Labels

ایت تطہیر و اہلبیت میں ازواج مطہرات بھی شامل...گردیزی مشہدی و چمن اور گستاخ شیعوں کا رد..شیعوں کی سیدہ عائشہ کے متعلق گستاخی؟اور کیا یہ رد تفرقہ پھیلانا ہے؟


*ایت تطہیر میں اہلبیت سے کون مراد...؟؟ سیدہ عائشہ کے  بعض فضائل و تطہیر اور شیعوں کی گستاخی اور انکا رد اور مشہدی گروپ کے نام نہاد پیر گردیزی و مشہدی و چمنی گروپ کا رد اور یہ مدلل رد کیا غیبت و انتشار و تفرقہ بازی ہے......؟؟*

سوال:

 مولانا صاحب نام نہاد پیر گردیزی کا بیان سنیں، وہ کہتے ہیں کہ اہل بیت کہ جن کی تطہیر و پاکیزگی آیت میں ہے اس میں ازواج مطہرات شامل نہیں ہیں اور عرفان شاہ مشہدی بھی اسٹیج پے بیٹھے ہیں...

.

*جواب.و.تحقیق......!!*

*پہلی بات....!!*

 مشہدیو چمن زمانیو گردیزو خدا کا خوف کرو....اہلسنت کہلوا کر  جمھور اہلسنت نظریات کے خلاف نہ جاؤ، خدارا عوام کو نہ بھکاؤ...کیوں انتشار و تفرقہ پھیلاتے ہو، کچھ تو سوچو تمھاری باتوں کتابوں تحریروں تقریروں سے خوش کون ہو رہے ہیں، یقینا شیعہ رافضی....بلکہ حالات بتاتے ہیں کہ تمھارے پیچھے ان مکار شیعوں رافضیوں کا ہاتھ و داد و پیسہ ہے

ارے

ذرا دیکھو تو تمھارے ممدوح گردیزی ایران کے دورے کرتے ہیں...ادھر منافق ایجنٹ مکار بزدل پیسہ خور ڈاکو طاہر الکادری کے ساتھ مشہدی و چمن زمانیوں کے روابط و مدح سرائیاں اور طاہر الپادری دوٹوک کہتا رہا کہ وہ سنی شیعہ سب کے پیچھے نماز پڑھتا ہے...تو تم لوگوں کے شیعوں سے اچھے تائیدی مراسم ثابت ہو رہے ہیں اب ذرا شیعوں رافضیوں کا عقیدہ بھی پڑھتے چلو شاید کہ تمھیں ہدایت ملے ورنہ عوام پہچان لے کے شیعہ رافضیوں کے لیے نرم گوشہ و تائیدی مراسم رکھنے والے مشہدی چمنی گردیزی منہاجی سب  باطل ہیں کہ گستاخ شیعوں رافضیوں وغیرہ باطلوں کے یار و پالتو بھلا کیسے حق ہوسکتے ہیں....؟؟

.

شیعوں کی گستاخیاں تو آئے دن سننے پڑھنے کو ملتی ہیں...ذرا سیدہ طیبہ طاہرہ سیدہ عائشہ کے متعلق شیعوں رافضیوں کی گستاخی و عقیدہ تو پڑھو...

شیعوں رافضیوں کا نظریہ عقیدہ ہے کہ:

قوله تعالى: " ضرب الله مثلا "في تلك الآيات التصريح بنفاق عايشة وحفصة وكفرهما

 ایت ضرب اللہ سے عائشہ اور حفصہ دونوں کا منافق ہونا ، کافر ہونا واضح ہے

(شیعہ کتاب بحار الانوار22/233)

ان مکاروں گستاخوں جھوٹوں پے ل ع نت کہ بغض میں آکر کیسا جھوٹ بول دیا جسکی نفی خود قرآن کرتا ہے قرآن فرماتا ہے:

أيها النبي جاهد الكفار والمنافقين

اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)کافروں اور منافقوں سے جہاد کریں

(سورہ توبہ آیت73)

 اگر سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا اور سیدہ حفصہ منافق و کافر ہوتیں تو ضرور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دھتکار دیتے جبکہ سید عالم تو ان سے بہت محبت کرتے تھے بھلا کسی کافر و منافق کو رسول کریم اپنا ہمنشین بنائے رکھیں گے....؟؟جبکہ قرآن و حدیث پاک میں ہے کہ منافق کافر سے میل جول دوستی کھانا پینا سب کچھ ممنوع ہے،بائیکاٹ لازم ہے...کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف خود حکم فرمائیں اور دوسری طرف خود ہی اس حکم پر عمل نہ فرمائیں گے.....؟؟

الحدیث:

لا تصاحب إلا مؤمنا، ولا يأكل طعامك إلا تقي

ترجمہ:

مومن کے علاوہ کسی کی صحبت و دوستی اختیار نا کر، اور تمھارا کھانا تقوی والے کے علاوہ کوءی نا کھائے

(ابوداود حدیث نمبر4832)

(شیعہ کتاب الأمالي شيخ طوسي ص535نحوہ)

لیھذا مکار گستاخ غالی شیعہ رافضی نیم رافضی اور بغض و عناد و کم علم بےباک ناصبی خارجی نجدیوں اور غامدیوں سرسیدیوں نیچریوں قادیانیوں غیرمقلدوں اہلحدیثوں جہلمیوں ذکریوں بوہریوں وغیرہ سب باطلوں سے دوری اختیار کیجیے

.

فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ  الذِّکۡرٰی  مَعَ الۡقَوۡمِ  الظّٰلِمِیۡنَ

یاد آجانے(دلائل آجانے)کے بعد تم ظالموں(بدمذبوں گمراہوں گستاخوں مکاروں گمراہ کرنے والوں منافقوں ظالموں) کے ساتھ نہ بیٹھو(نہ میل جول کرو، نہ انکی محفل مجلس میں جاؤ، نہ کھاؤ پیو، نہ شادی بیاہ دوستی یاری کرو،ہر طرح کا ائیکاٹ کرو)

(سورہ انعام آیت68)

لیھذا مکار گستاخ غالی شیعہ رافضی نیم رافضی اور بغض و عناد و کم علم بےباک ناصبی خارجی نجدیوں اور غامدیوں سرسیدیوں نیچریوں قادیانیوں غیرمقلدوں اہلحدیثوں جہلمیوں ذکریوں بوہریوں وغیرہ سب باطلوں سے دوری اختیار کیجیے


.

شیعہ رافضیوں کی مزید بکواس سنیے کہتے ہیں

أن عائشة خائنة للرسول الأعظم صلى الله عليه وسلم في عقيدته، وخائنة له في فراشه"

 بے شک عائشہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خیانت کی بستر کے معاملے اور عقیدے کے معاملے میں

(خيانة عائشة بين الاستحالة والواقع؛ ص:115)

جبکہ سیدہ پاک کی طہارت و پاکیزگی و براءت قرآن و سنت میں موجود ہے جو اسکا منکر ہو وہ پکا گستاخ کافر ہے اور انکے یار مددگار مراسم والے بھی اپنے ایمان کی فکر کریں...اور لوگ پہچانیں کہ سچے محب و مسلمان کون اور مکار گستاخ منافق ایجنٹ پیسہ خور کون.....؟؟

.

*شیعوں کی ایک مکاری جھوٹ  تضاد بیانی دھوکہ دہی ملاحظہ کیجیے....!!*

 سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر الفاروق کے بغض میں آگئے تو سیدنا ابو بکر صدیق کی بیٹی سیدہ عائشہ اور سیدنا عمر کی بیٹی سیدہ حفصہ کے متعلق گستاخی کر دی کہ وہ نعوذباللہ کافر تھی ،منافق تھی جیسے کہ اوپر حوالہ گذرا

لیکن

جب بغضِ معاویہ چڑھا تو سیدہ عائشہ کو ام المومنین اور السیدہ کہہ کر تعریف کی اور جھوٹ بولا کہ سیدہ کو سیدنا معاویہ نے شہید کرایا

اغتيال أم المؤمنين عائشة...قرر معاوية الانتقام منهم.... وقد قتل الاثنين غيلة

 ام المومنین سیدہ عائشہ کو اچانک یا دھوکے سے قتل کیا گیا اس طرح کہ معاویہ نے انتقام لینے کا فیصلہ کیا اور عائشہ اور انکے بھائی کو قتل کرا دیا

(شیعہ کتاب إغتيال أبي بكر - الشيخ نجاح الطائي ص107)

.

وقتل معاوية السيدة عائشة بحفر بئر لها وغطى فتحة ذلك البئر عن الأنظار

ترجمہ:

معاویہ نے سیدہ بی بی عائشہ کو اس طرح قتل کیا کہ اس کے گھر کنواں کھودوایا اور اوپر سے ڈھانپ دیا تاکہ دکھائے نا دے جس مین بی بی عائشہ گر کر وفات پا گئیں

(شیعہ کتاب حبيب السير ص 425)

.

جبکہ حق و حقیقت یہ کہ سیدہ عائشہ بیمار ہوکر طبعی طور وفات پاگئیں تھیں...انہیں شہید نہیں کیا گیا تھا

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَبْلَ مَوْتِهَا عَلَى عَائِشَةَ وَهِيَ مَغْلُوبَةٌ،

ترجمہ:

بی بی عائشہ کی وفات کر جانے سے پہلے جب ان پر بیماری کا شدید غلبہ تھا اس وقت سیدنا ابن عباس عیادت کرنے آئے

(بخاري روایت نمبر 4753)

.

امام حاکم جس کو اہل تشیع بھی مانتے ہیں انہوں نے بھی سیدہ عائشہ کے جان لیوا بیماری اور سیدنا ابن عباس کی عیادت کا تذکرہ یوں کیا ہے:

جاء ابن عباس يستأذن على عائشة رضي الله عنها في مرضها [المستدرك على الصحيحين للحاكم: 4/ 9 ، صححہ الحاکم ووافقہ الذھبی]

وفات سیدہ عائشہ اور سیدنا معاویہ کا ملوث نہ ہونا،اس پر تفصیلی تحریر پھر کبھی ان شاء اللہ عزوجل

.

دیکھا آپ مکار شیعوں کی مکاری و جھوٹ...ایک طرف سیدہ عائشہ و سیدہ حفصہ کو منافق کافر لکھا دوسری طرف ام المومنین سیدہ لکھا سیدہ عائشہ کو...یہ شیعہ رافضی لوگ موقعہ مناسبت سے جھوٹ گھڑ لیتے ہیں اور اہلبیت اطہار وغیرہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں...اللہ ان مکاروں جھوٹوں گستاخوں سے ہمیں بچائے اور بچائے رکھے


 ارے ہوش کرو نیم رافضیوں...تم کن گستاخ شیعوں سے نرم گوشہ رکھ رہے ہو.....؟؟ گردیزی صاحب جب آپ ان شیعوں سے مراسم رکھیں گے شاید کہ انکے ٹکڑوں پے پلتے بھی ہوں گے اور بیان دیں گے کہ ازواج مطہرات طہارت و پاکیزگی والی آیت میں شامل نہیں تو یقینا خیال تو آئے گا کہ آپ لوگوں کی دال میں ضرور کچھ کالا ہے....کہیں پوری دال ہی کالی نہ ہو....؟؟ بلکہ جلی بھنی ہوئی کالا کوئلہ نہ ہو.....؟؟

.

اب چمن زمان یا مشہدی یا گردیزی یا کوئی انکی پارٹی کا بندہ یہ بہانہ بنا کر الو نہ بنائے کہ جی ہم نے تو کہا ہی نہیں....کیونکہ مشہدی گردیزی کے ساتھ بیٹھے ہیں اور آپ کی ایک طرح سے اچھے تائیدی مراسم و رضامندی ہی آپ کو انکے کرتوتوں میں شامل کر دیتی ہے الا یہ کہ آپ لوگ لاتعلقی ناپسندیدگی کا اعلان کر دیں

الحدیث:

كرهها كان كمن غاب عنها, رضيها كان كمن شهدها

ترجمہ:

جو اس(گناہ کارنامےکرتوت کردار وغیرہ)پےراضی ہوا تو گویا اس میں شامل ہوا،اور جس نےناپسند کیا گویا شامل نہ ہوا

(ابوداؤد حدیث4345 ملخصا)

(شیعہ کتاب ميزان الحكمة 2/1948نحوہ)

.

 لوگو پہچانو ان مکار گستاخ شیعوں رافضیوں کو اور انکے سہولت کاروں کو، ایرانی ہڈیوں پے پلنے والوں کو، منافقوں ایجنٹوں کو اور کچھ تعاون نہ کرو ان سے، نہ جانی نہ مالی نہ وقتی...نہ انہیں سنو اور نہ انکی سنو، نہ انکے جلسے جلوس مدارس میں شرکت کرو، کسی قسم کا تعاون نہ کرو،بائیکاٹ کرو

القرآن:

 وَ تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ

تقوی پرہیزگاری اور نیکی بھلائی میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور سرکشی اور گناہ(ظلم زیادتی برائی گمراہی کفر وغیرہ)میں ایک دوسرے کی مدد نا کرو...(سورہ مائدہ آیت2)

.

الحدیث:

السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ، مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ

پسند ہو نہ ہو، دل چاہے نہ چاہے ہر حال میں اہل حق مستحقین کی سنو اور مانو(اطاعت کرو جانی مالی وقتی ہر جائز تعاون کرو)بشرطیکہ معاملہ گناہ و گمراہی کا نہ ہو، گناہ و گمراہی پے نہ سنو نہ مانو(گمراہوں کو جلسوں میں بلاؤ نہ انکی بتائی ہوئی معلومات پے بھروسہ کرو نہ عمل کرو، ہرقسم کا ان سے نہ تعاون کرو)

(بخاری حدیث7144)

.

القرآن:

فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ  الذِّکۡرٰی  مَعَ الۡقَوۡمِ  الظّٰلِمِیۡنَ

یاد آجانے(دلائل آجانے)کے بعد تم ظالموں(بدمذبوں گمراہوں گستاخوں مکاروں گمراہ کرنے والوں ظالموں) کے ساتھ نہ بیٹھو(نہ میل جول کرو، نہ انکی محفل مجلس میں جاؤ، نہ کھاؤ پیو، نہ شادی بیاہ دوستی یاری کرو،ہر طرح کا ائیکاٹ کرو)

(سورہ انعام آیت68)

.

الحدیث:

[ ایاکم و ایاھم لا یضلونکم و لا یفتنونکم ]

’’گمراہوں،گستاخوں، بدمذہبوں سے دور بھاگو ، انہیں اپنے سے دور کرو(سمجھانے کے ساتھ ساتھ قطع تعلق و بائیکاٹ کرو کہ) کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں، کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں‘‘(صحیح مسلم1/12)

.

الحدیث:

فَلَا تُجَالِسُوهُمْ، وَلَا تُؤَاكِلُوهُمْ، وَلَا تُشَارِبُوهُمْ، وَلَا تُنَاكِحُوهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا مَعَهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا عَلَيْهِمْ

ترجمہ:

بدمذہبوں گستاخوں کے ساتھ میل جول نہ رکھو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان سے شادی بیاہ نہ کرو، ان کے معیت میں(انکے ساتھ یا ان کے پیچھے) نماز نہ پڑھو(الگ پرھو)اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھو

(السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/483حدیث769)

.

الحدیث:

فلا تناكحوهم ولا تؤاكلوهم ولا تشاربوهم ولا تصلوا معهم ولا تصلوا عليهم

ترجمہ:

بدمذہبوں گستاخوں کے ساتھ شادی بیاہ نہ کرو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان کے معیت میں (انکے ساتھ یا ان کے پیچھے) نماز نہ پڑھو(الگ پرھو)اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھو

(جامع الأحاديث ,7/431حدیث6621)

.

بروں باطلوں مکاروں گمراہوں بدمذہبوں تفضیلیوں رافضیوں ناصبیوں ایجنٹوں قادیانیوں نیچریوں سرسیدیوں جہلمیوں غامدیوں قادیانیوں ذکریوں بوہریوں غیرمقلدوں نام نہاد اہلحدیثوں وغیرہ سب باطلوں سے ہر طرح کا تعاون نہ کرنا،انکی تحریروں کو لائک نہ کرنا، انہیں نہ سننا،  نہ پڑھنا، انہیں اپنے پروگراموں میں نہ بلانا، وقعت نہ دینا، جانی وقتی مالی تعاون نہ کرنا، مذمت کرنا مدلل کرنا ایمان کے تقاضوں میں سے ہے

الحدیث:

مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ، وَأَبْغَضَ لِلَّهِ، وَأَعْطَى لِلَّهِ، وَمَنَعَ لِلَّهِ ؛ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ

جو اللہ(اور اسلام کے حکم)کی وجہ سے محبت کرے اور(سمجھانے کے ساتھ ساتھ) اللہ(اور اسلام کے حکم)کی وجہ سے(مستحق برے ضدی فسادی بدمذہب گستاخ وغیرہ سے)بغض و نفرت رکھے اور (مستحق و اچھوں) کی امداد و مدد کرے اور (نااہل و بروں بدمذہبوں گستاخوں منافقوں ایجنٹوں) کی امداد و تعاون نہ کرے تو یہ تکمیل ایمان میں سے ہے 

(ابوداود حدیث4681)

.===============

سوال:

یہ کیا کفر منافقت لگا رکھا ہے...فرقہ واریت غیبتیں مت پھیلاؤ، تم کون ہوتے ہو کفر گمراہ کہنے والے.....؟؟

.

جواب:

القرآن..ترجمہ:

حق سے باطل کو نا ملاؤ اور جان بوجھ کر حق نہ چھپاؤ

(سورہ بقرہ آیت42)

.

جواب:

الحدیث:

من كتم غالا فإنه مثله

ترجمہ:

جو غل کرنے والے(خیانت کرپشن کرنے والے، چھپکے سے کمی بیشی کرنے والے،کھوٹ و دھوکےبازی کرنے والے) کی پردہ پوشی کرے تو وہ بھی اسی کی طرح(مجرم و گناہ گار) ہے

(ابو داؤد حدیث2716)

.

الحدیث:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أترعون عن ذكر الفاجر؟، اذكروه بما فيه يعرفه الناس

ترجمہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کیا تم فاجر(فاسق معلن منافق ،بدعقیدہ، گمراہ گستاخ، کافر مرتد، خائن، دھوکے باز، بدمذہب) کو واضح کرنے سے ہچکچاتے ہو...؟(جیسا وہ ہے ویسا کہنے سے گھبراتے ہو...؟؟)

اسے ان چیزوں(ان کفر گمراہیوں گستاخیوں کرتوتوں، عیبوں اعلانیہ گناہوں ، خیانتوں، منافقتوں دھوکے بازیوں) کے ساتھ واضح کرو جو اس میں ہوں تاکہ لوگ اسے پہچان لیں(اور اسکی گمراہی خیانت منافقت بدعملی دھوکے بازی مکاری سے بچ سکیں)

(طبرانی کبیر حدیث1010)

(شیعہ کتاب ميزان الحكمة 3/2333نحوہ)

یہ حدیث پاک  کتبِ حدیث و تفاسیر اور فقہ و تصوف کی کئی کتب میں موجود ہے... مثلا جامع صغیر، شعب الایمان، احیاء العلوم، جامع الاحادیث، کنزالعمال، کشف الخفاء ردالمحتار ، عنایہ شرح ہدایہ، فتاوی رضویہ، تفسیر ثعالبی، تفسیر درمنثور وغیرہ کتب میں موجود ہے

.

الحدیث..ترجمہ:

تکبر تو یہ ہے کہ حق کی پرواہ نا کی جاے, حق ٹھکرایا جائے اور لوگوں کو حقیر سمجھا جاے..

(صحیح مسلم حدیث نمبر147)

.

الحدیث..ترجمہ:

خبردار...!!جب کسی کو حق معلوم ہو تو لوگوں کی ھیبت

(رعب مفاد دبدبہ خوف لالچ) اسے حق بیانی سے ہرگز نا روکے

(ترمذی حدیث2191)

.

الحدیث.. ترجمہ:

حق کہو اگرچے کسی کو کڑوا لگے

(مشکاۃ حدیث5259)

.


لیھذا ایسوں کے عیوب مکاریاں منافقتیں خیانتیں دھوکے بازیاں کفر گمراہیاں گستاخیاں بیان کرنا، مذمت کرنا، رد کرنا برحق ہے لازم ہے اسلام کا حکم ہے، یہ ذمہ داری ہے جو اسلام نے باشعور وسیع القلب اہل استنباط علماء کو دی ہے...یہ عیب جوئی نہیں..... غیبت نہیں، ایسوں کی پردہ پوشی کرنا جرم ہے... یہ فرقہ واریت نہیں، یہ حسد نہیں.... بغض نہیں بلکہ حق کی پرواہ ہے اسلام کے حکم کی پیروی ہے...ہاں حدیث پاک میں یہ بھی واضح ہے کہ وہ عیوب، وہ خیانتیں، وہ دھوکے بازیاں وہ کرتوت وہ کفر و گمراہیاں وہ گستاخیاں بیان کیے جائیں جو اس میں واقعی ہوں...جھوٹ و الزام تراشیاں ٹھیک نہیں......!!

.=================

سچوں(کو پہچان کر ان)کا ساتھ دو(سورہ توبہ آیت119) سچے اچھے مولوی تو عظیم نعمت ہیں،دین و دنیا کو بدنام تو جعلی منافق مکار کر رہےہیں....عوام و خواص سب کو سمجھنا چاہیےکہ #جعلی_مکار_منافق تو علماء پیر اینکر لیڈر سیاست دان جج وکیل استاد ڈاکٹر فوجی وغیرہ افراد و اشیاء سب میں ہوسکتےہیں،ہوتے ہیں

تو

جعلی کی وجہ سے #اصلی سےنفرت نہیں کرنی چاہیےبلکہ اصلی کو تلاش کر،  پہچان کر اسکا ساتھ دینا چاہیے اور اپنی و سب کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے، رجوع توبہ کا دل جگرہ رکھنا چاہیے

.=================

*دوسری بات...سیدہ عائشہ کی فضیلت و طہارت کے کچھ دلائل و حوالہ جات ملاحظہ کیجیے....!!*

*پہلی آیت مبارکہ....!!*

القرآن:

اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ  لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ  تَطۡہِیۡرًا

اے اہل بیت اللہ تم سے  ہر قسم کی ناپاکیوں عیبوں کو دور رکھنا چاہتا ہے تاکہ تمہیں مکمل طور پر پاکیزہ فرما دے، تمھاری تطہیر فرمادے

(سورہ احزاب آیت33)

.

گردیزو چمنیو مشہدیو سنو جس کے نام پے داد و پیسہ شہرت بٹورتے ہو اس تاجدار گولڑہ نے کیا فرمایا...پڑھو:

جمہور کا قول ہے کہ لفظ اہل بیت فریقین میں امہات المومنین اور آل عبا(یعنی جنکو نبی پاک نے چادر میں لیا تھا)علیھم السلام کو بھی شامل ہے

(تصفیہ ما بین سنی و شیعہ ص54)

جمھور کی مانو گے یا کسی کی پسند ناپسند کو.....؟؟ اور یہ بھی یاد رہے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب نے اس قول کے متعلق لکھا ہے کہ اس کے دلائل ایت و احادیث کثیرہ ہیں

یہ لیجیے پڑہیے...شاہ صاحب سے سوال ہوا:

سوال :

جناب مخدوم محمد صدرالدین گیلانی قادری ملتانی آیہ تطہیر کن کے لئے ہے۔ آیہ تطہیر کے مصداق کون کون لوگ ہیں ؟

جواب حضور قبله مکتوب نمبر ۳۳۵

معظمی مکرمی جناب مخدوم صاحب حفظكم الله تعالے وعلیکم السلام ورحمة اللہ جوابا عرض ہے کہ آیت تطہیر میں لفظ اہلبیت امہات المومنین علیہا الرضوان و آل عبا علیہم السلام دونوں کو شامل ہے۔ سیاق آیتہ واحادیث کثیرہ اسی پر دال ہیں۔

 العيد الملتحي والمشتكى الى اللہ المدعو ب-مهرعلی شاه بقلم خوداز گولڑہ

(مکتبوبات طیباب مہر علی شاہ ص150)

.

آپ لوگوں کے ممدوح، اپ لوگوں کے امام و مجدد طاہر الکادری لکھتا ہے:

قول راجح یہ ہے کہ (جن احباب کو حضور نبی اکرم ﷺ نے چادر مبارک میں ڈھانپ لیا وہ)چادر والے اور ازواج مطہرات سب کے سب آیت اہل بیت کے خطاب میں شامل ہیں

(قرابۃ النبی ص63)

.

ہم نے آیت کے فورا بعد یہ دو حوالے اس لیے دیے کہ یہ دونوں شخصیات آپ کے ہاں بالخصوص انتہائی معتبر ہیں...تو انکی مانیے اور توبہ رجوع کیجیے ورنہ سمجھا یہی جائے گا کہ کسی کی پسند یا ناپسند کو اپنایا جا رہا ہے،دلائل و جمھور کو ٹھکرایا جا رہا ہے تو ضرور دال میں کچھ کالا ہوگا....!!

.

مشہدیو چمنیو گردیزیوں تم اہلسنت کا نام لیتے ہو...دعوے کرتے ہو کہ اسلاف اہلسنت کے تم پابند و پیروکار ہو تو لو اسلاف کے مدلل اقوال ملاحظہ کرو...اور کاش کہ واقعی اسلاف اہلسنت جمھور اہلسنت کی مانو بھی سہی......آمین ورنہ لوگوں پہچانو گردیزی مشہدی چمنی نیم روافض و روافض مکاروں کو

.

امام بیقی نے فرمایا

بابُ الدَّليلِ على أَنَّ أَزواجَه -صلى اللَّه عليه وسلم- مِن أهلِ بَيتِه....وذَلِكَ لأنَّ اللَّهَ تعالَى خاطَبَهُنَّ بقَولِه تعالَى: {يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ}. ثمَّ ساقَ الكَلامَ إلى أَن قال: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} [الأحزاب: 32, 33]

یعنی

 آیت مبارکہ میں جو ہے کہ اللہ تعالی اہل بیت سے تمام ناپاکیوں کو دور فرما دے گا ان کی طہارت فرمادے گا تو اس آیت میں ازواج مطہرات بھی شامل ہیں کیونکہ آیت کا خطاب ہی ازواج مطہرات و اہل کساء(پنچ تن پاک سے ہے)

پھر منقولی دلیل یہ حدیث پاک لکھی

أُمِّ سلمةَ قالَت: فى بَيتِى أُنزِلَت: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا}. قالَت: فأَرسَلَ رسولُ اللَّهِ -صلى اللَّه عليه وسلم- إلى فاطِمَةَ وعَلِىٍّ والحَسَنِ والحُسَينِ فقالَ: "هَؤُلاءِ أَهلُ بَيتى". وفِى حَديثِ القاضِى والسُّلَمِى: "هَؤُلاءِ أَهلِى". قالَت: فقُلتُ: يا رسولَ اللَّه، أَما أَنا مِن أَهلِ البَيتِ؟ قال: "بَلَى إن شاءَ اللَّه تعالَى" (1). قال أبو عبدِ اللَّه: هذا حديثٌ صحيحٌ سَنَدُه، ثِقاتٌ رواتُه.

 سیدہ ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میرے گھر میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ اہل بیت سے ہر طرح کے عیوب و ناپاکی کو دور رکھ کر انہیں پاکیزہ بنانا چاہتا ہے.. جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ کو بلایا سیدنا علی کو بلایا سیدنا حسن کو بلایا سیدنا حسین کو بلایا اور فرمایا یہ میرے اہل بیت ہیں، نبی کریم کی زوجہ محترمہ ام سلمہ فرماتی ہیں کہ یا رسول اللہ کیا میں اہل بیت میں نہیں تو آپ نے فرمایا بے شک تم بھی اہل بیت میں ہو... ابو عبد اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اس کی سند صحیح ہے اس کے راوی ثقہ ہیں

(سنن کبری بیہقی حدیث2900)

.

مسند امام احمد بن حنبل امام ابن جریر اور تفسیر ابن کثیر:

إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً وَهَذَا نَصٌّ فِي دُخُولِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَهْلِ الْبَيْتِ هَاهُنَا،..قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ...اللَّهُمَّ إِلَيْكَ لَا إِلَى النَّارِ أَنَا وَأَهْلُ بَيْتِي» قَالَتْ: فَقُلْتُ وأنا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم: «وَأَنْتِ....ابن جرہر قالت أم سلمة رضي الله عنها: فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَدْخَلَنِي مَعَهُمْ، فَقَالَ صلى الله عليه وسلم: «أنت من أهلي...لَيْسَ الْمُرَادُ بِالْأَهْلِ الْأَزْوَاجَ فَقَطْ، بَلْ هُمْ مَعَ آلِهِ، وَهَذَا الِاحْتِمَالُ أَرْجَحُ جمعا بينهما وَبَيْنَ الرِّوَايَةِ الَّتِي قَبْلَهَا، وَجَمْعًا أَيْضًا بَيْنَ الْقُرْآنِ وَالْأَحَادِيثِ

 آیت مبارکہ میں جو ہے کہ اہل بیت اللہ تمھیں پاکیزہ کرنا چاہتا ہے تمھاری تطہیر فرمانا چاہتا ہے ایت سے دوٹوک واضح ہے کہ اس میں ازواج مطہرات بھی شامل ہیں... اس کی دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ مسند احمد میں روایت ہے کہ سیدہ ام سلمہ کو نبی پاک نے فرمایا کہ تم بھی اہل بیت میں شامل ہو، تیسری دلیل یہ ہے کہ جس کو ابن جریر نے روایت کیا ہے کہ سیدہ ام سلمہ نے عرض کیا یارسول اللہ مجھے بھی چادر مبارک میں لے لیجئے تو آپ نے انہیں چادر میں لے لیا اور فرمایا تم بھی میرے اہل بیت میں سے ہو... لہذا آیات اور احادیث کے مطابق اہل بیت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور سیدنا علی سیدہ فاطمہ سیدنا حسن و سیدنا حسین بھی شامل ہیں

(تفسیر ابن کثیر تفسیر سورہ احزاب ایت33 ملتقطا)

.

اور جس ترمذی وغیرہ کی روایت میں زوجہ رسول سیدہ ام سلمہ کو اہلبیت کی تطہیر کی آیت میں شامل نہ ہونے کا ذکر ہے اسے بعض محققین نے ضعیف قرار دیا تو بعض نے آیت کے مقابل ہونے کی وجہ باطل قرار دیا تو بعض نے مرجوع قرار دیا اور اکثر علماء صوفیاء محققین محدثین نے تطہیر اہلبیت میں ازواج مطہرات کو بھی شامل کیا ہے جیسے کہ پیر مہر علی شاہ نے لکھا اور اسلاف کے اقوال آپ پڑھ رہے ہیں

وشهر ضعيف لسوء حفظه 

(نزہۃ الالباب علی ترمذی6/3473)

.

وهذه كما ترى آية بينة وحجة نيرة على كون نساء النبي عليه السلام من اهل بيته قاضية ببطلان مذهب الشيعة فى تخصيصهم اهل البيت بفاطمة وعلى وابنيه اى الحسن والحسين رضى الله عنهم واما ما تمسكوا به من ان النبي عليه السلام خرج ذات يوم غدوة وعليه مرط مرجل من شعر اسود: يعنى [بروى ميزر معلم بود از موى سياه] فجلس فأتت فاطمة فادخلها فيه ثم جاء على فادخله فيه ثم جاء الحسن والحسين فادخلهما فيه ثم قال انما يريد الله ليذهب عنكم الرجس اهل البيت فانه يدل على كونهم من اهل البيت لا ان من عداهم ليسوا كذلك

 یہ آیت مبارکہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بالکل واضح اور روشن دلیل ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں شامل ہیں... اس سے شیعوں کا مذہب باطل ہو جاتا ہے کہ جنہوں نے اہل بیت میں فقط سیدہ فاطمہ سیدنا علی سیدنا حسن اور حسین کو شامل کیا ہے، شیعہ لوگوں کی جو دلیل ہے کہ نبی پاک نے ان پنجتن پاک کو چادر میں لیا اور فرمایا یہ میرے اہل بیت ہیں تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نبی پاک نے یہ فرمایا کہ ان پنجتن پاک کے علاوہ کوئی اہل بیت نہیں

(تفسیر روح البیان 7/171)

.

وَالَّذِي يَظْهَرُ مِنَ الْآيَةِ أَنَّهَا عَامَّةٌ فِي جَمِيعِ أَهْلِ الْبَيْتِ مِنَ الْأَزْوَاجِ وَغَيْرِهِمْ...فَهَذِهِ دَعْوَةٌ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ بَعْدَ نُزُولِ الْآيَةِ، أَحَبَّ أَنْ يُدْخِلَهُمْ فِي الْآيَةِ الَّتِي خُوطِبَ بِهَا الْأَزْوَاجُ

یعنی

 آیت مبارکہ ہی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہرات اور اولاد وغیرہ شامل ہیں، آیت میں بظاہر خطاب ازواج مطہرات سے تھا تو اس سے یہ گمان ہو سکتا تھا کہ ازواج مطہرات کے علاوہ اولاد اور سیدنا علی وغیرہ اہل بیت میں شامل نہیں تو اس گمان کو ختم کرنے کے لیے نبی پاک نے ان پانچ کو بلایا اور انہیں چادر میں لے کر فرمایا کہ یہ بھی اہل بیت ہیں

(تفسیر قرطبی تفسیر احزاب ایت33ملتقطا)

.

والآيةُ نص صريح في دخول أزواج النبي - صلى الله عليه وسلم - في أهل البيت

 آیت مبارکہ دوٹوک دلیل ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل بیت میں شامل ہیں

(التفسیر المامون6/170)

.

وَيُطَهِّرَكُمْ أَيْ يُلْبِسَكُمْ خِلَعَ الْكَرَامَةِ، ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى تَرَكَ خِطَابَ الْمُؤَنَّثَاتِ وَخَاطَبَ بِخِطَابِ الْمُذَكَّرِينَ بِقَوْلِهِ: لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ لِيَدْخُلَ فِيهِ نِسَاءُ أَهْلِ بَيْتِهِ وَرِجَالِهِمْ، وَاخْتَلَفَتِ الْأَقْوَالُ فِي أَهْلِ الْبَيْتِ، وَالْأَوْلَى أَنْ يُقَالَ هُمْ أَوْلَادُهُ وَأَزْوَاجُهُ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ مِنْهُمْ وَعَلِيٌّ مِنْهُمْ لِأَنَّهُ كَانَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ بِسَبَبِ مُعَاشَرَتِهِ بِبِنْتِ النَّبِيِّ عليه السلام وملازمته للنبي.

 اللہ پاک تم اہل بیت کو پاک فرمانا چاہتا ہے تمہاری تطہیر کرنا چاہتا ہے یعنی تم پر نوازشات کرم نوازیاں فرمانا چاہتا ہے... ازواج مطہرات کے لیے تو مونث کا صیغہ ہونا چاہیے جبکہ آیت میں مذکر کا صیغہ ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مرد بھی شامل ہو جائیں تو پھر مذکر کا صیغہ استعمال ہوتا ہے، یہ مذکر کا صیغہ ہی بتا رہا ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہرات کے ساتھ ساتھ اولاد سیدہ فاطمہ  اور سیدنا علی سیدنا حسن حسین وغیرہ شامل ہیں

(تفسیر کبیر امام رازی25/168)

.

والذي يظهر من الآية أنها عامة في جميع أهل البيت من الأزواج وغيرهم

 آیت مبارکہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہل بیت لفظ عام ہے اس میں  ازواج مطہرات اور دیگر شامل ہیں

(التفسیر الوسیط8/183)

.

والحق ما ذكرنا ان الاية يعم جميع اهل البيت وان كان سوق الكلام للنساء عن أم سلمة رضى الله عنها قالت فى بيتي أنزلت إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ قالت فارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم الى فاطمة وعلى والحسن والحسين فقال هؤلاء اهل بيتي فقلت يا رسول الله اما انا من اهل البيت قال بلى ان شاء الله- رواه البغوي وغيره هذا الحديث يدل على ان اهل البيت يعم

 حق بات یہ ہے کہ آیت عام ہے اس میں ازواج مطہرات و پنجتن پاک سب شامل ہیں کیونکہ سیدہ ام سلمہ سے روایت ہے سیدہ ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میرے گھر میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ اہل بیت سے ہر طرح کے عیوب و ناپاکی کو دور رکھ کر انہیں پاکیزہ بنانا چاہتا ہے.. جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ کو بلایا سیدنا علی کو بلایا سیدنا حسن کو بلایا سیدنا حسین کو بلایا اور فرمایا یہ میرے اہل بیت ہیں، نبی کریم کی زوجہ محترمہ ام سلمہ فرماتی ہیں کہ یا رسول اللہ کیا میں اہل بیت میں نہیں تو آپ نے فرمایا بے شک تم بھی اہل بیت میں ہو.. حدیث پاک کو امام بغوی وغیرہ نے روایت کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں شامل ہیں اور لفظ اہل بیت عام ہے

(تفسیر مظہری7/340)

.

وفيه دليل على أن نساءه من أهل بيته

 آیت مبارکہ میں دلیل ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل بیت میں داخل ہیں 

(تفسیر النسفی3/30)

.

أَهْلَ البيت} مُراداً بهم من حَواهم بيتُ النُّبوة {وَيُطَهّرَكُمْ} من أوضارِ الأوزارِ والمَعاصي {تَطْهِيراً} بليغاً واستعارةُ الرِّجسِ للمعصيةِ والتَّرشيحُ بالتَّطهيرِ لمزيدِ التَّنفيرِ عنها وهذهِ كما ترى آيةٌ بينةٌ وحجَّةٌ نيرةٌ على كونِ نساءِ النبيِّ صلَّى الله عليهِ وسلم من أهلِ بيتِه قاضيةً ببُطلان رأيِ الشِّيعةِ في تخصيصهم أهل البيتِ بفاطمةَ وعليَ وابنيهما رضوانُ الله عليهم وأمَّا ما تمسكوا به من أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرجَ ذاتَ غُدوةٍ وعليه مرط مرجل من شَعَرٍ أسودَ وجلسَ فأتتْ فاطمةُ فأدخلَها فيهِ ثم جاءَ عليٌّ فأدخلَه فيه ثم جاء الحسنُ والحسينُ فأدخلَهما فيهِ ثمَّ قال إنَّما يُريد الله ليُذهبَ عنكم الرِّجسَ أهلَ البيتِ فإنَّما يدلُّ على كونِهم من أهلِ البيتِ لاعلى أنَّ من عداهم ليسُوا كذلك

یعنی

 اہل بیت سے مراد نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور دیگر کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں میں شامل ہیں  ہیں سب اہلبیت میں شامل ہیں اور انکی اللہ نے ہر نفرت والی بات و فعل سے پاکیزگی و تطہیر فرما دی ہے..یہ آیت مبارکہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بالکل واضح اور روشن دلیل ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں شامل ہیں... اس سے شیعوں کا مذہب باطل ہو جاتا ہے کہ جنہوں نے اہل بیت میں فقط سیدہ فاطمہ سیدنا علی سیدنا حسن اور حسین کو شامل کیا ہے، شیعہ لوگوں کی جو دلیل ہے کہ نبی پاک نے ان پنجتن پاک کو چادر میں لیا اور فرمایا یہ میرے اہل بیت ہیں تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نبی پاک نے یہ فرمایا کہ ان پنجتن پاک کے علاوہ کوئی اہل بیت نہیں

(تفسیر ابی السعود7/103)

.

وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ» ) قَالَ الْعُلَمَاءُ: مَعْنَى الْبَرَكَةِ هُنَا الزِّيَادَةُ مِنَ الْخَيْرِ وَالْكَرَامَةِ، وَقِيلَ: هِيَ بِمَعْنَى التَّطْهِيرِ وَالتَّزْكِيَةِ أَيْ طَهِّرْهُمْ، وَقَدْ قَالَ تَعَالَى: {لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} [الأحزاب: 33]

 اللہ پاک برکت فرمائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی ازواج پر اور ذریت پر... علماء نے فرمایا کہ برکت کے یہاں معنی زیادہ خیر اور بزرگی ہے.. ایک قول یہ ہے کہ یہ طہارت کے معنی میں ہے تطہیر کے معنی میں ہے، جیسے کہ آیت میں ہے کہ اہل بیت سے اللہ تعالی ہر طرح کی ناپاکی کو دور فرمانا چاہتا ہے اور انہیں پاکیزہ فرمانا چاہتا ہے

(شرح زرقانی علی الموطا1/51)

.

التخصيص بهم لا يناسب ما قبل الآية وما بعدها، والحديث يقتضي أنهم من أهل البيت لا أنه ليس غيرهم

 سیدہ فاطمہ سیدنا علی سیدنا حسن حسین کے ساتھ اہل بیت کو خاص کر دینا یہ آیت کے ماقبل اور مابعد کے خلاف ہے... اور وہ جو حدیث پاک میں ہے کہ نبی پاک نے ان پانچوں کو چادر میں لیا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان پانچ کے علاوہ کوئی اہل بیت نہیں

(تفسیر بیضاوی4/231)

.

شاہ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں

{إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} [الأحزاب: 33].والحق أن أزواجه -صلى اللَّه عليه وسلم- أيضًا داخلات في هذا الخطاب

 قرآن مجید میں ہے کہ اللہ تعالی اہل بیت سے تمام ناپاکی کو دور رکھنا چاہتا ہے اور انکی تطہیر و پاکیزگی فرمانا چاہتا ہے تو اس تطہر و پاکیزگی میں لفظ اہلبیت میں ازواج مطہرات بھی داخل ہیں، یہی حق ہے

(لمعات شرح مشکواۃ3/57)



.===============

*سیدہ عائشہ  طیبہ طاہرہ کی تطہیر و پاکدامنی پر دوسری آیت مبارکہ....!!*

القرآن...سُبۡحٰنَکَ ہٰذَا بُہۡتَانٌ عَظِیۡمٌ... اللہ پاک ہے یہ(سیدہ عائشہ پر برائی پلیدگی کا) بہت بڑا بہتان  و جھوٹ ہے(سورہ نور ایت16)

اُولٰٓئِکَ مُبَرَّءُوۡنَ مِمَّا یَقُوۡلُوۡنَ...یہ لوگ(سیدہ عائشہ وغیرہ) تو پاکدامن ہیں،الزام و بہتان سے اللہ انہیں مبرا کرتا ہے(سورہ نور آیت26)

.


رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَضْحَكُ، فَكَانَ أَوَّلَ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا أَنْ قَالَ لِي : " يَا عَائِشَةُ، احْمَدِي اللَّهَ ؛ فَقَدْ بَرَّأَكِ اللَّهُ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم مسکرا رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ عائشہ اللہ کی حمد کرو اللہ نے تمہیں پاکدامن قرار دے دیا ہے ، افک بہتان وغیرہ سے مبرا قرار دے دیا ہے

(بخاری حدیث2661)

.

عَائِشَة رَضِي الله عَنْهَا، كَانَت تسْتَحقّ الثَّنَاء بِمَا كَانَت عَلَيْهِ من الحصانة وَشرف النّسَب لَا الْقَذْف...وَتظهر براءتكم وَينزل فِيكُم ثَمَانِيَة عشر آيَة كل وَاحِدَة مِنْهَا مُسْتَقلَّة بِمَا هُوَ تَعْظِيم لرَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وتسلية لَهُ وتبرئة لأم الْمُؤمنِينَ وتطهير لأهل الْبَيْت

 سیدہ عائشہ کی برات اور ان کی پاکدامنی کے متعلق اللہ تعالی نے 18 آیت نازل فرمائیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدہ عائشہ تعریف و مدح کی مستحق ہیں کیونکہ وہ پاک دامن ہیں اچھے نسب والی ہیں ان پر تہمت لگانا حق نہیں بنتا، ان آیات مبارکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہے تسلی ہے اور اہل بیت بالخصوس سیدہ عائشہ کی پاکدامنی اور تطہیر بیان کی گئی ہے

(عمدۃ القاری شرح بخاری19/79)


نزلت هذه الآيات العشر في شأن عائشة أم المؤمنين، رضي الله عنهها، حين رماها أهلُ الافك والبهتان من المنافقين ومن انضمّ اليهم من بعض المؤمنين بما قالوه من الكذب والافتراء. وكان القصدُ من ذلك إيذاءَ الرسول الكريم صلى الله عليه وسلم في أحبّ نسائه اليه، فأنزل الله تعالى هذه الآيات لبراءتها. وهذا باتفاق المفسرين والرواة من جميع الطوائف والمذاهب الاسلامية

یعنی

 یہ دس آیات مبارکہ سیدہ عائشہ ام المومنین کی شان میں نازل ہوئی ہیں کہ جب آپ پر بہتان لگایا گیا تو اسے اللہ تعالی نے جھوٹ اور بہتان قرار دے دیا، اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اذیت قرار دے دیا گیا کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدہ عائشہ بہت محبوب تھی، آیت مبارکہ میں سیدہ پاک کی برات اور پاکدامنی نازل کی گئی اور اس پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے اور مذاہب اسلامیہ کا اس پر اتفاق ہے

(تیسیر التفسیر2/491)

.

كَذِبَهُمْ وَبَرَاءَةَ عَائِشَةَ

 آیت مبارکہ میں یہ نازل کیا گیا کہ جو انہوں نے الزام لگایا بہتان باندھا وہ ان کا جھوٹ ہے اور سیدہ عائشہ پاک دامن ہے 

(تفسیر بغوی6/25)

.

الْمُرَادُ تَنْزِيهُ اللَّه تَعَالَى عَنْ أَنْ تَكُونَ زَوْجَةُ نَبِيِّهِ فَاجِرَةً

 اللہ تبارک و تعالی نے سیدہ عائشہ کی پاکدامنی طہارت نازل فرمائی تو اس سے پہلے یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تو پاک ہے، اس میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ جب پاک ہے تو وہ کیسے راضی ہو گا کہ اس کے نبی کی زوجہ ناپاک فاجرہ  ہو

(تفسیر کبیر امام رازی23/343)

.

يذكِّرُكم الله وينهاكم بآي كتابه، لئلا تعودوا لمثل فعلكم الذي فعلتموه في أمر عائشة

 اللہ کریم نے سیدہ عائشہ کی پاکدامنی نازل فرما کر سب کو تنبیہ فرما دی کہ اس مثل دوبارہ کام نہ کرنا، گستاخی نہ کرنا،الزام نہ لگانا

(تفسیر طبری19/133)

.

سبحانك هذا بهتان عظيم}). وسبح تعجبًا ممن يقول ذلك فهو تنزيه لله تعالى من أن تكون حرمة نبيه فاجرة

اللہ تبارک و تعالی نے سیدہ عائشہ کی پاکدامنی طہارت نازل فرمائی تو اس سے پہلے یہ فرمایا کہ اللہ بےشک پاک ہے اس میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ جب پاک ہے تو وہ کیسے راضی ہو گا کہ اس کے نبی کی زوجہ ناپاک فاجرہ  ہو

(ارشاد الساری شرح بخاری10/357)

.

==================

*سیدہ عائشہ  طیبہ طاہرہ کی تطہیر و پاکدامنی پر تیسری آیت مبارکہ....!!*

القرآن:

اَلۡخَبِیۡثٰتُ لِلۡخَبِیۡثِیۡنَ وَ الۡخَبِیۡثُوۡنَ لِلۡخَبِیۡثٰتِ ۚ وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیۡنَ وَ الطَّیِّبُوۡنَ لِلطَّیِّبٰتِ

 خبیثات(باتیں عورتیں) خبیثوں کے لیے(لائق)ہیں اور خبیث خبیثات کے لیے(لائق)ہیں اور پاک پاکوں کے لیے(لائق)ہیں

(سورہ نور آیت26)

.

سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں:

وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ} [النور: 26] " يُرِيدُ الطَّيِّبَاتِ عَائِشَةَ طَيَّبَهَا اللهُ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،،

 سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہاں پاک و پاکدامن سے مراد سیدہ عائشہ ہیں کہ اللہ تعالی نے انہیں پاک فرمایا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے

(طبرانی کبیر روایت238)

.

سَمِعْتُ أَبَا السَّائِبِ عُتْبَةَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْهَمْدَانِيَّ قَاضِيَ الْقُضَاةِ يَقُولُ: كُنْتُ يَوْمًا بِحَضْرَةِ الْحَسَنِ بْنِ زَيْدٍ الدَّاعِي بِطَبَرِسْتَانَ، وَكَانَ يَلْبَسُ الصُّوفَ، وَيَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَيَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ، وَيُوَجِّهُ فِي كُلِّ سَنَةٍ بِعِشْرِينَ أَلْفَ دِينَارٍ إِلَى مَدِينَةِ السَّلَامِ تُفَرَّقُ عَلَى صَغَائِرِ وَلَدِ الصَّحَابَةِ، وَكَانَ بِحَضْرَتِهِ رَجُلٌ ذَكَرَ عَائِشَةَ بِذِكْرٍ قَبِيحٍ مِنَ الْفَاحِشَةِ , فَقَالَ: يَا غُلَامُ اضْرِبْ عُنُقَهُ، فَقَالَ لَهُ الْعَلَوِيُّونَ: هَذَا رَجُلٌ مِنْ شِيعَتِنَا , فَقَالَ: مَعَاذَ اللَّهِ , هَذَا رَجُلٌ طَعَنَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ أُولَئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ} ، فَإِنْ كَانَتْ عَائِشَةُ خَبِيثَةً , فَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبِيثٌ، فَهُوَ كَافِرٌ , فاضْرِبُوا عُنُقَهُ , فَضَرَبُوا عُنُقَهُ

خلاصہ:

قاضیوں کے قاضی ابو سائب فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ حسن بن زید کی مجلس میں تھا، آپ نیکیوں کا حکم دیتے تھے اور برائیوں سے روکتے تھے.. ایک دفعہ ان کے پاس ایک شخص نے سیدہ عائشہ کا  برے طریقے سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا اے غلام اٹھو اور اس کی گردن اڑا دو، علویوں نے کہا یہ تو ہمارے شیعوں میں سے ہے.. آپ نے فرمایا اس نے فقط سیدہ پاک سیدہ عائشہ کی توہین نہیں کی بلکہ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر طعنہ زنی کی ہے، کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ پاک دامن عورتیں پاک دامن لوگوں کے لئے ہیں اور خبیث عورتیں خبیث لوگوں کے لئے ہیں... سیدہ عائشہ اگر خبیث ہوتی تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اسے کیسے اپنے پاس رکھتے تو سیدہ عائشہ کو خبیث کہنا گویا رسول کریم کو خبیث کہنا ہے اور جو رسول کریم کو خبیث کہے وہ گستاخ ہے اس کی گردن اڑا دو تو اس گستاخ کی گردن اڑا دی گئ

(شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ روایت2402)

.


كان رسول الله عليه السلام أطيب الأطيبين وخيرة الأولين والآخرين تبين كون الصديقة من أطيب الطيبات بالضرورة...بل هو الطيب الطاهر وهى الطيبة الطاهرة المبرأة من السماء

یعنی

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام پاکیزہ لوگوں میں سے زیادہ پاکیزہ تھے اور تمام اول آخر سارے لوگوں سے بہترین تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ صدیقہ بھی پاکیزہ پاک دامن عورتوں میں سب سے زیادہ پاکدامن و پاکیزہ تھیں کہ جس کی پاکدامنی کی گواہی اللہ نے قرآن میں نازل کی ہے

(تفسیر روح البیان6/136)

.

ایک قول و تفسیر یہ ہے کہ:

الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ) قال: نزلت في عائشة حين رماها المنافق بالبهتان والفرية، فبرأها الله من ذلك. وكان عبد الله بن أُبيّ هو خبيث، وكان هو أولى بأن تكون له الخبيثة ويكون لها، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم طيبا، وكان أولى أن تكون له الطيبة، وكانت عائشة الطيبة، وكان أولى أن يكون لها

الطيب

 خبیث خبیثوں کے لیے ہیں... پاک پاکدامن کے لئے ہیں.. فرمایا کہ یہ آیت سیدہ عائشہ کے حق میں نازل ہوئی جب منافقوں نے آپ پر گندا الزام لگایا تو اللہ تعالی نے آپ کو پاکدامن قرار دے دیا... تو عبداللہ بن ابی خبیث تھا اس کے لیے خبیث بات کرنا ہی مناسب تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاک دامن تھے اس کے لیے زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ بھی پاکدامن ہی تھی

(تفسیر طبری19/144)

.

الخبيثات الكلمات والقول للخبيثين من الناس ومثله وَالْخَبِيثُونَ أي من الناس لِلْخَبِيثاتِ من القول وَالطَّيِّباتُ أي من القول ومعنى الآية أن الخبيث من القول لا يليق إلا بالخبيث من الناس. والطيب من القول لا يليق إلا بالطيب من الناس وعائشة لا يليق بها. الخبيث من القول لأنها طيبة فيضاف إليها طيب القول من الثناء والمدح وما يليق بها

 خبیثات باتیں قول خبیث لوگوں کے لئے ہیں اور خبیث لوگ خبیث باتوں کے لیے ہیں اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہوگا کہ خبیث کے لیے خبیث قول ہی لائق ہے اور پاک دامن کے لیے پاک قول لائق ہے اور سیدہ عائشہ پاک دامن ہیں تو ان کے متعلق بری بات کرنا خبیثوں کے لائق ہے جبکہ سیدہ عائشہ طیبہ طاہرہ پاک دامن ہیں تو ان کے لیے پاکدامنی کا قول ہی لائق ہے، ان کی تعریف کرنا ان کی مدح کرنا ہی لائق ہے

(تفسیر خازن 3/290)

.==============

*تیسری بات...سیدہ عائشہ کے بعض دیگر فضائل و شان....!!*

①الحدیث:

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا : " يَا عَائِشَةُ، هَذَا جِبْرِيلُ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلَامَ ". فَقَالَتْ : وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، تَرَى مَا لَا أَرَى.

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عائشہ جبریل تمہیں سلام کہہ رہا ہے تو سیدہ عائشہ نے عرض کی وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ... یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی تو اعلی شان ہے کہ آپ وہ کچھ دیکھتے ہیں جو ہم نہیں دیکھ سکتے

(بخاری حدیث3217)

.

فرمانبردار عظیم الشان پاک فرشتے حضرت جبرائیل بھلا کسی ایسی ویسی ہستی پر سلام بھیجیں گے....؟؟ یقینا اس میں سیدہ عائشہ کی شان و پاکدامنی کی دلیل ہے

.

وفيه فضيلة عائشة رضي الله عنھا

 اس حدیث پاک سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عظیم فضیلت ثابت ہوتی ہے

(الکوکب الدراری شرح بخاری امام کرمانی22/90)

.

②الحدیث:

فَاسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِهَا، وَأَذِنَّ لَهُ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  جب بیمار ہوئے جس میں آپ کی وفات ہوئی تو آپ نے ازواج مطہرات سے اظہار فرمایا کہ وہ سیدہ عائشہ کے حجرے میں رہیں گے تو سب ازواج مطہرات نے لبیک کہا

(مسلم حدیث418)

.

وَفِيهِ فَضِيلَةُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَرُجْحَانُهَا عَلَى جَمِيعِ أَزْوَاجِهِ الْمَوْجُودَاتِ ذَلِكَ الْوَقْتَ

 اس حدیث پاک میں سیدہ عائشہ کی عظیم فضیلت بیان ہو رہی ہے( کہ آپ کو وہ کتنی محبوب تھیں) اور تمام ازواج مطہرات پر ترجیح رکھتی تھیں

(شرح مسلم امام نووی 4/139)

.

③روایت:

فَلَا يَمْنَعُنِي مِنَ التَّحَرُّكِ إِلَّا مَكَانُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَخِذِي، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَصْبَحَ عَلَى غَيْرِ مَاءٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ التَّيَمُّمِ فَتَيَمَّمُوا، فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ الْحُضَيْرِ : مَا هِيَ بِأَوَّلِ بَرَكَتِكُمْ يَا آلَ أَبِي بَكْرٍ

 ایک موقع پر صحابہ کرام کا لشکر ایک جگہ پر رک گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ کی گود مبارک میں آرام فرمانے لگے، سیدہ عائشہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ جگایا کہ جا کر کسی پانی والی جگہ پر آرام فرمائیں... صبح کو اٹھے تو پانی نہ تھا تو اللہ تعالی نے تیمم کی آیت نازل فرمائی تو سیدنا اسید بن حضیر نے فرمایا کہ

 اللہ اللہ ابوبکر صدیق کی آل اولاد(سیدہ عائشہ) کی بار بار برکتیں مل رہی ہیں

(بخاری  تحت حدیث334)

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مذمت نہ فرمائی بلکہ اللہ نے اس برکت سے رخصت نازل فرمائی... اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سیدہ پاک سیدہ عائشہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی محبت فرماتی تھیں کتنا ادب کرتی تھیں اور صحابہ کرام بھی عشق رسول میں کم نہ تھے انہوں نے رسول کریم کو چھوڑ کر کسی اور جگہ پر جا کر پانی والی جگہ پر قیام نہ فرمایا اور نہ ہی رسول کریم کو جگایا

.

فِيهِ دَلِيل على فَضِيلَة عَائِشَة رَضِي اتعالى عَنْهَا، وتكرر الْبركَة مِنْهَا

 اس حدیث پاک میں سیدہ عائشہ کی فضیلت بیان ہے اور یہ بھی بیان ہے کہ آپ سیدہ عائشہ کی وجہ سے بار بار برکات حاصل ہوئی امت کو

(عمدۃ القاری شرح بخاری4/7)

.

وفيه فضيلة عائشة وعظم محلها عند رسول الله - صلى الله عليه وسلم

 اس حدیث پاک میں سیدہ عائشہ کی فضیلت کا بیان ہے اور یہ بھی بیان ہے کہ ان کا مقام و مرتبہ رسول کریم کے نزدیک عطیم تھا(کہ سیدہ عائشہ کی مذمت نہ فرمائی)

(الکوکب الدراری امام کرمانی4/115)

.

④روایت:

قُلْتُ : أَفِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ ؟ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ. ثُمَّ خَيَّرَ نِسَاءَهُ فَقُلْنَ مِثْلَ مَا قَالَتْ عَائِشَةُ

 جب اللہ کریم نے آیت نازل فرمائی کی تمام ازواج مطہرات کو اختیار ہے کہ وہ اپنے گھروں کو چلی جائیں یا رسول کریم کے ساتھ رہیں تو سیدہ عائشہ نےعرض کی یا رسول اللہ میں اس معاملے میں بھلا اپنے والدین سے مشورہ لے بھی کیسے سکتی ہوں...؟؟ میں تو اللہ کو چاہتی ہوں، میں تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی کو چاہتی ہوں اور آخرت کو چاہتی ہوں.. پھر بقیہ ازواج مطہرات  نے بھی سیدہ عائشہ والی بات عرض کی

(بخاری تحت الحدیث2468)

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدہ عائشہ کتنی محبت کرتی تھیں کتنا ادب کرتی تھیں.... اللہ اللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے والدین پر فوقیت دے دی جو کہ عین تقاضہ ایمانی ہے

.

⑤روایت:

كأَنَّ النَّاسَ كَانُوا يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ ؛ يَبْتَغُونَ بِذَلِكَ مَرْضَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 صحابہ کرام خاص طور پر سیدہ عائشہ کے دن تحفے تحائف بھیجا کرتے تھے اور ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہو جائیں

(مسلم 2441)

 اللہ اللہ صحابہ کرام کا عشق دیکھئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی کے طلبگار ہیں وہ لوگ سوچیں کہ جو لوگ کہتے رہتے ہیں کہ بس اللہ کو راضی کرلو....بےشک اللہ تعالیٰ کو راضی کر لو لیکن ساتھ ساتھ رسول کریم کو بھی راضی کر لو... اور اس روایت میں یہ بھی اشارہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ سے بہت محبت کرتے تھے، یہ بات صحابہ کرام بھی جانتے تھے کہ جب ہم سیدہ عائشہ کے موقع پر رسول کریم کو تحائف بھیجیں گے تو رسول کریم زیادہ خوش ہوں گے

.

⑥الحدیث:

وَفَضْلُ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عائشہ کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسے کہ ثرید کی فضیلت تمام طعام پر

(ترمذی حدیث1834)

.

ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : كَانَ أَحَبَّ الطَّعَامِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الثَّرِيدُ

 سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو سب سے زیادہ طعام محبوب تھا وہ ثرید تھی

(ابوداؤد حدیث3783)

 ثابت ہوا کے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سید عالم کو بہت محبوب تھیں.....!!

.

نبی پاکﷺنے فرمایا(بڑے مردوں)میں سب سے زیادہ محبوب سیدنا ابوبکر ہیں،(نوجوانوں میں سے)سب سے زیادہ محبوب سیدنا علی ہیں،(موجودہ گھر والی) عورتوں میں سے زیادہ محبوب سیدہ عائشہ ہیں،ورنہ سیدہ خدیجہ سب سے زیادہ زوجہ محبوب ہیں،(موجودہ اولاد)میں سے زیادہ محبوب سیدہ فاطمہ ہیں،(چھوٹوں میں سے)زیادہ محبوب سیدنا اسامہ بن زید ہیں رضی اللہ عنھم اجمعین(ماخذ بخاری حدیث3662 ترمذی حدیث3819 فتح الباري لابن حجر ,7/27 فيض القدير1/161)

.

⑦الحدیث:

لَا تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ ؛ فَإِنَّهُ وَاللَّهِ مَا نَزَلَ عَلَيَّ الْوَحْيُ وَأَنَا فِي لِحَافِ امْرَأَةٍ مِنْكُنَّ غَيْرِهَا

رسول کریم نے فرمایا مجھے عائشہ کے معاملے میں اذیّت مت پہنچاؤ، عائشہ کے بستر کے علاوہ کسی کے بستر میں مجھ پر وحی نازل نہیں ہوئی

(بخاری حدیث3775)

 ثابت ہوا سیدہ عائشہ کو اذیت پہنچانا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچانا ہے..اللہ پناہ میں رکھے

.

⑧روایت:

أَنَّ جِبْرِيلَ جَاءَ بِصُورَتِهَا فِي خِرْقَةِ حَرِيرٍ خَضْرَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : هَذِهِ زَوْجَتُكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل ایک سبز ریشمی چادر میں سیدہ عائشہ کو پیش کیا اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ کی دنیا اور آخرت میں زوجہ ہے

(ترمذی حدیث3880)

 اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدہ عائشہ کی وفات حالت ایمان میں ہوگی، وہ کفر اور شرک و منافقت ظلم فسق پلیدگی وغیرہ سے پاک ہونگی تبھی تو سیدہ عائشہ کی شان ہے کہ وہ دنیا اور آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہوگی

.

⑨روایت:

عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ : مَا أَشْكَلَ عَلَيْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثٌ قَطُّ، فَسَأَلْنَا عَائِشَةَ إِلَّا وَجَدْنَا عِنْدَهَا مِنْهُ عِلْمًا

 سیدنا ابو موسی اشعری فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام پر کوئی مشکل معاملہ درپیش ہوتا تو وہ سیدہ عائشہ سے پوچھتے تو سیدہ کے پاس اکثر ضرور اس کا علم ہوتا

(ترمذی روایت3883)

 یہاں سے آپ کی علم اور فقاہت کی طرف واضح اشارہ ہے... اور حدیث پاک میں ہے کہ اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ اور فقہ عطا فرماتا ہے..(بخاری)

.

10....روایت:

إن عائشة -رضي الله عنها- كانت فقيهة جدًّا حتى قيل: إن ربع الأحكام الشرعية منقول عنها.. وجزم الإمام الزهري بأنها أفقه نساء الأمة على الإطلاق

 بے شک سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بہت بڑی فقیہ مفتی تھیں، حتیٰ کہ کہا گیا ہے کہ اسلام کے شرعی احکام کا چوتھائی حصہ سیدہ عائشہ سے مروی ہے اور امام زہری نے یہ بات یقین کے ساتھ کہی ہے کہ اس امت کے تمام عورتوں میں سے سب سے زیادہ فقہ اور سمجھ و علم والی سیدہ عائشہ ہیں

(منهاج المحدثين ص178)

.

عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: «كَانَتْ عَائِشَةُ، أَفْقَهَ النَّاسِ وَأَعْلَمَ النَّاسِ وَأَحْسَنَ النَّاسِ رَأْيًا

 سیدنا عطاء فرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ سے بڑھ کر کسی کو میں نے فقہ والا نہ پایا، علم والا نہ پایا،اچھی رائے و اجتہاد والا نہ پایا

(مستدرک حاکم روایت6748)

.

مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ أَعْلَمَ بِالْقُرْآنِ وَلَا بِفَرِيضَةٍ وَلَا بِحَلَالٍ وَلَا بِحَرَامٍ وَلَا بِشِعْرٍ وَلَا بِحَدِيثِ الْعَرَبِ ⦗٥٠⦘ وَلَا بِنَسَبٍ مِنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهَا

 قرآن کا علم ہو فرض کا علم ہوا حلال کا علم ہو حرام کا علم ہو شعر و شاعری کا علم ہو حدیث و تاریخ کا علم ہو نسب کا علم ہو، سب میں سیدہ عائشہ بہت علم رکھتی تھیں

(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة2/49)


.

11....روایت:

تَصَدَّقُ بِسَبْعِينَ أَلْفًا، وَأَنَّهَا لَتُرَقِّعُ [٧] جَانِبَ دِرْعِهَا

 سیدنا عروہ فرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ نے ستر ہزار(درہم)راہ خدا میں صدقہ کر دیئے حالانکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہا کے کپڑے مبارک پر پیوند لگے ہوئے تھے

(تاريخ الإسلام - ت تدمري4/250)

 اللہ اللہ آپ کی ایثار کا جذبہ دیکھئے صدقہ خیرات کرنے کا جذبہ دیکھئے کہ اپنے حالات تنگ تھے پھر بھی آپ نے صدقہ کیا اللہ کی رضا کے لیے...یہ آپ کی سخاوت و ایثار

اور خدمت خلق کی عظیم مثال ہے،آپ کے زہد و تقوی کی عظیم مثال ہے...دنیا سے بے رغبتی کی عظیم مثال ہے

.

12....روایت:

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كُنْتُ أَدْخُلُ بَيْتِي الَّذِي فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَأَبِي فَأَضَعُ ثَوْبِي فَأَقُولُ: إِنَّمَا هُوَ زَوْجِي وَأَبِي، فَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ مَعَهُمْ، فَوَاللَّهِ مَا دَخَلْتُهُ إِلَّا وَأَنَا مَشْدُودَةٌ عَلَيَّ ثِيَابِي ...رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ

 سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار اقدس پر حاضر ہوا کرتی تھی اور میں عام پردہ والا لباس پہنا کرتی تھی کیونکہ میں سمجھتی تھی کہ رسول کریم میرے شوہر ہیں اور ساتھ میں سیدنا ابوبکر صدیق میرے والد ہیں... لیکن جب سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو ساتھ میں دفن کیا گیا تو میں جب بھی جاتی تو سخت پردے کے ساتھ حاضر ہوتی... امام ہیثمی فرماتے ہیں اس روایت کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے

(مجمع الزوائد روایت12704)

 ثابت ہوا کہ سیدہ عائشہ کا عقیدہ وہی تھا کہ جو اہل سنت کا عقیدہ حیات بعد الوفات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام شہداء اولیاء اور دیگر مسلمان جو بھی وفات پا جاتے ہیں وہ قبروں میں زندہ ہوتے ہیں وہ دیکھتے ہیں ، سنتے ہیں... انہیں جنت کی نعمتیں عطا کی جاتی ہیں اور کفار پر جہنم کے عذاب نازل کیے جاتے ہیں اگرچہ ہمیں اس کا شعور نہیں ہوتا.... اور یہ بھی ثابت ہوا کہ قبروں پر حاضری دینا یہ کوئی بدعت نہیں ہے شرک نہیں ہے یہ صحابہ کرام کا طریقہ کار ہے... حتیٰ کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم قبروں کی زیارت فرمایا کرتے تھے اور ہر سال شہداء احد کی قبروں پر جایا کرتے تھے

((تفسیر ابن کثیر2/512)

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.