لنگر راشن مدد سخاوت...مجبوری کا فائدہ اٹھانا؟

 *مجبوری کا فائدہ؟ لنگر، راشن، امداد..........؟؟*

دو تین دن قبل بھائی پلاسٹک لینے گیا تو تقریبا80روپے والا پلاسٹک تین سو میں اور ایک دوکاندار تو پانچ سو میں بیچ رہے تھے،میں اور میرے اہل خانہ میں سے چار پانچ افراد کو پرسوں سے شدید بخار ہوگیا،کل ادویات لینے بھائ میڈیکل گیا تو ادویات دو تین گنا مہنگی ملی.....اس وقت تو دوکانداروں کو کچھ کہہ نہ سکا کیونکہ میں گھر میں تھا،لیکن اس پلیٹ فارم سے دوکانداروں  تاجروں ڈیلروں سے دست بدستہ اپیل ہے کہ اسانی کیجیے، ذرا غور سے پڑہیے:

.

بےشک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجبور سے(اسکی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے)خرید و فروخت سے منع کیا ہے

(ابو داؤد حدیث3382)

.

جالب(اشیاء و خوراک کو عوام کے لیے دستیاب کرنے والا، لانے والا)برکت سےنورازا جائے گا اور ممنوع احتکار(ناحق ذخیرہ اندوزی،ناحق مہنگائی کرنے)والا لعنتی ہے(ابن ماجه حدیث2153)

.

تو دوکاندار احباب و تاجر حضرات اگر آپ کو واقعی بڑے ڈیلر سے اشیاء مہنگی مل رہی ہیں تب تو آپ کا قصور نہیں

لیکن

اگر پرانہ اسٹاک موجود ہے یا مناسب ریٹ پے اشیاء ڈیلر دے رہے ہیں تو آپ کا اور اسی طرح بڑے ڈیلرز کا عوام کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے بلکہ باعثِ لعنت ہے، بےبرکتی کا باعث ہے، آسانی کرو اسلام و انسانیت کی ترجمانی کرو....راحت و سکون و مٹھاس پاؤ گے، اخرت کا اجر ہی اصلی مقصود ہونا چاہیے

.

*لنگر کا اہتمام،راشن کی تقسیم،مدد سخاوت....؟؟*

خرچ کرنے کی فضیلت میں کئ آیات مبارکہ ہیں تین آیات مبارکہ ملاحظہ کیجیے

القرآن:

 لِّلْمُتَّقِیْنَ... الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ

تقوی پریزگاری والے وہ ہیں کہ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے جو انکو رزق دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں

 (سورہ البقرہ آیت1-3)

.

القرآن:

وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلَآ اَخَّرْتَنِیْٓ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍلا فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ

ترجمہ:

 اور(اللہ کی راہ میں، اللہ کے بندو میں) خرچ کرو اس میں سے جو رزق ہم نے تم کو عطا کیا ہے قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے پھر وہ کہنے لگے اے میرے ربّ! تُو نے مجھے تھوڑی مدت تک کی مہلت کیوں نہ دے دی کہ میں صدقہ و خیرات کر لیتا اور صالحین میں سے ہو جاتا

(سورہ المنافقون آیت 10)

.

القرآن:

فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَاَنْفَقُوْ لَھُمْ اَجْرٌ کَبِیْرٌ

تم میں سے جو ایمان لائیں اور (عوام غرباء فلاح میں راشن پیسہ مال اسی طرح علم شعور وقت )خرچ کریں ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے

(سورہ الحدید آیت7)

.

الحدیث:


قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ

اللہ فرماتا ہے تم میرے بندو پے(علم دولت راشن شعور مدد تعاون مال) خرچ کرو ،  میں تجھ کو (رحمت نعمت برکت  و اجر) بہت عطاء کروں گا

(بخاری حدیث4684)

.

الحدیث

إِنَّ الْمُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا 

ترجمہ:

(سچے کامل)مسلمان آپس میں ایک عمارت(کی اینٹوں)کی طرح ہیں کہ ایک دوسرے کو تقویت(مدد و سہارا)دیتے ہیں..(بخاری حدیث481)

.

الحدیث

الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ، وَلَا يُسْلِمُهُ 

ترجمہ:

مسلمان مسلمان کا بھائی ہےوہ اپنےبھائی پےنہ ظلم کرے،نہ ظلم ہونےدے،نہ مسلمان بھائی کو بےیار.و.مددگار چھوڑے(بخاری حدیث2442)

*خاص کر جنگوں زلزلوں شدید بارشون سیلابوں غربت وغیرہ میں اپنے مسلمان بھائیوں کو بے یار و مددگار مت چھوڑیے، عسکری جانی مالی حوصلاتی مدد کیجیے،ظلم و مہنگائی مت کیجیے*

.

تلخیصِ حدیث:

مظلوم،غمگین،مجبور، بےبس،فریادی

کی"داد رسی"اور مدد(حسبِ طاقت)صدقہِ لازمہ ہے(بخاری حدیث1445ملخصا)

.

*رسول کریمﷺصدقہ تو جلد از جلد مستحق عوام میں خرچ کرتے مگر انتہائی سخاوت کہ اپنا مخصوص حصہ بھی بطور طعام و راشن تقسیم فرماتے،سخاوت فرماتے...ایک جھلک ملاحظہ کیجیے.........!!*

أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ

نبی پاکﷺسب سےزیادہ سخی تھے(طعام راشن امداد علم شعور اچھی تربیت وغیرہ دیتے تھے)رمضان میں تو بہت سخاوت کرتےتھے(بخاری1902)

.

كَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثُ صَفَايَا : بَنُو النَّضِيرِ، وَخَيْبَرُ، وَفَدَكُ ؛ فَأَمَّا بَنُو النَّضِيرِ فَكَانَتْ حُبْسًا لِنَوَائِبِهِ ، وَأَمَّا فَدَكُ فَكَانَتْ حُبْسًا لِأَبْنَاءِ السَّبِيلِ، وَأَمَّا خَيْبَرُ فَجَزَّأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ : جُزْأَيْنِ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ، وَجُزْءًا نَفَقَةً لِأَهْلِهِ، فَمَا فَضُلَ عَنْ نَفَقَةِ أَهْلِهِ جَعَلَهُ بَيْنَ فُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ......فَلَمَّا أَنْ وَلِيَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، فَلَمَّا أَنْ وَلِيَ عُمَرُ عَمِلَ فِيهَا بِمِثْلِ مَا عَمِلَا حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ،

ترجمہ:

رسول اللہ  ﷺ  کے پاس تین صفایا(رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص منتخب مال)  تھے: بنو نضیر، خیبر، اور فدک، رہا بنو نضیر کی زمین سے ہونے والا مال، وہ رسول  ﷺ  کی  (ہنگامی ضروریات مثلا مہمان جہاد وغیرہ)ضروریات کے کام میں استعمال کے لیے محفوظ ہوتا تھا، استعمال ہوتا تھا اور جو مال فدک سے حاصل ہوتا تھا وہ محتاج مسافروں کے (کھانے پینے راشن زاد راہ وغیرہ ضروریات کے)استعمال کے کام میں آتا تھا، اور خیبر کے مال کے رسول اللہ  ﷺ  نے تین حصے کئے تھے، دو حصے عام مسلمانوں کے(راشن طعام ضروریات) لیے تھے، اور ایک اپنے اہل و عیال کے خرچ کے لیے، اور جو آپ  ﷺ  کے اہل و عیال کے خرچہ سے بچتا اسے مہاجرین کے فقراء پہ خرچ کر دیتے..... جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالئ عنہ خلیفہ بنے تو آپ نے(تقسیم راشن مہمان نوازی سخاوت جہاد وغیرہ میں خرچ کا) وہی طریقہ جاری رکھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری رکھا تھا اور جب سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ بنے تو آپ نے بھی وہی طریقہ جاری رکھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا تھا

(ابوداؤد2967...2972)

.

وكان يؤثر على نفسه وأولاده، فيعطي عطاء يعجز عند الملوك مثل كسرى وقيصر

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جان پر اور اپنی اولاد پر دیگر مسلمانوں کو خرچہ(راشن و امداد) دینے کے معاملے میں فوقیت دیتے تھے، ایسی بے مثال سخاوت فرماتے تھے کہ اس مثل کوئی سخاوت کسی بادشاہ نے نہ کی ہوگی،  قیصر و کسریٰ نے نہ کی ہوگی.

(شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية6/122)

.

الحدیث:

 كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ يَدَّخِرُ شَيْئًا لِغَدٍ

ترجمہ:

بےشک نبی پاک صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (خاص اپنے لیے اور مسلمانوں کی تنگی کے حالات میں اہل خانہ کے لیے)کل کے لیے کچھ بھی خوراک جمع نہ رکھتے(صدقہ طعام راشن وغیرہ تقسیم کر دیا کرتے تھے)

(سنن الترمذي ت بشار ,4/159حدیث2362)

.

حتی کہ اتنی سخاوت فرماتے تھے کہ ماہ دو ماہ تک گھر کا چولھا نہ جلتا تھا

فيعطي العطاء و يمضي عليه الشهر والشهران لا يوقد في بيته نار(فصل الخطاب في الزهد والرقائق والآداب10/278)


*مروجہ لنگر یعنی لوگ جمع کرکے انہیں کھلانا  بھی ثابت ہے.........!!*

عبد الله بن عباس رضي الله تعالى عنهما، وهو أول من وضع موائده على الطريق، وكان إذا خرج من بيته طعام لا يعود منه شي

ترجمہ:

 سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ وہ پہلے شخصیت ہیں کہ جنہوں نے راستے پر دسترخوان لگائے اور ان کے گھر سے جو بھی طعام دستر خوان پر لگایا جاتا تھا تو اس طعام میں سے کچھ بھی واپس لوٹ کے گھر نہیں جاتا تھا

(المستطرف في كل فن مستطرف ص119)

.

*بھر پور کوشش ہو کہ  نہ مانگا جائے مگر کبھی مانگنا جائز بھی ہوجاتا ہے، لوگوں کا مل کر اپنی محتاجی و ضرورت بیان کرکے مدد کی اپیل کرنا........؟؟*

الحدیث:

لَا، وَإِنْ كُنْتَ سَائِلًا لَا بُدَّ فَاسْأَلِ الصَّالِحِينَ 

(امداد،تعاون،قرض،زکاۃ صدقہ وغیرہ)ہرگز نہ مانگ، اگر مجبوری ہو،ضروری ہو تو اچھےبندوں سے مانگ

(نسائی حدیث2587)

.

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے دن کے شروع میں، کچھ لوگ آئے ننگے پیر ، ننگی پیٹھ، گلے میں چمڑے کی عبائیں پہنی ہوئیں، اپنی تلواریں لٹکائی ہوئی اکثر بلکہ سب قبیلہ مضر کے لوگ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک بدل گیا ان کے فقر و فاقہ کو دیکھ کر ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر گئے، پھر باہر آئے اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ اذان کہو اور تکبیر کہی اور نماز پڑھی اور خطبہ پڑھا اور یہ آیت پڑھی «يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ» ”اے لوگو! ڈرو اللہ سے جس نے تم کو بنایا ایک جان سے“ (یہ اس لیے پڑھی کہ معلوم ہو کہ سارے مسلمان و پرامن غیرمسلم آپس میں بھائی بھائی کی طرح ہیں کہ ایک دوسرے کی مدد کریں) «َإِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا» تک پھر سورہ حشر کی آیت پڑھی «اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ» ”اے ایمان والو! ڈرو اللہ سے اور غور کرو کہ تم نے اپنی جانوں کے لیے کیا بھیج رکھا ہے جو کل کام آئے۔“ (پھر تو صدقات کا بازار گرم ہوا) اور کسی نے اشرفی دی اور کسی نے درہم، کسی نے ایک صاع گیہوں، کسی نے ایک صاع کھجور دینا شروع کیے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک ٹکڑا بھی کھجور کا ہو(جب بھی لاؤ) پھر انصار میں سے ایک شخص توڑا لایا کہ اس کا ہاتھ تھکا جاتا تھا بلکہ تھک گیا تھا، پھر تو لوگوں نے تار باندھ دیا یہاں تک کہ میں نے دو ڈھیر دیکھے کھانے اور کپڑے کے اور یہاں تک (صدقات جمع ہوئے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو میں دیکھتا تھا کہ چمکنے لگا تھا گویا کہ سونے کا ہو گیا تھا، جیسے کندن(پھر وہ مال انکو عطاء کر دیا)

(مسلم حدیث2351)

.

*مدارس معلمین کی تعمیر و تعاون..........؟؟*

وَأَهْلُ الصُّفَّةِ أَضْيَافُ الْإِسْلَامِ......إِذَا أَتَتْهُ صَدَقَةٌ بَعَثَ بِهَا إِلَيْهِمْ، وَلَمْ يَتَنَاوَلْ مِنْهَا شَيْئًا، وَإِذَا أَتَتْهُ هَدِيَّةٌ أَرْسَلَ إِلَيْهِمْ، وَأَصَابَ مِنْهَا وَأَشْرَكَهُمْ فِيهَا

 اصحاب صفہ اسلام کے مہمان ہیں( اللہ کے مہمان ہیں).....جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقہ آتا تو اصحاب صفہ کو دیتے آپ علیہ الصلاۃ والسلام صدقے میں سے کچھ بھی تناول نہ فرماتے اور اگر ہدیہ آتا تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام اصحاب صفہ کی طرف بھیجتے اور خود بھی تناول فرماتے اور ان کے ساتھ شریک ہوتے

(بخاری6452)

.

 علماء کرام نے لکھا کہ صفہ گویا کہ اسلام کا پہلا عظیم الشان مدرسہ تھا اور اس میں رہنے والے صحابہ کرام عظیم الشام اولین مصروف طالب علم تھے

لِأَنَّ طَلَبَ الْعِلْمِ لَيْسَ إلَّا اسْتِفَادَةَ الْأَحْكَامِ وَهَلْ يَبْلُغُ طَالِبٌ رُتْبَةَ مَنْ لَازَمَ صُحْبَةَ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لِتَلَقِّي الْأَحْكَامِ عَنْهُ كَأَصْحَابِ الصُّفَّةِ، فَالتَّفْسِيرُ بِطَالِبِ الْعِلْمِ وَجِيهٌ خُصُوصًا وَقَدْ قَالَ فِي الْبَدَائِعِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ جَمِيعُ الْقُرَبِ فَيَدْخُلُ فِيهِ كُلُّ مَنْ سَعَى فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَسَبِيلِ الْخَيْرَاتِ إذَا كَانَ مُحْتَاجًا

( دو ٹوک الفاظ میں واضح الفاظ میں یہ نہیں آیا کہ طالب علموں پر خرچ کرو مدرسوں پر خرچ کرو کیونکہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے دور مبارک میں مروجہ طریقے سے مدارس اور طالبعلم موجود نہ تھے لیکن غور کیا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک طرح سے مدرسہ موجود تھا اور طالب علم موجود تھے کہ)طالب علم اسی کو کہتے ہیں کہ دین و احکام سیکھنے کے لئے جو اپنے آپ کو وقف کرے تو اصحاب صفہ احکام سیکھنے دین سیکھنے کے لیے وقف تھے گویا وہ اولین عظیم الشان طالبعلم تھے اور صفہ گویا پہلا مدرسہ تھا.. لہذا فی سبیل اللہ خرچ کرنے سے مراد طالبعلم و مدارس مراد لیا جائے تو بھی یہ صحیح ہے بلکہ فی سبیل اللہ سے مراد مطلقا اللہ کی راہ والے مراد ہیں بشرطیکہ حاجت مند ہوں

(دیکھیے رد المحتار ,2/343 مشرحا ماخوذا)

(درر الحكام شرح غرر الأحكام ,1/189مشرحا ماخوذا)

.

.وكان أهل الصفة يقومون بفروض عظيمة، منها تلقى القرآن والسنة، فكانت الصفة مدرسة للإسلام، فكانت نفقتهم على سائر المسلمين...

اصحاب صفہ( نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں اور بعد کے دور میں) عظیم فرائض میں مشغول تھے یعنی قران و سنت میں مصروف تھے تو گویا صفہ اسلام کا (پہلا) مدرسہ تھا اور اس کا خرچہ مسلمانوں پر تھا

( الأنوار الكاشفة لما في كتاب «أضواء على السنة»ص145)

.

*عوام مخیر حضرات خرچ کریں مگر خدمت خلق میں لیڈروں عہدےداروں کی اس سے بڑھ کر ذمہ داری ہے.........!!*

صحابی سیدنا ابو مریم الازدی حضرت سیدنا معاویہ کے پاس تشریف لائے تو حضرت معاویہ نے فرمایا:

آپ کی تشریف آوری سے ہمارا دل باغ بہار ہوگیا، فرمائیے کیسے آنا ہوا.......؟؟ صحابی ابو مریم الازدی نے فرمایا کہ میں آپ کو ایک حدیث پاک سنانے آیا ہوں

"رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

جسے اللہ نے مسلمانوں کی حکومت(لیڈری، ذمہ داری، عھدے داری)سے نوازا ہو اور وہ لوگوں پر اپنے دروازے بند کر دے حالانکہ لوگ تنگ دستی میں ہوں حاجات والے ہوں اور فقر و فاقہ مفلسی والے ہوں تو اللہ قیامت کے دن ایسے(بے رحم) حکمران و ذمہ دار پر(رحمت کے، جنت کے) دروازے بند کر دے گا حالانکہ وہ تنگ دست ہوگا حاجت مند ہوگا مفلس و ضرورت مند ہوگا..."

صحابی کہتے ہیں کہ حدیث پاک سنتے ہی فورا سیدنا معاویہ نے لوگوں کی حاجات و مسائل کے سننے، حل کرنے ، مدد کرنے کے لیے ایک شخص کو مقرر کر دیا

(ابوداود حدیث2948بالحذف الیسیر)

.

*افضل صدقہ، حاجت، انفع، معلم،لکھاری........؟؟*

الْأَفْضَلِيَّةُ مِنَ الْأُمُورِ النِّسْبِيَّةِ، وَكَانَ هُنَاكَ أَفْضَلَ لِشِدَّةِ الْحَرِّ وَالْحَاجَةِ وَقِلَّةِ الْمَاءِ

 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف امور کو افضل صدقہ قرار دیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی صدقہ کس نسبت سے افضل ہوتا ہے اور کوئی صدقہ کس نسبت سے افضل ہوتا ہے اور اس حدیث پاک میں افضل صدقہ پانی اس لیے ہے کہ اس کی حاجت زیادہ تھی

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,4/1342)

تو

وقت و حالات کے مطابق ضرورت و نفع کو دیکھ کر اس میں خرچ کرنے کو ترجیح دینی چاہیے

بلکہ

 تھوڑا تھوڑا کرکے ہر نیکی میں دیں، وقتا فوقتا صدقہ کریں، وقتا فوقتا قران پڑہیں حدیث پڑہیں معتبر کتب سے قران و حدیث کو سمجھیں سمجھائیں پھیلاءیں عمل کریں نوافل درود پڑہیں نیکیان کریں گناہوں سے بچیں، حسن اخلاق اپنائیں، علم و شعور اگاہی پھیلائیں، مدد کریں، فلاحی کام کریں. غرباء کو جس کی حاجت زیادہ ہو وہ دیں...جس کا نفع عام و زیادہ ہو وہ کریں، مدارس میں دیں.. علماء لکھاری مبلغین کی مدد کریں.......کسی بھی نیکی کو کمتر نہ سمجھیں کہ نہ جانے کونسی نیکی کونسی ادا اللہ کے ہاں محبوب و مقبول ہوجائے...الحدیث:لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا، کسی بھی نیکی کو کمتر نہ سمجھو

(مسلم حدیث2626...6690)

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.