*#سید صاحب افضل یا عالم باعمل افضل۔۔۔۔؟؟ چمن زمان بمع ہمنوا دعوی کرتا ہے چلینج کرتا ہے کہ عالم کو کم علم سید پر افضلیت دینے والوں کے پاس کوئی دلیل نہیں بلکہ عالم کو افضلیت دینا ظلم و ستم ہے بے بنیاد ہے۔۔ائیے پڑھتے ہیں کہ کیا واقعی کوئی دلیل نہیں یا کئ ایات و احادیث سے عالم باعمل کی افضلیت ثابت ہے۔۔۔۔؟؟ اور افضلیت و منصب و درجات کی تفصیل کیا ہے۔۔۔۔؟؟*
۔
https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1
۔
https://www.facebook.com/share/p/19mP1cnG3y/
۔
https://www.facebook.com/share/199Wb9nCxw/
۔
میرے واٹسپ چینل کو بھی فالو ضرور فرما لیں۔۔۔کیونکہ واٹسپ نمبر بار بار بلاک ہوتا ہے، اگر ہمیشہ کے لیے بلاک ہو گیا تو نیا نمبر سے واٹسپ چینل پر آ کر اپ سے رابطہ ہو پائے گا۔۔۔واٹس ایپ چینل کا لنک یہ ہے
https://whatsapp.com/channel/0029Vb5jkhv3bbV8xUTNZI1E
۔
تحریرات سوالات اعتراضات کے جوابات، اہلسنت کے دفاع، معاشرے کی اصلاح و معلومات و تحقیق و تشریح و تصدیق یا تردید وغیرہ کے لیے مجھے وٹسپ کر سکتے ہیں
naya wtsp nmbr
03062524574
میرے نئے وٹسپ نمبر کو وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنائیے تاکہ میں تحریرات وہاں بھیج سکوں،،،سوالات اعتراضات کے جوابات دے سکوں۔۔۔۔دینی خدمات زیادہ سے زیادہ سر انجام دے سکوں۔۔
نیز کافی ساری تحقیقات تحریرات معلومات اوپر دیے گئے تین لنکس میں موجود ہے وہاں سرچ کر کے بھی فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔۔۔۔!!
۔
۔@@@@@@@@@@@@@@@@@@
۔
چمن زمان لکھتا ہے:
1۔۔۔سید صاحب عالم ہوں یا غیر عالم ، بہر صورت وہ غیر سید سے افضل ہیں۔ پھر چاہے غیر سید عالم ہو یا غیر عالم۔
۔
چمن زمان لکھتا ہے:
2۔۔۔اس سے بڑھ کر ستم کیا ہو گا کہ جس ہستی ﷺ نے کلمہ پڑھایا ، کلمہ گو اپنے آپ کو اسی ہستی ﷺ کی اولاد پاک سے افضل قرار دے دے۔
۔
چمن زمان لکھتا ہے:
3۔۔۔۔غیر سید عالم کو سید غیر عالم سے افضل ٹھہرانا ایک بے بنیاد رائے ہے جس پر شرع شریف سے کوئی صحیح دلیل موجود نہیں۔ مولوی حضرات کا اس باب میں قیل و قال تار عنکبوت سے بھی کمزور تر ہے۔
۔
تینوں باتوں کے اسکرین شاٹ ہمارے پاس محفوظ ہیں
۔
*#الحاصل*
چمن زمان کے نزدیک سید صاحب فاسق فاجر بد مذہب جیسا بھی ہو وہ ہر کسی سے افضل ہے عالم باعمل سے افضل ہے عبادت گزار سے افضل ہے اور جو افضل نا مانے وہ ظلم و ستم کر رہا ہے اور اس کے پاس کوئی دلیل بھی نہیں ہے۔۔۔یہ چمن زمان کی فقط اپنی ایک ذاتی رائے نہیں بلکہ اس کے پیچھے پوری ایک لابی ہے جسے نیم روافض کہتے ہیں جس میں عرفان شاہ اور ریاض شاہ اور گردیزی اور حنیف قریشی اور کئی منہاجی بھی اس کے ساتھ ہیں اور ہم نوا ہیں
۔
*#جواب۔و۔تحقیق*
ہمارا اصلی مقصد ہوتا ہے کہ عوام تک درست علم و معلومات پھیلائی جائے اور ساتھ ساتھ چمن زمان جیسے مردود مکار چاپلوس لوگوں کا بھی رد کیا جائے دلائل کے ساتھ، قران اور حدیث کے ساتھ اور صحابہ و اہل بیت و اسلاف اسلاف کے اقوال کے ساتھ۔۔۔۔تو پہلے ذرا یہ چند ضروری خلاصے پڑھ لیں پھر ہم دلائل و حوالہ جات لکھیں گے کہ
ان۔شاءاللہ عزوجل مسئلہ پورا کا پورا واضح ہو جائے گا اور چمن زمان بمع ہمنوا کے لیے یہی دعا کہ اللہ اسے ہدایت دے ورنہ شریروں کے شر سے اللہ تعالی اسلام کو محفوظ رکھے اور اسلام کے حقیقی ترجمان اہل سنت مذہب کو محفوظ رکھے اور لوگ مردود کو پہچان لیں
۔
*#اور چمن زمان صاحب و ہمنوا سے پوچھو کہ*
تمہارے مطابق نعوذ باللہ اسلاف نے علم کو افضلیت دیکر ظلم و ستم کیا۔۔۔؟؟ علم کی افضلیت والی ایات و احادیث بھی نعوذ باللہ ظلم و ستم ہیں تمہارے مطابق۔۔۔؟؟ تمہارے مطابق قران و حدیث بھی دلیل و معتبر نہیں ہیں۔۔۔۔؟؟ قران و حدیث اسلاف سے ماخوذ مضبوط ترین بات کو اپ بے بنیاد رائے کہیں گے۔۔۔۔؟؟
۔
*#ضروری بات*
درج زیل 7 باتیں اور اس کے بعد الحاصل میں لکھی ہوئی 5 باتیں ضرور پڑھیے اس کے بعد بے شک تفصیل وقت نکال کر فورا پڑھیے یا وقفے سے پڑھیے
۔
1۔۔۔سید صاحب یا عالم باعمل دونوں کی ایسی اور بےجا تعریف نہ کی جائے کہ وہ اپنے اپ کو عالم کل سمجھنا لگ جائے اور لوگوں کو حقیر سمجھنا شروع ہو جائے،اپنی بات کو پتھر پر لکیر سمجھنا شروع ہو جائے،ہمیں محتاط تعریف و مدح سرائی کرنی چاہیے لیکن سادات کرام اور علمائ کرام اور ہم سب کو عاجزی انکساری اختیار کرنا چاہیے
۔
2۔۔۔سید صاحب اگرچہ کتنا ہی بظاہر فاسق و فاجر گنہگار بدمذہب ہو ہر حال میں ہم سب پر لازم ہے کہ ہم چاہے عالم ہوں یا غیر عالم ہم سب پر لازم ہے کہ سید صاحب کا نسبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ادب کریں گے اور بڑے ادب سے عرض کریں گے کہ اپ کے نانا جان کا یہ فرمان ہے ، اس پر عمل کرنا ہوگا۔۔۔لہذا اگر سید صاحب کا کوئی عمل ، کوئی قول ، کوئی حکم شریعت مطہرہ کے خلاف ہو تو ہم ادب سے عرض کریں گے کہ شاہ صاحب ہم پر اپ کی پیروی سے زیادہ لازم ہے کہ ہم اپ کے نانا جان کی پیروی کریں۔۔اسی طرح اگر کسی عالم دین کا قول فعل عمل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کہ جن کی تشریح صحابہ کرام اہل بیت عظام اسلاف نے کی ، اگر اس تشریح کے خلاف کسی عالم دین کا قول ہو فعل ہو عمل ہو تو ہم اس عالم دین کی بھی نہیں مانیں گے بلکہ ان سے ادب کے ساتھ عرض کریں گے کہ جس کا اپ کلمہ پڑھتے ہیں اس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک یہ ہے جس کی تشریح اسلاف سے یہ ہے اور اپ اس تشریح کے خلاف جا رہے ہیں ، ہم اپ کی نہیں مانیں گے
۔
3۔۔۔لہذا اگر کوئی عالم دین یا سید بدمذہب ہو فاجر ہو ، ضروری علم سے عاری ہو تو اسے امامت کی مسند پر نہیں بٹھا سکتے، انہیں وعظ و نصیحت کرنے کی مسند پر نہیں بٹھا سکتے، عالم سے عرض کریں گے کہ اپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معیار پر پورا اتریے، سید صاحب سے عرض کریں گے کہ اپ اپنے نانا جان کی معیار پر پورا اتریں، تب اپ دونوں کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق یہ منصب اپ کے لیے جائز ہوں گے
۔
4۔۔۔لہذا اگر عالم یا سید بد مذہب ہو فاجر ہو تو اس کی ایسی تعظیم و توقیر سرعام نہ کریں گے کہ جس سے لوگ غلط فہمیوں میں پڑیں کہ شاہ صاحب سید صاحب یا بظاہر اتنے بڑے عالم پیر صاحب وغیرہ فلاں بدمذہبیت پر ہیں تو لہذا فلاں بد مذہبیت برحق ہے، یا بغیر حوالہ کہ کوئی حدیث پاک سنا دیں یا بغیر حوالے کے شریعت کے احکامات بتانا شروع کر دیں یا اپنے ذاتی قیاس سے شریعت کے احکامات بیان کرنا شروع کر دیں تو لوگ اس عالم، اس سید کی باتوں کو معتبر ماننا شروع کر دیں گے۔۔۔لہذا عالم اور سید صاحب کی ایسی تعظیم ہرگز نہ کی جائے گی کہ جس سے دھوکہ کھا کر لوگ گمراہ ہونا شروع ہو جائیں
۔
5۔۔۔اگر ہم بدمذہبی کے باوجود ان سید صاحب اور عالم صاحب کو بڑی عزت و توقیر دیں گے تو لامحالہ عوام گمراہ ہوگی اور یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی نافرمانی ہے اور سادات کرام کے نانا جان کی حکم کی نافرمانی ہے۔۔۔ لہذا ایسی سرعام تعظیم و توقیر نہیں کر سکتے اور ایسے عالم اور سید صاحب کو سرعام محفل میں بڑے منصب پر نہیں بٹھا سکتے کہ جس سے عوام دھوکہ کھا کر اس کے بدمذہبیت والے اقوال و افعال کو برحق سمجھتی پھرے
لیکن
اس صورت میں بھی اگرچہ سرعام تعظیم و توقیر نہ کی جائے گی لیکن تنہائی میں عرض کی جائے گی ادب کے ساتھ عرض کی جائے گی کہ حضور اپ کے نانا جان کا یہ حکم مبارک ہےجس کی تشریح اسلاف نے یوں کی ہے، عالم سے کہیں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مبارک ہے جس کی تشریح اسلاف نے یوں کی ہے۔۔۔اور اپ کا قول عمل یا ذاتی قیاس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک سے اخذ کردہ قیاس کے متضاد ہے۔۔۔لیھذا ہم پر اپ دونوں کی پیروی لازم نہیں بلکہ پیروی نہ کرنا لازم ہے کہ اپ دونوں کے سردار ہم سب کے سردار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فلاں حکم مبارک ہے جس کی تشریح صحابہ کرام اہل بیت عظام و دیگر اسلاف نے فلاں فلاں کی ہے وہی ہم پر لازم ہے
.
6۔۔۔فرق یہ رہ جاتا ہے کہ اگر عالم دین بد مذہبیت فسق و فجور گناہ وغیرہ پر ڈٹا رہے تو اس صورت میں فقط رعایت و سہولت اس کو وہ ملے گی جو کلمہ پڑھنے سے ہر مسلمان کو مل جاتی ہے لیکن اب اس کا علم کلعدم ہو گیا،اب اس کے علم کی وجہ سے اسے کوئی فائدہ نفع نہ دیا جائے گا،اب چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو اسکا احترام نہیں کیا جائے گا بلکہ حسب طاقت جن کو سمجھانے کی طاقت ہے وہ ان کو سمجھاتے رہیں گے اور ہم اس عالم سے دور رہیں گے لیکن سید صاحب اگر نعوذ باللہ بدمذہبیت فسق و فجور گناہ وغیرہ پر ڈٹا رہے تو کلمہ پڑھنے سے جو سہولیات رعایت اسے ملیں وہ بھی ملیں گی لیکن اس کا نسب کلعدم نہیں ہوگا بلکہ اسے نسبت نبوی کی وجہ سے ایسا ادب و تعظیم اب بھی دیا جائے گا کہ جو فتنے دھوکے گمراہی بدمذہبی پھیلنے کا باعث نہ بنے
۔
7۔۔ہاں اگر عالم یا سید صاحب فسق فجور گناہ بدمزبیت وغیرہ پر ڈٹے ہو کر فتنہ و فساد پھیلا رہے ہوں بد مذہبیت پھیلا رہے ہوں تو اس صورت میں بائیکاٹ دونوں کا کیا جائے گا لیکن سید صاحب کا بائیکاٹ اس طرح کیا جائے گا کے معاشرتی توہین کے الفاظ ان کے لیے استعمال نہ کیے جائیں گے بلکہ شرعی احکامات والے الفاظ(مثلا فاسق فاجر بد مذہب اور اس اس جیسے شرعی حکم والے الفاظ)استعمال کیے جائیں گے ، اس نیت سے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جاری کردہ حکم کو سید پر لاگو کر رہے ہیں رسول کریم کی فرمانبرداری میں۔۔۔۔
۔
*#الحاصل*
1۔۔سید صاحب نسب کے لحاظ سے ہر حال میں ہر شخص سے افضل ہے
۔
2۔۔اگر ایک عالم با عمل ہو اور دوسری طرف سید صاحب عالم نہ ہو تو اس صورت میں بہتر تو یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ سید صاحب نسب کے لحاظ سے افضل ہیں لیکن علم و عمل کے لحاظ سے عالم دین افضل ہیں۔۔۔مگر مجموعی صورتحال کو دیکھ کر اگر کہا جائے کہ عالم دین افضل ہے تو قابل گرفت بات نہیں کیونکہ اس صورت میں کہنے والے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ نسب کے لحاظ سے یقینا سید صاحب افضل ہیں لیکن ہم مجموعی اعتبار سے بات کر رہے ہیں کہ جس میں عالم با عمل کو بہت ساری فضیلتیں شرعی منصب و شرعی فضیلتیں و شرعی فوقت حاصل ہیں جبکہ سید صاحب کو نسب مبارک کی ایک بہت بڑی فضیلت حاصل ہے
۔
3۔۔کم علم فاسق فاجر بدمذہب سید صاحب کی نسب والی فضیلت عقلی طور پر دیگر تمام فضیلتوں پر اعلی و افضل ہے، تمام فضیلتوں پر فوقیت رکھتی ہے مگر شرعی احکام میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق اس صورت میں سید صاحب کو نسب مبارک کی فضیلت شریعت کے وہ درجات و منصب نہیں دے سکتی جو درجات و منصب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم با عمل کو دیے ہیں۔۔۔لہذا ہم ایسی صورتوں میں جو عالم با عمل کو افضل قرار دے رہے ہیں تو وہ شرعی درجات و منصبوں کے اعتبار سے ہیں
۔
4۔۔ایک طرف عالم باعمل ہو اور دوسری طرف سید عالم با عمل بھی ہو تو یقینا سید صاحب افضل ہیں
۔
5۔۔پیروی کس کی کرنی ہے اور ادب کس کا کتنا اور کیسے اور کہاں کرنا ہے اس کی تفصیل اوپر ہم لکھ ائے
@@@@@@@@@@@
اپ ہماری مذکورہ بالا 12 باتیں ذہن نشین فرما لیں اور اب اپ دلائل پڑھیں جن سے واضح ہوتا جائے گا کہ ایک ایک بات ثابت ہوتی جائے گی ان۔شاءاللہ عزوجل
۔
1۔۔۔۔القرآن:
وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ
أَتْقَاكُمْ
میں(اللہ)نے تمہیں شاخیں اور قوم قبیلے اس لیے بنایا تاکہ تم آپس میں پہچان رکھو، بے شک اللہ کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو تم سے متقی نیک و پرہیزگار ہو
(سورہ حجرات آیت13)
۔
وَالتَّقِيُّ الْمُؤْمِنُ أَفْضَلُ مِنَ الْفَاجِرِ النَّسِيبِ
مومن متقی اس اعلی نسب والے سے افضل ہے جو اعلی نسب والا فاسق و فاجر ہو
(تفسیر قرطبی16/348)
ایت مبارکہ اور اس کی تفسیر سے واضح ہوتا ہے کہ سید صاحب اگر فاسق فاجر گمراہ بد مذہب ہو جائے تو اس سے نیک متقی پرہیزگار عالم دین با عمل افضل ہے
۔
وَلِهَذَا يَصْلُحُ لِلْمَنَاصِبِ الدِّينِيَّةِ كَالْقَضَاءِ وَالشَّهَادَةِ كُلُّ شَرِيفٍ وَوَضِيعٍ إِذَا كَانَ دَيِّنًا عَالِمًا صَالِحًا، وَلَا يَصْلُحُ لِشَيْءٍ مِنْهَا فَاسْقٌ، وَإِنْ كَانَ قُرَشِيَّ النَّسَبِ...وَلَكِنْ فِي هَذَا النَّسَبِ أَثْبَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّرَفَ لِمَنِ انْتَسَبَ إِلَيْهِ بِالِاكْتِسَابِ، وَنَفَاهُ لِمَنْ أَرَادَ الشَّرَفَ بِالِانْتِسَابِ، فَقَالَ: «نَحْنُ مُعَاشِرَ الْأَنْبِيَاءِ لَا نُورَثُ» .
وَقَالَ: «الْعُلَمَاءُ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ» أَيْ لَا نُورَثُ بِالِانْتِسَابِ، وَإِنَّمَا نُورَثُ بِالِاكْتِسَابِ
دینی منصب جیسے کہ گواہی دینا فیصلے کرنا (اسی طرح وعظ کرنا امامت کرنا خطابت کرنا تدریس کرنا کتاب لکھنا یا تحریر لکھنا یا بیان کرنا وعظ کرنا تمام دینی منصبے) ہر اس شخص کے لیے جائز ہیں کہ جو دیندار ہو عالم ہو باعمل ہو نیک ہو چاہے وہ سید ہو یا چاہے وہ سید نہ ہو.... اور یہ دینی منصب کسی فاسق فاجر کے لیے جائز نہیں اگرچہ وہ بہت اعلی نسب کا ہو ، سید ہو ، قریشی ہو... یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نسب سے اس شخص کو نکال دیا کہ جو نسب کے ذریعے شرف حاصل کرنا چاہے... اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو شرف عطا فرمایا کہ جو اکتساب یعنی علم اور عمل کے ذریعے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو (یعنی اپنے اپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام کہے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مجاہد کہے اس کا امتی اپنے اپ کو کہے اس طرح کی نسبت رسول کریم کی طرف اپنی کرے اور نیک متقی پرہیزگار ہو تو اس کو رسول کریم نے بڑی عزت و شرف سے نوازا ہے)اسی لیے تو رسول کریم نے فرمایا کہ ہم کسی کو نسبی طور پر وارث نہیں بناتے ہمارے وارث تو علماء باعمل ہیں
(تفسیر کبیر رازی114 ,28/112)
۔
امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ نے ایت مبارکہ سے جو باتیں ثابت کی وہ یہ ہیں کہ فقط نسب یعنی سید سے افضل وہ ہے کہ جو کیسا بھی نسب رکھتا ہو لیکن بڑا باعمل بڑا با علم نیک صالح متقی عالم ہو۔۔۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ بعض اوقات سید سے افضل باعمل عالم دین ہوتا ہے۔۔اور یہ بھی واضح ہوا کہ سید صاحب اگر فاسق فاجر گمراہ بد مذہب ہو جائے تو اسے کوئی دینی منصب نہیں دے سکتے
۔
2۔۔۔القران۔۔۔سورہ ص ایت76تا88
تفسیر:
رجل شريف نسيب لكنه عار عن كل فضيلة فإن نسبه يوجب رجحانه بوجه واحد، ورجل ليس بنسيب ولكنه فاضل عالم فيكون أفضل من ذلك النسيب بدرجات
كثيرة
سورہ ص کی مذکورہ ایت کی تفسیر کے تحت علماء نے لکھا کہ ایک سید صاحب ہو لیکن اسے دوسرے فضائل نہ ہوں یعنی علم نہ ہو عمل نہ کرتا ہو وغیرہ وغیرہ تو بحیثیت سید اس کی فضیلت ہے لیکن اس اعلی نسب والے کم علم بے عمل سید صاحب سے وہ شخص افضل ہے کہ جو عالم فاضل نیک متقی پرہیزگار ہو اس کا درجہ اس سید سے بہت زیادہ درجات بلند و افضل ہے اگرچہ نسب کے لحاظ سے سید ہی فضیلت رکھتا ہے
(تفسیر خازن4/48)
۔
أن من لا يكون نسيباً قد يكونُ كثيرَ العلم والزهد فيكون أفضل من النّسيب
انہی ایات مبارکہ سے ثابت کرتے ہوئے تفسیر اللباب میں ہے کہ جو سید نہ ہو اعلی نسب والا نہ ہو لیکن اس کے پاس بہت علم ہو زہد و تقوی ہو عمل کرنے والا ہو تو وہ اس بڑے نسب والے سے اس سید صاحب سے افضل ہے
(تفسیر اللباب16/457)
۔
تفسیر لباب والی بات بعینہ امام فخر الدین رازی کی تفسیر کبیر میں بھی ہے
أَنَّ الَّذِي لا يكون نسبيا قَدْ يَكُونُ كَثِيرَ الْعِلْمِ وَالزُّهْدِ فَيَكُونُ هُوَ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ النَّسِيبِ
(تفسیر کبیر رازی26/414)
.
3۔۔۔القران:
ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ
اللہ تعالی فرماتا ہے کہ
کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں (یعنی برابر نہیں ہو سکتے چاہے کوئی کتنے نسب والا ہی بلند ہو)
(سورہ زمر ایت9)
۔
كَانَ شَرَفُ الْعِلْمِ أَقْوَى مِنْ شَرَفِ النَّسَبِ بِدَلَالَةِ الْآيَةِ
علامہ شامی نے اس ایت سے دلیل اخذ کرتے ہوئے فرمایا کہ علم کی فضیلت نسب کی فضیلت سے زیادہ ہے (یہ بات علامہ شامی نے اس مسئلے میں لکھی کہ جس میں یہ بحث تھی کہ عالم افضل ہے یا سید تو علامہ شامی نے ثابت کیا کہ عالم نیک متقی پرہیزگار ہو تو وہ اس سید صاحب سے افضل ہے کہ جو نیک متقی پرہیزگار عالم نہ ہو)
(رد المحتار3/93)
.
فليست أعمالهم على مقتضى العلم إما لجهل وإما لإعراض عن مقتضى العلم فصاروا لا علم لهم
ایت میں فقط علم والے کی فضیلت نہیں ہے بلکہ اس کی فضیلت ہے کہ جو علم کے تقاضوں پر عمل بھی کرے اور جو علم کے تقاضوں پر عمل نہ کرے گویا کہ اسے علم ہے ہی نہیں، وہ تو علم والا ہے ہی نہیں
(تفسیر نظم الدرر16/468)
۔
4۔۔۔القران:
اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰىہُ عَلَیۡکُمۡ وَ زَادَہٗ بَسۡطَۃً فِی الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِ ؕ وَ اللّٰہُ یُؤۡتِیۡ مُلۡکَہٗ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ
اسے اللہ نے تم پر چن لیا اور اسے علم اور جسم میں کشادگی زیادہ دی اور اللہ اپنا ملک جسے چاہے دے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے
(سورہ البقرہ ایت 247)
۔
العلم والقدرة وأنهما أشد مناسبة لاستحقاق الملك من النسب والمال، لأن العلم والقدرة من باب الكمالات الحقيقية
دونهما
علم اور قدرت یہ دونوں چیزیں بادشاہی کے زیادہ لائق ہیں بمقابلہ نسب اور مال کے۔۔۔کیونکہ علم و قدرت کمالات و فضیلیت حقیقیہ میں سے ہیں اور نسب و مال کی اتنی کمال و فضیلت نہیں
(تفسیر غرائب القرآن1/666)
اس ایت مبارکہ اور اس کی تفسیر سے بھی واضح ہوتا ہے کہ علم و عمل کی شان و افضلیت نسب و مال سے زیادہ ہے
.@@@@@@@@@@@@@@
1۔۔۔۔الحدیث:
ومن بطأ به عمله، لم يسرع به نسبه
جسکو اسکا عمل پیچھے کر دے اسے اسکا نسب آگے نہیں کرتا
(مسلم.حدیث نمبر2699)
۔
من لم يتقرب بالعمل الصالح إلى الله لا يُقرِّبه
علوُّ النسب
جو نیک عمل کر کے اللہ کا قرب حاصل نہیں کرے گا اس کو اعلی نسب بھی اللہ کا قرب نہیں دے گا
(مفاتیح شرح مصابیح1/307)
۔
حدیث پاک اور اس کی تشریح سے واضح ہوتا ہے کہ اگر اعمال نہ ہوں تو اعلی نسب بھی اللہ کے قریب نہیں کرتا۔۔۔اور جو اللہ کے قریب نہ ہو وہ پھر افضل کیسے ہو سکتا ہے لہذا ماننا پڑے گا کہ حدیث پاک کے مطابق اعمال صالحہ جو علم کی بنیاد پر ہوتے ہیں وہ افضلیت رکھتے ہیں نسب پر ہر قسم کے نسب پر
۔
من أخّره العمل لم يقدمه النسب، والرجل إذا قصر في الأعمال المصالحة لم يجبر نقصه بكونه نسبيًا
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ جس کو عمل پیچھے کر دے نسب اس کو مقدم نہیں کرتا جب بندہ نیک اعمال میں کوتاہی کرے تو اس نقص و کمی کی بھرپائی اس سے نہیں ہوگی کہ وہ بڑا عالی نسب ہے
(لمعات شرح مشکواۃ شاہ دھلوی1/534)
واضح ہوتا ہے کہ شاہ صاحب کے مطابق بھی نسب مقدم نہیں بلکہ اعمال صالحہ جو علم کی بنیاد پر حاصل ہوتے ہیں وہی مقدم ہیں کیونکہ بندہ نیک اعمال اس وقت کر سکتا ہے اس وقت زیادہ کر سکتا ہے جب نیک اعمال کا زیادہ علم ہوگا اور برائی کا زیادہ علم ہوگا کہ فلاں فلاں برائی ہے مجھے فلاں فلاں برائی سے بچنا ہے۔۔۔جب اچھائی برائی کا علم ہی نہیں، تو وہ اچھائی برائی کرے گا کیسے۔۔۔؟؟
۔
أَيْ: لَمْ يُقَدِّمْهُ نَسَبُهُ، يَعْنِي: لَمْ يُجْبِرْ نَقِيصَتَهُ لِكَوْنِهِ نَسِيبًا فِي قَوْمِهِ، إِذْ لَا يَحْصُلُ التَّقَرُّبُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى بِالنَّسَبِ بَلْ بِالْأَعْمَالِ الصَّالِحَةِ. قَالَ تَعَالَى: {إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ} [الحجرات: 13]
یعنی نسب اس کو مقدم نہیں کرتا جو کمی کوتاہی ہو جائے تو وہ نسب پورا نہیں کر سکتا چاہے وہ اپنی قوم میں کتنا بڑا ہی عالی نسب ہو کیونکہ اللہ کا قرب نسب سے نہیں بلکہ اعمال صالحہ سے حاصل ہوتا ہے اللہ تعالی نے فرمایا ہے سورہ حجرات ایت 13 میں کہ تم میں سے اللہ کے نزدیک متقی پرہیزگار ہی عزت والے ہیں،اللہ کے قرب والے ہیں
(مرقاۃ شرح مشکواۃ1/288)
۔
حدیث پاک سے واضح ہے اور اس کی اس تشریح سے واضح ہے کہ نسب سے اللہ کا قرب، بڑا قرب حاصل ہو افضلیت حاصل ہو ایسا نہیں ہے بلکہ افضلیت قرب الہی اس شخص کو زیادہ حاصل ہے کہ جو بہت علم حاصل کرے اور اس پر عمل کرے
.
2۔۔۔الحدیث:
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إن اوليائي يوم القيامة المتقون، وإن كان نسب اقرب من نسب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے قریب تر روزِ قیامت متقی لوگ ہوں گے، خواہ کسی کا نسب مجھ سے زیادہ قریب ہو یا دور ہو
(الادب المفرد حدیث897)
حدیث پاک میں واضح ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب متقی کو حاصل ہوگا چاہے وہ کسی بھی نسب سے ہو اور جو عالی نسب ہو لیکن متقی نہ ہو تو وہ رسول اللہ کا اتنا قرب نہیں پا سکتا جو متقی پاتا ہے اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب زیادہ پائے گا وہی افضل قرار پائے گا، واضح ہوا کہ نسب سے افضل علم و عمل ہے
.
3....الحدیث:
ثُمَّ فِتْنَةُ السَّرَّاءِ ؛ دَخَنُهَا مِنْ تَحْتِ قَدَمَيْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي، يَزْعُمُ أَنَّهُ مِنِّي وَلَيْسَ مِنِّي، وَإِنَّمَا أَوْلِيَائِي
الْمُتَّقُونَ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سراء فتنہ ہوگا، اور وہ فتنہ ایسے شخص سے نکلے گا جو اہل بیت میں سے ہوگا۔۔۔۔وہ سمجھے گا تو یہی کہ میں (یہ سب کچھ کرنے کے باوجود) اہل بیت میں سے ہوں لیکن وہ مجھ سے نہیں ہے میرا قرب تو متقی لوگوں کو حاصل ہے
(ابو داؤد حدیث 4242)
۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم واضح فرما رہے ہیں کہ وہ میرے نسب میں سے ہوگا اہل بیت میں سے ہوگا لیکن فتنہ پرور ہوگا فتنہ پیدا کرے گا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اعلان لا تعلقی کر رہے ہیں تو کیا چمن زمان صاحب اور اس کے ہم نوا اب بھی ایسے شخص کو اپ افضل قرار دیں گے جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لا تعلقی کا اعلان فرما رہے ہیں۔۔۔۔۔؟؟ ثابت ہوا کہ سید اگر فاسق فاجر بد مذہب فتنہ پرور ہو جائے تو وہ افضل نہیں رہتا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اعلان لا تعلقی فرما رہے ہیں
۔
يعني: هو في النسب من أهل بيتي، ولكنه في الفعل ليس مني.
حدیث پاک میں جو ہے کہ وہ اہل بیت میں سے ہوگا یعنی نسب کے اعتبار سے اہل بیت میں سے ہوگا لیکن اس کے کام اہل بیت والے نہیں ہوں گے اور وہ مجھ سے نہیں ہے ( یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لا تعلقی فرما رہے ہیں)
(مفاتیح شرح مصابیح5/365)
۔
وإن كان مني في النَّسَب."وليس مني"؛ أي: من أخلَّائي، أو من أوليائي في الحقيقة
حدیث پاک میں جو ہے کہ وہ میرے نسب میں سے ہوگا لیکن وہ مجھ سے نہیں ہے یعنی حقیقت میں وہ میرا دوست نہیں ہے ،وہ میرا محبوب نہیں ہے، وہ مجھے پسند نہیں ہے، وہ میرا قرب پانے والا نہیں ہے
(شرح مصابیح ابن ملک5/705)
۔
وَإِنْ كَانَ مِنِّي فِي النَّسَبِ، وَالْحَاصِلُ أَنَّ تِلْكَ الْفِتْنَةَ بِسَبَبِهِ، وَأَنَّهُ بَاعِثٌ عَلَى إِقَامَتِهَا (" وَلَيْسَ مِنِّي ") أَيْ: مِنْ أَخِلَّائِي أَوْ مِنْ أَهْلِي فِي الْفِعْلِ ; لِأَنَّ لَوْ كَانَ مِنْ أَهْلِي لَمْ يُهَيِّجِ الْفِتْنَةَ، وَنَظِيرُهُ قَوْلُهُ تَعَالَى: {إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ} [هود: 46] ، أَوْ لَيْسَ مِنْ أَوْلِيَائِي فِي الْحَقِيقَةِ، وَيُؤَيِّدُهُ قَوْلُهُ: (" إِنَّمَا أَوْلِيَائِي الْمُتَّقُونَ ")
حدیث پاک میں ہے کہ اگرچہ وہ نسب میں مجھ سے ہوگا لیکن میرا اس سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ فتنہ اسی کے سبب سے اٹھے گا اس لیے وہ میرا دوست میرا محبوب میرا قرب پانے والا نہیں ہے، اس کے کام اہل بیت والے کام نہیں ہیں، کیونکہ اہل بیت میں سے ہوتا تو فتنے کو نہ ابھارتا، اس تشریح کی تائید سورہ ہود ایت 46 سے بھی ہوتی ہے اور اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ رسول کریم نے فرمایا کہ میرے قرب پانے والے وہ لوگ ہیں جو متقی پرہیزگار ہیں
(مرقاۃ شرح مشکواۃ8/3399)
.
4۔۔۔۔الحدیث
إِنَّ أَهْلَ بَيْتِي هَؤُلَاءِ يَرَوْنَ أَنَّهُمْ أَوْلَى النَّاسِ، وَلَيْسَ كَذَلِكَ، إِنَّ أَوْلِيَائِيَ مِنْكُمُ الْمُتَّقُونَ، مَنْ كَانُوا أَوْ حَيْثُ كَانُوا،
فلاں اہل بیت سمجھتے ہیں کہ وہ میرے قریب ہیں ایسا ہرگز نہیں ہے میرے قریب وہ لوگ ہیں کہ جو متقی پرہیزگار ہیں جس نسب سے چاہے ہوں اور جس جگہ سے ہوں
(طبرانی کبیر حدیث1087)
۔
5۔۔۔۔الحدیث
إِنَّ أَهْلَ بَيْتِي هَؤُلَاءِ يَرَوْنَ أَنَّهُمْ أَوْلَى النَّاسِ بِي، وَإِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِي الْمُتَّقُونَ، مَنْ كَانُوا وَحَيْثُ كَانُوا،
فلاں اہل بیت سمجھتے ہیں کہ وہ میرے قریب ہیں ایسا ہرگز نہیں ہے میرے قریب وہ لوگ ہیں کہ جو متقی پرہیزگار ہیں جس نسب سے چاہے ہوں اور جس جگہ سے ہوں
(صحیح ابن حبان حدیث4509)
.
ذِكْرُ الْخَبَرِ الدَّالِّ عَلَى أَنَّ أَوْلِيَاءَ الْمُصْطَفَى صَلى الله عَلَيه وسَلم هُمُ الْمُتَّقُونَ دُونَ أَقْرِبَائِهِ إِذَا كَانُوا فَجَرَةً
امام ابن حبان مذکورہ بالا احادیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جو فرمایا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقرباء رشتے دار سادات وغیرہ اگر فاسق و فاجر ہو جائیں تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تر ہرگز نہیں ہے بلکہ رسول کریم کا قرب پانے والے متقی لوگ ہیں چاہے جس نسب سے ہوں جہاں سے بھی ہوں
صحیح ابن حبان5/342
۔
واضح ہوا کہ حدیث پاک میں ہے کہ متقی لوگ ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب ہیں تو جو زیادہ قریب ہو وہ افضل ہوگا یا وہ افضل ہوگا کہ جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سے دور کر رہے ہیں۔۔۔۔۔؟؟
۔
فاقتد بأولى الناس بي، وهم المتقون، وليس ذلك مخصوصًا بالمدينة بل حيث كانوا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں کی اقتدا کرو پیروی کرو کہ جو میرے قریب ہیں اور وہ متقی لوگ ہیں ان کا تعلق کسی علاقے یا مدینے شریف سے ہو ضروری نہیں بلکہ وہ جہاں سے بھی ہوں
(لعمات شرح مشکواۃ شاہ دھلوی8/452)
۔
وَالْمَعْنَى كَائِنًا مَنْ كَانَ عَرَبِيًّا أَوْ عَجَمِيًّا أَبْيَضَ أَوْ أَسْوَدَ شَرِيفًا أَوْ وَضِيعًا (" وَحَيْثُ كَانُوا ") أَيْ: سَوَاءٌ كَانُوا بِمَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ أَوْ بِالْيَمَنِ وَالْكُوفَةِ وَالْبَصْرَةِ فَسَّرَهُ، فَانْظُرْ إِلَى رُتْبَةِ أُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّ بِالْيَمَنِ عَلَى كَمَالِ التَّقْوَى، وَحَالَةِ جَمَاعَةٍ مِنْ أَكَابِرِ الْحَرَمَيْنِ الشَّرِيفَيْنِ مِنْ حِرْمَانِ الْمَنْزِلَةِ الزُّلْفَى، بَلْ مِنْ إِيصَالِ ضَرَرِهِمْ إِلَيْهِ صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مِنْ بَعْضِ ذَوِي الْقُرْبَى، وَحَاصِلُهُ أَنَّهُ لَا يَضُرُّكَ بُعْدُكَ الصُّورِيُّ عَنِّي مَعَ وُجُودِ قَوْلِكَ الْمَعْنَوِيِّ بِي، فَإِنَّ الْعِبْرَةَ بِالتَّقْوَى كَمَا يُسْتَفَادُ مِنْ إِطْلَاقِ قَوْلِهِ تَعَالَى: {إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ}
[الحجرات: 13]
حدیث پاک کا معنی یہ ہے کہ جو متقی ہو وہ سب سے زیادہ میرے قریب ہے چاہے وہ عربی ہو چاہے وہ عجمی ہو چاہے وہ سفید ہو چاہے وہ کالا ہو چاہے وہ سید ہو چاہے وہ غیر سید ہو۔۔۔۔اور چاہے جس جگہ سے ہو۔۔۔کیا اپ نہیں دیکھتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچانے والے رسول کریم کے بعض رشتہ دار بھی تھے تو حدیث کا حاصل یہ ہے کہ تقوی کا اعتبار ہے نسب وغیرہ کا (افضلیت میں)اعتبار نہیں جیسے کہ اللہ تعالی کے اس فرمان مبارک کے اطلاق سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم میں سے اللہ کے نزدیک عزت والا قرب والا وہ ہے کہ جو تم میں سے متقی پرہیزگار ہو
(مرقاۃ شرح مشکواۃ8/3271)
۔
@@@@@@@@@@@@@@
فقہ حنفی کی معتبر و مفتی بہ کتب میں بھی یہ واضح لکھا ہے کہ علم جس پر عمل کیا جائے اس کی شان و عظمت نسب سے زیادہ ہے......،بے عمل کم علم سید صاحب سے وہ عالم دین افضل ہے کہ جو باعمل ہو۔۔۔اگرچہ نسب کے اعتبار سے ہم سید صاحب کو ہی فضیلت دیں گے لیکن مجموعی طور پر افضلیت علم مع عمل کو ہے جس پر عمل کیا جائے یعنی علماء کو ہے جو باعمل ہوں۔۔۔۔۔مجموعی طور پر وہ باعمل علماء افضل ہیں ان سید صاحب سے کہ جو عالم دین نہ ہوں۔۔۔۔اور اگر سید صاحب عالم دین ہوں متقی پرہیزگار ہوں تو واضح ہے کہ تب تو سید صاحب کی افضلیت زیادہ ہے۔۔۔چند حوالہ جات پڑھتے جائیے
۔
1....لأن شرف العلم فوق شرف النسب
بے شک علم کی شرف و منزلت فضیلت نسب سے زیادہ ہے
(بنایہ شرح ہدایہ5/114)
۔
2....لأن للعالم شرف الكسب يعني به كسب العلم و للعلوية شرف النسب، وشرف الكسب
أولى
عالم با عمل تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد یعنی سادات کرام اور علویوں سے افضل ہیں کیونکہ عالم با عمل نے محنت کر کے علم حاصل کیا اور اس پر عمل کیا،اگرچہ سید صاحب کو نسبت کی وجہ سے فضیلت حاصل ہے لیکن عالم صاحب جو نیک متقی پرہیزگار ہوں ان کا شرف و منزلت زیادہ ہے
(المحیط البرھانی3/21)
۔
3...وَالْحَسِيبُ كُفْءٌ لِلنَّسِيبِ حَتَّى إنَّ الْفَقِيهَ يَكُونُ كُفْئًا لِلْعَلَوِيِّ؛ لِأَنَّ شَرَفَ الْعِلْمِ فَوْقَ شَرَفِ النَّسَبِ
بہت بڑے نسب والے جیسے سادات کرام اور قریشی حضرات اور بنو ہاشم وغیرہ ان کا کوئی ہم پلہ نہیں مگر ان کا ہم پلہ وہ عالم دین ہے کہ جو باعمل ہو کیونکہ علم کی شرف و فضیلت نسب کی فضیلت سے زیادہ ہے
(جوھرۃ نیرۃ2/11)
۔
4...إذْ شَرَفُ الْعِلْمِ فَوْقَ النَّسَبِ
کیونکہ علم کی شرف و منزلت فضیلت نسب سے زیادہ ہے
(مجمع الانھر1/340)
۔
5....لأن شرف العلم فوق شرف النسب، وارتضاه في (فتح القدير) وجزم به البزازي
کیونکہ علم کی شرف و منزلت فضیلت نسب سے زیادہ ہے، اسی اصول کو محقق علی الاطلاق صاحب فتح القدیر نے اختیار کیا ہے اور اسی کو یقینی قرار دیا امام بزازی نے
(النھر الفائق2/220)
۔
6....لِأَن شرف الْعلم اقوى وارفع
کیونکہ علم کا شرف مضبوط ہے قوی ہے اعلی و ارفع ہے
(لسان الحکام ص319)
۔
7....عالم با عمل اعلی نسب والے سے سادات کرام سے افضل ہے علم کے اعتبار سے مجموعی اعتبار سے نہ کہ نسب کے اعتبار سے۔۔۔یہ بات فقط تفقہات نہیں بلکہ علماء کرام نے اس بات کو دلائل عقلیہ اور دلائل منقولیہ یعنی قران و حدیث سے ثابت کیا ہے
وَإِنْ بِالْعَالِمِ فَكُفْءٌ لِأَنَّ شَرَفَ الْعِلْمِ فَوْقَ شَرَفِ النَّسَبِ وَالْمَالِ كَمَا جَزَمَ بِهِ الْبَزَّازِيُّ وَارْتَضَاهُ الْكَمَالُ وَغَيْرُهُ وَالْوَجْهُ فِيهِ ظَاهِرٌ۔۔۔۔لِأَنَّ شَرَفَ الْعِلْمِ فَوْقَ شَرَفِ النَّسَبِ وَارْتَضَاهُ فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ وَجَزَمَ بِهِ الْبَزَّازِيُّ۔۔۔۔وَذَكَرَ أَيْضًا أَنَّهُ جَزَمَ بِهِ فِي الْمُحِيطِ وَالْبَزَّازِيَّةِ وَالْفَيْضِ وَجَامِعِ الْفَتَاوَى وَصَاحِبِ الدُّرَرِ۔۔أَقُولُ: قَدْ عَلِمْت أَنَّ مَا صَحَّحَهُ فِي الْيَنَابِيعِ غَيْرُ مَا مَشَى عَلَيْهِ الْمُصَنِّفُ، وَأَمَّا مَا ذَكَرَهُ مِنْ ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ فَقَدْ تَبِعَ فِيهِ الْبَحْرَ۔۔۔۔ وَالْعَرَبُ أَكْفَاءٌ أَيْ فَلَا يُكَافِئُهُمْ غَيْرُهُمْ وَلَا يَخْفَى أَنَّ هَذَا وَإِنْ كَانَ ظَاهِرُهُ الْإِطْلَاقَ، وَلَكِنْ قَيَّدَهُ الْمَشَايِخُ بِغَيْرِ الْعَالِمِ وَكَمْ لَهُ مِنْ نَظِيرٍ فَإِنَّ شَأْنَ مَشَايِخِ الْمَذْهَبِ إفَادَةُ قُيُودٍ وَشَرَائِطَ لِعِبَارَاتٍ مُطْلَقَةٍ اسْتِنْبَاطًا مِنْ قَوَاعِدَ كُلِّيَّةٍ أَوْ مَسَائِلَ فَرْعِيَّةٍ أَوْ أَدِلَّةٍ نَقْلِيَّةٍ وَهُنَا كَذَلِكَ،۔۔۔هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ} [الزمر: 9] إلَى آخِرِ مَا أَطَالَ بِهِ فَرَاجِعْهُ فَحَيْثُ كَانَ شَرَفُ العلم أَقْوَى مِنْ شَرَفِ النَّسَبِ بِدَلَالَةِ الْآيَةِ وَتَسْرِيحِهِمْ بِذَلِكَ اقْتَضَى تَقْيِيدَ مَا أَطْلَقُوهُ هُنَا اعْتِمَادًا عَلَى فَهْمِهِ مِنْ مَحَلٍّ آخَرَ، فَلَمْ يَكُنْ مَا ذَكَرَهُ الْمَشَايِخُ مُخَالِفًا لِظَاهِرِ
الرِّوَايَةِ،
عالم با عمل جو کسی بھی نسب کا ہو وہ عالی نسب سادات کرام کا ہم پلہ ہے کیونکہ علم جس پر عمل کیا جائے اس کا شرف و منزلت نسب و مال سے زیادہ ہے۔۔۔اسی اصول کو محقق علی الاطلاق صاحب فتح القدیر نے اختیار کیا ہے اور اسی کو یقینی قرار دیا امام بزازی نے، جو کہ بالکل واضح ہے۔۔۔۔محیط اور بزازیہ اور فیض اور جامع الفتاوی اور صاحب درر نے بھی اسی اصول کو یقینی قرار دیا۔۔۔۔اور ظاہر روایہ کی جو روایت ہے کہ کوئی بھی عجمی عربی کے ہم پلہ نہیں تو یہ اگرچہ مطلق لگ رہی ہے لیکن مشائخ عظام ایسی مطلق و عام بات لکھ دیتے ہیں لیکن ان کا مقصود مطلق و عموم نہیں ہوتا بلکہ دلائل اور قواعد جو انہوں نے لکھے ہوتے ہیں دوسری جگہوں پر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں پر کوئی قید ہے اور یہاں پر قید غیر عالم کی ہے۔۔۔۔یعنی کوئی غیر عالم عجمی کسی عربی کے ہم پلہ نہیں لیکن اگر کوئی عجمی عالم باعمل ہو تو وہ عربی کے ہم پلا ہے۔۔۔دلائل میں سے سورہ زمر ایت 19 بھی ہے کہ اللہ تعالی نے مطلقا فرمایا ہے کہ علم والے اور علم جنہیں نہیں دونوں برابر نہیں ہو سکتے ...مطلب علم کی بڑی شرف و فضیلت اس ایت مبارکہ سے ثابت ہوتی ہے، لہذا ہم نے جو یہ کہا کہ علم کی بڑی شرف ہے تو کمزور نسب والا اگر علم و عمل والا ہو تو وہ عالی نسب سادات کرام کے بھی ہم پلہ ہے یہ اصول ظاہر الروایہ کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس کی تشریح ہی ہے
(فتاوی شامی مع در مختار93 ,3/92ماخوذا)
.
8....أَيْ لِكَوْنِ شَرَفِ الْعِلْمِ أَقْوَى قِيلَ إنَّ عَائِشَةَ أَفْضَلُ لِكَثْرَةِ عِلْمِهَا وَظَاهِرُهُ أَنَّهُ لَا يُقَالُ إنَّ فَاطِمَةَ أَفْضَلُ مِنْ جِهَةِ النَّسَبِ لِأَنَّ الْكَلَامَ مَسُوقٌ لِبَيَانِ أَنَّ شَرَفَ الْعِلْمِ أَقْوَى مِنْ شَرَفِ النَّسَبِ لَكِنْ قَدْ يُقَالُ بِإِخْرَاجِ فَاطِمَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - مِنْ ذَلِكَ لِتَحَقُّقِ الْبُضْعِيَّةِ فِيهَا بِلَا وَاسِطَةٍ، وَلِذَا قَالَ الْإِمَامُ مَالِكٌ: إنَّهَا بُضْعَةٌ مِنْهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَلَا أُفَضِّلُ عَلَى بُضْعَةٍ مِنْهُ أَحَدًا وَلَا يَلْزَمُ مِنْ هَذَا إطْلَاقُ أَنَّهَا أَفْضَلُ، وَإِلَّا لَزِمَ تَفْضِيلُ سَائِرِ بَنَاتِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَلَى عَائِشَةَ بَلْ عَلَى الْخُلَفَاءِ الْأَرْبَعَةِ، وَهُوَ خِلَافُ الْإِجْمَاعِ كَمَا بَسَطَهُ ابْنُ حَجَرٍ فِي الْفَتَاوَى
الْحَدِيثَةِ
علم جس پر عمل کیا جائے اس کی بڑی افضلیت و شرف ہے، اسی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سیدہ فاطمہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالی عنھا سے افضل ہیں۔۔۔اس سے بظاہر لگتا ہے کہ یوں نہ کہا جائے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا افضل ہیں، بلکہ یوں کہا جائے کہ نسب کے لحاظ سے سیدہ فاطمہ فضیلت رکھتی ہیں لیکن اس فضیلت کی وجہ سے افضلیت نہیں ملتی، اگر ایسا ہوتا تو سیدہ فاطمہ سیدہ عائشہ سے بھی افضل ہو جاتیں بلکہ خلفائے راشدین پر افضل ہو جاتیں جو کہ اجماع کے خلاف ہے (وہ اجماع کہ جو ایات و احادیث و اقوال صحابہ و اقوال اہلبیت کا مجموعہ ہے) جیسے کہ امام ابن حجر نے فتاوی حدیثیہ میں تفصیل لکھی ہے
(رد المحتار المعروف فتاوی شامی,3/93)
۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ انبیاء کرام کے بعد سب سے افضل ہیں یہ بات اہل بیت اطہار نے بھی فرمائی ہے اور یہ بات ایات و احادیث سے ثابت ہے اور قطعی ہے کہ جس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں۔۔۔۔دلائل اور حوالہ جات کے لیے تحریر کے شروع میں دیے گئے لنک نمبر دو میں اپ پڑھ سکتے ہیں۔۔اس لنک میں شروع میں غدیر کا مسئلہ ہے لیکن اس کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی افضلیت کے دلائل لکھے گئے ہیں
۔
9....امام اہل سنت مجدد دین و ملت سیدی امام احمد رضا علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
اگر وہ یہ کہتا کہ حضرات حسنین کریمین رضی ﷲ تعالٰی عنہما بوجہ جزئیت کریمہ ایك فضل جزئی حضرات عالیہ خلفائے اربعہ رضی ﷲ تعالٰی عنہم پر رکھتے ہیں اور مرتبہ حضرات خلفاء کا اعظم و اعلٰی ہے تو حق تھا مگر اس نے اپنی جہالت سے فضل کلی سبطین کو دیا اور افضل البشر بعد الانبیاء ابوبکر الصدیق کو عام مخصوص منہ البعض ٹھہرایا اور انہیں امیر ا لمومنین مولٰی علی سے افضل کہا یہ سب باطل اور خلاف اہلسنت ہے اس عقیدہ باطلہ سے توبہ فرض ہے ورنہ وہ سنی نہیں اور اس کی دلیل محض مردود و ذلیل،اگر جزئیت موجب افضلیت مرتبہ عند ﷲ ہو تو لازم کہ آج کل کے بھی سارے میرصاحب (یعنی سیدہ حضرات) اگرچہ کیسے ہی فسق و فجور میں مبتلا ہوں ﷲ عزوجل کے نزدیك امیر المومنین مولٰی علی سے افضل واعلٰی ہوں اور یہ نہ کہے گا مگر جاہل اجہل مجنون یا ضال مضل مفتون قال اللہ عزوجل:
قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیۡنَ یَعْلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعْلَمُوۡنَ ؕ" ۔ تم فرمادو کیا برابر ہوجائیں گے عالم اور بے علم۔
اور فرماتا ہے:
یَرْفَعِ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمْ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ؕ" ۔ ﷲ بُلند فرمائے گا تم میں سے مومنوں اور بالخصوص عالموں کے درجے۔
تو عند ﷲ فضل علم فضلِ نسب سے اشرف و اعظم ہے،یہ میر صاحب(یعنی سادات کرام) کہ عالم نہ ہوں اگرچہ صالح ہوں آج کل کے عالم سُنی صحیح العقیدہ کے مرتبہ کو شرعًا نہیں پہنچتے
(فتوی رضویہ276 , 29/275)
.@@@@@@@@@@@@@
بعض احادیث مبارکہ میں ہے کہ اہل بیت کو تھامے رکھو اور قران کو تھامے رکھو گمراہ نہ ہو گے۔۔۔جیسے کہ اس قسم کی حدیث ترمذی مستدرک طبرانی وغیرہ میں ہے
تو
۔
1....ان احادیث کا جواب خود اہل بیت اطہار اور اسلاف نے احادیث کی زبانی دیا گیا کہ یہ حدیث مخصوص ہے ان اہل بیت سے کہ جو سب سے پہلے کے ہیں یعنی سیدنا حسن اور حسین وغیرہ، بعد کے سادات کے لیے یہ حدیث نہیں ہے
۔
2... اور دوسرا جواب یہ ہے کہ ان احادیث کی سندیں کمزور ہیں کہ جس سے جنتی جہنمی ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا
۔
3.... اور تیسری بات یہ ہے کہ اس سے مراد علماء کرام نے دیگر احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ لیا ہے کہ وہ سادات کرام مراد ہیں کہ جو علم والے ہوں عمل والے ہوں
.
فَالْمُرَادُ بِهِمْ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْهُمُ الْمُطَّلِعُونَ عَلَى سِيرَتِهِ، الْوَاقِفُونَ عَلَى طَرِيقَتِهِ، الْعَارِفُونَ بِحُكْمِهِ وَحِكْمَتِهِ
( وہ جو روایت میں ہے کہ اہل بیت کو پکڑے رکھو تھامے رکھو وہ کفر شرک گمراپی گناہ سے محفوظ ہیں) یہ ان اہل بیت سید و سادات کے لئے ہے کہ جو اہل علم ہوں رسول کریم کی سیرت کو جانتے ہوں اور رسول کریم کی طریقت کو جانتے ہو رسول کریم کے حکم اور حکمتوں کو جانتے ہوں
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح9/3975)
.
أن المراد بالعترة هم الذين وافق أمرهم كتاب الله
(وہ جو روایت میں ہے کہ اہل بیت کو پکڑے رکھو تھامے رکھو وہ کفر شرک گمراپی گناہ سے محفوظ ہیں) اس سے مراد وہ سید و سادات ہیں کہ جن کا معاملہ(قول و عمل کتاب اللہ( اور نبی پاک کی سنت )کے موافق ہو
(الكوكب الدري على جامع الترمذي4/425)
.
المراد بعترته العلماء العاملون منهم
(وہ جو روایت میں ہے کہ اہل بیت کو پکڑے رکھو تھامے رکھو وہ کفر شرک گمراپی گناہ سے محفوظ ہیں) اس سے مراد وہ سید و سادات ہیں کہ جو شریعت پر عمل کرتے ہو
(التنوير شرح الجامع الصغير4/216)
(فيض القدير شرح الجامع الصغير3/14)
.
وقد تركت فيكم ما لن تضلوا بعده إن اعتصمتم به
كتاب الله،
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تم میں وہ چھوڑے جارہا ہوں کہ جس کو تم مضبوطی سے پکڑے رکھو گے تو تم گمراہ نہیں ہوں گے اور وہ کتاب اللہ ہے
(صحیح مسلم حدیث2950)
۔
" تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم ان کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے کتاب اللہ اور اللہ کے نبی کی سنت یعنی میری سنت
(جامع بيان العلم وفضله1/755)
(موطأ مالك رواية أبي مصعب الزهري2/70نحوہ)
(جمع الجوامع المعروف 12/422نحوہ)
(إتحاف المهرة لابن حجر12/518نحوہ)
(مستدرک حاکم 1/172نحوہ)
(السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية10/194نحوہ)
۔
@@@@@@@@@@
وانا تارك فيكم ثقلين ، اولهما كتاب الله فيه الهدى والنور ، فخذوا بكتاب الله واستمسكوا به ، فحث على كتاب الله ورغب فيه ، ثم قال : واهل بيتي اذكركم الله في اهل بيتي ، اذكركم الله في اهل بيتي ، اذكركم الله في
اهل بيتي
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں پہلی کتاب اللہ ہے کہ جس میں ہدایت ہے نور ہے تو کتاب اللہ کو تھامے رکھو... پھر فرمایا کہ میرے اہل بیت میں تمہیں اہل بیت کے متعلق حسن سلوک کی نصیحت کرتا ہوں میں تمہیں اہل بیت کے متعلق حسن سلوک کی نصیحت کرتا ہوں میں تمہیں اہل بیت کے متعلق حسن سلوک کی نصیحت کرتا ہوں
(صحیح مسلم حدیث6225)
۔
اس حدیث پاک میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اہل بیت کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کی نصیحت نہیں کی گئی کہ تم اہل بیت کو تھامو گے تو گمراہ نہیں ہو گے ایسا نہیں فرمایا گیا... لیکن اس حدیث پاک میں یہ واضح ہے کہ اہل بیت اگر گناہ فسق فجور بد مذہبی وغیرہ میں ملوث ہوں تو بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے گا ، ایسا ادب کیا جائے گا کہ جس سے فتنہ فساد نہ پھیلے، ایسا ادب و تعظیم نہ دیں گے، ایسا منصب امامت و خطابت و تدریس کتابت تحریر تقریر نہ دیں گے کہ لوگ اس کی بد مذہبی کو ہماری تعظیم کی وجہ سے بدمذہبی نہ سمجھنے لگیں۔۔۔۔کیونکہ اس سے دھوکہ کھا کر لوگ گناہ کریں بد مذہبی کریں اپنائیں یہ شرعا قران و حدیث کی وجہ سے ممنوع ہے
*#دلیل نمبر1*
القرآن:
قَالَ لَا یَنَالُ عَہۡدِی الظّٰلِمِیۡنَ
اللہ تعالی نے فرمایا کہ میرا دیا ہوا عہدہ(نبوت امامت وغیرہ) ظالموں(کافروں بدمذہبوں وغیرہ) کے لیے نہیں ہے
(سورہ بقرہ آیت124)
.
ظلمة، وأنهم لا ينالون الإمامة لأنها أمانة من الله تعالى وعهد، والظالم لا يصلح لها، وإنما ينالها البررة الأتقياء منهم... وأن الفاسق لا يصلح للإمامة
اس ایت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ دینی عہدہ تو اللہ تعالی کی طرف سے امانت ہے، لہذا ظالم(کافر بذمذہب وغیرہ) لوگ امامت کے مستحق نہیں، امامت کے مستحق تو نیک متقی لوگ ہیں، فاسق(اسی طرح فاجر گستاخ بدمذہب گمراہ وغیرہ) امامت کے لائق نہیں
(تفسیر بیضاوی1/104ملتقطا)
.
وَقَالُوا فِي هَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْفَاسِقَ لَا يَصْلُحُ لِلْإِمَامَةِ
علماء مفسرین محدثین فرماتے ہیں کہ اس ایت میں دلیل ہے کہ فاسق(اسی طرح فاجر گستاخ بدمذہب گمراہ وغیرہ) امامت کے لائق نہیں
(تفسیر البحر المحیط1/605)
.
فَلَا يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ الظَّالِمُ نَبِيًّا وَلَا خَلِيفَةً لِنَبِيٍّ وَلَا قَاضِيًا، وَلَا مَنْ يَلْزَمُ النَّاسَ قَبُولُ قَوْلِهِ فِي أُمُورِ الدِّينِ مِنْ مُفْتٍ أَوْ شَاهِدٍ أَوْ مُخْبِرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرًا فَقَدْ أَفَادَتْ الْآيَةُ أَنَّ شَرْطَ جَمِيعِ مَنْ كَانَ فِي مَحَلِّ الِائْتِمَامِ بِهِ فِي أَمْرِ الدِّينِ الْعَدَالَةُ وَالصَّلَاحُ، وَهَذَا يَدُلُّ أَيْضًا عَلَى أَنَّ أَئِمَّةَ الصَّلَاةِ يَنْبَغِي أَنْ يَكُونُوا صَالِحِينَ غَيْرَ فُسَّاقٍ وَلَا ظَالِمِينَ لِدَلَالَةِ الْآيَةِ عَلَى شَرْطِ الْعَدَالَةِ لِمَنْ نُصِبَ مَنْصِبَ الِائْتِمَامِ بِهِ فِي
أُمُورِ الدِّينِ
ظالم(فاجر بدمذہب گمراہ) کوئی نبی نہیں تھا اور کوئی ظالم(فاجر بدمذہب گمراہ) خلیفہ نہیں بن سکتا بادشاہ و قاضی بھی نہیں بن سکتا بلکہ ہر وہ عہدہ اس کے لیے جائز نہیں کہ جس میں امور دین کا اسکے معتبر ہونے معاملہ ہو جیسے کہ وہ معتبر مفتی نہیں ہو سکتا مفتی نہیں کہلوا سکتا وہ گواہ نہیں بن سکتا، وہ معتبر راوی نہیں ہوسکتا، یہ سب کچھ ایات مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے، ایت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ان تمام امور ایسے تمام معاملات کے لیے عادل ہونا نیک ہونا سچا ہونا ضروری ہے، اس ایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز کے جو امام ہوتے ہیں وہ نیک لوگ ہوں، فاسق(فاجر ظالم گمراہ بدمذہب) امام نہیں بن سکتے کیونکہ ایسے منصب کے لیے نیک اور سچا عادل ہونا ضروری ہے
(احکام القرآن للجصاص1/84)
۔
یہ ایت مبارکہ اور اس کی یہ تفاسیر واضح کر رہے ہیں کہ سید ہو یا غیر سید اگر کوئی بھی فاسق فاجر بد مذہب گمراہ ہو جائے تو اسے کوئی منصب نہ دیں گے اور ایسی کوئی تعظیم بھی نہیں دے سکتے کہ جس سے لوگ دھوکہ کھا کر یہ سمجھنے لگیں کہ اس کی تعظیم کی جا رہی ہے تو یقینا اس کے اقوال افعال وغیرہ سب اچھے ہوں گے تو وہ بھی گمراہ ہو جائیں گے اس لیے ایسی تعظیم ممنوع ہے
.
*#دلیل نمبر2*
القرآن:
فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّکۡرٰی مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ
یاد آجانے(دلائل آجانے)کے بعد تم ظالموں(بدمذبوں گمراہوں گستاخوں مکاروں گمراہ کرنے والوں منافقوں ظالموں) کے ساتھ نہ بیٹھو(نہ میل جول کرو، نہ انکی محفل مجلس میں جاؤ، نہ کھاؤ پیو، نہ شادی بیاہ دوستی یاری کرو،ہر طرح کا بائیکاٹ کرو)
(سورہ انعام آیت68)
.
وَكَذَلِكَ مَنَعَ أَصْحَابُنَا الدُّخُولَ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ وَدُخُولِ كَنَائِسِهِمْ وَالْبِيَعِ، وَمَجَالِسِ الْكُفَّارِ وَأَهْلِ الْبِدَعِ، وَأَلَّا تُعْتَقَدَ مَوَدَّتُهُمْ وَلَا يُسْمَعَ كَلَامُهُمْ
ہمارے علماء نے اس ایت سے ثابت کیا ہے کہ دشمنوں کے پاس نہ رہا جائے،چرچ گرجا گھروں میں ہرگز نہ مسلمان نہ جائے،کفار اہل کتاب اور بدمذہب سے بھی میل جول نہ رکھا جائے،نہ ان سے محبت رکھے، نہ انکا کلام سنے(یہود و نصاری مشرکین کفار ملحدین منافقین مکار بدمذہب سب سے بائیکاٹ کیا جائے،بغیر محبت و دوستی یاری کے احتیاط کے ساتھ فقط سودا بازی تجارت کی جاسکتی ہے بشرطیکہ اسلام پے آنچ نہ آئے بلکہ تجارت سے اسلام و مسلمین کا فائدہ مدنظر ہو)
(تفسیر قرطبی 7/13)
.
*#دلیل نمبر3*
الحدیث:
فَلَا تُجَالِسُوهُمْ، وَلَا تُؤَاكِلُوهُمْ، وَلَا تُشَارِبُوهُمْ، وَلَا تُنَاكِحُوهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا مَعَهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا عَلَيْهِمْ
ترجمہ:
بدمذہبوں گستاخوں کے ساتھ میل جول نہ رکھو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان سے شادی بیاہ نہ کرو، ان کے معیت میں(انکے ساتھ یا ان کے پیچھے) نماز نہ پڑھو(الگ پرھو)اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھو
(السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/483حدیث769)
۔
واضح حکمِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ گستاخ بدمذہبوں اور انکو درست سمجھنے والوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی، ان کے ساتھ نماز نہیں پڑھنی...انکا ہر طرح سے باءیکاٹ لازم ہے چاہے وہ سادات ہوں یا غیر سادات۔۔۔۔ مگر سادات کرام کا ادب کیا جائے گا ،ایسا ادب کہ جس سے فتنہ و گمراہی نہ پھیلے
.
*#دلیل نمبر4*
الحدیث:
فلا تناكحوهم ولا تؤاكلوهم ولا تشاربوهم ولا تصلوا معهم ولا تصلوا عليهم
بدمذہبوں گستاخوں کے ساتھ شادی بیاہ نہ کرو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان کے معیت میں (انکے ساتھ یا ان کے پیچھے) نماز نہ پڑھو(الگ پرھو)اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھو
(جامع الأحاديث ,7/431حدیث6621)
.
*#دلیل نمبر5*
الحدیث:
أَلَا لَا تَؤُمَّنَّ امْرَأَةٌ رَجُلًا،... وَلَا يَؤُمَّ فَاجِرٌ مُؤْمِنًا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا خبردار کوئی بھی عورت مرد کی امامت نہ کرائے اور کوئی فاجر(گمراہ بدمذہب بدعتی)کسی مومن کی امامت نہیں کرا سکتا
(ابن ماجہ حدیث1081)
واضح ہے کہ عورت اور فاجر بدمذمب گمراہ بدعتی کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتے چاہے وہ خانہ کعبہ کا امام ہو یا کسی اور جگہ کا امام ہو، چاہے سید ہو یا چاہے غیر سید اسکے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتے
۔
*#دلیل نمبر6*
الحدیث:
[ ایاکم و ایاھم لا یضلونکم و لا یفتنونکم ]
’’گمراہوں،گستاخوں، بدمذہبوں سے دور بھاگو ، انہیں اپنے سے دور کرو(سمجھانے کے ساتھ ساتھ قطع تعلق و بائیکاٹ کرو) کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں، کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں‘‘(صحیح مسلم1/12)
۔
لہذا اگر علماء کرام یا سادات کرام گمراہ بد مذہب ہو جائیں اور گمراہی بدمزہ بھی پھیلائیں تو ان سے دوری اختیار کرنا ضروری ہے تاکہ وہ گمراہ نہ کر دیں اور ان پر ادب کے ساتھ پابندی لگائی جائے گی اور پابندی لگانے والے بہتر ہے کہ سادات کرام و بڑے علماء ہی پابندی لگائیں
.
*#دلیل نمبر7*
الحدیث:
فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا
جاہل و کم علم(اپنی من مانی، اپنی خواہشات کے مطابق یا کم علمی کی بنیاد پر یا غلط قیاس کی بنیاد پر) فتویٰ دیں گے تو وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے( لہذا ایسوں سے بچو،ایسے کم علم و گمراہوں سے قرآن و حدیث مت سنو..ایسوں کی بات کا کوئی اعتبار نہیں لیھذا انکی نہ سنو نہ مانو بلکہ معتبر سچے علماء سے تحقیق و تصدیق کراؤ.... ایسوں کے خلاف شرع و غلط قیاس و گمان سے بچو،ایسوں کی نام نہاد تحقیق سے بچو...ایسوں کے خلاف شرع و غلط قیاس و حکم کی تقلید و پیروی سے بچو)
(بخاری حدیث100)
.
*#دلیل نمبر8*
الحدیث:
إِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے اپنی امت پر ان لوگوں کا خوف ہے کہ جو گمراہ کن ائمہ(خطیب یوٹیوبر سوشلی اور جعلی محقق، جعلی عالم مفتی، واعظ بظاہر علم بیان کرنے والے) ہوں گے
(ترمذی حدیث2229)
.
گمراہ کن ائمہ یعنی پیشوا ہوں گے، بظاہر عالم پیر سید خطیب محقق کہلاتے ہونگے اور اپنی پیروی کا کہیں گے اور قران و حدیث پڑھ کر سنائیں گے، قران و حدیث سے اپنی من مرضی کے احکامات نکالیں گے لیکن اس طرح ہوں گے کہ کم علمی یا ایجنٹی یا عیاشی لالچ وغیرہ کی بنیاد پر غلط جواب دیں گے، قران مجید کی تمام ایات کی تفاسیر اس کو مد نظر نہ ہوں گی اور اکثر احادیث و شروحات کا علم نہ ہوگا یا اکثر احادیث کا صحیح فہم نہ ہوگا اور اقوال صحابہ کرام کا علم نہ ہوگا... عربی علوم لغت معنی صرف نحو بدیع بیان حقیقت مجاز وغیرہ علوم و فنون اسے نہ ہوں گے اور وہ ان تمام کے بغیر مسائل نکال کر بتاتا پھرے گا۔۔۔ ایت و احادیث کی غلط تاویل و تفسیر و تشریح کرتا پھرے گا۔۔۔ پھیلاتا پھرے گا اور گمراہ ہوگا اور گمراہ کرتا پھرے گا... لہذا ان سے دور رہو یہ قران و حدیث کے حوالے دے تب بھی ان کا کوئی اعتبار نہ کرو کیونکہ یہ قران و حدیث کے معنی کرنے میں معنی و مقصود سمجھانے میں دو نمبری کرتے ہیں.... ان دو نمبر کو پہچانو.... ان دو نمبر کی وجہ سے اصلی سادات کرام اور اصلی علماء اصلی مولوی سے نفرت نہ کرو
.
*#دلیل نمبر9*
الحدیث:
لَيْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ
ترجمہ: جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں.(ابن ماجہ حدیث2224)
لہذا اگر عالم یا کوئی سید صاحب بالفرض بد مذہب گمراہ ہو جائے تو انہیں ایسی تعظیم و ادب ایسا منصب ہرگز نہ دیں گے کہ جس سے لوگ دھوکہ کھا کر گمراہ ہوتے جائیں
.
*#دلیل نمبر10*
سیدی امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے ایک فتوی یہ دیا کہ سیدی اگرچہ تفضیلی ہو جائے بد مذہب ہو جائے پھر بھی اس کا ادب کیا جائے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیدی امام احمد رضا کا یہ فتوی بھی ملاحظہ کیجیے کہ کسی نے پوچھا کہ تفضیلی سید امامت کرا سکتا ہے یا نہیں تو آپ نے جواب میں لکھا کہ:
تمام اہلسنت کا عقیدہ اجماعیہ ہے کہ صدیق اکبر و فاروق اعظم رضی ﷲ تعالی عنہ مولی علی کرم ﷲ تعالی وجہہ الکریم سے افضل ہیں،ائمہ دین کی تصریح ہے جو مولی علی کو ان پر فضیلت دے مبتدع بدمذہب ہے، اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔فتاوی خلاصہ وفتح القدیرو بحرالرائق وفتاوی عالگیریہ وغیرہا کتب کثیرہ میں ہے:ان فضل علیا علیھما فمبتدع(اگر کوئی حضرت علی کو صدیق و فاروق پر فضیلت دےتا ہے تو وہ بدعتی ہے ۔ت)
( خلاصۃ الفتاوی کتاب الصلوۃ الاقتداء باھل الہوائ مطبوعہ مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱ /۱۴۹)
ف: خلاصۃ الفتاوی میں ''ان فضل علیا علی غیرہ'' ہے ۔غنیہ وردالمحتارمیںہے:الصلوۃ خلف المبتدع تکرہ بکل حال ۲؎
(بدمذہب کے پیچھے ہر حال میں مکروہ ہے)
(۲؎ ردالمحتار باب الامامۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۴۱۴)ارکان اربعہ میں ہے:الصلوۃ خلفھم تکرہ کراھۃ شدیدۃ ۳؎
(ان یعنی تفضیلی شیعہ کی اقتداء میں نماز شدید مکروہ ہے۔ت)(۳؎رسائل الارکان فصل فی الجماعۃ مطبوعہ مطبع علوی انڈیا ص۹۹)
تفضیلیوں کے پیچھے نماز سخت مکروہ یعنی مکروہ تحریمی ہے کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب ۔وﷲ تعالی اعلم
(فتاوی رضویہ6/622)
.
دیکھا سیدی امام احمد رضا علیہ الرحمۃ نے بےشک ادب کا بھی فتوی دیا تھا اور یہ بھی فتوی دیا کہ وہ امامت کے لائق نہیں،اسکے پیچھے نماز جائز نہیں
لیھذا
ایات مبارکہ احادیث مبارکہ اقوال علماء اور سیدی امام احمد رضا کے بحوالہ مدلل فتوے کے مطابق اگر کوئی عالم یا سید گمراہ بدعتی بدمذہب تفضیلی ہوجائے تو سمجھاءیں گے،حالت تنہائی میں محتاط ادب کریں گے،تنہائی میں ملنا پڑے تو ملاقاتی ادب کریں گے اور اس کے علاوہ کوئی رعایت نہیں، ایسا کوئی ادب نہ کریں گے ، ایسا کوئی منصب نہ دیں گے کہ جس سے لوگ گمراہ ہوتے جائیں یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فرمان کے خلاف ہم اقدام اٹھا کر عالم صاحب کو یا سید صاحب کو کوئی منصب نہیں دے سکتے....سیدی رضا نے عام فقہی عبارات کو سادات پر بھی فٹ کیا لیھذا اوپر والی تمام احادیث سادات پر بھی فٹ ہونگیں...
.
الحدیث
حَسْبُ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کسی کے بدتر ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر و کمتر سمجھے
(ابو داؤد حدیث 4882)
۔
سادات کرام علمائے عظام بلکہ ہر مسلمان کا احترام کرنا چاہیے لیکن سادات کرام اور علماء عظام کا احترام و ادب تو بہت زیادہ لازم ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اتنا ادب کرتے جائیں ،ادب میں اتنے لاپرواہ ہوتے جائیں کہ اگلا بندہ لوگوں کو، ادب کرنے والوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگ جائے، حقیر کیڑے مکوڑے سمجھنے لگ جائے کہ اس کے اقوال و کردار سے اس طرح کا پتہ چلے کہ وہ دوسروں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔۔۔۔۔!!
.
الحديث:
الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ، وَغَمْطُ النَّاسِ
تکبر تو یہ ہےکہ حق کی پرواہ نہ کی جاے،حق کو ٹھکرایا جائے اور(جن کو اسلام نے عزت دی ان)لوگوں کو،دوسروں کو حقیر سمجھا جائے...(مسلم حدیث256)
غور کیجیے اسلامی عزت والوں کو حقیر سمجھنا تکبر ہے، حق سچ اسلامی تعلیمات کی پرواہ نہ کرنا تکبر ہے
۔
حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ هِشَامَ بْنَ الْمُغِيرَةِ كَانَ يَصِلُ الرَّحِمَ وَيَقْرِي الضَّيْفَ، وَيَفُكُّ الْعُنَاةَ، وَيُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَلَوْ أَدْرَكَ أَسْلَمَ، هَلْ ذَلِكَ نَافِعُهُ؟ قَالَ: " لَا، إِنَّهُ كَانَ يُعْطِي لِلدُّنْيَا وَذِكْرِهَا وَحَمْدِهَا
اسےسخاوت،امداد،کھانا کھلانا،صلہ رحمی خدمات وغیرہ کچھ فائدہ نہ دیں گےکیونکہ وہ یہ سب واہ واہ،دنیاوی مفاد و مطلبیت اور لوگوں کو اپنا خوشامدی چاپلوس بنانےکےلیےکرتا تھا(مسند ابی یعلی حدیث6965ملخصاماخوذا)واہ واہ، ووٹ بینک بڑھانے،شہرت دولت کمانے،خوشامدی چاپلوسی غلامی کرنے کروانےکےلیے امداد سخاوت تبلیغ تقریر تحریر کچھ فائدہ نہ دیگی…کثرت یا قلت سے دیجیے لیجیے ،ادب کیجیے مگر دل سے،اخلاص سے،بغیر لالچ کے…!!
.
الحدیث،ترجمہ:
دوبھوکے بھیڑیے اگر بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑدئیے جائیں تو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا کہ مال و دولت کی حرص اور حب جاہ(طلب شہرت،حب ناموری)مومن کے دین کو نقصان پہنچاتے ہیں(ترمذی حدیث2376)#لیڈر وہی، #علماء وہی ،#مبلغ،واعظ،لکھاری،مناظر وہی #خدمتگار وہی جو لکھتےہیں،تقریر کرتےہیں،خدمات کرتے ہیں خلوص کے ساتھ، حق کےلیے.......!!
.
الحدیث:
قولوا بقولكم، أو بعض قولكم، ولا يستجرينكم الشيطان
ترجمہ:
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں کچھ الفاظ کہے گئے تھے تو اس پر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ)
تعظیم کے الفاظ کہو یا بعض الفاظ کہو لیکن خیال رہے کہ شیطان تمھیں جری نا بنا دے
(یعنی شیطان تمھیں تعظیم میں حد سے بڑھنے والا،غلو کرنے والا بےباک نا بنا دے)
(ابو داؤد حدیث نمبر4806)
.
جسکو اللہ نے عزت و عظمت دی ہے اسکی عزت تعظیم.و.قدر کرنی چاہیے مگر حد میں رہتے ہوئے.....!!
۔
نجدی خارجی لوگ توحید اور اللہ کی شان بیان کرنے کی آڑ میں انبیاء کرام اولیاء کرام کی توہین و تنقیص کرتے ہیں، عام آدمی کہتے لکھتے ہیں، غیر اللہ کی تعظیم کو مطلقا شرک و بدعت کہتے ہیں، وہ ٹھیک نہیں....ہرگز نہیں...کم سے کم گمراہی تو ضرور ہے بلکہ کبھی توہین کفر بھی ہوجاتی ہے....
۔
اسی طرح اہلسنت وغیرہ میں سے وہ جاہل کم علم جو غلو کرتے ہیں وہ بھی ٹھیک نہیں۔۔۔۔ جو انبیاء کرام علیہم السلام صحابہ عظام، اہل بیت عظام اور علماء و اولیاء کرام کی تعظیم میں حد سے بڑھ جائیں،چاپلوسی چمچہ گیری جھوٹی تعریف میں پڑتے جائیں۔۔۔انہیں سجدے کرتے پھریں یا انکی منتیں مانگتے پھریں.۔۔۔یہ سب بھی ٹھیک نہیں ہرگز نہیں
۔
جب صحابہ کرام اہل بیت عظام سادات کرام اور انبیاء کرام علیہم الصلاۃ و السلام حتی کہ سیدالانبیاء فداہ روحی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں احتیاط و سچائی لازم تو پھر امتی یعنی علماء مشاءخ صوفیاء مرشد استاد سادات شہداء وغیرہ کی تعریف و شان بیان کرنے میں بھی اسلامی حد، احتیاط و سچائی بدرجہ اولی لازم......!!
.
*#خود کو عالم مفتی لکھنا.........؟؟*
القرآن،ترجمہ:
یوسف نے کہا مجھے زمین کے خزانوں پر کردے بیشک میں حفاظت والا علم والا ہوں(سورہ یوسف ایت 55)
اس آیت مبارکہ سے علمائے کرام نے دلیل اخذ کی ہے کہ ویسے تو منصب کی طلب جائز نہیں مگر یہ کہ ضرورت ہو یا خوف ہو کہ نا اہل منصب پر آجائیں گے تو اس حالت میں منصب کی طلب جائز ہے جیسے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے منصب کی طلب کی۔۔۔۔۔اسی طرح اپنے آپ کو عالم وغیرہ لکھنا بھی ٹھیک نہیں مگر جب وقت ضرورت ہو یا اچھا مقصد ہو تو احتیاط کے ساتھ عالم لکھنا مفتی لکھنا اہل کے لیے جائز ہے بشرطیکہ تفاخر نہ ہو تکبر نہ ہو جیسے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنے آپ کو حفاظت والا علم والا کہا۔۔(دیکھیے تفسیر خزائن العرفان مرآة شرح مشکاة وغیرہ)
۔
اپنی منہ اپنی تعریف ٹھیک نہیں مگر اپنے منہ اپنا تعارف یعنی بطور تعارف یا وقت ضرورت القاب لگانا جائز ہے..ڈاکٹر اگر ایم.بی بی ایس وغیرہ لکھے تو اعزاز کی بات ہے اور اگر اچھے مقصد کے لیے عالم خود کو عالم لکھے مفتی خود کو مفتی لکھے تو عیب،اعتراض......؟؟
واقعی کوئی عالم،مفتی ہوتو ڈاکٹر،جج،وکیل کیطرح تعارفا یا دیگر اچھے مقاصد کے تحت عالم مفتی لکھے تو برحق
مگر
اپنی تعریف و تکبر و بڑائی مقصد ہو تو ناحق و جرم....غیر مستحق ہو یا بطورِ تکبر عالم ہونا جتاے تو جرم.و.عیب ہے ورنہ ہرگز نہیں
فتاوی عالمگیری میں ہے کہ:
لا بأس للعالم أن يحدث عن نفسه بأنه عالم ليظهر علمه فيستفيد منه الناس وليكن ذلك تحديثا بنعم الله تعالى
(فتاوی عالمگیری جلد5 صفحہ377)
صاحبِ بہار شریعت خلیفہ اعلی حضرت اسکا تشریحی ترجمہ کرتے ہوے فرماتے ہیں:
عالم اگر اپنا عالم ہونا لوگوں پر ظاہر کرے تو اس میں حرج نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ تفاخر کے طور پر یہ اظہار نہ ہو
(کہ تفاخر حرام ہے)بلکہ محض تحدیثِ نعمت الٰہی کے لیے یہ اظہار ہو اور یہ مقصد ہو کہ جب لوگوں کو ایسا معلوم ہوگا تو استفادہ کریں گے کوئی دین کی بات پوچھے گا اور کوئی پڑھے گا..(فتاوی عالمگیری جلد5 صفحہ377,بہار شریعت جلد3 حصہ16 صفحہ627)
۔
اللہ بہتر جانتا ہے کہ میں اگر اپنے نام کے ساتھ علامہ لکھتا ہوں تو علامہ ہونے کا غرور اور تکبر نہیں ہے غرور و تکبر کی وجہ سے نہیں لکھتا ہوں۔۔۔عالم ہونے کا جتانے کے لیے نہیں لکھتا ہوں۔۔۔بلکہ میرے استاد محترم نے مجھے یہ اجازت دی بلکہ حکم دیا کہ تحریر میں نام کے ساتھ علامہ لکھو
کیونکہ
تحریر پھیلتے پھلتے نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے اگر علامہ نہیں لکھا ہوگا تو لوگوں کو زیادہ اطمینان حاصل نہ ہوگا ، لوگ سمجھیں گے کہ یہ شاید کسی عام مولوی لکھاری کی تحریر ہے جبکہ علامہ لکھا ہوگا تو تحریر میں وزن پڑے گا کہ یہ حوالہ جات معتبر اور درست ہیں کسی جاننے والے نے، علامہ نے لکھے ہیں اور مزید اس کی یہ بھی فوائد ہوں گے کہ لوگ اعتراضات و مسائل وغیرہ میں رہنمائی لیں گے
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
New whatsapp nmbr
03062524574
00923062524574