سوال:
میرے ذہن میں یہ سوالات ابھرے اور مجھے لگا کہ شاید یہی سوالات نظریات بن کر بلوچ بھائیوں افغانی بھائیوں پنجابی بھائیوں میں رچ بس گئے ہوں۔۔۔اور یہ تین نظریات کی وجہ سے مسلمانوں میں اتحاد نہ ہو رہا ہو اور فتنے فساد ہو رہے ہوں غلط نظریات پیدا ہو رہے ہوں اور ان غلط نظریات کے پیدا ہونے کی وجہ سے غلط عمل کاروائی کی جا رہی ہو۔۔۔۔ شاید یہی مرکزی سوالات نظریات اصل مسئلے کی جڑ تو نہیں۔۔؟؟۔لیجئے اپ بھی سوالات نظریات کی ایک جھلک پڑھیے اور پھر ان کا جواب بھی پڑھتے ہیں
۔
1۔۔۔۔امریکہ کو پاکستان فوج اور حکمرانوں نے اڈے دیے اور امریکہ نے افغانستان کے بچوں اور عورتوں بوڑھوں ہسپتالوں مسجدوں سب کو شہید کیا اور افغان ہمیں امریکہ کا چیلا منافق سمجھتے ہیں تو پھر وہ عقلی لحاظ سے کیوں نا ہم پر حملے کریں۔۔۔؟؟ جب ان کی مساجد ڈھائی گئی تو پھر وہ ہم کو منافق سمجھ کر منافق کی مساجد میں کیوں بلاسٹ نہ کریں۔۔۔؟؟ جب ان کے بچوں عورتوں کو مارا گیا تو پھر پاکستان کے بچوں عورتوں کو کیوں نہ مارا جائے۔۔۔؟؟
نتیجہ:
یہی چیز کیا پتہ عام طور پر افغان عوام میں پھیلائی گئی ہو اور اسی کے تحت پاکستان سے نفرت، پاکستانیوں سے نفرت دشمنی اور جنگ دہشت گردی بلاسٹ وغیرہ ہوتے ہوں
۔
2۔۔۔۔جب پاک فوج بلوچ کو مارتے رہے ہیں چن چن کر تو پھر بولان ٹرین روک کر چن چن کر مارنا کیا بلوچوں کا بدلا نہیں ہے۔۔۔۔؟؟
نتیجہ:
شاید یہی نظریات بلوچ عوام میں رچا بسا دیے گئے ہوں کہ دیکھو پہلے ظلم پنجابی فوج کرتی ہے ہم تو صرف بدلہ لیتے ہیں ، حق طلبی کے لیے مزاحمت کرتے ہیں
۔
3۔۔۔جب بلوچوں کی عورتوں کو اٹھا لیا گیا عزت پہ ڈاکہ ڈالا گیا تو پھر بلوچوں کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ ڈاکہ ڈالنے والے کی عزت یعنی بچوں عورتوں کو ٹارگٹ کریں۔۔۔حساب تو ادھر بھی برابر ہے نا۔۔۔۔کیونکہ جنگ میں عورتیں اور بچے نہیں مارے جاتے اور جب پاک فوج نے عورتیں ایک طرح سے ماریں بلوچوں کی تو پھر بلوچ پاک فوج کے عورتیں بچوں کو ٹارگٹ کیوں نہ کریں۔۔۔۔؟؟
نتیجہ:
یہ نظریہ بھی بلوچ عوام کو دہشت گردی پر ابھارتا ہوگا
۔
4۔۔۔۔اپنے حق کے لیے بلوچ اور افغان اگر دشمنان اسلام ہندوستان سے مدد لیں تو کون سا بڑا جرم ہے کیونکہ پاک فوج بھی تو دشمنان اسلام امریکہ سے مدد و فنڈ لیتی ہے تو حساب برابر۔۔۔۔۔؟؟
نتیجہ:
یہ نظریہ بھی بلوچ عوام اور افغان عوام کو اسلام دشمن ہندوستان کا ساتھی بننے پر شاید ابھارتا ہو
۔
5۔۔۔جب معاہدوں کے مطابق اصولوں کے مطابق بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے صوبہ ہے تو پھر ازاد ملک بنانے کا کیا جواز بنتا ہے لہذا ازادی کا نعرہ لگانے والے بلوچ دراصل نسل پرست دہشت گرد ہیں
نتیجہ:
شاید یہی نظریہ پنجابی بھائیوں اور فوج اور حکمرانوں کو ابھارتا ہو کہ بلوچوں میں سے جو ازادی کا نعرہ لگاتے ہیں وہ بلوچ دہشت گرد ہیں اور وہ ہمارے دشمن انڈیا کی الہ کار ہیں لہذا ان سے لڑنا دراصل اسلامی ملک پاکستان کی حق کی جنگ لڑ رہے ہیں ہم اور یہ لوگ دہشت گرد ہیں
۔
*#جواب*
افغان بھائیوں کو جواب:
پیارے بھائی اسی عقلی سوچ کی بنیاد پر ہم سب چلیں گے تو پھر ایک دوسرے سے نفرت ہی کرتے جائیں گے، ہم ایک دوسرے کی مجبوریوں کو کیوں نہیں سمجھ پاتے۔۔۔اگر ایک ظلم کرتا ہے تو پھر اسلام کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ معاف کیا جائے ، دل جگرا بڑا رکھا جائے،کسی کی مجبوری کو سمجھا جائے،اگر کسی نے اڈے دیے تو فقط وہی مجرم ہے،اس مجرم کی سزا نہتے پاک فوج کے نوجوان اور نہتے پاکستانی عوام کو کیسے دی جا سکتی ہے۔۔۔۔؟؟
۔
بلوچ بھائیوں کو جواب؛
پیارے بھائی جب اسلام حکم دیتا ہے کہ ایک مضبوط ملک بناؤ تو پھر ہم پرانی روایات ثقافات پر چلتے ہوئے ازاد بلوچستان کا نعرہ کیوں لگائیں۔۔۔۔جب ہم بلوچ کے بڑے بڑے سردار اسلام قبول کر چکے تھے تو پھر ہم بلوچوں کو مسلمانی والا طریقہ اپنانا چاہیے نہ کہ عقل پر چلتے ہوئے ازاد بلوچستان کا نعرہ لگا کر مار دھاڑ شروع کرنی چاہیے
۔
پنجابی بھائیوں فوج حکمرانوں کو جواب:
اپ کے پاس کوئی ٹھوس دستاویز نہیں کہ بلوچ سرداروں نے پاکستان کا صوبہ ہونے کا اعتراف کیا تھا۔۔۔۔بلکہ بلوچ عوام و خواص تو یہی کہتی ہے کہ بعض سرداروں نے کبھی پاکستان سے الحاق کیا ہی نہیں تھا اور بعض سرداروں نے خود مختار ریاست کی حیثیت سے الحاق کیا تھا ،صوبے کی حیثیت سے الحاق نہیں کیا تھا، لہذا اپ ہمارے وسائل وغیرہ معاملات میں دخل اندازی کر کے ہمارے حقوق چھین رہے ہیں تو یہ اپ کی جنگ اسلام کی جنگ نہیں ہے بلکہ اپ کا ان بلوچوں کو دہشت گرد کہنا بھی ٹھیک نہیں اس عقلی حساب سے۔۔۔۔۔!!
اور اگر بلوچستان کو پاکستان کا صوبہ مان بھی لیا جائے تو بھی اس صوبے کی حقوق کو اتنا تلف کیا گیا کہ جس کی کوئی انتہا ہی نہیں، لہذا ہماری مذاہمت حقوق کی ہے، ہم دہشت گرد نہیں ہیں
۔
*#شرعی جواب*
پاک فوج اسلامی ملک کی فوج ہے تو اس میں نفاذ بھی اسلامی اصولوں کا ہوگا اور اسلامی اصولوں کے مطابق ہمارے بلوچ سردار وغیرہ مسلمان تھے تو شریعت مطہرہ کی روشنی میں ہم سب کو مل کر ایک مضبوط ملک بنانا چاہیے۔۔۔اس لیے بلوچ بھائی ازاد ملک کا نعرہ نہ لگائیں۔۔۔اور اسلام چونکہ تمام کے حقوق کا محافظ ہے لہذا حکومت وقت علماء کرام کی بڑی کمیٹی حقوق کی منصفانہ تقسیم کرے اور ہر وقت حکومت کی رہنمائی کرے نگرانی کرے تاکہ کوئی کسی کا حق نہ مار سکے،لہذا بلوچ بھائیوں کو یقین ہو جائے گا کہ پنجابی بھائی ہمارا حق نہیں مار رہے کیونکہ علمائ کرام نگہبان ہیں،افغان بھائی نہ اپ ہمارے دشمن ہو اور نہ ہی ہم اپ کے دشمن ہیں،ایک تو اپ ہماری مجبوری سمجھیں کہ کس مجبوری کے تحت اڈے دیے گئے اور اگر مجبوری نہیں سمجھتے تو کم سے کم اڈے دینے والے شخص کی سزا پوری قوم کو نہیں دی جا سکتی، پوری فوج کو نہیں دی جا سکتی،لہذا ہم سب کو مل بیٹھ کر علماء کی بہت بڑی کمیٹی بنانی چاہیے اور دشمن ملکوں انڈیا امریکہ روس وغیرہ کے الہ ہے کار بن کر ایک دوسرے پر حملے جنگیں نہیں کرنی چاہیے۔۔۔حکمت سیاست اور معافی اور کم نقصان اور رحمدلی معافی کا دل جگرا دل جگرہ ہم سب کے پاس ہونا چاہیے
۔
ظلم کا بدلہ ظلم کرکے نہیں لیا جاسکتا،کسی نے عورتیں بچے مارے تو آپ شرعاً آپ اسکے عورتیں بچے نہیں مار سکتے بلکہ معاملہ علماء کے سپرد کرنا ہوگا
۔
اسلام کے قوانین جاننے والے باشعور باریک بین علماء کہ جو مقامی اور بین الاقوامی سطح کی سیاست جانتے ہوں معاملات جانتے ہوں، وہی علماء اس فتنے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتے ہیں ورنہ عقل پر چلتے رہے تو ہر ایک فریق یہی کہے گا میں نے تو بدلہ لیا ہے اور بدلہ لینا شریعت میں حق ہے۔۔۔۔ارے اپ کو علم اتنا کہاں کہ اپ حق ناحق کا فیصلہ کرتے پھریں، علماء کرام کے دامن میں ائیں۔۔نیز دل جگرا جہاں بلوچ و افغان کو بڑا رکھنا چاہیے تو اس سے بھی زیادہ لازم ہے کہ پاک فوج و حکمران دل جگرا بڑا رکھیں اور عوام کو منائیں اور عوام کی دلوں میں جگہ بنائیں اور ان کے ظلم و ستم کو یہ سمجھ کر بھلا دیں کہ ریاست ایک ماں کی حیثیت رکھتی ہے ، بھلا ماں کسی بچے کو کیوں معاف نہیں کر سکتی۔۔۔۔۔؟؟ نفرتوں افراتفری جھگڑے وغیرہ مٹامے میں پہل تو ماں ہی کرتی ہے نا۔۔۔اگر ماں ہی لڑائی پہ اتر ائے تو گھرانہ نہیں چل سکتا، پھر سب کو بلا دلیل خوارج بھی تو نہیں کہہ سکتے اور پھر سب کو بلادلیل ملوث فتنہ بھی تو نہیں کہہ سکتے، اسلام نے فتنے کو کچلنے کا اولین طریقہ یہ بتایا ہے کہ سمجھاؤ، پیار دو ، محبت دو، شفقت دو ، حقوق دو، انہیں اپنا غلام سمجھنے بنانے کے بجائے اپنا دوست بھائی سمجھو اور عمل سے ثابت کرو۔۔۔۔پاک فوج پنچابی بھائیوں کے خلاف بلوچوں کی نفرت و دشمنی اور پاک فوج و حکمران و عوام سے افغانستان والوں کی نفرت و دشمنی کو ختم کرنے کے لیے ایک دوسرے کو پہل کرنی ہوگی، ہم سب کو دل جگرا بڑا رکھنا ہوگا ، ہم سب کو علماء کرام باریک بین باشعور علمائے کرام کے احکامات و تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا، ورنہ ہر کوئی اپنی ضد پر اڑا رہے گا اور بدلہ لینا حق سمجھے گا تو پھر یہ مسلمانوں میں پھیلائی گئی نفرت شاید بڑھتی ہی جائے
۔
تقریبا یہی شرعی جواب اور شرعی قواعد اور اصول 20 نکات میں میں نے اس تحریر میں لکھے ہیں۔۔۔ہم سب کو غور سے پڑھنا چاہیے پھیلانا چاہیے عمل کرنا چاہیے
@@@@@@@@@@@@@@@@
تحریر یہ ہے:
*#معاشرتی اصلاح۔۔۔بلوچ سندھی سرائکی پنجابی پٹھان کشمیری پنجابی مہاجر میمن پختون خوارج وغیرہ اور پاکستان۔۔۔؟؟ کون ہو حکمران۔۔؟؟ بغاوت، حق طلبی۔۔۔؟؟ وقت نکالیے بہت کچھ پڑھیے اس تحریر میں۔۔۔اور ہوسکے تو ضرور پھیلائیے، شیئر کیجیے۔۔۔۔۔۔!!*
خلاصہ:
1....افغان و پختون وغیرہ کو خوارج قرار دے کر قتل کرنا اور سندھیوں پر قوم پرستی کا ٹھپہ لگا کر قتل کرنا اغوا کرنا لاپتا کرنا اور اسی طرح بلوچوں کو فتنۃ الہند یا فتنۃ الہندوستان کہہ کر قتل کرنا لاپتا کرنا اغوا کرنا درست نہیں۔۔۔۔اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے، ایک دوسرے پر اس طرح کے فتوے بازی اور پریشر و جبری حکومت ہرگز نہیں کر سکتے،معاشرے میں چوری ڈاکہ وغیرہ بغاوت وغیرہ گناہ بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات جاہلیت یا کم علمی کی وجہ سے بھی ہوتے ہیں تو حکومت پاکستان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ تمام صوبوں کے اہلسنت سنی علمائے کرام کی مشاورت میں رہیں اور سنی علمائے کرام کے مشاورت سے انہی کے لیکچرز معلومات علم نظریات کو عام عوام تک پہنچایا جائے اور اگر کچھ حق تلفی ہو رہی ہے تو فورا دور کی جائے اور معذرت کی جائے اور جو کچھ حق تلفی نہیں لیکن دوسرے حق تلفی سمجھ رہے ہیں تو ان کو دہشت گرد یا فتنہ قرار دے کر قتل کرنے لاپتا کرنے کے بجائے علمائے کرام کی زبانی ان کو سمجھائیں کہ اپ کی حق تلفی نہیں ہو رہی اور نہ ہی اپ کی حق تلفی ہوگی کیونکہ علماء کرام اپ کے نگہبان بیٹھے ہیں
.
2....قومیت پرستی کی بنیاد پر جنگ لڑائی قتل و غارت جائز نہیں، بلوچستان کے نام پر سندھی پنجابی وغیرہ کو مارنا اور سندھو کے نام پر پٹھان بلوچ پنجابی وغیرہ کو مارنا اور پنجابی زیادہ سمجھدار ہیں نعرہ لگا کر بلوچوں سندھیوں وغیرہ کو کمتر و غلام سمجھنا حق تلفیاں کرنا، عزت عورتیں اغوا کرکے عزت پامال کرنا، نہریں چوری کھودنا حقوق پے ڈاکے مارنا اور طاقت کے بل بوتے پر ان پر حکمرانی کرنا سراسر نا انصافی ہے ظلم ہے، غنڈہ گردی، دہشتگردی ہے
.
3.....علماء کرام کے سمجھانے کے باوجود، وقت دینے کے باوجود اگر کوئی برائی باطلیت قومیت پرستی غنڈہ گردی وغیرہ کے ذریعے اسلام کو نقصان پہنچانے پر ڈٹا رہے ضدی فسادی ہو تو اس کا علاج مجبورا ٹھکانے لگانا سزا دلوانا بھی ہے، علماء کی مشاورت سے جو مناسب لگے وہی کیا جائے۔۔۔مگر دل جگرا بڑا رکھنے اور معاف کرنے اور اپنا بنانے کی روایت بھی اسلام کی اولین روایات میں سے، بہترین روایات میں سے ہے
.
4...بلوچ سندھی پختون کشمیری وغیرہ یہ ہرگز نہ کہیں کہ ہمیں ازاد کر دو بلکہ ان پر تو اسلام لازم کرتا ہے کہ اپ علماء کرام کی ہمراہی میں اواز بلند کریں کہ پاکستان ہمارا ہے، بلوچستان سندھ کشمیر پنجاب سمیت پورا پاکستان ہمارا ہے ، ہم سب مل کر اس کو اسلام کے مطابق چلائیں گے، عدل و انصاف کے ساتھ چلائیں گے۔۔۔اور پھر سنی علماء کرام وقتا فوقتا اصول و قوانین دلائل کے ساتھ لکھ کر دیں کہ ان اصولوں کے مطابق پاکستان چلے گا اور ان اصولوں کے مطابق یہ توانائی یہ معدنیات یہ پانی یہ سہولیات وغیرہ سب کو فلاں طریقے سے اسلامی نظریے اور دلائل کے تحت اس طریقے پر اس نہج پر اس فیصد پر ملتے رہیں گے۔۔۔۔یعنی حکومت وقت اور مسلم مخالفین مسلمان کہ جو حکومت وقت سے مخالف ہیں ان دونوں کے لیے ایک ہی راہ ہے ، ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے اہلسنت سنی علمائے کرام کی نگہبانی اور علمائے کرام کی سرپرستی اور علماء کرام پر لازم ہے کہ وہ جلد بازی نہ کریں بلکہ تمام علاقوں کے معتبر وسیع علم و معاملے کی کافی معلومات والے علماء و معتبرین مشائخ لیڈران کو اعتماد میں لے کر شرعی دلائل کی روشنی میں قوانین اور اصول وضع کرتے جائیں
۔
5....فتنۃ الخوارج فتنۃ الہندوستان کہنے والے تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے ملک پاکستان میں اسلام مکمل نافذ ہے اور عمل بھی مکمل ہو رہا ہے مگر یہ فتنے روڑے اٹکا رہے ہیں...ماہر علماء کی شوریٰ سے پوچھیے کہ یہ فتنے ہیں یا نہیں۔۔اگر ہیں تو سمجھانا سلجھانا اصل ٹارگٹ و مقصود و منصوبہ ہونا چاہے ناکہ ڈائریکٹ قتل و غارت کرنا، اغوا و لاپتہ کرنا،ناحق سزا و جیل کرنا۔۔۔۔۔!!
۔
6...ہم دباؤ ڈال کر مدارس اسکول کالج تعلیم ڈاکٹری فناس وغیرہ تمام شعبوں میں مرد و عورت کے لیے الگ الگ ادارے بنوائیں۔۔۔ہاسٹلوں پے سخت نگہبانی کرایں، مناسب عمر میں جلد ہی شادیاں کراکے آگے تعلیم و تربیت جاری رکھوائیں تاکہ گناہ و فتنے کا کسی کو جگہ و موقعہ ہی نہ ملے۔۔۔۔۔!!
۔
7۔۔۔۔آئی ایم ایف سے قرض لےکر غلام بنا کر ہاسپیٹلز کالجز لیپ ٹاپ چھ نہریں سرکٹیں بسیں وغیرہ سب سستی شہرت و طاقت کا گندہ دہندہ ہی تو ہے، سواں وغیرہ ڈیم بنائیے،ذخائر معدنیات زراعت ٹیکنالوجی میں چھا جائیے، قرض اتاریے ملک سنواریے، ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے ترقیاتی کام کرائیے۔۔۔ قرض و غلامی سے نجات پا کر پھر بڑے ترقیاتی کام کرائیے
۔
8۔۔۔مجبور حکمرانوں فوج وغیرہ پر جلدی سے فتوے مت داغیں کہ وہ ایجنٹ ہیں، یہودی ہیں بلکہ انہیں ہدایت کریں، ان کے لیے دباؤ پریشر بنائیں کہ وہ مجبور کرنے والوں کو بتا سکیں کہ ہم عوام کے ہاتھوں مجبور ہیں اگر عوام نے ہمیں پہچان لیا تو ہم تمہارے کام کے بھی نہ رہیں گے، اس طرح اہستہ اہستہ اسلام نافذ ہوتا جائے گا ، یہ نہ کریں کہ مجبور حکمران فوج کے متعلق کفر ایجنٹی کے فتوے لگا کر جہاد و بغاوت کا اعلان کر دیں، ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔دشمنان اسلام چاہتے یہی ہونگے کہ افراتفری اختلافات ہوں اور ایٹمی ملک پاکستان تباہ کیا جائے،اس پے قبضہ کیا جائے اور پھر تو مسلمانوں سے کسی کو خوف بھی نہ رہے اور عیاشی فحاشی برائی پھیلے۔۔۔کیونکہ اب بھی پاکستان کافی حد تک مسلم ممالک کے لیے ڈھال ہے کہ کہیں پاکستان دو چار ایٹمی بم مار کر تباہی نہ مچا دے
.
9....اگر عالمی طاقتیں کہیں کہ فلاں فتنۃ الہندوستان ہے اور فلاں فتنہ الخوارج ہے دونوں کو مارو تو حکمرانوں پر فوج پر لازم ہے کہ وہ کہے کہ یہ بھی ہدایت کے قابل ہوسکتے ہیں،ہم ان کو علماء و مشائخ کے ذریعے لیڈرو سرداروں کے ذریعے سمجھائیں گے یہی اسلام کا حکم ہے کہ سمجھاو، اسی پے صحابہ کرام نے عمل کیا کہ خوارج کو پہلے سمجھایا اور جو نہ سمجھے ضدی فسادی رہے تو مقابلہ کریں گے مگر کوشش پھر بھی یہی ہوگی کہ سمجھ جائیں۔۔۔۔پاکستانی حکمران کہیں کہ ہر ملک میں سفید سیاہ ملکی غیرملکی اور گینگز منشیات وغیرہ وغیرہ کے باغی ہوتے ہیں تو کیا وہ ملک ان سب کو مار دیتا ہے،ہرگز نہیں بلکہ کچھ کو سزا دیتا ہے اور کوشش کرتا ہے باقی سدھر جائیں، اسی طرح ہم بھی ان کو سمجھائیں گے اور ضدی فسادی کو سزا دیں گے لیکن اپریشن تمہارے کہنے پر نہیں کریں گے،قتل و غارت کی اپریشن کرنے کی بجائے علمائے کرام مشائخ عظام لیڈرو سرداروں کی سربراہی میں سمجھانے سلجھانے اپنا بنانے کے اپریشن کریں گے، بڑے بڑے جلسے جلوس کریں گے
۔
10۔۔۔۔کوئی بھی قوم کسی دوسری قوم سے نکلتی ہے اور وہ قوم پھر دوسری قوم سے نکلی ہوتی ہے اور پھر وہ قوم کسی اور قوم سے نکلتی ہے اس طرح کرتے کرتے ساری قومیں سارے لوگ سیدنا ادم علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد ہیں تو بلوچیت پہ ڈٹ جانا ، پنجابیت پہ ڈٹ جانا، مہاجرین میمنیت سندھیت افغانیت عربیت چینیت روسیت جرمنیت جاپانیت الغرض تمام یہ مناسبتیں یہ قومیں فقط پہچان کے لیے ہیں ، عقائد و نظریات کے لیے نہیں ہیں،عقائد و نظریات ہماری اصل کے مطابق ہیں اور ہماری اصل سیدنا ادم علیہ الصلوۃ والسلام ہیں، ہماری اصل انسانیت ہے وہی انسانیت جو سیدنا ادم علیہ السلام سے لے کر اخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت سکھائی۔۔۔۔تو یہ کہنا کہ ہم اصل میں بلوچ ہیں تو بلوچی ثقافت ہی رہے گی غلط ہے کیونکہ بلوچ بھی بلوچ ہونے سے پہلے کسی اور ثقافت پر تھے۔۔۔ اس طرح ثقافتیں بدلتی رہتی ہیں تو ہماری اصل ثقافت اصل روایت اسلام ہے اور اسلام ہی ان اصولوں کو پورا پورا بیان کرتا ہے کہ جو سیدنا ادم علیہ السلام سے لے کر اج تک کے انسانوں کے لیے مفید ہے لازم ہے۔۔۔اسی طرح کسی قوم کو یہ طعنہ مت ماریے کہ اپ تو منگول تاتار فرعون وغیرہ کی نسل میں سے ہو،ایسےطعنے ہرگز نہ ماریے کہ شریعت میں جائز نہیں
۔
*#تفصیل دلائل بہت کچھ نیچے لکھا ہے ضرور پڑھیے، ایک دم ساری تحریر پڑھیے یا تھوڑا پڑھیے پھر کچھ وقت بعد آگے پڑھیے،اس طرح ٹکڑوں میں پڑھیے مگر پڑھیے ضرور*
۔
*#گزارش*
علمی تحقیقی اصلاحی سیاسی تحریرات کے لیے اس فیسبک پیج کو فالوو کیجیے،پیج میں سرچ کیجیے،ان شاء اللہ بہت مواد ملے گا...اور اس بلاگ پے بھی کافی مواد اپلوڈ کردیا ہے...لنک یہ ہے:
https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1
.
https://www.facebook.com/share/16iosm6DFQ/
۔
*#تفصیل*
اب ہم کافی تفصیل 20 باتوں کے ضمن میں لکھ رہے ہیں،وقت نکالیے، ضرور پڑھیے، پھیلائیے
*#پہلی بات*
ہم سب مسلمان بھائی بھائی ہیں،جاہلیت کی جنگ لڑائی اور تعصب کی جنگ لڑائی اور قومیت پرستی کی جنگ و لڑائی بالکل ٹھیک نہیں ،جائز نہیں، اسلامی و اخلاقی ہر لحاظ سے جائز نہیں
القرآن:
اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ
مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں
(سورہ الحجرات آیت10)
پاکستان کے اس وقت جتنے بھی صوبے ، جتنی بھی قومیں، جتنی بھی ذاتیں پارٹیاں تنظیمیں تحرکیں ہیں ان سب کو متحد کرنے والی کڑی "اسلام" ہی ہے....اسلام بھائی چارے عدل انصاف سخاوت نرم دلی غیرت جراءت انسانیت سب کچھ مفید اصول و تعلیمات و اعمال کا درس دیتا ہے
اگر
قومیت پرستی وغیرہ کی بنیاد پے اس کڑی کو توڑنے کی کوشش کی گئ تو یہ ملک کئ ٹکڑوں میں بٹ جائے گا جسکا نقصان نہ صرف ہر قوم کو ہوگا بلکہ اسلام کا ایک مضبوط جوہری ملک بھی تباہ ہوجائے گا اور شاہد یہی ملک دشمن اسلام دشمن چاہتے ہیں کہ قوم پرستی پروان چڑھے
.
قومیت تو فقط پہچان کے لیے ہے
القرآن:
وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ
میں(اللہ)نے تمہیں شاخیں اور قوم قبیلے اس لیے بنایا تاکہ تم آپس میں پہچان رکھو، بے شک اللہ کے نزدیک عزت(اوقات) والا وہ ہے جو تم سے پرہیزگار ہو...(سورہ حجرات آیت13)
.
القرآن..ترجمہ:
اللہ کے لیے عزت ہے اور اسکے رسول کے لیے عزت ہے اور مومنین کے لیے عزت ہے..(سورہ منافقون آیت8)
۔
دونوں ایتوں سے واضح ہے کہ قومیت فقط پہچان کے لیے ہے اور
ہر قوم جو مسلمان ہو اسکی عزت ہے چاہے وہ بلوچی ہو یا پنجابی، پٹھان ہو یا سندھی، مہاجر ہو یا غیر مہاجر سب کی عزت ہے،،،سوائے اس کے کہ کوئی برے اعمال کر کے، برے نظریات رکھ کر ، پھیلا کر، برے کام کر کے اپنے اپ کو برا کر دے، اپنے اپ کو بےعزت شمار کرا دے
۔
اسلام نے تمام مسلمانوں کو عزت دی ہے،اور قومیت پرستی کی شدید مذمت کی ہے اور کسی کو کمتر سمجھنے کی شدید مذمت کی ہے جیسے کہ اوپر ایت میں مذکور ہے کہ تمام مسلمانوں کو عزت حاصل ہے لہذا دوسروں کو غلام و کمتر سمجھنا اسلامی و اخلاقی جرم ہے، سخت جرم
.
حدیث،ترجمہ
جو عصبیت(قوم پرستی، گروپ پرستی) کی طرف بلاے وہ ہم(اہل حق،اہل اسلام) میں سے نہیں..وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی لڑائ لڑے،وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر مرے..
(ابوداود جلد2 صفحہ698 حدیث5121 )
لیھذا
قومیت پرستی کی بنیاد پر جنگ لڑائی قتل و غارت جائز نہیں، بلوچستان کے نام پر سندھی پنجابی وغیرہ کو مارنا اور سندھو کے نام پر پٹھان بلوچ پنجابی وغیرہ کو مارنا اور پنجابی زیادہ سمجھدار ہیں نعرہ لگا کر بلوچوں سندھیوں وغیرہ کو کمتر و غلام سمجھنا اور طاقت کے بل بوتے پر ان پر حکمرانی کرنا سراسر نا انصافی ہے ظلم ہے، غنڈہ گردی، دہشتگردی ہے۔۔۔
.
حدیث،ترجمہ
عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم عصبیت کیا چیز ہے تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عصبیت(قوم پرستی، گروپ پرستی)یہ ہے کہ تم ظلم.و.ناحق پر قوم و گروپ کی مدد کرو..
(ابوداود جلد2 صفحہ698 حدیث5119)
.
اپ کے پاس،ہمارے پاس،حکمرانوں کے پاس بہت سارا شرعی علم نہیں ہوتا۔۔۔۔اس لیے ہم اپ اور حکمران یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ کون سا معاملہ حق ہے اور کون سا باطل کا کہ میں اپنی قوم کا اس معاملے میں دفاع کروں یا نہ کروں۔۔۔لہذا اپ پر ہم پر حکمرانوں پر کم علموں پر لازم ہے کہ وسیع علم والے شعور والے تجربے والے باریک بین علماء کرام مفتیان عظام جو مقامی و عالمی انفارمیشن بھی کافی رکھتے ہیں کی مشاورت سے علم حاصل کریں اور وہ جو فرمائیں کہ اپکا حق ہے تو اسی حق کو طلب کریں ، وہی حقوق طلب کر سکتے ہیں جو علماء اپ کا یا ہمارا حق قرار دیں
.@@@@@@@@@@@@
*#دوسری بات*
اپنی قوم کے حقوق، اپنے علاقے کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا اسلام کے دائرے میں رہ کر اور علماء کی مشاورت میں رہ کر کیا جائے تو بالکل برحق اور جائز ہے
حدیث:
خَيْرُكُمُ الْمُدَافِعُ عَنْ عَشِيرَتِهِ، مَا لَمْ يَأْثَمْ
تم میں سے بہتر وہ ہیں جو عزیز و اقارب قوم(پارٹی،وطن) کا دفاع و مدد کریں بشرطیکہ معاملہ گناہ(گناہ و ناحق) کا نا ہو۔۔۔(ابوداود جلد2 صفحہ698 حدیث5120)
۔
یہاں بھی یہ بات لازمی ہوتی ہے کہ ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ ہمارا کیا حق ہے اور ہمارا کتنا حق ہے اور دوسروں کا ہم پر کیا حق ہے اور دوسروں کا ہم پر کتنا حق ہے ، کس کو کتنا حق ملے گا، یہ سب ہم اور حکمران کم علم لوگ طے نہیں کر سکتے بلکہ یہ طے کرنے کے لیے علماء اسلام جو مستند ہوں ان کی دلائل و بارک بینی سے اور اسلام کی سربلندی کے تحت سب کو ساتھ لے کر سب کو سمجھا سلجھا کر اصول و قوانین وضع کیے جائیں۔۔۔۔سندھو دیش کا نعرے لگانے والے سے پوچھا جائے کہ اپ کے کیا حقوق ہیں اپ وہ لسٹ بنا کر دیں تاکہ ہم دیکھیں کہ شریعت کی روشنی میں وہ حقوق بنتے بھی ہیں یا نہیں
اور
اسی طرح بلوچوں سے کہا جائے کہ اپ لسٹ بنا کر دیں کہ اپ کے کیا حقوق اپ کی نظر میں ہیں تاکہ علماء کرام کی کمیٹی کے سامنے یہ رکھے جائیں اور وہ فیصلہ فرمائیں کہ کون سے حقوق بنتے ہیں اور کون سے نہیں بنتے اور کون سی حق تلفی غلطی بےتوجہی سے ہوگئ معاف ہے اور کون سی حق تلفی معاف نہیں ہے اور اگے کیسے چلنا ہے اور جبر کے ماحول میں حکمرانوں کے ساتھ کیسا معاملہ کرنا ہے، سب علماء کی مشاورت سے ہو ، علماء شرعی دلیل سے بات کریں، فیصلہ سنائیں
۔
سیاست طاقت تجارت تعلیم ٹیکنالوجی ادارے اور بڑے بڑے عہدوں اور گیس بجلی پانی توانائی معدنیات سونا چاندی وغیرہ ذخائر میں اسلام کی کیا تعلیمات ہیں، کس طرح ، کس فیصد سے تقسیم ہوں گی۔۔۔۔ یہ سب علماء اسلام دلائل کی روشنی میں ارشاد فرمائیں گے تو کسی کو بھی اختلاف نہیں ہوگا اور حق نہ حق، حق تلفی وغیرہ کہ معاملات و نفرتیں نہیں ابھریں گی۔۔۔۔!!
۔
@@@@@@@@@@@@@@
*#تیسری بات*
الگ ملک بنانے کے بجائے اسلام تعلیم دیتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ متحد ہو کر ایک ملک بنائیں جو طاقتور بن کر مسلمان ملک بنے اور اسی میں سب کی بھلائی ہے، اور معاملات علمائ کرام کی طرف لوٹائے جائیں اور علماء کرام مدلل و کافی علم کے بعد مشاورت سے فیصلہ سازی کریں قوانین بنائیں اور ہر ایک کو حقوق دلائیں اور حکمران علماء کے زیر نگرانی چلیں
اور
فروعی اختلاف اگرچہ شرائط کے تحت قابل برداشت ہے مگر پھر بھی کوشش کرنی چاہیے کہ اتحاد کی طرف جایا جائے اور ایثار اور قربانی دی جائے لیکن وہ اختلاف کہ جو شریعت نے جائز رکھا وہ اختلاف دلیل کی بنیاد پر ہو اور سچائی کی بنیاد پر ہو اور تعصب کی بنیاد پر نہ ہو قومیت پرستی کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ اسلام کی سربلندی کے لیے ہو مسلمانوں کی ترقی کے لیے ہو تو ایسا اختلاف کیا جا سکتا ہے اور ایسے اختلاف کو برداشت کرنا لازم ہے
.
القرآن:
وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ
ترجمہ:
اور آپس میں مت جگھڑو کہ تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمھاری قوت اور وقار جاتا رہے گا..(انفال 46)
اسلام ہماری طاقت اور وقار چاہتا ہے عزت چاہتا ہے اور عزت و وقار طاقت اسی میں ہے کہ ہم سب متحد رہیں، قریبی علاقے مل کر ایک مسلمان ملک بنائیں، اگر مسلمان علاقے والے ایک ملک بنانے کے بجائے ہر کوئی اپنا اپنا چھوٹا ملک بنانے کے پیچھے پڑ جائے تو قوت و طاقت میں کمی ائے گی لہذا ایک ملک پاکستان کو مضبوط بنائیں اور اگر ظلم ہو تب بھی صبر تو کر لیں مگر اسلام کو کمزور، ملک کو کمزور کرنے کے اقدام نہ کریں بلکہ علماء سے مدد لیں، آواز بلند کریں۔۔۔۔ ہم سب ایک دوسرے کا احترام کریں، ہم سب ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں اور ہم سب علمائے کرام کی رہنمائی میں چلیں
۔
القرآن:
لَوۡ رَدُّوۡہُ اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ
اگر معاملات و مسائل کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط(اہلِ تحقیق،باشعور،باریک دان،سمجھدار علماء صوفیاء)ضرور جان لیتے
(سورہ نساء آیت83)
آیت مبارکہ میں واضح حکم دیا جارہا ہے کہ اہل استنباط وسیع علم بارک بین معتبر ترین علماء صوفیاء کی طرف معاملات کو لوٹایا جائے اور انکی مدلل مستنبط رائے و سوچ و حکم کی تقلید و پیروی کی جائے....اس ایت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ قیاس و اجتہاد کرنا برحق علماء پر کبھی لازم تک ہو جاتا ہے
.
الحدیث:
إِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے اپنی امت پر ان لوگوں کا خوف ہے کہ جو گمراہ کن ائمہ(خطیب یوٹیوبر سوشلی اور جعلی محقق، جعلی عالم مفتی، واعظ بظاہر علم بیان کرنے والے) ہوں گے
(ترمذی حدیث2229)
.
گمراہ کن ائمہ اس طرح ہوں گے کہ کم علمی یا ایجنٹی یا عیاشی لالچ وغیرہ کی بنیاد پر غلط جواب دیں گے، قران مجید کی تمام ایات کی تفاسیر اس کو مد نظر نہ ہوں گی اور اکثر احادیث کا علم نہ ہوگا یا اکثر احادیث کا صحیح فہم نہ ہوگا اور اقوال صحابہ کرام کا علم نہ ہوگا... عربی علوم لغت معنی صرف نحو بدیع بیان حقیقت مجاز وغیرہ علوم و فنون اسے نہ ہوں گے اور وہ ان تمام کے بغیر مسائل نکال کر بتاتا پھرے گا۔۔۔ ایت و احادیث کی غلط تاویل و تفسیر و تشریح کرتا پھرے گا۔۔۔ پھیلاتا پھرے گا اور گمراہ ہوگا اور گمراہ کرتا پھرے گا... لہذا ان سے دور رہو یہ قران و حدیث کے حوالے دے تب بھی ان کا کوئی اعتبار نہ کرو کیونکہ یہ قران و حدیث کے معنی کرنے میں معنی و مقصود سمجھانے میں دو نمبری کرتے ہیں.... ان دو نمبر کو پہچانو.... ان دو نمبر کی وجہ سے اصلی علماء اصلی مولوی سے نفرت نہ کرو
.
الحدیث:
أَلَا إِنَّ شَرَّ الشَّرِّ، شِرَارُ الْعُلَمَاءِ، وَإِنَّ خَيْرَ الْخَيْرِ، خِيَارُ الْعُلَمَاءِ
ترجمہ:
خبردار............!! بےشک بد سے بدتر چیز برے علماء ہیں اور اچھی سے اچھی چیز اچھے علماء ہیں
(دارمی حدیث382)
غور کیا جائے تو اس حکم میں علم و معلومات پھیلانے والے تمام لوگ و ذرائع اس حکم میں شامل ہیں
لیھذا
*#کوئی بھی ترجمان، علماء، معلمین، مرشد، اساتذہ، میڈیا، سوشل میڈیا، صحافی، تجزیہ کار،وکیل،جج،جرنیل،مبلغ ، واعظ وغیرہ تمام وہ جو معلومات پھیلانے کے ذرائع ہیں وہ
اچھی سے اچھی چیز ہیں بشرطیکہ کہ اچھے ہوں سچے ہوں باعمل ہوں اور یہی لوگ بد سے بدتر ہیں اگر برے ہوں*
۔
اور اس کی پہچان ہم تھوڑی سی محنت کر کے کر سکتے ہیں کہ کون سچے دلائل دیتا ہے اور کون جھوٹے دلائل دیتا ہے۔۔۔ دو چار معاملات میں جھوٹا ثابت ہو جائے تو اس کے تمام معاملات میں اعتبار نہیں کیا جا سکتا
۔
الحدیث:
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کرب بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟“ تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پاس کو تو کیا کرو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے
(ابوداؤد حدیث3592)
.
ابو داود شریف کی مذکورہ حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن بعض اہل علم نے اس حدیث کو صحیح و دلیل قرار دیا ہے یا پھر حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے،دیگر دلائل سے اس حدیث کی تقویت ہوتی ہے
(انظر شرح ابوداود للعباد تحت الحدیث3592)
۔
اس حدیث پاک کی تائید اوپر والی آیت سے بھی ہوتی ہے کہ قیاس و اجتہاد بھی کبھی لازم تک ہو جاتا ہے
.
آیات و احادیث اور یہ حدیث مبارک مشعل راہ ہے کہ قران پھر حدیث و سنت پھر قرآن و سنت سے اخذ شدہ قیاس و استدلال برحق ہیں اور فقہ تصوف درحقیقت قران و سنت اور انہی پے مبنی قیاس و استدلال کا خلاصہ ہوتا ہے....اس حدیث مبارک سے واضح ہوتا ہے کہ قران حدیث و سنت سے اجتہاد و استدلال کرنا برحق و ماہر علماء کا منصب بلکہ ذمہ داری ہے....استدلال و قیاس کرنے میں سب متفق ہوں یہ ضروری نہیً لیھذا غیرمنصوص ظنیات و فروعیات میں کبھی اختلاف ہونا فطری عمل ہے، اسے حل کرنا اور کم سے کم کرنے کی کوشش کرنا چاہیے ورنہ برداشت ضرور کرنا چاہیے
.
الحدیث،ترجمہ:
غزوہ احزاب سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم(یعنی صحابہ کرام) سے فرمایا کہ:
تم میں سے ہر ایک بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھے" (صحابہ کرام نے جلد پہنچنے کی بھر پور کوشش کی مگر)راستے میں عصر کا وقت ختم ہونے کو آیا تو کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ ہم عصر نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی پڑہیں گے اور کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ نبی پاک کا یہ ارادہ نا تھا(کہ نماز قضا ہو اس لیے) ہم عصر پڑھ لیں گے
(طبرانی ابن حبان وغیرہ کتب میں روایت ہے جس میں ہے کہ کچھ صحابہ نے راستے میں ہی عصر نماز پڑھ لی اور کچھ نے فرمایا کہ ہم رسول کریم کی تابعداری اور انکے مقصد میں ہی ہیں لیھذا قضا کرنے کا گناہ نہین ہوگا اس لیے انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر نماز پڑھی)
پس یہ معاملہ رسول کریم کے پاس پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک پر بھی ملامت نا فرمائی
(بخاری حدیث946)
.
دیکھا آپ نے صحابہ کرام کا اختلاف برحق... صحابہ کرام نے اس برحق اختلاف پر ایک دوسرے کو کافر منافق فاسق گمراہ گستاخ نہیں کہا اور نبی پاک نے بھی کسی کی ملامت نا فرمائی...ایسا اختلاف قابل برداشت ہے بلکہ روایتوں میں ایسے فروعی برحق پردلیل باادب اختلاف کو رحمت فرمایا گیا ہے
.
اختلاف ایک فطرتی چیز ہے.... حل کرنے کی، کم سے کم کرنے کی بھر پور کوشش اور مقدور بھر علم و توجہ اور اہلِ علم سے بحث و دلائل کے بعد اسلامی حدود و آداب میں رہتے ہوئے پردلیل اختلاف رکھا جاسکتا ہے،ایسے اختلاف پے برداشت لازم
۔
@@@@@@@@@@@@@@
*#چوتھی بات*
ہمارے بڑے سردار چوہدری وڈیرے وغیرہ جو معاہدے فیصلے کر گئے وہ اگر اسلام کی روشنی میں درست ہوں تو درست اور نافذ قرار پائیں گے ورنہ ردی کے ٹوکرے میں ڈال دیے جائیں گے
القرآن:
وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ
جو کچھ اللہ نے احکامات نازل کییے ان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی فیصلہ کریگا تو وہی ظالم ہے
(سورہ مائدہ ایت45)
واضح ہوتا ہے کہ جو اسلام کی روشنی میں فیصلہ معاہدہ نہ کیا جائے یا اسلام کے مخالف فیصلہ معاہدہ کیا جائے تو چاہے وہ کتنے ہی بڑے پاور فل ادمی کا ہو کسی وڈیرے کسی چوہدری کا ہو معتبر نہیں۔۔۔ہاں علماء کرام مستند علماء کرام دلائل کی روشنی میں کسی کی تصدیق کر دیں تو اس کا فیصلہ درست ہو سکتا ہے، نافذ کیا جا سکتا ہے
۔
کہا جاتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے فلاں فلاں معاہدے کیے اس لیے پاکستان میں فلاں فلاں قانون ان معاہدوں کے تحت نافذ ہوں گے اگرچہ وہ معاہدے اسلام کی روشنی میں جائز نہ تھے پھر بھی اج کل سیاستدان اسی کو بنیاد بنا کر قوانین نافذ کر رہے ہیں تو یہ بات درست نہیں ہرگز درست نہیں،قائد اعظم محمد علی جناح ہوں یا علامہ اقبال یا پھر میر چاکر وڈیرے چوہدری سب کے معاہدے اسلام موافق ہوں تو ٹھیک ورنہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیے جائیں گے اور مل کر پاکستان کو ایک مضبوط اسلامی ملک بنائیں گے اور اسلامی قوانین نافذ کرتے جائیں گے
۔
@@@@@@@@@@@@@@@@@@
*#پانچویں بات*
پاکستانی بلوچی سندھی سرائکی پٹھان پختون ایران عرب روس امریکہ سارے ممالک میں وہی اصول اور ثقافت اور نظریات و قواعد وہی نافذ ہوں گے کہ جو اسلام کے مطابق ہوں گے ورنہ اسلام کے جو موافق نہ ہو وہ ثقافت وہ روایت وہ معلومات وہ قواعد و نظریات سب مردود شیطانی کہلائیں گے کہ جس میں معاشرتی انفرادی ہر طرح کی برائی ہے، یہ قومیت ملکیت وغیرہ سب پہچان کے لیے ہے عقائد و اعمال کے لیے مذہب اسلام ہی انسانیت کے لیے لازم ہے یہی حق سچ عدل و انصاف فوائد پر مبنی مذہب ہے
۔
ہم سب پر لازم ہے کہ ہم اپنے ابا و اجداد کے ثقافت سماج نظریات عقائد وغیرہ تعلیمات وغیرہ پر اس وقت عمل کر سکتے ہیں جب وہ اسلام موافق ہوں ، ہم سب پر لازم ہے کہ اسلام کے تعلیمات اسلام کے ثقافت اسلام کی قانون نظریات ہی کو مقدم رکھیں کیونکہ وہی اصل انسانی فطرت کے موافق ہے ،وہی اصل انسانی فطرت ہے کہ جس میں دین دنیا انفرادی اجتماعی ہر لحاظ سے فائدہ اور ترقی ہے
۔
القرآن:
فَاَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ؕ فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ
النَّاسَ عَلَیۡہَا
اللہ کریم نے حکم دیا ہے کہ اس دین حنیف (اسلام ) کے لیے کاربند ہو جاؤ کہ یہی دین ہے جس پر اللہ نے انسان کو فطرتی طور پر اس دین پر رکھ کر پیدا فرمایا ہے
(سورہ روم ایت30)
۔
جی ہاں اسلام میں بنیادی نظریات و ثقافت و روایات وہی ہیں کہ جو پہلے کے ادیان معتبرہ میں تھیں، اس لیے ان ادیان معتبرہ پر اوس وقت عمل بالکل برحق اور فطرت پر عمل تھا مگر
پھر ان ادیان معتبرہ میں کمی بیشی کر دی گئی، لوگوں نے اپنی طرف سے اس میں کمی بیشی کی تو اللہ تعالی نے وقتا فوقتا انبیاء کرام علیہم السلام بھیجے تاکہ ان کمی بیشیوں کو ختم کر کے دوبارہ سے انسان کو فطرت کی طرف لایا جائے
اور
پھر اخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم دین اسلام لے کر ائے کہ جو کامل فطرت ثقافت روایت علم و عمل کا حامل ہے کہ جس پر اللہ تعالی نے انسان کو پیدا فرمایا ہے، وہی انسان کی اصل فطرت ہے جو اسلام کے موافق ہو۔۔۔جو روایت ثقافت اسلام کے موافق نہ ہو وہ انسان کی اپنی گندگی ہے ، اپنی من مرضی ہے ، اپنی من موجی ہے ، اپنی برائی ہے، اپنی غلط سوچ ہے ، اپنی کمزور و ناقص سوچ ہے
۔
لہذا عرب ثقافت و روایات و اصول و تعلیمات و نظریات ہوں یا ہم پاکستانی یعنی بلوچی سندھی سرائکی پنجابی پٹھان کشمیری پختون وغیرہ کوئی بھی قوم برادری کی ثقافات و روایات و اصول و تعلیمات و نظریات ہوں یا دنیا کا کوئی ملک کسی کو اپنی ثقافت و روایت و اصول و تعلیمات و نظریات
پر عمل کرنے کی اس وقت اجازت ہے کہ جو اس اسلام کے موافق ہو کیونکہ وہی اسلام موافق فطرت ہی اصل و مفید فطرت ہے کہ جس میں معاشرتی دنیاوی اور اخروی فائدہ ہے
اور
عرب عجم پاکستان بھارت چین روس امریکہ ساری دنیا میں جو روایات و ثقافاتو اصول و تعلیمات و نظریات
اسلام کے موافق نہ ہوں وہ انسان کی اصل فطرت ہے ہی نہیں، وہ برائی ہے، وہ غلط ہے ،وہ شیطانی عمل ہے، وہ دجالی عمل ہے۔۔۔ اس میں معاشرتی برائی ہے۔۔۔ اس میں انفرادی اجتماعی برائی ہے۔۔۔ اسی میں دنیا اور اخرت کا نقصان ہے، تباہی ہے
۔
وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ تَعَالَوۡا اِلٰی مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ وَ اِلَی الرَّسُوۡلِ قَالُوۡا حَسۡبُنَا مَا وَجَدۡنَا عَلَیۡہِ اٰبَآءَنَا ؕ اَوَ لَوۡ کَانَ اٰبَآؤُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ شَیۡئًا وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس کی طرف اعتقاد و عمل کے لیے او کہ جو اللہ نے قران نازل کیا اور جو رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف نازل ہوا اس کی طرف آؤ(یعنی قران و حدیث اسلام کی طرف اؤ) تو کہتے ہیں ہمارے لیے تو وہ کافی ہے جو ہمارے باپ دادا کرتے و کہتے تھے اگرچہ ان کے باپ دادا علم والے نہ ہوں اور ہدایت والے نہ ہوں تب بھی یہ ( بےایمان گمراہ بدمذہب فاسق فاجر کافر مشرک) اپنے باپ دادا کی طرف جاتے ہیں
(سورہ مائدہ ایت104)
۔
اس ایت مبارکہ میں واضح ہے کہ اسلام کو پیمانہ بنائے بغیر اپنے بڑوں کی ثقافت و روایت کو لے کے چلنا اور انہی کے اقوال کو معتبر سمجھنا اور انہی کی باتوں کو، انہی کے کردار کو ، کاموں کو، ان کے مشن کو معتبر سمجھنا ، ہر حال میں انہی کو معتبر سمجھنا۔۔۔یہ سراسر غلط ہے۔۔۔۔باپ دادا جو کر گئے، جو کہہ گئے اور جو ثقافت روایت دے گئے یا معلومات و مشن و منصوبہ معاہدہ دے گئے اس کو اسلام یعنی قران و حدیث اور قران و حدیث سے ماخوذ فقہ و تصوف کے ترازو پہ تولنا لازم ہے اگر وہ اسلام کے موافق ہو تو پھر عمل کیا جا سکتا ہے ، اسلام موافق اقوال کو مانا جا سکتا ہے ورنہ اسلام کے موافق نہ ہوں تو وہ اقوال اور ایسی ثقافت، ایسی روایات سب مردود باطل شیطانی چال ڈھال ہیں، من موجی ہیں، نفس پرستی ہیں، قوم پرستی ہیں، انسانیت اور فطرت سے دور ہیں کیونکہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو حقیقتا اس عمل و اعتقاد و نظریات کی ہدایت دیتا ہے کہ جو ہماری حقیقی فطرت ہیں جیسا کہ اوپر ایت مبارکہ لکھ ائے ہیں۔۔۔۔!!
@@@@@@@@@@@@@@@
*#ساتویں بات*
غیر مسلم طاقتیں غالب ہوں اور وہ اسلام پر دباؤ ڈالتے رہے ہوں اور مختلف حیلے بہانے کر کے مسلم ممالک اور مسلمانوں کو شہید کرتے رہے ہوں اور مسلم ممالک تباہ کرتے رہے ہوں
تو اس صورت میں یہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے حکمران عالمی سطح پر مجبور ہوں جبر کا شکار ہوں تو اس صورت میں ہمیں نادان شدت پسند بن کر مجبور مسلمان حکمران و ممالک پر کفر کے فتوے لگانے،عالمی سطح کا ایجنٹ بننے کے بجائے علمائے اسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے احتجاج وغیرہ کریں دھرنے وغیرہ کریں اور ملک کے تمام اداروں کو اسلام کے مطابق کرتے جائیں تاکہ ان مجبور حکمرانوں کو بھی بہانہ ملے کہ عوام ہمیں جوتے مارے گی باہر نکال دے گی
.
*#اس صورت میں مجبور حکمرانوں فوج وغیرہ پر جلدی سے فتوے مت داغیں کہ وہ ایجنٹ ہیں، یہودی ہیں بلکہ انہیں ہدایت کریں، ان کے لیے دباؤ پریشر بنائیں کہ وہ مجبور کرنے والوں کو بتا سکیں کہ ہم عوام کے ہاتھوں مجبور ہیں اگر عوام نے ہمیں پہچان لیا تو ہم تمہارے کام کے بھی نہ رہیں گے، اس طرح اہستہ اہستہ اسلام نافذ ہوتا جائے گا ، یہ نہ کریں کہ مجبور حکمران فوج کے متعلق کفر ایجنٹی کے فتوے لگا کر جہاد و بغاوت کا اعلان کر دیں، ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔دشمنان اسلام چاہتے یہی ہونگے کہ افراتفری اختلافات ہوں اور ایٹمی ملک پاکستان تباہ کیا جائے،اس پے قبضہ کیا جائے اور پھر تو مسلمانوں سے کسی کو خوف بھی نہ رہے اور عیاشی فحاشی برائی پھیلے۔۔۔کیونکہ اب بھی پاکستان کافی حد تک مسلم ممالک کے لیے ڈھال ہے کہ کہیں پاکستان دو چار ایٹمی بم مار کر تباہی نہ مچا دے*
.
ہاں علماء کرام باہم مشاورت سے تحقیق سے دلائل سے اگر یہ فرما دیں کہ فلاں شخص یا حکمران مجبور نہیں بلکہ من مرضی سے برا ہے ایجنٹ ہے تو پھر اس کو سزا ملنی چاہیے، اس کا بائیکاٹ ہونا چاہیے علماء کی معیت و ہدایت میں ۔۔۔۔!!
۔
فتنۃ الخوارج فتنۃ الہندوستان کہنے والے تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے ملک پاکستان میں اسلام مکمل نافذ ہے اور عمل بھی مکمل ہو رہا ہے مگر یہ فتنے روڑے اٹکا رہے ہیں...ماہر علماء کی شوریٰ سے پوچھیے کہ یہ فتنے ہیں یا نہیں۔۔اگر ہیں تو سمجھانا سلجھانا اصل ٹارگٹ و مقصود و منصوبہ ہونا چاہے ناکہ ڈائریکٹ قتل و غارت کرنا، اغوا و لاپتہ کرنا،ناحق سزا و جیل کرنا۔۔۔۔۔!!
۔
.
جاگو، اٹھو، آواز بلند کرو،جلسے جلوس کرو،دباو ڈالو
القرآن:
اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ
بے شک انسان خسارے میں ہے سوائے اس کے کہ جو ایمان لے ائے، نیک عمل کرے اور حق کی تلقین کرتا رہے اور صبر کی تلقین کرتا رہے
(سورہ عصر ایت2،3)
.
الحدیث:
"أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ، أَوْ أَمِيرٍ جَائِرٍ..
وفي رواية النسائي والحاكم "كلمة الحق"
راہِ حق سے ہٹے ہوے ظالم بادشاہ یا راہِ حق سے ہٹے ہوے ظالم امیر(امیر یعنی حاکم،لیڈر، قاضی، جج، سردار وغیرہ کؤئی بھی ذمہ دار، عھدے دار)کے پاس عدل.و.حق کی بات کہنا افضل جھاد ہے
(ابوداؤد حدیث نمبر4344)
.
قران و حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم عربی غیرعربی تمام مسلم عوام و خواص برائی پے پرزور اواز اٹھائیں اور پرزور مذمت کریں اور طاقت ہو تو طاقت کے بل بوتے پر برائی کو روکیں اور اگر طاقت نہیں تو طاقت جمع کریں اس طرح کہ ہم جلسے جلوس کریں ریلیاں نکالیں اکٹھے ہو کر جلوس دھرنے دیں کہ فلاں کام فلاں برائی روکی جائے۔۔۔یا کسی اور طریقے سے، بائیکاٹ سے، دھمکی سے، کسی بھی مناسب طریقے سے پریشر ڈالا جائے اس طرح اگر حکمران مجبور بھی ہوئے تو بھی وہ اپنے اقاؤں کو کہہ سکیں گے کہ ہم مجبور ہیں عوام بپھری ہوئی ہے، لہذا فلاں برا کام نہیں کیا جا سکتا ورنہ عوام ہمیں جوتے مارے گی یا پھر ہمیں اقتدار سے نکال دے گی یا ہمیں قتل کر ڈالے گی
حتی کہ
علماء کرام تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر بظاہر سارا معاشرہ نیک اور درست اور اچھا ہو تو بھی ایک دوسرے کو وعظ و نصیحت کرتے رہنا چاہیے ، ایک دوسرے کو اچھائی کی باتیں کرتے رہنا چاہیے تاکہ ائندہ کسی کے ذہن میں برائی پیدا نہ ہو تاکہ برائی کا پہلے سے ہی سد باب ہو
.
۔@@@@@@@@@@@@@@@
*#اٹھویں بات*
عالمی طاقتیں جدید ٹیکنالوجی وغیرہ سے بھرپور ہیں اور وہ مسلسل مسلمانوں کو تباہ کر رہے ہیں اور مسلمان وقتا فوقتا پیچھے جاتے جا رہے ہیں اور کمزور ہوتے جا رہے ہیں اور مسلمانوں میں غیر مسلموں کی ثقافت گناہ وغیرہ بڑھتے جا رہے ہیں تو ایسی صورت میں ہمیں شدت پسندی ہرگز نہیں کرنی چاہیے کہ حکمران عالمی سطح پر مجبور ہو کر سود کی تجارت کر رہے ہوں اور مرد اور عورت کی اکٹھے تعلیم کرا رہے ہوں یہ سب عالمی جبر کے تحت کر رہے ہوں ایسا ہو سکتا ہے تو لہذا فوج یا حکمرانوں پر فورا سے منافق و ایجنٹ ہونے کا فتوی لگا کر قتل و غارت اور افرا تفری مچانے کے بجائے ہم احتجاج جلسے جلوس اور دیگر طریقوں سے دباؤ ڈالتے رہیں اور اپنے عمل سے ثابت کر دیں کہ ہم غیر مسلم کے اصولوں پر نہیں چلیں گے، اس طرح غیر مسلموں کی چال خودبخود ناکام ہوتی جائے گی اور اس طرح ہم اسلامائزیشن کرتے جائیں گے ہر ادارے کی۔۔۔!!
.
*#ہم دباؤ ڈال کر مدارس اسکول کالج تعلیم ڈاکٹری فناس وغیرہ تمام شعبوں میں مرد و عورت کے لیے الگ الگ ادارے بنوائیں۔۔۔ہاسٹلوں پے سخت نگہبانی کرایں، مناسب عمر میں جلد ہی شادیاں کراکے آگے تعلیم و تربیت جاری رکھوائیں تاکہ گناہ و فتنے کا کسی کو جگہ و موقعہ ہی نہ ملے۔۔۔۔۔!!*
@@@@@@@@@@@@@@@@
*#ناویں بات*
میری نماز میری قربانی میرا جینا میرا مرنا سب اللہ ہی کےلیے ہے(سورہ انعام162)
میں(اللہ)نے تمھارے لیے اسلام کو چنا ہے(مائدہ3)
لیھذا حکمران و مسلم عوام جتنے بھی دباؤ پریشر میں ہوں اپنا اصل مقصد منزل نہ بھولیں کہ ہماری اصل مقصد و منزل اسلام ہے، اسلام کی سربلندی ہے، اسلام کے لیے جینا مرنا ہے
۔
اللہ کو وہ امراء(حکمران،وزراء،لیڈر جرنیل)پسند ہیں جو علماء سےمل بیٹھ کر(اسلام مطابق)مشاورت و فیصلےکریں،حکومت چلائیں(کشف الخفاء2/389)علماء حق کی شان نہیں کہ وہ حکمرانوں کے مہرے بنیں…ہاں حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ اسلامی معاملات نصاب و نظام کی اسلامائیزیشن میں علماء صوفیاء کے مہرے بنیں، جدت ٹینکالوجی وغیرہ دنیاوی معاملات میں باہم معاون و مشاور بنیں
۔
حکمران فوج وغیرہ پر لازم ہے کہ وہ عالمی سطح پر ڈٹے رہیں کہ ہم اسلام پر عمل کر کے ہی رہیں گے کیونکہ ہر ایک کو اپنے مذہب پر ازادی ہے تو ہمیں بھی اپنے اسلام مذہب پر ازادی ہے۔۔۔اگر انہیں عالمی سطح کا دباؤ ہے اور وہ اسلام کو نافذ نہیں کر پا رہے تو جتنا کم دباؤ میں ہو سکیں اتنا کم دباؤ میں ائیں اور اس صورت میں اگر عالمی طاقتیں کہیں کہ فلاں فتنۃ الہندوستان ہے اور فلاں فتنہ الخوارج ہے دونوں کو مارو تو حکمرانوں پر فوج پر لازم ہے کہ وہ کہے کہ یہ بھی ہدایت کے قابل ہوسکتے ہیں،ہم ان کو علماء و مشائخ کے ذریعے لیڈرو سرداروں کے ذریعے سمجھائیں گے یہی اسلام کا حکم ہے کہ سمجھاو، اسی پے صحابہ کرام نے عمل کیا کہ خوارج کو پہلے سمجھایا اور جو نہ سمجھے ضدی فسادی رہے تو مقابلہ کریں گے مگر کوشش پھر بھی یہی ہوگی کہ سمجھ جائیں۔۔۔۔پاکستانی حکمران کہیں کہ ہر ملک میں سفید سیاہ ملکی غیرملکی اور گینگز منشیات وغیرہ وغیرہ کے باغی ہوتے ہیں تو کیا وہ ملک ان سب کو مار دیتا ہے،ہرگز نہیں بلکہ کچھ کو سزا دیتا ہے اور کوشش کرتا ہے باقی سدھر جائیں، اسی طرح ہم بھی ان کو سمجھائیں گے اور ضدی فسادی کو سزا دیں گے لیکن اپریشن تمہارے کہنے پر نہیں کریں گے،قتل و غارت کی اپریشن کرنے کی بجائے علمائے کرام مشائخ عظام لیڈرو سرداروں کی سربراہی میں سمجھانے سلجھانے اپنا بنانے کے اپریشن کریں گے، بڑے بڑے جلسے جلوس کریں گے
۔
@@@@@@@@@@@@
*#دسویں بات*
القرآن،خلاصہِ آیت:
جھادِ برحق اور اللہﷻاور اس کے رسولﷺکی محبت میں اور اسلام کی سربلندی میں اٹھائےجانےوالے اقدام مقدم ہیں والدین سے، خاندان قوم قبیلے اولاد آباء.و.اجداد سے،ملکیت و جائیداد سے، تجارت معیشت مال و گھر و محلات سے(دیکھیے سورہ توبہ آیت24+تفاسیر)
۔
اسلام ہر چیز پر مقدم ہے، اور اسلام کا سچا ترجمان مسلک حق مسلک اہل سنت سنی ہی ہے، جس کی ترویج نشر و اشاعت و بیان پختگی اور نفاذ لازم ہے
اسلام اسلام اسلام۔۔۔۔پھر روٹی کپڑا برادی مکان ترقیاتی کام
۔
ان ترقیاتی کاموں کا کیا فائدہ کہ ہم غیر مسلموں کے ائی ایم ایف وغیرہ کے غلام بنتے جائیں اور اسلام کے نظریات و تعلیمات کو ایک ایک کر کے چھوڑتے جائیں یہ کہاں کی ترقی ہے۔۔۔۔؟؟ ایسی ترقی ایسی میٹرو بسیں،لیپ ٹاپ، اسکوٹر، بےنظیر امداد، راشن، ٹرک، آلات، ایسی جدید ترین سہولیات بنگلے گاڑیاں سب باطل و مردود بے فائدہ ہیں۔۔۔۔ترقیاتی کام کرائیے مگر اس آڑ میں غیرمسلموں کا غلام نہ بنائیے۔۔۔
۔
آئی ایم ایف قرض لےکر غلام بنا کر ہاسپیٹلز کالجز لیپ ٹاپ چھ نہریں سرکٹیں بسیں وغیرہ سب سستی شہرت و طاقت کا گندہ دہندہ ہی تو ہے، سواں وغیرہ ڈیم بنائیے،ذخائر معدنیات زراعت ٹیکنالوجی میں چھا جائیے، قرض اتاریے ملک سنواریے، ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے ترقیاتی کام کرائیے۔۔۔ قرض و غلامی سے نجات پا کر پھر بڑے ترقیاتی کام کرائیے
۔
سیاست عدلیہ بینک تجارت فوج سیکیورٹی تعلیمی ادارے نجی ادارے سرکاری ادارے اسکول کالج سائنس جدت ٹیکنالوجی تمام شعبوں میں تمام اداروں میں اسلام کی سربلندی نافذ کی جائے، ان سب اداروں شعبوں کو اسلام موافق کیا جائے۔۔۔۔۔اس کے لیے جلد اقدامات اٹھائے جائیں اور اگر عالمی دباؤ ہو تو انہیں جواب دیا جائے سمجھایا جائے کہ ہر ایک کو اپنے مذہب پر ازادی ہے تو ہمیں ازادی کیوں نہیں اور اگر پھر بھی پریشر اور عالمی دباؤ قائم رہے تو ہمیں بھی دباؤ قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور پھر کم سے کم دباؤ میں انا چاہیے
@@@@@@@@@@@@@
*#گیارویں بات*
پانی گیس بجلی سونا چاندی گندم چاول اناج کپاس وغیرہ معدنیات و ذخائر اور چیزیں سب کی تقسیم کاری پر علمائے کرام کی مشاورت سے جو حکم نکلے اسی پر عمل کیا جائے۔۔۔۔نہ کسی کو نقصان دیا جائے ، نہ کسی سے نقصان اٹھایا جائے، غریبوں کسانوں کو نقصان نہ دیا جائے بلکہ ان کی ترقی سوچی جائے ان کو غلام نہ بنایا جائے بلکہ انہیں امیر دوست بھائی بنایا جائے، تمام معاملات میں علماء کرام کی مدلل رائے اور حکم کی پیروی کی جائے
۔
@@@@@@@@@@@@@
*#بارہویں بات*
ہر قوت طاقت جدت۔محاذ......!!
القرآن..ترجمہ:
جو قوت،طاقت ہوسکے تیار رکھو..(انفال60)
آیت مبارکہ مین غور کیا جائے تو ایک بہت عظیم اصول بتایا گیا ہے... جس میں معاشی طاقت... افرادی طاقت... جدید ہتھیار کی طاقت...دینی علوم و مدارس کی طاقت, جدید تعلیم و ترقی کی طاقت.... علم.و.شعور کی طاقت... میڈیکل اور سائنسی علوم کی طاقت... جدید فنون کی طاقت... اقتدار میں اچھے لوگوں کو لانے کی طاقت.. احتیاطی تدابیر مشقیں جدت ترقی
اور دیگر طاقت و قوت کا انتظام کرنا چاہیے... ہر مناسب و اچھے شعبے و محاذ میں چھایا جائے، ترقی کی جائے، اچھے لوگوں کو لایا جائے، اچھے لوگوں کو ترقی دی جائے
.
جدت ممنوع نہیں بشرطیکہ کسی ممنوع شرعی میں شامل نہ ہو(فتاوی رضویہ22/191)اسلام بےشک مدارس اسکول کالج وغیرہ کی جدت،جدید تعلیم.و.ٹیکنالوجی کےخلاف نہیں مگر جدت و تعلیم کےنام پر خفیہ سیکیولرازم،لبرل ازم،فحاشی بےحیائی کےخلاف ہے…
.
@@@@@@@@@@@@@@@
*#تیرھویں بات*
معیشت دولت کسان مزدور مراعات.....!!
معیشت پے توجہ ترقی دینی ہوگی، مزدور کسان کو عزت دینی ہوگی کہ عظیم سرمایہ ہیں، سرکاری جابز کی موٹی تنخواہیں کم کرنا ہونگی...انکی مرعات کم کرنا ہونگی، سرمایہ دار زیادہ بنانے کے بجائے دولت زمین کو غرباء مزدور کے حوالے کرکے سب کو امیر سخی بنانا ہوگا کوئی غنڈہ کوئی کھرب پتی نہ بنتا جائے کہ غلام بناءے...بلکہ ایک دوسرے کو ترقی دے کر دوست و بھائی بنانا ہوگا...کمزورو بچون پے رھم و سخاوت کرنا بھی لازم مگر اصل ہدف ہر ایک کو اپنے پاؤں پے کھڑا کرنا ہو....!!
.
@@@@@@@@@@@@
*#چودویں بات*
تفریح کھیل کی اسلامائیزیشن یا بائیکاٹ.....!!
تفریح کبھی کبھار کی ضروری ہے.... جائز تفریح فراہم کرنا ہوگی ورنہ عوام ناجائز تفریح میں پڑ جائے گی... تفریح و کھیلوں کو اسلام کے قواعد پر ڈھالنا ہوگا .... اسلام موافق بنا کر اجازت دینا ہوگی ورنہ تفریح کے نام پر پھیلائی جانے والی فحاشی بےدینی الحاد ہرگز ہرگز جائز نہیں ایسی تفریح بھی جائز نہیں ہے کہ جو ایسی برائیوں کو اجاگر کرے یا دشمنان اسلام کی کمپنیوں کو مصنوعات کو پرموٹ کرے یا دشمنان اسلام کو فائدہ پہنچائے کہ مسلمانوں کو اس سے نقصان ہو
ایسی صورت میں لازم ہے کہ تفریح کم سے کم اور کبھی کبھار کی ہو تو بھی اسلام کے اصولوں کے مطابق ہو اور اس سے کوئی برائی یا اسلام کا کوئی نقصان نہ ہوتا ہو ورنہ اس تفریح کا بھی بائیکاٹ لازم ہے
.@@@@@@@@@
*#پندرویں بات*
پسماندہ علاقوں کی تعلیم و جدت و ترقی۔۔۔۔۔۔۔!!
دور دراز و پسماندہ علاقوں کے لوگوں کو جاہل رکھ کر حکمرانی کرنا انتہاءی گھٹیا پن ہے....مقامی لوگ اور ترقی یافتہ لوگ مل کر پسماندہ علاقوں میں تعلیم جدت ادارے بندوبست کریں...پسماندہ کم علم بھائیوں کو ساتھ لے کر چلیں، ترقی دیں، مواقع دیں، سکھائیں، علم و شعور دیں
الحدیث…ترجمہ:
گناہ گار ہونےکےلیےاتنا کافی ہےکہ کوئی اپنے عیال.و.ماتحتوں کو ضائع کرے(ابوداؤد حدیث1692)
اےحکمرانوں، وڈیرو، آفیسرو، ذمہ دارو، عہدے والو، علم والو، گدی نشینو، استادو...والدین...سرپرستو سنو........!!
اسلام ہمیں سمجھاتا ہے کہ:
اولاد، اہلِ خانہ، طلباء، مرید، مزدور، کسان، عوام ، ورکرز وغیرہ ماتحتوں،چھوٹوں کو غلام.و.حقیر نہ سمجھو.......انکی ترقی، بھلائی،بڑائی سوچو..........!!
.@@@@@@@@@@@@@
*#سولہویں بات*
خصوصی جدید ادارے......!!
سائنس طب تیکنالوجی ارضیات فلکیات کے علوم کے لیے جدید علوم کے لیے بنیادی دینی تعلیم دینے کے بعد یہ علوم دیے جاءیں جن کے لیے الگ ادارے ہوں جہاں اسکول کالج کے طلباء اور مدارس کے طلباء اکھٹے جدید علوم میں مہارت حاصل کریں...جدید علوم میں سے اچھے مفید علوم کا نصاب بناتے جاءیں تاکہ دیگر طلباء مستفید ہوں، اور بنیادی تعلیم ہوگی تو جدید علوم کے ذریعے اسلام کا دفاع کر سکیں گے...اسلامی عقاءد و نظریات و قوانین کو مفید ثابت کریں گے.. آنے والے خطرات سے مقابلہ کر سکیں گے...
.@@@@@@@@@@@@
*#ستارہویں بات*
دینی علوم عمل عبادات کی طرف خصوصی توجہ....!!
القرآن:
فَلَوۡ لَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرۡقَۃٍ مِّنۡہُمۡ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیۡنِ وَ لِیُنۡذِرُوۡا قَوۡمَہُمۡ
تو کیوں نہ ہو کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی فقہ و سمجھ حاصل کریں اور اپنی قوم کو ڈر سنائیں(باعمل ہوکر علم شعور معاشرےمیں پھیلائیں)
(سورہ توبہ آیت122)
.
حکیموں کا حکیم ، رب کریم جل شانہ فرماتا ہے:
القرآن،ترجمہ:
جس نے میری یاد(ذکر، دعا، نماز،عبادات،اسلامی اخلاقی پابندیوں،ذمہ داریوں، تعلیمات اسلام)سے منہ موڑا
(بےعمل بدعمل ہوا) اس کے لیےتنگ زندگانی (بےسکون ، بےمزہ ،بےبرکت تنگ زندگانی)ہے
(سورۃ طحہ آیت124)
۔
عبادت ذکر اذکار کا شوق دلانا اسکے فوائد بتانا ضروری ہیں ....فلاحی کام بھی اللہ کی رضا کے لیےہی ہونے چاہیے کسی کو غلام و گرویدہ چمچہ چاپلوس بنانے کے لیے نہ ہوں،کسی ایجنٹی خفیہ اسلام دشمنی میں نہ ہوں ورنہ علم عبادات تقریر تحریر کتابیں سب کچھ منہ پے مارے جائیں گے
.
پاکیزگی نیکی سچائی صبر غیرت وفا، وسعت ظرقی جرات حق گوئی درد احساس ،جائز و کم تفریح، اصلاح تبلیغ اچھی دولت طاقت سخاوت محبت و اخلاق بھری زندگی ہی میں لطف و سکون ہے،مزہ ہے…
.
برائی تکبر لالچ حسد جھوٹ مکاری مفاد کھلی آزدی و عیاشی بےحیائی منافقت الحاد میں عارضی نفع تو ہوسکتا ہےمگر مستقلا مجموعا یہ درندگی ہےانسانیت و زندگی نہیں..نقصان ہے، بےسکونی بےلطف بےبرکت و بےچینی ہے،انفرادی معاشرتی تباہی ہے.........!!
.@@@@@@@@@@@
*#آٹھارویں بات*
اللہ و رسول سے عشق و جذبہ ایمانی غیرت جوش و ہوش احتیاط اجاگر کرنا چاہیے پھیلانا چاہیے......!!
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت مسلمان ہوگا جب میں اس کو زیادہ محبوب ہو جاؤں اس کی اولاد سے اس کے باپ سے اس اور تمام لوگوں سے
(بخاری حدیث15)
۔
غیرت:
الحدیث:ترجمہ:
ایک غیرت اللہ کو پسند ہے اور ایک غیرت اللہ کو پسند نہیں،وہ غیرت جو اللہ کو پسند ہے وہ وہ ہے کہ جو مشکوک معاملے میں آئے اور جو مشکوک معاملے میں نا ہو(بلکہ محض بدخیالی ہو، وہم ہو، وسوسے ہوں)وہ غیرت اللہ کو ناپسند ہے
(ابو داؤد حدیث2659)
غیرت لازم ہے مگر غیرت آنے کے بعد کس حد تک کاروائی کرسکتے ہیں، یہ ہمیشہ علماء سے پوچھ کے عمل کیا جائے
.
ادب و شفقت:
الحدیث:
لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا،
جو ہمارے چھوٹوں پے رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی تعظیم و ادب نہ کرے وہ ہم(سچے کامل مسلمانوں) میں سے نہیں
(ترمذی حدیث1921)
اوقات دیکھو...اوقات میں رہو...عموما یہ ٹھیک انداز و الفاظ نہیں...شفقت رحمت کا مظاہرہ اکثر کرنا ہے، سمجھانا ہے، سوالات خدشات کا جواب دینا ہے...بڑوں سے سوال کریں تو ادب سے کریں گے، اولیاء اسلاف بڑے جو گذرے انکا تذکرہ اچھے انداز و ادب سے کرنا ہے
مگر
ادب میں چاپلوسی چمچہ گیری ایجنٹی مکاری بھی نہیں کرنی اور ادب میں حد سے بھی نہیں بڑھنا....ایک دوسرے کا ادب کرنا ہے، سیکھنا سکھانا ہے...سمجھنا سمجھانا ہے... سلجھنا سلجھانا ہے...ایک دوسرے کا بھلا سوچنا ہے...ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہے.. ایک دوسرے کو وعظ و نصیحت کرنی ہے...ایک دوسرے کو حقیر و کمتر نہیں سمجھنا...اکثر نرمی کرنی ہے مگر کبھی سختی کرنا بھی اسلام کا حکم ہے،سنت سے ثابت ہے، اسلام فرماتا ہے برائی سے روک سکتے ہو تو سختی کرکے ہاتھ سے روکو......زبان سے روکو......!!
.
جوش و جزبہ ایمانی سرمایہ زندگانی ہے مگر اس جوش و جذبے کو اسلام کے ماتحت رکھنا لازم ہے
الحدیث:
إن لكل شيءشرة ولكل شرة فترة، فإن كان صاحبها سدد وقارب فارجوه
ہر ایک کے لیے جوش.و.نشاط ہے اور ہر جوش.و.نشاط کو زوال ہے…پس اگر جوش و جذبہ، نشاط والا بندہ سیدھا.و.معتدل رہے اور (علماء اولیاء کا)قرب.و.مشاورت حاصل کرے تو اس سے خیر کی امید رکھو...(ترمذی حدیث2453)
.@@@@@@@@@@@@
*#انیسویں بات*
اکثر نرمی کی جائے مگر مستحق پر سختی سزا روک تھام بھی لازم.......!!
القرآن:
وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿
اور تم میں سے ایک خصوصی گروہ مقرر ہو جو بھلائی کی طرف بلائے اور برائی(کفر شرک بدمذہبی شراب جوا زنا وغیرہ ہر قسم کی برائی، اسلام کی منع کردہ ہرچیز)سے روکے، اسی میں (ذاتی معاشی ذہنی جسمانی معاشرتی ہر طرح کی)فلاح و بھلائی ہے
(سورہ آل عمران آیت104)
ہر ایک برائی روکنے کا نگبان ہے مگر بالخصوص ایک سیکیورڑی شعبہ ہونا چاہیے جو برائی زنا جوا ظلم دہشت وغیرہ سے فالفور روکے...بدمذہبی سے روکے، نصاب و نظام کی دیکھ بھال کرے،قوانین نافذ کرے جو قوانین کی خلاف ورزی کرے اسے وہ گروہ روکے، ضدی فسادی کو سزا دلوائے، نصاب کو اسلام مطابق کرے، علماء دانشوروں کی ٹیم ہو جو نصاب کو جدید تعلیم کو اسلام مطابق کرے...جو نصاب کتاب تحریر تقریر اسلام مخالف ہو اسے ٹھیک کرے وارنگ دے ورنہ سزا دے، پابندی لگائے، بلاک کرے....اسلام مخالف چیزوں مذہبوں کرتوتوں کو نصاب و نظام و معاشرے سے دور رکھے، نہ آنے دے .....!!
.@@@@@@@@@@@@
*#بیسویں بات*
سمجھائیں سمجھاءیں سلجھائیں مگر ضدی فسادی سے بائیکاٹ و سزا و مذمت بھی لازم ہے.....!!
القرآن:
فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّکۡرٰی مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ
یاد آجانے(دلائل آجانے)کے بعد تم ظالموں(بدمذبوں گمراہوں گستاخوں مکاروں گمراہ کرنے والوں منافقوں ظالموں) کے ساتھ نہ بیٹھو(نہ میل جول کرو، نہ انکی محفل مجلس میں جاؤ، نہ کھاؤ پیو، نہ شادی بیاہ دوستی یاری کرو،ہر طرح کا بائیکاٹ کرو)
(سورہ انعام آیت68)
.
بروں باطلوں مکاروں گمراہوں بدمذہبوں تفضیلیوں رافضیوں نیم رافضیوں شیعوں خمینیوں ناصبیوں ایجنٹوں قادیانیوں نیچریوں سرسیدیوں جہلمیوں غامدیوں قادیانیوں ذکریوں بوہریوں غیرمقلدوں نام نہاد اہلحدیثوں وغیرہ سب باطلوں سے ہر طرح کا تعاون نہ کرنا،انکی تحریروں کو لائک نہ کرنا، انہیں نہ سننا، نہ پڑھنا، انہیں اپنے پروگراموں میں نہ بلانا، وقعت نہ دینا، جانی وقتی مالی تعاون نہ کرنا،بائیکاٹ کرنا، مذمت کرنا مدلل کرنا ایمان کے تقاضوں میں سے ہے
الحدیث:
مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ، وَأَبْغَضَ لِلَّهِ، وَأَعْطَى لِلَّهِ، وَمَنَعَ لِلَّهِ ؛ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ
جو اللہ(اور اسلام کے حکم)کی وجہ سے محبت کرے اور(سمجھانے کے ساتھ ساتھ) اللہ(اور اسلام کے حکم)کی وجہ سے(مستحق برے ضدی فسادی بدمذہب گستاخ وغیرہ سے)بغض و نفرت رکھے اور (مستحق و اچھوں) کی امداد و مدد کرے اور (نااہل و بروں بدمذہبوں گستاخوں منافقوں ایجنٹوں) کی امداد و تعاون نہ کرے تو یہ تکمیل ایمان میں سے ہے
(ابوداود حدیث4681)
.
الحدیث:
أترعون عن ذكر الفاجر؟، اذكروه بما فيه يعرفه الناس
ترجمہ:
کیا تم(زندہ یا مردہ طاقتور یا کمزور کسی بھی) فاجر(فاسق معلن منافق , خائن،مکار، دھوکے باز بدمذہب مفادپرست گستاخ) کو واضح کرنے سے ہچکچاتے ہو...؟(جیسا وہ ہے ویسا کہنے سے گھبراتے ہو...؟؟)اسے ان چیزوں(ان کرتوتوں، عیبوں اعلانیہ گناہوں ، خیانتوں، منافقتوں دھوکے بازیوں) کے ساتھ واضح کرو جو اس میں ہوں تاکہ لوگ اسے پہچان لیں(اور اسکی گمراہی خیانت منافقت بدعملی دھوکے بازی مکاری شر فساد سے بچ سکیں)
(طبرانی معجم کبیر حدیث 1010)
(طبرانی معجم صغیر حدیث598نحوہ)
(شیعہ کتاب ميزان الحكمة 3/2333نحوہ)
مذکورہ حدیث پاک طبرانی کی اوسط اور معجم صغیر میں بھی ہے جسکی سند حسن معتبر ہے، اسکے راوی ثقہ ہیں بعض میں اختلاف ہے مگر وہ کوئی نقصان دہ اختلاف نہیں
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ت حسين أسد2/408)
.
.سمجھانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے...مگر حسبِ تقاضہِ شریعت ایسوں کے عیوب مکاریاں منافقتیں خیانتیں کرپشن فسق و فجور دھوکے بازیاں بیان کرنا برحق ہے لازم ہے اسلام کا حکم ہے....یہ عیب جوئی نہیں، غیبت نہیں، ایسوں کی پردہ پوشی کرنا جرم ہے... یہ فرقہ واریت نہیں، یہ حسد نہیں، بغض نہیں بلکہ حق کی پرواہ ہے اسلام کے حکم کی پیروی ہے...شاید کہ یہ سدھر جائیں انہیں ہدایت ملے ورنہ ذلت کے خوف سے فساد و گمراہی پھیلانے سے رک جائیں اور معاشرہ اچھا بنے... ہاں حدیث پاک میں یہ بھی واضح ہے کہ وہ عیوب، وہ خیانتیں، وہ دھوکے بازیاں وہ کرتوت بیان کیے جائیں جو اس میں ہوں...جھوٹی مذمت الزام تراشیاں ٹھیک نہیں......!!
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
New whatsapp nmbr
03062524574
00923062524574