🌀 *#میلاد مبارک کے جھنڈوں کی دلیل کو موضوع من گھڑت کہنے والوں کو جواب اور جھنڈے کس رنگ کے ہوں۔۔؟؟ تحقیق پڑھیے اس مختصر مدلل تحریر میں۔۔۔۔۔!!*
📣 توجہ:
نیچے دی گئ لنک پے آپ میری کافی ساری تحقیقی تحریرات پڑھ سکتے ہیں۔۔۔لنک یہ ہے👇
https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1
https://www.facebook.com/share/1777H3Dtjr/
۔
🛑سوال:
ایک دوست نے تحریر بھیجی جس میں لکھا تھا کہ دلائل النبوۃ میں جو روایت ہے کہ ⏪ولادت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر تین جھنڈے لگائے گئے وہ روایت من گھڑت جھوٹی روایت ہے کیونکہ اس کا ایک راوی بابلتی ضعیف راوی ہے حتی کہ اس روایت کے متعلق خصائص کبری میں لکھا کہ یہ روایت شدید نکارت والی ہے
۔
✅ *#جواب و تحقیق۔۔۔۔۔!!*
1️⃣ *#پہلی بات*
اعتراض کرنے والے کی 🚨 جہالت ہے یا تعصب کہ خود کہہ رہا ہے کہ راوی بابلتی ضعیف ہے تو ضعیف راوی کی روایت ضعیف کہلاتی ہے، موضوع من گھڑت جھوٹی نہیں کہلاتی مگر
یہاں معترض نے ضعیف راوی کہہ کر موضوع من گھڑت جھوٹی ہونے کا جھوٹا حکم لگا دیا۔۔۔افسوس اس تعصب و جہالت پر
۔
1....وهُو الطَّعْنُ بكَذِبِ الرَّاوي في الحَديثِ النبويِّ هو المَوضوعُ
حدیث پاک کی سند یا روایت کی سند میں کذاب جھوٹا راوی ہو تب وہ موضوع من گھڑت جھوٹی روایت کہلاتی ہے
(نزھۃ النظر ابن حجر ص89)
۔
2....مدار سند حدیث پر ہے اگر اس سے روایت کرنے والا کذاب یا وضاع متفرد ہو تو وہ روایت موضوع ہوگی اور اگر ضعیف ہے تو روایت صرف ضعیف ہوگی
(شرح الزرقانی علی المواہب الفصل الاول من المقصد الثامن فی طبہ صلی اللہ علیہ وسلم ج9 صفحہ 337)
۔
3...حضرت علامہ ملا علی قاری فرماتے ہیں: موضوع اس روایت کو کہا جاتا ہے جس کے راوی پر کذب کا طعن ہو
(شرح نخبۃ الفکر جلد1 صفحہ 435 )
۔
4...موضوع تو جب ہوتی کہ اس کا راوی متہم بالکذب ہوتا....یا ناقل رافضی(ہو اور) حضرات اہلبیت کرام علٰی سیدہم وعلیہم الصلاۃ والسلام کے فضائل میں وہ باتیں روایت کرے جو اُس کے غیر سے ثابت نہ ہوں(تو روایت موضوع من گھرٹ جھوٹی مردود کہلائے گی
(فتاوی رضویہ 5/461. .466ملتقطا)
۔
2️⃣ *#دوسری بات*
امد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مناسبت سے جھنڈے لگانے کی اصل دو احادیث مبارکہ مجھے ملیں، ان میں سے ایک یہ ہے
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ ثنا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ قَالَ: ثنا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَمْرٍو الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ....ثَلَاثَ أَعْلَامٍ مَضْرُوبَاتٍ: عَلَمٌ فِي الْمَشْرِقِ , وَعَلَمٌ فِي الْمَغْرِبِ , وَعَلَمٌ عَلَى ظَهْرِ الْكَعْبَةِ
🌹سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ(رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت یعنی دنیا میں ظاہری تشریف اوری کے وقت) تین جھنڈے لگائے گئے ، ایک جھنڈا مشرق میں ، ایک جھنڈا مغرب میں اور ایک جھنڈا کعبے کی چھت پر
(دلائل النبوة -الأصبهاني ص610 روایت555)
۔
🧐اس روایت کے راویوں کے متعلق پڑھیے کہ کوئی بھی راوی کذاب جھوٹا راوی نہیں ہے۔۔۔ زیادہ سے زیادہ ایک راوی بابلتی ضعیف ہے، اور ضعیف حدیث و روایت فضیلت میں قابل قبول ہوتی ہے، 📌اور اگر اسے سخت ضعیف مان بھی لیا جائے تو بھی اس روایت کی تقویت دوسری روایت سے ہوتی ہے لہذا یہ شدید ضعیف سے نکل کر صرف ضعیف بن جائے گی اور فضیلت کے معاملے میں قابل قبول ہوگی۔۔۔یہ تو حکم کم از کم ہے لیکن ہمارے مطابق یہ روایت ضعیف ہے اور اس ضعیف روایت کی تقویت دوسری ضعیف روایت سے ہوتی ہے تو دو ضعیف روایت مل کر حسن معتبر قابل دلیل بن جاتی ہیں کہ جو فضائل میں بھی قبول ہیں اور شرعی حکم فرض واجب وغیرہ میں بھی قابل قبول ہوتی ہیں بشرط یہ کہ اس روایت میں فرض واجب کا کوئی حکم موجود ہو اگر فرض واجب کا حکم موجود نہ ہو تو فقط جائز و ثواب کا حکم ثابت ہو جائے گا۔۔۔جیسے کہ نیچے ہم تفصیل لکھیں گے
۔
🛑اب مذکورہ بالا حدیث روایت کے راویوں کے متعلق پڑھیے
.
1...سليمان بن أحمد بن أيوب اللخمى الطبراني
الحافظ الثبت
اس روایت کا پہلا راوی امام طبرانی انتہائی معتبر ثقہ مضبوط راوی ہے
( ميزان الاعتدال2/195)
.
2....كان أحد عباد الله الصالحين .. ثقة"
اس روایت کا دوسرا راوی عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ انتہائی نیک بندہ اور ثقہ معتبر ہے
(الموسوعة الميسرة في تراجم أئمة التفسير والإقراء والنحو واللغة2/1766)
.
3....وَقَالَ ابْن عدي: لَهُ عَن الْأَوْزَاعِيّ أَحَادِيث صَالِحَة..وَأثر الضعْف على حَدِيثه
اس روایت کا تیسرا راوی يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بابلتی ہے جس کے متعلق امام ابن عدی امام اوزاعی نے فرمایا کہ صالح نیک لائق اعتبار ہے اگرچہ اس کی روایات میں ضعف واضح طور پر ہوتا ہے
(الجامع لكتب الضعفاء والمتروكين والكذابين16/608)
.
📌اعتراض کرنے والا بظاہر اہل حدیث غیر مقلد لگتا ہے اور اہل حدیث غیر مقلد کا معتبر امام مسٹر البانی نے بھی بابلتی کی روایت کردہ حدیث پر موضوع من گھڑت جھوٹی ہونے کا حکم نہیں لگایا، لیکن افسوس کہ جہالت یا تعصب میں آ کر میلاد کے جھنڈے کے متعلق روایات کو یہ کہہ کر من گھڑت جھوٹی کہہ دیا گیا کہ اس کا راوی بابلتی ہے۔۔
البانی لکھتا ہے
وهذا إسناد ضعيف...يحيى بن عبد الله البابلتي؛ قال في "التقريب":"ضعيف"
بابلتی کی روایت کردہ حدیث کے متعلق البانی نے کہا کہ یہ سند ضعیف ہے کیونکہ یحیی بن عبداللہ بابلتی ضعیف ہے جیسے کہ کتاب تقریب میں ہے
(سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة9/296)
۔
4....قَالَ السعدي أَبُو بَكْر بْن أَبِي مريم لَيْسَ بالقوي۔۔۔وقال النسائي أَبُو بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ ضعيف
اس روایت کا چوتھا راوی أَبُو بَكْر بْن أَبِي مريم ہے جس کو امام سعدی اور امام نسائی نے ضعیف قرار دیا
(الكامل في ضعفاء الرجال2/207)
.
5....سَعِيد بن عَمْرو بن شرحبيل بْن سَعِيد بْن سَعْد بن عبادة الأَنْصارِيّ قال النَّسَائي: ثقة
اس روایت کا پانچواں راوی سَعِيد بن عَمْرو ہے جس کے متعلق امام نسائی نے فرمایا کہ یہ ثقہ معتبر راوی ہے
(تهذيب الكمال في أسماء الرجال11/22)
۔
6...عَمْرُو بنُ شُرَحْبيل ذكره ابن حبان في "الثقات
اس روایت کا چھٹا راوی عَمْرُو بنُ شُرَحْبيل ہے جس کو امام ابن حبان نے ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے
(تهذيب التهذيب 10/100)
۔
3️⃣ *#تیسری بات*
خصائص کبری میں مذکورہ بالا روایت کو شدید نکارت والی روایت کا حکم لگایا ہے تو یہ حکم 👈انفرادی طور پر ہے کیونکہ منکر ضعیف روایت کسی اور روایت سے تقویت پا کر ایسی ضعیف روایت بن جاتی ہے کہ جو فضائل میں قبول ہوتی ہے۔۔۔جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ
قال الحافظ فى " النتائج " 2 / 299:ترقى الحديث إلى درجة الضعيف الذى يعمل به الفضائل
حافظ ابن حجر عسقلانی نے النتائج میں لکھا ہے کہ ضعیف جو غیر مقبول ہو(ضعیف جدا ہو، منکر بلاتائید ہو)وہ ترقی کرکے ایسی ضعیف بن جاتی ہے جس پر فضائل میں عمل جائز ہے
(روضة المحدثين11/349)
۔
✅لہذا مذکورہ بالا روایت کو ضعیف مان لیں تو بھی فضائل میں قبول اور اگر شدید ضعیف شدید منکر مان لیں تو بھی دوسری روایت سے تقویت پا کر اس کا شدید ضعف و شدید نکارت ختم ہو جائے گی اور وہ فضائل میں مقبول ہو جائے گی۔۔۔اس روایت کی تقویت اگے انے والی روایت سے ہو رہی ہے جس میں ایک صحابی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ امد کی نسبت سے اپنے عمامے کو اتار کر جھنڈا بنا لیا👇
.
4️⃣ *#چوتھی بات*
امد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مناسبت سے جھنڈے لگانے کی اصل دو احادیث و روایات مجھے ملیں، ان میں سے دوسری روایت یہ ہے
أَنْبَأَنَا زَاهِرُ بْن طَاهِرٍ ، قَالَ : أَنْبَأَنَا أَبُو بَكْرٍ الْبَيْهَقِيُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَاكِمُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَوْرَةَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ السُّكَّرِيُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ زُهَيْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَهْرَانَ ، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ۔۔۔۔قَالَ بُرَيْدَةُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لا تَدْخُلِ الْمَدِينَةَ إِلا وَمَعَكَ لِوَاءٌ . فَحَلَّ عِمَامَتَهُ ، ثُمَّ شَدَّهَا فِي رُمْحٍ
🌹صحابی رسول سیدنا بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپ مدینے میں داخل ہو رہے ہیں تو یہ ہونا چاہیے کہ اپ کے ہمراہ ہم جھنڈا لے کر چلیں۔۔۔ تو صحابی سیدنا بریدہ نے اپنا عمامہ کھولا اور اسے نیزے پر باندھ کر جھنڈا بنا لیا
(المنتظم ابن جوزی3/57)
.
🧐اس روایت کے راویوں کے متعلق ہلکی پھلکی جرح ہے مگر اتنی شدید نہیں کہ روایت ضعیف کہلائے بلکہ یہ حدیث حسن معتبر کہلانی چاہیے، اور بالفرض اگر ضعیف مان بھی لیا جائے تو یہ روایت اوپر والی روایت کی تقویت کر رہی ہے تو یہ دو ضعیف روایتیں اپس میں ایک دوسرے کی تقویت کر رہی ہیں اور اس عمل سے ضعیف حدیث تقویت پا کر حسن معتبر قابل دلیل بن جاتی ہے ورنہ کم سے کم اتنا تو ضرور ہے کہ دونوں ضعیف روایتیں مل کر ایسی ضعیف ہیں کہ جس پر فضیلت کے معاملے میں عمل کرنا جائز ہے۔۔جیسا کہ یہ اصول ہم نیچے تحریر میں ثابت کریں گے پہلے مذکورہ حدیث پاک کے راویوں کے متعلق پڑھ لیجئے
۔
1...زاهر بن طاهر الشحامي.صدوق في الرواية
مذکورہ بالا حدیث پاک کا پہلا راوی زاہر بن طاہر۔۔۔ روایت کرنے میں سچا ہے
(الجامع لكتب الضعفاء والمتروكين والكذابين5/628)
.
2...أبو بكر البيهقي الإِمام الحافظ الفقيه الأصولي، الدَّيِّن الوَرع
مذکورہ بالا حدیث پاک کا دوسرا راوی امام بیہقی ہے جو کہ حافظ الحدیث فقیہ اصولی بہت بڑا دیندار نیک متقی پرہیزگار ہے
(إتحاف المرتقي بتراجم شيوخ البيهقي ص35)
.
3...الحاكم النيسابوري.إمام صدوق لكنه يتشيع
مذکورہ بالا حدیث پاک کا تیسرا راوی امام حاکم ہے جو کہ صدوق سچا تو ہے لیکن اس پر تشیع کی جرح ہے (رافضی ہونے کی متفقہ جرح نہیں کہ اکثر رافضی کی روایت من گھڑت جھوٹی ہوتی ہے لیکن جس میں فقط تشیع ہو اور وہ بھی پہلے والے زمانے کا تو کوئی بڑا حرج نہیں ہوتا)
(الجامع لكتب الضعفاء والمتروكين والكذابين13/613)
👈امام حاکم کی روایات پر اندھا دھند اعتبار نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اس کی تائید کوئی معتبر امام کر دے اور یہاں پر امام بیہقی جیسے معتبر امام نے امام حاکم سے روایت کی ہے تو لہذا امام حاکم کی وجہ سے اس روایت کو رد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ امام بیہقی نے روایت لی ہے لہذا امام حاکم کی یہ روایت درست معتبر کہلائے گی
.
4...أبو علي الحسين بن محمد بن سورة ....وكان فقيها
مذکورہ حدیث پاک کا چوتھا راوی حسین بن محمد ہے اور وہ معتبر فقیہ تھا
(الأنساب - السمعاني8/312)
.
5....القاضي، يعني: أَحْمَد بن إسماعيل الفقيه السكري
مذکورہ حدیث پاک کا پانچواں راوی احمد بن اسماعیل بھی فقیہ معتبر ہے
(تهذيب الكمال في أسماء الرجال7/125)
.
6....قال الدَّارَقُطْنِيّ: أحمد بن زهير بن حرب، أبو بكر بن أبي خيثمة، ثقة
مذکورہ حدیث پاک کا چھٹا راوی احمد بن زہیر بھی ثقہ معتبر ہے
(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله1/63)
.
7....علي بن مِهْران...وقال ابن عدي: لا أعلم فيه إلَّا خيرًا...وذكره ابن حبان في "الثقات
مذکورہ حدیث پاک کا ساتواں راوی علی بن مہران ہے۔۔۔ امام ابن عدی نے فرمایا کہ میں اس کے متعلق اچھی باتیں ہی جانتا ہوں اور امام ابن حبان نے اس کو ثقہ راویوں میں شمار کیا
(لسان الميزان 6/32)
۔
8....الحسين بن واقد۔۔۔وثقه ابن معين وغيره،
مذکورہ حدیث پاک کا اٹھواں راوی حسین بن واقد ہے جس کو امام ابن معین و دیگر ائمہ نے ثقہ قرار دیا
(الجامع لكتب الضعفاء والمتروكين والكذابين4/435)
۔
۔
9....عبد الله بن بريدة الأسلمي تابعي، ثقة
مذکورہ حدیث پاک کا ناواں راوی عبداللہ بن بریدہ ہیں جو تابعی ہیں اور ثقہ معتبر ہیں
(الثقات للعجلي ص250)
۔
10....مذکور احادیث پاک کا دسواں راوی سیدنا بریدہ صحابی رسول ہیں ، اور صحابی رسول کے ثقہ معتبر ہونے میں کوئی شک نہیں۔۔۔۔!!
.
5️⃣ *#پانچویں بات*
🛑 *#اصول1*
انفرادی طور پر مذکورہ روایت و حدیث ضعیف مان لی جائیں تو بھی تعدد طرق کی وجہ سے حسن و معتبر کہلائے گی کیونکہ سنی شیعہ نجدی سب کا متفقہ اصول ہے کہ تعدد طرق سے ضعیف روایت حسن و معتبر بن جاتی ہے
.
1...وقد يكثر الطرق الضعيفة فيقوى المتن
تعدد طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے اور(حدیث و روایت کا) متن قوی(معتبر مقبول صحیح و حسن)ہوجاتا ہے
(شیعہ کتاب نفحات الازھار13/55)
.
2...أن تعدد الطرق، ولو ضعفت، ترقي الحديث إلى الحسن
بےشک تعدد طرق اگرچہ ضعیف ہوں ان سے ضعیف روایت و حدیث حسن و معتبر بن جاتی ہے(اللؤلؤ المرصوع ص42)
.
3...لِأَنَّ كَثْرَةَ الطُّرُقِ تُقَوِّي
کثرت طرق(تعدد طرق)سے روایت و حدیث کو تقویت ملتی ہے(اور ضعف ختم ہوجاتا ہے)
(تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ,1/179)
.
4...وإنما يحكم له بالصحة عند تعدد الطرق) أي أو طريق واحد مساو له، أو أرجح
ضعیف حدیث کی ایک اور مساوی ضعیف سند مل جائے یا ایک ارجح سند مل جائے یا ایک سے زائد ضیف سندیں مل جائیں تو اس تعددِ طرق سے ضعیف حدیث صحیح(و حسن معتبر قابل دلیل) کہلاتی ہے
(شرح نخبۃ الفکر للقاری1/297)
.
🛑 *#اصول2*
✅اور فضائل میں ضعیف حدیث و روایت پر عمل جائز ہے، جھنڈے جلوس وغیرہ فضائل میں شمار ہوتے ہیں اور ان میں مذکورہ دو احادیث و روایات کافی و وافی ہیں
۔
1...يتْرك)أَي الْعَمَل بِهِ فِي الضَّعِيف إِلَّا فِي الْفَضَائِل
فضائل کے علاوہ میں حدیث ضیف پر عمل نہ کیا جائے گا مگر فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے
(شرح نخبة الفكر للقاري ص185)
.
2...قال الحافظ فى " النتائج " 2 / 299:ترقى الحديث إلى درجة الضعيف الذى يعمل به الفضائل
حافظ ابن حجر عسقلانی نے النتائج میں لکھا ہے کہ ضعیف جو غیر مقبول ہو(ضعیف جدا ہو، منکر بلاتائید ہو)وہ ترقی کرکے ایسی ضعیف بن جاتی ہے جس پر فضائل میں عمل جائز ہے
(روضة المحدثين11/349)
.
3...وَيجوز الْعَمَل فِي الْفَضَائِل بالضعيف.
فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل جائز ہے
(تذكرة الموضوعات للفتني ,page 117)
.
4...أَنَّ الضَّعِيفَ مَعْمُولٌ بِهِ فِي الْفَضَائِلِ اتِّفَاقًا
بےشک فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل جائز ہے اس پر سب(جمھور علماء محدثین)کا اتفاق ہے
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,4/1474)
5...والأكثر: يعمل بالحديث الضعيف في الفضائل
اکثر و جمھور کے نزدیک فضائل میں حدیث ضعیف پر عمل کیا جائے گا
(تحرير المنقول وتهذيب علم الأصول1/174)
.
6...قال العلماءُ من المحدّثين والفقهاء وغيرهم: يجوز ويُستحبّ العمل في الفضائل والترغيب والترهيب بالحديث الضعيف ما لم يكن موضوعاً
علماء محدثین فقہاء وغیرہ نے فرمایاکہ فضائل ،ترغیب و ترہیب میں جائز ہے مستحب و ثواب ہے ضعیف حدیث پے عمل کرنا بشرطیکہ موضوع و من گھڑت نہ ہو
(الأذكار للنووي ص36)
.
6️⃣ *#چھٹی بات*
امد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مناسبت سے جلسے جلوس ریلیاں جھنڈے نعرے کی اصل صحابہ کرام کا عمل بھی ہے جو کہ درج ذیل ہے
فَتَلَقَّوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِظَهْرِ الْحَرَّة
🌹رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ منورہ سے ہجرت کر کے مدینے کی طرف تشریف لا رہے تھے تو صحابہ کرام مدینہ منورہ سے نکل کر مقام حرہ تک نکل کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا (اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مدینے کی طرف جلوس کی شکل میں تشریف لائے)
بخاری تحت حدیث3906
🧠✅امد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مناسبت سے جلوس نکالنے، ریلیاں نکالنے کی اصل و بنیاد مذکورہ حدیث پاک بھی ہے اور جلوس میں جھنڈا ساتھ ہو تو وہ اوپر والی حدیث میں سیدنا بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ امد پر جلوس میں اپنا عمامہ اتار کر جھنڈا بنایا تھا تو وہ بھی اصل ہے کہ امد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مناسبت سے جلسے جلوس ریلی کرنا اور جھنڈے لگانا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین سے ثابت ہےاور نعرے لگانے کی اصل یہ حدیث مبارک بھی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم نعرے لگاتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کر رہے تھے👇
.
فَصَعِدَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ فَوْقَ الْبُيُوتِ، وَتَفَرَّقَ الْغِلْمَانُ وَالْخَدَمُ فِي الطُّرُقِ يُنَادُونَ : يَا مُحَمَّدُ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَا مُحَمَّدُ، يَا رَسُولَ اللَّهِ
🌹(جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مدینہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کر کے تشریف لا رہے تھے تو صحابہ کرام نے راستے میں اپ کا استقبال کیا اور مدینہ شریف کی طرف جلوس کی صورت میں روانہ ہوئے جیسے کہ اوپر بخاری کی حدیث میں ہے... جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچے) تو مرد عورت بچے خادم سب استقبال کے لیے نکل ائے، کچھ گھروں کی چھتوں پر جلوس کا استقبال و دیدار کر رہے تھے اور کچھ گلیوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال و دیدار کر رہے تھے اور سارے نعرے لگا رہے تھے یا محمد صلی اللہ علیک وسلم مرحبا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم مرحبا
مسلم تحت حدیث7522,2009
۔
7️⃣ *#ساتویں بات*
💠اوپر ثابت ہوا کہ سیدنا بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عمامہ اتار کر جھنڈا بنایا تو اس کا مطلب ہے کہ جو رنگ عمامے کا ہو اس رنگ کا جھنڈا ہو سکتا ہے
🔴 *#پانچ رنگ کے عمامے*
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: " أَدْرَكْتُ الْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ يَعْتَمُّونَ بِعَمَائِمَ كَرَابِيسَ سُودٍ، وَبِيضٍ، وَحُمْرٍ، وَخُضْرٍ، وَصُفْرٍ،
راوی فرماتے ہیں کہ میں نے اولین ہجرت کرنے والے صحابہ کرام کو پایا اس طرح کہ وہ عمامے باندھتے تھے کالے رنگ کے اور سفید رنگ کے اور (ہلکے سرخ یا دھاری دار)سرخ رنگ کے اور سبز رنگ کے اور زرد رنگ کے
(المصنف استاد بخاری روایت24987)
۔
🧠✅اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر کالے رنگ کا جھنڈا ہو سکتا ہے اور سفید رنگ کا جھنڈا ہو سکتا ہے اور ہلکے دھاری دار سرخ رنگ کا جھنڈا ہو سکتا ہے اور سبز رنگ کا جھنڈا ہو سکتا ہے اور زرد رنگ کا جھنڈا ہو سکتا ہے
👈لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے مشرکوں اور بدمزہوں سے مشابہت کرنے سے روکا ہے لہذا جو رنگ مشرکوں بد مذہبوں کے ہوں تو وہ جھنڈے اپنی اصل کے مطابق اگرچہ جائز ہوں مگر اس مشابہت کی وجہ سے ممنوع ہو جائیں گے۔۔۔ لہذا اس وقت ہمارے دور میں کالے اور سرخ جھنڈے جائز نہیں کہ یہ شیعوں مکاروں بد مذہبوں سے مشابہت ہے اور خوارج بدمذہبوں سے بھی مشابہت ہے۔۔۔ زرد رنگ بھی ممنوع ہے کہ یہ سکھوں ہندو وغیرہ کا مذہبی رنگ ہے اور مشرکوں کفار بد مذہبوں مکاروں ظالموں سے مشابہت کرنے سے حدیث پاک میں روکا گیا ہے
.
⏪قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو جس سے مشابہت کرے گا اسی میں شمار ہوگا
(ابوداؤد حدیث4031)
۔
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
New whatsapp nmbr
03062524574
00923062524574
میرے نئے وٹسپ نمبر کو وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنائیے تاکہ میں تحریرات وہاں بھیج سکوں،سوالات اعتراضات کے جوابات دے سکوں۔۔۔۔دینی خدمات زیادہ سے زیادہ سر انجام دے سکوں۔۔۔جزاکم اللہ خیرا