Labels

ایت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ باہم تعاون کرو مدد کرو ورنہ فتنہ فساد تباہی ہوگی، ائیے سوچتے ہیں کیسے۔۔۔۔؟؟ اور مدد ضرور ضرور کریں مگر کن کی۔۔اور کیوں۔۔اور کیسے۔۔۔ اور کتنی۔۔۔ اور کب۔۔۔اور کن کی مدد نہ کریں۔۔۔اور مولوی کیوں نہیں کماتے۔۔۔۔۔۔؟؟:

 *#ایت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ باہم تعاون کرو مدد کرو ورنہ فتنہ فساد تباہی ہوگی، ائیے سوچتے ہیں کیسے۔۔۔۔؟؟ اور مدد ضرور ضرور کریں مگر کن کی۔۔اور کیوں۔۔اور کیسے۔۔۔ اور کتنی۔۔۔ اور کب۔۔۔اور کن کی مدد نہ کریں۔۔۔اور مولوی کیوں نہیں کماتے۔۔۔۔۔۔؟؟*

القرآن:

اِلَّا تَفۡعَلُوۡہُ  تَکُنۡ فِتۡنَۃٌ  فِی الۡاَرۡضِ وَ فَسَادٌ کَبِیۡرٌ

اگر تم مسلمان یہ(یعنی ایک دوسرے سے علمی،جانی ،مالی، اتحاد،جائز جدت و عسکری قوت وغیرہ ہر مناسب ترقی و تعاون)نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ تباہی و بڑا فساد برپا ہو گا(سورہ انفال ایت73 +تفاسیر)

1️⃣ہم اگر علماء مدارس لکھاری امام مسجد وغیرہ دینی کام و اصلاح میں مگن لوگوں کی جانی مالی تحفظاتی حوصلاتی مدد نہ کریں گے۔۔۔2️⃣اگر ہم حکمرانوں کی مدد نہ کریں گے، سمجھا کر یا وقتِ ضرورت ان پر پریشر ڈال کر دین کے کام نہ کروائیں گے۔۔۔۔3️⃣دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم عسکری علوم جدت ٹیکنالوجی میں نہ چھاتے جائیں گے۔۔4️⃣ہر قسم کے سرکاری و نجی اداروں کے نصاب و نظام کو اسلام موافق نہ کرتے جائیں گے۔۔۔۔5️⃣سیاست تجارت حکومت میں اچھوں کو نہ لاتے جائیں گے۔۔۔6️⃣اتحاد نہ کریں گے۔۔7️⃣منافقوں ایجنٹوں بروں میں سے نہ سمجھنے والے ضدی فسادی سے بائیکاٹ نہ کریں گے۔۔۔8️⃣بیرونی دباؤ ہو نہ ہو ہر حال میں جراءت و دلائل کا اظہار نہ کریں گے

تو

اسی طرح غزہ کشمیر جیسے مظالم اور زمین میں فتنہ و فساد اور مسلم ممالک میں اسلام مخالف قوانین و برائی پر انسو بہانے افسوس کرنے کے علاوہ کچھ نہ کر پائیں گے۔۔۔

اب بھی وقت ہے ایت و اسلام پے عمل کریں، ہر قسم کی جائز مدد ایک دوسرے کی ضرور ضرور کریں اور ہر جائز شعبے میں چھاتے جائیں تو فتنہ فساد ختم ہوتا جائے گا ، انسانیت کا مفید نظام یعنی نظامِ اسلام نافذ ہوتا جائے گا

۔

اگے ہم اہم ترین باتیں اپ کے سامنے رکھنے والے ہیں مگر اس سے پہلے ایک گزارش ہے کہ:

https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1

۔

https://www.facebook.com/share/199Wb9nCxw/

۔

میرے واٹسپ چینل کو بھی فالو ضرور فرما لیں۔۔۔واٹس ایپ چینل کا لنک یہ ہے 

https://whatsapp.com/channel/0029Vb5jkhv3bbV8xUTNZI1E


۔

تحریرات سوالات اعتراضات کے جوابات، اہلسنت کے دفاع، معاشرے کی اصلاح و معلومات و تحقیق و تشریح و تصدیق یا تردید وغیرہ کے لیے مجھے وٹسپ کر سکتے ہیں

naya wtsp nmbr

03062524574

میرے نئے وٹسپ نمبر کو وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنائیے تاکہ میں تحریرات وہاں بھیج سکوں،،،سوالات اعتراضات کے جوابات دے سکوں۔۔۔۔دینی خدمات زیادہ سے زیادہ سر انجام دے سکوں۔۔

نیز کافی ساری تحقیقات تحریرات معلومات اوپر دیے گئے تین لنکس میں موجود ہے وہاں سرچ کر کے بھی فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔۔۔۔!!

۔

@@@@@@@@@@

کسی معتبر سرگرم مدرسے اور کسی معتبر مستحق عالم لکھاری ورکر مستحقین سے مالی تعاون کرتے تھے تو ایک دم سے مالی تعاون ختم نہ کیجیے، اگرچہ اپ کے حالات کچھ خراب ہو جائیں تو بھی تعاون ضرور جاری رکھیے اگرچہ مجبورا کم مالی تعاون دیں مگر دیں ضرور۔۔۔

۔

شاید اپ کو اندازہ نہ ہو کہ اپ کے تھوڑے سے بھی تعاون کی کتنی قدر و منزلت ہے

۔

بلکہ بعض عشاق کا عشق اس عروج پر ہوتا ہے کہ اگر ان کے حالات خراب ہوتے ہیں تو زیادہ تعاون کرتے ہیں تاکہ تعاون کی برکت سے حالات ٹھیک ہوں اور برکتیں زیادہ ملیں،اگرچہ بظاہر برکتیں نظر نہ ائیں لیکن برکتیں ضرور ہوتی ہیں صدقے کی۔۔۔اور صدقہ و تعاون اخرت کا سرمایہ تو ہے ہی ہے

۔

اور کمزور حالات  میں پیسہ بہت پیارا ہوتا ہے اور پیاری چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔۔۔تو حالات کیسے بھی ہوں جتنا ہو سکے اپنے ذوق کے مطابق اپنی طاقت کے مطابق خرچ ضرور کیجئے اگرچہ 500 یا ہزار ہی سہی مگر خرچ ضرور کیجئے، ہو سکے تو بہت بڑا تعاون کیجیے لیکن بظاہر چھوٹے تعاون کو بھی نظر انداز مت کیجئے بظاہر چھوٹا تعاون بھی بہت بڑا تعاون ہے

۔

لیکن جس کو اللہ تعالی نے بہت نوازا ہے تو اس پر بھی لازم ہے کہ وہ اللہ کے پیارے مستحق بندوں (علماء طلباء لکھاری مدارس خطیب امام مسجد غرباء وغیرہ مستحقین) پر بہت خرچ کرے۔۔بالخصوص معتبر سرگرم مدارس علماء طلباء لکھاری خطیب محقق مدرس امام مسجد دینی ورکرز وغیرہ پر تو ضرور بہت خرچ کیا کرے کہ ان کی کوئی سرکاری تنخواہ نہیں ہوتی اور  ان کی نجی تنخواہ بھی بہت کم ہی ہوتی ہے

.

القران:

مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ  قَرۡضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗۤ اَضۡعَافًا

کَثِیۡرَۃً

کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے (یعنی اللہ کی راہ میں، مدارس علماء ورکرز غرباء مستحقین میں صدقہ دے خرچ کرے) تو اللہ اس کے لیے بہت زیادہ بڑھا کر دے گا

(سورہ بقرہ ایت245)

ایت مبارکہ میں ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے کہ جو برکتوں سے محروم ہوتے ہیں یا ان کے پاس پیسہ بہت نہیں ہوتا تو ان کے لیے ایک راستہ بتایا گیا کہ اللہ سے ایک طرح کی تجارت کر لو، اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو وقت خرچ کرو، عبادت کرو تعاون کرو اللہ تمہیں بہت برکت دے گا اگرچہ بظاہر دنیا میں برکت تمہیں نظر نہ ائے مگر حقیقت میں بہت برکتیں ملیں گی بلکہ ہو سکتا ہے اللہ تمہارا امتحان لے کہ اپ خرچ کریں اور الٹا اپ کو نقصان پہنچے تو اللہ اپنے پیاروں کا امتحان لیتا ہے کہ میرے بندے نے خرچ کیا اخلاص کے ساتھ یا کسی لالچ کے ساتھ۔۔۔؟؟ اسے دنیاوی مفادات چاہیے یا اخرت کی بھلائیاں چاہیے اور اللہ کی مرضی کی برکتیں چاہیے۔۔۔۔؟؟

۔

القرآن:

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ

تم نیکی اور بھلائی کو اس وقت پہنچ سکتے ہو جب تم اللہ کی راہ میں وہ چیز خرچ کرو جو تمہیں محبوب و پسند ہو

(سورہ آل عمران ایت92)

اپ بہت مصروف رہتے ہیں وقت اپ کے لیے بہت پیاری چیز ہے اور پیسہ پانی کی طرح بہانہ اپ کے لیے کوئی مشکل نہیں تو یقین کیجئے اس صورت میں بے شک پیسہ نیک جگہ پر اچھی جگہ پر خرچ کرنے کی برکتیں ضرور ملیں گی مگر اصل لطف اور مزہ اپ کو اس وقت ائے گا جب اپ اپنی پیاری چیز یعنی وقت قربان کریں وقت خرچ کریں اللہ کی راہ میں وقت دیں اللہ کی راہ میں وقت دے کر نماز پڑھیں عبادات کریں نیکیاں کریں،وقت نکال کر وعظ و نصیحت سنیں پڑھیں عمل کریں

اور

اگر اپ کے پاس وقت ہی وقت ہے مگر پیسہ بہت کم ہے تو یقین جانیے وقت بہت ہے عبادتیں ریاضتیں بہت کریں گے تو اپ کو بہت فوائد ملیں گے مگر اصل لطف اور مزہ اس وقت ائے گا جب اپ اپنی پیاری چیز یعنی پیسہ خرچ کریں گے 

لیکن

پیاری چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو شرعا خرچ کرنا جائز بھی ہو۔۔۔اپ کو شراب فحاشی بہت پیاری لگتی ہے تو ایت کا یہ مطلب نہیں کہ اپ لوگوں میں شراب و فحاشی خرچ کرتے پھریں

۔

خرچ کرنے کی فضیلت تو پڑھ لی۔۔۔ اب خرچ نہ کرنے کا انجام کیا ہوتا ہے یہ بھی تھوڑا پڑھ لیں

القرآن:

وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلَآ اَخَّرْتَنِیْٓ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍلا فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ

ترجمہ:

 اور(اللہ کی راہ میں، مستحق مدارس علماء لکھاری ورکرز غرباء میں) خرچ کرو اس میں سے جو رزق ہم نے تم کو عطا کیا ہے قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے پھر وہ کہنے لگے اے میرے ربّ تُو نے مجھے تھوڑی مدت تک کی مہلت کیوں نہ دے دی کہ میں صدقہ و خیرات کر لیتا اور صالحین میں سے ہو جاتا۔۔۔(سورہ المنافقون آیت 10)

آخرت کی حسرت سے بچیے، بخل کنجوسی من موجی سے بچیے، اللہ کی راہ میں، غرباء مدارس علماء لکھاری ورکرز۔۔۔۔علم شعور فلاح اور اسلام کی ترقی میں خرچ کیجیے، خوب خرچ کیجئے

۔

من موجی، من پرستی، مطلب پرستی مفاد پرستی لالچ کی بھی مذمت ہے اور اپنے حالات تنگ ہوں تو بھی دوسروں پر خرچ کرتے رہنا چاہیے

القرآن:

وَ یُؤۡثِرُوۡنَ  عَلٰۤی  اَنۡفُسِہِمۡ وَ لَوۡ کَانَ بِہِمۡ خَصَاصَۃٌ  ؕ ۟ وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ  فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ  الۡمُفۡلِحُوۡنَ

جو اپنی ضرورت و تنگی کےباوجود دوسروں کو(تعاون امداد کرنے میں اور دیگر اچھے معاملات میں دوسروں کو) ترجیح دیتےہیں،جو لالچ سے بچائےگئےوہی کامیاب ہیں

(سورہ حشر ایت9)

ان لوگوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ جو اپنے حالات تنگ ہونے کے باوجود دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، دوسرے مستحقین اور دوسری اہم ترین جگہوں میں خرچ کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ کوئی لالچی نہ بنے،ایسا نہ ہو کہ تعاون ملے تو ہی اپ کام کریں، نہیں ہرگز لالچی مطلبی مفادی نہیں ہونا چاہیے۔۔۔!!

.

الحدیث: 

لَا يَحْقِرَنَّ أَحَدُكُمْ شَيْئًا مِنَ الْمَعْرُوفِ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی بھی شخص  نیکی بھلائی کے کسی بھی کام کو ہرگز حقیر و کمتر نہ سمجھے

(ترمذی حدیث 1833)

اگر اپ 5 ہزار۔۔۔ 10 ہزار۔۔۔ 20 ہزار... 50 ہزار ...لاکھ، لاکھوں، کروڑوں روپے خرچ نہیں کر سکتے تو شرمانے کی کوئی بات نہیں۔۔۔ اپ اللہ کی راہ میں خلوص دل کے ساتھ پانچ سو یا ہزار خرچ کر سکتے ہیں تو بھی ضرور کیجئے۔۔۔ 100 روپے خرچ کر سکتے ہیں تو بھی ضرور کیجئے،10 روپے خرچ کر سکتے ہیں تو بھی ضرور کیجئے لیکن مستحقین پر۔۔۔۔اور خرچ کرنے والے پر بھی لازم ہے اور جس پر خرچ کیا جا رہا ہے اس پر بھی لازم ہے کہ کسی بھی صدقے کو حقیر اور کمتر نہ سمجھے۔۔۔ہاں کسی کو توجہ دلائی جا سکتی ہے کہ اپ کو اللہ تعالی نے بہت دیا ہے اور یہ تھوڑا سا تعاون اپ کے شایان شان کیسے ہو سکتا ہے تو اپ کو اللہ نے بہت دیا ہے تو زیادہ خرچ کیا کیجئے مستحقین پر۔۔۔یہ انداز بھی ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔!!

۔

الحدیث:

سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ ؟ قَالَ : " أَدْوَمُهَا  وَإِنْ قَلَّ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی کہ اللہ کی بارگاہ میں محبوب عمل پسندیدہ عمل کون سا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو مستقل کیا جائے اگرچہ (طاقت نہ ہونے وغیرہ جائز وجوہات کی وجہ سے) کم مقدار میں کر سکو مگر مستقل کرو

(بخاری حدیث6465)

مستقل تعاون کرنے کی کئی صورتیں ہیں مثلا ہر ماہ ہر ہفتے تعاون کیا جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر تین ماہ میں تین ماہ کا جمع کردہ چندہ اکٹھا کر کے دے دیا جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر سال بہت سارا تعاون دے دیا جائے یا اہم اہم مواقع پہ بہت سارا تعاون دے دیا جائے لیکن زیادہ تر کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ماہانہ تعاون دینا چاہیے کیونکہ انسان سے سستی ہو جاتی ہے یا اپنے خرچے میں زیادہ خرچ ہو جاتا ہے تو سہ ماہی شش ماہی سالانہ تعاون شاید زیادہ نہیں کر پائے گا۔۔۔اس لیے ماہانہ تعاون ہی زیادہ بہتر لگتا ہے اور کوشش کرے کہ اہم اہم مواقع پہ ماہانہ تعاون سے زیادہ بڑھ کر تعاون کرے یا اہم اہم مہینوں میں دنوں میں مبارک دنوں میں بہت زیادہ تعاون کرے۔۔۔لیکن ماہانہ تعاون ضرور جاری رکھے تاکہ زندگی کے ضروریات کی گاڑی تسلسل سے چلتی رہے

۔

بروں باطلوں مکاروں گمراہوں مرتدوں ایجنٹوں منافقوں سے ہر طرح کا تعاون نہ کرنا،انکی تحریروں کو لائک نہ کرنا، انہیں نہ سننا،  نہ پڑھنا، انہیں اپنے پروگراموں میں نہ بلانا، وقعت نہ دینا، جانی وقتی مالی تعاون نہ کرنا، مذمت کرنا، مدلل کرنا، بھی اہل حق و سچوں کے ساتھ بہت بڑا تعاون ہے

الحدیث:

مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ، وَأَبْغَضَ لِلَّهِ، وَأَعْطَى لِلَّهِ، وَمَنَعَ لِلَّهِ ؛ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ

جو اللہ(اسلام کے حکم)کی وجہ سے محبت کرے اور(سمجھانے کے ساتھ ساتھ) اللہ(اسلام کے حکم)کی وجہ سے(مستحق برے ضدی فسادی سے)بغض و نفرت رکھے اور (مستحق و اچھوں) کی امداد و مدد کرے اور (نااہل و بروں) کی امداد و تعاون نہ کرے تو یہ تکمیل ایمان میں سے ہے 

(ابوداود حدیث4681)

.

اب یہ مت کہیے گا کہ مولویوں کو خود کمانا چاہیے،امام مسجد کو خود کمانا چاہیے،مدرسے کے معلم کو خود کمانا چاہیے،اسی طرح علماء مدرسین منتظمین لکھاری ورکرز جو جو اسلام کی سربلندی کے لیے دن رات ایک کر رہے ہیں ان میں سے اکثر کو ہرگز کمانے کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اسلام نے ہمیں ایک حسین امتزاج سکھایا ہے کہ کچھ لوگ پیسہ کمانے جائز طریقے سے پیسہ کمانے میں مگن ہو جائیں چھا جائیں اور خوب پیسہ کما کر خوب خرچ کریں اچھی جگہوں پر۔۔۔اور بعض لوگ علم شعور پھیلانے میں دن رات ایک کر دیں اور ان پر ضروریات زندگی کے لیے خرچ وہ لوگ کریں کہ جو پیسہ رکھتے ہیں 

۔

کیا اپ نے کبھی فوجی سے کہا ہے کہ سرحد کی نگہبانی تو دینی کام ہے ، حب الوطنی ہے۔۔۔اس کے پیسے کیوں لیتے ہو۔۔۔۔؟؟ کیا اپ نے عدلیہ ججز پارلیمنٹ وزیراعظم وزیراعلی وزراء وغیرہ سے پوچھا ہے کہ اپ لوگ تو عوام کی خدمت کر رہے ہیں ، اپنی اخرت سنوار رہے ہیں تو پھر تنخواہ مراعات کیوں لیتے ہیں۔۔۔۔؟؟

۔

یقینا ہر ذی شعور کہے گا کہ علماء لکھاری ورکرز فوجی عدلیہ وزراء وغیرہ دین کے لیے اگر سرگرم ہوں اور دین کے لیے یعنی مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم ہوں اور دن رات حسب طاقت انہی کے لیے وقت علم دماغ خرچ کرتے ہوں تو ہم پر بھی حق بنتا ہے کہ ہم ان پر خرچ کریں، انہیں تنخواہ دیں،انہیں صدقہ تعاون دیں لیکن مستحقین کو۔۔۔۔۔!!

مگر

افسوس کہ فوجی عدلیہ وزراء وغیرہ کو بڑی موٹی موٹی تنخواہیں دی جاتی ہیں مگر سچے سرگرم باعمل عالم دین کو چندہ بھی دیا جائے تو دشمنان اسلام کے پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں جل بھن جاتے ہیں۔۔۔حالانکہ مدارس علماء واعظین مدرسین امام مسجد لکھاری ورکرز وغیرہ کو بھی سرکاری طور پر تنخواہ دی جاتی لیکن افسوس کہ یہ کہا جاتا ہے کہ مولوی کو تنخواہ بھی نہ دو اور چندہ بھی نہ دو اور مولوی کمائی بھی سہی اور تحقیق بھی کرے تدریس بھی کرے مدرسہ بھی پڑھائے بچوں کو بغیر فیس کے پڑھائے نماز بھی بغیر تنخواہ کے پڑھائے، وعظ تحقیق تحریر فتوی وغیرہ کام و خدمات بھی خوب کرے، اخلاقیات بھی لوگوں کو خوب سمجھائے بغیر تنخواہ کے اور بغیر چندے کے

۔

یہ کیوں نہیں کہتے کہ ججز عدلیہ فوجی سیاست دان وزراء سائنس دان لیکچرار ٹیچرز سب مفت میں خدمات سر انجام دیں اور اپنی ضروریات کے لیے تجارت بھی کریں۔۔۔۔؟؟

۔

الحدیث:

:«إن أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کتاب اللہ(قرآن و حدیث و فقہ دینی تعلیم دینے کی کمائی، قرآن و اسلامی علوم کی تعلیم دینے پھیلانے کی کمائی، قران مجید و احادیث مبارکہ وغیرہ کی دعاؤں سے دم کرنے کی کمائی) زیادہ حق دار ہے کہ تم اس پر اجرت لو...

(بخاری حدیث5737)

۔

جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو اگلے دن صبح صبح کندھے پے چادریں کپڑے اٹھائے بازار کی طرف چل دیے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو کہنے لگے یا امیرالمومنین آپ یہ کیا کر رہے ہیں...؟ آپ کو تو لوگوں کی دیکھ بھال کی زمہ داری سونپی گئ ہے،فرمایا تجارت نہ کروں گا تو میں اپنے اہل و عیال کو کہاں سے کھلاؤں گا...؟ حضرت عمر نے فرمایا چلیے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلتے ہیں(انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امین الامۃ کا لقب عطا فرمایا ہے)ان سے رائے لیتے ہیں،سیدنا ابو عبیدہ نے فرمایا:

أفرض لك قوت رجل من المهاجرين، ليس بأفضلهم ولا أوكسهم

میں آپ کی تنخواہ ایک اوسط درجے کے مہاجر مزدور جتنی مقرر کرتا ہوں، پھر صحابہ کرام نے مل کر آپ کی تنخواہ پچیس سو درھم سالانہ(تقریبا سات درھم روزانہ)مقرر فرمائی

(دیکھیے تاریخ الخلفاء ص64,65)

واضح ہو جاتا ہے کہ جو شخص دینی معاملات میں اکثر مصروف رہتا ہو تو اسے اتنی مقدار میں تنخواہ دی جائے گی ، مدد دی جائے گی اور مستقل دی جائے کہ اس کا گزر بسر مناسب ہوتا رہے۔۔۔۔!!

اب اگر مولوی کمانے لگ جائیں تو یہ دینی محاذ کون سنبھالے گا۔۔۔۔؟؟ اسلام کے بنیادی عقائد کے دلائل کون بیان  کرے گا۔۔۔؟؟ اگر مولوی کمانے لگ جائیں تو وہ تحقیق تدریس وعظ کو کس طرح ٹائم دے سکے گا۔۔۔؟؟ بد مذہبوں بروں باطلوں عیاشی فحاشی گناہ جرائم معاشرے کی تباہی کے اسباب و گناہ وغیرہ سے کون روکے گا اور لوگوں کو اخلاقیات کون سمجھائے گا۔۔۔۔؟؟

 ٹھیک ہے مولوی کو تم اپنا دنیاوی منصب دے دو اور مولوی سے یہ علم و شعور والا منصب لے لو اور پھر یہ ذمہ داری دینی ذمہ داری بھی اچھے طریقے سے سچے طریقے سے تحقیق اور دلائل کے ساتھ پوری کرو اور کما کر بھی دکھاؤ۔۔۔۔؟؟

۔

القرآن:

اقۡعُدُوۡا لَہُمۡ کُلَّ مَرۡصَدٍ

ہر مورچے پے(اسی طرح ہر جائز شعبے میں) ان سے مقابلے کے لیے تیار بیٹھو...(سورہ توبہ آیت5)

اور مولوی حضرات اسلام کے ایک بہت بڑے محاذ دینی محاذ کو الحمدللہ سنبھالے ہوئے ہیں اور دن رات سنبھالنے میں لگے ہوئے ہیں تو پھر دیگر شعبوں کی طرح ان دینی شعبوں کی بھی تنخواہ مقرر ہونی چاہیے نا۔۔۔۔؟؟

.

القرآن:

اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ

جو قوت،طاقت ہوسکے تیار رکھو..(سورہ انفال آیت60)

آیت مبارکہ مین غور کیا جائے تو ایک بہت عظیم اصول بتایا گیا ہے... جس میں معاشی طاقت... افرادی طاقت... جدید ہتھیار کی طاقت...دینی علوم و مدارس کی طاقت, جدید تعلیم و ترقی کی طاقت.... علم.و.شعور کی طاقت... میڈیکل اور سائنسی علوم کی طاقت...دینی دنیاوی علوم فنون کی طاقت... اقتدار میں اچھے لوگوں کو لانے کی طاقت.. احتیاطی تدابیر مشقیں جدت ترقی اور دیگر طاقت و قوت کا انتظام و اہتمام  کرنا چاہیے،یہ سب طاقتیں قوتیں حاصل کرنی چاہیے، مدارس و اسکول میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم و فنون سکھانے کا اہتمام ہونا چاہیے بشرطیکہ ان علوم و فنون کا مقصد جائز ہو، مقصود اسلام کی سربلندی ہو....!!

.

۔

القرآن:

فَلَوۡ لَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرۡقَۃٍ مِّنۡہُمۡ طَآئِفَۃٌ  لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیۡنِ وَ لِیُنۡذِرُوۡا قَوۡمَہُمۡ

تو کیوں نہ ہو کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی فقہ و سمجھ حاصل کریں اور اپنی قوم کو ڈر سنائیں(باعمل ہوکر علم شعور معاشرےمیں پھیلائیں)

(سورہ توبہ آیت122)

ایت مبارکہ میں واضح ہے کہ ہر علاقے میں سے گروہ ہونا چاہیے جو خالص اسلام کے لیے دینی تعلیمات قران و حدیث کی تشریحات کے لیے وقف ہو اور ان کی ہم جانی مالی ہر طرح کی مدد و تعاون کریں

۔

ایک صحابی حاضر ہوتے ہیں مدد تعاون حاصل کرنے کے لیے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مدد اور تعاون اس طرح فرماتے ہیں کہ انہیں روزگار کھول کر دلواتے ہیں۔۔دیکھیے ابو داؤد حدیث 1641

مگر 

اصحاب صفہ کو روزگار کھولنے کے لیے کبھی فورس نہیں کیا بلکہ انہیں قران و حدیث یاد رکھنے اور پھیلانے کے لیے وقف رکھا اگرچہ دیگر صحابہ کرام کو بھی قران و حدیث یاد رکھنے کی ذمہ داری تھی مگر وہ خود کفیل بھی تھے مگر بعض صحابہ کرام قران و حدیث کے لیے وقف تھے ان پر دیگر صحابہ کرام خرچ کرتے تھے یا کوئی مالدار کسی کی کفالت اٹھا لیتا تھا، اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں اور خلفاء کے دور مبارک میں قران و حدیث کے لیے مخصوص افراد تھے اور ان پر مسلمان خرچ کرتے تھے گویا صفہ زمانہ نبوی میں ہی اسلام کا پہلا مدرسہ بنا تھا اور اسے صدقے تعاون سے چلایا جاتا تھا

۔

وكان أهل الصفة يقومون بفروض عظيمة، منها تلقى القرآن والسنة، فكانت الصفة مدرسة للإسلام، فكانت نفقتهم على سائر المسلمين...

اصحاب صفہ( نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں اور بعد کے دور میں) عظیم فرائض میں مشغول تھے یعنی قران و سنت میں مصروف تھے تو گویا صفہ اسلام کا (پہلا) مدرسہ تھا اور اس کا خرچہ مسلمانوں پر تھا

(الأنوار الكاشفة لما في كتاب «أضواء على السنة»ص145)

.

الحدیث

نِعْمًا بِالْمَالِ الصَّالِحُ لِلرَّجُلِ الصَّالِحِ

کیا ہی اچھا ہے وہ "اچھا مال" (وہ پاکیزہ، حلال مال.و.دولت) جو اچھے شخص کے پاس ہو..(مسند احمد حدیث7309)

اچھے لوگوں کے پاس بہت ساری اور اچھی دولت ہوگی اور وہ اچھا شخص ہوگا تو  اچھائی میں خرچ کرے گا ، ترقی میں خرچ کرے گا ، دین و مدارس علماء مدرسین واعظین لکھاری ورکرز میں خوب خرچ کرے گا تو کتنی فضیلت کی بات ہے کیونکہ اگر یہی دولت طاقت بروں کے پاس رہے تو برائی پھیلتی جائے گی ، نفسا نفسی، فحاشی تکبر بے حیائی پھیلتی جائے گی اور اگر یہی دولت طاقت اقتدار اچھوں کے پاس ہوگا اور دولت طاقت اقتدار والے اچھے ہوں گے تو اچھائی ایثار باہم اچھی محبت و احساس وغیرہ اچھائیاں پھیلتی جائے گی ان۔شاء اللہ عزوجل۔۔۔دینی فائدہ تو ہے لیکن دنیاوی فائدہ بھی اسی میں ہے کہ دنیا دولت طاقت اقتدار اچھے لوگوں کے پاس ہو، وہ دنیاوی ترقی میں بھی خرچ کرے گا ، جدت ٹیکنالوجی میں بھی خرچ کرے گا تو مدارس میں بھی خرچ کرے گا مساجد میں بھی خرچ کرے گا ہر مفید جگہ میں خرچ کرے گا۔۔۔

۔

الحدیث:

المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يسلمه، ومن كان في حاجة أخيه كان الله في حاجته، ومن فرج عن مسلم كربة، فرج الله عنه كربة من كربات يوم القيامة

ترجمہ:

مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،وہ نا اس پر ظلم کرے اور نا ظلم

 کرنے دے،نہ بےیار و مددگار چھوڑے اورجو اپنے(مسلمان بھائی) کی حاجت روائی میں ہو اللہ اسکی حاجت روائی فرمائے گا، اور جو کسی مسلمان سے مصائب.و.مشقت تکالیف دور کرے اللہ قیامت کے دن اس سے تکالیف.و.مشقت دور فرمائے گا...(بخاری حدیث2442)

.

زلزلہ زدگان،سیلاب زدگان، بارش متاثرین و یتیم و غرباء مستحقین کو بےیار و مددگار مت چھوڑیے انکی مدد انکی حاجت و ضرورت کے مطابق وقتا فوقتا کرتے رہا کیجیے، بعض کی اشد ضرورت پکا ہوا کھانا ہے انہیں پکا پکایا کھانا و صاف پانی دیجیے، بعض کی حاجت خشک راشن ہے انہیں راشن دیجیے،بعض کی اہم ضرورت یہ ہے کہ گھروں محلوں سے فورا پانی نکالا جائے تو ان کے لیے نکاسی آب کےلیے مدد کیجیے،کسی کو ضرورت ادویات و علاج خیموں ترپالوں پلاسٹک و لکڑیوں گیس سیلنڈروں کی ہے تو اس حساب سے مدد کیجیے،کسی کی حاجت مکانوں کی تعمیر ہے تو تعمیرات میں مدد کیجیے…حسب حاجت مدد کرنا زیادہ بہتر ہے و نافع ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ معتبر مستحق کو پیسے دییے جاءیں جو وہ اپنی حاجت میں استعمال کرے

اور

مدارس معتبر مدارس سرگرم مدارس معتبر اور سرگرم علماء لکھاری ورکرز کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے انہیں بے یار و مددگار مت چھوڑیے،اج کل مدارس  علماء لکھاری جیسے مستحقین میں خرچ کرنے کی بہت سخت ضرورت ہے

.

الْأَفْضَلِيَّةُ مِنَ الْأُمُورِ النِّسْبِيَّةِ، وَكَانَ هُنَاكَ أَفْضَلَ لِشِدَّةِ الْحَرِّ وَالْحَاجَةِ وَقِلَّةِ الْمَاءِ

 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف امور کو افضل صدقہ قرار دیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی صدقہ کس نسبت سے افضل ہوتا ہے اور کوئی صدقہ کس نسبت سے افضل ہوتا ہے اور اس حدیث پاک میں افضل صدقہ پانی اس لیے ہے کہ اس کی حاجت زیادہ تھی

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,4/1342)

.

تو وقت و حالات کے مطابق ضرورت و نفع کو دیکھ کر اس میں خرچ کرنے کو ترجیح دینی چاہیے، اور اس وقت مدارس علماء محققین سوشلی لکھاری ورکرز اچھے سیاست دان اچھے سائنس دان، اچھے جج فوجی تمام ہی ضروری ہیں۔۔۔ ہر طرف توجہ کرنے کی کوشش کیجئے۔۔۔باقی سب کو تو بہت تعاون دیا جاتا ہے ٹیکس دیا جاتا ہے تنخواہیں مقرر کی جاتی ہیں مگر اس وقت غربت و تنگدستی کا عالم مدارس میں ہے علماء لکھاری ورکرز میں ہے اس کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے

اور

اس کے ساتھ ساتھ ہر نیکی میں بھی توجہ دیں، وقتا فوقتا صدقہ کریں، وقتا فوقتا قران پڑہیں حدیث پڑہیں معتبر کتب سے قران و حدیث کو سمجھیں سمجھائیں پھیلاءیں عمل کریں نوافل درود پڑہیں نیکیاں کریں گناہوں سے بچیں، حسن اخلاق اپنائیں، علم و شعور اگاہی پھیلائیں، مدد کریں، فلاحی کام کریں. غرباء کو جس کی حاجت زیادہ ہو وہ دیں...جس کا نفع عام و زیادہ ہو وہ کریں، مدارس میں دیں.. علماء لکھاری مبلغین کی مدد کریں.......کسی بھی نیکی کو کمتر نہ سمجھیں کہ نہ جانے کونسی نیکی کونسی ادا اللہ کے ہاں محبوب و مقبول ہوجائے...الحدیث:لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا، کسی بھی نیکی کو کمتر نہ سمجھو

(مسلم حدیث2626...6690)

۔

*#کبھی امداد پیسے راشن دینے کے بجائے ترقی دینا لازم ہوتا ہے۔۔اور کبھی کچھ وقت کے لیے امداد دینا لازم ہوتا ہے اور کاروبار جاب دلانا خودمختار بنانا اصل مشن ہے، مگر ایک مشن یہ ہے کہ کچھ اہم افراد کو ہمیشہ امداد تعاون راشن پیسہ دینا لازم ہوتا ہے۔۔۔تفصیل کچھ یوں ہے کہ۔۔۔۔!!*

۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت مبارکہ یہ بھی ہے کہ:

اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی مواقع پہ امداد راشن تعاون کھانے پینے کی چیز سامان ساز و سامان دیا۔۔۔ بہت سارے واقعات ہیں مثلا دیکھیے مسلم حدیث1017.. 2351

.

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری سنت مبارکہ یہ بھی ہے کہ:

ایک صحابی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعاون کی اپیل کی تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھر میں جو کچھ ہے وہ لے اؤ اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اس میں سے مہنگے داموں بکوا کر فرمایا کہ کچھ پیسے راشن میں استعمال کر اور بقیہ پیسوں کی کلہاڑی خرید لکڑیاں کاٹ اور انہیں خرید و فروخت کر اور اس طرح اپنا کاروبار چلا

دیکھیے ابو داؤد حدیث 1641

۔

کسی کو راشن پہ چلانا کبھی کبھار جرم ہوتا ہے،جی ہاں تعاون یہ نہیں کہ اپ کسی کو اپنا محتاج بنا دیں، اصل تعاون کی جڑ یہ ہے کہ سامنے والا اگر ترقی کر سکتا ہے ، اس میں ہمت طاقت ہے اور ترقی کرنا ہی اس کے لیے مفید ہے، اسلام کے لیے مفید ہے تو اسے عارضی طور پر کچھ راشن دے دیجئے اور اصل مدد یہ ہے کہ اپ اکیلے یا چند احباب مل کر یا وفاق یا صوبائی حکومت کوئی بھی اسے کوئی کاروبار سکھائے اور کاروبار کھول کے دے اور کاروبار کامیاب بھی کرانے میں مدد کرے، یہ ہے اصل ترقی کہ کسی کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیجیے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ راشن دینا بند کر دیں۔۔ممکن ہے اس کا کاروبار نہ چل سکے یا کاروبار سے گھر نہ چل سکے تو کچھ نہ کچھ مدد کرتے رہنا ضروری ہوگا تاکہ وہ کاروبار کو مزید بڑھا سکے

۔

اسی طرح بعض اوقات کسی کو کاروبار نہ کھول کے دینا ہی ضروری ہوتا ہے۔۔۔ بلکہ لازم ہوتا ہے کہ ان کی راشن پیسوں وغیرہ سے امداد کی جائے تاکہ وہ کاروبار کی طرف توجہ نہ کریں بلکہ اسلام کے دیگر محاذ پر مکمل توجہ سے کام کریں۔۔۔ مثلا سائنسدان اور مدارس چلانے والے علمائے کرام اور سچے اچھے مبلغ حضرات ، علم و شعور پھیلانے والے معتبر لکھاری محققین مصنفین امام مسجد وغیرہ میں سے بعض کو بے شک چھوٹی یا بڑی تجارت کی طرف لگانا چاہیے تاکہ وہ کچھ کام دین کا بھی کام کریں اور ساتھ میں کچھ کاروبار بھی کریں

مگر

کئی ایسے افراد و ٹیم پالنا بنانا ضروری ہیں کہ ان کی مالی مدد کی جائے راشن دیا جائے دیگر تعاون کیے جائیں اور انہیں کاروبار سے بے نیاز کر دیا جائے تاکہ وہ مکمل وقت دے کر بہت زبردست قسم کی تعلیمی سائنسی ٹیکنالوجی دینی تدریسی تحقیقی وغیرہ مختلف خدمات اسلام کی سربلندی کے لیے ، مسلمانوں کی بھلائی کے لیے سرانجام دے سکیں،

۔

سائنسدان سائنس کو سمجھ کر اس میں سے غلط کو الگ کر کے ، غلط کا رد کر کے اور جو درست ہے اس کو اسلام موافق کر کے طلباء کو اچھا سائنس دان کرکے اور سائنسی عسکری فوجی جہادی ہتھیار وغیرہ بنا کر جدید ٹیکنالوجی وغیرہ بنا کر اس میں چھا کر اسلام کی سربلندی کے لیے یہ سب کریں

۔

اور علماء مدارس میں دیگر اداروں میں عقائد اور نظریات اخلاقیات وغیرہ درست بنانے میں مگن رہیں اور علماء سائنس دانوں سیاست دانوں کی مدد کریں، انہیں سمجھائیں کہ اسلام کے اصل اصول کیا ہیں اور اخلاقیات کیا ہیں،سیاست کیسے اسلام کے مطابق کرنی ہے، اور علماء دینی تدریسی کام بھی مدارس میں جاری رکھیں کہ وہیں سے علم و شعور کی شمع نکلے گی تو گھرانے روشن ہوں گے ان۔شاءاللہ عزوجل 

۔

اگر ہم ان(علماء لکھاری محققین امام مسجد فوجی سیاست دان سائنس دان وغیرہ اسلام و مسلمانوں کے وقف احباب) کو بھی تجارت پہ لگا دیں گے تو یہ مکمل توجہ کے ساتھ کام نہ کر پائیں گے اس لیے ایسوں میں کئ افراد و ٹیم کو راشن تعاون لازم دینا چاہیے اور مستقبل سے بے فکر کر دینا چاہیے اور اس کے بچوں کے مستقبل کی ذمہ داری لینی چاہیے اور انہیں بے نیاز کر کے دین کے لیے خدمات سرانجام دینے کے لیے وقف کر دینا چاہیے

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

New  whatsapp nmbr

03062524574

00923062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.