Labels

مختار مددگار نافع دافع مگر اللہ کی عطاء سے

 *کیا نبی پاک ﷺ کو کچھ اختیار نہیں...؟؟ کچھ کام نہ آئیں گے....؟؟ وہابیوں نجدیوں کٹر دیوبندیوں اہلحدیثوں اور مرزا جہلمی کو جواب.....!!*

سوال:

علامہ صاحب میں ہائی اسکول ٹیچر ہوں، مجھ سے کلاس میں سوال ہوا کہ مرزا جہلمی نے سورہ اعراف آیت188 پڑھ کر ثابت کیا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی چیز کا اختیار نہیں، بعض طلباء نے یہ بھی پوچھا کہ نبی پاک نے اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ سے فرمایا کہ میں تمھارے کام نہیں آؤں گا تو بھلا کسی اور کے کیسے کام آئیں گے...؟؟ تفصیلی جواب لکھ کر دیں تاکہ طلباء کو تسلی بخش جواب دے سکوں

.

*#جواب.و.تحقیق.....!!*

خلاصہ:

شفاعت و خصائص و اختیارات اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے  رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنے عطاء ہوئے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کام آئے اور کام آتے ہیں اور کام آتے رہیں گے،وہ جو حدیث پاک ہے کہ میں کام نہ آؤں گا یہ حدیث شفاعت اختیارات کی احادیث کی وجہ سے منسوخ ہے یا پھر اسکا یہ معنی ہے کہ اگر ایمان پے نہ رہو گے تو کام نہ آؤنگا،جیسے کہ نیچے تفصیل آ رہی ہے...اور جو مرزا جہلمی نے کہا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نفع نقصان کے مالک نہیں وہ مختار نہیں،اسکا جواب اسی آیت میں ہے کیونکہ اسی آیت میں ہے کہ میں نفع نقصان کا مختار نہیں الا ما شاء اللہ یعنی مختار نہیں مگر اتنا مختار ہوں جتنا اللہ نے چاہا، اللہ نے کتنا مختار بنایا اور کب بنایا اور کتنا مالک بنانا چاہا....؟؟ اسکا حقیقی علم تو اللہ کو ہے اور اس کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے مگر اتنا ضرور کہا جائے گا کہ اللہ کی عطاء سے نبی پاک مختار ضرور ہیں البتہ دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مختارِ کل بنایا دیا گیا...بعض مواقع پے بظاہر مسلمانوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے تو نفع نقصان کے مختار نبی پاک نفع کیوں نہیں دیتے...؟؟ نقصان سے کیوں نہیں بچاتے...؟؟ تو اس کے متعلق یہ کہا جائے گا کہ وہ اللہ کی حکمت ہے، امتحان ہے، جیسے اللہ تو بلاشک و شبہ جانتا ہے کہ فلاں موقعہ پے مسلمانوں کو نقصان ہوگا مگر پھر بھی اللہ بظاہر نقصان سے بعض اوقات نہیں بچاتا کیونکہ اسی میں حکمت ہے، امتحان ہے ، بعض اوقات اسی ظاہری نقصان میں بھلائی چھپی ہوتی ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نفع پہنچاتا ہے نقصان سے بچاتا ہے اور اللہ کی عطاء سے انبیاء کرام اولیاء عظام مدد کرتے ہیں نفع دیتے ہیں نقصان سے بچاتے ہیں...اللہ تعالیٰ انبیاء کرام اولیاء عظام مدد کرتے نفع پہنچاتے نقصان سے بچاتے ہیں کبھی ڈائریکٹ تو کبھی کس وسیلے سے، تو کبھی کس طریقے سے تو کبھی کس ذریعے سے ... بلا تمثیل محض سمجھانے کے لیے عرض ہے کہ بادشاہ ایک وزیر بھیجتا ہے کسی علاقے میں اور اسے کہتا ہے کہ آپ مختارِ کل ہیں اپنی چاہت رائے اجتہاد سے بھی حکم جاری کر سکتے ہیں،کسی کو عام حکم سے مستثنی کرسکتے ہیں، لیکن جب میرا حکم آئے تو میرا حکم نافذ کر دینا

.

.

*#تفصیل.و.تحقیق.......!!*

مرزا جہلمی نے جو کہا ہے کہ رسول کریم مختار و مالک نہیں  ایسا قول اکثر وہابی و غیرمقلد کہتے ہیں، ایسا قول  نام نہاد اہلحدیث و نجدی کہتے ہیں،کٹر دیوبندی کہتے ہیں

.

وہابی نجدی غیرمقلد نام نہاد اہلحدیث اور دیوبندیوں کے معتبر علامہ اسماعیل دہلوی کی کتاب تقویۃ الایمان میں ہے کہ:

جسکا نام محمد صل یا علی رض ہے وہ کسی چیز کا مختار نہیں..(تقویۃ الایمان ص59)

اسی کتاب میں مزید لکھا ہے کہ:

رسول کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا.....اسی صفحے پر مزید لکھا ہے کہ: جواب میں یہ نہ کہے کہ اللہ و رسول ہی جانے کیونکہ غیب کی بات اللہ ہی جانتا ہے،رسول کو کیا خبر..(تقویۃ الایمان ص84)

جبکہ

جب بھی غیب کا سوال ہوتا یا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سوال فرماتے تو صحابہ کرام حضور کی بارگاہ میں جواب اس طرح عرض کرتے کہ "الله ورسوله اعلم"

ترجمہ:

اللہ کو اور اسکے رسول کو علم ہے..... "اللہ اور رسول جانے"کہنا ایک دو دفعہ کا واقعہ نہیں بلکہ یہ تو صحابہ کرام کی عادت مبارکہ تھی، نبی کریم کے سامنے یہ کہا کرتے تھے مگر کبھی نبی کریم نے ان پر شرک و بدعت کا فتوی نہیں دیا، بخاری مسلم میں کم و بیش ساٹھ سے زائد مقامات پر اللہ ورسولہ اعلم جملہ آیا ہے...جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جملہ صحابہ کرام اہلبیت عظام اہل اسلام کا عقیدہ تھا نظریہ تھا کہ اللہ کو علم ہے اور اللہ کی عطاء سے نبی کریم کو بھی علم ہے

(مثلا دیکھیے مسلم حدیث 159 بخاری حدیث3199)

اور

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

قُولُوا: مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ شَاء مُحَمَّدٌ

یوں کہو کہ جو اللہ چاہے پھر جو محمد چاہے

(ابن ماجہ حدیث2118 محقق محمد فواد عبدالباقی اور نجدیوں وہابیوں اہل حدیثوں کے محدث محقق شیخ البانی نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے(صحيح، السلسلۃ الصحيحة حدیث137)اگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے چاہنے سے کچھ نہ ہوتا تو رسول کریم یہ تعلیم کیوں دیتے کہ یوں کہو کہ:جو اللہ چاہے پھر جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہے...ایک اور حدیث پاک ملاحظہ کیجیے:

الحدیث:

رب أشعث مدفوع بالأبواب لو أقسم على الله لأبره

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

کچھ ایسے بکھرے بالوں والے گرد و غبار لگے ہوئے بھی ہوتے ہیں جنہیں دروازوں سے دھتکارا جاتا ہے مگر اللہ کی قسم اٹھا کر اگر وہ کچھ کہہ دیں تو اللہ انکی وہ بات ضرور پوری فرماتا ہے...(مسلم حديث6682)جب اللہ کے پیارے بندوں اولیاء مجذوب کے چاہنے سے بہت کچھ ہوتا ہے تو صحابہ کرام اہلبیت عظام سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چاہنے سے بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے


.

*#کتاب تقویۃ الایمان کے متعلق پڑہیے*

دارالافتاء دیوبند سے سوال ہوا کہ تقویۃ الایمان میں مخالفین عبارتوں کو گستاخانہ کہتے ہیں،علماء دیوبند اس کتاب کے متعلق کیا فرماتے ہیں:

جواب میں لکھا گیا کہ:

کتاب ”تقویة الایمان“ معتبر و مفید تصنیف ہے، معاشرے میں رائج قبرپرستی اور شرک وبدعات کی رد میں مدلل مبرہن کتاب ہے

(دارالافتاء دیوبند فتوی نمبر

Fatwa ID: 366-353/M=4/1438(

.

*#تقویہ الایمان کتاب کے متعلق اشرف علی تھانوی رشید احمد گنگوہی اور علماء اہلحدیث وغیرہ کا نظریہ پڑہیے لکھتے ہیں کہ...!!*

تقویۃ الایمان کو نظر اجمال سے دیکھا ہے، بااعتبار اصول اور اصل مقصود کے بہت خوب ہے(مولوی صدر الدین اہلحدیث غیرمقلد وہابی) تقویۃ الایمان پر شبہات کا رد کیا اور اس کتاب کو بغور مطالعے کے بعد عمدہ قرار دیا اور مصنف کو شہادت کبری اولیاء کاملین میں شمار کیا(از مولوی نذیر احمد اہلھدیث غیرمقلد وہابی)کتاب تقویۃ الایمان اسم باسمی کتاب ہے۔ درحقیقت اس سے ایمان قوی ہوتا ہے اس کو پاس رکھنا اور دیکھنا موجب ہدایت وقوت ایمانی ہے(عزیز الرحمن عفی عنہ مفتی دارالعلوم دیوبنیہ دستخط بمعہ مہر ۵ جمادی الاولی ۱۳۴۶ہجری)یہ کتاب بالکل قرآن وحدیث کے مطابق ہے(مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی)کتاب تقویۃ الایمان اچھی کتاب ہے( مولوی کفایت اللہ غفرلہ مدرسہ امینیہ دہلی)تقویۃ الایمان قمع بدعات سئیہ رسومات شنیعہ میں بے نظیر کتاب مجالس ابرار کی طرح رد بدعت میں کار آمد کتاب ہے( مولوی محمد اسحاق مدرسہ مدرسہ حسینیہ دہلی)کتاب تقویۃ الایمان نہایت عمدہ کتاب ہے اور رد شرک و بدعت میں لاجواب ہے۔ استدلال اس کے بالکل کتاب اور احادیث سے ہیں اس کا پڑھنا اور رکھنا عین ثواب ہے اور موجب ثواب کا ہے( مولوی رشید احمد گنگوہی دیوبندی فتاویٰ رشیدیہ: ۶۹۶۳) ( اخبار محمدی دہلی جلد نمبر ۶ شمارہ نمبر ۱۳ بابت ۱۵ مارچ ۱۹۲۹ء)

(فتاوی علمائے حدیث جلد 09 صفحہ -251-261-264 ملتقطا ماخوذا)

.

اختیارات مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر علماء اہلسنت نے کتب و رسائل لکھے ہیں آیات و احادیث سے دلائل دییے ہیں جیسے فتاوی رضویہ الامن و العلی و سعید الحق و دیگر کتب و رسائل کہ ان کتب و رسائل میں اہلسنت علماء نے دلائل لکھے ہیں،پڑہیے پھیلائیے، marfat ڈاٹ کام پے ghaib اور ikht وغیرہ لکھ کر سرچ کریں بہت کتب و رسائل سامنے آجائیں گے انہیں پڑہیں پھیلائیں

.==============

ہم یہاں حق چار یار کی نسبت سے چار آیات بمع چند تفاسیر سے لکھ رہے ہیں تاکہ یہ وسوسہ و اعتراض بھی نہ رہے کہ آیات مبارکہ سے تم بریلویوں نے اپنی طرف سے معنی گھڑ لیے ہیں...نعوذ باللہ

.

القرآن1⃣:

قُلۡ لَّاۤ  اَمۡلِکُ  لِنَفۡسِیۡ  نَفۡعًا وَّ لَا  ضَرًّا  اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ

 اے محبوب فرما دیجئے کہ میں اپنے لئے نفع اور نقصان کا مالک نہیں مگر یہ کہ جتنا مالک مجھے اللہ نے بنانا چاہا

(سورہ الاعراف آیت188)


.إِلَّا ما شاءَ اللَّهُ من ذلك فيعلمنى به وحيا جليا او خفيا ويعطنى قدرة على جلب النفع او دفع الضرر

 جتنا اللہ نے مجھے مالک بنانا چاہا اتنا مجھے مالک بنایا نفع نقصان کا... تو اللہ تعالی مجھے وحی جلی یا وحی خفی کے ذریعے نفع نقصان کا علم عطا فرما دیتا ہے اور مجھے قدرت دے دیتا ہے کہ میں نفع اٹھاؤ نفع دوں اور نقصان کو دور کروں(اللہ کی عطاء سے)

(تفسیر مظہری3/443)

.

إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ أَمْلِكَهُ

نفع نقصان کا اللہ تعالی نے جتنا مجھے مالک بنانا چاہا اتنا میں مالک ہوں

(تفسیر بغوی3/310)

.

إلا ما شاء الله أن أملكه من ذلك، بأن يقوّيني عليه ويعينني

 میں نفع نقصان کا اتنا ہی مالک ہوں جتنا کہ اللہ تعالی نے مجھے مالک بنانا چاہا، اس طرح کہ اللہ تعالی مجھے قوت عطا فرماتا ہے اور میری مدد فرماتا ہے

(تفسیر طبری13/302)

.

إِلاَّ مَا شَآءَ اللَّهُ} أن يملكني إياه فأملكه بمشيئته

 نفع نقصان کا میں مالک نہیں مگر یہ کہ جتنا اللہ نے مجھے مالک بنانا چاہا تو میں اللہ کی مشیت اور رضا مندی سے نفع نقصان کا مالک ہوں

(تفسیر الماوردی2/285)

============

القرآن2⃣:

مَا کَانَ  لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ  اِذَا قَضَی اللّٰہُ  وَ رَسُوۡلُہٗۤ  اَمۡرًا اَنۡ  یَّکُوۡنَ  لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ

 جب اللہ فیصلہ فرما دے اور اس کا رسول فیصلہ فرما دے کسی بھی معاملے میں تو کسی  مومن مرد اور مومن عورت کو کچھ اختیار نہیں(بلکہ ان پر لازم ہے کہ اللہ کے حکم اور رسول کے حکم و رائے پر لبیک کہیں)

(سورہ الاحزاب آیت36)

.

بل من حقهم أن يجعلوا رأيهم تبعاً لرأيه واختيارهم تلوا لاختياره

 مومنین و مومنات پر لازم ہے کہ اپنی رائے کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی رائے کے تابع کر دیں اور اپنے اختیار کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے اختیار کے پیچھے لگا دیں

(تفسیر نسفی3/32)

.

أي: لا ينبغي ولا يليق، ممن اتصف بالإيمان، إلا الإسراع في مرضاة الله ورسوله، والهرب من سخط الله ورسوله، وامتثال أمرهما، واجتناب نهيهما، فلا يليق بمؤمن ولا مؤمنة {إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا} من الأمور، وحتَّما به وألزما به {أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ

 جس میں بھی ایمان جیسی صفت ہے تو اس کے لئے یہ لائق و لازم ہے اسی میں اسکی بھلائی ہے کہ وہ اللہ کی رضامندی اور رسول کریم کی رضامندی والے کام کرے اور اللہ کی ناراضگی اور اسکے رسول کی ناراضگی سے دور بھاگے، اور اللہ و رسول کے احکامات پر عمل کرے اور منع کردہ کاموں سے بچے تو کسی مومن کی شایان شان نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کاموں میں سے کسی کا حتمی حکم فرما دیں تو کسی مومن کو کچھ اختیار نہیں بچتا

(تفسیر السعدی36/665)

.

بل يجبُ عليهم أنْ يجعلُوا رايهم تبعا لرأيه صلى الله عليه وسلم واختيارهم تلو الاختيار وجمعُ الضَّميرينِ لعمومِ مؤمنٍ

ومؤمنةٍ

بلکہ  مومنین و مومنات پر لازم ہے کہ اپنی رائے کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی رائے کے تابع کر دیں اور اپنے اختیار کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے اختیار کے پیچھے لگا دیں، یہ حکم قیامت تک ہر مومن و مومنہ کے لیے ہے

(تفسیر ابی السعود7/104)

.

فَهَذِهِ الْآيَةُ عَامَّةٌ فِي جَمِيعِ الْأُمُورِ، وَذَلِكَ أَنَّهُ إِذَا حَكَمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ بِشَيْءٍ فَلَيْسَ لِأَحَدٍ مُخَالَفَتُهُ، وَلَا اخْتِيَارَ لأحد هنا، ولا رأي ولا قول،

 یہ آیت عام ہے تمام کے تمام معاملات میں کہ جب کسی بھی معاملے میں  اللہ و رسول حکم فرما دیں تو کسی کو بھی اس کی مخالفت کا اختیار نہیں ہے اور کسی بھی امتی کو اللہ و رسول کے مقابل اپنی رائے و قول کا اختیار نہیں ہے

(تفسیر ابن کثیر6/377)

ثابت ہوا رسول کریم تمام معاملات میں سے کسی کے بھی متعلق حکم دے سکتے ہیں بلکہ دیتے تھے جیسے کہ نیچے کچھ جھلک ملاحظہ کیجیے گا

.

 والمعنى: أنه لا يحل لكل مؤمن ومؤمنة إذا قضى الله ورسوله قضاء أن يمتنعوا من قضائه، ويختاروا من أمرهم ما شاءوا، بل يجب عليهم أن يجعلوا اختيارهم تبعًا لاختياره - صلى الله عليه وسلم -،

ورأيهم تلوًا لرأيه

 آیت کا معنی یہ ہے کہ کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کے لیے حلال نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی فیصلہ فرما دے تو اس کے فیصلے سے وہ رک جائیں عمل نہ کریں اپنا من پسند اختیار کریں ایسا اختیار کسی امتی کو نہیں ہےبلکہ  مومنین و مومنات پر لازم ہے کہ اپنی رائے کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی رائے کے تابع کر دیں اور اپنے اختیار کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے اختیار کے پیچھے لگا دیں

(تفسیر حدائق الروح23/25)

.

 ان آیات اور تفاسیر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام کے تمام معاملات میں اختیار دے دیا تھا اللہ تعالی نے کہ جو چاہیں حکم فرمائیں اور جو رائے و اجتہاد رسول کریم کا ہو وہ ہم پر لازم قرار دے دیا اللہ نے کہ انکی رائے کے مطابق ہم اپنی رائے کریں اور عمل کریں...اختیار ہے تبھی تو اجتہاد و رائے کی رسول کریم کو اجازت تھی اور ہمیں اسکی اطاعت و پیروی کا حکم ہوا.....!!

.==============

القرآن3⃣:

فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰی  یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ  بَیۡنَہُمۡ ثُمَّ  لَا  یَجِدُوۡا فِیۡۤ  اَنۡفُسِہِمۡ حَرَجًا  مِّمَّا قَضَیۡتَ  وَ یُسَلِّمُوۡا  تَسۡلِیۡمًا

تو اے محبوب! تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائئیں پھر جو کچھ آپ حکم دیں اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی جان سے مان لیں

(سورہ نساء آیت65)

.


أَنَّهُ لَا يُؤْمِنُ أَحَدٌ حَتَّى يُحَكِّمَ الرَّسُولَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَمِيعِ الْأُمُورِ، فَمَا حَكَمَ بِهِ فَهُوَ الْحَقُّ الَّذِي يَجِبُ الِانْقِيَادُ لَهُ بَاطِنًا وَظَاهِرًا

 کوئی بھی شخص اس وقت مسلمان ہو سکتا ہے جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے تمام کے تمام معاملات میں فیصلہ کرنے والا حکم دینے والا مان لے... بس جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حکم فرما دیں تو وہی حق ہے ہم پر ظاہری اور باطنی ہر لحاظ سے واجب ہے کہ ہم اس کی اطاعت و پیروی کریں

(تفسیر ابن کثیر2/306)

.

فلا} أَيْ: ليس الأمر كما يزعمون أنَّهم آمنوا وهم يخالفون حكمك {وربك لا يؤمنون} حقيقة الإِيمان {حتَّى يحكموك فيما شجر} اختلف واختلط {بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا} ضيقاً وشكَّاً {ممَّا قضيت} أَيْ: أوجبتَ {ويسلموا} الأمر إلى الله وإلى رسوله من غير معارضةٍ بشيءٍ

 اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  آپ کے حکم کو نہ مانیں اور کہیں کہ ہم ایمان لائے تو ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا... حقیقی مسلمان تو وہی ہے حقیقی ایمان تو اسی شخص میں ہے کہ جو اپنے معاملات میں جھگڑوں میں آپ کو فیصلہ کرنے والا حکم دینے والا مان لے اور کچھ تنگی بھی دل میں محسوس نہ کرے اور تمام معاملات اللہ کی طرف اور اللہ کے رسول کی طرف لوٹا دے

(تفسیر الوجیز للواحدی ص272)

.

فَلا وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ كقول القائل: لا والله لا يؤمنون حَتَّى يُحَكِّمُوكَ حتى يقروا ويرضوا بحكمك يا محمد

 اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی شخص اس وقت مومن ہوگا جب وہ اقرار کرے گا آپ کے حکم کے حق و نافذ ہونے کا اور راضی ہوگا آپ کے حکم پر

(تفسیر سمرقندی1/315)

.

وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيماً) أَيْ يَنْقَادُوا لِأَمْرِكَ في القضاء. وقال الزجاج: (تَسْلِيماً) مصدر مؤكدو، فَإِذَا قُلْتَ: ضَرَبْتُ ضَرْبًا فَكَأَنَّكَ قُلْتَ لَا أَشُكُّ فِيهِ، وَكَذَلِكَ (وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيماً) أَيْ وَيُسَلِّمُوا لِحُكْمِكَ تَسْلِيمًا لَا يُدْخِلُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ شَكًّا

 جب آپ فیصلہ فرما دیں تو اس کی دل و جان سے اطاعت و پیروی کریں اس کو مانیں اور کوئی تنگی و شک بھی دل میں نہ لائیں تب مومن کہلائیں گے

(تفسیر قرطبی5/269)

.

 آیت عام ہے کہ رسول کریم وحی کے ذریعے یا اجتہاد و رائے و چاہت سے  کوئی حکم لازم کر دیں تو ہم سب پر اس کی اطاعت و پیروی لازم ہے... یہی تو اختیارات مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک روشن دلیل ہے، جو رسول کریم چاہیں وہ ہم پر لازم ہوجاتی ہے اور کچھ لوگ ہیں کہ کہتے ہیں رسول کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا...عجیب........!!

.==================

القرآن4⃣:

مَاۤ  اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ  فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ  عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا

 جو کچھ رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس چیز سے روکے تو رک جاؤ

(سورہ الحشر آیت7)

.

وَهُوَ عَامٌّ فِي كُلِّ مَا أَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَهَى عَنْهُ

 یہ آیت عام ہے ہر اس معاملے میں کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں اور جس چیز سے منع کریں تو ہم پر اطاعت و پیروی لازم ہے

(تفسیر بغوی8/74)

.

هَذَا يُوجِبُ أَنَّ كُلَّ مَا أُمِرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْرٌ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى. وَالْآيَةُ وَإِنْ كَانَتْ فِي الْغَنَائِمِ فَجَمِيعُ أَوَامِرِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَوَاهِيهِ دَخَلَ فِيهَا

 آیت کا شان نزول غنیمت کے متعلق ہے لیکن یہاں پر ہر وہ چیز مراد ہے کہ جس کا رسول کریم حکم دے اور جس چیز سے رسول کریم روک دے تو وہ سب کے سب معاملات اس میں شامل ہیں کہ ان کی پیروی کا حکم ہے ہمیں

(تفسیر قرطبی17/18)

.

وهو عام في كل ما أمر به النبي صلّى الله عليه وسلّم أو نهي عنه من قول أو عمل من واجب أو مندوب أو مستحب

 أو نهى

 آیت میں ہر وہ حکم شامل ہے کہ جس کا حکم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم دیں یا جس  سے روکیں چائے وہ نبی پاک کا قول ہو چاہے وہ عمل ہو چاہے وہ واجب ہو چاہے وہ مندوب ہو چاہے وہ مستحب ہو یا نہی ہو کچھ بھی ہو جو رسول کریم حکم دیں اس کی اطاعت و پیروی ہم پر لازم ہے

(تفسیر خازن4/270) 


وَالْحَقُّ أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ عَامَّةٌ فِي كُلِّ شَيْءٍ يَأْتِي بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَمْرٍ أَوْ نَهْيٍ أَوْ قَوْلٍ أَوْ فِعْلٍ، وَإِنْ كَانَ السَّبَبُ خَاصًّا فَالِاعْتِبَارُ بِعُمُومِ اللَّفْظِ لَا بِخُصُوصِ السَّبَبِ

 اور حق بات یہی ہے کہ یہ آیات پر چیز کو شامل ہے کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں یا روکیں یا رسول اکرم کا کوئی قول ہو یا رسول کریم کا کوئی فعل ہو ان سب کی اطاعت ہم پر واجب ہے اگرچہ سبب خاص ہے آیت کا مگر اعتبار عموم کا ہے

(تفسیر فتح القدیر5/236)

.

 رسول کریم مال و دولت غنیمت دیں، رسول کریم کوئی حکم دیں، رسول کریم کسی چیز سے روکیں، رسول کریم کا کوئی فعل ہو، رسول کریم کا کوئی عمل ہو ، رسول کریم کا کوئی قول ہو ہم سب کو اس کی اطاعت کرنی ہے لیکن عجیب ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں نبی پاک کو کچھ اختیار نہیں

.============

اختیارات و چاہت کے مزید کچھ عمومی دلائل و حوالہ جات

*1⃣اختیار دیا جاتا تھا تو رسول کریم آسانی اختیار فرماتے امت کے لیے.....!!*

عَائِشَةَ ، قَالَتْ : مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ، أَحَدُهُمَا أَيْسَرُ مِنَ الْآخَرِ إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا

 سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی اختیار دے دیا گیا تو ان میں سے رسول کریم نے آسانی کو اختیار فرمایا

(مسند احمد حدیث25288 بخاری حدیث6126نحوہ

 مسلم حدیث2323نحوہ)

مختار کل نہ ہوتے تو آسانی کو اختیار کیسے فرماتے....؟؟ انکی چاہت سے کچھ نہ ہوتا تو اختیار کیوں دیا جاتا چننے کا....؟؟

.

*2⃣رسول کریم کی چاہت و اختیار  کے موافق اللہ جل جلالہ حکم نازل فرماتا.....!!*

فَلَمَّا نَزَلَتْ : تُرْجِئُ مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ، قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَرَى رَبَّكَ إِلَّا يُسَارِعُ فِي هَوَاكَ

تُرْجِئُ مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ یہ آیت نازل ہوءی تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

 اللہ تو آپ کی پسند و چاہت میں جلدی فرماتا ہے

(بخاری تحت الحدیث5113)

صحابی کا عقیدہ دیکھیے اور لھابی کا عقیدہ سوچیے......!! تو بدعتی بے ادب کون.....؟؟

.

أَيْ مَا أَرَى اللَّهَ إِلَّا مُوجِدًا لِمَا تُرِيدُ بِلَا تَأْخِيرٍ مُنْزِلًا لِمَا تُحِبُّ وَتَخْتَارُ

 یعنی اللہ تعالی بغیر کسی تاخیر کے وہی حکم نازل فرما دیتا ہے کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہو جو آپ اختیار فرمائیں

(فتح الباری شرح بخاری8/526)

.

*3⃣سید عالم جو چاہیں خاص فرمائیں.....!!*

وله أن يخص ما شاء من العموم

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اختیار ہے کہ عموم میں سے جو چاہیں خاص فرما دیں

(مجمع بحار الأنوار5/90)

.

.وَلِلشَّارِعِ أَنْ يَخُصَّ مِنَ الْعُمُومِ مَا شَاءَ

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو شریعت کے لانے والے اور اللہ کے اذن و عطاء سے بنانے والے ہیں وہ عموم میں سے جسے چاہیں خاص فرمائیں

(شرح النووي على مسلم6/238)

.

*4⃣سید عالم چاہیں تو سونے کے پہاڑ ساتھ چلیں....!!*

لَوْ شِئْتُ لَسَارَتْ مَعِي جِبَالُ الذَّهَبِ...رَوَاهُ أَبُو يَعْلَى، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ

 رسول کریم نے فرمایا کہ اگر میں چاہوں تو یہ پہاڑ سونے کے بن کر میرے ساتھ چلیں... اس حدیث کو ابو یعلی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن معتبر ہے

(مجمع الزوائد حدیث14210)

.

*5⃣احکام  نبی پاک کے سپرد ہیں......!!*

أَنَّ التَّفْوِيضَ إِلَيْهِ أَيْضًا أَعَمُّ

 تمام کی تمام شریعت کے احکامات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سپرد ہیں اعم ہے(کہ چاہے وہ وحی کے ذریعے سے یا اجتہاد کے ذریعے یا چاہت کے ذریعے یا رائے کے ذریعے سے کچھ بھی حکم فرما سکتے ہیں کسی  بھی چیز سے منع کر سکتے ہیں)

(مرقاۃ شرح مشکواۃ5/1740)

.

أَنَّ الْمَرْجِعَ فِي الْأَحْكَامِ إِنَّمَا هُوَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَّهُ قَدْ يَخُصُّ بَعْضَ أُمَّتِهِ بِحُكْمٍ وَيَمْنَعُ غَيْرَهُ مِنْهُ وَلَوْ كَانَ بِغَيْرِ عُذْرٍ

 شریعت کے تمام احکامات رسول کریم کی طرف لوٹا دیے گئے ہیں انہیں کے سپرد ہیں، اور بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کسی عذر و مجبوری کے اپنی بعض امت کو بعض حکم کے ذریعے خاص کر دیں یہ انکو اختیار ہے

(فتح الباری شرح بخاری10/17)

.

*6⃣اللہ و رسول کی زمین پے اللہ و رسول کا نظام.....!!*

وَاعْلَمُوا أَنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جان لو بے شک زمین اللہ کے لئے ہے اور اس کے رسول کے لئے ہے

(بخاری حدیث3167)

 اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام یہ نعرہ ادھورا لگتا ہے... اللہ و رسول کی زمین پے اللہ و رسول کا نظام نعرہ ہونا چاہیے

.

*7⃣خزانوں کی کنجیاں آپ کو عطاء کی گئیں......!!*

وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک میں اس وقت بھی اپنے حوض کوثر کو دیکھ رہا ہوں جو جنت میں ہے، اور بے شک مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطاء کی گئی ہیں

(بخاری حدیث1344)

دنیا میں رہ کر جنت کے نظارے....اللہ اللہ ایسی نظر ، یہ بھی تو حاضر ناظر کی دلیل ہے اور خزانوں کی چابیں عطاء کی گئیں مگر عجیب ہیں وہ جو کہتے ہیں انہیں کچھ اختیار نہیں

.

*8⃣رسول کریم کا حکم  حلال یا حرام کر دیتا ہے....!!*

بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ، فَمَا وَجَدْنَا فِيهِ حَلَالًا اسْتَحْلَلْنَاهُ، وَمَا وَجَدْنَا فِيهِ حَرَامًا حَرَّمْنَاهُ، وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا حَرَّمَ اللَّهُ

 خبردار کوئی شخص یہ نہ کہے نہ سوچے کہ جو قرآن میں ہے حلال ہے تو اس کو حلال سمجھیں گے جو قرآن میں حرام ہے تو اس کو حرام سمجھیں گے ایسا ہرگز نہ سوچے کہ بے شک جو میں رسول اللہ حرام قرار دوں وہ اسی طرح ہے جیسے کہ اللہ نے حرام قرار دیا ہے

(ترمذی حدیث2664)

.

حقيق بأن يستقل بأحكام سوى ما أنزله الله عليه

 جو احکامات اللہ تعالی نے نازل فرمائے ان کے علاوہ بھی ایسے احکام ہیں کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہیں اور یہی حقیقت کے موافق ہے

(قوت المغتذی2/665)

.

وَقَالَ ابْنُ حَجَرٍ، أَيْ: مَا حَرَّمَ وَأَحَلَّ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَمَا حَرَّمَ وَأَحَلَّ اللَّهُ،

 امام ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ امام ابن حجر نے(اس حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے، ایسی ایات و احادیث کو دلیل بنا کر) فرمایا ہے کہ جو چیز رسول کریم حلال کردیں، جو چیز رسول کریم حرام کر دیں، وہ ایسے ہی ہے کہ جیسے اللہ نے حرام کر دی ہو ، اللہ نے حلال کر دی ہو

(مرقاۃ شرح مشکواۃ1/247)

.#######

*اب آئیے ایک جھلک دیکھتے ہیں کہ رسول کریم کے چاہنے سے کیا کچھ ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اختیار سے کیا کچھ کیا.....!!*

.

*#1⃣سید عالم کی چاہت پے قبلہ تبدیل...رسول کریم کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا کہنے والے غور کریں...!!*

القرآن:

فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبۡلَۃً  تَرۡضٰہَا  ۪  فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ

 تو بے شک میں تمہارا قبلہ وہ بنا دوں گا کہ جو آپ چاہتے ہیں تو اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف کر دیجئے

(سورہ بقرہ آیت144)

.


وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ أَنْ يُوَجَّهَ نَحْوَ الْكَعْبَةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ وہ کعبہ کی طرف رخ کریں تو اللہ تعالی نے مذکورہ آیت نازل فرما دی

(تفسیر قرطبی2/158)

.#######

*#2⃣سید عالم نے عطائی اختیار سے مدینہ کو حرم پاک قرار دے دیا...مختار کل نہ ہوتے تو کیسے حرم قرار دیتے....؟؟*

وَحَرَّمْتُ الْمَدِينَةَ كَمَا حَرَّمَ إِبْرَاهِيمُ مَكَّةَ 

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جیسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دے دیا اسی طرح میں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں

(بخاری حدیث2129)

.#######

*#3⃣سیدہ ام عطیہ کے لیے ایک موقعہ پر نوحہ کی اجازت دے دی....مختار کل تھے تو اجازت دی.......!!*

ورخص لأم عطية في أل فلان، وله أن يخص ما شاء من العموم

 عام حکم تو یہ ہے کہ نوحہ کرنے کی اجازت نہیں ہے لیکن رسول کریم نے سیدہ ام عطیہ کو اجازت دی کہ فلاں کی میت پے نوحہ کرے، فقط انہیں اجازت دی

(مجمع بحار الأنوار5/90)

.

هَذَا مَحْمُول على الترخيص لأم عَطِيَّة فِي آل فلَان خَاصَّة وَلَا تحل النِّيَاحَة لغَيْرهَا وَلَا لَهَا فِي غير آل فلَان وللشارع أَن يخص من الْعُمُوم مَا شَاءَ

 یہ رخصت سیدہ ام عطیہ کے لئے خاص تھی ایک خاص قبیلے کے بارے میں کہ نبی پاک شریعت لانے بتانے اور باذن اللہ بنانے والے ہیں جو چاہیں خاص کر دیں، اور اس کے علاوہ نوحہ آیات و احادیث کی روشنی میں کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہے

(شرح السيوطي على مسلم3/20)

.

###########

*#4⃣پہاڑوں پے اختیار........!!*

هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , كَانَ عَلَى حِرَاءَ , وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ , وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ , وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ , وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ , وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ , وَطَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ , وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ , وَسَعِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ فَتَحَرَّكَ الْجَبَلُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اسْكُنْ حِرَاءُ فَلَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ»

فَسَكَنَ الْجَبَلُ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہاڑ پے تھے آپ کے ساتھ سیدنا ابو بکر تھے سیدنا عمر تھے سیدنا عثمان سیدنا علی سیدنا عبدالرحمن تھے سیدنا زبیر سیدنا طلحہ تھے سیدنا سعد تھے سیدنا سعید تھے(رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین) تو پہاڑ جنبش کرنے لگا تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ساکن ہو جا، تجھ پر تو نبی ہے صدیق ہے شہید ہے تو پہاڑ ساکن ہوگیا

(الشريعة للآجري حدیث1170)

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة2647نحوہ)

.##########

*#5⃣مخصوص زکواۃ معاف کر دی......!!*

قَدْ عَفَوْتُ عَنْ صَدَقَةِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ، فَهَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ : مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا، دِرْهَمًا

 رسول کریم نے فرمایا کہ میں نے گھوڑوں کی اور خادموں کی زکوۃ تم سے معاف کر دی تو چاندی کی زکوۃ نکالو ہر 40  درہم میں ایک درہم زکواۃ ہے( کل رقم کو 40 پے تقسیم کیجئے جو جواب آئے گا وہ زکواۃ ہے)

(ترمذی حدیث620)

##########

*#6⃣نماز میں تاخیر اور مسواک کا اختیار.........؟؟*

لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ لَأَمَرْتُهُمْ بِتَأْخِيرِ الْعِشَاءِ، وَبِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر مسلمانوں پر مشقت نہ ہوتی تو میں عشاء کو تاخیر کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیتا اور ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا

(ابوداود حدیث46)

.

أي باجتهاد منه - صلى الله عليه وسلم - أو بوحي من

 الله تعالى

 یعنی رسول کریم اپنے اجتہاد سے یہ حکم دیتے یا اللہ تعالی کی وحی کے ذریعہ سے حکم دیتے

(تنویر شرح جامع صغیر9/189)

.#########

*#7⃣کفارہ معاف کر دینے کا اختیار........؟؟*

 ایک صحابی رمضان المبارک کا روزہ توڑ بیٹھا تو نبی پاک نے فرمایا کہ کفارہ بھی دو(60مسکینوں کو کھانا کھلانا کفارہ ہے) اور قضاء بھی رکھو... صحابی نے عرض کی یارسول اللہ کفارہ کی طاقت نہیں ہے... اتنے میں صدقہ کا مال آتا ہے اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام صدقہ کا مال صحابی کو دیتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ صدقہ کردو کفارہ ہو جائے گا.. صحابی عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ صدقے کا سب سے زیادہ حقدار تو میں ہوں تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

أَطْعِمْهُ أَهْلَكَ

جا اپنے اہل و عیال کو کھلا(تیرا کفارہ معاف کردیا یا ادا ہوگیا)

(بخاری حدیث1936)

.

رُبَّمَا كَانَ هَذَا رُخْصَةً لَهُ خَاصَّةً وَلَوْ أَنَّ رَجُلًا فَعَلَ ذَلِكَ الْيَوْمَ لَمْ يَكُنْ لَهُ بُدٌّ مِنَ التَّكْفِيرِ....وَجُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ عَلَى قَوْلِ الزُّهْرِيِّ،

 یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خاص اس صحابی کے لیے رخصت تھی ورنہ اگر کوئی شخص ایسا کام کرے گا تو اسے کفارہ دینا ہوگا، یہی امام زہری کا قول ہے جو ابو داود میں موجود ہے اور جمہور علماء بھی اسی قول پر ہیں

(مرقاۃ المفاتیح4/1392)

.#############

*#8⃣ایک کی گواہی دو کے قائم مقام کرنے کا اختیار......؟؟*

خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ الَّذِي جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهَادَتَهُ شَهَادَةَ رَجُلَيْنِ

 سیدنا خذیمۃ رضی اللہ تعالی عنہ کہ جس کی گواہی کو رسول کریم نے دو مردوں کی گواہی کے برابر قرار دیا

(بخاری حدیث2807)

.

خصوصية له -رضي الله عنه-

 یہ صرف اسی صحابی کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خصوصیت عطا کی گئی ہے

(قسطلانی شرح بخاری5/46)

.

########

*#9⃣چاہتے تو حج ہرسال فرض ہو جاتا.........؟؟*

قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفِي كُلِّ عَامٍ ؟ فَسَكَتَ، فَقَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفِي كُلِّ عَامٍ ؟ قَالَ : " لَا، وَلَوْ قُلْتُ : نَعَمْ لَوَجَبَتْ

 صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ کیا ہر سال حج فرض ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے صحابہ کرام نے پھر عرض کی یارسول اللہ کیا ہر سال حج فرض ہے آپ نے فرمایا نہیں، اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہو جاتا

(ترمذی حدیث814)

.

وَهَذَا بِظَاهِرِهِ يَقْتَضِي أَن أَمر افتراض الْحَج كل عَام كَانَ مفوضا إِلَيْهِ حَتَّى لَو قَالَ نعم لحصل وَلَيْسَ بمستبعد إِذْ يجوز أَن يَأْمر الله تَعَالَى بِالْإِطْلَاقِ ويفوض أَمر التَّقْيِيد إِلَى الَّذِي فوض إِلَيْهِ الْبَيَان فَهُوَ ان أَرَادَ أَن يبقيه على الْإِطْلَاق يبقيه عَلَيْهِ وان أَرَادَ أَن يُقَيِّدهُ بِكُل عَام يُقَيِّدهُ بِهِ

 اس حدیث کے ظاہر سے یہی ثابت ہو رہا ہے کہ حج کا ہر سال فرض ہونا نہ ہونا رسول کریم کے حوالے کیا گیا کہ اگر آپ فرمائیں تو ہر سال ورنہ جو آپ علیہ الصلاۃ والسلام قید لگائیں اسی مطابق حکم ہوگا...اور ایسا کوئی بعید نہیں ہے

(حاشیۃ السندی5/110)

.

وَفِيهِ أَنَّ التَّفْوِيضَ إِلَيْهِ أَيْضًا أَعَمُّ

 اس حدیث سے ثابت ہوا کہ احکام و معاملات رسول کریم کی طرف سپرد ہیں اعم(کہ وہ وحی کے ذریعے یا اجتہاد رائے و چاہت کے ذریعے جو چاہیں حکم فرماءیں یا منع فرمائیں)

(مرقاۃ شرح مشکواۃ5/1740)

.

واحتج بهذا الحديث من جوز تفويض الحكم إلي رأي النبي صلى الله عليه وسلم، فيقول الله له: احكم بما شئت، فإنك لا تحكم إلا بالصواب،

 یہ حدیث پاک ان علماء کرام کی دلیل ہے جو فرماتے ہیں کہ تمام احکامات نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سپرد ہیں... گویا اللہ تعالی نے فرما دیا کہ اے محبوب جو حکم چاہئیں آپ فرما دیں آپ اللہ کی مشیئت و عطاء سے صحیح حکم ہی فرمائیں گے

(شرح الطیبی6/1937)

.#########

*#🔟ابو طالب کو نفع پہنچایا.......؟؟*

يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَفَعْتَ أَبَا طَالِبٍ بِشَيْءٍ ؛ فَإِنَّهُ كَانَ يَحُوطُكَ  وَيَغْضَبُ لَكَ ؟ قَالَ : " نَعَمْ، هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ، لَوْلَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرَكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ

 عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ نے ابو طالب کو کوئی نفع پہنچایا....؟؟ وہ آپ کی نگہبانی کیا کرتے تھے اور آپ کے لیے غضبناک ہوا کرتے تھے... نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جی ہاں میں نے اسے نفع پہنچایا ہے وہ جہنم میں ٹخنوں تک ہے اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوتا(جہاں سب سے زیادہ عذاب ہوتا ہے)

(بخاری حدیث6208)

.

فَإِن قلت: أَعمال الْكَفَرَة هباء منثوراً لَا فَائِدَة فِيهَا. قلت: هَذَا النَّفْع من بركَة رَسُول الله، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وخصائصه

 علامہ عینی فرماتے ہیں کہ اگر آپ اعتراض کریں کہ کافروں کے تمام اعمال تو بےسود غیرمفید ہیں تو پھر ابو طالب کو کیسے فائدہ پہنچا....؟؟ علامہ عینی فرماتے ہیں کہ اس کا جواب یہ ہے کہ جو نفع ابو طالب کو ملا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت ہے اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے

(عمدۃ القاری شرح بخاری17/17)

.#########

*#1⃣1⃣قربانی کے معاملے میں اختیار.......؟؟*

يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا ذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أُصَلِّيَ وَعِنْدِي جَذَعَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُسِنَّةٍ . قَالَ : " اجْعَلْهَا مَكَانَهَا ". أَوْ قَالَ : " اذْبَحْهَا وَلَنْ تَجْزِيَ جَذَعَةٌ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ

 ایک صحابی نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے نماز عید سے پہلے ہی قربانی کر لی ہے اور اس کے علاوہ میرے پاس ایک سال کے جانور سے کم عمر جانور ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عید نماز سے پہلے والی قربانی نہیں ہوئی تم اس کی جگہ پر کم عمر جانور ذبح کرو اور تمہارے بعد کسی کو بھی اس کی اجازت نہیں ہے

(بخاری حدیث968)

.

أَنَّ الْمَرْجِعَ فِي الْأَحْكَامِ إِنَّمَا هُوَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَّهُ قَدْ يَخُصُّ بَعْضَ أُمَّتِهِ بِحُكْمٍ وَيَمْنَعُ غَيْرَهُ مِنْهُ وَلَوْ كَانَ بِغَيْرِ عُذْرٍ

 اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ احکام و معاملات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سپرد ہیں،وہ چاہیں تو اس امت کے بعض کو کسی حکم کے ساتھ خاص فرما دیں اور دوسروں کو منع کر دیں بھلے کوئی عذر بھی نہ ہو

(فتح الباری شرح بخاری10/17)

.#########

*#1⃣2⃣نماز معاف فرما دینے کا اختیار......؟؟

أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ عَلَى أَنَّهُ لَا يُصَلِّي إِلَّا صَلَاتَيْنِ، فَقَبِلَ ذَلِكَ مِنْهُ

 ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اسلام قبول کیا اس شرط پر کہ وہ صرف دو نمازیں پڑھے گا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے یہ شرط قبول کر لی( اور تین نمازیں معاف کر دیں)

(مسند احمد حدیث20287)

.

فظاهر هذا أنّه أسقط عنه ثلاث صلوات وكان من خصائصه - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أنّه يخصّ من شاء بما شاء من الأحكام، ويُسْقط عمّن شاء ما شاء من الواجبات

 اس حدیث سے ظاہر ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے تین نمازیں معاف کر دیں تھیں اور یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے،ہےشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم جسے چاہیں جس حکم کے ساتھ خاص فرما دیں اور جس سے چاہے جو کچھ معاف فرما دیں

(مرقاۃ الصعود امام سیوطی1/246)

.############

*#1⃣3⃣ایک صحابی کے لیے سونے کی انگوٹھی جائز کر دی....!!*

 فَهِمَ الْخُصُوصِيَّةَ لَهُ مِنْ قَوْلِهِ الْبَسْ مَا كَسَاكَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَهَذَا أَوْلَى مِنْ قَوْلِ الْحَازِمِيِّ لَعَلَّ الْبَراء لم يبلغهُ النَّهْي وَيُؤَيّد الِاحْتِمَالُ الثَّانِي أَنَّهُ وَقَعَ فِي رِوَايَةِ أَحْمَدَ كَانَ النَّاسُ يَقُولُونَ لِلْبَرَاءِ لِمَ تَتَخَتَّمُ بِالذَّهَبِ وَقَدْ نَهَى عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَذْكُرُ لَهُم هَذَا الْحَدِيثَ

 سیدنا براء رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ خصوصیت سمجھی تھی کہ رسول کریم نے انہیں سونے کی انگوٹھی پہنا دی ہے تو یہ ان کے ساتھ خاص ہے ان کے لیے جائز ہے... اور یہی بات درست معلوم ہوتی ہے کیوں کہ سیدنا براء رضی اللہ تعالی عنہ سے جب پوچھا جاتا تھا کہ آپ سونے کی انگوٹھی کیوں پہنتے ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے تو وہ یہ حدیث پیش کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ یہ انگوٹھی تم پہن لو، یہ انگوٹھی تمھیں اللہ نے پہنائی ہے اور اس کے رسول نے پہنائی ہے

(فتح الباري لابن حجر10/317)

.###########

*#1⃣4⃣چار مہینے دس دن سوگ کے بجائے فقط تین دن سوگ کی اجازت دی، باقی سوگ معاف فرما دیا.....!!*

أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَوْمَ الثَّالِثَ مِنْ قَتْلِ جَعْفَرٍ فَقَالَ: " لَا تَحِدِّي بَعْدَ يَوْمِكِ هَذَا

 سیدہ اسماء بنت عمیس فرماتی ہیں کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کی شہادت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیسرے دن تشریف لائے اور فرمایا کہ اس دن کے بعد سوگ مت کرنا

(مسند احمد حدیث27083)


وللشارع أن يخص من العموم ما شاء،ومن ذلك: ترك الإحداد لأسماء بنت عميس

 سیدہ اسماء کو سوگ نہ کرنے کی جو اجازت عطا فرمائی یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شریعت بتاتے والے اور اللہ کے اذن و عطاء سے شریعت بنانے والے ہیں اس لیے جو چاہیں خاص فرمائیں

(المواہب اللدنیہ2/388)

.==================

*کیا نبی پاکﷺکسی کام نہ آئیں گے……؟؟*

سوال:

"اے محمد کی بیٹی فاطمہ! اپنے آپ کو جہنم سے خود بچانا" عمل کرو." میں تمھارے کسی کام نہ آؤں گا

(بخاری حدیث4771)

.

*#جواب.و.تحقیق....!!*

تاجدار عالم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حکم سے دنیا میں بھی کام آئے(اختیارات مصطفیﷺ  شفاعتِ مصطفیﷺ موضوع پر کتب کا مطالعہ کیجیے)اور قیامت کے دن بھی کام ائیں گے، مسلمانوں کی شفاعت فرمائیں گے،جنت دلوائیں گے

.

مفسر شہیر شیخ الحدیث حضرت علامہ غلام رسول سعیدی مرحوم علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:

اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ اللہ کے اذن سے انبیاء (علیہم السلام) ‘ ملائکہ ‘ اولیاء کرام ‘ علماء ‘ حفاظ قرآن اور صالح مومینن گنہ گاروں کی شفاعت کریں گے ‘ یہ شفاعت گناہ کبیرہ کرنے والوں کی مغفرت اور تخفیف عذاب کے لیے ہوگی اور صالحین کیلیے ترقی درجات کی شفاعت ہوگی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعض کفار کے بھی تخفیف عذاب کی شفاعت کریں گے ‘ شفاعت کبری اور شفاعت کی بعض دیگر اقسام ہمارے سیدنا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خصائص میں سے ہیں ‘ اللہ تعالی نے آپ کو شفاعت بالوجاہت بھی عطا فرمائی ہے۔ -ہم نے ” شرح صحیح مسلم “ جلد ثانی میں مسئلہ شفاعت پر تفصیل بحث کی ہے ‘ شفاعت کا معنی ‘ منکرین شفاعت کے مذاہب ‘ ان کے دلائل اور ان کے جوابات بیان کیے ہیں اور *#شفاعت کے ثبوت میں قرآن مجید کی #پچاس سے زیادہ آیات اور #چالیس احادیث ذکر کی ہیں* اور مسئلہ شفاعت پر اعتراضات کے جوابات دیئے ہیں اور شفاعت کی ٤٩ اقسام ذکر کی ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص اقسام کا بیان کیا ہے ‘ اس مسئلہ کو تفصیل سے جاننے کے لیے اس مقام کا مطالعہ کرنا چاہیے

(تبیان القرآن تحت تفسیر سورہ بقرہ آیت47)

.

جب قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کام آئے اور کام آئیں گے تو "کام نہ آؤں گا" کا کیا مطلب و معنی ہے........؟؟

.

①پہلا معنی:اگر ایمان نہ لاؤ گے تو کام نہ آؤں گا

②دوسرا معنی:کام نہ آؤں گا یہ منسوخ ہے

③تیسرا معنی:بذات خود کام نہ آوں گا مگر اللہ کی اجازت سے کام آؤں گا

.

فإني لا أملك لك من الله شيئا إن لم تؤمني

اے فاطمہ اگر مجھ پر ایمان نہ رکھو گی تو میں تمھارے کام نہ آؤں گا

(فتح المنعم,2/42)


.


بِأَنَّ هَذَا كَانَ قَبْلَ أَنْ يُعْلِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى بِأَنَّهُ يَشْفَعُ فِيمَنْ أَرَادَ وَتُقْبَلُ شَفَاعَتُهُ حَتَّى يُدْخِلَ قَوْمًا الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ وَيَرْفَعَ دَرَجَاتِ قَوْمٍ آخَرِينَ وَيُخْرِجَ مِنَ النَّارِ مَنْ دَخَلَهَا بِذُنُوبِهِ أَوْ كَانَ الْمَقَامُ مَقَامَ التَّخْوِيفِ وَالتَّحْذِيرِ أَوْ أَنَّهُ أَرَادَ الْمُبَالَغَةَ فِي الْحَضِّ عَلَى الْعَمَلِ وَيَكُونُ فِي قَوْلِهِ لَا أُغْنِي شَيْئًا إِضْمَارُ إِلَّا إِنْ أَذِنَ اللَّهُ لِي بِالشَّفَاعَةِ

خلاصہ:

کام نہ آوں گا منسوخ ہے اس سے جو آیا ہے کہ نبی پاکﷺ

شفاعت کے ذریعے کام آئیں گے، یا مبالغہ و تخویف مراد ہے یا معنی یہ ہے کہ کام نہ آؤں گا مگر اللہ کے اذن سے کام آؤں گا

(فتح الباري لابن حجر ,8/502)

.


"لا أغني عنكم من الله شيئاً فإن المراد لا أغني عنكم بمجرد نفسي وقدرتي لا بما يكرمني الله به، أو كان ذلك قبل إعلام الله له بأنه ينفع

تمھارے کام نہ اؤں گا کا معنی ہے کہ ذاتی طور پے کام نہ اؤں گا لیکن اللہ کے کرم سے کام آوں گا، یا کام نہ آؤں گا منسوخ ہے

(التنوير شرح الجامع الصغير ,8/177)

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.