*سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام ایک دوسرے کی فضیلت و محبت بیان کرتے تھے ایک جھلک ملاحظہ کیجیے....!! سیدنا علی، سیدنا معاویہ و دیگر صحابہ کرام و اہلبیت عظام کے بعض فضائل اور ان میں بعض فروعی اختلاف تھا مگر ایک دوسرے سے نفرت نہ کرتے تھے،ایک دوسرے کی توہین و گستاخی نہ کرتے تھے اور مکاروں غالیوں کی مذمت اور سیدنا علی و دیگر اہلبیت کے حکم و عمل کے برخلاف چلنے والے نافرمان مکار غالی شیعوں رافضیوں نیم رافضیوں جھوٹوں کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے تاکہ پتہ لگے کہ ہم ان مکار نافرمانوں کے خلاف کیوں ہیں، مذمت کیوں کرتے ہیں..؟ اور اتحاد و برداشت کی صورت کیا ہے.......؟؟*
الحدیث:
خَيْرُكُمْ قَرْنِي...تم میں سے بہترین اور خیر و بھلائی سے بھرپور لوگ وہ ہیں جو(صحابہ کرام و اہلبیت عظام وغیرہ مسلمین)میری اس قرن(صدی)والے ہیں
(بخاری حدیث2651)
.
وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي....رسول کریمﷺنےفرمایا:
میرے صحابہ میری امت کے لیے (ستاروں کی طرح) امان ہیں
(مسلم حدیث6466)
.
الحدیث:
آيَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ
رسول کریمﷺنےفرمایا:
انصار صحابہ سے محبت ایمان کی نشانی ہے، اور ان سے بغض رکھنا منافقت کی نشانی ہے...(بخاری حدیث17)
.
وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي
رسول کریمﷺنےفرمایا:
جس نےمیرےصحابہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی(ترمذی حدیث3862)
.
فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيفَهُ
رسول کریمﷺنےفرمایا:
(میرے صحابہ کی تو ایسی عظیم شان و فضیلت و عظمت ہے کہ)تم میں سے کوئی احد پہاڑ جتنا سونا خرچ کرے تو میرے صحابہ کے ایک مد یا آدھے مد کے برابر نہیں
(بخاری حدیث3673)
.
الحدیث:
فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ،
رسول کریمﷺنےفرمایا:
جو میرے صحابہ سے محبت رکھے تو یہ مجھ سے محبت ہے اسی وجہ سے میں اس سے محبت رکھتا ہوں اور جو ان سے بغض کرے نفرت و گستاخی کرے تو یہ مجھ سے بغض و نفرت ہے...(ترمذی حدیث3862)
.
الحدیث
وَأَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِي بِحُبِّي
رسول کریمﷺنےفرمایا:
میرے اہل بیت سے محبت رکھو میری محبت کی وجہ سے...(ترمذی حدیث3789)
.
الحدیث:
مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ، وَالْحُسَيْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِي
رسول کریمﷺنےفرمایا:
جس نے حسن اور حسین سے محبت رکھی بے شک اس نے مجھ سے محبت رکھی، جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا
(ابن ماجہ حدیث143)
.
الحدیث
أَنَّهُ لَا يُحِبُّكَ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضُكَ إِلَّا مُنَافِقٌ
رسول کریمﷺنےفرمایا:
اے علی تجھ محبت مومن ہی رکھے گا اور تجھ سے بغض و نفرت منافق ہی رکھے گا
(ترمذی حدیث3736)
.
رسول کریمﷺنےفرمایا:
جس نےفاطمہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی(ترمذی حدیث3869)
.
صحابہ کرام اہل بیت عظام سے محبت رکھنا ضروری ہے.... اور اسی محبت کے سچا ہونے کی نشانی ہے کہ دونوں سے محبت کی جائے... محبت اہل بیت کے نام پر صحابہ کرام کی توہین کرنا ان کے نام نہ لینا ان کے نام پر نام نہ رکھنا ، ان کا تذکرہ خیر نہ کرنا ، دوٹوک یا ڈھکے چھپے الفاظ میں طعن و تنقیص کرنا براءت کرنا یہ سب مردود اور باطل ہے... اسی طرح صحابہ کرام کی محبت کے نام پر اہل بیت سے بغض رکھنا بھی ٹھیک نہیں ہے... رافضی اور ناصبی دونوں ٹھیک نہیں ہیں، اہل سنت ہی برحق ہیں....اہلسنت میں تھوڑا بہت فروعی اختلاف آپ کو ملے گا اسے دل چھوٹا مت کیجئے وہ تو رحمت ہے
.
*پیسہ پرست شہرت پرست انا پرست...کھانے والے... اور معاشرے کی تباہی کی دو اہم وجوہات..........!!*
فرمان صوفیاء:
فإذا فسد الأمراء فسد المعاش، وإذا فسد العلماء فسدت الطاعات
امراء(لیڈر حکمران سیاستدان)کرپٹ ہوں تو معیشت تباہ ہوجاتی ہے اور اگر علماء(مبلغ صحافی لکھاری معلومات پھیلانےکے ذرائع)کرپٹ(ایجنٹ مکار پیسہ پرست،انا پرست شہرت پرست) ہوں تو لوگوں کا نیک ہونا تباہ ہوجاتا ہے
(شعب الایمان روایت1679)
ایسےمکار علماء صحافی لکھاری واعظ شیعہ ناصبی خارجی نجدی نیم رافضی اور ایسے سیاستدان معاشرے کو تباہ کر رہے ہیں،ایسوں سےبچ کے رہیے،انکو نہ سنیے نہ لفٹ کرائیے…سچے اچھے بنییے بنائیے
.
كَذَّابٌ....قَاتَلَهُمُ اللَّهُ، إِنْ كَانُوا لَيَأْكُلُونَ بِنَا
جھوٹے مکار ، یہ لوگ تو ہم اہلبیت کے نام پے کھانے والے ہیں
(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة روایت2695)
مکار جھوٹے تضاد بیانی کرنے والے من گھڑت جھوٹی موضوع روایات باتیں بنانے والے ، پھیلانے والے مفتری من موجی مکار بےحیاء پیسہ پرست جعلی محب شیعہ رافضی نیم رافضی برحق محب نہیں بلکہ اہلبیت کے نام پے کھانے والے مکار جھوٹے باطل کذاب مردود ہیں
.
فنڈ دولت نذرانے شہرت لائکس ایجنٹی لالچ چمچہ گیری انانیت کے لیے لکھنے بولنے والے سیاستدان صحافی لکھاری ذاکر ماکر شیعہ لھابی نیم رافضی سب باطل و مردود ہیں،سچےاہلسنت حق گو زندہ باد…
"الحدیث:
مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَى الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ
دو بھوکے بھیڑیے اگر بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دئیے جائیں تو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا کہ مال و دولت کی حرص اور طلب شہرت مومن کے دین کو نقصان پہنچاتے ہیں
(ترمذی حدیث2376)
.
خبردار(محبت تعریف تنقید وغیرہ ہر معاملےمیں)خود کو غلو(مبالغہ آرائی،حد سےتجاوز کرنے) سےدور رکھو
(ابن ماجہ حدیث3029شیعہ کتاب منتہی المطلب2/729)
.
ہم نے لکھا کہ فروعی ظنی باسلیقہ بلالعن طعن کے اختلاف برحق ہے، ایسا اختلاف صحابہ کرام میں بھی ہوا، اہلسنت میں بھی ملے گا، اس سے دل چھوٹا مت کیجیے
*برحق اختلاف اور نبی پاکﷺ......؟؟*
الحدیث:
قال النبي صلى الله عليه وسلم لنا لما رجع من الأحزاب: «لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة» فأدرك بعضهم العصر في الطريق، فقال بعضهم: لا نصلي حتى نأتيها، وقال بعضهم: بل نصلي، لم يرد منا ذلك، فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم، فلم يعنف واحدا منهم
ترجمہ:
غزوہ احزاب سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم(یعنی صحابہ کرام) سے فرمایا کہ:
تم میں سے ہر ایک بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھے" (صحابہ کرام نے جلد پہنچنے کی بھر پور کوشش کی مگر)راستے میں عصر کا وقت ختم ہونے کو آیا تو کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ ہم عصر نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی پڑہیں گے اور کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ نبی پاک کا یہ ارادہ نا تھا(کہ نماز قضا ہو اس لیے) ہم عصر پڑھ لیں گے
(طبرانی ابن حبان وغیرہ کتب میں روایت ہے جس میں ہے کہ کچھ صحابہ نے راستے میں ہی عصر نماز پڑھ لی اور کچھ نے فرمایا کہ ہم رسول کریم کی تابعداری اور انکے مقصد میں ہی ہیں لیھذا قضا کرنے کا گناہ نہین ہوگا اس لیے انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر نماز پڑھی)
پس یہ معاملہ رسول کریم کے پاس پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک پر بھی ملامت نا فرمائی
(بخاری حدیث946)
.
دیکھا آپ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کا قیاس و استدلال اور اس میں اختلاف... صحابہ کرام نے اس برحق اختلاف پر ایک دوسرے کو کافر منافق فاسق گمراہ گستاخ نہیں کہا اور نبی پاک نے بھی کسی کی ملامت نا فرمائی...ایسا اختلاف قابل برداشت ہے بلکہ روایتوں مین ایسے فروعی برحق پردلیل باادب اختلاف کو رحمت فرمایا گیا ہے
.
اختلاف ایک فطرتی چیز ہے.... حل کرنے کی بھر پور کوشش اور مقدور بھر علم و توجہ اور اہلِ علم سے بحث و دلائل کے بعد اسلامی حدود و آداب میں رہتے ہوئے پردلیل اختلاف رحمت ہے
مگر
آپسی تنازع جھگڑا ضد انانیت تکبر لالچ ایجنٹی منافقت والا اختلاف رحمت نہیں، ہرگز نہیں...اختلاف بالکل ختم نہیں ہو پاتا مگر کم سے کم ضرور کیا جا سکتا ہے،اس لیے اختلاف میں ضد ،انانیت، توہین و مذمت نہیں ہونی چاہیے بلکہ صبر اور وسعتِ ظرفی ہونی چاہیے... اور یہ عزم و ارادہ بھی ہونا چاہیے کہ اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، ختم نہیں ہو پایا تو اختلاف کو کم سے کم ضرور کیا جائے گا..اختلاف کو جھگڑے سے بچایا جائے گا..
.
اختلاف کی بنیاد حسد و ضد ہر گز نہیں ہونی چاہیے...
اختلاف اپنی انا کی خاطر نہ ہو
اختلاف لسانیت قومیت کی خاطر نہ ہو
اختلاف ذاتی مفاد لالچ کی خاطر نہ ہو
اختلاف شہرت واہ واہ کی خاطر نہ ہو
اختلاف فرقہ پارٹی کی خاطر کی نہ ہو
اختلاف کسی کی ایجنٹی کی خاطر نہ ہو
اختلاف منافقت، دھوکے بازی کی خاطر نہ ہو
اختلاف ہو تو دلیل و بھلائی کی بنیاد پر ہو، بہتر سے بہترین کی طرف ہو، علم و حکمت سے مزین ہو،
.
ہر شخص کو تمام علم ہو،ہر طرف توجہ ہو، ہر میدان میں ماہر ہو یہ عادتا ممکن نہیں، شاید اسی لیے مختلف میدانوں کے ماہر حضرات کی شوری ہونا بہت ضروری ہے، اسی لیے اپنے آپ کو عقل کل نہیں سمجھنا چاہیے....بس میں ہی ہوں نہیں سوچنا چاہیے...ترقی در ترقی کرنے کی سوچ ہو، ایک دوسرے کو علم، شعور، ترقی دینے کی سوچ ہو....!!
.
کسی کا اختلاف حد درجے کا ہو، ادب و آداب کے ساتھ ہو، دلائل و شواہد پر مبنی ہو تو اس سے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے...ایسے اختلاف والے کی تنقیص و مذمت نہیں کرنی چاہیے،ایسے اختلاف پے خطاء والے کو بھی اجر ملتا ہے
الحدیث:
فاجتهد، ثم اصاب فله اجران، وإذا حكم فاجتهد، ثم اخطا فله اجر
مجتہد نے اجتہاد کیا اور درستگی کو پایا تو اسے دو اجر اور جب مجتہد نے اجتہاد کیا خطاء پے ہوا اسے ایک اجر ملے گا
(بخاری حدیث7352)
توجیہ تنبیہ جواب تاویل ترجیح کی کوشش کرنی چاہیے جب یہ ممکن نا ہو تو خطاء اجتہادی پر محمول کرنا چاہیے.....ہاں تکبر عصبیت مفاد ضد انانیت ایجنٹی منافقت وغیرہ کے دلائل و شواہد ملیں تو ایسے اختلاف والے کی تردید و مذمت بھی برحق و لازم ہے
.
اسی طرح ہر ایک کو اختلاف کی بھی اجازت نہیں... اختلاف کے لیے اہل استنباط میں سے ہونا ضروری ہے... کافی علم ہونا ضروری ہے... وسعت ظرفی اور تطبیق و توفیق توجیہ تاویل ترجیح وغیرہ کی عادت ضروری ہے، جب ہر ایرے غیرے کم علم کو اختلاف کی اجازت نا ہوگی تو اختلافی فتنہ فسادات خود بخود ختم ہوتے جاءیں گے
.
*اختلاف رحمت شیعہ کتب سے.........!!*
شیعہ کتب جھوٹ و تضاد سے بھری ہوئی ہوتی ہیں،کہتے ہیں کہ اسلام کے نام پر بننے والے فرقوں میں سب سے زیادہ جھوٹے مکار شیعہ ہیں
مگر
جھوٹے مکار شیعہ طبرسی کے قلم سے کیا ہی عمدہ سچ نکل ہی گیا، لکھتا ہے
أن رسول الله صلى الله عليه وآله قال: ما وجدتم في كتاب الله عز وجل فالعمل لكم به، ولا عذر لكم في تركه، وما لم يكن في كتاب الله عز وجل وكانت في سنة مني فلا عذر لكم في ترك سنتي، وما لم يكن فيه سنة مني فما قال أصحابي فقولوا، إنما مثل أصحابي فيكم كمثل النجوم، بأيها أخذ اهتدي، وبأي أقاويل أصحابي أخذتم اهتديتم، واختلاف أصحابي لكم رحمة.
ترجمہ:
بےشک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو کچھ قرآن میں ہے اس پر عمل لازم ، اس کے ترک پر کوئی عذر مقبول نہیں…پس اگر کتاب اللہ میں نہ ملے تو میرے سنت میں ڈھنڈو سنت میں مل جائے تو عمل لازم ، جس کے ترک پر کوئی عذر مسموع نہ ہوگا
اور
اگر قرآن و سنت میں نہ پاؤ تو میرے صحابہ کے اقوال میں تلاش کرو، میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کے قول کو بھی اختیار کرو گے ہدایت پاؤ گے اور سنو میرے اصحاب(صحابہ اہلبیت) کا اختلاف رحمت ہے
(احتجاج طبرسی2/105)
یہاں
واضح لکھا ہے کہ قران و سنت و اجتہاد صحابہ و اہلبیت برحق ہے اس پر عمل لازم مگر دوسری طرف بکواس کرتے ہیں کہ قرآن و حدیث ناقص ہیں نعوذ باللہ
كبار علماء الشيعة يقولون بأن القول بتحريف ونقصان القرآن من ضروريات مذهب الشيعة
ترجمہ:
شیعہ کے بڑے بڑے علماء نے کہا ہے کہ شیعہ مذہب کے ضروری عقائد و نظریات میں سے ہے کہ قرآن میں تحریف رد و بدل کمی بیشی ہے(لیھذا شیعہ کے مطابق جو تحریف نہ مانےوہ کافر نعوذباللہ)
(الانتصار3/342)
.
قد جاءت مستفيضة عن أئمة الهدى من آل محمد (ص)، باختلاف القرآن وما أحدثه بعض الظالمين فيه من الحذف و النقصان
ترجمہ:
قریب با متواتر ہے کہ ظالموں(صحابہ کو ظالم کہہ رہا ہے)نے قرآن میں بہت کچھ حذف کیا ہے، کمی بیشی کی ہے
(اوائل المقالات ص80,الانتصار3/340)
.
إن القرآن الذي جاء به جبرئيل (عليه السلام) إلى محمد (صلى الله عليه وآله) سبعة عشر ألف آية
ترجمہ:
اصل قرآن جو جبرائیل لے کر آئے وہ سترہ ہزار آیات پے مشتمل تھا(موجودہ قرآن میں سات ہزار سے کم ایات ہیں یعنی آدھے سے بھی زیادہ قرآن حذف کر دیا گیا نعوذ باللہ)
(الكافي2/234)
.
*سیدنا علی و اہلبیت نے صحابہ کرام کی متعلق کیا فرمایا،کیا عمل کیا ،ایک جھلک شیعہ کتب سے ملاحظہ کیجیے........!!*
بأصحاب نبيكم لا تسبوهم الذين لم يحدثوا بعده حدثا ولم يؤووا محدثا، فإن رسول الله (صلى الله عليه وآله) أوصى بهم
ترجمہ:
حضرت علی وصیت و نصیحت فرماتے ہیں کہ تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق میں تمھیں نصیحت و وصیت کرتا ہوں کہ انکی برائی نہ کرنا ، گالی لعن طعن نہ کرنا(کفر منافقت تو دور کی بات) انہوں نے نہ کوئی بدعت نکالی نہ بدعتی کو جگہ دی،بےشک رسول کریم نے بھی صحابہ کرام کے متعلق ایسی نصیحت و وصیت کی ہے.(بحار الانوار22/306)
.
حضرت علی رض اللہ عنہ نے شیعوں سے فرمایا:
رأيت أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم فما أرى أحداً يشبههم منكم لقد كانوا يصبحون شعثاً غبراً وقد باتوا سجداً وقياماً
ترجمہ:
میں(علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ)نے اصحاب محمد یعنی صحابہ کرام(صلی اللہ علیہ وسلم، و رضی اللہ عنھم) کو دیکھا ہے، وہ بہت عجر و انکساری والے، بہت نیک و عبادت گذار تھے(فاسق فاجر ظالم غاصب نہ تھے)تم(شیعوں)میں سے کوئی بھی انکی مثل نہیں...(تمام شیعوں کے مطابق صحیح و معتبر ترین کتاب نہج البلاغہ ص181)
.
قال: وأخرج عن جعفر أيضا أنه قيل له: إن فلانا يزعم أنك تتبرأ من أبي بكر وعمر فقال برء الله من فلان إني لأرجو أن ينفعني الله بقرابتي من أبي بكر
ایک شخص نے کہا امام جعفرصادق سے کہ فلاں آدمی سمجھتا ہے کہ آپ ابو بکر اور عمر سے براءت کرتے ہیں جس پر امام جعفر صادق نے فرمایا کہ (جس نے میرے متعلق کہا ہے کہ براءت کرتا ہوں)اللہ اس سے بری ذمہ ہے(میں براءت نہیں کرتا توہین تنقیص فاسق فاجر ظالم غاصب وغیرہ نہیں سمجھتا بلکہ ایسا اللہ کا پیارا محبوب ولی عظیم الشان صحابی سمجھتا ہوں کہ)بے شک مجھےامید ہےاللہ مجھے نفع دیگا(سیدنا)ابوبکر کےساتھ میری قرابت اور رشتہ داری کی وجہ سے
(شیعہ کتاب الصوارم المھرقہ ص246)
(شیعہ کتاب الإمام جعفر الصادق ص178)
.
سیدنا علی فرماتے ہیں
إنه بايعني القوم الذين بايعوا أبا بكر وعمر وعثمان على ما بايعوهم عليه، فلم يكن للشاهد أن يختار ولا للغائب أن يرد، وإنما الشورى للمهاجرين والأنصار، فإن اجتمعوا على رجل وسموه إماما كان ذلك لله رضى
میری(سیدنا علی کی)بیعت ان صحابہ کرام نے کی ہےجنہوں نےابوبکر و عمر کی کی تھی،یہ مہاجرین و انصار صحابہ کرام کسی کی بیعت کرلیں تو اللہ بھی راضی ہے(اور وہ خلیفہ برحق کہلائے گا) تو ایسی بیعت ہو جائے تو دوسرا خلیفہ انتخاب کرنے یا تسلیم نہ کرنے کا حق نہیں(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ ص491)
سیدنا علی کےاس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ
①خلافت سیدنا علی کے لیے نبی پاک نے مقرر نہ فرمائی تبھی تو سیدنا علی نے صحابہ کرام کی شوری کو اللہ کی رضا و پسند فرمایا
سیدنا علی کےاس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ
②سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان کی خلافت برحق تھی، دما دم مست قلندر سیدنا علی دا چوتھا نمبر
سیدنا علی کےاس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ
③صحابہ کرام ایمان والے تھے کافر فاسق ظالم نہ تھے ورنہ سیدنا علی انکی مشاورت و ھکم کو برحق نہ کہتے
رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین
.
شیعوں کی معتبر ترین کتاب نہج البلاغۃ میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حکم موجود ہے کہ:
ومن كلام له عليه السلام وقد سمع قوما من أصحابه يسبون أهل الشام أيام حربهم بصفين إني أكره لكم أن تكونوا سبابين، ولكنكم لو وصفتم أعمالهم وذكرتم حالهم كان أصوب في القول
ترجمہ:
جنگ صفین کے موقعے پر اصحابِ علی میں سے ایک قوم اہل الشام (سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرھما رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین) کو برا کہہ رہے تھے، لعن طعن کر رہے تھے
تو
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا:
تمہارا (اہل شام، معاویہ ، عائشہ صحابہ وغیرہ کو) برا کہنا لعن طعن کرنا مجھے سخت ناپسند ہے ، درست یہ ہے تم ان کے اعمال کی صفت بیان کرو...(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ ص437)
.
ثابت ہوا سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرہ صحابہ کرام کی تعریف و توصیف کی جائے، شان بیان کی جائے....یہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پسند ہے....ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرہھما صحابہ کرام پر لعن طعن گالی و مذمت کرنے والے شیعہ ذاکرین ماکرین رافضی نیم راضی محبانِ اہلِ بیت نہیں بلکہ نافرمان و مردود ہیں،انکےکردار کرتوت حضرت علی کو ناپسند ہیں..سخت ناپسند
.
ان عليا لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق ولكنه كان يقول: هم إخواننا بغوا علينا
ترجمہ:
بےشک سیدنا علی اپنےاہل حرب(سیدنا معاویہ،سیدہ عائشہ اور انکےگروہ)کو نہ تو مشرک کہتےتھےنہ منافق…بلکہ فرمایا کرتےتھےکہ وہ سب ہمارےبھائی ہیں مگر(مجتہد)باغی ہیں(شیعہ کتاب بحارالانوار32/324)
(شیعہ کتاب وسائل الشیعۃ15/83)
(شیعہ کتاب قرب الاسناد ص94)
سیدنا ابوبکر و عمر، سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام کو کھلےعام یا ڈھکے چھپے الفاظ میں منافق بلکہ کافر تک بکنے والے،توہین و گستاخی کرنےوالےرافضی نیم رافضی اپنےایمان کی فکر کریں…یہ محبانِ علی و اہلبیت نہیں بلکہ نافرمانِ علی ہیں،نافرمانِ اہلبیت ہیں
.
وقال عليه السلام:يهلك في رجلان: محب مفرط، وباهت مفتر.
قال الرضى رحمه الله تعالى: وهذا مثل قوله عليه السلام: يهلك في اثنان:محب غال، ومبغض قال.الشرح:قد تقدم شرح مثل هذا الكلام، وخلاصة هذا القول: إن الهالك فيه المفرط، والمفرط أما المفرط فالغلاة، ومن قال بتكفير أعيان الصحابة ونفاقهم أو فسقهم
یعنی
حضرت علی نے فرمایا کہ میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاکت میں ہیں ایک وہ جو مجھ سے حد سے زیادہ محبت کرے دوسرا وہ جو مجھ سے بغض رکھے مجھ پر بہتان باندھے
یعنی
جو اعیان صحابہ کو کافر کہے یا منافق کہے یا فاسق کہے وہ ہلاکت میں ہے
(شرح نہج البلاغۃ 20/220)
شیعہ رافضی نیم رافضی میں یہ دونوں بری عادتیں بھری پڑی ہیں کوٹ کوٹ کے....اللہ ہدایت دے، مکاروں گمراہوں کے مکر و گمراہی عیاری مکاری سے بچائے....ضدی فسادی کو تباہ و برباد فرمائے
.
*امام عالی مقام سیدنا حسن مجتبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں*
ﺍﺭﻯ ﻭﺍﻟﻠﻪ ﺍﻥ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺧﻴﺮ ﻟﻲ ﻣﻦ ﻫﺆﻻﺀ، ﻳﺰﻋﻤﻮﻥ ﺍﻧﻬﻢ ﻟﻲ ﺷﻴﻌﺔ ، ﺍﺑﺘﻐﻮﺍ ﻗﺘﻠﻲ ﻭﺍﻧﺘﻬﺒﻮﺍ ﺛﻘﻠﻲ، ﻭﺃﺧﺬﻭﺍ ﻣﺎﻟﻲ، ﻭﺍﻟﻠﻪ ﻟﺌﻦ ﺁﺧﺬ ﻣﻦ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﻋﻬﺪﺍ ﺍﺣﻘﻦ ﺑﻪ ﺩﻣﻲ، ﻭﺍﻭﻣﻦ ﺑﻪ ﻓﻲ ﺍﻫﻠﻲ، ﺧﻴﺮ ﻣﻦ ﺍﻥ ﻳﻘﺘﻠﻮﻧﻲ ﻓﺘﻀﻴﻊ ﺍﻫﻞ ﺑﻴﺘﻲ ﻭﺍﻫﻠﻲ
ترجمہ:
(امام عالی مقام سیدنا حسن مجتبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں)اللہ کی قسم میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ جو میرے شیعہ کہلانے والے ہیں ان سے معاویہ بہتر ہیں، ان شیعوں نے تو مجھے قتل کرنے کی کوشش کی، میرا ساز و سامان لوٹا، میرا مال چھین لیا، اللہ کی قسم اگر مین معاویہ سے عہد لے لوں تو میرا خون سلامت ہو جائے اور میرے اہلبیت امن میں آجاءیں، تو یہ اس سے بہتر ہے کہ شیعہ مجھے قتل کریں اور میرے اہل و اہلبیت ضائع ہوجائیں گے
(شیعہ کتاب احتجاج طبرسی جلد2 ص9)
.
*اور پھر سیدنا حسن حسین رضی اللہ تعالی عنھما نے بمع رفقاء سیدنا معاویہ سے صلح و بیعت کرلی اور فرمایا سیدنا معاویہ کی بیعت کرو، اطاعت کرو*
جمع الحسن رءوس أهل العراق في هذا القصر قصر المدائن- فقال: إنكم قد بايعتموني على أن تسالموا من سالمت وتحاربوا من حاربت، وإني قد بايعت معاوية، فاسمعوا له وأطيعو
ترجمہ:
سیدنا حسن نے مدائن کے ایک محل میں عراق وغیرہ کے بڑے بڑے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ تم لوگوں نے میری بیعت کی تھی اس بات پر کہ تم صلح کر لو گے اس سے جس سے میں صلح کروں اور تم جنگ کرو گے اس سے جس سے میں جنگ کروں تو بے شک میں نے معاویہ کی بیعت کر لی ہے تو تم بھی سیدنا معاویہ کی بات سنو مانو اور اطاعت کرو
(الإصابة في تمييز الصحابة ,2/65)
.
*لیکن*
جب سیدنا حسن نے حدیث پاک کی بشارت مطابق سیدنا معاویہ سے صلح کی، سیدنا معاویہ کی تعریف کی،انکی بیعت کی،بیعت کرنے کا حکم دیا تو بعض شیعوں نےسیدنا حسن کو کہا:يا مذل المؤمنين ويا مسود الوجوه
اے مومنوں کو ذلیل کرنےوالے،مونوں کے منہ کالا کرنےوالے(شیعہ کتاب مستدرک سفینہ بحار8/580)
.
سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:
قد خذلتنا شیعتنا
ترجمہ:
بے شک ہمارے کہلانے والے شیعوں نے ہمیں رسوا کیا،دھوکہ دیا، بےوفائی کی
(شیعہ کتاب مقتل ابی مخنف ص43)
(شیعہ کتاب موسوعہ کلمات الامام الحسین ص422)
.
.
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ
سیدنا حسن و معاویہ کا اختلاف بےشک تھا مگر سیدنا حسن کے مطابق بھی سیدنا معاویہ بہتر و اچھے تھے، کافر گمراہ منافق وغیرہ نہ تھے
.
سیدنا حسن کی بات ان لوگوں کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے جو کہتے ہیں کہ سیدنا حسن نے نه چاہتے ہوئے بیعت کی،مجبور ہوکر بیعت کی،تقیتًا بیعت کی
بلکہ
الٹا شیعوں کی مذمت ہے کیونکہ سیدنا حسن کی بات سے واضح ہے کہ ان کو شیعوں کی بےوفائی و منافقت کا تقریبا یقین تھا، آپ کو خوف تھا کہ شیعہ جان مال اور اہلبیت کو بھی قتل کر دیں گے....اس لیے آپ نے اپنی جان مال اور اہلبیت کے تحفظ کے لیے سیدنا معاویہ سے صلح کی کیونکہ سیدنا حسن کا خیال تھا کہ شیعہ اہلبیت کو نقصان دیں گے مگر معاویہ تحفظ دیں گے......اس میں سیدنا معاویہ کی بڑی شان بیان ہے اور شیعوں کی بےوفاءی مکاری اسلام و اہلبیت سے دشمنی کا بیان ہے
.
*اتحاد و برداشت کی راہ........؟؟*
سیدنا حسن نے دوٹوک فرمایا کہ شیعوں نے ان پر حملہ کیا، مال لوٹا، ساز و سامان چھین کر لےگئے، اس سے ثابت ہوتا ہے شیعہ جعلی محب و مکار ہیں.......محبت کا ڈھونگ رچا کر وہ دراصل اسلام دشمنی اہلبیت دشمنی نبہانے والے ہیں.....اسلام کو تباہ کرنے والے، قرآن و سنت اسلام میں شکوک و شبہات پھیلانے والے دشمن اسلام ہیں، دشمنان اسلام کے ایجنٹ ہیں.......انکی باتیں کتابیں جھوٹ و مکاریوں سے بھری پڑی ہیں...........سیدنا حسین کو بھی انہی بےوفا مکار کوفی شیعوں نے شہید کرایا، یہ لوگ مسلمانوں میں تفرقہ فتنہ انتشار قتل و غارت پھیلانے والے رہے ہیں... انہین اسلام کی سربلندی کی کوئی فکر نہین بلکہ اسلام دشمن ہیں یہ لوگ..... انکا کلمہ الگ ،اذان الگ، نماز الگ، زکاۃ کے منکر، حج سے بیزار، قران میں شک کرنےوالے، شک پھیلانے والے، جھوٹے عیاش چرسی موالی بےعمل بدعمل بےوقوف و مکار دشمن اسلام دشمن اہلبیت ہیں...ایمان سے بتائیے قرآن کے متعلق انبیاء کرام کے متعلق صحابہ کرام و ازواج مطہرات کے متعلق کفریات بکواسات کے ہوتے ہوئے شیعہ روافض نیم روافض کو بھی حق و ٹھیک کیسے کہا جاسکتا ہے....؟ ان سے اتحاد کیسے کیا جاسکتا ہے…؟؟ برداشت کیسے کیا جاسکتا ہے...؟؟ اتحاد و برداشت کے لیے لازم ہے کہ شیعہ روافض نیم روافض اعلان کریں کہ ایسی بکواسات والی کتب و لکھاری کافر گمراہ مردود ہیں، پھر ان کتب و لکھاریوں سے براءت کا اعلان کریں اور ایسی کتب ضائع کردیں پابندی لگا دیں، توبہ تائب ہوں تو ہی اتحاد ہو سکتا ہے... ہاں فروعی مدلل اختلاف قابل برداشت میں برداشت لازم..........!!
.
فنعى الوليد إليه معاوية فاسترجع الحسين...سیدنا حسین کو جب سیدنا معاویہ کی وفات کی خبر دی گئ تو آپ نےاِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا…(شیعہ کتاب اعلام الوری طبرسی1/434) مسلمان کو کوئی مصیبت،دکھ ملےتو کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ(سورہ بقرہ156)ثابت ہوا سیدنا معاویہ امام حسین کے مطابق کافر ظالم منافق دشمن برے ہرگز نہ تھے جوکہ مکار فسادی نافرمان دشمنان اسلام گستاخانِ معاویہ کے منہ پر طمانچہ ہے
.
هذا ما صالح عليه الحسن بن علي بن أبي طالب معاوية بن أبي سفيان: صالحه على أن يسلم إليه ولاية أمر المسلمين، على أن يعمل فيهم بكتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وآله وسيرة الخلفاء الصالحين
(شیعوں کے مطابق)امام حسن نے فرمایا یہ ہیں وہ شرائط جس پر میں معاویہ سے صلح کرتا ہوں، شرط یہ ہے کہ معاویہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور سیرتِ نیک خلفاء کے مطابق عمل پیرا رہیں گے
(شیعہ کتاب بحار الانوار جلد44 ص65)
سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے "نیک خلفاء کی سیرت" فرمایا جبکہ اس وقت شیعہ کے مطابق فقط ایک خلیفہ برحق امام علی گذرے تھے لیکن سیدنا حسن "نیک خلفاء" جمع کا لفظ فرما رہے ہیں جسکا صاف مطلب ہے کہ سیدنا حسن کا وہی نظریہ تھا جو سچے اہلسنت کا ہے کہ سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم خلفاء برحق ہیں تبھی تو سیدنا حسن نے جمع کا لفظ فرمایا...اگر شیعہ کا عقیدہ درست ہوتا تو "سیرت خلیفہ" واحد کا لفظ بولتے امام حسن....اور دوسری بات یہ بھی اہلسنت کی ثابت ہوئی کہ "قرآن و سنت" اولین ستون ہیں کہ ان پے عمل لازم ہے جبکہ شیعہ قرآن و سنت کے بجائے اکثر اپنی طرف سے اقوال گھڑ لیتے ہیں اور اہلبیت کی طرف منسوب کر دیتے ہیں...
.
*ان غالی مکار جعلی محب شیعوں رافضیوں نے سیدنا علی وغیرہ کے عمل و اقوال کے برخلاف صحابہ کرام کے متعلق کیا بکواس کی.....؟؟ ایک جھلک ملاحظہ کیجیے.....!!*
.
اہل تشیع کی کتابوں میں سیدنا ابوبکر صدیق کے لقب صدیق کی وجہ یہ لکھی ہے کہ:
حين كان معه في الغار، قال رسول الله صلى الله عليه وآله: إني لارى سفينة جعفر بن أبي طالب تضطرب في البحر ضالة، قال: يا رسول الله وإنك لتراها ؟ قال: نعم، قال: فتقدر أن ترينيها ؟ قال: ادن مني، قال: فدنا منه، فمسح على عينيه، ثم قال: انظر، فنظر أبو بكر فرأى السفينة وهي تضطرب في البحر ثم نظر إلى قصور أهل المدينة، فقال في نفسه: الآن صدقت أنك ساحر، فقال رسول الله: الصديق أنت
ترجمہ:
جب ابوبکر نبی پاک کے ساتھ غار میں تھے تو رسول اللہ نے فرمایا کہ حضرت جعفر کی کشتی سمندر میں بھٹکتی ہوئ مضطرب ہے.. ابوبکر نے پوچھا آپ دیکھ رہے ہیں....؟ رسول اللہ نے فرمایا ہاں...ابوبکر نے کہا مجھے دکھا سکتے ہیں..؟رسول نے فرمایا قریب آ جاو، وہ قریب ہوئے.. پس رسول نے اسکی انکھوں پر ہاتھ پھیرا اور کہا دیکھو....تو ابو بکر نے مضطرب کشتی کو دیکھا پھر اہل مدینہ کے محلات تک دیکھ لیے اور اپنے دل میں کہا کہ:
اب میں تصدیق کرتا ہوں کہ تم جادوگر ہو....رسول نے کہا تم صدیق(سچے) ہو..
(شیعہ کتاب بحار الانوار جلد19ص71 شیعہ کتاب تفسیر قمی جلد13 ص12 شیعہ کتاب مختصر بصائرالدرجات ص33 شیعہ کتاب تفسیر نور الثقلین 2/220 بعینہ او نحوہ)
.
تفسیر نور الثقلین میں اتنا اضافہ اور بھی ہے کہ سورہ توبہ آیت40 میں جو ہے کہ جن لوگوں نے کفر کیا انکی بات کو اللہ نے نیچا کیا....اس ایت میں کافروں کی بات سے مراد ابوبکر کی مذکورہ بات مراد ہے..
(شیعہ کتاب تفسیر نور الثقلین 2/220)
.
غور کیجیے....بغض میں آکر کیسا جھوٹ گھڑ لیا اور یہ سوچنا بھی بھول گئے کہ اگر صدیق نے رسول کو جادوگر سمجھا اور رسول نے تصدیق بھی کر دی کہ تم سچے ہو...گویا رسول کریم نے خود کو جادوگر تسلیم کر لیا......؟ نعوذ باللہ بغض صدیق میں آکر رسول کریم کی بھی توہین کی بلکہ ایک طرح سے نبوت و رسالت کا بھی انکار کر ڈالا...لاحول ولاقوۃ الا باللہ
.
سیدنا صدیق کو نعوذ باللہ کافر تک کہہ دیا...حالانکہ سورہ توبہ ایت 40 میں لفظ 'کفروا' ہے جو کہ جمع کے لیے آتا ہے...جمع کا لفظ بلادلیل ایک ذات پر فٹ کرنا خود ایک جہالت ہے، جھوٹ ہے...قرآن میں تحریف کے مترادف ہے
.
ذرا سی عقل والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ بغض و بہتان ہے،جھوٹ ہے.... بھلا رسول کریم نعوذ باللہ ایک کافر کو زندگی بھر کا اپنا ساتھی کیسے بنائیں گے.....؟؟
بھلا سیدنا علی ایک کافر اور ساحر کہنے والے کی خلافت کیسے تسلیم کریں گے....؟؟ بلکہ سیدنا علی نے تو اپنے بیٹوں کے نام صدیق و عمر رکھے...بھلا کافر و منافقوں والے نام سیدنا علی کیسے رکھ سکتے ہیں....؟؟
سیدنا علی نے اپنے بیٹوں کے نام صدیق و عمر و عثمان رکھے..(ثبوت شیعوں کی کتاب:بحار الأنوار 42/120)
.
*سیدنا علی کے حکم و عمل کے برعکس شیعوں کا نظریہ پڑہیے...لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام کی توہین کرنا لعنت و براءت کرنا اور صحابہ کرام کو کافر کہنا سمجھنا شیعوں کے مطابق ثواب ہے اور کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہ و سیدہ حفصہ کافرہ تھیں بلکہ زانیہ تھیں....نعوذ باللہ*
الأخبار الدالة على كفر أبي بكر وعمر وأضرابهما وثواب لعنهم والبراءة منهم
ابوبکر اور عمر اور ان جیسے دوسرے صحابہ کا کفر اور ان کی بدعتیں ثابت ہیں،خبریں اس پر دلالت کرتی ہیں لہذا ان پر لعنت کرنا ان سے براءت کرنا ثواب کا کام ہے
(شیعہ کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي30/399)
.
بایعوا ابابکر......أن الناس ارتدوا إلا ثلاثة
ترجمہ:
صحابہ نے ابوبکر کی بیعت کی.....بےشک سارے صحابہ مرتد ہوگئے سوائے تین کے
(شیعہ کتاب بحار الانوار28/255)
.
.
ارتد الناس بعد الرسول صلى الله عليه وآله إلا أربعة
ترجمہ:
رسول کی وفات کے بعد سارے لوگ(بشمول صحابہ) مرتد ہوگئے سوائے چار لوگوں کے
(شیعہ کتاب کتاب سلیم بن قیس ص162)
.
.
ارتد الناس إلا ثلاثة نفر: سلمان وأبو ذر، و المقداد. قال: فقلت: فعمار؟فقال: قد كان جاض جيضة ثم رجع
تمام لوگ(صحابہ)مرتد ہوگئے سوائے تین کے سلمان فارسی ابوذر اور مقداد، عمار کفر کی طرف مائل ہوئے پھر واپس مسلمان ہوئے(کل ملا کر مذکورہ چار صحابہ مسلمان بچے نعوذ باللہ)
(شیعہ کتاب الاختصاص ص10)
.
.
" إن الذين آمنوا ثم كفروا ثم آمنوا ثم كفروا ثم ازدادوا كفرا لن تقبل توبتهم" قال: نزلت في فلان وفلان وفلان، آمنوا بالنبي صلى الله عليه وآله في أول الأمر وكفروا حيث عرضت عليهم الولاية، حين قال النبي صلى الله عليه وآله: من كنت مولاه فهذا علي مولاه، ثم آمنوا بالبيعة لأمير المؤمنين عليه السلام ثم كفروا حيث مضى رسول الله صلى الله عليه وآله، فلم يقروا بالبيعة، ثم ازدادوا كفرا بأخذهم من بايعه بالبيعة لهم فهؤلاء لم يبق فيهم من الايمان شئ.
خلاصہ:
آیت مین جو ہے کہ اسلام کے بعد مرتد ہوءے پھر مسلمان ہوءے پھر مرتد ہوئے پھر کفر پے ڈٹ گئے یہ
ایت صحابہ کے متعلق نازل ہوئی ان میں ایمان ذرا برابر بھی نہ بچا..(شیعہ کتاب الکافی 1/420)
.
سیدنا_ابوبکر.و.عمر کے متعلق شیعہ کا عقیدہ کا خلاصہ ہے کہ:
امام مھدی مسجد نبوی سے دیواریں ہٹواءیں گے، ابوبکر و عمر کو قبر سے نکال کر زندہ کریں گے پھر ہابیل کے قتل سے لیکر امام مہدی کے آنے جتنے بھی ظلم و گناہ ہوئے اسکا اعتراف ابوبکر و عمر سے کرائیں گے،حضرت ابراہیم کے لیے اگ بڑھکانے کے جرم کا اعتراف ابوبکر و عمر سے کراءیں گے، سیدہ فاطمہ کا گھر جلانے اور انکے پیٹ میں بچہ محسن کے قتل کا بھی اعتراف ابوبکر و عمر سے کرائیں گے، حسین کو زہر دینے اور قافلہ اہلبیت کے کربلا میں مظالم کا اعتراف بھی ابوبکر و عمر سے کرائیںً گے اور پھر ان دونوں کو جرائم کی پاداش میں بالکل اسی طرح سزا دیں جسطرح مظالم ڈھائے گئے پھر ان دونوں کو سولی پے چڑھائیں گے پھر آگ سے جلا کر راکھ کرکے ہوا میں اڑا دیں گے پھر دوبارہ زندہ کریں گے پھر سزا پھر سولی پھر اگ میں جلانے کا عذاب و سزا دیں گے،اس طرح ہر روز ہزاروں مرتبہ سے بھی زیادہ زندہ کرکے عزاب دیے جائیں گے...(نعوذ باللہ)
وكل رين وخبث وفاحشة وإثم وظلم وجور وغشم منذ عهد آدم عليه السلام إلى وقت قيام قائمنا عليه السلام كل ذلك يعدده عليه السلام عليهما، ويلزمهما إياه فيعترفان به ثم يأمر بهما فيقتص منهما في ذلك الوقت بمظالم من حضر، ثم يصلبهما على الشجرة و يأمر نارا تخرج من الارض فتحرقهما والشجرة ثم يأمر ريحا فتنسفهما في اليم نسفا..
(دیکھیے الهداية الكبری ص400 مختصر بصائر الدرجات ص189 بحار الأنوار ج53 ص12)
.
*سیدہ طاہرہ بی بی عائشہ و حفصہ رضی اللہ عنھما کےمتعلق شیعوں کی بکواس.............!!*
.
قوله تعالى: " ضرب الله مثلا "في تلك الآيات التصريح بنفاق عايشة وحفصة وكفرهما
ضرب الله مثلا....اس آیت میں دوٹوک ہے کہ عائشہ(سیدنا ابوبکر کی بیٹی) و حفصہ(سیدنا عمر کی بیٹی) دونوں کافر تھیں منافق تھیں(نعوذ باللہ)
(شیعہ کتاب بحار الانوار22/233)
.
أن عائشة خائنة للرسول الأعظم صلى الله عليه وسلم في عقيدته، وخائنة له في فراشه"
عائشہ عقیدے کے لحاظ سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیانت کرتی تھیں اور بستر کے معاملے میں بھی رسول اللہ سے خیانت کی عائشہ نے(نعوذ باللہ)
(شیعہ کتاب خيانة عائشة بين الاستحالة والواقع؛ ص:115)
.
*ایمان سے بتائیے قرآن کے متعلق انبیاء کرام کے متعلق صحابہ کرام و ازواج مطہرات کے متعلق کفریات بکواسات کے ہوتے ہوئے شیعہ روافض نیم روافض کو بھی حق و ٹھیک کیسے کہا جاسکتا ہے....؟ ان سے اتحاد کیسے کیا جاسکتا ہے…؟؟ برداشت کیسے کیا جاسکتا ہے...؟؟ اتحاد و برداشت کے لیے لازم ہے کہ شیعہ روافض نیم روافض اعلان کریں کہ ایسی بکواسات والی کتب و لکھاری کافر گمراہ مردود ہیں، پھر ان کتب و لکھاریوں سے براءت کا اعلان کریں اور ایسی کتب ضائع کردیں پابندی لگا دیں ، توبہ تائب ہوں تو ہی اتحاد ہوسکتا ہے...ہاں فروعی مدلل اختلاف قابل برداشت میں برداشت لازم..........!!*
.
*شاید شیعوں کی اسی منافقت و مکاری اور باطل و مردود ہونے گستاخ ہونے لعن طعن کرنے کی وجہ سے سیدنا علی نے شیعوں کے متعلق فرمایا….....!!*
أتلوا عليكم الحكمة فتعرضون عنها ، وأعظكم بالموعظة البالغة فتنفرون عنها ،كأنكم حمر مستنفرة
میں تمھیں وعظ و نصیحت کرتا ہوں، سمجھاتا ہوں
مگر تم لوگ(وعظ نصیحت ہدایت) سے نفرت کرتے ہو گویا تم بدصورت بھگوڑے(بزدل،نافرمان) گدھے ہو....(شیعہ کی معتبر کتاب احتجاج طبرسی1/231)
.
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شیعوں سے فرمایا:
فقبحاً لكم وترحاً، لا رجال ،لوددت أني لم أراكم ولم أعرفكم معرفة، والله جرت ندما وأعقبت سدماً قاتلکم اللہ(وفی نسخۃ فأذلكم الله)، لقد ملأتم قلبي قيْحاً، وشحنتم صدري غيظاً، وأفسدتم على رأياً بالعصيان والخذلان..........والله لا أصدق قولكم
یعنی:
تم(بےوفا،بےعمل،گدھے) شیعوں کے لیے قباحت ہو، اللہ کرے تم رنج و غم اور تنگی و محتاجی میں رہو
تم تو(باوفا،دلیر،باعمل،سچے) مرد ہی نہیں ہو، بےشک میری خواہش تو یہ ہے کہ اے کاش میں نے تم لوگوں کو دیکھا ہی نہ ہوتا، کاش تمھیں جانتا تک نہ ہوتا
اللہ کی قسم مجھے تو ندامت ہے کہ تم جیسے لوگ ملے، واللہ مجھے تو تم(شیعوں) سے دکھ و غم ہی ملے ہیں
تو
اللہ تم(شیعوں) کو مار ڈالے(ایک نسخے میں ہے کہ حضرت علی نے فرمایا اللہ تمہیں ذلیل و رسوا کرے،) تم لوگوں نے میرے دل کو زخمی کرکے پیپ سے بھر دیا، تم(شیعوں) کے کرتوت کی وجہ سے تم نے ہی میرے سینے کو تمھارے لیے غیظ و غضب سے بھر دیا
اور
مجھ سے بےوفائی کرکے اور میری نافرمانی کرکے تم لوگوں نے میرے رائے کو فاسد کردیا
اللہ کی قسم میں تم(شیعوں) کو سچا نہیں سمجھتا،تمھارے کسی قول کی تصدیق نہیں کرتا
(تمام شیعوں کے مطابق صحیح و معتبر ترین کتاب
نہج البلاغہ ص،68,63ملتقطا)
.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے شیعوں سے فرمایا:
لا تعرفون الحق كمعرفتكم الباطل، ولا تبطلون الباطل كإبطالكم الحق
یعنی
اے شیعو..........!! تمہیں حق کی معرفت و سمجھ نہیں مگر باطل میں تم گھرے ہوئے ہو، تم تو باطل کو باطل قرار نہین دیتے، جیسے تم حق کو باطل قرار دیتے ہو....(تمام شیعوں کے مطابق صحیح و معتبر ترین کتاب نهج البلاغة ص 105)
.
*کوئی یہ نہ سمجھے کہ اہلسنت کی کتب میں اہلبیت کے فضائل نہیں، کچھ احادیث تحریر کے شروع میں ملاحظہ فرما چکے اب مزید کچھ حوالہ جات حاضر ہیں کہ صحابہ کرام نے اہلبیت عظام کےمتعلق کیا فرمایا، کیا عمل کیا....؟؟ایک جھلک ملاحظہ کیجیے........!!*
فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي
سیدنا ابوبکر صدیق نے فرمایا اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار اہلبیت مجھے زیادہ محبوب ہیں کہ انکی خدمت کروں
(بخاری روایت3712)
.
یہ جھوٹ ہے کہ سیدہ فاطمہ علی عباس ازواج مطہرات اہلبیت وغیرہ کو رسول کریم کی املاک سے مطلقا محروم کیا گیا....سچ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےخود بی بی فاطمہ و اہلبیت میں سے کسی کو مالک نہ بنایا بلکہ نبی پاک نے اپنی ساری ملکیت اسلام کے نام وقف کی اور فاطمہ ازواج مظہرات اہلبیت وغیرہ پر وقف میں سے جو نفعہ پیداوار ملتی اسکو ان پر خرچ کرتے تھے
اسی طرح رسول کریم کی سنت پے چلتے ہوئے حضرت سیدنا صدیق اکبر عمر و علی رضی اللہ عنھم نے بھی اہلبیت آل رسول ازواج مطہرات وغیرہ کسی کو مالک نہ بنایا
بلکہ
فدک وغیرہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کےچھوڑےہوئےصدقات میں سےسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آل محمد اہلبیت ازواج مطہرات فاطمہ علی عباس پر
اور
کچھ صحابہ اور کچھ عوام مسلمین پر خرچ کرتےتھے…سیدنا عمر و سیدنا علی رضی اللہ عنھما نے بھی یہی طریقہ جاری رکھا یہی طریقہ رسول کریم کا رہا تھا
(دیکھیے تاریخ الخلفاء ص305,
ابوداود روایت نمبر2970,2972,
سنن کبری للبیھی روایت نمبر12724
بخاری روایت نمبر2776،3712،)
.
حتی کہ شیعہ مصنف نے بھی لکھا کہ سیدنا معاویہ اہلبیت کی افضلیت کے قائل تھے
فاحفظ قرابته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، واعلم يابني ان اباه خير من ابيك وجده خير من جدك وامه خير من امك
ترجمہ:
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یزید کو تنبیہ فرمائی کہ امام حسین کا خیال رکھنا وہ رسول اللہ کے رشتہ دار ہیں... اے میرے بیٹے جان لو کہ سیدنا حسین کے بابا جان تمہارے بابا جان سے زیادہ بہترین اور افضل ہیں اور ان کے دادا تمہارے دادا سے زیادہ بہترین افضل ہے اور ان کی والدہ تمہاری والدہ سے زیادہ بہترین و افضل ہے
(شیعہ کتاب مقتل الحسین ص13)
سیدنا معاویہ و سیدنا علی کا اختلاف تھا مگر آپس میں نفرت و دشمنی نہ رکھتے تھے
.
: لَعَلَّكَ تَظُنُّ أَنَّ أُمَّكَ مِثْلُ أُمِّهِ، أَوْ جَدَّكَ كَجَدِّهِ، فَأَمَّا أَبُوْكَ وَأَبُوْهُ فَقَدْ تَحَاكَمَا إِلَى اللهِ، فَحَكَمَ لأَبِيْكَ عَلَى أَبِيْهِ
سیدنا معاویہ نے فرمایا خبردار اے میرے بیٹے یزید........!!
تو شاید یہ گمان کرے کہ تمہاری ماں حسین کی ماں کی طرح ہے یا تمہارا دادا اس کے دادا کی طرح ہے یا تمہارا باپ اس کے باپ کی طرح ہے یہ گمان ہرگز نہ کرنا..... سیدنا حسین کا بابا تمہارے بابا سے زیادہ افضل ہے
( سير أعلام النبلاء - ط الرسالة3/260)
اختلاف ہوا مگر آپس میں نفرت و دشمنی نہ رکھتے تھے
.
عن أبى مسلم الخولانى أنه قال لمعاوية: أنت تنازع عليا فى الخلافة أو أنت مثله؟ ، قال: لا، وإنى لأعلم أنه أفضل منى وأحق بالأمر ولكن ألستم تعلمون أن عثمان قتل مظلوما وأنا ابن عمه ووليه أطلب بدمه؟
ابو مسلم الخولانى فرماتے ہیں میں نے سیدنا معاویہ سے کہا کہ آپ خلافت کے معاملے میں سیدنا علی سے جھگڑا کر رہے ہیں کیا آپ سیدنا علی کی مثل ہیں...؟؟ سیدنا معاویہ نے فرمایا ہرگز نہیں اور بے شک میں جانتا ہوں کہ بے شک وہ(سیدنا علی) مجھ سے افضل ہیں اور خلافت کے زیادہ حقدار ہیں لیکن کیا تم یہ نہیں جانتے کہ سیدنا عثمان ظلماً شہید کئے گئے اور میں اس کے چچا کا بیٹا ہوں اور اسکا ولی ہوں ...کیا میں اس کے خون کا قصاص طلب نہیں کر سکتا....؟؟
(روضة المحدثين7/242)
سیدنا معاویہ و سیدنا علی کا اختلاف تھا مگر آپس میں نفرت و دشمنی نہ رکھتے تھے
.
قَالَ مُعَاوِيَةُ لِضَرَارٍ الصَّدَائِيِّ : يَا ضَرَّارُ، صِفْ لِي عَلِيًّا....فبكى مُعَاوِيَة وَقَالَ: رحم الله أَبَا الْحَسَن، كَانَ والله كذلك، فكيف حزنك عَلَيْهِ يَا ضرار؟ قَالَ: حزن من ذبح ولدها وَهُوَ فِي حجرها. وكان مُعَاوِيَة يكتب فيما ينزل بِهِ ليسأل لَهُ علي بْن أَبِي طالب رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ ذَلِكَ، فلما بلغه قتله قَالَ: ذهب الفقه والعلم بموت ابْن أَبِي طالب
سیدنا معاویہ نے سیدنا ضرار سے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان بیان کرو میں سننا چاہتا ہوں... سیدنا ضرار نے طویل شان بیان کی اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ روتے ہوئے فرمانے لگے اللہ کی قسم سیدنا علی ایسے ہی تھے... اے ضرار تمہیں سیدنا علی کی وفات پر جو غم ہے وہ بیان کرو... سیدنا ضرار نے فرمایا کہ مجھے غم ایسا ہے جیسے کسی کی اولاد اس کی جھولی میں ہی شہید کر دی جائے.... سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالئ عنہ مسائل میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف لکھ کر پوچھا کرتے تھے جب سیدنا معاویہ کو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کی خبر ملی تو فرمایا کہ آج فقہ اور علم چلا گیا
(الاستيعاب في معرفة الأصحاب ,3/1108)
سیدنا معاویہ و سیدنا علی کا اختلاف تھا مگر آپس میں نفرت و دشمنی نہ رکھتے تھے
.
كَسَا عُمَرُ أَبْنَاءَ الصَّحَابَةِ، فَلَمْ يَكُنْ فِيهَا مَا يَصْلُحُ لِلْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ، فَبَعَثَ إِلَى الْيَمَنِ فَأَتَى لَهُمَا بِكِسْوَةٍ، فَقَالَ: الآنَ طَابَتْ نَفْسِي
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام کے بیٹوں کو کپڑے پہنائے...ان میں کوئی ایسا لباس نہ تھا کہ جو سیدنا حسن اور حسین کے لیے موافق ہوتا... سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یمن کی طرف قاصد کو بھیجا اور کپڑے منگوائے اور سیدنا حسن و حسین کو پہنائے اور فرمانے لگے اب میرا کلیجہ ٹھنڈا ہوا
( تاريخ الإسلام - ت تدمري5/101)
.
سیدنا معاویہ اہلبیت کو تحائف دیتے وہ قبول فرماتے
ﻭﻋﻦ ﺟﻌﻔﺮِ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﺃﻥَّ ﺍﻟﺤﺴﻦَ ﻭﺍﻟﺤﺴﻴﻦَ ﻛﺎﻧﺎ ﻳَﻘْﺒَﻼﻥِ ﺟﻮﺍﺋﺰَ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ.
سیدنا حسن حسین سیدنا معاویہ کے تحائف قبول کرتے تھے
( المصنف - ابن أبي شيبة -4/296)
.
ﻭﻋﻦ ﻋﺒﺪِﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺑُﺮﻳﺪﺓَ، ﺃﻥ ﺍﻟﺤﺴﻦَ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ رضي الله عنهما ﺩﺧﻞ ﻋﻠﻰ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻓﻘﺎﻝ: ﻷُﺟﻴﺰَﻧَّﻚ ﺑﺠﺎﺋﺰﺓٍ ﻟﻢ ﺃﺟﺰ ﺑﻬﺎ ﺃﺣﺪﺍً ﻗﺒﻠﻚ، ﻭﻻ ﺃﺟﻴﺰ ﺑﻬﺎ ﺃﺣﺪﺍً ﺑﻌﺪﻙ ﻣﻦ ﺍﻟﻌﺮﺏ، ﻓﺄﺟﺎﺯﻩ ﺑﺄﺭﺑﻌﻤﺎﺋﺔ ﺃﻟﻒ، ﻓﻘَﺒِﻠﻬﺎ.
ایک دفعہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے تو سیدنا معاویہ نے فرمایا کہ آج میں آپ کو وہ تحفہ دوں گا کہ ایسا تحفہ آپ سے پہلے کسی کو نہ دیا اور نہ دوں گا پھر سیدنا معاویہ نے آپ کو چار لاکھ درھم تحفے میں دیے امام حسن نے قبول فرمائے
(المصنف - ابن أبي شيبة -6/188)
.
صرف تحفے لینے اور دینے کا معاملہ نہ تھا بلکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالئ عنہ تعریف بھی کیا کرتے تھے
فَلَمَّا اسْتَقَرَّتِ الْخِلَافَةُ لِمُعَاوِيَةَ كَانَ الْحُسَيْنُ يَتَرَدَّدُ إِلَيْهِ مَعَ أَخِيهِ الْحَسَنِ، فَكَانَ مُعَاوِيَةُ يُكْرِمُهُمَا إِكْرَامًا زَائِدًا، وَيَقُولُ لَهُمَا: مَرْحَبًا وَأَهْلًا
جب سیدنا معاویہ کی خلافت (سیدنا حسن و حسین وغیرھما کی صلح کے بعد) قائم ہوگئ تو سیدنا حسن اور حسین سیدنا معاویہ کے پاس آیا کرتے تھے اور سیدنا معاویہ ان کا بے حد احترام عزت و اکرام کرتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ مرحبا اپنے گھر میں ہی آئے ہو...رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین
(البداية والنهاية ت التركي11/476)
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App,twitter nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574