Labels

پیشاب روکنا...؟؟ مرزا جہلمی کا کفر؟ اختیارات؟ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کسی بھی صورت ہو کفر ہے

 


https://youtube.com/channel/UCeq1f-gtoGeBNlHntdOZ_OA

.

*پیشاب روکنا تو بہت معمولی بات ہے،اس سے کہیں بڑھ کر اختیارات حاصل تھے ہمارے پیارے نبی محمد مصطفیﷺ کو...مرزا جہلمی نے جو بکواس کی کہ پیشاب نہ روک سکتے تھے بظاہر کفر ہے،آفیشل فتوی مفتیان کرام دیں گے......!!*

تمھید:

مرزا جہلمی کہتا ہے کہ المفھوم:

توحید بیان ہوگی تو توہین خود بخود ہوگی، پیغمبر ولی عام آدمی سب کوئی شئ ہی نہیں، یہ تو اپنا پیشاب روک نہیں سکتے

.

*جواب.و.تحقیق.......!!*

خلاصہ:

توحید بیان کرنے کےلیے توہین بیان کرنا ضروری ہے یہ مرزا جہلمی کا جھوٹ و غلط نظریہ ہے،کفر تک ہوسکتا ہے

کیونکہ

شیطان بھی بظاہر توحید کا قائل تھا...اللہ کو ایک مانتا تھا مگر تکبر توہین و گستاخی کرکے مردود کافر جہنمی ٹہرا....عزت والوں کی توہین کرکے توحید بیان کرنا تو اصل توحید ہی نہیں بلکہ گویا شیطانی توحید ہے...اصل توحید تو کچھ اس طرح بیان ہوتی ہے کہ فلاں بت وغیرہ جسے اللہ نے غیرمعزز کیا ہے تم اسے معزز سمجھتے ہو لیکن اسکی کوئی حیثیت نہیں اصل ذات تو اللہ واحد لاشریک کی ہے.....ایک طریقہ اصلی توحید بیان کرنے کا یہ ہے کہ

فلاں مخلوق کو اللہ نے اتنا معزز و عزت و شرف والا بنایا ہے تو اس اللہ کی اپنی کتنی عظیم شان و عظمت ہوگی...نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا مختار بنایا کہ نبی پاک جو چاہتے وہ اللہ کی عطاء و مدد سے ہوجاتا مگر نبی پاک نے عاجزی کو اختیار فرمایا، نبی پاک چاہتے تو کھانے پینے کے محتاج نہ ہوتے، نبی پاک چاہتے تو اللہ کی مدد و عطاء سے کچھ بھی کرسکتے، پیشاب روکنا یا پیشاب آنے سے بالکل ہی پاک ہونا تو معمولی بات ہے...جب اللہ کی عطاء سے نبی پاک کی اتنی عظیم شان ہے  تو اللہ وحدہ لاشریک کی کتنی عظیم شان ہوگی......!!

.

*تفصیل.و.تحقیق.........!!*

القرآن:

 لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ

(اللہ نے فرمایا) بیشک میں نے خاص انسان (سیدنا آدم علیہ السلام) کو بجتی ہوئی مٹی سے بنایا جو اصل میں ایک سیاہ بودار گارا تھی

(سورہ الحجر آیت26)

.

القرآن:

قَالَ لَمۡ اَکُنۡ لِّاَسۡجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ

قَالَ  فَاخۡرُجۡ  مِنۡہَا فَاِنَّکَ  رَجِیۡمٌ

وَّ اِنَّ عَلَیۡکَ اللَّعۡنَۃَ اِلٰی یَوۡمِ الدِّیۡنِ

قَالَ رَبِّ فَاَنۡظِرۡنِیۡۤ  اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ

شیطان بولا مجھے زیب نہیں کہ بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے بجتی مٹی سے بنایا جو سیاہ بودار گارے سے تھی،

اللہ نے فرمایا تو جنت سے نکل جا کہ تو مردود ہے،اور تجھ پر قیامت  تک لعنت ہے...شیطان نے کہا اے میرے رب مجھے مہلت دے(موت نہ دے)یوم حشر تک

(سورہ الحجر آیت32تا36)

.

غور کیجیے......!!

 اللہ تعالی نے خود فرمایا کہ اس نے سیدنا آدم علیہ السلام کو

صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ سے پیدا فرمایا ہے جوکہ حق سچ ہے

لیکن

یہی حق سچ لفظ شیطان نے کہے تو توہین کہلائے....ثابت ہوا کہ کوئی حق سچ بات ہو مگر نامناسب انداز و غیرمحل میں بیان کیا جاءے تو وہ گستاخی و کفر تک ہوجاتا ہے...پھر شیطان نے کہا "اے میرے رب....!! صاف ظاہر ہے کہ وہ خود کو خدا نہ سمجھ رہا تھا اور خدا کے ساتھ کسی کو شریک بھی نہ کر رہا تھا وہ اے میرے رب کہہ کر ایک طرح سے توحید باری تعالیٰ کا اعلان کر رہا تھا لیکن یہ توحید ایک معزز کی توہین کرکے بیان کر رہا تھا....یہی تو ہم خلاصے میں کہہ آئے کہ

گویا شیطانی توحید کا طریقہ ہے کہ اللہ کی توحید اس طرح بیان کی جاءے کہ اللہ کے پیاروں کی جس سے توہین ہو....ایسی توحید بیانی گویا شیطان کا طریقہ ہے

.

مفسرین نے بھی شیطان کے اس انداز کو گستاخی و کفر قرار دیا حالانکہ بات تو سچ تھی مگر موقعہ و انداز کی وجہ سے گستاخی بن گئ

.

مفسرین نے شیطان کے جملے کہ سیدنا ادم کو مٹی سے پیدا کیا، اس جملے کو کفر و گستاخی قرار دیا

فهو أولُ من أسس بنيانَ التكبر واخترع القولَ بالحسن والقبح العقلين....والاستكبارَ مع تحقير آدمُ عليه السلام

 شیطان ہی سب سے پہلا ہے جس نے تکبر کی بنیاد رکھی اور عقل کے حساب سے اچھا اور برا کہنے کی بدعت نکالی...تکبر کیا اور سیدنا آدم علیہ السلام کی توہین و گستاخی کی

(تفسیر ابی السعود3/216ملتقطا)

.

تَشْتَمِلُ عَلَيْهِ مِنِ احْتِقَارِ آدَمَ

شیطان کا کلام سیدنا آدم کی توہین کمتری و گستاخی پر مشتمل تھا

(تفسیر ابن عاشور15/150)

.

أراد إبليس أنه أفضل من آدم لأن آدم طيني الأصل وإبليس ناري الأصل. والنار أفضل من الطين فيكون إبليس في قياسه أفضل من آدم، ولم يدر الخبيث أن الفضل فيما

فضله الله تعالى

 ابلیس لعین نے ان الفاظوں سے یہ مراد لیا کہ وہ سیدنا ادم سے افضل ہے اس طرح قیاس کیا کہ مٹی سے نار افضل ہے،شیطان خبیث کا یہ قیاس باطل ہے کیونکہ افضل وہ ہے جسے اللہ افضلیت و فضیلت دے

(تفسیر الخازن 3/56)

.

اول بات تو یہ ہے کہ انبیاء کرام چاہتے تو پیشاب کھانے پینے سے پاک ہوتے اللہ کی عطاء سے...لیھذا پیشاب روکنا چاہتے تو روک سکتے تھے اللہ کی عطاء سے، لیھذا مرزا کا کہنا کہ پیشاب نہ روک سکتے تھے جھوٹ و گستاخی کہلائے گا

اور

اگر بالفرض حقیقت میں بھی اگر ایسا ہوتا کہ اللہ نے انبیاء کرام کو پیشاب روکنے کا اختیار نہ دیا ہوتا تو بھی توحید کی آڑ میں ایسی بات کہنا گستاخی کہلائے گی کہ انداز و محل و موقعہ نامناسب ہے

.

*اب توحید باری تعالیٰ، شان باری تعالیٰ کا ایک اور انداز ملاحظہ کیجیے....!!*

.

سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ  اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ  اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَی

(شریک نقص عیب وغیرہ سے)پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے ایک حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک معراج کرائی

(سورہ بنی اسرائیل آیت1)

.

 دیکھیے کس انداز میں اللہ تعالی کی توحید بیان ہو رہی ہے اللہ کی شان بیان ہو رہی ہے کہ اللہ کریم وہ ذات ہے کہ جس نے ایسا خاص بندہ بنایا ہے جس کی یہ شان ہے کہ رات کے قلیل حصے میں معراج کرائی اللہ نے....جب وہ خاص بندہ اتنا عظیم ہے تو سوچو رب تعالیٰ کتنا عظیم وحدہ لاشریک ہے

.

سُبۡحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الۡعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ

وَ  سَلٰمٌ  عَلَی  الۡمُرۡسَلِیۡنَ

تمھارا رب ہر عیب(شریک نقص ہر عیب) سے پاک ہے کہ جو اس کے متعلق جو بولتے ہیں اور سلام ہو انبیاء و رسولوں پر

(سورہ الصافات آیت180..181)

اللہ اللہ...اللہ کی شان و توحید بیان ہو رہی ہے اور ساتھ میں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ سلام ہو انبیاء و مرسلین پر....یہی تو ہم کہہ رہے کہ توحید و شان اس طرح بیان کرو کہ جب اللہ کے پیارے اتنے شان والے والے ہیں تو اللہ وحدہ لاشریک کی کتنی عظمت و شان ہے...!! ہاں ناحق مبالغہ ارائی اور غلو بھی ٹھیک نہیں اور جسکی مذمت اللہ نے فرمائی جیسے بت وغیرہ اسکی توہین و مذمت کرکے بھی توحید بیان کرنا برحق ہے

.

القرآن:

قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ وَ سَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیۡنَ اصۡطَفٰی ؕ آٰللّٰہُ خَیۡرٌ اَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ

 فرما دیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اور سلام ہو اللہ کے ان بندوں پر کہ جن کو اللہ تعالی نے چن لیا ہے اور اللہ تعالی خیر ہے پاک ہے اس سے جو شریک ٹہراتے ہیں

(سورہ نمل آیت59)

شرک کی مذمت ہورہی ہے لیکن اللہ کے پیاروں پر سلام بھی بھیجا جا رہا ہے...اے عقل کے اندھو شرک کی مذمت کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ کے پیاروں کی مذمت و توہین کی جائے

.

قُلِ الحمد لِلَّهِ وسلام على عِبَادِهِ الذين اصطفى} إثرَ ما قصَّ الله تعالى على رسوله صلى الله عليه وسلم قصصَ الأنبياءِ المذكورينَ عليهم الصَّلاة والسَّلام وأخبارَهم الناطقةَ بكمالِ قُدرته تعالى وعظمِ شأنِه وبما خصَّهم به من الآياتِ القاهرةِ والمعجزاتِ الباهرةِ الدالَّةِ على جلالةِ أقدارِهم وصحَّةِ أخبارِهم وبيَّن على ألسنتهم حقِّيةَ الإسلامِ والتَّوحيدِ وبطلانَ الكفرِ والإشراكِ

 اللہ تعالی نے انبیائے کرام کے قصے بیان کئے اور ان کی وہ عظیم صفات بیان کیں کہ جو اللہ نے خاص انہیں عطاء کیں پھر اللہ نے ان عظیم انبیاء کرام کی زبانوں سے اسلام و توحید کی حقیقت بیان کرائی اور کفر و شرک کا باطل ہونا ثابت کرایا

(تفسیر ابی السعود6/292)

.

*ظاہری انسانی صفات بطور مذمت و انکار بیان کرنا تو کفار منکرین کا طریقہ ہے......!!*

القرآن:

قَالُوۡا مَالِ ہٰذَا الرَّسُوۡلِ یَاۡکُلُ الطَّعَامَ وَ یَمۡشِیۡ  فِی الۡاَسۡوَاقِ

(منکرین نبوت،گستاخان رسول)کہتے ہیں یہ کیسا رسول ہے جو کھاتا پیتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے

(سورہ فرقان آیت7)

اوصافِ انسانی بیان کرکے انکار و توہین کرنا منکرین و گستاخوں کا طریقہ ہے

.

*#تعظیم رسول ہر حال میں جزء ایمانی ہے......!!*

لِّتُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ  وَ تُعَزِّرُوۡہُ وَ تُوَقِّرُوۡہُ ؕ وَ تُسَبِّحُوۡہُ  بُکۡرَۃً  وَّ اَصِیۡلًا

اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو

(سورہ فتح آیت9)

.

وعزَّروه"، يقول: وَقَّروه وعظموه

عزروہ کا معنی ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ(ہر حال میں)رسول کی تعظیم و توقیر کرو

(تفسیر طبری13/168)

.

القرآن:

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ اللّٰہَ  وَ رَسُوۡلَہٗ  لَعَنَہُمُ  اللّٰہُ  فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ  وَ اَعَدَّ لَہُمۡ  عَذَابًا مُّہِیۡنًا

 بے شک وہ لوگ جو اللہ کو اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں(رسول کی گستاخی کرکے انکار کر کے کسی بھی طریقے سے)تو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور اللہ نے ان(گستاخوں منکروں) کے لیے ذلت کا عزاب تیار کر رکھا ہے

(سورہ الاحزاب آیت57)

.

وفي الآية دلالة عصمة رسول اللَّه، وألا يكون منه ما يستحق الأذى بحال

اس آیت میں واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معصوم ہیں اور ان کی کسی بھی حال میں اذیت و گستاخی نہیں کرسکتے

(تفسیر الماتریدی8/413)

امام اہلسنت نہ دوٹوک فرما دیا کہ کسی بھی حال میں ، انداز میں، کسی بھی وقت و موقعہ میں اللہ کے پیاروں کی توہین نہیں کی جاسکتی....توحید باری بیان ہو ، اللہ کی عظمت بیان ہو تو اس طرح نہیں کہ اللہ کے پیاروں کی توہین کی جائے....ہرگز نہیں

.

لما أمر تعالى بتعظيم رسوله صلى الله عليه وسلم، والصلاة والسلام عليه، نهى عن أذيته، وتوعد عليها فقال: {إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ} وهذا يشمل كل أذية، قولية أو فعلية، من سب وشتم، أو تنقص له، أو لدينه، أو ما يعود إليه بالأذى. {لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا} أي: أبعدهم وطردهم..{وَالآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا} جزاء له على أذاه، أن يؤذى بالعذاب الأليم، فأذية الرسول، ليست كأذية غيره، لأنه -صلى الله عليه وسلم- لا يؤمن العبد بالله، حتى يؤمن برسوله صلى الله عليه وسلم. وله من التعظيم، الذي هو من لوازم الإيمان،

ما يقتضي ذلك

 جب اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا حکم دیا اور انکو اذیت دینے انکی گستاخی کرنے سے روکا تو یہ بھی ڈر سنایا کہ دنیا و آخرت میں لعنت و عذاب ہوگا...رسول کی ہر قسم کی گستاخی سے اللہ نے روکا ہے چاہے وہ گستاخی قول سے ہو، فعل و عمل سے ہو، سب و شتم سے ہو،یا انکی ذات میں یا انکے دین میں تنقیص کی جائے یا کوئی بھی گستاخی ہو اسکی جزا دنیا و آخرت میں لعنت و سزا ہے....رسول کریم کو اذیت دینا گستاخی کرنا دوسروں کی اذیت و گستاخی کی طرح نہیں کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہے کہ اللہ پر کوئی بندہ اس وقت ایمان لائے گا جب وہ رسول پر ایمان لائے گا اور رسول کی تعظیم کرے گا یہ ایمان کے لوازمات میں سے ہے ایمان کا تقاضا ہے

(تفسیر السعدی ص671)

.

عبر بإيذاء الله ورسوله عن فعل ما لا يرضى الله ورسوله

 اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دینا اسکی وضاحت یوں ہے کہ ایسا قول و فعل بیان کیا جائے جس سے اللہ راضی نہ ہو اور رسول راضی نہ ہو

(تفسیر نسفی3/44)

 بھلا بتائیے کہ اللہ کریم اس بات سے راضی ہو گا کہ تم یہ کہو کہ رسول تو پیشاب بھی نہیں روک سکتے......؟؟

.

نزلت في الذين طعنوا على النبي صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر طعنے مارے گئے تو یہ آیت نازل ہوئی( کہ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت نہ دو گستاخی نہ کرو)

(تفسیر طبری20/323)

 پیشاب نہ روک سکنا یہ بھی تو ایک قسم کا طعنہ ہی تو ہے.....!!

.

من أذى رسول الله صلى الله عليه وسلم بطعن فى شخصه او دينه او نسبه او صفة من صفاته او بوجه من وجوه الشين فيه صراحة او كناية او تعريضا او اشارة كفر ولعنه الله

 اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے ان کو اذیت پہنچائے کوئی طعنہ دے کہ ان کی ذات میں طعنہ دے یا ان کے دین میں طعنہ دے یا ان کے نسب میں طعنہ دے یا ان کی صفات میں سے کسی صفت میں طعنہ دے یا کسی بھی طریقے کی توہین کرے صراحتاً کرے یا کنایۃ کرے ، تعریضا کرے یا اشارتا کرے کسی بھی طرح کرے  سب کفر ہے اور اللہ کی اس پر لعنت ہے

(تفسیر مظہری7/381)

.

*#رسول کریم افضل البشر ہیں لیکن ہم جیسے نہیں...لیھذا جہلمی اگر اپنا پیشاب نہیں روک سکتا تو رسول کریم کو اپنے مت سمجھے کیونکہ رسول کریم ہم جیسے نہیں....!!*

وَأَيُّكُمْ مِثْلِي ؟ إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بھلا تم میں سے کون میری مثل ہو سکتا ہے، مجھے تو اللہ کھلاتا ہے اور مجھے تو اللہ ہی پلاتا ہے

(بخاری حدیث1965)

(مسلم حدیث1103)

.

إِنِّي لَسْتُ مِثْلَكُمْ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں تمہاری طرح نہیں ہوں

(بخاری حدیث1962)

(مسلم حدیث1102)

.

لَسْتُ كَهَيْئَتِكُمْ ؛ إِنِّي أَظَلُّ أُطْعَمُ وَأُسْقَى

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہاری ہیئت کی طرح نہیں ہوں کہ مجھے تو(غیب سے)کھلایا جاتا ہے پلایا جاتا ہے

(بخاری حدیث1922)

(مسلم حدیث1105)

.

لَسْتُ كَأَحَدٍ مِنْكُمْ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں تم میں سے کسی ایک شخص کی طرح بھی نہیں ہوں

(بخاری حدیث1961)

(مسلم حدیث735)

(نسائی حدیث1659)

(ابوداود حدیث950)

.

*#پیشاب روکنا تو معمولی بات ہے، رسول کریم چاہیں تو کیا سے کیا ہو جائے اللہ کی عطاء سے......!!*

إِسْرَافِيلُ، فَقَالَ:...وَأَمَرَنِي أَنْ يُعْرَضْنَ عَلَيْكَ إِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ أُسَيِّرَ مَعَكَ جِبَالَ تِهَامَةَ زُمُرُّدًا، ويَاقُوتًا، وَذَهَبًا، وَفِضَّةً

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسرافیل میرے پاس آئے اور مجھے کہا کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ اے محبوب میں آپ کے پاس یہ پیش کرو کہ اے محبوب اگر آپ چاہیں تو میں تہامہ کے پہاڑ زمرد یاقوت سونا چاندی بناکر آپ کے ساتھ بھیج دوں

(كتاب المعجم الأوسط للطبراني7/88)

(كتاب الزهد الكبير للبيهقي ص186نحوہ)

(كتاب إحياء علوم الدين امام غزالی4/233نحوہ)

.

لو شِئْتُ لَسَارَتْ مَعِي جِبَالُ الذَّهَبِ...رَوَاهُ أَبُو يَعْلَى، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ

 رسول کریم نے فرمایا کہ اگر میں چاہوں تو یہ پہاڑ سونے کے بن کر میرے ساتھ چلیں... اس حدیث کو ابو یعلی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن معتبر ہے

(مجمع الزوائد حدیث14210)

(کتاب مشكاة حدیث5835نحوہ)

(كتاب جمع الجوامع حدیث12653)

.

وَحَاصِلُهُ أَنَّ اللَّهَ خَيَّرَكَ فَاخْتَرْ مَا شِئْتَ

 ان احادیث سے حاصل ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو اختیار دیا ہے کہ اے محبوب آپ جو چاہیں اختیار فرمائیں(اللہ کی عطاء)

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح9/3724)

.

فهذا الغاية القصوى والدرجة العليا في التمكين والتمكن منهم والتحكّم فيهم حتى يصير العفريت الذي أُعطي من القوّة ما يحمل الجبل فَيَقلِبُه أعلاه أسفلَه , آل حاله معه في الذل.....إِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ} [التحريم: من الآية 4] فأيّ ظهير أعظم من هذا وأيّ ناصر أقوى من هذا

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طاقت و اختیار کا اندازہ اس طرح لگائیے کہ جنات کو جو طاقتیں حاصل ہیں عفریت جن کو جو یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ پہاڑ کو الٹ پلٹ کر دے...یہ سب طاقت و اختیار و عظیم صفات والے بھی رسول کریم کے سامنے ادب سے پیش اتے ہیں( تو یقینا ان جنات کی طاقت سے زیادہ طاقت و عظمت رسول کریم کو اللہ نے دی ہے) اللہ تعالی فرماتا ہے کہ بےشک اللہ تعالیٰ بھی رسول کریم کا مددگار ہے جبرئیل مددگار ہے نیک مومنین مددگار ہیں ملائکہ مددگار ہیں... تو اس سے بڑھ کر اور کیا طاقت و مدد ہوسکتی ہے....؟؟

(خصائص سید المرسلین ص 462 , 456ملتقطا)

 اللہ کی طاقت سے اللہ کی عطا سے جنات کیا سے کیا کر سکتے ہیں ملائکہ کیا سے کیا کر سکتے ہیں لیکن رسول کریم کے سامنے ان کی طاقت کم ہی ہے....رسول کریم کی عطائی طاقت و اختیار کا اندازہ ہی ناممکن ہے اور جہلمی بکواس کرتا ہے کہ پیشاب نہیں روک سکتے......!!

.

إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ تَمَنَّى تَسْخِيرَهُمْ لَمَا امْتَنَعُوا عَلَيْه

 بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر چاہیں تو یہ دریا یہ پہاڑ یہ ہوائیں الغرض یہ کل کائنات آپ کے اختیار میں ہو جائے

(دلائل النبوۃ لابی نعیم ص600)

.

*#انبیاء کرام کے ظاہر یعنی کھانا پینا چلنا سونا وغیرہ عادات و افعال کچھ ہیں مگر باطنی حقیقی طور پر کچھ اور ہی ہیں....!!*

فَأَخْبَرَ أَنَّ سِرَّهُ وَبَاطِنَهُ وَرُوحَهُ بِخِلَافِ جِسْمِهِ وَظَاهِرِهِ وَأَنَّ الْآفَاتِ الَّتِي تَحِلُّ ظَاهِرَهُ مِنْ ضَعْفٍ وَجُوعٍ وَسَهَرٍ وَنَوْمٍ، لَا يَحِلُّ مِنْهَا شَيْءٌ بَاطِنَهُ

 آیات اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن و سر اور انکی روح اسکے جسم اطہر و ظاہر کے خلاف ہے... بظاہر جسم کو کمزوری ہوتی ہے بھوک ہوتی ہے سونا ہوتا ہے جاگنا ہوتا ہے لیکن یہ باتیں صرف جسم کی حد تک بظاہر ہیں حقیقت و باطن میں ان کا رسول کریم سے کوئی تعلق نہیں ہے

(الشفا بتعريف حقوق المصطصفی2/409)

.

وأمّا بواطنهم فمنزّهة غالبا عن ذلك معصومة منه، متعلقة بالملإ الأعلى والملائكة

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بظاہر جسم کو جو عارضہ لاحق ہوئے وہ ظاہری طور پر ہیں حقیقت میں تو رسول کریم کی صفات عادات ان سب سے پاک ہیں، ملائکہ اور الملا لاعلی سے ملتے ہیں

(سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد12/4)

.

وأما أرواحهم وبواطنهم فمعصومة منه متعلقة بالملأ الأعلى لأخذها العلم عنهم، وتلقيها الوحي منهم، وقد يقيهم اللَّه سبحانه عن الآفات البشرية أيضًا ويعصمهم منها معجزة لهم وإظهارًا لشرفهم وامتيازهم من سائر البشر إذا اقتضت

الحكمة ذلك

 انبیاء کرام علیہ السلام کے ارواح اور ان کے باطن معصوم و پاک و منزہ ہوتے ہیں جسمانی عوارض سے، الملا الاعلی سے ملے ہوتے ہیں...اللہ کبھی کبھار جب اسکی حکمت ہوتی ہے وہ انبیاء کرام کو بعض جسمانی عوارض سے بھی منزہ اور پاک کرتا ہے تاکہ معجزہ ظاہر ہو اور انبیاء کرام کی شرف و عظمت ظاہر ہو اور ثابت ہو کہ وہ عام بشروں کی طرح نہیں

(لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح9/443)

.

 اسلاف نے قرآن و احادیث سے دلیل اخذ کر کے کیا ہی پیارا عقیدہ ارشاد فرمایا کہ انبیاء کرام کی حقیقت ان کے باطن تو جسمانی عوارض سے پاک ہیں سونے جاگنے کھانے پینے چلنے پھرنے وغیرہ سے پاک ہیں....یہ تو ظاہری کام انبیاء کرام کے اختیاری ہیں....انبیاء کرام چاہیں تو ان عوارض کو روک دیں....لیکن جاہل گستاخ چھوکرا جہلمی کہتا ہے کہ پیشاب تک نہیں روک سکتے اور اسی طرح نجدیوں وہابیوں نام نہاد اہلحدیثوں اور دیوبندیوں کے بڑے بڑے لکھ گئے کہ نعوذ باللہ انبیاء کرام چمار سے بھی زیادہ ذلیل و کمتر ہیں اللہ کے سامنے

جبکہ

اللہ فرماتا ہے:

القرآن..ترجمہ:

اللہ کے لیے عزت ہے اور اسکے رسول کے لیے عزت ہے اور مومنین کے لیے عزت ہے..(سورہ منافقون آیت8)

.

القرآن..ترجمہ:

اللہ نے جن چیزوں کو حرمت.و.عزت دی ہے انکی جو تعظیم کرے گا تو یہ اسکے لیے نیکی و بھلائی ہے اللہ کے نزدیک

(سورہ حج ایت30)

.

انبیاء کرام اور اللہ کے پیاروں کی شان قرآن و احادیث سے بیان کی جائے تو بہت بڑی کتاب بن جائے

.

*انبیاء کرام کو عوارض بشریہ یعنی کھانا پینا سونا جاگنا شادی کرنا سردی گرمی لگنا وغیرہ کے طعنے دینا کفر ہے...!!*

عَيَّرَهُ بِشَيْءٍ مِمَّا جَرَى مِنَ الْبَلَاءِ وَالْمِحْنَةِ عَلَيْهِ، أَوْ غَمَصَهُ «١» بِبَعْضِ الْعَوَارِضِ الْبَشَرِيَّةِ الْجَائِزَةِ وَالْمَعْهُودَةِ لَدَيْهِ، وَهَذَا كُلُّهُ إِجْمَاعٌ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَأَئِمَّةِ الْفَتْوَى مِنْ لَدُنِ الصَّحَابَةِ رِضْوَانُ اللَّهِ عليهم إلى هلم جرا

 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو عار دی(طعنہ مارا) ان چیزوں کے ذریعہ سے کہ جو اللہ تعالی نے ان پر امتحانات ڈالے مصائب ڈالے تو یہ کفر ہے

یا

پھر عوارض بشریہ(یعنی کھانا پینا سونا جاگنا شادی کرنا سردی گرمی لگنا وغیرہ)کے ذریعے توہین و گستاخی کی تو بھی کفر ہے....اس پر آج تک کے معتبر علماء کا اجماع ہے مفتیان کرام کا اجماع ہے صحابہ کرام کا اجماع ہے

(الشفا بتعريف حقوق المصطفى2/474)

.

عوارض بشریہ میں سے یہ بھی ہے کہ بندے کو پیاس لگتی ہے پانی پیتا ہے پھر پیشاب آتا ہے...ان عوارض کا انبیاء کرام کو طعنہ دینا توہین کرنا بےادبی کرنا کفر ثابت ہوا

.

أو عيّره بشيء مما جرى من البلاء والمحنة عليه، أو غمصه ببعض العوارض البشرية الجائزة والمعهودة لديه كان كافرا بالإجماع

یا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو عار دی(طعنہ مارا) ان چیزوں کے ذریعہ سے کہ جو اللہ تعالی نے ان پر امتحانات ڈالے مصائب ڈالے تو یہ کفر ہے یا پھر عوارض بشریہ(یعنی کھانا پینا سونا جاگنا شادی کرنا سردی گرمی لگنا وغیرہ)کے ذریعے توہین و گستاخی کی تو بھی کفر ہے اس پر اجماع ہے

(الإعلام بقواطع الإسلام ص117)

.

يَسُبُّهُ أَوْ يَسْتَخِفُّ أَوْ يَسْتَهْزِئُ بِهِ أَوْ بِشَيْءٍ مِنْ أَفْعَالِهِ كَلَحْسِ الْأَصَابِعِ، أَوْ يُلْحِقُ بِهِ نَقْصًا فِي نَفْسِهِ أَوْ نَسَبِهِ أَوْ دِينِهِ أَوْ فِعْلِهِ، أَوْ يُعَرِّضُ ذَلِكَ أَوْ يُشَبِّهُهُ بِشَيْءٍ عَلَى طَرِيقِ الْإِزْرَاءِ أَوْ التَّصْغِيرِ لِشَأْنِهِ أَوْ الْغَضِّ مِنْهُ، أَوْ تَمَنَّى لَهُ مَضَرَّةً أَوْ نَسَبَ إلَيْهِ مَا لَا يَلِيقُ بِمَنْصِبِهِ عَلَى طَرِيقِ الذَّمِّ أَوْ عَبِثَ فِي جِهَتِهِ الْعَزِيزَةِ بِسُخْفٍ مِنْ الْكَلَامِ وَهَجْرٍ وَمُنْكَرٍ مِنْ الْقَوْلِ وَزُورٍ أَوْ غَيْرِهِ بِشَيْءٍ مِمَّا جَرَى مِنْ الْبَلَاءِ وَالْمِحْنَةِ عَلَيْهِ، أَوْ غَمَصَهُ بِبَعْضِ الْعَوَارِضِ الْبَشَرِيَّةِ الْجَائِزَةِ وَالْمَعْهُودَةِ لَدَيْهِ فَيُكَفَّرُ بِوَاحِدٍ

مِمَّا ذُكِرَ إجْمَاعًا

 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو گالم گلوچ کرے یا اس کی توہین و گستاخی کرے یا انکی ذات کا مذاق اڑائے یا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کام کا مذاق اڑائے جیسے کہ انگلیاں چاٹنا یہ سب کفر ہے... اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات یا نسب میں کوئی عیب نکالنا  اس کے دین میں یا نبی پاک کے کسی بھی کام میں عیب و نقص نکالنا بولنا سمجھنا کفر ہے...یا ابھام و تشبیہ و اشارے کی آڑ میں گستاخی کرے یا کمتری و تذلیل کرے تو یہ سب بھی کفر ہے...نبی پاک کا نقصان و کمی چاہے یا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی ایسی چیز یا قول یا فعل منسوب کرے کہ جو رسالت کے منصب کے لائق نہ ہو تو اس طرح توہین و گستاخی کرنا بھی کفر ہے...تو توہین و کمتری کرے اس طرح کہ نبی پاک کا کلام کم عقل والا ہے یا ھجر و منکَر ہے تو بھی کفر ہے،یا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو عار دی(طعنہ مارا توہین کی کمتری بیان کی) ان چیزوں کے ذریعہ سے کہ جو اللہ تعالی نے ان پر امتحانات ڈالے مصائب ڈالے تو یہ کفر ہے یا پھر عوارض بشریہ(یعنی کھانا پینا سونا جاگنا شادی کرنا سردی گرمی لگنا وغیرہ)کے ذریعے توہین و گستاخی کی تو بھی کفر ہے...یہ سب کفر ہیں اس پر اجماع ہے

(الزواجر عن اقتراف الكبائر ابن حجر1/48)

.

حقره (ببعض العوارض البشريّة الجائزة) جريانها (عليه المعهودة لديه) كالجوع والإغماء ونحوهما (وهذا) الذي ذكرناه (كلّه إجماع من العلماء) من المفسرين والمحدثين (وأئمّة الفتوى) من المجتهدين (من لدن الصّحابة رضي الله تعالى عنهم أجمعين إلى هلمّ جرّا

 صحابہ کرام کا اجماع ہے اور صحابہ کرام سے لے کر آج تک جتنے بھی معتبر علماء محدثین مفسرین اور مفتیان کرام گزرے ہیں ان سب کا اجماع ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر عار دی(طعنہ مارا توہین کی کمتری بیان کی) ان چیزوں کے ذریعہ سے کہ جو  عوارض بشریہ ہیں(یعنی کھانا پینا سونا جاگنا شادی کرنا سردی گرمی لگنا وغیرہ کے ذریعے توہین و گستاخی کی)تو سب کا اجماع ہے کہ یہ کفر ہے

(شرح ملا علی قاری علی الشفاء2/391)

.

القرآن:

قُلۡ لَّاۤ  اَمۡلِکُ  لِنَفۡسِیۡ  نَفۡعًا وَّ لَا  ضَرًّا  اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ

 اے محبوب فرما دیجئے کہ میں اپنے لئے نفع اور نقصان کا مالک نہیں مگر یہ کہ جتنا مالک مجھے اللہ نے بنانا چاہا

(سورہ الاعراف آیت188)


.إِلَّا ما شاءَ اللَّهُ من ذلك فيعلمنى به وحيا جليا او خفيا ويعطنى قدرة على جلب النفع او دفع الضرر

 جتنا اللہ نے مجھے مالک بنانا چاہا اتنا مجھے مالک بنایا نفع نقصان کا... تو اللہ تعالی مجھے وحی جلی یا وحی خفی کے ذریعے نفع نقصان کا علم عطا فرما دیتا ہے اور مجھے قدرت دے دیتا ہے کہ میں نفع اٹھاؤ نفع دوں اور نقصان کو دور کروں(اللہ کی عطاء سے)

(تفسیر مظہری3/443)

.

إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ أَمْلِكَهُ

نفع نقصان کا اللہ تعالی نے جتنا مجھے مالک بنانا چاہا اتنا میں مالک ہوں

(تفسیر بغوی3/310)

.

إلا ما شاء الله أن أملكه من ذلك، بأن يقوّيني عليه ويعينني

 میں نفع نقصان کا اتنا ہی مالک ہوں جتنا کہ اللہ تعالی نے مجھے مالک بنانا چاہا، اس طرح کہ اللہ تعالی مجھے قوت عطا فرماتا ہے اور میری مدد فرماتا ہے

(تفسیر طبری13/302)


.

إِلاَّ مَا شَآءَ اللَّهُ} أن يملكني إياه فأملكه بمشيئته

 نفع نقصان کا میں مالک نہیں مگر یہ کہ جتنا اللہ نے مجھے مالک بنانا چاہا تو میں اللہ کی مشیت اور رضا مندی سے نفع نقصان کا مالک ہوں

(تفسیر الماوردی2/285)

.

مرزا جہلمی کا رد کئ علماء اہلسنت حسب وقت و حسب طاقت فرما رہے ہیں لیکن قبلہ مفتی راشد صاحب نے خوب رد کیا ہے اور کر رہے ہیں، قبلہ مفتی راشد صاحب کا یوٹیوب چینل کا لنک تحریر کے شروع میں دے دیا ہے،لنک پے جائیں سبکرائب کریں اور وڈیوز وقتا فوقتا دیکھیں اور پھیلائیں

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.