*مسئلہ اجتہادی خطاء اور سیدہ فاطمہ کی اجتہادی خطاء بحوالہ بعض علماء......!!*
تمھید:
چمن زمان اور سید عرفان شاہ مشہدی اور اس گروپ کے لوگ دعوی کرتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ نے تو اجتہاد ہی نہیں کیا، حدیث پاک سنی اور تسلیم کر لیا...جب اجتہاد ہی نہ کیا تو اجتہادی غلطی کیسے ہوئی لیھذا جلا-لی صاحب گستاخ و گمراہ ضرور ہے بات کفر تک جاسکتی ہے اور چمن زمان نے درج ذیل نظریات پیش کییے
①صحابہ کرام نے ایک دوسرے کو کبھی کسی مسلے میں خطاء پر نہ کہا.....②علماء کی نسبت خطاء کی طرف کرنا بدعت و گناہ ہے③اکابر اسلاف کاملین خطاء اجتہادی سے بھی محفوظ ہیں④بعض مواقع پے بعض سامعین کے اعتبار سے بعض وجوہ کی وجہ سے خطاء اجتہادی کہنا گالی تک ہو جاتا ہےپھر⑤اخر میں نتیجہ نکالا کہ جلا-لی صاحب کا خطاء کہنا اجتہادی مراد لینا سیدہ فاطمہ کی بےادبی گستاخی گناہ تبرا و ناصبیت کیوں نہیں...؟؟⑥چمن زمان نے لکھا شاذ و حیرت میں ڈالنے والے قول ذکر نہ کیے جائیں⑦پھر لکھا کہ جلا-لی نے مطلق خطاء بولا تو اس سے اجتہادی خطاء مراد لینا درست نہیں
(دیکھیے چمن زمان کی کتاب محفوظہ)
.
*جواب.و.تحقیق…!!*
پہلی بات تو یہ کہ ہمیں کسی کو اجتہادی خطاء پے کہنے کا نہ تو شوق ہے اور نہ ہی عموما اسکی اجازت ہے....البتہ شرعی مسئلہ یا عقیدہ بیان کرنا ہو اور اجتہادی خطاء کا بیان کرنا ناگزیر ہو تو ادب کے ساتھ اجتہادی خطاء کی نسبت کی جاسکتی ہے اور علماء اسلاف نے کی ہے بلکہ حدیث پاک میں ہے کہ:
الحدیث:
فاجتهد ، ثم اصاب فله اجران ، وإذا حكم فاجتهد ، ثم اخطا فله اجر
مجتہد اجتہاد کرے اور درستگی کو پالے تو دو اجر اور اگر اجتہادی خطاء کرے تو اسے ایک اجر ملے گا
(بخاری حدیث7352)
حدیث پاک میں واضح اشارہ موجود ہے کہ اجتہادی خطا والے بھی امتی ہونگے اور اجتہادی خطاء پے ایک اجر ملے گا...تو پھر جسکی اجتہادی خطاء مدلل ہوجائے اور شرعی تقاضہ بھی ہو تو اجتہادی خطاء کی نسبت کرنا کوئی جرم و گناہ و گستاخی نہیں....البتہ اگر شرعی تقاضہ نہ ہو تو خطاء خطاء کہتے پھرنا ٹھیک نہیں
.
بعض علماء کے مطابق سیدہ فاطمہ اور سیدنا علی حدیث پاک کہ انبیاء کی وراثت مالی نہیں،یہ حدیث پاک سننے کے بعد بھی اسکی تاویل و اجتہاد کرتے تھے اور سیدہ فاطمہ تو وفات سے قبل تک مطالبہ پے قائم رہین.....!!
علامہ ابن حجر نے بعض محققین کا قول نقل فرمایا اور نفی بھی نہ کی تو یہ قول امام ابن حجر سمیت بعض محققین کا کہلایا کہ:
وَأَمَّا سَبَبُ غَضَبِهَا مَعَ احْتِجَاجِ أَبِي بَكْرٍ بِالْحَدِيثِ الْمَذْكُورِ فَلِاعْتِقَادِهَا تَأْوِيلَ الْحَدِيثِ عَلَى خِلَافِ مَا تَمَسَّكَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ وَكَأَنَّهَا اعْتَقَدَتْ تَخْصِيصَ الْعُمُومِ فِي قَوْلِهِ لَا نُورَثُ وَرَأَتْ أَنَّ مَنَافِعَ مَا خَلَّفَهُ مِنْ أَرْضٍ وَعَقَارٍ لَا يَمْتَنِعُ أَنْ تُورَثَ عَنْهُ وَتَمَسَّكَ أَبُو بَكْرٍ بِالْعُمُومِ وَاخْتَلَفَا فِي أَمْرٍ مُحْتَمِلٍ لِلتَّأْوِيلِ فَلَمَّا صَمَّمَ عَلَى ذَلِكَ انْقَطَعَتْ عَنْ الِاجْتِمَاعِ بِهِ لِذَلِكَ فَإِنْ ثَبَتَ حَدِيثُ الشَّعْبِيِّ أَزَالَ الْإِشْكَالَ وَأَخْلَقُ بِالْأَمْرِ أَنْ يَكُونَ كَذَلِكَ لِمَا عُلِمَ مِنْ وُفُورِ عَقْلِهَا وَدِينِهَا عَلَيْهَا السَّلَامُ
سیدہ فاطمہ نے جب سیدنا ابو بکر صدیق سے یہ حدیث سن لی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم انبیاء کرام کی کوئی مالی وراثت نہیں ہوتی... یہ حدیث سننے کے باوجود سیدہ فاطمہ نے یہ اعتقاد و رائے و اجتہاد کیا کہ حدیث کی تاویل ہے کہ حدیث عام نہیں بلکہ اس سے کچھ مستثنی ہیں اس طرح اختلاف ہوا اور سیدہ ناراض ہوئیں لیکن شعبی کی روایت کہ سیدہ پاک کی شان کے لائق ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدہ وفات سے کچھ عرصہ قبل جب سیدنا ابوبکر صدیق ان کے پاس آئے تھے تو اس وقت راضی ہوگئ تھیں(اور اجتہادی نظریہ سے رجوع کر لیا تھا)
(فتح الباري ابن حجر عسقلانی6/202)
واضح ہوا کہ کئی محققین کے مطابق سیدہ فاطمہ نے اجتہاد کیا حدیث سننے کے بعد...جبکہ چمن زمان و مشہدی وغیرہ کہہ رہے ہیں کہ اجتہاد ہی نہیں کیا... سیدہ فاطمہ کا اجتہاد کرنا ثابت ہو گیا اور آگے تفصیل آئے گی کہ سیدنا ابوبکر صدیق حق پر تھے تو سیدہ فاطمہ کا اجتہاد کئ محققین کے مطابق اجتہادی خطاء ثابت ہوا... کیا نعوذ باللہ یہ سارے اسلاف بھی گستاخ.....؟؟نعوذ باللہ
.
فَلَمَّا مَاتَ ادَّعَتْ فَاطِمَةُ عليها السلام...فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنْتِ أَعَزُّ النَّاسِ عَلَيَّ... لَكِنِّي لَا أَعْرِفُ صِحَّةَ قَوْلِكِ، وَلَا يَجُوزُ أَنْ أَحْكُمَ بِذَلِكَ.. فَأَجْرَى أَبُو بَكْرٍ ذَلِكَ عَلَى مَا كَانَ يُجْرِيهِ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.. وَكَذَلِكَ عُمَرُ جَعَلَهُ فِي يَدِ عَلِيٍّ لِيُجْرِيَهُ عَلَى هَذَا الْمَجْرَى
امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ نے میراث کا دعوی کیا تو سیدنا ابو بکر صدیق نے فرمایا کہ آپ کی بہت عزت ہے لیکن میں آپ کے قول و دعوے(اجتہاد) کو درست نہیں سمجھتا(خطاء اجتہادی ہے آپ کی)... لہٰذا میرے لئے جائز نہیں ہے کہ میں آپ کی قول پر عمل کروں تو سیدنا ابوبکر صدیق نے سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مال و دولت میں وہی طریقہ جاری کیا جو سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور یہی طریقہ جاری رکھا سیدنا عمر نے اور یہی طریقہ جاری رکھا سیدنا علی نے
(تفسیر کبیر امام رازی29/506)
واضح ہوتا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق نے سیدہ فاطمہ کی عزت کی اور فرمایا کہ معذرت مگر آپ کا اجتہاد درست نہیں...اجتہادی خطاء ہے... کیا امام فخر الدین رازی بھی گستاخ ٹہرے.....؟؟
.
لا نُورثُ ما تَرَكنا صَدَقةٌ"...قال ابن إسحاق: ثم أقامت فاطمة على ذلك تطلب حقها من أبي بكر حتى قبضت بعد ستة أشهر
حدیث پاک کے تمام انبیاء کرام کا مالی ورثہ نہیں ہوتا یہ سننے کے باوجود سیداں پاک فاطمہ سیدنا ابو بکر صدیق سے حقِ میراث کے دعوے پے رہیں وفات تک(وفات سے کچھ دن پہلے راضی ہوگئ تھیں)
(مرآة الزمان في تواريخ الأعيان4/276)
.
أما سبب غضبها مع احتجاج أبي بكر بما سبق فلاعتقادها تأويله
انبیاء کرام کی وراثت مالی نہ ہونے کے متعلق حدیث پاک سننے کے باوجود بھی سیدہ پاک فاطمہ طیبہ طاہرہ نے سیدنا ابوبکر صدیق پر غصہ کیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ سیدہ فاطمہ حدیث کی تاویل کرتی تھیں
(وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى3/155)
امام سمھودی کے مطابق بھی سیدہ نے اجتہاد کیا اور یہ بات واضح ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق اکبر درست تھے تو سیدہ فاطمہ کی اجتہادی خطا کہلائی.....!!
.
والله أعْلَمُ حَمْلُ الأمْر فِي ذَلِكَ عَلَى أَنَّ كُلا مِنْ عَلِيّ، والْعَبَّاس، ومثلهما فاطمة رضي الله تعالى عنهم اعْتَقَدُوا أنَّ عُمُوم قولِهِ: "لا نُورَثُ"، مَخْصُوص ببَعْضِ مَا يَخْلُفُهُ دُون بَعْض
سیدنا علی سیدنا عباس اور سیدہ فاطمہ یہ سب اعتقاد و اجتہاد(اور تاویل) رکھتے تھے کہ انبیاء کی کوئی مالی وراثت نہیں یہ حدیث پاک عام نہین بلکہ اس سے کچھ مستثنی ہے
(ذخیرۃ العقبی32/190)
.
بأنهما اعتقدا أن عموم قوله: "لا نورث" مخصوص ببعض ما يخلفه دون بعض
سیدنا علی سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھم اعتقاد و اجتہاد(اور تاویل) رکھتے تھے کہ انبیاء کی کوئی مالی وراثت نہیں یہ حدیث پاک عام نہیں بلکہ اس سے کچھ مستثنی ہے
(ارشاد الساری5/195)
امام قسطلانی کے مطابق بھی سیدہ اور سیدنا علی و سیدنا عباس نے اجتہاد کیا اور یہ بات واضح ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق اکبر درست تھے تو سیدہ فاطمہ سیدنا علی سیدنا عباس کی اجتہادی خطا کہلائی.....!!
.
وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ فِيهَا لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ
سیدنا عمر نے فرمایا کہ بے شک سیدناابوبکرصدیق اس معاملے میں سچے تھے حسن سلوک کرنے والے تھے ہدایت پر تھے حق کے تابع تھے(اور سیدنا علی سیدہ فاطمہ سیدنا عباس بعض ازواج مطہرات اجتہادی خطاء پر تھے)
(بخاری روایت3094)
.
فَتَأمل مَا فِي حَدِيث عَائِشَة وَالَّذِي قبله تعلم حقية مَا عَلَيْهِ أَبُو بكر رَضِي الله عَنهُ
امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ ان احادیث میں غور کرو تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ سیدنا صدیق اکبر حق پر تھے(اور سیدنا علی سیدہ فاطمہ سیدنا عباس بعض ازواج مطہرات اجتہادی خطاء پر تھے)
(الصواعق المحرقة ابن حجر ہیتمی1/97)
.
لنا أن عليا رضي الله عنه خالفه الصحابة في كثير من المسائل ولم يقل لأحد ممن خالفه إن قولي حجة فلا تخالفني
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی مخالفت کچھ مسائل میں صحابہ کرام نے کی تو سیدنا علی نے یہ نہیں فرمایا کہ میرا قول حجت ہےمیری مخالفت مت کرو(اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی سیدہ فاطمہ وغیرہ اہلبیت سے اجتہادی خطا ہو سکتی ہے)
(المحصول امام رازی4/170)
.
اہلسنت کے جید عالم علامہ عبد العلي محمد بن نظام الدين محمد السهالوي الأنصاري اللكنوي فرماتے ہیں:
وأهل البيت كسائر المجتهدين، يجوز عليهم الخطأ في اجتهادهم وهم يصيبون ويخطئون وكذا يجوز عليهم الزلة وهي وقوعهم في أمر غير مناسب لمرتبتهم من غير تعمد، كما وقع من سيدة النساء رضي الله تعالى عنها من هجرانها خليفة رسول الله صلى الله عليه وآله وأصحابه وسلم...أهل البيت أيضاً كانوا عالمين بعدم . عصمة أنفسهم من هذا الخطأ الاجتهادي ألم تر كيف رد ابن مسعود قول أمير المؤمنين علي في عدة الحامل المتوفى عنها زوجها...لا عصمة في أهل البيت بمعنى عدم جواز الخطأ الاجتهادي منهم فاحفظه
اہل بیت دیگر مجتہدین کی طرح ہیں ان پر خطاء جائز ہے بلکہ وہ کبھی خطا کرتے ہیں اور کبھی درستگی کو پاتے ہیں۔۔اہل بیت سے زلۃ(لغزش، اجتہادی خطاء)واقع ہونا بھی جائز ہے جیسے کہ بی بی فاطمہ سے لغزش واقع ہوئی۔۔۔۔اسی طرح اہل بیت کے صحابہ کرام سے الگ تفردات گزرے ہیں جس پر اگرچہ فتوی نہیں دیا گیا لیکن کوئی مذمت بھی نہیں کی گئی ۔۔۔صحابہ کرام اور اہل بیت عظام دونوں یہ سمجھتے تھے کہ ان سے خطائے اجتہادی کا صدور ہو سکتا ہے بلکہ ہوا ہے جیسے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خطا اجتہادی حاملہ متوفی زوجھا کی عدت کے معاملے میں واقع ہوءئ اور بھی بہت سے واقعات ہیں جن میں اہل بیت اور صحابہ کرام کے اجتہادی خطائیں تفردات واقع ہوئے ہیں جو جمہور کے خلاف تھے لیکن فتوی جمہور پر دیا گیا لیکن تفردات والے پر بھی مذمت نہ کیا گیا
(فواتح الرحموت2/279 ملتقطا)
.
والاجتهاد الخطأ ليس بمعصية
اہل بیت اطہار گناہوں سے محفوظ ہیں لیکن اجتہادی خطا سے محفوظ نہیں
(شرح تنقیح الفصول ص334)
.
أن عليًا خالفه الصحابة في مسائل كثيرة في الحالة التي يعلم أنه لم يكن غيره من العترة فيها بصفة الاجتهاد...فيما يقولونه بطريق الرواية، لا فيما يقولونه بطريق الاجتهاد
سیدنا علی سے کچھ مسائل میں صحابہ کرام نے اختلاف کیا اجتہاد کے طور پر سیدنا علی نے یہ نہیں فرمایا کہ حجت ہوں... لہذا جو قول اہلبیت روایت کریں وہ تو مقبول ہے لیکن جو اجتہاد کے طور پر کریں ان میں اہلبیت کا درست ہونا ضروری نہیں ہے(ان سے خطاء اجتہادی بالکل ہوسکتی ہے)
(نہایۃ الوصول فی درایۃ الاصول2589 ،6/2596)
.
بمنع أن الخطأ رجس، لأنه مأجور به
خطائے اجتہادی اہل بیت سے ممنوع نہیں ہے، اجتہادی خطاء ان سے ہو سکتی ہے اور یہ طہارت اہلبیت کے منافی نہیں کہ خطاء اجتہادی پر تو ایک اجر ملتا ہے
(تیسیر الوصول الی منھاج الاصول5/82)
مذکورہ بالا اقوال میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ اہل بیت کی طرف سیدنا علی کی طرف سیدہ فاطمہ کی طرف خطائے اجتہادی کا جواز بھی کہا گیا ہے اور بعض میں نسبت بھی کی گئی ہے...کیا یہ سب بھی گستاخ نعوز باللہ.....؟؟
.
==============
دوسری بات....!!
*کیا سیدہ فاطمہ ناراض رہیں......؟؟*
بخاری حدیث نمبر 4240 اور مسلم حدیث نمبر1759 کے تحت امام زہری کا قول ہے ناکہ حدیث کہ سیدہ فاطمہ ناراض رہیں..یہ امام زہری کا تفرد اضافہ و ادراج ہے امام زہری کے علاوہ گیارہ راویوں نے یہی حدیث بیان کی مگر زہری والا اضافہ نہ کیا لیھذا زہری کا اضافہ بلاسند و بلادلیل ہے جوکہ مدرج و مرجوح ہے راجح اور صحیح یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق نے جنازہ پڑھایا...علماء کا اتفاق ہے کہ بخاری مسلم میں موجود اقوال ، تفردات و تعلیقات صحیح ہوں یہ لازم نہیں..(دیکھیے نعمۃ الباری شرح بخاری7/615وغیرہ)
.
اول بات تو یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ ناراض نہ ہوئیں تھیں بعض کتب میں جو مہاجرت و ترک کلام لکھا ہے اسکا معنی علماء نے یہ لکھا ہے کہ فدک وغیرہ کے متعلق کلام ترک کردیا مطالبہ ترک کر دیا...(دیکھیے ارشاد الساری شرح بخاری5/192 ،عمدۃ القاری22/233 وغیرہ کتب)
بالفرض
اگر سیدہ فاطمہ ناراض بھی ہوئی تھیں تو سیدنا ابوبکر نے انہیں منا لیا تھا راضی کر لیا تھا اور سیدہ فاطمہ راضی ہوگئ تھیں
ترضاھا حتی رضیت
سیدناصدیق اکبر بی بی فاطمہ کو(غلط فھمیاں دور فرما کر)مناتےرہےحتی کہ سیدہ راضی ہوگئیں(سنن کبری12735 عمدۃ القاری15/20,السیرۃ النبویہ ابن کثیر4/575)
.
ابوبکر…فرضیت عنہ
فاطمہ ابوبکر(کی وضاحت،اظہارمحبت کےبعد)راضی ہوگئیں(شیعہ کتاب شرح نہج بلاغۃ2/57)
.
سیدنا ابوبکر کی زوجہ سیدہ فاطمہ کی بیماری میں ان کی دیکھ بھال کرتی رہیں، سیدہ فاطمہ نے انہیں وصیت کی تھی کہ وہ انہیں غسل دیں، یہ بات شیعہ کتب سے بھی ثابت ہے..یہ بھی دلیل ہے کہ سیدہ راضی ہوگئ تھیں
سیدہ فاطمہ کی وصیت:
میری میت کوغسل ابوبکرکی زوجہ اور علی دیں(شیعہ کتاب مناقب شہرآشوب3/138)
.==============
*تیسری بحث......!!*
*فدک اور رسول کریم اور خلفاء ثلاثہ و سیدنا علی کا عمل اور شیعہ کتب سے کچھ حوالے.......؟؟*
دَخَلَ الْعَبَّاسُ وَعَلِيٌّ عَلَى عُمَرَ، وَعِنْدَهُ طَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَسَعْدٌ، وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ، فَقَالَ عُمَرُ لِطَلْحَةَ ، وَالزُّبَيْرِ ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَسَعْدٍ : أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " كُلُّ مَالِ النَّبِيِّ صَدَقَةٌ إِلَّا مَا أَطْعَمَهُ أَهْلَهُ وَكَسَاهُمْ، إِنَّا لَا نُورَثُ " ؟ قَالُوا : بَلَى. قَالَ : فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ مِنْ مَالِهِ عَلَى أَهْلِهِ، وَيَتَصَدَّقُ بِفَضْلِهِ، ثُمَّ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَلِيَهَا أَبُو بَكْرٍ سَنَتَيْنِ، فَكَانَ يَصْنَعُ الَّذِي كَانَ يَصْنَعُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ترجمہ:
سیدنا علی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آ گئے اور ان کے پاس سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر، سیدنا عبدالرحمٰن اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہم (پہلے سے) بیٹھے تھے، یہ دونوں (یعنی سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما) جھگڑنے لگے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے طلحہ، زبیر، عبدالرحمٰن اور سعد رضی اللہ عنہم سے کہا: کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”نبی کا سارا مال صدقہ ہے سوائے اس کے جسے انہوں نے اپنے اہل کو کھلا دیا یا پہنا دیا ہو، ہم لوگوں کا کوئی مالی وارث نہیں ہوتا“، لوگوں نے کہا: کیوں نہیں (ہم یہ بات جانتے ہیں آپ نے ایسا ہی فرمایا ہے) اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مال میں سے اپنے اہل پرخرچ کرتے تھے اور جو کچھ بچ رہتا وہ صدقہ کر دیتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے آپ کے بعد اس مال کے متولی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ دو سال تک رہے، وہ ویسے ہی خرچ کرتے رہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کرتے تھے
(ابوداود 2975)
.
وُلِّيتُهَا بَعْدَ أَبِي بَكْرٍ فَصَنَعْتُ فِيهَا الَّذِي كَانَ يَصْنَعُ، ثُمَّ أَتَيَانِي فَسَأَلَانِي أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْهِمَا، عَلَى أَنْ يَلِيَاهَا بِالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَالَّذِي وُلِّيتُهَا بِهِ، فَدَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا، وَأَخَذْتُ عَلَى ذَلِكَ عُهُودَهُمَا،
سیدنا عمر فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد میں خلیفہ ہوا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال میں وہی تقسیم اور خرچہ جاری رکھا کہ جس طرح سیدنا ابوبکر صدیق کیا کرتے تھے... پھر ان اموال سے خرچہ اٹھانے کے لئے میں نے آپ اہل بیت کو یہ مال دیا اس شرط پر کہ آپ لوگ اسی طرح خرچہ اٹھاتے رہو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ میں خرچہ دیا کرتے تھے جس طرح سیدنا ابوبکر صدیق آپ میں خرچہ کیا کرتے تھے اور آپ لوگوں سے اس پر عہد بھی لیا
(نسائی روایت4148)
.
*سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کس طرح کا معاملہ فرمایا...ملاحظہ کیجیے......!!*
قَالَ : فَهُمَا عَلَى ذَلِكَ إِلَى الْيَوْمِ.
سیدنا زهري فرماتے ہیں کہ سیدنا ابو بکر صدیق سے لے کر سیدنا علی وغیرہ تک یہ اسی طریقے پر جاری ہے( کہ اموال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی ملکیت نہیں ہے وہ صدقہ ہیں وہ اہل بیت و دیگر رشتہ داروں اور دیگر مسلمانوں اور اللہ کی راہ میں خرچ ہوتا رہا سب خلفاء راشدین کے دور میں)
(ابوداؤد روایت2968)
.
ولهذا لَمَّا صارت الخِلافة إلى عليٍّ لم يُغيِّرْها عن كونها صدَقة
جب سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اسی طریقے کو جاری رکھا جو سیدنا ابوبکر صدیق نے جاری رکھا تھا اور اموالِ رسول کریم کو صدقہ قرار دیا
(اللامع الصبيح بشرح الجامع الصحيح9/156)
(كتاب منحة الباري بشرح صحيح البخاري6/209)
.
ومما يدل على ما قلناه: ما قاله أبو داود: أنه لم يختلف على - رضى الله عنه - أنه لما صارت الخلافة إليه لم يغيرها عن كونها صدقة
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال صدقہ ہیں اس بات پر یہ بھی دلیل ہے کہ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ جب سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اسے صدقہ قرار دیا اور جس طرح سیدنا صدیق اکبر نے خرچہ جاری کیا تھا سیدنا علی نے اسی طریقے پر اسی طرز کو جاری رکھا اس سے تبدیل نہ کیا کسی کی ملکیت قرار نہ دیا
(إكمال المعلم بفوائد مسلم6/79)
.
*سیدنا عثمان نے فدک مروان کو کیوں دیا.......؟؟*
اوپر روایت میں اشارہ ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے باغ فدک مروان کو دیا تھا... تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ جو بھی تھا وہ سب مسلمانوں کے لئے صدقہ تھا وہ اہل بیت پہ خرچ ہو سکتا تھا دوسرے مسلمانوں پر بھی خرچ ہو سکتا تھا کسی اہل بیت پر خرچ کرنا فرض واجب نہیں تھا... عین ممکن ہےکہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے دیگر صدقات میں سے اہل بیت کو خرچہ دیا اور فدک صدقہ ان سے لے کر کسی اور کو دے دیا ہو.....؟؟
.
سنی یا شیعہ نجدی تمام کتب میں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی مالی ترکہ نہ تھا جو بھی تھا وہ سب صدقہ تھا جیسے اوپر احادیث گزریں... تو صدقہ کسی بھی مسلمان پر خرچ ہو سکتا ہے لہذا سیدنا عثمان پر کوئی اعتراض نہیں... ہاں یہ طرز جاری تھا کہ سیدنا ابو بکر صدیق نے سیدنا عمر نے سیدنا علی نے اسی طرح اہل بیت وغیرہ پر خرچ کیا جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ قرآن اور حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا لَهُ فِيهَا حَقٌّ
(رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چھوڑا ہوا مال صدقہ ہے تو )اس صدقے میں ہر مسلمان کا حق ہے(وہ کسی کے لیے خاص نہیں)
(ابوداود روایت2966)
.
بين المسلمين ومصالحهم، وأن أمره إلى من يلي أمره بعد، متفق عليه بين الصحابة حتى العباس وعلي
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مال صدقہ ہیں وہ مسلمانوں میں اہلبیت وغیرہ میں خرچ ہوتے رہیں گے اور اس کی نگرانی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کے خلیفہ کے سپرد ہے اس بات پر تمام صحابہ کا اتفاق ہے حتی کہ سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہما کا بھی اسی بات پر اتفاق ہے
(لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح7/146)
.
اب جب ثابت ہوگیا کہ احادیث اور صحابہ کرام اور اہل بیت عظام کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال صدقہ ہیں تو لازم نہیں ہے کہ صرف اہل بیت میں ہی خرچ ہو وہ کہیں بھی خرچ ہو سکتے ہیں...یہ سب خلیفہ کی صوابدید پر ہے کہ وہ کہاں پر زیادہ حاجت کو محسوس کرتا ہے وہاں پر خرچ کرے گا
لیھذا
سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جب دیکھا کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال اہل بیت میں خرچ کرنا لازم نہیں ہے تو انہوں نے دیگر اموال اہل بیت کو دیے اور اموال رسول دیگر معاملات میں خرچ کییے
.
إِنَّمَا أَقْطَعَ عُثْمَانُ فَدَكَ لِمَرْوَانَ لِأَنَّهُ تَأَوَّلَ أَنَّ الَّذِي يَخْتَصُّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكُونُ لِلْخَلِيفَةِ بَعْدَهُ فَاسْتَغْنَى عُثْمَانُ عَنْهَا بِأَمْوَالِهِ
باغ فدک سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے مروان کو دیا تھا خرچے کیلئے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ دلیل پکڑی کہ اموال رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی خلیفہ کے لئے سپرد ہے تو سیدنا عثمان نے دیگر مال اہل بیت کو دے کر اموال رسول کریم سے مستغنی کر دیا
(كتاب فتح الباري لابن حجر6/204)
.
عَلَيْهِ وَكَانَ تَأْوِيلُهُ فِي ذَلِكَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ مَا بَلَغَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ مِنْ قَوْلِهِ إِذَا أَطْعَمَ اللَّهُ نَبِيًّا طُعْمَةً فَهِيَ لِلَّذِي يَقُومُ مِنْ بَعْدِهِ وَكَانَ رَسُولُ الله يَأْكُلُ مِنْهَا وَيُنْفِقُ عَلَى عِيَالِهِ قُوتَ سَنَةٍ وَيَصْرِفُ الْبَاقِي مَصْرِفَ الْفَيْءِ فَاسْتَغْنَى عَنْهَا عُثْمَانُ بِمَالِهِ
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے مروان وغیرہ کو اموال میں سے دیا تو اس کی تاویل یہ تھی کہ آپ کو یہ دلیل معلوم تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو رسول اللہ کے مال ہیں وہ رسول اللہ کے بعد آنے والے خلیفہ کی نگرانی میں ہوں گے ان کی صوابدید پر ہوں گے لہذا سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی صوابدید یہ تھی کہ انہوں نے دیگر اموال اہل بیت کو دے کر اموال رسول کریم سے ان کو مستغنی کردیا
(عون المعبود وحاشية ابن القيم8/138)
.
*رسول کریم کی مالی میراث نہیں، انکا مال صدقہ ہے،شیعہ کتب سے کچھ حوالے جات......!!*
رسول الله صلى الله عليه وآله يقول: " نحن معاشر الأنبياء لا نورث ذهبا ولا فضة ولا دارا ولا عقارا وإنما نورث الكتاب والحكمة والعلم والنبوة وما كان لنا من طعمة فلولي الأمر بعدنا أن يحكم فيه بحكمه
شیعہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم گروہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے سونے کا نہ چاندی کا نہ ہی گھر کا نہ ہی زمینوں کا... ہم تو کتاب اور حکمت اور علم کا وارث بناتے ہیں... جو کچھ ہمارا مال ہے وہ ہمارے بعد جو خلیفہ آئے گا اس کے سپرد ہے اس کی صوابدید پر موقوف ہے کہ وہ کس طرح خرچ کرتا ہے
(شیعہ کتاب الاحتجاج - الشيخ الطبرسي1/142)
.
، وإن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم
شیعہ کہتے ہیں کہ بے شک علماء انبیاء کرام کے وارث ہیں اور انبیائے کرام نے کسی کو درہم اور دینار( مالی وراثت )کا وارث نہیں بنایا انکی وراثت تو فقط علم ہے
(شیعہ کتاب الكافي - الشيخ الكليني1/34)
.
أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله يقول: نحن معاشر الأنبياء لا نورث ذهبا ولا فضة ولا دارا ولا عقارا وإنما نورث الكتب (3) والحكمة والعلم والنبوة، وما كان لنا من طعمة فلولي الامر بعدنا ان يحكم فيه بحكمه
شیعہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم گروہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے سونے کا نہ چاندی کا نہ ہی گھر کا نہ ہی زمینوں کا... ہم تو کتاب اور حکمت اور علم کا وارث بناتے ہیں... جو کچھ ہمارا مال ہے وہ ہمارے بعد جو خلیفہ آئے گا اس کے سپرد ہے اس کی صوابدید پر موقوف ہے کہ وہ کس طرح خرچ کرتا ہے
(شیعہ کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي29/231)
.
وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: (إنا معاشر الأنبياء لا نورث ذهبا ولا فضة، ولا دارا ولا عقارا. وإنما نورث الكتاب والحكمة، والعلم والنبوة
شیعہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم گروہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے سونے کا نہ چاندی کا نہ ہی گھر کا نہ ہی زمینوں کا... ہم تو کتاب اللہ اور حکمت اور علم کا وارث بناتے ہیں
قال: فلما وصل الأمر إلى علي بن أبي طالب عليه السلام كلم في رد فدك، فقال: إني لأستحي من الله أن أرد شيئا منع منه أبو بكر وأمضاه عمر
شیعہ لکھتے ہیں کہ جب سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے باغ فدک کے بارے میں بات کی اور فرمایا کہ مجھے اللہ سے حیا آتی ہے کہ میں ایسا کام کرو کہ سیدنا ابو بکر صدیق نے جس سے منع کیا ہو اور اس کو سیدنا عمر نے جاری کیا ہو
(شیعہ کتاب الشافي في الامامة - الشريف المرتضى4/76)
.
ویسے تو ہم شیعہ کتب کے متعلق کہتے ہیں کہ جھوٹ تضاد گستاخی سے بھری پڑی ہیں مگر کچھ سچ بھی لکھا ہے انہون نے لیھذا کتب شیعہ کی بات قرآن و سنت معتبر کتب اہلسنت کے موافق ہوگی تو وہی معتبر...مذکورہ حوالہ جات موافق قرآن و سنت ہیں، موافق کتب اہلسنت ہین لیھذا معتبر
کیونکہ شیعہ ناصبی جیسے جھوٹے بھی کبھی سچ بول جاتے ہیں ، لکھ جاتے ہیں اگرچہ الٹی سیدھی تاویلیں اپنی طرف سے کرتے ہیں جوکہ معتبر نہیں
قَدْ يَصْدُقُ الْكَذُوبَ
ترجمہ:
بہت بڑا جھوٹا کبھی سچ بول دیتا ہے
(فتح الباری9/56، شیعہ کتاب شرح اصول کافی2/25)
.==============
*چوتھی بات......!!*
*اولیاء کرام معصوم نہیں مگر محفوظ ہیں کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ خطاء اجتہادی سے بھی محفوظ ہیں....بلکہ خطاء اجتہادی سے محفوظ ہونا شرط نہیں کہ کاملین اولیاء صحابہ کرام اہلبیت عظام کی طرف اجتہادی خطاء کی نسبت کی گئ ہے......!!*
يكون محفوظا فلا يصر على الذنوب وإن حصلت هفوات في أوقات أو زلات فلا يمتنع ذلك في وصفهم.
ولی(صحابہ اہلبیت دیگر اولیاء)محفوظ ہیں وہ(اکثر گناہ و خطاء نہیں مگر کبھی گناہ ان سے ہو بھی جاتا ہے تو وہ)گناہوں پر مصر و قائم نہیں رہتے اگر چہ بعض اوقات ان سے ھفوات و لغزیشیں واقع ہوتی ہیں مگر یہ ولایت کے منافی نہیں
[بستان العارفين للنووي ,page 66]
.
والأولياء وَإِن لم يكن لَهُم الْعِصْمَة لجَوَاز وُقُوع الذَّنب مِنْهُم وَلَا يُنَافِيهِ الْولَايَة...لَكِن لَهُم الْحِفْظ فَلَا تقع مِنْهُم كَبِيرَة وَلَا صَغِيرَة غَالِبا
اولیاء(صحابہ اہلبیت دیگر اولیاء)اگرچہ معصوم نہیں کیونکہ ان سے گناہ کا واقع ہونا جائز ہے یہ ولایت کے منافی نہیں مگر یہ محفوظ ہوتے ہیں تو ان سے غالبا صغیرہ کبیرہ گناہ واقع نہیں ہوتے(غالبا کی قید سے واضح ہے کہ کبھی کبیرہ صغیرہ سھوا خطاء اجتہادی خطاء واقع ہوتی ہے)
[الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي ,ص 230بحذف یسیر]
.
لأن الأنبياء معصومون من الغلط والخطأ لئلا يقع الشك في أمورهم وأحكامهم , وهذا قول شاذ من المتكلمين. والقول الثاني: وهو قول الجمهور من العلماء والمفسرين ولا يمتنع وجود الغلط والخطأ من الأنبياء كوجوده من غيرهم. لكن لا يقرون عليه وإن أقر عليه غيرهم
خلاصہ:
وہ جو کہتے ہیں کہ انبیاء کرام غلطی اور خطا سے معصوم ہے یہ قول شاذ متکلمین کا ہے
جمہور علماء اور مفسرین کا قول یہ ہے کہ انبیائے کرام سے اجتہادی غلطی اور اجتہادی خطا ہوجاتی ہے لیکن وہ اس پر قائم نہیں رہتے (بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)غیر انبیاء سے خطا اجتہادی ہوتی ہے تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اس پر قائم نہ رہیں بلکہ بعض اس پر قائم بھی رہتے ہیں
[اتفسير الماوردي = النكت والعيون ,3/457بحذف یسییر]
.==============
*پانچویں بات......!!*
عندالضرورة اسلاف کے شاذ قول حیرت میں ڈالنے والے قول غیرمعروف قول ذکر کرنا ، مجتہد کا شاذ قول کرنا جائز و اسلاف کاطریقہ رہا ہے....اسے بربادی و زندیقیت کہنا برا عمل کہنا جھوٹ غلو و مکاری دھوکہ دہی ہے...بلاضرورہ شاذ قول کہنا یا نقل کرنا ہم بھی مناسب نہیں سمجھتے،ہم نے جو اقوال و دلائل لکھے اولا تو وہ شاذ نہیں معروف ہیں اگر شاذ مان بھی لیاجائے تو یہاں شیعہ وغیرہ کے برے عقیدے کے بطلان اور دفاع صدیق اکبر وغیرہ ضرورت کے تحت لکھے ہیں...عندالضرورة اسلاف کے شذوذ حیرت تردد میں ڈالنے والے اقوال غیر معروف اقوال سیدی امام احمد رضا نے بھی نقل فرمائے آپ لکھتے ہیں:
.
اتباع سواد اعظم کا حکم اور من شذ شذ من فی النار(جو جدا ہوا وہ جہنم میں گیا۔ ت)کی وعید صرف دربارہ عقائد ہے مسائل فرعیہ فقہیہ کو اس سے کچھ علاقہ نہیں،صحابہ کرام سے ائمہ اربعہ تك رضی ﷲ تعالٰی عنہم اجمعین کوئی مجتہد ایسا نہ ہوگا جس کے بعض اقوال خلاف جمہور نہ ہوں،سیدنا ابوذر رضی ﷲ تعالٰی عنہ کا مطلقًا جمع زر کو حرام ٹھہرانا،ابو موسی اشعری رضی ﷲ تعالٰی عنہ کا نوم کو اصلا حدث نہ جاننا،عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنہما کا مسئلہ ربا،امام اعظم رضی ﷲ تعالٰی عنہ کامسئلہ مدت رضاع،امام شافعی رضی ﷲتعالٰی عنہ کا مسئلہ متروك التسمیہ عمدًا،امام مالك رضی ﷲ تعالٰی عنہ کا مسئلہ طہارت سؤر کلب وتعبد عنسلات سبع،امام احمد رضی ﷲ تعالٰی عنہ کا مسئلہ نقض وضو بلحم جز ور وغیرہ ذلك مسائل کثیرہ کو جو اس وعید کا مورد جانے خود شذ فی النار(جو جدا ہو جہنم میں ڈالا گیا۔ت)کا مستحق بلکہ اجماع امت کا مخالف
(فتاوی رضویہ18/497.498)
.
*اسلاف نے بعض انبیاء کرام کی طرف اجتہادی خطاء کی نسبت کی تو وہ برحق تو پھر انبیاء سے جنکا رتبہ کم ہے یعنی صحابہ کرام اہلبیت عظام وغیرہ کی طرف مدلل طور پر اجتہادی خطاء کی نسبت کرنا کیونکر گمراہی و گستاخی کہلائے گی.....؟؟*
امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں
1....وَقد كَانَت مِنْهُم زلات وخطایاھم
ترجمہ:
اور بےشک بعض انبیاء کرام علیھم السلام سے لغزیشیں اور(اجتہادی)خطائیں ہوئیں
[أبو حنيفة ,الفقه الأكبر ,page 37]
.
2....وجاز الخطا في اجتهاد الأنبياء الا انهم لا يقرون عليه
ترجمہ:
انبیائے کرام کے اجتہاد میں خطا واقع ہونا جائز ہے مگر یہ کہ وہ خطائے اجتہادی پر قائم نہیں رہتے (بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)
[التفسير المظهري ,6/215]
.
③لأن الأنبياء معصومون من الغلط والخطأ لئلا يقع الشك في أمورهم وأحكامهم , وهذا قول شاذ من المتكلمين. والقول الثاني: وهو قول الجمهور من العلماء والمفسرين ولا يمتنع وجود الغلط والخطأ من الأنبياء كوجوده من غيرهم. لكن لا يقرون عليه وإن أقر عليه غيرهم
خلاصہ:
وہ جو کہتے ہیں کہ انبیاء کرام غلطی اور خطا سے معصوم ہے یہ قول شاذ متکلمین کا ہے
جمہور علماء اور مفسرین کا قول یہ ہے کہ انبیائے کرام سے اجتہادی غلطی اور اجتہادی خطا ہوجاتی ہے لیکن وہ اس پر قائم نہیں رہتے (بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)غیر انبیاء سے خطا اجتہادی ہوتی ہے تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اس پر قائم نہ رہیں بلکہ بعض اس پر قائم بھی رہتے ہیں
[اتفسير الماوردي = النكت والعيون ,3/457بحذف یسییر]
.
.④أن الخطأ إذا وقع من نبي بقول أو فعل فإن الله تعالى يصححه على الفور، مما يبين وجوب الأسوة والقدوة بهم، وأن ذلك لا يؤثر على الاقتداء والتأسي بهم؛ لأن خطأهم مصحح بخلاف خطأ غيرهم
خلاصہ:
جب کسی نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے قول یا فعل میں خطااجتہادی ہوتی ہے تو اللہ تعالی فورا اس کی تصحیح فرما دیتا ہے(لہذا انبیاءکرام کی خطا اجتہادی وقتی ہوتی ہے جس پر وہ قائم نہیں رہتے اللہ تعالی ان کی اصلاح فرما دیتا ہے)بر خلاف غیر انبیاء کی خطا کے کہہ غیر انبیاء سے جب خطا اجتہادی ہوتی ہے تو اللہ تعالی اس کی اصلاح نہیں فرماتا(لہذا غیر انبیاء کی خطا اجتہادی کبھی وقتی ہوتی ہے کبھی دوامی)
[أصول أهل السنة والجماعة ,1/6]
.
⑤وَقَالُوا: يَجُوزُ الْخَطَأُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ إِلَّا أَنَّهُمْ لَا يُقِرُّونَ عَلَيْهِ
ترجمہ:
علماء فرماتے ہیں کہ انبیاء کرام سے(اجتہادی) خطاء جائز ہے مگر یہ کہ وہ خطا پر قائم نہیں رہے تھے
[تفسير البغوي - طيبة ,5/333]
.
⑥فأخطأ في الاجتهاد،وهذا شأن الأنبياء لا يُقَرُّون على الخطأ
ترجمہ:
نبی پاک سے اجتہاد میں خطاء ہوئی اور یہ انبیائے کرام کی شان ہے کہ وہ خطاء (اجتہادی)پر قائم نہیں رہتے(بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)
[الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري ,6/36ملخصا]
.
⑦يجوز وقوع الخطأ منهم، لكن لا يقرّون عليه،
ترجمہ:
انبیائے کرام سے خطا اجتہادی کا واقع ہونا جائز ہے لیکن وہ خطا پر قائم نہیں رہتے( بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)
[روضة الناظر وجنة المناظر ,2/354]
.
⑧يجوز عليهم، ولا يقرون عليه
انبیائے کرام سے خطا اجتہادی کا واقع ہونا جائز ہے لیکن وہ خطا پر قائم نہیں رہتے( بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)
[التمهيد في أصول الفقه ,4/317)
.
⑨انبیاء (علیہم السلام) اپنی عصمت میں زلات (لعزشوں، اجتہادی خطاء، مکروہ تنزیہی یا خلاف اولی کا ارتکاب) سے مامون(محفوظ) نہیں ہوتے
(تبیان القرآن تحت سورہ الاعلی آیت6)
.
10)...ڈاکٹر طاہر الکادری لکھتا ہے:
دوسرے یہ کہ نبی بھی اجتہاد کرسکتے ہیں کیونکہ ان دونوں حضرات کے یہ حکم اجتہادی تھے نہ کہ وحی۔ تیسرے یہ کہ نبی کے اجتہاد میں خطا بھی ہوسکتی ہے
(نور العرفان تحت سورہ الانبیاء آیت79)
.
11)...حضرت آدم علیہ السلام سے اجتہاد میں خطا ہوئی اور خطائے اجتہادی معصیت نہیں ہوتی۔
(خزائن العرفان تحت سورہ بقرہ ایت36)
.
ڈاکٹر طاہر الکادری لکھتا ہے
12)...نوح (علیہ السلام) یا تو اس نہی کو بھول گئے یا ان سے خطا اجتہادی ہوئی
(نور العرفان تحت سورہ المومنون آیت27)
.
13)...اس لئے کہ انبیاء (علیہم السلام) معصوم ہوتے ہیں۔ یہ ہوسکتا ہے کہ اجتہاد میں خطا ہوجائے۔ چنانچہ آپ کو بھی اجتہاد میں خطا ہوئی اور خطا اجتہادی معصیت نہیں ہوتی۔
(عرفان القرآن تحت سورہ بقرہ ایت36)
.
14)...تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ:
(1)اجتہاد برحق ہے اور اجتہاد کی اہلیت رکھنے والے کو اجتہاد کرنا چاہیے۔(2)… نبی علیہ السلام بھی اجتہاد کرسکتے ہیں کیونکہ ان دونوں حضرات کے یہ حکم اجتہاد سے تھے نہ کہ وحی سے ۔(3)… نبی علیہ السلام کے اجتہاد میں خطا بھی ہوسکتی ہے تو غیر نبی میں بدرجہ اولی غلطی کا احتمال ہے(4)… خطا ہونے پر اجتہاد کرنے والا گنہگار نہیں ہوگا۔
(5)… ایک اجتہاد دوسرے اجتہاد سے ٹوٹ سکتا ہے البتہ نص اجتہاد سے نہیں ٹوٹ سکتی۔
(صراط الجنان تحت سورہ انبیاء آیت78)
.
15)...لا الصغائر غير المنفرة خطأ
ترجمہ:
انبیاء کرام (اجتہادی)خطاء والے صغائر غیر منفرہ سے معصوم نہیں
(مسامرہ ص195)
.
16)...جمهور المحدثين والفقهاء على أنه يجوز للأنبياء عليهم السلام الاجتهاد في الأحكام الشرعية ويجوز عليهم الخطأ في ذلك لكن لا يقرون عليه
ترجمہ:
جمہور.و.اکثر محدثین و فقہاء کا نظریہ ہے کہ انبیائے کرام کے لئے اجتہادی خطا جائز ہے لیکن وہ اجتہادی خطا پر قائم نہیں رہتے ( بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)
[تفسير الألوسي = روح المعاني ,7/68]
.
17)...المعتقد محشی سیدی امام اہلسنت اعلی حضرت مترجم تاج الشریعۃ کی ایک عبارت پڑہیے جس میں صاف لکھا ہے کہ بعض انبیاء کرام کی وقتی غیر دوامی خطاء(خطاء اجتہادی) اور لغزشیں ثابت ہیں..
ملاحظہ فرمائیں
ملا علی قاری نے فرمایا یہ بات کہنا بچند وجوہ خطا ہے اس لئے کہ لوہاروں کو ملائکہ پر قیاس کرنا منع ہے ۔ اس لئے کہ انبیاء کی خطاء نہ تھی مگر بعض اوقات ، نادر لغزشیں ، جنہیں صغیرہ کہا جاتا ہے بلکہ خلاف اولی ، بلکہ وہ دوسروں کی برائیوں کی بنسب نیکیاں تھیں ، اور اس کے باوجود وہ لغزشیں بعد میں توبہ سے مٹ گئیں اور ان کی توبہ کا قبول ہونا محقق ہے ، جیسا کہ اللہ نے اس کی خبر دی ، بر خلاف امتوں کے گناہوں کے اس لئے کہ وہ کبیرہ ، غیر کبیرہ ، ارادی ، غیر ارادی ، اور دائمی گناہوں کو شامل ہیں ۔ اور ان کی توبہ کی تقدیر پر اس کی صحت کے شرائط کا متحقق ہونا ، اور اس کا مقبول ہونا معلوم نہیں ، بلکہ توبہ کرنے والے کا انجام کار بھی معلوم نہیں بخلاف انبیاء ، کہ وہ لغزش پر قائم رہنے سے معصوم ہیں اور سوء خاتمہ کا ان کو اندیشہ نہیں تو یہ قیاس صحیح نہیں ۔ اور قاری نے فرمایا : رہا اس کا یہ قول اگر میں گناہ کیا تو انبیا ء نے بھی گناہ کیا ، تو اس بات میں سخت اندیشہ ہے اس لئے کہ انبیاء معصوم ہیں اور یہ ان کی خصوصیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی وہ لغزش بخش دی جو معصیت کی صورت میں تھی ، اور جناب باری کی طرف ان کا رجوع مقام توبہ میں ہوا ، تو بخشی ہوئی خطا کو اس کے مقابل میں ذکر کرنا جو حقیقتاً معصیت ہے منع ہے ، اگر چہ معصیت والا اس سے توبہ کر لے کہ وہ تحت مشیت ہے اس لئے کہ شرائط توبہ کی صحت ثابت نہیں لہذا فقیر کو بادشاہوں پر قیاس نہیں کیا جاتا ۔ المعتقد المنتقد مع المعتمدالمستند ۔ صفحہ نمبر (252) تا (253) مکتبہ برکات المدینہ جامع مسجد بہار شریعت بہادر آباد کراچی ۔ مترجم حضور تاج الشریعہ حضرت مولانا مفتی اختر رضا خان قادری برکاتی ازہری علیہ الرحمہ۔ منقولا عن بعض
.============
*چھٹی بات.......!!*
چند حوالہ جات پڑہیے کہ صحابہ کرام تابعین عظام اکابر و اسلاف میں سے بعض نے بعض کو بعض مسائل میں خطاء کی طرف منسوب کیا جبکہ چمن زمان بمع ہمنوا کہتے ہیں کہ اسلاف نے صحابہ کرام نے خطا کی طرف کوئی نسبت نہیں کی....!!
وَلَكِنَّهُ أَخْطَأَ
سیدہ عائشہ نے فرمایا کہ اس مسلہ عذاب میں سیدنا ابن عمر نے خطاء کی
[ترمذی تحت حدیث1006 سنن نسائی روایت1856, ,إثبات عذاب القبر للبيهقي ,page 72]
.
فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " أَخْطَأَ فِي هَذَا،
سیدنا ابن عباس نے فرمایا کہ سیدنا ابن مسعود نے اس مسلہ میں خطاء کی
[مصنف عبد الرزاق الصنعاني ,6/419]
مُجَاهِدًا فَقَالَ: «أَخْطَأَ
سیدنا مجاہد نے فرمایا کہ سیدنا عکرمہ نے تفسیر میں خطاء کی
[مصنف عبد الرزاق الصنعاني ,4/457]
.
فَسَأَلْتُ عَطَاءً فَقَالَ: «أَخْطَأَ سَعِيدٌ
اس مسلہ میراث میں سیدنا عطاء نے کہا کہ سیدنا سعید نے خطاء کی ہے
[,مصنف ابن أبي شيبة استاد بخاری,6/246]
.
قال عُمَرُ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -: إنَّكَ أخطأتَ التّأويلَ
حضرت سیدنا عمر نے سیدنا صحابی قدامہ کو فرمایا کہ ایت کی تاویل و تفسیر میں اپ نے خطاء کی
[,السنن الكبرى للبيهقي,17/481]
.
قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ قَالَ أَبِي: " أَخْطَأَ فِيهِ يَحْيَى بْنُ سَعِيد
تعری کے معاملے میں امام احمد بن حنبل نے کہا کہ یحیی بن سعید نے خطاء کی
[مسند أحمد مخرجا ,20/238]
.
قَالَ ابْنُ الْمُسَيِّبِ: أَخْطَأَ شُرَيْحٌ
سیدنا ابن مسیب نے فرمایا( عظیم)قاضی شریح نے اس مسلے میں خطاء کی
[مصنف عبد الرزاق الصنعاني ,8/413...
[مصنف ابن أبي شيبة ,4/396].
أَخْطَأَ الْمَوْلِيَانِ،
سیدنا ابن عباس نے فرمایا کہ اس آیت کی تفسیر میں سیدنا سعید اور سیدنا عطاء نے خطاء کی
[مصنف عبد الرزاق الصنعاني ,1/134]
.
أَجَلْ، إِنَّهُ أَخْطَأَ
سیدنا عروہ نے کہا کہ جی ہاں نماز کسوف کے متعلق میرے بھائی نے خطاء کی ہے
[بخاری تحت حدیث1046,مسند أحمد مخرجا ,41/119]
.
فَقَالَ الشَّعْبِيُّ: «أَخْطَأَ،
امام شعبی نے کہا کہ امام ابن حازم نے سر پر نماز جنازہ پڑھنے کے مسلے میں خطاء کی
[,المستدرك على الصحيحين للحاكم ,3/637]
یقینا اکثر طور پر خطاء سے مراد خطاء اجتہادی ہی ہے کہ صحابہ کرام سے کچھ اور برے معنی متصور نہیں ہوسکتے
.
۔۔صحابہ کرام اور اہل بیت عظام دونوں یہ سمجھتے تھے کہ ان سے خطائے اجتہادی کا صدور ہو سکتا ہے بلکہ ہوا ہے جیسے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خطا اجتہادی حاملہ متوفی زوجھا کی عدت کے معاملے میں واقع ہوءئ
(از فواتح الرحموت2/279)
.=============
*ساتویں بات.......!!*
اسلاف علماء میں سے بعض نےبعض صحابہ کرام پر اجتہادی خطا کا اطلاق کیا ہےجبکہ چمن زمان کے مطابق ایسا کرنا گناہ بلکہ گمراہی ہے بلکہ بات کفر تک جاسکتی ہے....!!
ماہر محقق متکلم امام اہلسنت سعدالدین تفتازانی مخالفین سیدنا علی پر اجتہادی بغاوت اجتہادی خطا کا اطلاق کرتے ہوئے لکھتے
ہیں:
واما فی حرب جمل و حرب صفین فالمصیب علی لا کلتا الطائفتین ولا احدھما من غیر تعیین المخالفون بغاۃ لخروجھم علی الامام الحق لشبھۃ لا فسقۃ او کفرۃ
ترجمہ:
اور جو جنگ جمل اور جنگ صفین ہوئیں ان تمام میں حضرت علی حق و درست تھے مخالفین(سیدہ عائشہ سیدنا زبیر و طلحہ و معاویہ رضی اللہ عنھم اجمعین) اجتہادی خطاء پر تھے، دونوں حق و درست نہیں تھے(مطلب ایسا نہین کہ سیدنا علی کو بھی حق کہا جائے اور ان سے اختلاف کرنے والے مثل سیدنا طلحہ و زبیر و عائشہ و معاویہ وغیرہ بھی کو بھی حق پر کہا جائے ایسا ہرگز نہیں بلکہ سیدنا علی ہی حق پر تھے اور مخالفین اجتہادی خطاء پر تھے)
اور ایسا بھی نہیں کہ کہا جائے کہ بلاتعیین کوئی ایک حق پر تھا(مطلب ایسا بھی مت سمجھو کہ شاید سیدنا معاویہ و زبیر و طلحہ و عائشہ حق پر ہو یا شاید علی حق پر ہوں، ایسا مشکوک نظریہ بھی ٹھیک نہیں بلکہ واضح حق عقیدہ اہلسنت یہی ہے کہ سیدنا علی حق و درست تھے)اور مخالفیں(سیدہ عائشہ سیدنا زبیر و طلحہ و معاویہ بمع گروہ) اجتہادی باغی تھے کہ امام برحق پر خروج کیا شبہ کی وجہ سے، ہاں(شبہ، اجتہادی بغاوت ، اجتہادی خطاء) کی وجہ سے انہیں فاسق و گناہ گار اور کافر نہیں کہہ سکتے
(شرح المقاصد3/533)
.
اجتہادی خطاء تو سیدی رضا نے صحابہ کرام مثل امیر معاویہ و سیدہ عائشہ وغیرھما رضی اللہ عنھم کے لیے لکھی ہے...سیدی رضا فرماتے ہیں:
جنگِ جمل و صفین میں حق بدست حق پرست امیر المومنین علی کرم ﷲ تعالٰی وجہہ تھا۔مگر حضرات صحابہ کرام مخالفین(مثل سیدنا معاویہ و عائشہ صدیقہ وغیرہ) کی خطا خطائے اجتہادی تھی(فتاوی رضویہ29/615)
.
امام اہلسنت سیدی امام احمد رضا علیہ الرحمۃ کے عظیم خلیفہ قبلہ مفتی امجد علی اعظمی اپنی مشھور و معتبر کتاب بہار شریعت میں فرماتے ہیں کہ:
حضرت طلحہ و حضرت زبیر رضی ﷲ تعالی عنھما تو عشرہ مبشرہ سے ہیں، ان صاحبوں(سیدہ عائشہ حضرت طلحہ حضرت زبیر)سے بھی بمقابلہ امیر المومنین مولی علی کرم ﷲ تعالی وجہہ الکریم خطائے اجتہادی واقع ہوئی۔(بہار شریعت جلد اول حصہ اول ص40)
.
=================
*اٹھویں بات.....!!*
مفتی چمن زمان کی سب سے بڑی دلیل اور اسکا رد
مفتی چمن زمان کہتے ہیں کہ
خطیب مذکور(علامہ جلا-لی) کی پہلی گفتگو میں "خطا" "اجتہادی خطاء" کے معنی میں ہونے کا نہ احتمال ہے نہ قرینہ
(محفوظہ ص169)
لکھتے ہیں عرف بدلتے رہتے ہیں(محفوظہ ص218)
اہل عرف نےخطیب مذکور کی گفتگو کو بےادبی پر محمول کیا(محفوظہ ص23)
.
تبصرہ:
لگتا ہے چمن زمان کے جھوٹ بدگمانی حسد تعصب ایجنٹی کی کوئی حد نہیں....احادیث مبارکہ کے مطابق جب حیاء و خوف خدا نہ ہو تو انسان کچھ بھی کرسکتا ہے ، کچھ بھی کہہ سکتا ہے...خطاء سے خطاء اجتہادی کا احتمال ہی نہیں ایسا ایک ادنی سا طالب علم بھی نہیں کہہ سکتا اور یہاں محقق زماں کہہ رہا ہے...انا للہ و انا الیہ راجعون
.
الْخَطَأَ ") : بِفَتْحَتَيْنِ، وَيَجُوزُ مَدُّهُ وَهُوَ ضِدُّ الصَّوَابِ، وَالْمُرَادُ بِهِ هُنَا مَا لَمْ يَتَعَمَّدْهُ، وَالْمَعْنَى أَنَّهُ عَفَا عَنِ الْإِثْمِ الْمُتَرَتِّبِ عَلَيْهِ بِالنِّسْبَةِ إِلَى سَائِرِ الْأُمَمِ، وَإِلَّا فَالْمُؤَاخَذَةُ الْمَالِيَّةُ كَمَا فِي قَتْلِ النَّفْسِ خَطَأً، وَإِتْلَافُ مَالِ الْغَيْرِ ثَابِتَةٌ شَرْعًا، لِذَا قَالَ عُلَمَاؤُنَا فِي أُصُولِ الْفِقْهِ: الْخَطَأُ عُذْرٌ صَالِحٌ لِسُقُوطِ حَقِّ اللَّهِ تَعَالَى إِذَا حَصَلَ مِنِ اجْتِهَادٍ،
خلاصہ:
خطاء کا ایک معنی اثم یعنی گناہ ہے اور ایک معنی اجتہاد میں خطاء
[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,9/4052]
.
نثبت(٢) الخطأ في أربعة أجناس. – أن يصدر الاجتهاد من غير أهله. - أو لا يستتم المجتهد نظره. – أو يضعه في غير محله، بل في موضع فيه دليل قاطع. – أو يخالف في اجتهاده دليلاً قاطعاً
خلاصہ
خطاء کی چار اقسام ہیں اجتہاد کا جو اہل نہیں وہ خطاء کرے(خطاء معصیت)، مجتھد سے اجتہاد میں کوئی کمی رہے اور وہ خطاء اجتہادی کر بیٹھے، خطاء کی ایک قسم یہ کہ اجتہاد قطعی محل میں رکھے یا اجتہاد قطعی دلیل کے مقابل لاءے
(المستصفی4/81)
وَكَذَلِكَ يكون المخطىء من طَرِيق الِاجْتِهَاد
خطاء کا ایک معنی جو اجتہاد کے طور پر ہو
[,الفروق اللغوية للعسكري ,page 55]
خطا دو قسم ہے: خطاء عنادی(خطاءے معصیت)، یہ مجتہد کی شان نہیں اور خطاء اجتہادی، یہ مجتہد سے ہوتی ہے اور اِس میں اُس پر عند ﷲ اصلاً مؤاخذہ نہیں۔ مگر احکامِ دنیا میں وہ دو قسم ہے: خطاء مقرر کہ اس کے صاحب پر انکار نہ ہوگا، یہ وہ خطاء اجتہادی ہے جس سے دین میں کوئی فتنہ نہ پیدا ہوتا ہو، جیسے ھمارے نزدیک مقتدی کا امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا۔دوسری خطاء منکَر، یہ وہ خطاء اجتہادی ہے جس کے صاحب پر انکار کیا جائے گا، کہ اس کی خطا باعثِ فتنہ ہے۔ حضرت امیرِ معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا حضرت سیّدنا امیرالمومنین علی مرتضیٰ کرّم ﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم سے خلاف اسی قسم کی خطا کا تھا
(بہار شریعت جلد اول حصہ1 ص256)
.
جب ثابت ہوگیا کہ خطاء کے کئ معنی ہیں تو قبلہ جلا-لی صاحب شروع ہی سے اجتہادی خطاء لفظ بولتے یا فورا وضاحت کرکے کہتے کہ اجتہادی خطاء مراد ہے تو بہتر ہوتا مگر
علامہ جلا-لی نے کچھ مدت بعد اپنی نیت و مراد بتائی کہ اجتہادی خطاء مراد ہے تو بھی مقبول...بلکہ شرعا عرفا انکے قول خطاء سے اجتہادی خطاء مراد لینا ہی واجب ہے کہ حسن ظن اور علمی ماحول یہی معنی بتلا رہے ہیں:
وَبِهَذَا أَجازَ الاسْتِثْناءَ بَعْد مدَّة.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حدیث سے دلیل پکڑی کہ مطلق بول کر ایک مدت کے بعد استثناء کرنا جائز ہے
(تاج العروس40/76)
.
بعض کتب میں اتنا تک لکھا ہے کہ جب بھی (علمی ماحول میں)خطاء بولا جائے تو وہ اجتہادی خطاء ہی مراد ہوتا ہے
اعلم أنّ الخطأ والصواب يستعملان في المجتهدات
ترجمہ:
جان لو کہ بےشک خطاء اور صواب اجتہاد میں استعمال ہوتے ہیں[كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم ,1/683]
.
ما ما صح عنهم من خطأ فإنه يحمل على الاجتهاد....لا على سوء الاعتقاد والكفر
جو اسلاف سے صحیح ثابت ہو کہ انہوں نے خطاء کی یا کہی تو اس خطاء کو خطاء اجتہادی پر محمول کیا جائے گا(خطاء اجتہادی ہی مراد لی جائے گی)خطاء سے برا اعتقاد کفر وغیرہ مراد نہ لی جائے گی
(المنقذ من الضلال امام غزالی ص 188)
یہاں ایک بات تو یہ واضح ہوئی کہ اہل علم یا کسی سچے اچھے مسلمان سے خطاء لفظ نکلے تو اسے اجتہادی خطاء پر محمول کیا جائے گا گناہ قصور مذمت وغیرہ برے معنی مراد نہ لیے جائیں گے....اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اہل علم کے ہاں خطاء کے کئ معنی ہیں، یہ بھی ثابت ہوا کہ خطاء خطاء اجتہادی کا احتمال رکھتاہے جبکہ چمن زمان محقق زماں کی بدگمانی حسد تعسب ایجنٹی یا کم علمی واضح کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ خطاء خطاء اجتہادی کا احتمال ہی نہیں رکھتا...لاحول ولا قوة الا باللہ
.
خطاء کے اچھے برے کئ معنی ہیں تو کسی صحیح المذہب سچے عاشق رسول محب صحابہ محب اہلبیت سے خطاء لفظ نکلے تو اسکا اچھا معنی و محمل مراد لیناواجب بدگمانی حرام
.
#اچھا محمل ، اچھا معنی مراد لینا واجب
قرآن و حدیث سےماخوذ انتہائی اہم اصول.و.حکم.......!!
.
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا(سورہ الحجرات آیت12)
والمؤمن ينبغي أن يحمل كلام أخيه المسلم على أحسن المحامل ، وقد قال بعض السلف : لا تظن بكلمة خرجت من أخيك سوءا وأنت تجد لها في الخير محملا .
فمن حق العلماء: إحسان الظن بهم؛ فإنه إذا كان من حق المسلم على المسلم أن يحسن الظن به ، وأن يحمل كلامه على أحسن المحامل، فمن باب أولى العالم
خلاصہ:
قرآن و حدیث میں حکم ہے کہ بدگمانی غیبت تجسس سے بچا جائے،اچھا گمان رکھا جائےاسی وجہ سےواجب ہےکہ مذمت تکفیر تضلیل تفسیق اعتراض کےبجائے عام مسلمان اور بالخصوص اہلبیت صحابہ اسلاف صوفیاء و علماء کےکلام.و.عمل کو
حتی الامکان
اچھےمحمل،اچھے معنی،اچھی تاویل پےرکھاجائے
(دیکھیےفتاوی حدیثیہ1/223...فتاوی العلماءالکبار فی الارہاب فصل3...فھم الاسلام ص20...الانوار القدسیہ ص69)
.
،قال عمر رضی اللہ عنہ
ولا تظنن بكلمة خرجت من مسلم شراً وأنت تجد لها في الخير محملا
حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں
مسلمان کوئی بات کرے اور آپ اس کا اچھا محمل و معنی پاتے ہوں تو اسے برے معنی پر محمول ہرگز نہ کریں
(جامع الاحادیث روایت31604)
.
سیدی اعلٰی حضرت امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ بعض محتمل لفظ جب کسی مقبول سے صادر ہوں بحکمِ قرآن انہیں "معنی حسن" پر حمل کریں گے، اور جب کسی مردود سے صادر ہوں جو صریح توہینیں کرچکا ہو تو اس کی خبیث عادت کی بنا پر معنی خبیث ہی مفہوم ہوں گے کہ:
کل اناء یترشح بما فیہ صرح بہ الامام ابن حجر المکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔
ہر برتن سے وہی کچھ باہر آتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے...
(فتاوی رضویہ : ج29، ص225)
.
اہل عرف سے مراد اہل سنت کا عرف ہے ناکہ شیعہ نجدیوں کا عرف کہ شیعہ کے عرف میں سیدنا امیر معاویہ کہنا بھی اہلبیت کی بےادبی ہے جبکہ یہ اہلسنت کے بچے بچے کی زبان زد عام ہے..... چمن زمان نے جو کہا کہ اہل عرف نے بےادبی سمجھا سراسر جھوٹ ہے ...چونکا دینے والی بات اس لیے کہ یہ ایک غیر مشھور بات سنی گئ...سچے عالم محقق کا شاذ چونکا دینے والی بات کہنا اسلاف سے ثابت ہے جوکہ بےادبی گستاخی نہیں
.
جب سے سیدنا معاویہ کے عرس کا معاملہ حالیہ سالوں میں چل نکلا ہے تو اکثر عوام اہلسنت جانتی ہے کہ خطاء کا ایک معنی خطاء اجتہادی ہے جو سیدنا معاویہ سے ہوئی..لیھزا سچے عالم سے مسلہ علمیہ میں علمی ماحول میں کہے گئے لفظ خطاء کو عوام و عرف اہلسنت گالی گستاخی بے ادبی نہیں سمجھے بلکہ عوام پر واجب کہ وہ علمی ماحول میں سچے محب اہلبیت و صحابہ سے بولے گئے لفظ خطاء کو گالی بے ادبی نہ سمجھے
.
ایک تو ہم نے معتبر کتب سے ثابت کر دیا کہ علمی حلقہ میں کوئی سچا مسلمان خطاء بولے تو واجب ہے کہ خطاء اجتہادی مراد لی جائے...
.
دوسرا ہم نے ثابت کر دیا کہ حلقہ اہل علم میں خطاء کی کئ اقسام ہیں خطاء خطاء اجتہادی کا احتمال رکھتا ہے لیھذا چمن زمان کا کہنا کہ احتمال نہیں رکھتا جھوٹ خیانت بغض تعصب غلو ایجنٹی نہیں تو اور کیا ہے....؟؟ نام نہاد محقق زماں کو خطاء کے کئ معنی معلوم نہ ہوں ایسا بظاہر نہیں لگتا
.
تیسرا یہ کہہ بالفرض محال چمن زمان کی بات مان لی جائے کہ خطاء سے مراد ہمیشہ برا معنی ہی مراد ہوتا ہے تو انکے قاعدے کہ عرف بدلتا رہتا ہے سے ثابت ہو رہا ہے کہ حالیہ چند سالوں میں خطاء اجتہادی عرف عام میں مشھور و معروف ہو چکا ہے لیھذا اس حالیہ عرف کی وجہ سے خطاء سے مراد خطاء اجتہادی ہے جوکہ نہ تو بےادبی ہے نہ گستاخی نہ کفر نہ گمراہی.....لیھذا چمن زمان کی عرف عرف کی رٹ کا پول بھی کھل گیا.....فللہ الحمد
.
نوٹ:
اجتہادی خطاءیں گنوانا نہ ہمارا شوق ہے نہ پسندیدہ موضوع مگر محبت کی آڑ میں حق سچ نصوص و عباراتِ اسلاف کو جھٹلایا جائے...جھوٹ کو محبت کہا جائے تو حق سچ واضح کرنا لازم
.
القرآن..ترجمہ:
حق سے باطل کو نا ملاؤ اور جان بوجھ کر حق نہ چھپاؤ
(سورہ بقرہ آیت42)
.
الحدیث..ترجمہ:
خبردار...!!جب کسی کو حق معلوم ہو تو لوگوں کی ھیبت
(رعب مفاد دبدبہ خوف لالچ) اسے حق بیانی سے ہرگز نا روکے
(ترمذی حدیث2191)
.
الحدیث.. ترجمہ:
حق کہو اگرچے کسی کو کڑوا لگے
(مشکاۃ حدیث5259)
.
الحدیث:
متنطعون(تعریف تنقید تقریر تحریر وغیرہ قول یا عمل میں غلو.و.مبالغہ کرنےوالے)ہلاکت میں ہیں(مسلم حدیث6784)
بعض انبیاء کرام صحابہ اہلبیت اسلاف سےمطلقا اجتہادی خطاء کی نفی کرنا حق سچ کےخلاف ہے،جھوٹی تعریف اور غلو نہیں تو اور کیا ہے…؟؟
بےادبی جرم مگر تعریف میں حد و سچائی بھی لازم
.
صحابہ کرام اہلبیت عظام کی محبت میں غلو مبالغہ آرائی ہر گز نہیں کرنی چاہیے،کئ یا اکثر یا کٹر شیعہ اہلبیت کی محبت میں غلو(حد سے تجاوز) کرتے ہیں جوکہ کبھی کفر تو کبھی گمراہی تو کبھی گناہ کی حد تک چلا جاتا ہے...
.
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
هلك في رجلان: محب غال ومبغض
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا کہ میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاکت میں ہیں ایک وہ جو مجھ سے حد سے زیادہ محبت کریں، ایک وہ جو مجھ سے بغض کریں
(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ4/108)
.
شیعہ کتب میں ہے کہ
صنفان من أمتي لا نصيب لهما في الاسلام: الغلاة والقدرية....إياكم والغلو فينا،
غلو کرنے والے اور قدری (کافر فاجر بدمذہب ہیں انکا)دین اسلام میں کوئی حصہ نہیں....ہم اہلبیت کی تعریف میں غلو مبالغہ آرائی سے بچو(شیعہ کتاب بحارالانوار25/270ملتقطا)
.
لعن الله الغلاة....الغلاة كفار، والمفوضة مشركون، من جالسهم أو خالطهم أو واكلهم أو شاربهم أو واصلهم أ وزوجهم أو تزوج إليهم أو أمنهم أو ائتمنهم على أمانة أو صدق حديثهم أو أعانهم بشطر كلمة خرج من ولاية الله عز وجل وولاية الرسول صلى الله عليه وآله و ولايتنا أهل البيت
خلاصہ:
غلو کرنے والے حد سےبڑھنےوالے لعنتی و کافر ہیں…ان سےقطع تعلق(بائیکاٹ)کرو، انکےساتھ نہ کھاؤ ، نہ پیو، نہ میل جول رکھو،نہ شادی بیاہ کرو، نہ انہیں سچا سمجھو، نہ انکی کسی بھی طرح کی مدد کرو...(شیعہ کتاب بحارالانوار25/273ملخصا)
.
الحدیث:
إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ
خبردار دین میں(اور دینداروں کی محبت تعریف یا مخالف پر تنقید وغیرہ ہر معاملےمیں)خود کو غلو(مبالغہ آرائی،حد سےتجاوز کرنے) سےدور رکھو(ابن ماجہ حدیث3029شیعہ کتاب منتہی المطلب2/729)
.
الحدیث:
قولوا بقولكم، أو بعض قولكم، ولا يستجرينكم الشيطان
ترجمہ:
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں کچھ الفاظ کہے گئے تھے تو اس پر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ)
تعظیم کے الفاظ کہو یا بعض الفاظ کہو لیکن خیال رہے کہ شیطان تمھیں جری نا بنا دے(یعنی شیطان تمھیں تعظیم میں حد سے بڑھنے والا،غلو کرنے والا بےباک نا بنا دے)
(ابو داؤد حدیث نمبر4806)
.==============
*ایموشنل بلیک میلنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!*
سوال:
سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو (اجتہادی)خطاء پر کہہ کر باپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شفاعت کس منہ سے مانگو گے....؟؟
جواب:
پھر تو ام المومنین رضی اللہ تعالی عنھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محبوبہ سیدہ پاکیزہ بی بی عائشہ کو بھی خطاء اجتہادی پر مت کہو ورنہ ماں کو خطاء پے کہہ کر کس منہ سے شفاعت مانگو گے....؟؟
یہ جذباتی بلیک میلنگ چھوڑو، اجتہادی خطاء گناہ و عیب نہیں، اس پے تو اجر ہے، کل قیامت کے دن اجتہادی خطاء اجر پر پکڑ ہی نہیں ہوگی تو طلب شفاعت میں شرمندگی کس بات کی.....؟؟ ہاں یہ ضرور ہے کہ بلاضرورت خطاء خطاء کہتے پھرنے والے کیا منہ دکھائیں گے.....؟؟ ضرورت والے عرض کریں گے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے اپ کی شریعت کی پاسداری میں خطاء اجتہادی کا قول کہا اور برے عقیدوں نظریوں سے عوام کو بچایا....ہمارا اجتہادی خطاء کہنا توہین و بے ادبی کے لیے ہرگز نہ تھا
.
اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ ؕ
سورہ احزاب6
نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی گھر والیاں مومنوں کی مائیں ہیں(سورہ احزاب آیت6)
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App,twitter nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574