر اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے

(المعارف ابن قتيبة 1/342)

.


*سیدنا معاویہ کی حکومت سیدنا عمر کی حکومت جیسی عادلانہ برحق تھی،رضی اللہ تعالیٰ عنھما*

وقد كان ينبغي أن تلحق دولة معاوية وأخباره بدول الخلفاء وأخبارهم فهو تاليهم في الفضل والعدالة والصحبة

(سیدنا امام حسن نے جب حکومت سیدنا معاویہ کو دی انکی بیعت کی، ان سے صلح کی تو اس کے بعد)سیدنا معاویہ کی حکومت خلفاء راشدین کی حکومت کی طرح حکومت عادلہ کہلانی چاہیے اور سیدنا معاویہ کے اقوال و اخبار بھی خلفاء راشدین کے اقوال و اخبار کی طرح کہلانے چاہیے کیونکہ فضیلت عدالت اور صحابیت میں سیدنا معاویہ خلفاء راشدین کے بعد میں شریک ہیں

(تاریخ ابن خلدون2/650)

.

عَمِلَ مُعَاوِيَةُ بِسِيرَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ سِنِينَ لَا يَخْرِمُ مِنْهَا شَيْئًا»

سیدنا معاویہ نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت پر سالوں تک عمل کیا۔۔۔ان سالوں میں سوئی برابر بھی راہ حق سے نہ ہٹے 

(السنة لأبي بكر بن الخلال روایت683)

وقال المحقق إسناده صحيح

(حاشیۃ معاوية بن أبي سفيان أمير المؤمنين وكاتب وحي النبي الأمين صلى الله عليه وسلم - كشف شبهات ورد مفتريات1/151)

سالوں کی قید شاید اس لیے لگاءی کہ تاکہ وہ سال نکل جائیں جن میں سیدنا معاویہ نے ولی عہد کیا...کیونکہ ولی عہد سیدنا عمر کی سیرت نہیں بلکہ سیدنا معاویہ کا اجتہاد تھا...جب سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حکومت سیدنا عمر کے نقش قدم پر تھی اور سیدنا عمر کی حکومت رسول کریم کے ارشادات کے مطابق تھی تو ایسی برحق عادلانہ حکومتوں کے متعلق کیسے کوئی کہہ سکتا ہے کہ بری ظالمانہ دنیادارانہ تھیں.....؟؟

اس

روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ عاجزی انکساری عبادت گذاری عوام کی خدمت غریبوں کی مدد صحابہ و اہلبیت اور انکی اولادوں کی خدمت اور جہاد جدت و ترقیاتی کام ، برائی سے بچنے بچانے،  نیکی کا حکم دینے وغیرہ معاملات میں سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سخت پیروکار تھے اور سیدنا عمر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکات و سنن کے پیروکار تھے، جدت ترقی اجتہاد بھی حدیث و سنت سے ثابت ہے انکی......!!

.

فَيَدُورُ عَلَى الْمَجَالِسِ يَسْأَلُ هَلْ وُلِدَ لِأَحَدٍ مَوْلُودٌ، أَوْ قَدِمَ أَحَدٌ مِنَ الْوُفُودِ، فَإِذَا أُخْبِرَ بِذَلِكَ أَثْبَتَ فِي الدِّيوَانِ. يَعْنِي لِيُجْرِيَ عَلَيْهِ الرِّزْقَ

 (سیدنا معاویہ نے احادیث و حضرت سیدنا عمر کی سیرت سے اخذ کرکے ایک شخص کو مقرر کیا کہ)وہ چکر لگاتا اگر کہیں کوئی اولاد پیدا ہوتی یا کہیں کوئی وفد و مہمان آتا تو(سیدنا معاویہ کی حکومت کی طرف سے) اس کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کیا جاتا تھا، بچے کے لیے ضروریات کا انتظام کیا جاتا...(البداية والنهاية ت التركي11/438)

.

*تقریبا آدھی دنیا کے حکمران تھے سیدنا معاویہ اور سخی و مددگار بھی تھے تو ان کے لیے جائز طریقے سے دولمتمندی بہت اہم تھی......!!*

وفي سنة ثلاث وأربعين فتحت الرخج وغيرها من بلاد سجستان، وودان من برقة، وكور من بلاد السودان

وفي سنة خمس وأربعين فتحت القيقان قوهستان

خلاصہ:

رخج وغیرہا کئ ممالک سجستان ودان کور سوڈان قعقان قوہستان وغیرہ کئ ممالک سلطنتیں سیدنا معاویہ کے دور میں فتح ہوئے...عرب تا افریقہ تک تقریبا آدھی دنیا پر سیدنا معاویہ کی حکومت تھی

[تاريخ الخلفاء ,page 149ملخصا]

.

*سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عاجزی انکساری زھد و تقوی کی ایک جھلک.......!!*

خَرَجَ مُعَاوِيَةُ ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَابْنُ صَفْوَانَ حِينَ رَأَوْهُ، فَقَالَ : اجْلِسَا....

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے تو سیدنا عبداللہ بن زبیر اور سیدنا ابن صفوان نے جب ان کو دیکھا تو کھڑے ہو گئے( سیدنا معاویہ نے عاجزی انکساری کرتے ہوئے ، شریعت و حدیث پے عمل کرتے ہوئے فرمایا میرے لیے کھڑے نہ ہوا کرو اور)فرمایا کہ بیٹھ جاؤ

(ترمذی 2755)

.

قَلَّمَا يَكَادُ أَنْ يَدَعَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ أَنْ يُحَدِّثَ بِهِنَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ : " مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّ هَذَا الْمَالَ حُلْوٌ خَضِرٌ ، فَمَنْ يَأْخُذْهُ بِحَقِّهِ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَإِيَّاكُمْ وَالتَّمَادُحَ فَإِنَّهُ الذَّبْحُ

 سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اکثر جمعہ مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے اور یہ مال میٹھا ہے سرسبز ہے جو شخص اس کو حق کے ساتھ لے گا اس کے لیے برکت ہوگی اور اپنے آپ کو (خوشامدی اور مبالغانہ ناحق یا زیادہ)تعریف کرنے والا مت بناؤ کہ یہ ہلاکت میں ڈالنا ہے

(مسند احمد بن حنبل 16846)

 واضح ہوتا ہے کہ سیدنا معاویہ اپنی تعریف کروانے والے، واہ واہ کروانے والے نہ تھے،لوگوں کو خوشامدی چاپلوس چمچہ بننے سے روکتے تھے،  وہ عاجزی انکساری والے تھے

.

، فأخذت من شعره، وهو في موضع كذا وكذا، فإذا أنا مت فخذوا ذلك الشعر فاحشوا به فمي ومنخري.... ثم أغمي عليه. ثم أفاق فقال لمن حضره من أهله: اتقوا الله، فإن الله يقي من اتقاه، ولا تقى لمن لا يتقي الله ثم قضي

 سیدنا معاویہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک لئے ہیں اور وہ فلاں جگہ پر رکھے ہیں جب میں وفات پا جاؤں تو ان بالوں کو لینا اور میرے منہ پے رکھنا(گویا میرے ہونٹ رسول کریم کے بال مبارک چومتے رہیں)اور منخر پے رکھنا... پھر کچھ کلام کرنے کے بعد آپ پر غشی طاری ہو گئی، جب ہوش آیا تو فرمایا اے اہل خانہ تقوی اختیار کرنا، جو اللہ سے نہیں ڈرتا اس کا کوئی تقوی نہیں

(فصل الخطاب في الزهد والرقائق والآداب2/163)

ایسی ادا،  ایسی وصیت اور تقوی کی نصیحت....اللہ اللہ کوئی عجز و انکساری والا عاشق رسول ہی کرسکتا ہے

.

، فقال معاوية للناس: إن هذا أحياني أحياه الله

 ایک شخص نے سیدنا معاویہ کو مدلل جواب دیا تو آپ نے ان کی اصلاح کو قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نے مجھے زندہ کر دیا ہے اللہ اسے زندہ رکھے

(موسوعة الأخلاق والزهد والرقائق1/241)

ثابت ہوا کہ تکبر بڑائی والے نہ تھے، اصلاح قبول فرما لیتے جوکہ عاجزی و انکساری کی علامت ہے...ہاں سیدنا معاویہ اجتہادی مسائل میں مدلل اختلاف بھی رکھتے تھے جیسے کہ دیگر بعض صحابہ کرام و بعض اہلبیت عظام بھی مدلل فروعی اجتہادی اختلاف کرتے تھے

.

دَخَلَ عَلَى مُعَاوِيَةَ فَحَدَّثَهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: فَبَكَى مُعَاوِيَةُ فَاشْتَدَّ بُكَاؤُهُ ثُمَّ أَفَاقَ، وَهُوَ يَقُولُ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ

 ایک راوی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا معاویہ کو ایک حدیث پاک سنائی تو راوی کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رونے لگے اور بہت شدید روئے پھر جب ان کو افاقہ ہوا تو کہنے لگے اللہ نے سچ فرمایا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا

(الزهد والرقائق - ابن المبارك - ت الأعظمي ص159)

.

 يا معاوية، إن هذا المال ليس بمالك ولا مال أبيك وأمك، فبأي حق تحبسه عن الناس؟! فبدا الغضب على وجه معاوية وجعل الناس يترقبون ما عسى أن يكون منه، فما كان منه إلا أن أشار إلى الناس: أن امكثوا في أماكنكم ولا تبرحوها، ثم نزل عن المنبر وتوضأ، وأراق على نفسه شيئًا من الماء ثم صعد المنبر، فحمد الله عز وجل وأثنى عليه بما هو أهله، وقال: إن أبا مسلم قد ذكر أن هذا المال ليس بمالي ولا مال أبي وأمي، وقد صدق أبو مسلم فيما قال، وإني سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول: "إن الغضب من الشيطان، وإن الشيطان خلق من النار، وإنما تطفأ النار بالماء، فإذا غضب أحدكم فليتوضأ" [رواه أبو داو)أيها الناس: اغدوا علي أعطياتكم على بركة الله عز وجل

خلاصہ:

ابو مسلم نےسیدنا معاویہ سے فرمایا کہ آپ عطیات کیوں نہیں دے رہے....؟؟ یہ آپ کے ذاتی تو نہیں ہیں...؟؟ سیدنا معاویہ ممبر سے نیچے تشریف لائے اور وضو فرمایا... پھر ممبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ ابو مسلم نے سچ کہا ہے اور رسول کریم نے فرمایا ہے کہ جب غصہ آئے تو اس کو پانی سے ٹھنڈا کرو(لیھذا میں نے وضو کیا)تو لے لو مجھ سے اپنے عطیات اللہ کی برکت سے

(موسوعة الأخلاق والزهد والرقائق2/131)

.

: رَأَيْتُ مُعَاوِيَةَ عَلَى الْمِنْبَرِ بِدِمَشْقَ يَخْطُبُ النَّاسَ وَعَلَيْهِ قَمِيصٌ مَرْقُوعٌ

 راوی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا معاویہ کو دمشق میں ممبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا وہ لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے اور آپ کی قمیض مبارک پر پیوند لگے ہوئے تھے

(الزهد لأحمد بن حنبل ص142)

.

انَ مُعَاوِيَةُ مُتَوَاضِعًا....رَأَيْتُ مُعَاوِيَةَ فِي سُوقِ دِمَشْقَ وَهُوَ مُرْدِفٌ وَرَاءَهُ وَصِيفًا، عَلَيْهِ قَمِيصٌ مَرْقُوعُ الْجَيْبِ، وَهُوَ يَسِيرُ فِي أَسْوَاقِ دِمَشْقَ

 بے شک سیدنا معاویہ بہت عاجزی انکساری والے تھے میں نے سیدنا معاویہ کو دمشق کے بازاروں میں دیکھا کہ وہ بازاروں میں گھوم رہے تھے حالانکہ آپ کی قمیض مبارک پر پیوند لگے تھے

(البداية والنهاية ت التركي11/438)

.

بعض اسلامی بادشاہوں اور علماء صوفیاء ائمہ سے عمدہ لباس پہننا ، عمدہ جگہ بیٹھنا بھی ثابت ہے تو یہ بھی سنتِ رسول سے ثابت ہے بشرطیکہ ہم تکبر نہ کریں،  دوسروں کو ، طلباء کو، ماتحتوں کو، محبین کو ، مریدین کو ، عوام کو حقیر نہ سمجھیں اور موقعہ مناسبت سے عاجزی انکساری کا اظہار بھی کریں......!!

.

رَأَيْتُهُ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ لَمْ أَرَ شَيْئًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ

 صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو سرخ دھاری دار عمدہ پوشاک میں دیکھا، آپ سے بڑھ کر کوئی حَسین و خوبصورت نہیں دیکھا

(بخاری3551)

.

ثُمَّ جَاءَ وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ شَامِيَّةٌ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ شامی جبہ مبارک پہنے ہوئے تھے

(مسلم629)

.

رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ إِضْحِيَانٍ ، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى الْقَمَرِ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ، فَإِذَا هُوَ عِنْدِي أَحْسَنُ مِنَ الْقَمَرِ

صحابی فرماتے ہیں

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چاندنی رات میں دیکھا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور چاند کو دیکھنے لگا ، آپ نے سرخ دھاری دار عمدہ پوشاک پہنی تھی، میری نظر میں حضور چاند سے زیادہ حَسین و خوبصورت تھے

(ترمذی 2811)

.

ھذہ جُبَّةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَلْبَسُهَا لِلْوُفُودِ، وَيَوْمَ الْجُمُعَةِ

یہ جبہ مبارک جو رسول کریم صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ملاقاتوں کے لیے اور جمعہ(اور عید وغیرہ)میں پہنا کرتے تھے

(الأدب المفرد بخاری - ت عبد الباقي ص127)

.

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا قَدِمَ عَلَيْهِ الْوَفْدُ لَبِسَ أَحْسَنَ ثِيَابِهِ، وَأَمَرَ أَصْحَابَهُ بِذَلِكَ

جب کوئی وفد آتا تو نبی کریم صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عمدہ لباس پہنتے اور صحابہ کرام کو بھی عمدہ لباس پہننے کا فرماتے

(معرفة الصحابة لأبي نعيم2/584)

.

.

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،ترجمہ:

جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو وہ جنت میں نہیں جاے گا،،ایک شخص نے عرض کیا:

کوئی شخص پسند کرتا ہے کہ اسکے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں،صاف ستھرے ہوں(تو کیا یہ بھی تکبر ہے.؟)آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:

"بے شک اللہ عزوجل جمیل ہے اور جمال (سنورنے، صفائی ستھرائی رکھنے والوں)کو پسند فرماتا ہے، (یہ سب تکبر نہیں)تکبر تو یہ ہے کہ

حق کی پرواہ نا کی جاے،حق کو ٹھکرایا جائے اور لوگوں کو حقیر سمجھا جاے..(مسلم حدیث نمبر147)

نوٹ:

صحابہ کرام اہلبیت عظام خوبصورتی بھی اپناتے اور تواضع عجز و انکساری بھی فرماتے، حق بولتے، حق قبول فرماتے تھے

وہ متکبر نہ تھے

لیکن

ہمیں خوف کرنا چاہیے کہ ہم میں کہیں کسی قسم کا تکبر نہ آجائے.....اللہ ہمیں توانگرانہ تکبر... عاجزانہ، فقیرانہ تکبر...

شعورانہ تکبر... عالمانہ تکبر... عملی تکبر... وڈیرانہ تکبر... لیڈرانہ تکبر.. منصب کا تکبر.. دولت کا تکبر... طاقت کا تکبر...

گروپ،پارٹی،قومیت کا تکبر..

علم،تعلیم،ایجوکیشن کا تکبر...

اپنی خاصیت.و.خوبی کا تکبر...

الغرض

اللہ ہمیں ہر قسم کے تکبر سے محفوظ فرماے...صفائی ستھرائی سجنا سنورنا حق کے لیے ہو... اللہ ہمیں حق کی پرواہ کرنے والا بنائے اور حقوق کی ادائیگی کرنے والا بنائے، دوسروں کی عزت و احترام کرنے والا بنائے...اپنی علمیت لیڈریت سیاست خدمات سیادت(سید ہونا)صاحبزادیت تونگری فقیریت سخاوت وغیرہ صفات و خصوصیات جتانے سے محفوظ فرمائے......!!

.

سیدنا معاویہ فقیہ مجتہد تھے

قَالَ : إِنَّهُ فَقِيهٌ

  فرمایا کہ بےشک معاویہ فقیہ ہیں

(بخاری روایت3765)

الحدیث:

فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ، فَلَهُ أَجْرٌ

 اجتہاد کرے پھر وہ درستگی کو پائے تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر اجتہاد کرے اور خطاء کرے تو اس کے لئے ایک اجر ہے(بخاری حدیث7352)

.

.

*سیدنا معاویہ اور عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جھلک*

أوصى أن يكفن فِي قميص كَانَ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قد كساه إياه، وأن يجعل مما يلي جسده، وَكَانَ عنده قلامة أظفار رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فأوصى أن تسحق وتجعل فِي عينيه وفمه

ترجمہ:

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے وصیت کی تھی کہ انہیں کفن میں وہ قمیض پہنائی جائے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہنائی تھی اور سیدنا معاویہ کے پاس حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے ناخن مبارک کے ٹکڑے تھے ان کے متعلق وصیت فرمائی کہ وہ ان کی آنکھوں اور منہ پر رکھے جائیں 

[أسد الغابة ,5/201]

.

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتے تھے،ایک دفعہ حضرت قابس بن ربیعہ آپ کے پاس آئے تو آپ انکی تعظیم میں کھڑے ہوگئے اور انکی پیشانی پر بوسہ دیا اور مرغاب نامی علاقہ ان پر نچھاور کر دیا، ان کے لیے وقف کردیا

وجہ فقط اتنی تھی کہ حضرت قابس کے چہرے کی کچھ مشابہت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے تھی 

(دیکھیے شفا جلد دو ص40)

.

جب امام حسن امیر معاویہ کے پاس آتے تو امیر معاویہ انہیں اپنی جگہ بٹھاتے خود سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے،کسی نے پوچھا آپ ایسا کیوں کرتے ہیں فرمایا کہ امام حسن ہم شکل مصطفی ہیں صلی الله علیہ وسلم اس مشابہت کا احترام کرتا ہوں۔(مرآۃ شرح مشکاۃ8/460)

.

*جہاد و فتوحاتِ سیدنا معاویہ کی جھلک*

وفي سنة ثلاث وأربعين فتحت الرخج وغيرها من بلاد سجستان، وودان من برقة، وكور من بلاد السودان

وفي سنة خمس وأربعين فتحت القيقان قوهستان

خلاصہ:

رخج وغیرہا کئ ممالک سجستان ودان کور سوڈان قعقان قوہستان وغیرہ کئ ممالک سلطنتیں سیدنا معاویہ کے دور میں فتح ہوئے...عرب تا افریقہ تک تقریبا آدھی دنیا پر سیدنا معاویہ کی حکومت تھی

[تاريخ الخلفاء ,page 149ملخصا]

.

*سیدنا معاویہ کی اہلبیت و امام حسن کی تعظیم و خدمت کی ایک جھلک*

اس صلح کے وقت واقعہ یہ ہوا کہ امیر معاویہ نے امام حسن کے پاس سادہ کاغذ بھیجا اور فرمایا کہ آپ جو شرائط صلح چاہیں لکھ دیں مجھے منظور ہے،امام حسن نے لکھا کہ اتنا روپیہ سالانہ بطور وظیفہ ہم کو دیا جایا کرے اور آپ کے بعد پھر خلیفہ ہم ہوں گے، آپ نے کہا مجھے منظور ہے۔چنانچہ آپ سالانہ وظیفہ دیتے رہے اس کے علاوہ اکثر عطیہ نذرانے پیش کرتے رہتے تھے،ایک بار فرمایا کہ آج میں آپ کو وہ نذرانہ دیتا ہوں جو کبھی کسی نے کسی کو نہ دیا ہو۔چنانچہ آپ نے اربعۃ مائۃ الف الف نذرانہ کیے یعنی چالیس کروڑ روپیہ۔(مرقات)جب امام حسن امیر معاویہ کے پاس آتے تو امیر معاویہ انہیں اپنی جگہ بٹھاتے خود سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے،کسی نے پوچھا آپ ایسا کیوں کرتے ہیں فرمایا کہ امام حسن ہم شکل مصطفی ہیں صلی الله علیہ وسلم اس مشابہت کا احترام کرتا ہوں۔

(مراۃ شرح مشکاۃ8/460)

.


.

*سیدنا معاویہ کی ازواج مطہرات کی خدمت کی ایک جھلک*

سیدنا معاویہ بی بی عائشہ کو تحفے تحائف تک بھیجا کرتے تھے جو اس طرف واضح اشارہ ہے کہ سیدنا معاویہ رسول کریم کی ازواج مطہرات کا خیال رکھا کرتے تھے

أَهْدَى مُعَاوِيَةُ لِعَائِشَةَ ثِيَابًا وَوَرِقًا وَأَشْيَاءَ

ترجمہ:

حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کو کپڑے اور چاندی کے سکے(نقدی) اور دیگر چیزیں تحفے میں بھیجیں

(حلية الأولياء 2/48)

.

سیدنا معاویہ اہلبیت کو تحائف دیتے وہ قبول فرماتے

ﻭﻋﻦ ﺟﻌﻔﺮِ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﺃﻥَّ ﺍﻟﺤﺴﻦَ ﻭﺍﻟﺤﺴﻴﻦَ ﻛﺎﻧﺎ ﻳَﻘْﺒَﻼ‌ﻥِ ﺟﻮﺍﺋﺰَ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ.

سیدنا حسن حسین سیدنا معاویہ کے تحائف قبول کرتے تھے

( المصنف - ابن أبي شيبة -4/296)

.


ﻭﻋﻦ ﻋﺒﺪِﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺑُﺮﻳﺪﺓَ، ﺃﻥ ﺍﻟﺤﺴﻦَ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ رضي الله عنهما ﺩﺧﻞ ﻋﻠﻰ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻓﻘﺎﻝ: ﻷ‌ُﺟﻴﺰَﻧَّﻚ ﺑﺠﺎﺋﺰﺓٍ ﻟﻢ ﺃﺟﺰ ﺑﻬﺎ ﺃﺣﺪﺍً ﻗﺒﻠﻚ، ﻭﻻ‌ ﺃﺟﻴﺰ ﺑﻬﺎ ﺃﺣﺪﺍً ﺑﻌﺪﻙ ﻣﻦ ﺍﻟﻌﺮﺏ، ﻓﺄﺟﺎﺯﻩ ﺑﺄﺭﺑﻌﻤﺎﺋﺔ ﺃﻟﻒ، ﻓﻘَﺒِﻠﻬﺎ.

ایک دفعہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے تو سیدنا معاویہ نے فرمایا کہ آج میں آپ کو وہ تحفہ دوں گا کہ ایسا تحفہ آپ سے پہلے کسی کو نہ دیا اور نہ دوں گا پھر سیدنا معاویہ نے آپ کو چار لاکھ درھم تحفے میں دیے امام حسن نے قبول فرمائے

(المصنف - ابن أبي شيبة -6/188)

.

صرف تحفے لینے اور دینے کا معاملہ نہ تھا بلکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالئ عنہ تعریف بھی کیا کرتے تھے

فَلَمَّا اسْتَقَرَّتِ الْخِلَافَةُ لِمُعَاوِيَةَ كَانَ الْحُسَيْنُ يَتَرَدَّدُ إِلَيْهِ مَعَ أَخِيهِ الْحَسَنِ، فَكَانَ مُعَاوِيَةُ يُكْرِمُهُمَا إِكْرَامًا زَائِدًا، وَيَقُولُ لَهُمَا: مَرْحَبًا وَأَهْلًا. وَيُعْطِيهِمَا عَطَاءً جَزِيلًا

 جب سیدنا معاویہ کی خلافت (سیدنا حسن و حسین وغیرھما کی صلح کے بعد) قائم ہوگئ تو سیدنا حسن اور حسین سیدنا معاویہ کے پاس آیا کرتے تھے اور سیدنا معاویہ ان کا بے حد احترام عزت و اکرام کرتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ مرحبا اپنے گھر میں ہی آئے ہو اور انہیں بہت بڑے بڑے تحفے دیتے تھے

(البداية والنهاية ت التركي11/476)

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.