*#جاگو، مذمت کرو، دباو ڈالو۔۔۔۔ٹرمپ کے لیے بےپردہ لڑکیاں نچوانے،اہلخانہ ملوانے کی مذمت کے دلائل۔۔۔اور ثقافت کہہ کر جائز کہنے والوں کا رد۔۔۔اور ٹرمپ وغیرہ ڈوب مرو جو ہر ایک کو آزادی ہے کا نعرہ لگاتے ہیں مگر مسلمانوں کو آزادی نہیں دیتے بلکہ دباؤ ڈالتے ہیں مسلمان حکمرانوں پر کہ فلاں اسلامی کام یا نظریہ روک دو یا کہتے ہیں اسلام پے عمل نہ کرکے فلاں برائی کرو یا فلاں برائی نافذ کرو.....!!*
سوال:
دو تین جگہ سے مجھے کچھ احباب نے سوالات بھیجے کہ یہ تحریر پڑھیں اور مدلل پرلاجک جواب لکھیں،احباب نے جو تحریر بھیجی اس میں سعودی ولی عہد کا ، سعودی حکومت اور قطر و دبی وغیرہ عرب ممالک کے حکمرانوں کا دفاع کیا گیا ہے کہ یہ لوگ اپنی ثقافت پر اور روایات پر فخر کرتے ہیں اور اج بھی فخر کرتے ہوئے انہوں نے ٹرمپ کے لیے اپنی روایات اور ثقافت کا مظاہرہ کیا، مخصوص پرانا ثقافتی روایتی رقص کیا۔۔۔کوئی الگ سے ٹرمپ کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔۔۔لہذا جب ہم پاکستانی اپنی روایات ثقافت پر عمل کرتے ہیں تو ہم ایک دوسرے پر اعتراض نہیں کرتے، فتوے نہیں لگاتے تو پھر سعودی و عربی حکمرانوں پر فتوے مت لگاؤ۔۔۔۔۔!!
.
*#جواب.و.تحقیق*
امریکی صدر ٹرمپ کے لیے عرب کے حکمرانوں نے لڑکیاں نچوائیں اور بال کھلے کرائے اور اپنی گھر کی عورتیں ٹرمپ سے ملوائیں اور ڈانس و میوزک و فلم کے پروگرام کراتے ہیں۔۔۔اس پر عربی مسلم عوام و خواص اور ساری دنیا کی مسلم عوام و خواص ہمت جراءت کرو برائی کی مذمت کرو، جلسے جلوس کرو، حکمرانو پے دباؤ ڈالو۔۔بعض ممالک کی کچھ عوام نے شدید مذمت کی تو کچھ جانب سے عربی حکمرانوں کی تائید میں تحریرات نشر ہونے لگیں،ان کا جواب اور حکمرانوں کے مذکورہ کاموں کی مذمت قران اور احادیث سے ملاحظہ کیجئے۔۔۔۔۔۔!!
۔
*#نوٹ*
جہاں عرب و دیگر حکمرانوں کی مذمت لازمی ہے، ان پے دباؤ ڈالنا لازمی ہے کہ وہ برائی کر رہے ہیں اپنی طرف سے یا گمراہ ہوکر یا پھر ممکن ہے ان پر کچھ دباؤ پڑا باہر ممالک کا تو اس دباؤ میں ا کر ایسے کرتوت کرنے لگ گئے حالانکہ انہیں دلائل کی جنگ لڑنی چاہیے تھی کہ اے باہر کے ممالک دباؤ ڈالنے والے تم خود دعوی کرتے ہو کہ ہر ایک کو ازادی ہے تو پھر ہم مسلمانوں کو کیوں ازادی نہیں۔۔۔۔؟؟ ہمیں اسلامی عقائد و نظریات پر عمل کرنے کی کیوں اجازت نہیں۔۔۔۔۔؟؟
تو
دوسری طرف ٹرمپ اقوام متحدہ وغیرہ دباؤ ڈالنے والوں کی بھی مذمت لازم ہے ان پر بھی دباؤ ڈالنا لازمی ہے کہ تم خود ہی کہتے ہو کہ ہر ایک کو اپنے مذہب کی ازادی ہے تو پھر ہمیں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے، اسلامی عقائد و نظریات پر عمل کرنے کی اجازت کیوں نہیں۔۔۔۔؟؟ اسلامی تعلیمات ہی تو اصل انسانیت کی روح ہیں تو پھر انسانی حقوق تو دراصل وہی ہوئے کہ جو اسلام نے دیے ہیں تو تم انسانیت کے دعویدار ہو کر عدل انسان کے دعویدار ہو کر ہم پر ظلم وحشیت درندگی برائی کیوں مسلط کر رہے ہو۔۔۔شرم کرو ڈوب مرو اپنے دہرے معیار پر۔۔۔۔۔!!
.
*#پہلی بات*
واہ واہ ان جیسے دفاع کرنے والے کسی کو مل جائیں تو خدا کی قسم کوئی وہ شیطان ہونے کا بھی فتوی نہ لگائے گا بلکہ کہے گا کہ بھائی دیکھیں ناں ، شیطان کی بھی تو اپنی ثقافت ہے ناں، شیطان کی بھی تو اپنی روایت ہے ناں، تو وہ اپنی ثقافت روایت پر چل رہا ہے ہمیں کیا اعتراض۔۔۔۔۔؟؟ ان جیسے لوگ دفاع کرنے والے تو نعوذ باللہ ڈائریکٹ اللہ پر اعتراض کریں گے کہ اللہ نے شیطان کی ثقافت روایت پر اعتراض کیوں کیا۔۔۔؟؟ نعوذ باللہ تعالی۔۔۔حالانکہ حق اور حقیقت یہ ہے کہ یہ ثقافت و روایت ہی نہیں، یہ تو گمراہی ہے ، یہ تو کم عقلی ہے، یہ تو نفس پرستی ہے، اصل ثقافت روایت تو وہ ہے کہ جو اللہ نے ہمیں فطرت میں عطا فرمائی ہے جس کی تفصیل ہم اگے لکھیں گے۔۔۔۔اللہ کی لعنت ہو عقل کے اندھوں پر، شیطانوں پر، بری ثقافت و روایات کے دفاع کرنے والوں پر لعنت ہو اگر وہ ہدایت کے لائق نہیں۔۔۔۔۔ورنہ دعا تو یہی ہے کہ اللہ ان کو ہدایت دے ، اس قسم کے دفاع سے رک جائیں وہ۔۔۔ مزید دلائل پڑھیں شاید کہ انہیں ہدایت ملے
۔
*#دوسری بات*
بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینا عرب کی ثقافت و روایت ہے نا۔۔۔۔خانہ کعبہ کا ننگے طواف کرنا سیٹیاں بجانا عرب کی ثقافت و روایت ہے نا۔۔۔۔۔ بتوں کی پوجا کرنا ماتھا ٹیکنا یہ بھی تو عرب کی ثقافت و روایت ہے نا۔۔۔۔شراب نوشی شراب کی محفلیں کباب کی محفلیں یہ بھی تو عرب کی ثقافت و روایت ہے نا۔۔۔۔رنڈیوں کی بھرمار اور عورتوں کو کھلونا سمجھنا نابالغ بچیوں سے زنا کرنا یہ سب بھی تو عرب کی ثقافت و روایت رہی ہے نا۔۔۔اور کس کس ثقافت کو اپ یاد کرنا چاہیں گے تاکہ وہ ہم سعودی و وربی حکمرانوں کو لکھ کر بھیجیں کہ جناب والا یہ لسٹ لیں اپ کی ثقافت ہے روایت ہے اپ اس سے ذرا برابر بھی نہ ہٹیں بلکہ اپ نے جو گلے میں اسلام کا ہار ڈالا ہے اسے اتار پھینکیے اور اپنی ثقافت اور روایات پر عمل کرتے ہوئے فخر کیجئے، اپ کا دفاع کرنے کے لیے پاکستان و دیگر ممالک میں دو کوڑی کے چند ایرے غیرے بکاؤ برے باطل مفادی لوگ موجود ہیں ، یہ عالمی سطح پر اپ کا دفاع کریں گے ، اور کہیں گے کہ عرب کو اپنی ثقافت پہ عمل کرنے دو، اپنی روایات پہ عمل کرنے دو یہ سب جائز ہے یہ سب ٹرمپ کے لیے نہیں ہے
۔
ڈوب مر ۔۔۔ ڈوب مر ۔۔۔۔ ڈوب مر شیطان کہیں گے۔۔۔دفاع کرتے وقت تجھے ذرا بھی شرم نہیں ائی،ارے اتی بھی کیسے۔۔۔۔ اپ نے بھی تو اپنے شیطان بابا کی روایات ثقافات پہ عمل کرنا تھا۔۔۔تو عمل کرتے ہوئے شیطان کی چال چلتے ہوئے اپنا شیطانی پن دجالی پن وحشی پن سب کے سامنے واضح کر دیا۔۔۔کاش کہ چلو بھر پانی میں ڈوبنے کی روایت و ثقافت بھی اپ میں موجود ہوتی۔۔۔
۔
حالانکہ حق اور حقیقت یہ ہے کہ یہ جاہلیت والی و دیگر بری ثقافت و روایت حقیقتا ثقافت اور روایت کہلانے کے لائق نہیں، یہ تو گمراہی ہے ، یہ تو کم عقلی ہے، یہ تو نفس پرستی ہے، اصل ثقافت روایت تو وہ ہے کہ جو اللہ نے ہمیں فطرت میں عطا فرمائی ہے جس کی تفصیل ہم اگے لکھیں گے
۔
*#تیسری بات*
لوگو سنو پڑھو غور کرو۔۔۔۔اسلام فرماتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو اچھی فطرت پہ پیدا کیا ہے پھر وہ غلط و برائی اپنی طرف سے کرتا ہے، غلط و برے نظریے بنا لیتا ہے، غلط و بری روایات بنا لیتا ہے۔۔۔۔۔ اور پھر انکی وجہ سے برا وغلط و جہنمی قرار پاتا ہے،
*#القرآن*
فَاَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ؕ فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا
اللہ کریم نے حکم دیا ہے کہ اس دین حنیف (اسلام ) کے لیے کاربند ہو جاؤ کہ یہی دین ہے جس پر اللہ نے انسان کو فطرتی طور پر اس دین پر رکھ کر پیدا فرمایا ہے
(سورہ روم ایت30)
۔
جی ہاں اسلام میں بنیادی نظریات و ثقافت و روایات وہی ہیں کہ جو پہلے کے ادیان معتبرہ میں تھیں، اس لیے ان ادیان معتبرہ پر اوس وقت عمل بالکل برحق اور فطرت پر عمل تھا مگر
پھر ان ادیان معتبرہ میں کمی بیشی کر دی گئی، لوگوں نے اپنی طرف سے اس میں کمی بیشی کی تو اللہ تعالی نے وقتا فوقتا انبیاء کرام علیہم السلام بھیجے تاکہ ان کمی بیشیوں کو ختم کر کے دوبارہ سے انسان کو فطرت کی طرف لایا جائے
اور
پھر اخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم دین اسلام لے کر ائے کہ جو کامل فطرت ثقافت روایت علم و عمل کا حامل ہے کہ جس پر اللہ تعالی نے انسان کو پیدا فرمایا ہے، وہی انسان کی اصل فطرت ہے جو اسلام کے موافق ہو۔۔۔جو روایت ثقافت اسلام کے موافق نہ ہو وہ انسان کی اپنی گندگی ہے ، اپنی من مرضی ہے ، اپنی من موجی ہے ، اپنی برائی ہے، اپنی غلط سوچ ہے ، اپنی کمزور و ناقص سوچ ہے
۔
لہذا عرب ہوں یا ہم پاکستانی یا دنیا کا کوئی ملک کسی کو اپنی ثقافت و روایت پر عمل کرنے کی اس وقت اجازت ہے کہ جو اس اسلام کے موافق ہو کیونکہ وہی اسلام موافق فطرت ہی اصل و مفید فطرت ہے کہ جس میں معاشرتی دنیاوی اور اخروی فائدہ ہے
اور
عرب عجم پاکستان بھارت چین روس امریکہ ساری دنیا میں جو روایات و ثقافات اسلام کے موافق نہ ہوں وہ انسان کی اصل فطرت ہے ہی نہیں، وہ برائی ہے، وہ غلط ہے ،وہ شیطانی عمل ہے، وہ دجالی عمل ہے۔۔۔ اس میں معاشرتی برائی ہے۔۔۔ اس میں انفرادی اجتماعی برائی ہے۔۔۔ اسی میں دنیا اور اخرت کا نقصان ہے، تباہی ہے
۔
پاکستان میں جب روایات و ثقافات کے نام پر دوپٹہ سر پہ ادھا لیا جاتا ہے تو علماء نے یہ فتوی نہیں دیا کہ جائز ہے۔۔۔پاکستان میں جب روایات و ثقافات کے نام پر سرائکی سندھی پنجابی بلوچی ڈانس میوزک عورت مرد سب اکٹھے بے تکلفی بے حیائی بے پردگی وغیرہ ہونے لگی اور اسے روایات و ثقافات کا نام دیا جاتا ہے تو کسی بھی معتبر عالم دین نے اس کو جائز نہیں کہا بلکہ مذمت کی ہے اور ہمیشہ سے اس کو روکنے کی بھرپور کوشش کی ہے
۔
بلکہ مزے کی بات تو یہ ہے کہ جن لوگوں کی عقل اج بھی درست ہے ،عقل سلیم ہے وہ بھی ان ثقافات و روایات کو غلط اور برائی شمار کرتے ہیں اگرچہ وہ اتنے زیادہ اسلامی طور پر علم والے نہیں ہوتے لیکن ان کی غیرت ، ان کی جرات جو انہیں ورثے میں ملی، وہ وہی غیرت جرات تھی جس پر اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کیا ، اسی پر اگر انسان فیصلہ کرے تو بھی یہی کہے گا کہ یہ ثقافت روایت برائی ہے، یہ ثقافت روایت غلط ہے
۔
مگر ہماری فطرت میں ہم نے ایسی گندی سوچ، ایسے گندے نظریات شامل کر لیے ہیں کہ وہ فطرت اب فطرت ہی نہ رہی بلکہ ہماری بری عادت بن گئی ہے جسے ہم نے فطرت روایت و ثقافت کا نام دے دیا ہے، اصل فطرت وہی ہے جو، اصل ثقافت وہی ہے جو، اصل روایت وہی ہے جو اسلام کے موافق ہو ، جس کی اسلام اجازت دیتا ہو
۔
اسلام نے کبھی پابندی نہیں لگائی کہ اپ سندھی اجرک نہ پہنیں بلکہ اسلام نے اس ثقافت کو جائز قرار دیا، اسلام نے کبھی پابندی نہیں لگائی کہ اپ فلاں فلاں مزیدار کھانے نہ کھائیں کہ جو میمن مہاجر پنجابی وغیرہ کی ثقافت میں روایات میں ہیں ، اسلام نے ان پر کبھی پابندی نہیں لگائی،اسلام جائز ثقافت کو، اسلامی حدود کی ثقافت کو جائز قرار دیتا ہے اس پر پابندی نہیں لگاتا، بلوچ کی ثقافت و روایت میں ہے کہ کچھ بلوچ و پٹھان بے گھر رہتے ہیں، کبھی وہ پہاڑ ان کا ٹھکانہ تو کبھی وہ چراگاہ ان کا ٹھکانہ، کبھی ٹھنڈے تو کبھی گرم علاقے چلے جانا۔۔۔۔اس روایت و ثقافت کو اسلام نے ناجائز قرار نہیں دیا بلکہ جائز قرار دیا بشرطیکہ اسلام کی حدود سے تجاوز نہ کیا جائے۔۔۔
۔
عربی لباس۔۔۔۔بلوچی لباس۔۔۔سندھی مہاجر پنجابی کشیمری وغیرہ مختلف لباسات کوٹ و کرتے بنیان و جبے جیسی سب ثقافت و روایات کو اسلام نے ناجائز نہیں قرار دیا بشرطیکہ بےپردگی بےحیائی نہ ہوتی ہو، تکبر و بڑائی نہ ہوتی ہو تو ہر ایک کو ایسی جائز ثقافتی روایتی لباس کھانے شانے دعوتیں محافل سب کی اجازت ہے بشرطیکہ اسلامی اجازت کی حدود کو نہ توڑا جائے
۔
*#چوتھی بات*
اسلام کا حقیقی مرکز قران و حدیث اور قران و حدیث سے ماخوذ فقہ و تصوف کے اصول و تعلیمات ہی اسلام کا مرکز ہیں۔۔۔مگر مکہ و مدینہ ، عرب ممالک اسلام کا مرکز سمجھے جاتے ہیں، تو ان مقامات پر تو شدید سختی سے عمل کرنا ہوگا کہ بری ثقافات و روایات کو سختی سے دفن کر دیں اور ایسی روایات و ثقافات پہ عمل کریں جس پر اسلام جائز ہونے کا فتوی دے۔۔۔جب اسلام کے مرکز سمجھے جانے والے عرب ممالک اور مکہ مدینہ گرد و نواح میں ان روایات ثقافات کو دوبارہ زندہ کیا جائے کہ جن کو اسلام مٹا چکا تھا تو پھر یہ اسلام پر شدید ترین وار ہے کہ جو دشمنان اسلام چاہتے ہیں، وار کرنا چاہتے ہیں ، یہ ان کا وار کہلائے گا، اسے عرب ثقافت و روایت کا نام دے کر جائز ہونے کی مہر نہیں لگائی جا سکتی بلکہ یہ اسلام پر شدید قسم کا حملہ کہلائے گا، اور یہ حملہ کرنے والے کوئی اور نہیں ٹرمپ عیسائی اور عرب کے موجودہ یہودانہ عرب حکمران ہی تو ہیں۔۔۔۔الا من اکرہ و اجاز لہ الشرع
۔
*#پانچویں بات*
1۔۔۔بال کھلے ہونا ان لوگوں کے سامنے کہ جن سے پردے کا حکم ہے
2۔۔۔ڈانس و رقص کرنا وہ بھی ان لوگوں کے سامنے کہ جن سے پردے کا حکم ہے
3۔۔۔اپنے گھر کی عورتوں کو ان سے ملوانا ان سے ہاتھ ملوانا کہ جن سے پردے کا حکم ہے
۔
یہ تینوں کام ٹرمپ کے لیے کیے گئے ہیں اور سعودی و عربی حکمرانوں نے یہ کام کیے ہیں اور عرب ممالک میں اس پر کوئی پرزور مذمتی اواز بھی نہیں اٹھائی جا رہی۔۔تو ائیے سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ یہ روایات ثقافات اسلامی نظر سے جائز ہیں یا ناجائز۔۔۔۔اور دیکھتے ہیں کہ اس پر اواز اٹھانے والے درست ہیں یا یہ کام کرانے والے حکمران دیوث بےغیرت منافق ہیں الا ما شاء اللہ و من اکرہ و اجاز لہ الشرع۔۔۔۔یہ حکمران کسی ایک فقہ کو تو مانتے نہیں، ایک فقہ کا حوالہ دو تو کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا عمل دوسری فقہ پر ہے تو لہذا ہم نے وہ دلائل دیے ہیں کہ جو تمام صحابہ کرام فقہائے اسلام، تمام علماء اسلام کے نزدیک معتبر ہیں اور وہ دلائل قران سے ہیں، احادیث مبارکہ سے ہیں، رسول عربی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے ہیں، جو کہ عین فطرت یعنی اچھی فطرت اصل فطرت کا حکم دیتے ہیں یعنی اللہ کا حکم اور رسول کریم کا حکم اور اسلام کا حکم احکامات تمام اسلامی ثقافت و روایات عین فطرت اصل فطرت ہیں۔۔۔اب بھی اگر کوئی نہ مانے تو پھر اسے مسلمان تو کیا، اچھا انسان کہلانے کا بھی حق نہیں۔۔۔۔۔۔!!
.
*#پہلی دلیل۔۔۔۔القرآن*
وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ تَعَالَوۡا اِلٰی مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ وَ اِلَی الرَّسُوۡلِ قَالُوۡا حَسۡبُنَا مَا وَجَدۡنَا عَلَیۡہِ اٰبَآءَنَا ؕ اَوَ لَوۡ کَانَ اٰبَآؤُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ شَیۡئًا وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس کی طرف اعتقاد و عمل کے لیے او کہ جو اللہ نے قران نازل کیا اور جو رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف نازل ہوا اس کی طرف آؤ(یعنی قران و حدیث اسلام کی طرف اؤ) تو کہتے ہیں ہمارے لیے تو وہ کافی ہے جو ہمارے باپ دادا کرتے و کہتے تھے اگرچہ ان کے باپ دادا علم والے نہ ہوں اور ہدایت والے نہ ہوں تب بھی یہ ( بےایمان گمراہ بدمذہب فاسق فاجر کافر مشرک) اپنے باپ دادا کی طرف جاتے ہیں
(سورہ مائدہ ایت104)
۔
اس ایت مبارکہ میں واضح ہے کہ اسلام کو پیمانہ بنائے بغیر اپنے بڑوں کی ثقافت و روایت کو لے کے چلنا اور انہی کے اقوال کو معتبر سمجھنا اور انہی کی باتوں کو، انہی کے کردار کو ، کاموں کو، ان کے مشن کو معتبر سمجھنا ، ہر حال میں انہی کو معتبر سمجھنا۔۔۔یہ سراسر غلط ہے۔۔۔۔باپ دادا جو کر گئے، جو کہہ گئے اور جو ثقافت روایت دے گئے یا معلومات و مشن و منصوبہ دے گئے اس کو اسلام یعنی قران و حدیث اور قران و حدیث سے ماخوذ فقہ و تصوف کے ترازو پہ تولنا لازم ہے اگر وہ اسلام کے موافق ہو تو پھر عمل کیا جا سکتا ہے ، اسلام موافق اقوال کو مانا جا سکتا ہے ورنہ اسلام کے موافق نہ ہوں تو وہ اقوال اور ایسی ثقافت، ایسی روایات سب مردود باطل شیطانی چال ڈھال ہیں، من موجی ہیں، نفس پرستی ہیں، قوم پرستی ہیں، انسانیت اور فطرت سے دور ہیں کیونکہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو حقیقتا اس عمل و اعتقاد و نظریات کی ہدایت دیتا ہے کہ جو ہماری حقیقی فطرت ہیں جیسا کہ اوپر ہم تیسری بات کے عنوان کے تحت ایت مبارکہ لکھا ائے ہیں۔۔۔۔!!
۔
اسلام ان ثقافت و روایات کو دفن کرنے کا کہتا ہے جو جاہلیت والی ہوں جو فطرت یعنی اسلام کے خلاف ہوں مگر یہ حکمران ان پرانی ثقافات و روایات کو تازہ کر رہے ہیں کہ جو گناہوں پر مشتمل ہے ، اسلام موافق نہیں ہے اور تائید کرنے والے شرم سے ڈوب مریں کہ اسلام و فطرت کے جو چیز موافق نہیں بلکہ جاہلیت والی ہیں، اس کی تائید کر رہے ہیں اور تاثر یہ دے رہے ہیں جیسے اسلام نے عرب کی پرانی تمام روایات و ثقافات کو جائز کے زمرے میں رکھا ہے۔۔۔۔لا حول ولا قوۃ الا باللہ
۔
اس ایت مبارکہ میں واضح ہے کہ ایسی ثقافت و روایات کو مردود کرار دیا گیا ہے جو اسلام کے موافق نہ ہوں۔۔۔۔اب یہ نہ کہیے گا کہ ہم نے اپنی طرف سے تفسیر کر دی بلکہ معتبر تفاسیر میں اپ کو یہ سب مواد مل جائے گا۔۔۔پھر بھی ہم دو احادیث مبارکہ بیان کر رہے ہیں کہ جو جاہلیت کی ثقافت و روایات کو چھوڑنے کا حکم دے رہی ہیں
۔
الحدیث:
بَايِعُونِي عَلَى : أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ، وَلَا تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ، وَلَا تَعْصُوا فِي مَعْرُوف
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ سے بیعت اس بات پر کرو کہ تم شرک نہ کرو گے اور چوری نہ کرو گے اور زنا نہ کرو گے اور اپنی اولاد کو نہ مارو گے اور کسی پر جھوٹا بہتان نہ باندھو گے اور نیکی کے معاملے میں نافرمانی نہیں کرو گے
(بخاری حدیث18)
۔
الحدیث:
، فَقَالَ : " أُبَايِعُكِ عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكِي بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقِي، وَلَا تَزْنِي، وَلَا تَقْتُلِي وَلَدَكِ، وَلَا تَأْتِي بِبُهْتَانٍ تَفْتَرِينَهُ بَيْنَ يَدَيْكِ وَرِجْلَيْكِ، وَلَا تَنُوحِي، وَلَا تَبَرَّجِي تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم (عورتوں) سے بیعت اس بات پر لے رہا ہوں کہ تم شرک نہ کرنا اور چوری نہ کرنا اور زنا نہ کرنا اور اولاد کو قتل نہ کرنا اور بہتان نہ باندھنا اور نہ ہی نوحہ کرنا اور نہ ہی جاہلیت کی طرح باہر نکلنا
(مسند احمد حدیث6850)
۔
ان دونوں احادیث مبارکہ میں اس وقت رائج برائیوں ثقافات روایات کو ختم کرنے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لی۔۔۔۔بے حیائی بے پردگی چوری زنا فحاشی عریانی اور رونا دھونا نوحہ کرنا اور جاہلیت والا نکلنا یہ سب ممنوع مردود باطل گناہ قرار دے دیا گیا کہ جو بعض صورتوں میں کفر تک ہو سکتا ہے۔۔۔بے پردہ ہو کر ڈانس کرتے ہوئے ٹرمپ کے لیے نکلنا بالکل اسی زمرے میں اتا ہے کہ جو جاہلیت والا باہر نکلنا ہے
.
۔
*#دوسری دلیل۔۔۔القران*
مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ مِنۡ اَمۡرِہِمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیۡنًا
جب اللہ فیصلہ فرما دے، حکم فرما دے اور اس کا رسول حکم دے دے، فیصلہ فرما دے تو کسی مومن عورت ، مومن مرد کو کوئی دوسرا اختیار باقی نہیں رہتا، اور جو اللہ کی نافرمانی کرے گا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو وہ بہت بڑی گمراہی ، واضح گمراہی میں ہے
(سورہ الاحزاب ایت36)
۔
اور اللہ نے حکم یہ بھی دیا ہے کہ زینت کو ظاہر نہیں کرنا یعنی بال وغیرہ ظاہر نہیں کرنا ، بے پردگی نہیں کرنی۔۔جیسا کہ دلیل نمبر تین میں ائے گا۔۔۔اور یہ دو حدیثیں بھی پڑھتے جائیے کہ اس میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے دیا کہ بے پردگی نہیں کرنی ڈانس نہیں کرنا بال نہیں کھولنے، بالوں کا بھی پردہ کرنا ہے، جبکہ اللہ اور رسول کے فرمان کے برخلاف ٹرمپ کے لیے عورتوں کو نچایا گیا ان کے بالوں کو بے پردہ کیا گیا۔۔۔لا حول ولا قوۃ الا باللہ
۔
الحدیث:
الْمَرْأَةَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِيضَ لَمْ تَصْلُحْ أَنْ يُرَى مِنْهَا إِلَّا هَذَا وَهَذَا ". وَأَشَارَ إِلَى وَجْهِهِ وَكَفَّيْهِ
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ جب عورت بالغ ہو جائے تو چہرے اور ہتھیلی کے علاوہ اس کے تمام جسم کو کوئی غیر مرد نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی یہ کسی غیر مرد کو دکھا سکتی ہے
(ابو داؤد حدیث 4104)
۔
الحدیث:
وَالتَّبَرُّجَ بِالزِّينَةِ لِغَيْرِ مَحَلِّهَا
اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو سخت ناپسند تھا کہ غیر مرد کو زیب و زینت دکھائی جائے، زیب و زینت والے اعضاء دکھائے جائیں
(نسائی حدیث5088)
.
*#تیسری دلیل۔۔۔القران*
وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا
اور عورتیں ہرگز اپنی زینت کو، زینت کی جگہوں کو نہ دکھائیں، ظاہر نہ کریں ،سوائے اس زینت کے کہ جو خود بخود ضرورتا ظاہر ہو
(سورہ نور آیت 31)
۔
اس ایت کے تحت بعض علماء نے فرمایا کہ چہرہ اور ہاتھ ہتھیلی پاؤں سب جگہ کو نقاب کرنا ہوگا چھپانا ہوگا، بس لباس کو چھپانے کے لیے دوسرا اوپر سے لباس پہننا لازم نہیں کہ پہلا لباس کافی ہو تو دوسرے کی ضرورت نہیں لیھذا یہ مت کہو کہ لباس بھی تو زینت ہے اس کو بھی چھپاؤ تو یہ درست نہیں کہ اسلام نے اس کو ضرورت کے تحت نہ چھپانے کی اجازت دی ہے۔۔۔۔لیکن بعض علماء نے فرمایا کہ دیگر دلائل کی وجہ سے اور حرج کی وجہ سے چہرے اور ہتھیلی کو چھپانا اور پاؤں کے نچلے حصے کو چھپانا لازم نہیں،کیونکہ ہتھیلی سے روزمرہ کے ضروری کام کاج روٹی پکانا وغیرہ کیے جاتے ہیں اور چہرہ پہچان کے لیے لازمی ہے کہ انسان بیوی بیٹی ماں بہن وغیرہ کی پہچان کر سکے، عدلیہ میں پہچان ہو، دیگر معاملات میں پہچان ہو۔۔۔لیکن دونوں گروہِ علماء اس بات پر متفق ہیں کہ
کان ، سر کے بال ، گردن اور گردن کے نیچے کا حصہ پاوں تک سارا چھپانا لازم ہے، فرض ہے، نہ چھپانا بے حیائی ہے دیوثی ہے، گناہ گمراہیت ہے اور بات کفر تک جا سکتی ہے
.
الزِّينَةَ الْخَفِيَّةَ الَّتِي لَمْ يُبَحْ لَهُنَّ كَشْفُهَا فِي الصَّلَاةِ وَلَا لِلْأَجَانِبِ، وَهُوَ مَا عَدَا الْوَجْهَ وَالْكَفَّيْنِ
چہرے اور ہتھیلیوں کے علاوہ سارے جسم کا پردہ کرنا فرض ہے لازم ہے چاہے نماز کا معاملہ ہو یا اجنبی کے دیکھنے کا معاملہ ہو
(تفسیر بغوی6/34)
۔
ومواضعها الرأس والأذن والعنق والصدور والعضدان والذراع والساق
وہ زینت کہ جو عورت اجنبی کو نہیں دکھا سکتی اور اجنبی اس کو نہیں دیکھ سکتا وہ زینت یہ ہے کہ بال، کان ، گردن سینہ ، بازو ، ایڑیاں(متفقہ طور پر تمام علماء کے مطابق مذکورہ ایت کی وجہ سے ان سب اعضاء کو چھپانا ڈھانپنا پردہ کرنا فرض ہے)
(تفسیر نسفی2/500)
۔
ابن عباس۔۔۔وشعرها، فإنه لا تبديه إلا لزوجه
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اس ایت کے تحت عورت اپنے بال بھی کسی کو نہیں دکھا سکتی کوئی شخص عورت کے بال بھی نہیں دیکھ سکتا سوائے میاں بیوی کے
(تفسیر طبری19/160)
.
فَيَحْرُمُ عَلَى الأَْجْنَبِيِّ النَّظَرُ إِلَى زِينَةِ الْمَرْأَةِ وَبَدَنِهَا، كُلِّهِ عَلَى رَأْيِ بَعْضِ الْفُقَهَاءِ، أَوْ مَا عَدَا الْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ عِنْدَ الْبَعْضِ الآْخَرِ. وَكَذَلِكَ يَجِبُ عَلَى الْمَرْأَةِ أَنْ تَسْتَتِرَ عَنِ الأَْجْنَبِيِّ بِتَغْطِيَةِ مَا لاَ يَحِل لَهُ رُؤْيَتُهُ
( اس ایت و دیگر دلائل کی وجہ سے) غیر محرم مرد پر حرام ہے کہ وہ عورت کی زینت والی جگہ یا اس کے بدن کو دیکھے، سوائے یہ کہ بعض فقہاء کے نزدیک چہرے اور ہتھیلی کو دیکھے تو گناہ نہیں، اسی طرح عورت پر فرض ہے کہ وہ اجنبی سے پردہ کرے اور ان اعضاء کو چھپائے کہ جن کو دیکھنا اجنبی کے لیے جائز نہیں ہے لہذا عورت اجنبیوں کو وہ اعضا نہیں دکھا سکتی اس کے لیے جائز نہیں ہے
(موسوعہ فقہیہ کوئیتیہ2/55)
۔
نظر الرجل إلى عورة المرأة، والمرأة إلى عورة الرجل، حرام بالإجماع"
تمام(صحابہ کرام تمام علماء کرام تمام مفسرین محققین) کا متفقہ اجماع ہے کہ مرد عورت کے پردے والی جگہوں کو دیکھے یہ حرام ہے اور اسی طرح عورت مرد کے پردے والی جگہوں کو دیکھے یہ حرام ہے
(موسوعۃ الاجماع3/117)
.
اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ عَلَى عَدَمِ جَوَازِ النَّظَرِ إِلَى شَعْرِ الْمَرْأَةِ الأَْجْنَبِيَّةِ، كَمَا لاَ يَجُوزُ لَهَا إِبْدَاؤُهُ لِلأَْجَانِبِ عَنْهَا
صحابہ کرام فقہاء اور دیگر تمام فقہاء کا متفقہ فتوی ہے کہ اجنبی عورت کے بالوں کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے اور اسی طرح عورت کا اجنبی لوگوں کے لیے اپنے بال دکھانا بھی جائز نہیں ہے
(موسوعہ فقہیہ کوئیتیہ26/107)
۔
*#الحاصل*
ان تمام دلائل سے، قران مجید سے، احادیث مبارکہ سے مفسرین سے، صحابہ کرام سے، ائمہ کرام سے، تمام فقہاء و صوفیاء اولیاء کرام سے ثابت ہے کہ
چہرے کی ٹکلی اور ہتھیلیوں کے علاوہ سارے جسم کا پردہ کرنا عورت پر فرض ہے، وہ اپنا جسم نہ تو مردوں کو دکھا سکتی ہے اور نہ ہی مرد اس کی طرف دیکھ سکتے ہیں، سوائے میاں بیوی کے۔۔۔ جبکہ ٹرمپ کے لیے خصوصی طور پر ننگے سر عورتیں، بال بکھیری عورتیں پیش کی گئی جو ڈانس کر رہی تھیں، جاہلیت والا ڈانس۔۔۔۔۔جو کہ ہرگز ہرگز جائز نہیں،گناہوں گمراہیت تو ضرور ہے بات کفر تک جا سکتی ہے
.
*#چوتھی دلیل۔۔۔الحدیث*
أَيُّمَا امْرَأَةٍ اسْتَعْطَرَتْ، فَمَرَّتْ عَلَى قَوْمٍ لِيَجِدُوا مِنْ رِيحِهَا فَهِيَ زَانِيَة
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو عورت خوشبو لگائے اور پھر مردوں پر گزرے تاکہ وہ اس کی خوشبو پائیں تو یہ عورت زانیہ ہے
(نسائی حدیث5126)
۔
بن سنور کر ٹرمپ سے ملنے والی عورتیں یا بنا سنوار کے ٹرمپ سے ملانے کے لیے لائی گئ عورتیں اس حدیث مبارک اور دیگر دلائل کی بنیاد پر گویا کہ زنا کرنے والی ہیں اور زنا اور بے حیائی کرانے والے یہ حکمران دیوث بے غیرت نہ کہلائیں تو اور کیا کہلائیں گے۔۔۔۔۔؟؟
.
*#پانچویں دلیل۔۔۔الحدیث*
لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، وَالْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ان مردوں پر کہ جو عورتوں سے مشابہت کریں اور ان عورتوں پر لعنت فرمائی کہ جو مردوں کی مشابہت کریں
(بخاری حدیث 5885)
۔
ٹرمپ کے لیے پیش کی جانے والی بے پردہ عورتیں سفید لباس پہنے ہوئے تھی اور سفید لباس مردوں کے لیے خاص ہے لہذا یہ عورتیں لباس کے معاملے میں مردوں سے مشابہت کر رہی ہیں جو کہ لعنت بھرا کام ہے اور یہ کام خود کر رہی ہیں اور جو اس پر راضی ہے یا جو یہ کام کرا رہا ہے وہ دیوٹ بے غیرت قرار پائے گا ناں۔۔۔۔؟؟ گناہ گمراہی بغیرتی تو ہے ہی ہے لیکن بات کفر تک بھی جا سکتی ہے
۔
*#چھٹی دلیل۔۔۔الحدیث*
وعن أبي سعيد قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: «الغيرة من الإيمان والمذاء من النفاق " قال: قلت: ما المذاء؟ قال: " الذي لا يغار
حضرت سیدنا ابوسعید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
غیرت ایمان میں سے ہے اور مذاء(بے غیرتی، دیوثی) منافقت میں سے، حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ مذاء کیا ہے....؟ ارشاد فرمایا کہ وہ جو غیرت نا کرے
(مجمع الزوائد حدیث7725)
.
الحدیث:
.فما الديوث من الرجال؟، قال: " الذي لا يبالي من دخل على أهله
رسول کریم سے عرض کیا گیا کہ دیوث(بے غیرت) کون ہے...؟آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:
دیوث، بے غیرت وہ ہے جسے کوئی پرواہ نہ ہو کہ اس کے اہلِ خانہ(بیوی بیٹی بہن وغیرہ) کے پاس کس کا آنا جانا ہے(یا اہلِ خانہ کا کس کے پاس آنا جانا ہے)
(شعب الایمان حدیث10310)
۔
.
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " ثَلَاثَةٌ قَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ الْجَنَّةَ : مُدْمِنُ الْخَمْرِ، وَالْعَاقُّ، وَالدَّيُّوثُ الَّذِي يُقِرُّ فِي أَهْلِهِ الْخُبْثَ
بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تین لوگوں پر اللہ تعالی نے جنت حرام کر دی ہے، ایک وہ کہ جو عادی شرابی ہو اور دوسرا وہ کہ جو نافرمان ہو اور تیسرا وہ کہ جو دیوث ہو، دیوث وہ ہوتا ہے کہ جو اپنے اہل خانہ میں برائی کو برقرار رکھے
(مسند احمد حدیث5372)
۔
عربی حکمرانوں کا یا دیگر حکمرانوں کا کسی حکمران ٹرمپ وغیرہ کسی حکمران کے لیے اپنی عورتیں پیش کرنا اور پیش کرنے میں کوئی پرواہ نہ کرنا دیوثی بےغیرتی نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟
.
وَهَذَا كُلُّهُ مَا لَمْ يَصْحَبِ الرَّقْصَ أَمْرٌ مُحَرَّمٌ كَشُرْبِ الْخَمْرِ، أَوْ كَشْفِ الْعَوْرَةِ وَنَحْوِهِمَا، فَيَحْرُمُ اتِّفَاقًا
بعض علماء فرماتے ہیں کہ رقص ڈانس ہر حال میں ناجائز ہے چاہے اچھے کلام پر کیا جائے یا برے کلام پر کیا جائے یا اچھائی ملنے پر یا اچھے موقع پر کیا جائے یا برائی میں کیا جائے ہر حال میں ناجائز ہے لیکن بعض علماء فرماتے ہیں کہ غیر رسمی غیر فحش جھومنا جائز ہے بشرطیکہ جائز یا اچھی چیز کی وجہ سے جھومے اور دوسری کوئی خرابی لازم نہ اتی ہو تو ایسا جھومنا جائز ہے
لیکن
تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ اگر جھومنے رقص کرنے میں کوئی ناجائز شامل ہو جائے جیسے کہ شراب یا بے پردگی وغیرہ تو پھر تمام علماء کے نزدیک متفقہ طور پر ایسا جھومنا ، ایسا رقص، ایسا ڈانس ناجائز و حرام ہے
(موسوعہ فقہیہ کوئیتیہ23/10)
۔
اور ٹرمپ کے لیے ایسا ناجائز رقص ہی کیا گیا ہے کہ بال کھلے تھے اور پردے وغیرہ کا بھی کوئی اہتمام نہیں تھا اور غیر مردوں کے سامنے ڈانس کرنا تو ویسے ہی ناجائز کہلائے گا چاہے جتنا بھی پردہ ہو۔۔۔!!
۔
*#جاگو، اٹھو، آواز بلند کرو،جلسے جلوس کرو*
القرآن:
اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ
بے شک انسان خسارے میں ہے سوائے اس کے کہ جو ایمان لے ائے، نیک عمل کرے اور حق کی تلقین کرتا رہے اور صبر کی تلقین کرتا رہے
(سورہ عصر ایت2،3)
.
الحدیث:
"أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ، أَوْ أَمِيرٍ جَائِرٍ..
وفي رواية النسائي والحاكم "كلمة الحق"
راہِ حق سے ہٹے ہوے ظالم بادشاہ یا راہِ حق سے ہٹے ہوے ظالم امیر(امیر یعنی حاکم،لیڈر، قاضی، جج، سردار وغیرہ کؤئی بھی ذمہ دار، عھدے دار)کے پاس عدل.و.حق کی بات کہنا افضل جھاد ہے
(ابوداؤد حدیث نمبر4344)
.
قران و حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم عربی غیرعربی تمام مسلم عوام و خواص برائی پے پرزور اواز اٹھائیں اور پرزور مذمت کریں اور طاقت ہو تو طاقت کے بل بوتے پر برائی کو روکیں اور اگر طاقت نہیں تو طاقت جمع کریں اس طرح کہ ہم جلسے جلوس کریں ریلیاں نکالیں اکٹھے ہو کر جلوس دھرنے دیں کہ فلاں کام فلاں برائی روکی جائے۔۔۔اس طرح اگر حکمران مجبور بھی ہوئے تو بھی وہ اپنے اقاؤں کو کہہ سکیں گے کہ ہم مجبور ہیں عوام بپھری ہوئی ہے، لہذا فلاں برا کام نہیں کیا جا سکتا ورنہ عوام ہمیں جوتے مارے گی یا پھر ہمیں اقتدار سے نکال دے گی یا ہمیں قتل کر ڈالے گی
حتی کہ
علماء کرام تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر بظاہر سارا معاشرہ نیک اور درست اور اچھا ہو تو بھی ایک دوسرے کو وعظ و نصیحت کرتے رہنا چاہیے ، ایک دوسرے کو اچھائی کی باتیں کرتے رہنا چاہیے تاکہ ائندہ کسی کے ذہن میں برائی پیدا نہ ہو تاکہ برائی کا پہلے سے ہی سد باب ہو
۔
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
New whatsapp nmbr
03062524574
00923062524574