*#سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہادری کی ایک جھلک اور یسین سابق منہاجی حسن اللہ یاری شیعہ روافض نیم روافض کو منہ توڑ علمی تحقیقی جواب........!!*
تمھید:
شیعہ روافض نیم روافض اور ان کے چیلے ویلے یہ کہتے پھرتے ہیں کہ نعوذ باللہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کوئی اسلام کی خدمات نہیں کی وہ تو ڈر کے مارے چھپ گئے تھے ... رافضی نیم رافضی کہتے ہیں کہ وہ جو کہتے ہیں کہ سرعام اسلام لایا وہ سب جھوٹ ہے وہ بہادر نہیں تھے وہ تو گھر میں چھپ کے بیٹھے تھے جیسے کہ بخاری میں ہے حتی کہ جنگوں میں بھی بھاگ جاتے تھے جیسے کہ طبری میں ہے کہ حضرت عمر فرماتے ہیں میں ایسے بھاگا جیسے پہاڑی بکرا بھاگتا ہے
.
*#جواب.و.تحقیق.........!!*
*#روایت1*
مَا زِلْنَا أَعِزَّةً مُنْذُ أَسْلَمَ عُمَرُ
صحابہ کرام فرماتے ہیں ہم عزت دار رہے جب سے سیدنا عمر اسلام لائے
(بخاری روایت3863)
(المعجم الكبير للطبراني روایت8821)
(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل روایت372)
(استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبہ روایت31973)
.
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام لانے کی وجہ سے مسلمان عزت دار ہوئے آخر سیدنا عمر میں بہادری تھی ان کی کوئی وقعت تھی ان کی طاقت تھی کہ انہوں نے کچھ کر دکھایا تبھی تو مسلمان عزت کے ساتھ رہنے لگے ورنہ صحابہ کرام کو کیا جھوٹا قرار دو گے.....؟؟ اگر سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی کوئی بہادری نہ ہوتی کچھ بھی نہ ہوتی تو مسلمان عزت سے کیسے ہوتے....؟؟
.
جسے بخاری کا بخار ہے امید ہے اس کا بخار اتر گیا ہوگا..کہ امام بخاری نے سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام لانے کی اتنی بڑی اہمیت بیان کی، جس سے پتہ چلتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ بہت بہادر تھے نڈر تھے انہوں نے کچھ کر دکھایا بہت کچھ کر دکھایا بہادری کر دکھائی شجاعت کا مظاہرہ کیا سرعام کیا مسلمانوں کو طاقت دی عزت دی تحفظ دیا تبھی تو مسلمان عزت سے رہنے لگے
.
*#روایت2*
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ بِأَبِي جَهْلٍ، أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ". قَالَ : وَكَانَ أَحَبَّهُمَا إِلَيْه
بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اے اللہ اسلام کو عزت عطا فرما ان دو میں سے جو تجھے زیادہ محبوب ہیے عمر بن خطاب یا ابو جہل اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ محبوب تھے
(ترمذی حدیث3681)
(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل حدیث339نحوہ)
.
*#روایت3*
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَاصَّةً "
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اے اللہ اسلام کو عزت عطا فرما خاص طور پر عمر بن خطاب کے اسلام لانے کے ذریعے
(ابن ماجہ حدیث105)
(المستدرك على الصحيحين حدیث4535)
.
اگر سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی کوئی وقعت نہ ہوتی اگر انہوں نے اسلام کو فائدہ نہ پہنچانا ہوتا، اگر انہوں نے اسلام لانے کے بعد بہادری نہ کرنی ہوتی ، اگر انہوں نے اسلام لانے کے بعد چھپ کر بیٹھ جانا ہوتا تو سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا کیا فائدہ ہوتا.....؟؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد فرمانا کہ اے اللہ تعالی اسلام کو عزت عطا فرما عمر بن خطاب کے ساتھ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسلام لانے کے بعد اسلام کو عزت دیں گے وہ چھپ کر نہیں بیٹھیں گے وہ بہادری دکھائیں گے، ان کے ذریعے سے اسلام پھیلے گا ، وہ شجاعت کا مظاہرہ کریں گے، مظالم کی روک تھام میں بڑا کردار ادا کریں گے
لیکن
افسوس شیعہ ویا رافضی نیم رافضی سب پر کہ وہ کہتے ہیں سیدنا عمر اسلام لانے کے بعد ڈر کر چپ کر بیٹھ گئے.....ارے کمبختو سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا پر تو غور کرو...؟؟ بغض ایجنٹی تعصب وغیرہ میں ا کر تم نے کیا کیا بکواسات کرنا شروع کر دیں...اللہ تمہیں ہدایت دے ورنہ تمہارے شر سے اہل اسلام کو لوگوں کو محفوظ رکھے...امین
.
*#روایت4*
فَقُلْتُ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ , قَالَ: فَقَالَ: يَا عُمَرُ , اسْتُرْهُ قَالَ: فَقُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَأَعْلَنْتُهُ
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے عمر اپنے اسلام کو خفیہ رکھ تو سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا کہ قسم ہے اس ذات کی کہ جس نے اپ کو حق کے ساتھ بھیجا میں اسلام کا اعلان کرونگا
(استاد بخاری المصنف روایت36559)
حالات سازگار نہ تھے جیسے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما رہے تھے کہ اسلام کا اعلان نہ کر عمر لیکن بہادری دیکھیے سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی کہ کتنی جرات تھی ان میں، کتنی بہادری تھی کہ انہوں نے عرض کیا کہ میں کسی سے نہیں ڈروں گا میں اسلام کا اعلان کروں گا
.
*#روایت5*
«إِنَّ عُمَرَ كَانَ لِلْإِسْلَامِ حِصْنًا حَصِينًا
( صحابہ کرام فرماتے ہیں) بے شک سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسلام کے لیے مضبوط قلعہ تھے
(استاد بخاری المصنف روایت31977)
(المستدرك على الصحيحين روایت4522)
كتاب المعجم الكبير للطبراني رویت8805)
(معرفة الصحابة لأبي نعيم روایت نمبر198)
اگر سیدنا عمر چھپ کر بیٹھ گئے ہوتے ڈرپوک ہوتے بزدل ہوتے اسلام کی کوئی خدمات نہ کی ہوتی تو کیا یہ روایت درست ہوتی.....؟؟ تمہاری بکواس مانیں یا صحابہ کرام کا قول مانیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کتنے بہادر تھے کتنی ان کی خدمات تھی اسلام کے لیے....!!
.
*#روایت6*
كَانَ الْحَسَنُ رُبَّمَا ذَكَرَ عُمَرَ فَقَالَ: «وَاللَّهِ مَا كَانَ بِأَوَّلِهِمْ إِسْلَامًا وَلَا أَفْضَلِهِمْ نَفَقَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَلَكِنَّهُ غَلَبَ النَّاسَ بِالزُّهْدِ فِي الدُّنْيَا وَالصَّرَامَةِ فِي أَمْرِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُ فِي
اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ»
امام حسن سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر فرما کر فرمایا کرتے تھے کہ خدا کی قسم وہ اول اسلام تو انہوں نے نہیں لایا اور نہ ہی سب سے زیادہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا(اگرچے بہت مال خرچ کیا مگر سیدنا ابوبکر وغیرہ نے زیادہ خرچ کیا) لیکن انہوں نے تمام لوگوں پر تمام صحابہ کرام پر تمام مسلمانوں پر غلبہ اس طرح پا لیا، سب سے زیادہ اہمیت اس طرح پا لی کہ انہوں نے دنیا میں زہد کو اختیار کیا زہد و تقوی کو اختیار کیا اور اللہ کے معاملے میں اسلام کے معاملے میں رسول کریم کے معاملے میں شمشیر براں ننگی تلوار بنے رہتے اور کسی سے نہ ڈرتے تھے
(استاد بخاری المصنف روایت32010)
.
*#روایت7*
دَخَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَلَى عُمَرَ حِينَ طُعِنَ فَقَالَ لَهُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنْ كَانَ إِسْلَامُكَ لَنَصْرًا، وَإِنْ كَانَتْ إِمَارَتُكَ لَفَتْحًا، وَاللَّهِ لَقَدْ مَلَأْتَ الْأَرْضَ عَدْلًا
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی اے امیر المومنین آپ کی کیا شان کے کیا کہنے... بے شک اپ کا اسلام لانا بہت بڑی مدد تھی اور بے شک اپ کی خلافت بہت بڑی فتح ہے اور بے شک اپ نے زمین کو عدل سے بھر دیا
(جمع الجوامع امام سیوطی14/804)
(الطبقات الكبرى -ط دار صادر3/354)
(استاد بخاری المصنف روایت32015)
(تاريخ دمشق لابن عساكر 44/430)
اگر سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسلام لانے کے بعد چھپ کر بیٹھ گئے تھے تو یہ اسلام کی مدد کیسے ہوئی.....؟؟ اوئے رافضی نیم رافضی دیکھ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کیا فرما رہے ہیں کہ بہت بڑی مدد تھی ، یقینا بہادری کا مظاہرہ کیا سیدنا عمر نے، یقینا تحفظ دیا مسلمانوں کو اسلام کو، یقینا نڈر بہادر تھے ، اعلانیہ اسلام لایا اعلانیہ ہجرت کی، جنگوں میں، غزوات میں بہت بڑی بہادری دکھائی تبھی تو سیدنا ابن عباس فرما رہے ہیں کہ اپ کا اسلام لانا بہت بڑی مدد تھی
.
*#روایت8*
لَمَّا أَسْلَمَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ؛ قَالَ الْمُشْرِكُونَ: الْآنَ انْتَصَفَ الْقَوْمُ مِنَّا
صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ جس دن سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسلام لائے تو مشرکین کہنے لگے کہ اج مسلمانوں نے ہم سے بدلہ لے لیا ہے اج ہم ادھے ادھے ہو گئے ہیں
(كتاب الشريعة للآجري روایت1348)
(فضائل صحابہ احمد بن حنبل روایت308نحوہ)
(كتاب المعجم الكبير للطبراني11/659نحوہ)
بےشک سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا اسلام لانا اتنی بڑی وقعت اور اہمیت رکھتا تھا کہ وہ بہادر تھے نڈر تھے انہوں نے اسلام کو مسلمانوں کو تحفظ دیا تبھی تو مشرکین کہنے لگے کہ اج مسلمانوں نے ہم سے بدلہ لے لیا، ہمیں آدھا کردیا...حالانکہ مکہ میں کئی سردار تھے تو سارے سرداروں کو صحابہ کرام نے لوگوں نے ایک پلڑے میں رکھا اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک پلڑے میں رکھا.... اور یہ شیعہ رافضی نیم رافضی بکواسات کرتے ہیں کہ سیدنا عمر کی کوئی وقعت نہیں تھی، وہ تو ڈر کے مارے چھپ گئے تھے انہوں نے تو اسلام کا کوئی تحفظ نہیں کیا....ارے ظالموں کتنے اندھے ہو اور لوگوں کو بھی اندھا بنانے کی کوشش کر رہے ہو
.
*#روایت9*
- " لَمَّا أَسْلَمَ عُمَرُ، نَزَلَ جِبْرِيلُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، لَقَدِ اسْتَبْشَرَ أَهْلُ السَّمَاءِ بِإِسْلَامِ عُمَرَ "
جب سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسلام لے ائے تو جبرائیل علیہ السلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی کہ بے شک اسمان والے یعنی فرشتے جنات وغیرہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام لانے سے بہت خوش ہیں
(ابن ماجہ روایت103)
(كتاب المعجم الكبير للطبراني11/80)
(صحيح ابن حبان: التقاسيم4/160نحوہ)
(فضائل صحابہ احمد بن حنبل روایت330نحوه)
( الصواعق المحرقة امام ابن حجر1/271نحوہ)
رافضی نیم رافضی ڈوب مر ڈوب مر ڈوب مر.....!! جس کے اسلام لانے پہ فرشتے خوش ہیں جس کے اسلام لانے پہ جبرائیل علیہ السلام خوشخبری لے کر نازل ہوئے اس کے متعلق تم کہتے ہو کہ اس کی کوئی وقت نہیں وہ ڈرپوک تھے نعوذ باللہ.....؟؟
.
*#روایت10*
أَسْلَمَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَكَانَ رَجُلًا ذَا شَكِيمَةٍ، لَا يُرَامُ مَا وَرَاءَ ظَهْرِهِ، امْتَنَعَ بِهِ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِحَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، حَتَّى غَزَا قُرَيْشًا،....مَا كُنَّا نَقْدِرُ عَلَى أَنْ نُصَلِّيَ عِنْدَ الْكَعْبَةِ حَتَّى أَسْلَمَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَلَمَّا أَسْلَمَ قَاتَلَ قُرَيْشًا حَتَّى صَلَّى عِنْدَ الْكَعْبَةِ وَصَلَّيْنَا مَعَهُ
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسلام لے ائے اور وہ بہت ہی غیرت مند خوددار جرات والے اور داد رس ادمی تھے... سیدنا عمر اور سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی وجہ سے ہی صحابہ کرام کا تحفظ ہونے لگا... صحابہ کرام فرمایا کرتے تھے کہ ہم کعبہ کے پاس نماز نہیں پڑھ سکتے تھے یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام لایا اور جب انہوں نے اسلام لایا تو قریش سے لڑے یہاں تک کہ سرعام سیدنا عمر نے کعبہ میں نماز پڑھی اور ہم نے ان کے ساتھ نماز پڑھی
(فضائل صحابہ احمد بن حنبل روایت370)
(كتاب الروض الأنف ت تدمري3/161نحوہ)
(كتاب سيرة ابن هشام ت طه 1/294بنحوہ)
(كتاب البداية والنهاية - ت التركي4/195نحوہ)
رافضی نیم رافضی دیکھ دیکھ غور سے دیکھ پڑھ سمجھ غور کر روایتیں کیا کہہ رہی ہیں صحابہ کرام کیا فرما رہے ہیں کہ ہم سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اسلام قبول کیا تو ہم کعبہ میں نماز پڑھنے لگے...سیدنا عمر نے اسلام لانے کے بعد کعبے میں جا کر نماز پڑھی تھی اسی چیز کو صحابہ کرام نے بیان کیا ہے... اسلام لانے کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ گھر میں چھپ کر نہیں بیٹھے بلکہ قریش سے لڑے سرداروں سے لڑے ، کسی کی جراءت نہ ہوئی روکنے کی اور سرعام کعبہ میں جا کے نماز پڑھی سیدنا عمر نے.....!! صحابہ کرام دو ٹوک فرما رہے ہیں کہ سیدنا عمر داد رس ادمی تھے جرات والے تھے غیرت مند تھے بہادر تھے...
.
*#روایت11*
فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْتُكَ أُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَبِمَا جِئْتَ بِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ، قَالَ: فَكَبَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكْبِيرَةً عَرَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ عُمَرَ قَدْ أَسْلَمَ،
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو ایا ہوں کہ میں اپ کو یہ عرض کر دوں کہ میں اپ پر ایمان لایا ہوں اور اس پر ایمان لایا ہوں جو اپ لے کر ائے ہیں اللہ کی طرف سے... تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی جس سے تمام لوگوں کو پتہ چل گیا کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام قبول کر لیا ہے
(فضائل صحابہ احمد بن حنبل روایت371)
(كتاب تاريخ الإسلام - ت تدمري1/180نحوہ)
( الصواعق المحرقة امام ابن حجر1/268نحوہ)
.
*#روایت12*
إِنَّ إِسْلَامَ عُمَرَ كَانَ عِزًّا، وَإِنَّ هِجْرَتَهُ كَانَتْ فَتْحًا وَنَصْرًا، وَإِنَّ إِمَارَتَهُ كَانَتْ رَحْمَةً، وَاللَّهِ مَا اسْتَطَعْنَا أَنْ نُصَلِّيَ حَوْلَ الْكَعْبَةِ ظَاهِرِينَ حَتَّى أَسْلَمَ عُمَرُ
صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ بے شک سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا اسلام لانا عزت کا باعث تھا اور ان کی ہجرت کرنا فتح تھی اور مدد تھی اور ان کی خلافت رحمت تھی اور اللہ کی قسم ہم کعبہ کے ارد گرد نماز نہیں پڑھ سکتے تھے یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسلام لائے تو ان کی معیت میں ہم نے سرعام نماز پڑھی کعبے میں
(تاريخ دمشق لابن عساكر روایت5206)
(فضائل صحابہ احمد بن حنبل روایت482)
(الشريعة للآجري روایت1199بنحوہ)
(جامع الأحاديث امام سیوطی37/101نحوہ)
اللہ تجھے ہدایت دے رافضی نیم رافضی دیکھ صحابہ کرام کیا فرما رہے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی اتنی بہادری تھی اتنی جرات تھی کہ سرعام اعلانِ اسلام کیا اور نماز پڑھائی کعبے میں چھپ کر نماز پڑھتے تھے اب سرعام نماز پڑھانے لگے اور تم کہتے ہو کہ یہ سب جھوٹ ہے
.
*#روایت13*
فلما أسلم عمر قَاتَلَهُمْ حَتَّى تَرَكُونَا فَصَلَّيْنَا....قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: مَا عَلِمْتُ أَنَّ أَحَدًا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ هَاجَرَ إِلا مُخْتَفِيًا، إِلا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ...مَنْ أَرَادَ أَنْ تَثْكُلَهُ أُمُّهُ، وَيُوتِمَ وَلَدَهُ، وَيُرْمِلَ زَوْجَتَهُ، فَلْيَلْقَنِي وَرَاءَ هَذَا الْوَادِي
صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسلام لائے تو انہوں نے سرعام قتال کیا جہاد کیا لڑائی کی دھمکیاں دیں دشمنان اسلام کو یہاں تک کہ مشرکین نے ہمیں چھوڑ دیا اور ہم سرعام نماز پڑھنے لگے... سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سب لوگوں نے چھپ کر ہجرت کی لیکن سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے سرعام ہجرت کی اور فرمایا کہ جو چاہے کہ اس کی ماں اس پر روئے اور اس کے بچے یتیم ہو جائیں اور اس کی زوجہ بیوہ ہو جائے تو وہ مجھے اس وادی کے پار مل کے دیکھے
( أسد الغابة - ط الفكر649 3/650 )
(جمع الجوامع امام سیوطی 15/681)
(الصواعق المحرقة امام ابن حجر 1/270)
(مرآة الزمان في تواريخ الأعيان3/160نحوی)
(الرياض النضرة في مناقب العشرة2/286نھوہ)
غور کیجئے تعصب کی عینک اتار کر غور کیجئے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کیا فرما رہے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے شجاعت اور بہادری کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ سرعام اعلان کیا کہ کسی میں جرات ہے تو وہ میرا پیچھا کر کے دکھائے میں ہجرت کر رہا ہوں حالانکہ دوسرے صحابہ کرام نے چھپ کر ہجرت کی تھی... اور اس روایت میں یہ بات بھی واضح ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی اسلام لانے سے پہلے چھپ کر نماز پڑھا کرتے تھے جب سیدنا عمر اسلام لے ائے تو سرعام نماز پڑھنے لگے جرات و بہادری کے ساتھ تحفظ کے ساتھ
.
*#روایت14*
فَقُلْتُ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، قَالَ: فَكَبَّرَ أَهْلُ الدَّارِ تَكْبِيرَةً سَمِعَهَا أَهْلُ الْمَسْجِدِ، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ إِنْ مُتْنَا وَإِنْ حَيِينَا؟ قَالَ: «بَلَى وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّكُمْ عَلَى الْحَقِّ إِنْ مُتُّمْ وَإِنْ حَيِيتُمْ»، قَالَ: فَقُلْتُ: فَفِيمَ الِاخْتِفَاءُ؟ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَتَخْرُجَنَّ، فَأَخْرَجْنَاهُ فِي صَفَّيْنِ، حَمْزَةُ فِي أَحَدِهِمَا، وَأَنَا فِي الْآخَرِ، لَهُ كَدِيدٌ كَكَدِيدِ الطَّحِينِ، حَتَّى دَخَلْنَا الْمَسْجِدَ، قَالَ: فَنَظَرَتْ إِلَيَّ قُرَيْشٌ وَإِلَى حَمْزَةَ، فَأَصَابَتْهُمْ كَآبَةٌ لَمْ يُصِبْهُمْ مِثْلَهَا، فَسَمَّانِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ الْفَارُوقَ، وَفَرَّقَ اللهُ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِل
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کلمہ پڑھا کہ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، تو اس جگہ پہ موجود تمام لوگوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ تمام لوگوں نے اس نعرے کو سن لیا تو سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم حق پر نہیں ہیں....؟؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بے شک ہم زندہ ہوں یا وفات پا جائیں ہم حق پر ہی ہیں.... سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ تو پھر کس بات کا چھپ چھپانا، یا رسول اللہ مجھے اس ذات کی قسم کہ جس نے اپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم ضرور باہر نکلیں گے اور سرعام اعلان کریں گے اور سرعام اسلام کی دعوت دیں گے سرعام نماز پڑھیں گے، سیدنا عمر فرماتے ہیں پھر ہم نے دو صفوں میں نکلے ایک صف میں حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ تھے اور دوسری صف میں میں... پھر ہم نے دیکھا کہ قریش کو ایسی مصیبت آن پہنچی ایسا جھٹکا لگا ایسا نقصان پہنچا کہ اس مثل کبھی نہ ہوا ہوگا، سیدنا عمر فرماتے ہیں اس دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام فاروق رکھا یعنی جس کے ذریعے اللہ تعالی نے حق و باطل کے درمیان واضح فرق کر دیا
(کتاب حلية الأولياء وطبقات1/40)
( تاريخ الإسلام امام الذہبی 1/180)
جامع الأحاديث امام سیوطی27/324)
(الصواعق المحرقہ امام ابن حجر1/268)
(لمعات شرح مشكاة محدث دہلوی 10/129)
بےشرمو اب بھی بولو گے ڈرپوک تھے....چھپ گئے تھے.....؟؟
.
*#روایت15*
لَمَّا أَسْلَمَ عُمَرُ ظَهَرَ الْإِسْلَامُ، وَدُعِيَ إِلَيْهِ عَلَانِيَةً، وَجَلَسْنَا حَوْلَ الْبَيْتِ حِلَقًا، وَطُفْنَا بِالْبَيْتِ، وَانْتَصَفْنَا مِمَّنْ غَلُظَ عَلَيْنَا
صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام ظاہر کیا اور اسلام کی طرف اعلانیہ طور پر بلایا اور ہم کعبہ کے ارد گرد حلقے میں بیٹھ گئے اور ہم نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور ہم نے بدلہ لے لیا ان لوگوں سے کہ جنہوں نے ہم پر سختی و ظلم کیے تھے
( تاريخ المدينة لابن شبة2/660)
(الرياض النضرۃ طبری2/284)
(الخصائص الكبرى امام سیوطی1/223)
(أنساب الأشراف بلاذری-ط الفكر10/293)
(المنتظم في تاريخ الملوك والأمم 4/135)
(الصواعق المحرقة امام ابن حجر 1/269)
(كتاب الطبقات الكبرى - ط دار صادر3/269)
.###################
*#پہلا اعتراض......!!*
روافض نیم روافض بڑے جوش سے دلیل پیش کرتے ہیں کہ بخاری روایت3864میں ہے کہ عمر اسلام لانے کے بعد گھر میں چپ کر خوف سے بیٹھ گئے....!!
.
*#جوا.و.تحقیق.......!!*
پہلی بات:
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسلام لانے کے بعد چھپ کر بیٹھ نہیں گئے تھے بلکہ سرعام اپنے اسلام کا اعلان کیا اور مسلمانوں نے ان کے ساتھ مل کر کعبے میں نماز پڑھی اور یہ مسلمانوں کو تحفظ دیتے رہے اور مشرکوں سے لڑتے رہے جیسے کہ اوپر والی 15 روایات میں بھی واضح ہے اور اس تفصیلی روایت میں بھی واضح ہے
لَمَّا أَسْلَمَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ: أَيُّ قُرَيْشٍ أَنْقَلُ لِلْحَدِيثِ؟ قِيلَ لَهُ: جَمِيلُ بْنُ مَعْمَرٍ الْجُمَحِيُّ، قَالَ: فَغَدَا عَلَيْهِ...حَتَّى جَاءَهُ فَقَالَ: أَمَا عَلِمْتَ يَا جَمِيلُ أَنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَدَخَلْتُ فِي دِينِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ....حَتَّى إِذَا قَامَ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ صَرَخَ بِأَعْلَى صَوْتِهِ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ - وَهُمْ فِي أَنْدِيَتِهِمْ حَوْلَ الْكَعْبَةِ - أَلَا إِنَّ عُمَرَ قَدْ صَبَا، قَالَ: يَقُولُ عُمَرُ مِنْ خَلْفِهِ: كَذَبَ، وَلَكِنْ قَدْ أَسْلَمْتُ وَشَهِدْتُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، قَالَ: وَثَارُوا إِلَيْهِ، قَالَ: فَمَا بَرِحَ يُقَاتِلُهُمْ وَيُقَاتِلُونَهُ حَتَّى قَامَتِ الشَّمْسُ عَلَى رُءُوسِهِمْ، قَالَ: وَطَلَحَ فَقَعَدَ، وَقَامُوا عَلَى رَأْسِهِ وَهُوَ يَقُولُ: افْعَلُوا مَا بَدَا لَكُمْ، فَأَحْلِفُ أَنْ لَوْ كُنَّا ثَلَاثَمِائَةِ رَجُلٍ لَقَدْ تَرَكْنَاهَا لَكُمْ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا لَنَا، قَالَ: فَبَيْنَاهُمْ عَلَى ذَلِكَ إِذْ أَقْبَلَ شَيْخٌ مِنْ قُرَيْشٍ عَلَيْهِ جُبَّةٌ حِبَرَةٌ وَقَمِيصٌ قُومِسُ حَتَّى وَقَفَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ: مَا شَأْنُكُمْ؟ قَالُوا: صَبَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: فَمَهْ، رَجُلٌ اخْتَارَ لِنَفْسِهِ أَمْرًا فَمَاذَا تُرِيدُونَ
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ جب اسلام لائے تو انہوں نے کہا کہ کون سا طریقہ ہے کہ قریش والوں کو جلدی پتہ چل جائے کہ میں اسلام لایا ہوں... عرض کی گئی کہ جمیل نامی شخص کو بتا دیجیے وہ ساری جگہ پھیلا دے گا... سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جمیل کو بتا دیا کہ میں دین اسلام قبول کر چکا ہوں تو جمیل گلیوں محلوں میں دوڑتا ہوا یہ اعلان کرتا ہوا چِلاتا ہوا بتاتا ہوا جا رہا تھا کہ عمر نے اسلام قبول کر لیا ہے... اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ ان کے پیچھے پیچھے تھے اور وہ جمیل کعبہ شریف پہنچا اور اعلان کیا تو سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کے بعد اس اعلان کی تصدیق کی... کفار و مشرکین جمع ہو گئے اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ جرات و بہادری کے ساتھ ان کے خلاف خوب ڈٹے رہے اور ان سے لڑے یہاں تک کہ سورج ڈھلنے لگا، سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں خوب چیلنج دے دیا کہ جو کرنا ہے کرو جس کسی میں ہمت ہے تو مجھے ہاتھ لگا کے دکھائے، میں یہیں بیٹھا ہوں.... یہ کہہ کر اپ تشریف فرما ہو گئے لیکن کسی کی جراءت نہ ہوئی کہ اپ پر حملہ کر سکے، اتنے میں ایک سردار ایا اور اس نے لوگوں کو کہا کہ چلے جاؤ اس اس نے جو کرنا تھا کر لیا اس کی مرضی ہے تم کون ہوتے ہو لڑنے والے روکنے والے...
((فضائل صحابہ احمد بن حنبل1/282بشرح...نوٹ: اس روایت کی سند قوی و حسن معتبر ہے)
( تاريخ الإسلام - ت تدمري1/176نحوہ)
(البداية والنهاية - ت التركي4/202نحوہ)
(كتاب الروض الأنف ت تدمري3/172 نحوہ)
.
*#دوسری بات.....!!*
بخاری میں سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام لانے کے متعلق تین مختصر روایتیں ہیں
بخاری روایت3863:
اس روایت میں امام بخاری نے صحابہ کرام کا قول نقل کیا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام لانے کی وجہ ہم مسلمان ہمیشہ عزت میں رہے... جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا عمر اسلام لانے کے بعد ڈر کے مارے چھپ کر نہیں بیٹھ گئے تھے بلکہ مسلمانوں کو تحفظ دیا تھا کعبے میں نماز پڑھی تھی اور دشمنوں سے کفار سے مشرکین سے لڑے تھے
.
بخاری روایت3864:
اس روایت میں ہے کہ سیدنا ابن عمر فرماتے ہیں انہیں خوف تھا..... اس روایت میں جو ہے کہ خوف تھا تو کس کو خوف تھا.....؟ سیدنا ابن عمر کو خوف تھا یا سیدنا عمر کو خوف تھا....؟؟ کچھ بھی معنی ہو سکتا ہے.... بالفرض اگر یہ معنی لیا جائے کہ سیدنا عمر کو خوف تھا تو بھی یہ سیدنا عمر کا اپنا فرمان نہیں ہے بلکہ راوی نے اندازہ لگایا کہ سیدنا عمر کو خوف ہے... اور اندازہ درست بھی ہو سکتا ہے غلط بھی ہو سکتا ہے... اس روایت کے اگے والی روایت میں خوف کے لفظ نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اندازہ درست نہیں تھا تبھی تو امام بخاری دوسری روایت لے کر ائے جس میں خوف کے الفاظ نہیں... اور اس روایت سے پہلی والی روایت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ خوف کے مارے چھپ کر بیٹھ نہیں گئے تھے.... اور فضائل صحابہ امام احمد بن حنبل کی روایت اور اوپر لکھی 15روایات سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا عمر چھپ کر بیٹھ نہیں گئے تھے خوف کے مارے چھپ کر بیٹھ نہیں گئے تھے
.
بخاری روایت3865:
اس روایت میں خوف کے الفاظ موجود نہیں ہیں.... اور بخاری کی پہلی روایت اور فضائل صحابہ امام احمد بن حنبل کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہرگز ہرگز خوف کے مارے چھپ کر نہیں بیٹھے تھے بلکہ اوپر بیان کردہ تقریبا 14 ، 15 روایات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ چھپ کر نہیں بیٹھ گئے تھے
.
*#دوسرا اعتراض.......!!*
روافض نیم روافض کہتے ہیں کہ طبری میں ہے کہ سیدنا عمر خود کہتے ہیں کہ جنگ احد میں میں بھاگ گیا تھا اور میں پہاڑی بکرے کی طرح پہاڑ پر چڑھ گیا تھا
.
*#جواب.و.تحقیق.......!!*
پہلی بات:
بھاگے نہیں تھے بلکہ جس طرح جنگ میں مورچہ محاذ بدلہ جاتا ہے اسی طرح سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پہاڑ کا محاذ لیا تھا کہ پتھر پھینک کر کفار بھگانا بھی آسان تھا اور کفار کی ضرب سے بچاؤ بھی تھا کہ بچاؤ کرنا بچاؤ کے لیے ڈھال خول وغیرہ سب سنت ہیں اور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس مورچے پر لے کر گئے تھے تو کیا کہو گے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم بھی میدان سے بھاگ گئے تھے...نعوذ باللہ......؟؟
.
فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ : أَفِي الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ ؟ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُجِيبُوهُ، ثُمَّ قَالَ : أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ ؟ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ : أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ الْخَطَّابِ ؟ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ : أَمَّا هَؤُلَاءِ فَقَدْ قُتِلُوا. فَمَا مَلَكَ عُمَرُ نَفْسَهُ فَقَالَ : كَذَبْتَ وَاللَّهِ يَا عَدُوَّ اللَّهِ، إِنَّ الَّذِينَ عَدَدْتَ لَأَحْيَاءٌ كُلُّهُمْ، وَقَدْ بَقِيَ لَكَ مَا يَسُوءُكَ
( سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور دیگر صحابہ کرام اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پہاڑ کی چوٹی پر تشریف فرما ہوئے) ابو سفیان جو اس وقت اسلام نہ لائے تھے انہوں نے کہا کہ کیا قوم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم حیات ہیں تین مرتبہ اس نے یہ کہا لیکن نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دینے سے منع کر دیا پھر اس نے کہا کہ کیا قوم میں ابوبکر صدیق حیات ہیں تین مرتبہ کہا... پھر کہا کیا قوم میں عمر بن خطاب حیات ہیں....؟؟ اور جواب نہ ملنے پر اس نے اپنے لوگوں سے جا کر کہا کہ یہ وفات پا چکے ہیں،(سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی بہادری جوش جذبہ ایمانی دیکھیے کہ) صحابی کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے برداشت نہ ہوا اور انہوں نے جواب دیا کہ اے اللہ کے دشمن تم جھوٹ بول رہے ہو جن جن کا تم نے نام لیا ہے وہ تمام معزز حضرات حیات ہیں، اور اس جنگ کا بدلہ ادھار رہا جو تمہیں بہت تکلیف پہنچائے گا
(بخاری حدیث3039)
.
نوٹ: اب سیدنا ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق ایسا ویسا کہنا کچھ بھی جائز نہیں ہے مذمت کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے راضی ہو گئے تھے
الحدیث:
قَدْ فَعَلْتُ، يَغْفِرُ اللَّهُ لَهُ كُلَّ عَدَاوَةٍ عَادَانِيهَا
میں ابوسفیان سےراضی ہوگیا،اللہ اسکی تمام دشمنیوں کو معاف فرمائے(مستدرک حدیث5108)
نبی پاک راضی،اللہ پاک راضی
جل بھن جائےبےشرم رافضی،نیم رافضی
.
*#تیسری بات.....!!*
اس روایت کو جس نے بھی لکھا طبری کے حوالے سے لکھا اور طبری کی روایت کی سند غیر معتبر ہے...تفسیر طبری میں اس واقعہ کی سند یہ لکھی ہے:
حدَّثنا أبو هشامٍ الرفاعيُّ، قال: ثنا أبو بكر بنُ عياشٍ، قال: ثنا عاصمُ بنُ كُلَيْبٍ، عن أبيه
(تفسير الطبري جامع البيان 6/172)
.
وَقَالَ البُخَارِيّ: يَتَكَلَّمُونَ فِيهِ...وَقَالَ ابْن عدي: وَقد أنكر على أبي هِشَام أَحَادِيث عَن أبي بكر بن عَيَّاش (و) عَن (ابْن) إِدْرِيس وَغَيرهمَا (من) مَشَايِخ الكُوفَة
اس سند کے ایک راوی ابو ہشام کے متعلق امام بخاری فرماتے ہیں کہ اس میں جرح کا کلام کیا ہے علماء نے... امام ابن عدی نے فرمایا کہ یہ ہشام ابوبکر بن عیاش یا دیگر مشائخ کوفہ سے جو روایت کرے تو اس کو علماء نے رد کر دیا ہے نہیں مانا ہے
( الجامع لكتب الضعفاء والمتروكين والكذابين14/466)
.
. وقال البخاري: رأيتهم مجتمعين على ضعفه. وقال النسائي (٣): ضعيف...ولا تلقه على أبي هشام فيسرقه.ابن أبي حاتم (٦): سألت أبي عنه فقال: ضعيف يتكلمون فيه
وذكره ابن حبان (٧) في الثقات وقال: يخطئ
ويخالف
ابو ہشام کے بارے میں امام بخاری کہتے ہیں کہ اس کے ضعیف ہونے پر سب کا اجماع ہے... امام نسائی جو اہل بیت سے بہت محبت کرتے ہیں انہوں نے بھی فرمایا ہے کہ یہ ضعیف راوی ہے، اس راوی پر یہ جرح بھی ہے کہ یہ ایک کلام چوری کر لیتا تھا یا سند چوری کر لیتا تھا اور اس پر جھوٹا کلام یا جھوٹی سند چڑھا دیتا تھا... امام ابو حاتم.نے فرمایا کہ یہ ضعیف ہے علماء نے اس میں کلام کیا ہے امام ابن حبان نے فرمایا ہے کہ یہ بہت خطا کرتا ہے اور صحیح روایات کی مخالفت کرتا ہے
( تهذيب التهذيب - ط المعرفة5/313)
.
قال الترمذي: أبو بكر بن عياش كثير الغلط...ابن معين عن أبي بكر بن عياش فضعفه
اس روایت کے دوسرے راوی ابوبکر بن عیاش کے متعلق امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ بہت غلطیاں کرتا تھا اور امام ابن معین نے فرمایا کہ یہ ضعیف راوی ہے
(التذييل على تهذيب التهذيب ص491)
.
(امام احمد)ورُبما غلط...إذا ذكر عنده أبو بكر بن عياش كلح وجهه...يَحْيى يقول لو كان أبو بكر بن عياش بين يدي ما سألته عن شيء.
ابوبکر بن عیاش کے متعلق امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ یہ بہت غلطیاں کرتا تھا اور امام یحیی بن سعید کے پاس ابوبکر بن عیاش کا تذکرہ ہوتا تو اپ اپنا چہرہ ہٹا لیتے تھے اور بے توجہی کرتے تھے وقعت نہ دیتے تھے، امام یحیی فرماتے ہیں کہ اگر ابوبکر بن عیاش میرے سامنے ہوتا تو اس کی ایسی کوئی حیثیت نہیں کہ میں اس سے کوئی سوال کروں
( الكامل في ضعفاء الرجال5/40)
.
قال: لأن أبا بكر كثير الخطأ جدًّا. قلت: كان في كتبه خطأ؟
قال: لا، كان إذا حدث من حفظه
امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ ابوبکر بن عیاش بہت زیادہ خطا کرتا تھا، امام احمد بن حنبل کے بیٹے نے عرض کی کہ کیا ان کی کتابوں میں خطا ہے تو فرمایا نہیں جب وہ اپنے حافظے سے بات بتائے تو خطا ہے
(الجامع لعلوم الإمام أحمد - الرجال19/601)
.
ثقة عابد، إلا أنه لما كبر ساء حفظه، وكتابه صحيح
امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ یہ عابد تھا ثقہ تھا لیکن جب یہ بوڑھا ہو گیا تو اس کا حافظہ خراب ہو گیا،( اس لیے اس نے جو جوانی میں) کتابیں لکھ لی تھی وہ اس کی صحیح ہیں
(تقريب التهذيب (1/ 1118)
.
بعض ائمہ نے ان دونوں راویوں سے روایت لی ہے تو وہ بوڑھے ہونے سے پہلے کی روایت ہے یا خطا کے عرصے سے پہلے روایت ہوگی یا اس کا تائید و متابع موجود ہوگا.... لیکن یہاں پر ایسا کوئی شاہد موجود نہیں ایسی کوئی شہادت موجود نہیں کہ جس سے ثابت ہو کہ یہ اس روایت میں ثقہ ہیں... لیھذا یہ سراسر مشکوک قرار پاتے ہیں بلکہ یہ مردود قرار پاتے ہیں کہ صحابی کے متعلق ایک مذمت کی بات بیان کر رہے ہیں جس کی کوئی ٹھوس اور مضبوط سند ہی موجود نہیں
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
old but working whatsap nmbr
03468392475
00923468392475
New but second whatsapp nmbr
03062524574
00923062524574
رابطہ اولڈ وٹس اپ نمبر پے فرماءیے مگر دونوں نمبر سیو رکھیے اور گروپس میں بھی دونون نمبر شامل کرکے ایڈمین بنا دیجیے کہ پرانہ نمبر کبھی کبھار گربڑ کرتا ہے تو نیو نمبر سے دینی خدمات جاری رکھ سکیں...جزاکم اللہ خیرا
آپ میرا نام و نمبر مٹا کر بلانام یا ناشر یا پیشکش لکھ کر اپنا نام ڈال کے آگے فاروڈ کرسکتے ہیں،کاپی پیسٹ کرسکتے ہیں،شئیر کرسکتے ہیں...نمبر اس لیے لکھتاہوں تاکہ تحقیق رد یا اعتراض کرنے والے یا مزید سمجھنے والےآپ سے الجھنے کےبجائے ڈائریکٹ مجھ سے کال یا وتس اپ پے رابطہ کرسکیں