سیدنا ابوبکر عمر و علی وغیرہ کے بعض فضائل و خصائص

 *سیدنا ابوبکر و عمر و علی وغیرہ صحابہ کرام کے بعض فضائل و خصائص.......!!*

*مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی درج ذیل شان بیان کی جائے تو بہتر ہے کہ یہ شان جن دیگر کو عطاء ہوئی انکا بھی ذکر کیا جائے.......!!*

.

*شیعہ کے مرچ مسالے غلط سوچ و نظریات نکال کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا علی اور سیدنا حکیم بن حزام دونوں کعبہ میں پیدا ہوئے رضی اللہ تعالیٰ عنھما.......!!*

.

 بعض کتب میں لکھا ہے کہ صحابی سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کعبہ میں پیدا ہوئے اس کے علاوہ کوئی پیدا نہیں ہوا... بعض کتب میں لکھا ہے کہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ ہی کعبہ میں پیدا ہوئے اس کے علاوہ کوئی پیدا نہیں ہوا... بعض کتب میں ہے کہ دونوں ہستیاں کعبہ میں پیدا ہوئیں...ہمیں یہ تیسرا قول قوی ترین لگتا ہے... معلومات کے مطابق سب سے قوی ترین دلیل اور حوالہ یہ ہے:

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي يُوسُفَ، قَالَ: ثنا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يَقُولُ: " سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ....وَأَوَّلُ مَنْ وُلِدَ فِي الْكَعْبَةِ: حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ.... وَأَوَّلُ مَنْ وُلِدَ فِي الْكَعْبَةِ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ: عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ

 سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے جو کعبہ میں پیدا ہوا وہ حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اور بنو ہاشم میں سے جو سب سے پہلے کعبہ میں پیدا ہوا وہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں

(أخبار مكة للفاكهي ,3/198روایت2018ملتقطا)

.

 اس کے علاوہ اب ہم چند حوالے لکھ رہے ہیں جس میں سیدنا علی یا سیدنا حکیم بن حزام کو مولود کعبہ لکھا گیا ہے اور دوسرے کی صریح نفی نہیں کی گئ... جن علماء نے سیدنا علی کی نفی کی یا حکیم بن حزام کی نفی کی تو ان کے پاس کوئی ٹھوس دلیل موجود نہیں ہے اس لیے ہم ان کے حوالے نقل نہیں کر رہے...اگر سیدنا علی کے مولود کعبہ ہونے کی روایت ضعیف ہے تو سیدنا حکیم بن حزام کے مولود کعبہ ہونے کی صحیح متصل سند بھی ہمارے علم کے مطابق موجود نہیں...اور معاملہ فضیلیت کا ہے کوئی حکم شرعی ثابت کرنا مقصود نہیں تو دونوں کو مولود کعبہ کہنا سمجھنا ہی قوی لگتا ہے

 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الْوَهَّابِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ عَثَّامٍ، يَقُولُ: «وُلِدَ حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ فِي الْكَعْبَةِ، دَخَلَتْ أُمُّهُ الْكَعْبَةَ، فَمَخَضَتْ فِيهِ، فَوَلَدَتْ فِيهِ

 حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے ان کی والدہ کعبہ میں داخل ہوئیں تو انہیں درد زہ ہوا اور انہوں نے عین کعبہ کے اندر حکیم بن حزام کو پیدا کیا

(معرفة الصحابة لأبي نعيم روایت1881)

(المستدرك على الصحيحين للحاكم روایت6041)

.

أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ، ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَرْبِيُّ، ثَنَا مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَذَكَرَ نَسَبَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَزَادَ فِيهِ، «وَأُمُّهُ فَاخِتَةُ بِنْتُ زُهَيْرِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى، وَكَانَتْ وَلَدَتْ حَكِيمًا فِي الْكَعْبَةِ وَهِيَ حَامِلٌ، فَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ، وَهِيَ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ، فَوَلَدَتْ فِيهَا فَحُمِلَتْ فِي نِطَعٍ، وَغُسِلَ مَا كَانَ تَحْتَهَا مِنَ الثِّيَابِ عِنْدَ حَوْضِ زَمْزَمَ، وَلَمْ يُولَدْ قَبْلَهُ، وَلَا بَعْدَهُ فِي الْكَعْبَةِ أَحَدٌ» قَالَ الْحَاكِمُ: «وَهَمُّ مُصْعَبٍ فِي الْحَرْفِ الْأَخِيرِ، فَقَدْ تَوَاتَرَتِ الْأَخْبَارِ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَسَدٍ وَلَدَتْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ

 امام حاکم فرماتے ہیں کہ سیدنا مصعب فرماتے ہیں کہ حکیم بن حزام کے علاوہ کوئی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا... امام حاکم فرماتے ہیں کہ مصعب کو اس میں وہم ہوا ہے کیونکہ یہ خبر متواتر ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی کعبہ میں پیدا ہوئے

(المستدرك على الصحيحين للحاكم3/550)

.

وفي مستدرك الحاكم أن علي بن أبي طالب كرم الله وجهه ولد أيضا في داخل الكعبة

 مستدرک حاکم میں ہے کے سیدنا علی اور سیدنا حکیم بن حزام دونوں کعبہ میں پیدا ہوئے

(شرح الشفا للقاری1/159)


ولد في جوف الكعبة، في السنة الثانية والثلاثين من ميلاد رسول الله صلى الله عليه وسلم.

 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ عین کعبہ کے اندر پیدا ہوئے اس وقت آپ علیہ الصلاۃ و السلام کی عمر مبارک 32سال تھی

(التعريف بالإسلام ص302)

.

ولد على بن أبى طالب رضى الله عنه فى الكعبة 

 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے

( تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس1/279)

.


أما ما روي أن علي بن أبي طالب ولد فيها فضعيف عند العلماء

 وہ جو روایت میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے تو یہ علماء کے مطابق ضعیف ہے

(فتح القريب المجيب على الترغيب والترهيب5/192)

.

وما في "المستدرك" من أن عليًّا - رضي الله عنه - وُلد في الكعبة ضعيف

 اور مستدرک میں جو ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے تو یہ ضعیف ہے

( البحر المحيط الثجاج 27/75)

.

أي لأنه ولد في الكعبة وعمره صلى الله عليه وسلم ثلاثون سنة فأكثر...قيل الذي ولد في الكعبة حكيم بن حزام...قال بعضهم: لا مانع من ولادة كليهما في الكعبة، لكن في النور: حكيم بن حزام ولد في جوف الكعبة، ولا يعرف ذلك لغيره. وأما ما روي أن عليا ولد فيها فضعيف عند العلماء

 سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور آپ علیہ الصلاۃ و السلام کی عمر مبارک 30 سال سے زیادہ تھی... اور کہا گیا ہے کہ کعبہ میں صرف سیدنا حکیم بن حزام ہی پیدا ہوئے.... علماء نے فرمایا کہ دونوں کا کعبہ میں پیدا ہونا کوئی ممانعت نہیں رکھتا... لیکن النور میں ہے کہ سیدنا حکیم بن حزام ہی کعبہ میں پیدا ہوئے اور جو سیدنا علی کے متعلق ہے کہ کعبہ میں پیدا ہوئے تو وہ ضعیف ہے

( السيرة الحلبية1/202)

.

وَأما مَا رُوِيَ عَن عَلّي رَضي اللهُ عَنهُ أَنه ولد فِيهَا فضعيف

 اور جو روایت میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے تو یہ ضعیف ہے

(كتاب البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبير6/489)

.

 اور تمام علماء کے مطابق ضعیف قول سے فضیلت ثابت کی جا سکتی ہے... ہاں البتہ افضلیت وغیرہ شیعوں کے مرچ مسالے خلاف شرع نظریات وہ اس سے ثابت نہیں کیے جا سکتے

.

حكيم بن حزام الذي ولد في جوف الكعبة

 صحابی سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ کہ جو کعبہ میں پیدا ہوئے

(كتاب الوفيات لابن قنفذ ص67)

.

حکیم بن حزام....ولد في الكعبة

 صحابی سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے

(كتاب الاستيعاب في معرفة الأصحاب1/362)

.

.

،حکیم بن حزام..... وُلِدَ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ

 صحابی سیدنا حکیم بن حزام کعبہ میں پیدا ہوئے

( من عاش مائة وعشرين سنة من الصحابة ص21)

.

 وكان ولد في الكعبة

صحابی سیدنا حکیم بن حزام کعبہ میں پیدا ہوئے تھے

(كتاب المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام7/47)

.


أقول لا مانع من ولادة كليهما فى الكعبة المشرّفة

 تاریخ الخمیس کے مصنف کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ سیدنا علی اور سیدنا حکیم بن حزام دونوں کا کعبہ مشرفہ میں پیدا ہونے کی  نفی کی کوئی وجہ و دلیل نہیں ہے

(تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس1/279)

.

معین تاریخ:

متقدمین اہل تاریخ نے سیدنا علی کی ولادت کی تاریخ لکھی ہو ایسا ہمیں نہیں ملا اور یہ صرف سیدنا علی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ کئ صحابہ کرام بلکہ اکثر صحابہ کرام کی معین تاریخ ولادت نہیں لکھی گئ

.

بعد کے کچھ علماء نے بلادلیل و بلا حوالہ معتبرہ تیرہ رجب یا پندرہ رجب لکھی ہے

وما قيل إن فاطمة بنت أسد أوحي إليها: أن أدخلي وشرفي، فكذب صريح لأنه لم يقل أحد من الإسلاميين بنبوتها. فتأمل. والمشهور في ولادة الأمير عندنا هو أن أهل الجاهلية كانت عاداتهم أن يفتحوا باب الكعبة في يوم الخامس عشر من رجب ويدخلونها للزيارة، فممن دخل فاطمة، فوافقت الولادة ذلك اليوم.... وأيضا قد ثبت في التواريخ الصحيحة أن حكيم بن حزام

 اور وہ جو کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت اسد کو وحی ہوئی کہ کعبہ میں داخل ہوجاؤ اور کعبہ کو شرف بخشو حضرت علی کی ولادت سے... تو یہ بات صریح جھوٹ ہے کیونکہ کسی نے بھی سیدہ فاطمہ کی نبوت کا دعوی نہیں کیا.... اور ہمارے مطابق مشہور یہ ہے کہ جاہلیت میں عادت تھی کہ کعبہ کا دروازہ 15 رجب کو کھولا کرتے تھے تو لوگ زیارت کے لیے داخل ہوتے تھے جس میں سیدہ فاطمہ بھی داخل ہوئی اور سیدنا علی کی ولادت ہو گئی... اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ صحیح تاریخ میں ہے کہ حکیم بن حزام بھی کعبہ میں پیدا ہوئے

(السيوف المشرقة ومختصر الصواقع المحرقة ص204)

.

ولادت والا واقعہ:

شیعہ کتب مین واقعہ درج ہے کہ حضرت علی کی والدہ کو وحی ہوئ،کچھ کتابوں میں ہے کہ الھام ہوا کہ کعبے میں جاے کیونکہ ولادتِ علی کا وقت قریب ہے... وہ کعبے مین گئیں دردِ زہ ہوا اور کعبے کے اندر سیدنا علی کی.ولادت ہوئ.. کچھ کتب میں اسکی مزید تفصیل یوں ہے کہ کعبہ کے اندر کا دروازہ کبھی کبھار ہی کھلتا تھا.. پندرہ رجب حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کا دن کے موقعے پر چار پانچ دن کے لیے کعبے کا اندر کا دروازہ بھی کھلتا تھا.. باپردہ خواتین پندرہ رجب سے دو تین دن پہلے ہی زیارت کر آتی تھیں..اس طرح اندازہ لگایا گیا کہ تیرہ رجب کو سیدنا علی کی والدہ کعبہ گئی ہوگی..پھر اہل تشیع نے سیدنا عیسی علیہ السلام سے بھی حضرت علی کو افضل کہہ دیا کہ حضرت عیسی کی ولادت کے وقت بی بی مریم کو بیت المقدس سے باہر بھیجا گیا اور یہاں کعبہ کے اندر ولادت علی کا حکم..

شاہ صاحب کا تبصرہ:

 شاہ صاحب نے مذکورہ روایت ، مذکورہ واقع  کو جھوٹ دھوکہ قرار دیا...فرمایا کہ کسی معتبر کتاب مین حدیث میں کہیں یہ نہیں آیا کہ بی بی مریم کو بیت المقدس سے نکل جانے کا حکم ہوا ہو...ہرگز نہیں.. اور فرمایا کہ کسی معتبر کتاب میں یہ نہیں کہ ولادتِ علی کے لیے کعبہ جانے کا حکم ہوا ہو..ہرگز نہیں.. وہ ایک اتفاق تھا.. وحی کا کہنا تو کفر ہے... شاہ صاحب نے تیرہ رجب پر گفتگو نہ فرمائی.. البتہ ان کے کلام سے واضح ہوتا ہے کہ شیعہ کے مرچ مسالے جھوٹ بے بنیاد غلط نظریات نکال کر یہ ہوسکتا ہے کہ عورتوں کے ساتھ سیدنا علی کی والدہ بھی کعبہ کی زیارت کو گئی ہوں اور وہاں  دردِ زہ زیادہ ہوگیا ہو اور اس طرح سیدنا علی کی ولادت کعبہ میں ہوئی ہو مگر شاہ صاحب نے ساتھ میں دو ٹوک ارشاد فرمایا کہ اس سے افضلیت وغیرہ شیعہ کے دعوے ثابت نہین ہوتے کیونکہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام بھی کعبہ کے اندر پیدا ہوے...(دیکھیے تحفہ اثنا عشریہ صفحہ 164,165.,166)

.###################

ایسا نہیں کہ صرف سیدنا ابوبکر صدیق کے بارے میں یہ روایت ہو بلکہ سیدنا علی کے بارے میں بھی بعض صحابہ کرام کا فرمان ہے کہ سب سے پہلے انہوں نے ایمان لایا...جب صحابہ کا قول آپس میں متضاد مختلف ہو تو اس کا حل اور جواب علماء کرام نے یہ دیا کہ بڑوں میں سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق اور بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی ایمان لائے۔۔رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین

.

أول من أسلم من الرجال الأحرار أبو بكر. ومن الصبيان أو الأحداث علي. ومن النساء خديجة

 بڑوں میں سے آزاد مردوں میں سے سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ایمان لائے، بچوں میں سے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سب سے پہلے ایمان لائے اور عورتوں میں سب سے پہلے سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا ایمان لائیں

(شرح الزرقاني علي المواهب1/454)

(البداية والنهاية تركي 10/413نحوه)

(التقييد والإيضاح شرح مقدمة ابن الصلاح ص308نحوہ)

.##################

 *اگر یہ بیان کیا جائے کہ سیدنا علی کے ساتھ حق ہے تو یہ بھی بیان کیا جائے کہ رسول کریم نے فرمایا کہ سیدنا عمر کے ساتھ بھی حق ہے*

خلاصہ حدیث:

اللہ ابوبکر پرخصوصی رحم فرمائے اپنی بیٹی سےمیرا نکاح کرایا،سوار کرکے ہجرت کرائی،(مہنگےداموں خرید کر)بلال کو آزاد کرایا…اللہ عمر پر خصوصی رحم فرمائے وہ ہمشہ حق کہتے ہیں اگرچہ کسی کو کڑوا لگے…اللہ عثمان پر خصوصی رحم فرمائےکہ جس سےملائکہ بھی حیاء کرتےہیں…اللہ علی پر خصوصی رحم فرمائے جہاں وہ ہوں وہاں حق ہو

(ترمذی حدیث3714ملخصا)رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین حق چار یار…بیڑا پار

.

.

الحدیث:

ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن الله جعل الحق على لسان عمر وقلبه

بےشک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ اللہ عزوجل نے حق کو عمر کی زبان و دل پے رکھا ہے

(ترمذی حدیث3682)

.#################

* سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کا مولا ہونا بیان کیا جائے تو ساتھ میں درج ذیل کا بھی مولا ہونا بیان کیا جائے تو بہتر ہے......!!*

النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : " مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ

 بعض نے فرمایا کہ جس کا میں مولا(محبوب)ہوں علی اس کا مولا (محبوب)ہے 

(ترمذی حدیث713)

.

القرآن:

فَاِنَّ اللّٰہَ  ہُوَ مَوۡلٰىہُ  وَ جِبۡرِیۡلُ وَ صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ

 بے شک اللہ تعالی مولا ہے اور جبرائیل مولا ہے اور نیک مومنین مولا ہیں

(سورہ تحریم آیت4)

.

واختلف الناس في صالِحُ الْمُؤْمِنِينَ، فقال الطبري وغيره من العلماء: ذلك على العموم، ويدخل في ذلك كل صالح، وقال الضحاك وابن جبير وعكرمة: المراد أبو بكر وعمر. ورواه ابن مسعود عن النبي صلى الله عليه وسلم، وقال مجاهد نحوه، وقال أيضا: وعلي، وروى علي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: صالِحُ الْمُؤْمِنِينَ، علي بن أبي طالب

یعنی

 نیک مومنین مولا ہیں اس سے کون مراد ہے بعض علماء نے فرمایا کہ اس میں تمام نیک مومنین شامل ہیں سارے مولا ہیں اور بعض نے فرمایا کہ اس سے مراد سیدنا ابوبکر اور عمر مولا ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ سیدنا علی مولا ہیں

(تفسير ابن عطية = المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز5/332)

 لہذا سارے صحابہ کرام کو مولا کہہ سکتے ہیں سیدنا ابوبکر اور عمر کو مولا کہہ سکتے ہیں سیدنا علی کو مولا کہہ سکتے ہیں، نیک مومنین کو مولا کہہ سکتے ہیں

.

نوٹ:

قرآن و حدیث مولا کا معنی محبوب و مددگار ہے...خلیفہ معنی مراد نہیں

 اگر مولا کا معنی خلافت لیا جائے تو حدیث کا مطلب ہوگا کہ رسول کریم نے فرمایا کہ جس کا میں خلیفہ ہوں، علی اس کا خلیفہ.... یہ تو معنی صحیح بنتا ہی نہیں ہے

.

18ذوالحج کو شیعہ لوگ عید غدیر مناتے ہیں کہتے ہیں کہ اس روز حجۃ الوداع سے واپسی پر "غدیر خم" مقام پے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا " میں جس کا مولا علی اسکا مولی......حضور اکرم کے اس فرمان سے شیعہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رسول کریم نے حضرت علی کو اس قول کےذریعے  اپنا خلیفہ بلافصل بنایا

.

جواب.و.تحقیق:

عجیب بات ہے کہ حجۃ الوداع جو اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ کسی کو نہ بنایا اور واپسی پر تھوڑی تعداد کے سامنے غدیرخم پر خلیفہ کا اعلان کر دیا......؟؟

.

اگر خلافت کا اعلان رسول کریمﷺنےکرنا ہوتا تو اسکا صحیح و بہترین موقعہ حجۃ الوداع تھا........غدیرخم مقام پے تو رسول کریمﷺنے ایک تنازع کا حل فرمایا اور فرمایا کہ علی سے ناگواری مت رکھو، اس سے محبت کرو، جسکو میں محبوب ہوں وہ علی سے محبت رکھے

.

دراصل ہوا یہ تھا کہ مال غنیمت حضرت علی نے تقسیم کی تھی ، تقسیم پر کچھ صحابہ کرام کو ناگوار گذرا انہوں نے غدیرخم مقام پر رسول کریمﷺسے حضرت علی کی شکایت کی....رسول کریمﷺنے پوچھا اے بریدہ کیا تم علی سے(اس تقسیم کی وجہ سے)ناگواری محسوس کرتے ہو...؟ حضرت بریدہ نے فرمایا جی ہاں... رسول کریمﷺ نے فرمایا علی سے ناگواری مت رکھ، جتنا حصہ علی نے لیا ہےحق تو اس سے زیادہ حصہ بنتا ہے....بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بعد میری ناگواری ختم ہوگئ...اس تقسیم وغیرہ کی وجہ سے دیگر صحابہ کرام وغیرہ کو بھی ناگواری گذری ہو تو انکی بھی ناگواری ختم ہو اس لیے رسول کریمﷺنے اعلان فرمایا:

میں جسکا مولا علی اسکا مولا.... یعنی میں جسکو محبوب ہوں وہ علی سے بھی محبت رکھے،ناگواری ختم کردے

(دیکھیے بخاری حدیث4350,,المستدرك حدیث4578

مسند احمد23036...,22967...22945)

مرقاۃ شرح مشکاۃ11/247 البيهقي في الكبرى 6/342...7/309) الصواعق المحرقة 1/109 الاعتقاد للبيهقي ص 498 البداية والنهاية 5/227...البداية والنهاية ط هجر ,11/58)


.

شیعہ کتب سے بھی یہی پس منظر ثابت ہے

وخرج بريدة الأسلمي فبعثه علي عليه السلام في بعض السبي، فشكاه بريدة إلى رسول الله صلى الله عليه وآله فقال رسول الله صلى الله عليه وآله: من كنت مولاه فعلي مولاه

یعنی

بریدہ اسلمی نے رسول کریمﷺسے حضرت علی کی مال غنیمت کی تقسم کی شکایت تو رسول کریمﷺنے فرمایا میں جسکا مولا و محبوب ہوں علی بھی اس کے مولا و محبوب ہیں)لیھذا ناگواری نہ رکھو، ختم کرو)

(شیعہ کتاب بحار الانوار37/190)

.##################

*احادیث مبارکہ کے مطابق سیدنا علی کے ساتھ ساتھ اور بھی کئ معیار ہیں تو سب کا تزکرہ کرنا چاہیے کہ فلاں کی محبت ایمان کی نشانی ہے اور فلاں سے بغض منافقت کی نشانی ہے*

.

مثلا:

أَنَّهُ لَا يُحِبُّكَ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضُكَ إِلَّا مُنَافِقٌ

 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے محبت مومن ہی کرے گا اور جو تجھ سے بغض رکھے گا وہ منافق ہوگا

(ترمذی حدیث3736)

.

مثلا:

الحدیث:

آيَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ

 ایمان کی نشانی انصاری صحابہ سے محبت کرنا ہے اور منافقت کی نشانی انصاری صحابہ سے بغض کرنا ہے

(بخاری حدیث17)

.

مثلا:

 سارے صحابہ کرام و اہلبیت علیھم الرضوان سے محبت ایمان کی نشانی ہے اور ان میں سے کسی سے بھی نفرت و بغض منافقت کی نشانی ہے

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ

 اللہ اللہ میرے اصحاب(صحابہ اہلبیت) کے متعلق اللہ سے ڈرو انہیں تنقید طعن توہین تنقیص کا ہدف نہ بناؤ... جو ان سے محبت کرے گا تو یہ مجھ سے محبت ہے میں اس سے محبت کروں گا اور جو ان سے بغض رکھے گا تو یہ مجھ سے بغض ہے میں اس سے بغض رکھو گا... جس نے انہیں اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ کو اذیت دی

(ترمذی حدیث3862)

جب ان صحابہ کرام کی یہ شان ہے تو سوچئے عظیم الشان اور افضل ترین خاص ساتھی وزیر نائب مشاور  و محبوب سیدنا ابوبکر و عمر سے محبت ایمان کی نشانی کیسے نہ کہلاءے گی اور ان سے بغض منافقت کی نشانی کیسے نہ کہلائے گی......؟؟

سیدنا ابن سیرین نےفرمایا:

مَا أَظُنُّ رَجُلاً يَنْتَقِصُ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ يُحِبُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ:

جو حضرت ابوبکر و عمر(رضی اللہ عنھما) کی توہین و تنقیص کرے میں اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا محب نہیں سمجھتا...(ترمذی روایت نمبر3585)

اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا محب نہ ہو وہ بھلا سچا مسلمان کیسے ہوسکتا ہے منافق تو ضرور کہلائے گا تو سیدنا ابوبکر و عمر کی محبت ایمان کی نشانی اور ان سے بغض منافقت کی نشانی ضرور ہے......!!

.

مثلا:

 بلکہ سچے اچھے علماء امراء کی محبت ایمان کی نشانی کہلائے گی اور ان سے بغض اور نافرمانی منافقت کہلائے گی کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی محبت مجھ سے محبت ہے ان سے نفرت مجھ سے نفرت ہے ان کی اطاعت میری اطاعت ہے ان کی نافرمانی میری نافرمانی ہے

الحدیث:

وَمَنْ أَطَاعَ أَمِيرِي فَقَدْ أَطَاعَنِي، وَمَنْ عَصَى أَمِيرِي فَقَدْ عَصَانِي "

 رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے میرے امیر یعنی میرے قاضی حاکم گورنر وغیرہ ذمہ دار کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی

(بخاری حدیث7137)

.

الحدیث:

وَمَنْ أَطَاعَ الْإِمَامَ فَقَدْ أَطَاعَنِي، وَمَنْ عَصَى الْإِمَامَ فَقَدْ عَصَانِي

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے امام(یعنی  قاضی حاکم گورنر وغیرہ ذمہ دار) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی

(ابن ماجہ حدیث2859)

.

مثلا:

الحدیث:

آيَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ

 منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کرے گا جھوٹ بولے گا اور جب وعدہ کرے گا خلاف ورزی کرے گا اور جب امانت کا معاملہ ہو گا تو خیانت کرے گا

(بخاری حدیث33)


.################

*رسول کریم ﷺ نے "منی منہ" کا تاج  فضیلت کس کس کو عطاء فرمایا*

 حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ شان بیان کی جائے کہ رسول کریم نے فرمایا کہ وہ مجھ سے ہیں میں اس سے ہوں تو درج ذیل کی بھی شان بیان کی جائے کہ ان کے متعلق بھی رسول کریم نے ایسا فرمایا ہے تو سب کی شان بیان کی جائے بہتر ہے

الْأَشْعَرِيِّينَ...، فَهُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُمْ "

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اشعری صحابہ کرام وغیرہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں 

(بخاری حدیث2486)

.

نِعْمَ الْحَيُّ الْأَسْدُ، وَالْأَشْعَرُونَ۔۔۔۔۔۔، هُمْ مِنِّي، وَأَنَا مِنْهُمْ

قبیلہ اسد اور اشعری صحابہ کرام وغیرہ کیا ہی اچھے ہیں۔۔۔وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں 

(ترمذی حدیث3847)

 جب ان صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم کے بارے میں ہے کہ رسول کریم نے انہیں فرمایا کہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں تو سوچئے سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر فاروق سیدنا عثمان غنی، سیدنا علی ، رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کہ جن کا سلسلہ نسب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے نسب سے جا کر ملتا ہے اور انکی خصوصیت و خصوصی تعریف بھی ہے تو یہ حضرات بدرجہ اولیٰ حکماً هُمْ مِنِّي، وَأَنَا مِنْهُمْ کے  تاجدار ثابت ہوئے 

.

وَلَمْ يُصَدِّقْهُمْ فِي كَذِبِهِمْ، وَلَمْ يُعِنْهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، فَهُوَ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ،

جو نااہل جھوٹوں کی جھوٹ کی تصدیق نہ کرے اور ان کے ظلم پر مدد نہ کرے ایسا عظیم مجاہد امتی مجھے سے ہے  اور میں اس سے ہوں 

(ترمذي ت بشار ,1/753حدیث614)

 جب ایک غیر صحابی عظیم مجاہد کے متعلق سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں تو سوچئے سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر فاروق سیدنا عثمان غنی، سیدنا علی، رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کہ جن کا سلسلہ نسب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے نسب سے جا کر ملتا ہےاور انکی خصوصیت و تعریف بھی ہے تو یہ حضرات بدرجہ اولیٰ حکماً هُمْ مِنِّي، وَأَنَا مِنْهُمْ کے  تاجدار ثابت ہوئے

.

.أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

 اے علی(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) آپ مجھ سے ہیں اور میں تجھ سے ہوں 

(بخاری حدیث2699)

.#####################

*سیدنا ابوبکر و عمر و علی جنت جہنم تقسیم کریں گے...*

 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق جب یہ بیان کیا جائے کہ آپ جنت جہنم تقسیم کریں گے تو ساتھ میں یہ بھی بیان کیا جائے تو بہتر ہے

👈 سیدی رضا نے تو سیدنا ابو بکر و عمر بلکہ خلفاء اربعہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم کو بھی جنت جہنم تقسیم کرنے والا لکھا ہے

لیجییے سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمۃ کی پوری عبارت پڑہیے اور کلیجہ ٹھنڈا کیجے:

حافظ ابو سعید عبدالملک بن عثمان کتاب شرف النبوۃ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ، حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :اذا کان یوم القیٰمۃ وجمع اللہ الاولین والاٰخرین یؤتی بمنبرین من نور فینصب احدھما عن یمین العرش والاٰخر عن یسارہٖ ویعلوھما شخصان فینادی الذی عن یمین العرش معاشر الخلائق من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی فانا رضوان خازن الجنۃ ان اللہ امرنی ان اسلم مفاتیح الجنۃ الی محمد وان محمدا امرنی ان اسلّمھا الی ابی بکر وعمر لیدخلا محبیھما الجنۃ الا فاشھدوا ثم ینادی الذی عن یسار العرش معشر الخلائق من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی فانا مالک خازن النار ان اللہ امرنی ان اسلم مفاتیح النار الی محمد ومحمد امرنی ان اسلمھا الی ابی بکر وعمرلیدخلا مبغضیھما النار الا فاشھدوا۱؂۔او ردہ ایضاً فی الباب السابع من کتاب الاحادیث الغررفی فضل الشیخین ابی بکرٍوعمر من کتاب الاکتفاء ۔

👈روز قیامت اللہ تعالٰی سب اگلوں پچھلوں کو جمع فرمائے گا دو منبر نور کے لاکر عرش کے داہنے بائیں بچھائے جائیں گے ان پر دو شخص چڑھیں گے ، داہنے والا پکارے گا : اے جماعات مخلوق! جس نے مجھے پہچانا اس نے پہچانا اورجس نے نہ پہچانا تو میں رضوان داروغہ بہشت ہوں مجھے اللہ عزوجل نے حکم دیا کہ جنت کی کنجیاں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سپرد کروں اور محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابوبکر و عمر (رضی اللہ تعالٰی عنہما)کو دوں کہ وہ اپنے دوستوں کو جنت میں داخل کریں۔ سنتے ہو گواہ ہو جاؤ۔ پھر بائیں والا پکارے گا : اے جماعات مخلوق! جس نے مجھے پہچانا اس نے پہچانا اور جس نے نہ پہچانا تو میں مالک داروغہ دوزخ ہوں مجھے اللہ عزوجل نے حکم دیا کہ دوزخ کی کنجیاں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سپرد کروں اور محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابوبکر و عمر (رضی اللہ تعالٰی عنہما)کو دوں کہ وہ اپنے دشمنوں کو جہنم میں داخل کریں ، سنتے ہو گواہ ہو جاؤ ۔ (اس کو بھی کتاب الاکتفاء میں کتاب الاحادیث الغررفی فضل الشیخین ابی بکر وعمر میں باب ہفتم میں بیان کیا۔ ت)(۱؂مناحل الشفاء ومناھل الصفاء بتحقیق شرف المصطفی حدیث ۲۳۸۸دارالبشائر الاسلامیہ بیروت ۵ /۴۱۹و۴۲۰)

یہی معنی ہیں اس حدیث کے کہ ابو بکر شافعی نے غیلانیات میں روایت کی :ینادٰی یوم القیٰمۃ این اصحاب محمدٍ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ،فیؤتیٰ بالخلفاء رضی اللہ تعالٰی عنہم فیقول اللہ لھم ادخلوا من شئتم الجنۃ ودعوا من شئتم اوماھو بمعناہ ذکرہ العلامۃ الشھاب الخفّاجی فی نسیم الریاض ۲؂شرح شفاء الامام القاضی عیاض فی فصل ما اطلع علیہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم من الغیوب ، وقال اوماھو بمعناہ ۔

👈 روز قیامت ندا کی جائے گی کہاں ہیں اصحاب محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ پس خلفاء رضی اللہ تعالٰی عنہم لائے جائیں گے اللہ عزوجل ان سے فرمائے گا تم

👈جسے چاہو جنت میں داخل کرو اور جسے چاہو چھوڑ دو ۔ (علامہ شہاب خفاجی نے نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض میں فصل ''نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو کن کن غیوب پر مطلع کیا گیا''میں اس کا ذکر کیا اورفرمایا یا جو اس کے ہم معنیٰ ہے ۔ (ت)(۲؂نسیم الریاض شرح شفاء القاضی عیاض بحوالہ الغیلانیات فصل ومن ذٰلک ما اطلع علیہ من الغیوب مرکز اہلسنت گجرات الہند ۳ /۱۶۴)حدیث ۷۰:ولہذا سیدنا مولا علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم نے فرمایا :انا قسیم النار

👈میں قسیم دوزخ ہوں

(فتاوی رضویہ 30/431,434)

.

👈 بلکہ تمام صحابہ اہلبیت قسیم جنت و جہنم ٹھہرے

 كُنَّا عِنْدَ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ  فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، مَا تَقُولُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ الَّذِي يُرْوَى أَنَّ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلَامُ، قَالَ: أَنَا قَسِيمُ النَّارِ؟ وَمَا تُنْكِرُ مِنْ ذَا أَلَيْسَ  رَوَيْنَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَامُ: «لَا يُحِبُّكَ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُكَ إِلَّا مُنَافِقٌ

ہم لوگ امام احمد بن حنبل کے پاس تھے تو ایک شخص نے آ کر عرض کی:اے ابو عبد اللہ!

آپ اس حدیث کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو مروی ہے کہ مولا علی نے فرمایا: میں دوزخ بانٹنے والا ہوں۔

امام احمد بن حنبل نے فرمایا:

اس میں انکار والی بات کونسی ہے؟ کیا ہم نے یہ بات روایت نہیں کی کہ رسول اللہ ﷺ نے مولا علی سے فرمایا:

تم سے محبت صرف مومن کرے گا اور بغض صرف منافق رکھے گا۔

(ترتيب الأمالي الخميسية للشجري1/177)

👈اگر سیدنا امام احمد بن حنبل  علیہ الرحمۃ سے اسے ثابت تسلیم کیا جائے تو آپ نے قسیم جنت و قسیم نار کی دلیل حب و بغض کو قرار دیا کہ جو جنتی یا جہنمی ہونے کی وجہ بنے

تو صحابہ کرام و اہلبیت عظام کی محبت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور ان سے بغض حضور اقدسﷺ سے بغض ہے اور یہ محبت جنت دلائے گی اور یہ بغض جہنم دلاءے کا باعث بنے گا

الحدیث..ترجمہ:

جو میرے صحابہ سے محبت رکھے تو یہ مجھ سے محبت ہے اسی وجہ سے میں اس سے محبت رکھتا ہوں،

اور جو میرے صحابہ سے بغض رکھے تو یہ مجھ سے بغض ہے اسی وجہ سے ایسے لوگ مجھے سخت ناپسند ہیں،

اور جس نے میرے صحابہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی،اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جو اللہ کو ایذا دے انقریب اللہ اسکی پکڑ کرے گا(سزا دے گا)(ترمذی حدیث3862)

.

الحدیث..ترجمہ:

میرے اہل بیت سے محبت رکھو میری محبت کی وجہ سے

(ترمذی حدیث3789)

.

الحدیث..ترجمہ:

جس نے حسن اور حسین سے محبت رکھی بے شک اس نے مجھ سے محبت رکھی، جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا

(ابن ماجہ حدیث143)


الحدیث..ترجمہ:

انصار صحابہ سے محبت ایمان کی نشانی ہے، اور ان سے بغض رکھنا منافقت کی نشانی ہے...(بخاری حدیث17)


👈 بلکہ تمام صالحین اولیاء جو شفاعت کریں گے وہ بھی قسیم ٹہرے کہ ولی سے بغض و دشمنی اللہ سے دشمنی ہے اور اللہ سے دشمنی کی جزا جہنم ہے

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله قال: من عادى لي وليا فقد آذنته بالحرب

ترجمہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ جو میرے کسی ولی سے دشمنی کرے گا تو اس کے ساتھ میرا اعلانِ جنگ ہے،

(بخاری حدیث6502)

.

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " إِنَّ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَشْفَعُ لِلْفِئَامِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَشْفَعُ لِلْقَبِيلَةِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَشْفَعُ لِلْعُصْبَةِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَشْفَعُ لِلرَّجُلِ حَتَّى يَدْخُلُوا الْجَنَّةَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کا کوئی شخص کئی جماعت کے لیے شفاعت کرے گا، کوئی ایک قبیلہ کے لیے شفاعت کرے گا، کوئی ایک گروہ کے لیے شفاعت کرے گا، اور کوئی ایک آدمی کے لیے شفاعت کرے گا، یہاں تک کہ سب جنت میں داخل ہوں جائیں گے“۔

(ترمزی حدیث2440)

.##################

*تحقیق کہ خاص صدیقین9ہیں اور صدیق اکبر سیدنا ابوبکر ہیں ، صدیق اصغر سیدنا علی ہیں اور فاروق اعظم سیدنا عمر ہیں سیدنا علی فاروق اصغر یا فاروق ثانی ہیں*

 سیدنا علی یا سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر کی صدیقیت و فاروقیت بیان کی جائے تو ساتھ ساتھ یہ بھی بیان کیا جائے تو بہتر ہے

علامہ خفاجی فرماتے ہیں:

ابی بکر فلانہ الصدیق الاکبر...کذا کرم اللہ وجہہ الکریم فانہ یسمی الصدیق الاصغر

 سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ صدیق اکبر ہیں اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ صدیق اصغر ہیں

(نسیم الریاض1/234)

.

(قالت لعائشة) أي: الصديقة بنت الصديق الأكبر....خرجوا على سيدنا علي الصدِّيق الأصغر رضي الله عنه

 سیدہ عائشہ جو صدیق اکبر ابوبکر صدیق کی بیٹی ہیں اور خوارج جو نکلے صدیق اصغر سیدنا علی کے خلاف

( أصل الزراري شرح صحيح البخاري - مخطوط ص183)

.

 مجدد دین و ملت امام اہلسنت سیدی احمد رضا لکھتے ہیں:

علماء فرماتے ہیں،ابوبکر صدیق صدیق اکبر ہیں اور علی مرتضی صدیق اصغر،صدیق اکبر کا مقام اعلٰی صدیقیت سے بلند وبالا ہے

(فتاوی رضویہ15/681)

.

*ہم اہلسنت مطابق ہر صحابی صدیق ہے بلکہ ہر سچا مومن صدیق ہے مگر خاص صدیق 9 ہیں*


وعن ابن عَبَّاسٍ - رضي اللَّه عنه - قال: الصديقون هم الذين أدركوا الرسل - عليهم السلام - وصدَّقوهم.وعن أبي ذر - رضي اللَّه عنه - قال: الصديقون هم المؤمنون

 صدیقین وہ ہیں کہ جنہوں نے رسولوں کا زمانہ پایا اور ان کی تصدیق کی اور سیدنا ابوذر فرماتے ہیں کہ صدیقین سے مراد مومنین ہیں

(تفسير الماتريدي = تأويلات أهل السنة3/249)

.

يَقُولُ تَعَالَى ذِكْرُهُ: وَالَّذِينَ أَقَرُّوا بِوَحْدَانِيَّةِ اللَّهِ وَإِرْسَالِهِ رُسُلَهُ، فَصَدَّقُوا الرُّسُلَ وَآمَنُوا بِمَا جَاءُوهُمْ بِهِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِمْ، أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ

 اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں یہ فرمایا ہے کہ جس نے اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار کیا اور اس کے رسولوں کے رسول ہونے کا اقرار کیا اور رسولوں کی تصدیق کی اور ایمان لائے تو یہ لوگ صدیقین ہیں

(تفسير الطبري = جامع البيان ط هجر22/412)

.

قال: هم ثمانية: أبو بكر وعلي وزيد وطلحة والزبير وسعد وحمزة وعمر, تاسعهم ألحقه الله تعالى بهم لما عرف من صدق نيته, وقال مجاهد: كل من آمن بالله فهو صديق وتلا الآية

 ایک قول یہ ہے کہ صدیقین 8 ہیں ابوبکر ہیں علی ہیں زید ہیں طلحہ ہیں زبیر ہیں سعد ہیں حمزہ ہیں عمر ہیں.... مجاہد فرماتے ہیں کہ صدیقین سے مراد ہر وہ شخص ہے کہ جو صدق دل سے ایمان لائیں

(الریاض النضرۃ 1/45)

.

.

 عن مجاهد بن جبر -من طريق ليث- قال: كلُّ مؤمن صدِّيق وشهيد. ثم تلا: {والَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ ورُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ والشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ} (١) [٦٤٩٧]. (١٤/ ٢٨٢)

٧٥٦٩٧ - عن مجاهد بن جبر -من طريق ابن أبي نجيح- في قوله: {الصِّدِّيقُونَ والشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ}، قال: بالإيمان على أنفسهم بالله (٢). (ز)٧٥٦٩٨ - قال الضَّحّاك بن مُزاحِم: {أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ} هم ثمانية نفرٍ مِن هذه الأُمّة، سبقوا أهل الأرض في زمانهم إلى الإسلام: أبو بكر، وعلي، وزيد، وعثمان، وطلحة، والزبير، وسعد، وحمزة، وتاسعهم عمر بن الخطاب

 سیدنا مجاہد فرماتے ہیں کہ ہر مومن صدیق ہیں.... امام ضحاک فرماتے ہیں کہ صدیقین اس امت میں یہ ہیں جو زمانے میں اسلام کی طرف سبقت جنہوں نے کی اور وہ یہ ہیں ابو بکر علی زید عثمان طلحہ زبیر سعد حمزہ اور صدیق نمبر 9 عمر بن خطاب ہیں

(موسوعة التفسير المأثور21/558)

( فتح الرحمن في تفسير القرآن6/540نحوہ)

( تفسير البغوي - طيبة8/38نحوہ)

( تفسير الثعلبي 26/73نحوہ)

.###################

*نبی کریمﷺ اور خلفاء و بعض صحابہ کرام کی اعلی شجاعت کی ایک جھلک......*

 ابن علی رضی اللہ تعالی عنہ کی بہادری کے قصے سنائیں لیکن ساتھ ساتھ بہتر ہے کہ درج ذیل بہادری کے قصے بھی سنائے جائیں

رسول کریمﷺ سب سے زیادہ بہادر:

 سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی ایک ایک دن ایک ایک پل بہادری سے بھرا پڑا ہے .. کوئی بدبخت ہی ہوگا کہ جو ان کی بہادری کا انکار کرے.. بہادری سے حق پر ڈٹے رہنے پر آپ کو کیا کیا تکلیفیں مشقتیں اٹھانی پڑی کسی سے مخفی نہیں...آپ حق پر بہادری کے ساتھ قائم دائم رہے... بطور تبرک ایک واقعہ پیش کرتا ہوں

كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، احسن الناس، وكان اجود الناس، وكان اشجع الناس، ولقد فزع اهل المدينة ذات ليلة، فانطلق ناس قبل الصوت، فتلقاهم رسول الله صلى الله عليه وسلم راجعا، وقد سبقهم إلى الصوت وهو على فرس لابي طلحة، عري في عنقه السيف، وهو يقول: لم تراعوا، لم تراعوا، قال: وجدناه بحرا، او إنه لبحر، قال: وكان فرسا يبطا

ترجمہ:

‏‏‏‏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے  زیادہ خوبصورت تھے اور سب سے زیادہ سخی تھے اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ والوں کو خوف ہوا ، جدھر سے آواز آ رہی تھی ادھر لوگ چلے، راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹتے ہوئے ملے (آپ لوگوں سے پہلے تنہا خبر لینے کو تشریف لے گئے تھے) اور سب سے پہلےآپ صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لے گئے تھے آواز کی طرف سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ  عنہ کے گھوڑے پر جو ننگی پیٹھ تھا اور آپ کے گلے میں تلوار تھی اور فرماتے تھے کچھ ڈر نہیں کچھ ڈر نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: یہ گھوڑا تو دریا ہے اور پہلے وہ گھوڑا آہستہ چلتا تھا (یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ وہ تیز ہو گیا)۔

(مسلم روایت6006)

.

*سیدنا صدیق اکبر سب سے بہادر*

أَخْرَجَ البَزَّارُ في مُسْنَدِهِ بِسَنَدٍ صَحِيحٍ عَنْ عَلِيِّ بنِ أَبِي طَالِبٍ -رضي اللَّه عنه- قَالَ: يَا أيُّها النَّاسُ مَنْ أشْجَعُ النَّاسِ؟ فَقَالُوا: أَنْتَ يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، فَقَالَ: أمَا إِنِّي مَا بَارَزَنِي  أَحَدٌ إِلَّا انْتَصَفْتُ مِنْهُ، وَلَكِنْ هُوَ أَبُو بَكْرٍ، إنَّا جَعَلْنَا لِرَسُولِ اللَّهِ -صلى اللَّه عليه وسلم- عَرِيشًا، فَقُلْنَا مَنْ يَكُونُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى اللَّه عليه وسلم- يَهْوِي إِلَيْهِ أَحَدٌ مِنَ المُشْرِكِينَ، فَوَاللَّهِ مَا دَنَا مِنَّا أحَدٌ إِلَّا أَبُو بَكْرٍ شَاهِرًا بِالسَّيْفِ عَلَى رَأْسِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى اللَّه عليه وسلم-، لَا يَهْوِي إِلَيْهِ أحَدٌ إِلَّا أَهْوَى عَلَيْهِ، فَهَذَا أشْجَعُ النَّاسِ

ترجمہ:

مسند بزاز میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے دریافت کیا کہ بتاو سب سے زیادہ بہادر کون ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ سب سے زیادہ بہادر آپ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو ہمیشہ اپنے جوڑ سے لڑتا ہوں۔۔ آپ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ شجاع اور بہادر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ سنو :جنگ بدر میں ہم لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک عریش یعنی جھونپڑا بنایا،ہم لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کون رہے گا ؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان پر کوئی حملہ کردے۔ خدا کی قسم اس کام کیلئے سوائے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کوئی آگے نہیں بڑھا آپ(صدیق اکبر) شمشیر برہنہ ہاتھ میں لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوگئے پھر کسی دشمن کو آپ کے پاس آنے کی جرات نہیں ہوسکی اور اگر کسی نے جرات بھی کی تو آپ اس پر ٹوٹ پڑے۔ اس لئے حضرت ابو بکر صدیق ہی سب سے زیادہ شجاع اور بہادر ہیں

(كتاب اللؤلؤ المكنون في سيرة النبي المأمون2/386)

.

 بہادری کی بحث ہو اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کا تذکرہ نہ کیا جائے یہ انصاف نہیں... آپ کی بہادری کسی اہل انصاف مطالعہ کرنے والے پر ڈھکی چھپی نہیں.... تاریخ اس بات سے بھری پڑی ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایمان لایا تو بہادری کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہو گئے اور مسلمانوں سے فرمایا کہ آپ اعلانیہ نماز پڑھیں طواف کریں تبلیغ کریں

.

بہادری کا تذکرہ ہو اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر نہ چھڑے یہ کیسے ہو سکتا ہے 

ثُمَّ أَخَذَ الرَّايَةَ سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ ؛ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا پھر جھنڈا اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید نے اٹھایا تو اللہ کریم نے فتح عطا فرمائی 

(مسند احمد حدیث1750..بخاری حدیث1246نحوہ.. بخاری حدیث3757)

.

سَمِعْتُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ يَقُولُ : لَقَدِ انْقَطَعَتْ فِي يَدِي يَوْمَ مُؤْتَةَ تِسْعَةُ أَسْيَافٍ،.

راوی فرماتے ہیں میں نے سنا خالد بن ولید فرمارہے تھے جنگ 

مُؤْتَةَ کے موقع پر میں اتنا خوب لڑا کہ 9 تلواریں ٹوٹ گئیں 

(بخاری روایت4265)

.

لَا تُؤْذُوا خَالِدًا، فَإِنَّهُ سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّه

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خالد بن ولید کو اذیت نہ پہنچاو کہ بے شک وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے

(صحيح ابن حبان15/566)

علماء محققین نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے 

الخبر أخرجه الطبرانى من طريق آخر فى الصغير: المعجم الصغير: ١/٢٠٩. وقال الهيثمى: رواه الطبرانى فى الصغير والكبير باختصار، والبزار بنحوه. ورجال الطبرانى ثقات. مجمع الزوائد

(حاشیہ جامع المسانيد والسنن5/48)

.

سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ) أَيْ:  شَجِيعٌ مِنْ شُجْعَانِهِ

 سیدنا خالد بن ولید اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے یعنی اللہ کے بہادروں میں سے ایک عظیم بہادر ہیں

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح9/3790)

.

.

وأبو بكر رضي الله عنه كان أشجع الناس، لم يكن بعد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أشجع منه، هو أشجع من عمر، وعمر أشجع من عثمان، وعلي وطلحة والزبير. وهذا يعرفه من يعرف سيرهم

سب سے زیادہ بہادر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس کے بعد سب سے زیادہ بہادر سیدناابوبکرصدیق ہیں پھر سیدنا عمر سب سے زیادہ بہادر ہیں پھر سیدنا عثمان سیدنا علی سیدنا طلحہٰ سیدنا زبیر بہادر ہیں اس چیز کو ہر شخص جانتا ہے کہ جو ان کی سیرت کا مطالعہ کرتا ہے 

(كتاب أبو بكر الصديق أفضل الصحابة، وأحقهم بالخلافة ص45)

.

* سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی عظیم بہادری*

 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی بہادری کا اس سے اندازہ لگائیے کہ خیبر کے دن جو آپ نے بہادری کے جوہر دکھائے تو صحابہ کرام حیران اور ششدر رہ گئے... کتب تاریخ آپ کی بہادری کے واقعات سے بھری پڑی ہیں

.

* سیدنا ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کی عظیم بہادری*

أَبُو سُفْيَانَ: فَلَمَّا لَقِينَا الْعَدُوَّ بِحُنَيْنٍ اقْتَحَمْتُ عَنْ فَرَسِي وَبِيَدِي السَّيْفُ صَلْتًا، وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي أُرِيدُ الْمَوْتَ دُونَهُ وَهُوَ يَنْظُرُ إِلَيَّ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا أَخُوكَ وَابْنُ عَمِّكَ أَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ فَارْضَ عَنْهُ، قَالَ: «قَدْ فَعَلْتُ، يَغْفِرُ اللَّهُ لَهُ كُلَّ عَدَاوَةٍ عَادَانِيهَا»

سيدنا ابو سفيان رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ غزوہ حنین کے دن میں اپنے گھوڑے سے کود پڑا اور میرے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی اور دشمن کے مقابلے کے لئے میں اس بہادری سے نکلا کہ میں موت کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا تھا... نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے تو سیدنا عباس نے فرمایا یارسول اللہ آپ کا بھائی یہ آپ کے چچا کا بیٹا ابوسفیان دیکھئے تو سہی کس بہادری سے لڑ رہے ہیں آپ ان سے راضی و خوش ہو جائیے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں راضی اور خوش ہو گیا اللہ اس کی پرانی دشمنیوں کو معاف فرما دے

(المستدرك على الصحيحين للحاكم ,3/284)

نبی پاک راضی،اللہ پاک راضی

جل بھن جائےرافضی،نیم رافضی

.


*سیدنا طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کی عظیم بہادری*

رايت يد طلحة شلاء وقى بها النبي صلى الله عليه وسلم يوم احد".

 میں نے طلحہ رضی اللہ عنہ کا وہ ہاتھ دیکھا جو شل ہو چکا تھا۔ اس ہاتھ سے انہوں نے( عظیم بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوءے )غزوہ احد کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی حفاظت کی تھی۔

(بخاری 4063)

.

* سیدنا ابو دجانہ رضی اللہ تعالی عنہ کی عظیم بہادری*

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ سَيْفًا يَوْمَ أُحُدٍ، فَقَالَ : " مَنْ يَأْخُذُ مِنِّي هَذَا ؟ " فَبَسَطُوا أَيْدِيَهُمْ، كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ يَقُولُ : أَنَا أَنَا. قَالَ : " فَمَنْ يَأْخُذُهُ بِحَقِّهِ ؟ " قَالَ : فَأَحْجَمَ الْقَوْمُ ، فَقَالَ سِمَاكُ بْنُ خَرَشَةَ أَبُو دُجَانَةَ : أَنَا آخُذُهُ بِحَقِّهِ. قَالَ : فَأَخَذَهُ، فَفَلَقَ بِهِ هَامَ الْمُشْرِكِينَ.

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تلوار لی احد کے دن اور فرمایا: ”یہ کون لیتا ہے مجھ سے؟“، لوگوں نے ہاتھ پھیلائے، ہر ایک کہتا تھا: میں لوں گا، میں لوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا حق ادا کر کےکون لے گا؟“، یہ سنتے ہی لوگ ہٹے (کیونکہ احد کے دن کافروں کا غلبہ تھا) سماک بن خرشہ ابودجانہ نے کہا: میں اس کا حق ادا کروں  گا اور لوں گا، پھر انہوں نے اس کو لے لیا اور(عظیم جرات و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے)مشرکوں کے سر اس تلوار سے چیر ڈالے

(مسلم حدیث6353)

.

*سیدنا سعد رضی اللہ تعالی عنہ کی عظیم بہادری*

ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفدي احدا غير سعد سمعته يقول: ارم فداك ابي وامي اظنه يوم  احد".

 میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو کسی کے لیے اپنے ماں باپ قربان کرنے کا لفظ کہتے نہیں سنا، سوائے سعد بن ابی وقاص کے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرما رہے تھے۔ تیر  مار، اے سعد! میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں، میرا خیال ہے کہ یہ غزوہ احد کے موقع پر فرمایا

(بخاری حدیث6184)

.

.

كَانَ يُقَالُ: أَشْجَعُ النَّاسِ الزُّبَيْرُ، وَأَبْسَلُهُمْ عَلِيٌّ

کہا جاتا تھا کہ سیدنا زبیر سے بھی زیادہ بہادر سیدنا علی ہیں 

(مكارم الأخلاق لابن أبي الدنيا ص57)

.#####################

سیدنا علی کے ساتھ ساتھ سارے صحابہ کرام و اہلبیت عظام کو صراط مستقیم کہا جائے تو برحق کہ قرآن پاک نے حدیث پاک و صحابہ کرام اہلبیت عظام کی تعریف کی اور قران و حدیث پاک سے صحابہ کرام و اہلبیت کی عدالت ثابت اور انکی اور بالخصوص خلفاء راشدین کی پیروی کا حکم ثابت ہے

.

👈*یہی وجہ ہے کہ آیات و احادیث کے سیاق و سباق سے علماء نے صراط مستقیم کی تفسیر میں لکھا کہ صراط مستقیم سے مراد قرآن ہے ، حدیث ہے ، سنت ہے ، خلفاء راشدین اور عادل برحق علماء کا راستہ صراط مستقیم ہے*

.

بطور نمونہ چند تفاسیر اہلسنت و کتب اہلسنت و اقوال اہلسنت کے حوالے پڑہیے

أَنَّ الَّذِيَ يَدْعُو إِلَيْهِ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الْحَقُّ وَهُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ

👈جس(قران و حدیث سنت دین اسلام)کی طرف سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بلاتے ہین وہ صراط مستقیم ہے

[الآجري ,الشريعة للآجري ,3/1389]


.

والذي هو أولى بتأويل هذه الآية عندي، أعني: (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ) ، أن يكونا معنيًّا به: وَفّقنا للثبات على ما ارتضيتَه ووَفّقتَ له مَنْ أنعمتَ عليه من عبادِك، من قولٍ وعملٍ، وذلك هو الصِّراط المستقيم. لأن من وُفّق لما وفق له من أنعم الله عليه من النبيِّين والصديقين والشهداء، فقد وُفّق للإسلام، وتصديقِ الرسلِ، والتمسكِ بالكتاب، والعملِ بما أمر الله به، والانزجار عمّا زَجره عنه، واتّباع منهج النبيّ صلى الله عليه وسلم، ومنهاج أبي بكر وعمر وعثمان وعلي. وكلِّ عبدٍ لله صالحٍ، وكل ذلك من الصراط المستقيم.

خلاصہ:

👈صراط مستقیم سے مراد اسلام قرآن و سنت سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین اور قیامت تک نیک بندوں کا راستہ صراط مستقیم ہے

[تفسير الطبري = جامع البيان ت شاكر ,1/171]


.

عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ " {اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ} [الفاتحة: 6] قَالَ: «الْإِسْلَامُ» 

👈نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صراط مستقیم اسلام ہے

[أبو نعيم الأصبهاني ,حلية الأولياء وطبقات الأصفياء ,7/265]

.



نبی پاک نے فرمایا کہ جبراءیل نے بتایا کہ قرآن صراط مستقیم ہے

[الفتح الكبير في ضم الزيادة إلى الجامع الصغير ,1/26]

.

3023 - حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ الْعَامِرِيُّ، ثنا عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ أَبُو دَاوُدَ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ} [الفاتحة: 6] قَالَ: «هُوَ كِتَابُ اللَّهِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ "K3023 - على شرط البخاري ومسلم

👈بخاری مسلم کی شرط پر صحیح حدیث ہے کہ صراط مستقیم کتاب اللہ ہے

[المستدرك على الصحيحين للحاكم ,2/284]

.

3024 - أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَةَ الشَّيْبَانِيُّ، بِالْكُوفَةِ، ثنا الْهَيْثَمُ بْنُ خَالِدٍ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: {الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ} [الفاتحة: 6] «هُوَ الْإِسْلَامُ، وَهُوَ أَوْسَعُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ "K3024 - صحيح

👈صحیح روایت ہے کہ صراط مستقیم سے مراد اسلام ہے

[المستدرك على الصحيحين للحاكم ,2/284]

.

3025 - حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حَمْشَاذَ الْعَدْلُ، ثنا الْحَارِثُ بْنُ أَبِي أُسَامَةَ، ثنا أَبُو النَّضْرِ، ثنا حَمْزَةُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى {الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ} [الفاتحة: 6] قَالَ: «هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَاحِبَاهُ» قَالَ: فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لِلْحَسَنِ فَقَالَ: «صَدَقَ وَاللَّهِ وَنَصَحَ وَاللَّهِ هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ "K3025 - صحيح

👈صحیح روایت ہے کہ صراط مستقیم سے مراد رسول کریم صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اور ابو بکر و عمر ہیں، سیدنا حسن فرماتے ہین کہ واللہ بالکل ٹھیک بات ہء

[المستدرك على الصحيحين للحاكم ,2/284]

.

.

12 - حَدَّثَنَا عَلِيٌّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ بْنِ بَشَّارٍ الأَنْبَارِيُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْهَيْثَمِ بْنِ خَالِدٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ بْنِ أَيُّوبَ عَنْ سَهْلِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ الصَّلْتِ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَجُلٌ لِجَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ سَمِعْتُكَ تَقُولُ فِي الْخُطْبَةِ اللَّهُمَّ أَصْلِحْنَا بِمَا أَصْلَحْتَ بِهِ الْخُلَفَاءَ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، فَمَنْ هُمْ؟ فَقَالَ: هُمَا حَبِيبَايِ وَعَمَّاكَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ إِمَامَا الْهُدَى وَشَيْخَا الإِسْلامِ وَالْمُقْتَدَى بِهِمَا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنِ اقْتَدَى بِهِمَا عُصِمَ وَمَنِ اتَّبَعَ آثَارَهُمَا هُدِيَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ وَمَنْ تَمَسَّكَ بِهِمَا فَهُوَ مِنْ حِزْبِ اللَّهِ وَحِزْبُ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.

👈سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر و عمر اور دیگر خلفاء راشدین صراط مستقیم ہیں

[فضائل أبي بكر الصديق للعشاري ,page 32]

.

.

9031 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: " إِنَّ هَذَا الصِّرَاطَ مُحْتَضَرٌ تَحْضُرُهُ الشَّيَاطِينُ يَقُولُونَ: يَا عِبَادَ اللهِ هَذَا الطَّرِيقُ فَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ فَإِنَّ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ كِتَابُ اللهِ "

👈سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کتاب اللہ صراط مستقیم ہے

[الطبراني ,المعجم الكبير للطبراني ,9/212]



.

.

114 - عن عبد الله بن مسعود، قال: "إن الصِّرَاطَ مُحْتَضَرٌ؛ تَحْضُرُهُ الشياطينُ، يِنَادُونَ: يا عبدَ الله: هَلُمَّ هذا الطريق؛ ليصدُّوا عن سبيل الله، فاعتصموا بحبل الله، فإن حبلَ اللهِ هو كتابُ الله".

👈سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کتاب اللہ صراط مستقیم ہے

أخرجه الدارمي في "مسنده" -أو- "سننه" (4/ 2091/ رقم: 3360) وابن نصر المروزي في "السنة" (رقم: 22، 23 - ط. العاصمة) وابن جرير الطبري (7/ 72/ رقم: 7566 - شاكر) والطبراني في "المعجم الكبير" (9/ رقم: 9031) وأبو عبيد الهروي في "فضائل القرآن" (ص 75 - ط. دار ابن كثير) وابن الضريس في "فضائل القرآن" (رقم: 74) والبيهقي في "شعب الإيمان" (2/ 355/ 2025) والآجري في "الشريعة" (1/ 123/ 16 - ط. الوليد سيف النصر) وابن بطة في "الإبانة" (رقم: 135).


.

.

6232 - () عبد الله بن عمر (1) - رضي الله عنه - قال: «نزل جبريل -[464]- عليه السلام على عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم-، فأخبره: أنها ستكونُ فتَن، قال: فما المخرَجُ منها يا جبريل؟ قال: كتابُ الله، فيه نَبَأُ ما قبلَكم، ونبأ ما هو كائن بعدَكم، وفيه الحُكم بينكم، وهو حبلُ الله المتين، وهو النورُ المبين، وهو الصراطُ المستقيم، وهو الشفاء النافع، عِصْمة لمن تمسّك بهِ، ونجاة لمن اتَّبعه، لا يَعْوجُّ

👈سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جبرائیل علیہ السلام حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی کہ

قرآن مجید ہی اللہ کی رسی ہے وہ نور ہے وہ صراط مستقیم ہے وہ شفا ہے 

[جامع الأصول ,8/463]

.


2868 - حَدِيثُ (كم) : الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ هُوَ الإِسْلامُ،

👈حدیث پاک میں ہے کہ صراط مستقیم اسلام ہے

[ابن حجر العسقلاني ,إتحاف المهرة لابن حجر ,3/217]



فَإِنَّ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ الْإِسْلَامُ، وَلَا تَنْحَرِفُوا عَنِ الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِيمِ يَمِينًا، وَلَا شِمَالًا، وَعَلَيْكُمْ

👈صراط مستقیم اسلام ہے

[العكبري، ابن بطة ,الإبانة الكبرى لابن بطة ,1/338]

.

أَتَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ وَهُوَ قَائِمٌ يَقُصُّ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَا الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ؟ -[70]- قَالَ: تَرَكَنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَدْنَاهُ وَطَرَفُهُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَنْ يَمِينِهِ جَوَادٌ، وَعَنْ يَسَارِهِ جَوَادٌ، وَعَلَيْهَا رِجَالٌ

[القرطبي، ابن وضاح ,البدع لابن وضاح ,2/71]

.


115 - عن عاصم الأحول قال: قال لنا أبو العالية: "تعلَّموا الإسلامَ، فإذا تَعَلَّمْتُمُوهُ فلا ترغبوا عنه، وعليكم الصراط المستقيم؛ فإنه الإسلام،

👈سیدنا عاصم فرماتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم حاصل کرو کہ بے شک صراط مستقیم اسلام ہے 

[الداني آل زهوي ,سلسلة الآثار الصحيحة أو الصحيح المسند من أقوال الصحابة والتابعين ,1/126]



وَعَلَيْكُمْ بِالصِّرَاطِ الْمُسْتَقِيمِ؛ فَإِنَّهُ الْإِسْلَامُ

👈تم پر صراط مستقیم لازم ہے اور صراط مستقیم سے مراد اسلام ہے 

[القرطبي، ابن وضاح ,البدع لابن وضاح ,1/69]

.

.

وَالصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَجَابِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: هُوَ الْإِسْلَامُ وَهُوَ قَوْلُ مُقَاتِلٍ. وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: هو القرآن 5/أوَرُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَرْفُوعًا "الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ كِتَابُ اللَّهِ" (2) وَقَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: طَرِيقُ الْجَنَّةِ. وَقَالَ سَهْلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: طَرِيقُ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ. وَقَالَ بَكْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ: طَرِيقُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. [وَقَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ وَالْحَسَنُ: رَسُولِ اللَّهِ وَآلِهِ وَصَاحِبَاهُ] (3) وَأَصْلُهُ فِي اللُّغَةِ الطَّرِيقُ الْوَاضِحُ

👈سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ صراط مستقیم سے مراد اسلام ہے

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ صراط مستقیم سے مراد کتاب اللہ ہے سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ صراط مستقیم سے مراد جنت کا راستہ ہے اور سیدنا سہل بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ صراط مستقیم سے مراد اہل سنت والجماعت کا راستہ ہے

سیدنا حسن فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت اور سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ ہو تعالئ عنہ و کا راستہ صراط مستقیم ہے  

[,تفسير البغوي - طيبة ,1/54]

.

وَأما {الصِّرَاط الْمُسْتَقيم} قَالَ عَليّ، وَابْن مَسْعُود: هُوَ الْإِسْلَام. وَقَالَ جَابر: هُوَ الْقُرْآن وَأَصله فِي اللُّغَة: هُوَ الطَّرِيق الْوَاضِح، وَالْإِسْلَام طَرِيق وَاضح، وَالْقُرْآن طَرِيق وَاضح

👈سیدنا علی اور سیدنا ابن مسعود فرماتے ہیں کہ صراط مستقیم سے مراد اسلام ہے اور سیدنا جابر فرماتے ہیں کہ صراط مستقیم سے مراد قرآن ہے 

[السمعاني، أبو المظفر ,تفسير السمعاني ,1/38]

.

واختلفوا في المراد بالصراط المستقيم , على أربعة أقاويل: أحدها: أنه كتاب الله تعالى , وهو قول علي وعبد الله , ويُرْوَى نحوه عن النبي صلى الله عليه وسلم. والثاني: أنه الإسلام , وهو قول جابر بن عبد الله , ومحمد بن الحنفية. والثالث: أنه الطريق الهادي إلى دين الله تعالى , الذي لا عوج فيه , وهو قول ابن عباس. والرابع: هو رسول الله صلى الله عليه وسلم وأخيار أهل بيته وأصحابه , وهو قول الحسن البصري وأبي العالية الرياحي.

👈حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ صراط مستقیم کتاب اللہ ہے اور یہ سیدنا علی اور سیدنا عبداللہ کا بھی فرمان ہے ایک قول یہ ہے کہ صراط مستقیم سے مراد اسلام ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ اہل بیت کا راستہ  اور صحابہ کرام کا راستہ صراط مستقیم ہے 

[الماوردي ,تفسير الماوردي = النكت والعيون ,1/59]

.


ثُمَّ اخْتَلَفَتْ عِبَارَاتُ الْمُفَسِّرِينَ مِنَ السَّلَفِ وَالْخَلَفِ فِي تَفْسِيرِ الصِّرَاطِ، وَإِنْ كَانَ يَرْجِعُ حَاصِلُهَا إِلَى شَيْءٍ وَاحِدٍ، وَهُوَ الْمُتَابَعَةُ لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ؛ فَرُوِيَ أَنَّهُ كِتَابُ اللَّهِ، قَالَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ، عَنْ حَمْزَةَ الزَّيَّاتِ، عَنْ سَعْدٍ، وَهُوَ أَبُو (3) الْمُخْتَارِ الطَّائِيُّ، عَنِ ابْنِ أَخِي الْحَارِثِ الْأَعْوَرِ، عَنِ الْحَارِثِ الْأَعْوَرِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ كِتَابُ اللَّهِ" (4) . وَكَذَلِكَ رَوَاهُ ابْنُ جَرِيرٍ، مِنْ حَدِيثِ حَمْزَةَ بْنِ حَبِيبٍ الزَّيَّاتِ، وَقَدْ [تَقَدَّمَ فِي فَضَائِلِ الْقُرْآنِ فِيمَا] (5) رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ مِنْ رِوَايَةِ الْحَارِثِ الْأَعْوَرِ، عَنْ عَلِيٍّ مَرْفُوعًا: "وَهُوَ حَبْلُ اللَّهِ الْمَتِينُ، وَهُوَ الذِّكْرُ الْحَكِيمُ، وَهُوَ الصِّرَاطُ المستقيم.......وَقَالَ الثَّوْرِيُّ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ. كِتَابُ اللَّهِ، وَقِيلَ: هُوَ الْإِسْلَامُ. وَقَالَ الضَّحَّاكُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ جِبْرِيلُ لِمُحَمَّدٍ، عَلَيْهِمَا السَّلَامُ: قُلْ: يَا مُحَمَّدُ، اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ. يَقُولُ: اهْدِنَا (2) الطَّرِيقَ الْهَادِيَ، وَهُوَ دِينُ اللَّهِ الَّذِي لَا عِوَجَ فِيهِ.

وَقَالَ مَيْمُونُ بْنُ مِهْرَان، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ: {اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ} قَالَ: ذَاكَ الْإِسْلَامُ. وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّدِّيُّ الْكَبِيرُ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ، وَعَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَنْ نَاسٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ} قَالُوا: هُوَ الْإِسْلَامُ. وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرٍ: {اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ} قَالَ: الْإِسْلَامُ، قَالَ: هُوَ أَوْسَعُ مِمَّا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ. وَقَالَ ابْنُ الْحَنَفِيَّةِ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ} قَالَ هُوَ دِينُ اللَّهِ، الَّذِي لَا يَقْبَلُ مِنَ الْعِبَادِ غَيْرَهُ. وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ: اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ، قَالَ: هُوَ الْإِسْلَامُ.

👈حدیث پاک میں ہے کہ صراط مستقیم سے مراد کتاب اللہ ہے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ صراط مستقیم سے مراد کتاب اللہ ہے

سیدنا ابن عباس اور سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ الصراط المستقیم سے مراد دین اسلام ہے 

[ابن كثير ,تفسير ابن كثير ت سلامة ,1/138]

.

.

قوله: الصراط المستقيم

[الوجه الأول]

32 - حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، عَنْ حَمْزَةَ الزَّيَّاتِ، عَنْ سَعْدٍ الطَّائِيِّ، عَنِ ابْنِ أَخِي الحرث الأَعْوَرِ، عَنِ الْحَارِثِ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ- صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَقُولُ: الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ كِتَابُ اللَّهِ (1) .

وَالْوَجْهُ الثَّانِي:

33 - حَدَّثَنَا أَبِي، ثنا أَبُو صَالِحٍ كَاتِبُ اللَّيْثِ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ نَوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ- صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أَنَّهُ قَال: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلا صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا، وَالصِّرَاطُ الإِسْلامُ (2) .

وَالوجه الثَّالِثُ:

34 - حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ الْبَغْدَادِيُّ، ثنا أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، أنبأ حمزة ابن الْمُغِيرَةِ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ قَالَ: هُوَ النَّبِيُّ- صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَصَاحِبَاهُ مِنْ بَعْدِهِ. قَالَ عَاصِمٌ: فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لِلْحَسَنِ فَقَالَ: صَدَقَ أَبُو الْعَالِيَةِ وَنَصَحَ» .

وَالوجه الرَّابِعُ:

35 - ثنا يَحْيَى بْنُ عَبْدَكَ، ثنا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ ثنا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ قَالَ: الْحَقَّ.36 - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ أَبُو كُرَيْبٍ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الزَّيَّاتُ، ثنا بِشْرُ بْنُ عُمَارَةَ ثنا أَبُو رَوْقٍ عَنِ الضَّحَّاكِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ يَقُولُ: أَلْهِمْنَا دِينَكَ الْحَقَّ، وَهُوَ لَا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ له

👈سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ صراط مستقیم سے مراد کتاب اللہ یعنی قرآن ہے

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ صراط مستقیم سے مراد اسلام ہے سیدنا حسن اور سیدنا ابو العالیہ فرماتے ہیں کہ صراط مستقیم سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالی عنھما کا طریقہ صراط مستقیم ہے 

سید مجاہد فرماتے ہیں کہ صراط مستقیم سے مراد ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ صراط مستقیم سے مراد دین حق اسلام ہے 

[الرازي، ابن أبي حاتم ,تفسير ابن أبي حاتم - محققا ,1/30]

.


اختلفوا فيما يراد به:فقَالَ بَعْضُهُمْ: هو القرآن.

وقَالَ بَعْضُهُمْ: هو الإيمان.

👈صراط المستقیم کی تفسیر میں اختلاف ہے بعض فرماتے ہیں کہ صراط مستقیم سے مراد قرآن ہے بعض فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ایمان ہے

[أبو منصور المَاتُرِيدي ,تفسير الماتريدي = تأويلات أهل السنة ,1/367]

.

.

الصِّرَاط الْمُسْتَقيم} يَعْنِي دين الْإِسْلَام لِأَن كل دين غير الْإِسْلَام فَلَيْسَ بِمُسْتَقِيم الَّذِي لَيْسَ فِيهِ التَّوْحِيد

👈صراط مستقیم سے مراد دین اسلام ہے کیونکہ دین اسلام کے علاوہ کوئی دین سیدھا نہیں ہے 

[السيوطي ,الدر المنثور في التفسير بالمأثور ,1/25]




اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ- 6- يعني دين الإسلام

👈صراط مستقیم سے مراد دین اسلام ہے 

[مقاتل ,تفسير مقاتل بن سليمان ,1/36]

.

وهو سبيل الاسلام

👈صراط مستقیم سے مراد اسلام کا راستہ ہے 

[إبراهيم القطان ,تيسير التفسير للقطان ,1/2]

.

والمراد به طريق الحق، وقيل: هو ملة الإسلام.

👈صراط مستقیم سے مراد حق کا راستہ ہے اور فرمایا گیا ہے کہ یہ ملت اسلام ہے 

[تفسير البيضاوي = أنوار التنزيل وأسرار التأويل ,1/30]

.


والمراد به طريق الحق وهو ملة الإسلام

👈صراط مستقیم سے مراد حق کا راستہ یعنی دین اسلام ہے 

[النسفي، أبو البركات ,تفسير النسفي = مدارك التنزيل وحقائق التأويل ,1/32]

.

اهدنا الصِّرَاط الْمُسْتَقيم} أرشدنا للدّين الْقَائِم الَّذِي ترضاه وَهُوَ الْإِسْلَام

👈صراط مستقیم سے مراد دین اسلام ہے 

[تنوير المقباس من تفسير ابن عباس ,page 2]

.

.

هو دين الإسلام، وقيل هو القرآن وروى ذلك مرفوعا. وقيل السنّة والجماعة

👈صراط مستقیم سے مراد دین اسلام ہے اور فرمایا گیا ہے کہ صراط مستقیم سے مراد قرآن ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ صراط مستقیم سے مراد اہل سنت والجماعت ہے 

[تفسير الخازن لباب التأويل في معاني التنزيل ,1/20]

.#######################

سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق بیان کیا جائے شان کی جائے کہ وہ قطب تھے تو درج ذیل کے متعلق بھی بیان کیا جائے کہ یہ بھی قطب تھے

*قطب کے بارے میں حق چار یار کی نسبت سے چار حوالہ جات ملاحظہ فرمائیے*

①و فی شرح المواهب اللدنية قال: أول من تقطب بعد النبی الخلفاء الأربعة على ترتيبهم في الخلافة، ثم الحسن هذا ما عليه الجمهور

شرح المواهب اللدنية میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے جو قطب ہیں وہ خلفائے اربعہ ہیں اس ترتیب پر جو ان کی خلافت کی ترتیب ہے یعنی سب سے پہلے قطب سیدناابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی قطب ہیں پھر سیدنا حسن(رضی اللہ تعالیی عنھم اجمعین)اور یہ وہ(نظریہ قول) ہے کہ جس پر جمہور(علماء اور صوفیاء)ہیں 

(جلاء القلوب2/265)

.

②وأول من تقطب بعد النبي يَةُ الخلفاء الأربعة على ترتيبهم في الخلافة، ثم الحسن، هذا ما عليه الجمهور

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے جو قطب ہیں وہ خلفائے اربعہ ہیں اس ترتیب پر جو ان کی خلافت کی ترتیب ہے یعنی سب سے پہلے قطب سیدناابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی قطب ہیں پھر سیدنا حسن(رضی اللہ تعالیی عنھم اجمعین)اور یہ وہ(نظریہ قول) ہے کہ جس پر جمہور(علماء اور صوفیاء)ہیں 

(مشتهى الخارف الجاني ص506)

.

③وبعد عصرہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفتہ القطب، متفق علیہ بین اہل الشرع و الحکماء۔۔۔انہ قد یکون متصرفا ظاہرا فقط کالسلاطین و باطنا کالاقطاب و قد یجمع بین الخلافتین  کالخلفاء الراشدین کابی بکر و عمر بن عبدالعزیز

اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ مبارکہ کے بعد جو آپ کا خلیفہ ہوا وہی قطب ہے اس پر تمام اہل شرع(علماء صوفیاء)اور حکماء کا اتفاق ہے کہ خلیفہ کبھی ظاہری تصرف والا ہوتا ہے جیسے کہ عام بادشاہ اور کبھی فقط باطنی تصرف والا ہوتا ہے جیسے کہ قطب اور کبھی خلیفہ ایسا ہوتا ہے کہ جو ظاہری تصرف بھی رکھتا ہے اور باطنی تصرف بھی رکھتا ہے(وہ بادشاہ بھی ہوتا ہے اور قطب بھی ہوتا ہے)جیسے کہ خلفائے راشدین مثلا سیدنا ابو بکر صدیق اور عمر بن عبدالعزیز    

(نسیم الریاض3/30ملتقطا)

.

④قطب.....وھو الغوث ایضا و ھو سید الجماعۃ فی زمانہ۔۔یحوز الخلافۂ الظاہریۃ کما حاز الخلافۃ الباطنیۃ کابی بکر و عمر و عثمان و علی رضوان اللہ تعالیٰ علھیم...و ذہب التونسی من الصوفیۃ الی ان اول من تقطب بعدہ صلی اللہ علیہ وسلم  ابنتہ فاطمۃ و لم ار لہ فی ذالک سلفا

قطب اس کو غوث بھی کہتے ہیں اور وہ اپنے زمانے میں تمام امتیوں کا سردار و افضل ہوتا ہے...خلیفہ کبھی ایسا ہوتا ہے جو ظاہری خلافت بھی پاتا ہے اور باطنی خلافت و قطبیت بھی پاتا ہے جیسے کہ سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمر اور سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اجمعین اور صوفیاء میں سے تونسی اس طرف گئے ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد اول قطب ان کی بیٹی فاطمہ ہے اور ہم اس مسئلہ میں ان کا کوئی ہمنوا و حوالہ نہیں پاتے  

(مجموع رسائل ابن عابدین 2/265ملتقطا)

.##################

 سیدنا علی کے متعلق اگر یہ بیان کیا جائے کہ وہ رسول کریم کی طرف سے ادا کریں گے وصی ہیں تو یہ بات بھی بیان کرنی چاہئے کہ سیدنا ابو بکر صدیق و عمر کے متعلق بھی فرمایا کہ وہ میرے بعد ادا کریں گے وہ وصی ہے

وَلَا يُؤَدِّي عَنِّي إِلَّا أَنَا أَوْ عَلِيٌّ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری طرف سے میں ادا کروں گا یا علی ادا کریں گے(یا سیدنا ابوبکر عمر ادا کریں گے...یہ تینوں وصی رسول اللہ ہیں)

(ترمذی حدیث3719)

.

الحدیث:

أَتَتِ امْرَأَةٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَيْهِ، قَالَتْ : أَرَأَيْتَ إِنْ جِئْتُ وَلَمْ أَجِدْكَ ؟ كَأَنَّهَا تَقُولُ : الْمَوْتَ، قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ

 ایک عورت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی نبی پاک نے فرمایا کہ میرے پاس بعد میں آنا، اس عورت نے کہا کہ اگر میں آپ کو نہ پاؤں گویا کہ وہ یہ کہہ رہی تھی کہ شاید آپ وفات پا چکے ہوں تو؟ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر کے پاس آنا

(بخاری حدیث3659)

.

اقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي : أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ "

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر اور عمر کی پیروی کرنا

(ترمذی حدیث3662)

.##################

*رسول کریمﷺ نے کن کن کو بھائی اور محبوب فرمایا..؟؟*

رسول کریم ﷺ نے

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا دینی بھائی اور صاحب فرمایا:أَخِي وَصَاحِبِي

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ابو بکر میرا (دینی) بھائی اور اور (میرا خاص )ساتھی ہے 

(بخاری حدیث3656)

.

رسول کریمﷺنے سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا دینی بھائی فرمایا:

قال: استاذنت النبي صلى الله عليه وسلم في العمرة، فاذن لي، وقال:" لا تنسنا يا اخي من دعائك"، فقال كلمة ما يسرني ان لي بها الدنيا، قال شعبة: ثم لقيت عاصما بعد بالمدينة فحدثنيه، وقال:" اشركنا يا اخي في دعائك".

عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کرنے کی اجازت طلب کی، جس کی آپ نے مجھے اجازت دے دی اور فرمایا: ”میرے(دینی) بھائی! مجھے اپنی دعاؤں میں نہ بھولنا“، آپ نے( یہ) ایسی بات کہی جس سے مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ اگر ساری دنیا اس کے بدلے مجھے مل جاتی تو اتنی خوشی نہ ہوتی۔ (راوی حدیث) شعبہ کہتے ہیں: پھر میں اس کے بعد عاصم سے مدینہ میں ملا۔ انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی اور اس وقت «لا تنسنا يا أخى من دعائك» کے بجائے «أشركنا يا أخى في دعائك» کے الفاظ کہے ”اے میرے(دینی) بھائی ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں شریک رکھنا

(ابوداود حدیث1498)

.

رسول کریمﷺنے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا دینی بھائی فرمایا:

ابن عمر، قال: آخى رسول الله صلى الله عليه وسلم بين اصحابه فجاء علي تدمع عيناه، فقال: يا رسول الله آخيت بين اصحابك ولم تؤاخ بيني وبين احد، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " انت اخي في الدنيا والآخرة ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب، وفي الباب عن زيد بن ابي اوفى.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے  درمیان باہمی بھائی چارا کرایا تو علی رضی الله عنہ روتے ہوئے آئے اور کہا: اللہ کے رسول! آپ نے اپنے اصحاب کے درمیان بھائی چارا کرایا ہے اور میری بھائی چارگی کسی سے نہیں کرائی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”تم میرے(دینی)بھائی ہو دنیا اور آخرت دونوں میں“۔

(ترمذی حدیث3720)

.

رسول کریمﷺنے سیدنا زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھائی فرمایا

وَقَالَ لِزَيْدٍ : " أَنْتَ أَخُونَا

رسول کریمﷺنے سیدنا زید کےلیے فرمایا تم ہمارے (دینی)بھائی ہو

(بخاری 4251)

.

رسول کریمﷺنےسیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو صراحتا یا تقریرا بھائی فرمایا:...اخوک...اخی لعمری

المستدرك على الصحيحين للحاكم ,3/284)

.

زیادہ محبوب کون........؟؟

عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ عَلَى جَيْشِ ذَاتِ السَّلَاسِلِ، فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ : أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ : " عَائِشَةُ "، فَقُلْتُ : مِنَ الرِّجَالِ، فَقَالَ : " أَبُوهَا

👈  صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ کو مردوں میں سب سے محبوب کون ہے آپ نے فرمایا ابوبکر عرض کی (موجودہ ازواج مطہرات)عورتوں میں سے کون فرمایا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم 

(بخاری حدیث3662)

.

يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ : أَيُّ أَهْلِكَ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ : " فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ ". فَقَالَا : مَا جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ عَنْ أَهْلِكَ. قَالَ : " أَحَبُّ أَهْلِي إِلَيَّ مَنْ قَدْ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ، وَأَنْعَمْتُ عَلَيْهِ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ". قَالَا : ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ : " ثُمَّ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ "

👈  عرض کی کہ آپ کو خاص اہل بیت میں سے کون محبوب ہے فرمایا (موجود اولاد میں سے)زیادہ محبوب فاطمہ پھر(بچوں میں)زیادہ محبوب اسامہ پھر(نوجوانوں میں سے)زیادہ محبوب علی ہیں...رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین

(ترمذی حدیث3819)

.

وَإِنْ كَانَ فِي الظَّاهِرِ يُعَارِضُ حَدِيثَ عَمْرٍو لَكِنْ يُرَجَّحُ حَدِيثَ عَمْرٍو أَنَّهُ مِنْ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَذَا مِنْ تَقْرِيرِهِ وَيُمْكِنُ الْجَمْعُ بِاخْتِلَافِ جِهَةِ الْمَحَبَّةِ فَيَكُونُ فِي حَقِّ أَبِي بَكْرٍ عَلَى عُمُومِهِ بِخِلَافِ عَلِيٍّ

سیدہ عائشہ کا قول کہ سیدہ فاطمہ اور سیدنا علی سب سے زیادہ محبوب ہیں یہ بظاہر حضرت عمرو والی حدیث کے متضاد ہے کہ جس میں ہے کہ سب سے زیادہ محبوب سیدنا  ابوبکر اور سیدہ عائشہ ہیں لیکن یہ تضاد اس طرح ختم ہوگا کہ حضرت عمرو والی بخاری والی روایت کو ترجیح حاصل ہے یا پھر یہ کہا جائے گا کہ محبوب ہونے کی الگ الگ جہتیں ہیں...رضی اللہ تعالیٰ عنھم 

[ابن حجر العسقلاني ,فتح الباري لابن حجر ,7/27]

.

👈 جہتیں اس طرح الگ کہلائیں گی کہ:

نبی پاکﷺنے فرمایا(مردوں)میں سب سے زیادہ محبوب سیدنا ابوبکر ہیں،(نوجوانوں میں سے)سب سے زیادہ محبوب سیدنا علی ہیں،(موجودہ گھر والی) عورتوں میں سے زیادہ محبوب سیدہ عائشہ ہیں،(موجودہ اولاد)میں سے زیادہ محبوب سیدہ فاطمہ ہیں،(چھوٹوں میں سے)زیادہ محبوب سیدنا اسامہ بن زید ہیں رضی اللہ عنھم اجمعین(ماخذ بخاری حدیث3662 ترمذی حدیث3819)

.

👈 لیکن درج ذیل سے بھی رسول کریم کو محبت ہے اور ان سے بھی خصوصی محبت رکھنے وقتا فوقتا موقعہ مناسبت سے اظہار کرنے کا حکم فرمایا:

الحدیث..ترجمہ:

میرے اہل بیت سے محبت رکھو میری محبت کی وجہ سے

(ترمذی حدیث3789)


الحدیث..ترجمہ:

جو میرے صحابہ سے محبت رکھے تو یہ مجھ سے محبت ہے اسی وجہ سے میں اس سے محبت رکھتا ہوں

(ترمذی حدیث3862)

.

سیدنا ابن سیرین نےفرمایا:

مَا أَظُنُّ رَجُلاً يَنْتَقِصُ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ يُحِبُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ:

جو حضرت ابوبکر و عمر(رضی اللہ عنھما) کی توہین و تنقیص کرے میں اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا محب نہیں سمجھتا...(ترمذی روایت نمبر3585)

اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا محب نہ ہو وہ بھلا سچا مسلمان کیسے ہوسکتا ہے.......؟؟

.

👈 جائز پاکریزہ محبت کیجیے اور اس کا اظہار بھی کیجیے:

الحدیث...ترجمہ:

جب تم اپنے مسلمان بھائی سے(پاکیزہ اسلامی خصوصی)محبت کرو تو اسکا اس سےاظہار بھی کرو

(ابوداود حدیث5124)

.

👈 اسی محبت کا تقاضہ ہے کہ محبوب کے دشمن کو سمجھایا جائے مگر جو ضدی فسادی رہے اس سے نفرت کی جائے اس سے نفرت پھیلائی جائے اسکی مذمت کی جائے اسکا بائیکاٹ کیا جائے، اس کی کسی بھی طرح کی جانی مالی مدد کی و پذیرائی نہ کی جائے اور اچھوں کی مختلف قسم ک مدد کی جائے انکی پزیرائی کی جائے

الحدیث:

مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ، وَأَبْغَضَ لِلَّهِ، وَأَعْطَى لِلَّهِ، وَمَنَعَ لِلَّهِ ؛ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ

جو اللہ(اسلام کے حکم)کی وجہ سے محبت کرے اور(سمجھانے کے ساتھ ساتھ) اللہ(اسلام کے حکم)کی وجہ سے(مستحق برے ضدی فسادی سے)بغض و نفرت رکھے اور (مستحق و اچھوں) کی امداد و مدد کرے اور (نااہل و بروں) کی امداد و تعاون نہ کرے تو یہ تکمیل ایمان میں سے ہے 

(ابوداود حدیث4681)

.

👈 محبت کی ایک دلیل و نشانی یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام نے ایک دوسرے کے ناموں پے نام رکھے اور ایک دوسرے سے رشتے داریاں کیں:

سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد کے نام ملاحظہ کیجیے:

ذكر أولاد أمير المؤمنين عليه السلام وعددهم وأسمائهم ومختصر من أخبارهم فأولاد أمير المؤمنين صلوات الله عليه سبعة وعشرون ولدا ذكرا وأنثى:  الحسن والحسين وزينب الكبرى وزينب الصغرى المكناة أم كلثوم، أمهم فاطمة البتول سيدة نساء العالمين بنت سيد المرسلين محمد خاتم النبيين صلى الله عليه وآله.

ومحمد المكنى أبا القاسم، أمه خولة بنت جعفر بن قيس الحنفية.و👈 عمر ورقية كانا توأمين، وأمهما أم حبيب بنت ربيعة.والعباس وجعفر و 👈عثمان و عبد الله الشهداء مع أخيهم الحسين ابن علي صلوات الله عليه وعليهم بطف كربلاء، أمهم أم البنين بنت حزام بن خالد بن دارم.

ومحمد الأصغر المكنى 👈  أبا بكر وعبيد الله الشهيدان مع أخيهما الحسين عليه السلام بالطف، أمهما ليلى بنت مسعود الدارمية.ويحيى أمه أسماء بنت عميس الخثعمية رضي الله عنها.وأم الحسن ورملة، أمهما أم سعيد بنت عروة بن مسعود الثقفي.ونفيسة وزينب الصغرى ورقية الصغرى وأم هاني وأم الكرام وجمانة المكناة أم جعفر وأمامة وأم سلمة وميمونة وخديجة وفاطمة، رحمة الله عليهن لأمهات شتى

(شیعہ کتاب الإرشاد - الشيخ المفيد1/355)

.

فصل في ذكر أولاده عليه وعليهم السلام أولاد أمير المؤمنين علي بن أبي طالب (عليه السلام) سبعة [ثمانية] وعشرون ولدا (11) ما بين ذكور وإناث، وهم: الحسن والحسين وزينب الكبرى (2) وزينب الصغرى المكناة أم كلثوم (3) وأمهم فاطمة البتول سيدة نساء العالمين (44). ومحمد المكنى بأبي القاسم، أمه خولة بنت جعفر بن قيس الحنفية (1).👈 وعمر ورقية كانا توأمين، وأمهما أم حبيب بنت ربيعة (2).

 والعباس وجعفر و👈 عثمان وعبد الله الشهداء مع  أخيهم 

.لحسين (عليه السلام) بطف كربلاء، أمهم أم البنين بنت حزام بن خالد بن دارم (1). ومحمد صغر المكنى 👈 أبا بكر وعبد الله الشهيدان أيضا مع أخيهما الحسين بكربلاء، أمهما ليلى بنت مسعود الدارمية (1). ويحيى وعون، أمهما أسماء بنت عميس الخثعمية (22).الحسن ورملة، أمهما أم مسعود بنت عروة الثقفي (1). ونفيسة وزينب الصغرى ورقية الصغرى وأم هانئ وأم الكرام وجمانة المكناة بأم جعفر وأمامة وأم سلمة وميمونة وخديجة وفاطمة كلهن لأمهات شتى

(الفصول المهمة في معرفة الأئمة641. 1/645)

.

في ذكر أولاد أمير المؤمنين عليه السلام وعددهم وأسمائهم وهم سبعة وعشرون ولدا ذكرا وأنثى: الحسن، والحسين عليهما السلام، وزينب الكبرى، وزينب الصغرى المكناة بأم كلثوم أمهم فاطمة البتول عليها السلام سيدة نساء العالمين بنت سيد المرسلين صلوات الله عليه وعليهما.ومحمد الأكبر المكنى بأبي القاسم، أمه خولة بنت جعفر بن قيس الحنفية.

والعباس، وجعفر، و👈عثمان، وعبد الله الشهداء مع أخيهم الحسين عليه السلام بكربلاء - رضي الله عنهم - أمهم أم البنين بنت حزام بن خالد بن دارم، وكان العباس يكنى أبا قربة لحمله الماء لأخيه الحسين عليه السلام ويقال له: السقاء، وقتل وله أربع وثلاثون سنة، وله فضائل، وقتل عبد الله وله خمس وعشرون سنة، وقتل جعفر بن علي وله تسع عشرة سنة.

وعمر، ورقية أمهما أم حبيب بنت ربيعة وكانا توأمين ومحمد الأصغر المكنى ب 👈 أبي بكر، وعبيد الله الشهيدان مع أخيهما الحسين عليه السلام بطف كربلاء وأمهما ليلى بنت مسعود الدارمية.ويحيى، أمه أسماء بنت عميس الخثعمية وتوفي صغيرا قبل أبيه.وأم الحسن ورملة أمهما أم سعيد بنت عروة بن مسعود الثقفي.ونفيسة وهي أم كلثوم الصغرى، وزينب الصغرى، ورقية الصغرى، وأم هاني، وأم الكرام، وجمانة المكناة بأم جعفر، وامامة، وأم سلمة، وميمونة، وخديجة، وفاطمة لأمهات أولاد شتى.(شیعہ کتاب إعلام الورى بأعلام الهدى - الشيخ الطبرسي,396 1/395)

.

👈 وہ رافضی نیم رافضی سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ و دیگر اہلبیت کے محب کیسے ہوسکتے ہیں ،اہلِ حق کیسے ہوسکتے ہیں جو سیدنا صدیق اکبر ، سیدنا عمر ، سیدنا عثمان ، سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین

کے نام پر نام کبھی بھی نہ رکھیں اور انکا نام لینا تک گوارہ نہ کریں....؟؟ کتنا بغض بھرا ہوگا ایسوں کے سینے میں........؟؟

جبکہ

①سیدنا علی نے سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنھم کے نام پر اپنے بیٹوں کے نام رکھے جیسا کہ اوپر شیعہ کتب کے حوالے سے  ہم نے👈 کے نشان سے واضح کیے ہیں

.

②سیدنا امام موسی کاظم نے اپنی بیٹی کا نام عائشہ رکھا..(ثبوت شیعوں کی معتمد کتاب:الفصول المھمہ فی معرفۃ الائمۃ2/1275)


.

③سیدنا عبداللہ بن جعفر نے اپنے بیٹے کا نام معاویہ رکھا..اور انہی عبداللہ کے بیٹے عبداللہ کی کنیت ابو معاویہ تھی

(ثبوت شیعوں کی معتمد کتاب:مقاتل الطالبییین ص111)

.

👈 اسی طرح صحابہ کرام اور صحابہ کی اولاد و تابعین نے اہلبیت کے ناموں پر نام رکھے اور ناصبیوں کے دل جلائے اور صحابہ اہلبیت کےمابین محبت کا عملی درس دیا.....مثلا

①صحابی سیدنا ابن عمر بن خطاب نے اپنے بیٹے کا نام اہلبیت کے نام پے حمزہ رکھا....(دیکھیے الکامل فی ضعفاء الرجال6/35)

.

②صحابی سیدنا عمر بن خطاب نے اپنی بیٹیوں کا نام اہلبیت کے نام پے فاطمہ و زینب رکھا...(دیکھیے فیضان فاروق اعظم1/92)

.

③صحابی زبیر بن عوام نے اپنے بیٹوں کے نام اہلبیت کے ناموں پے حمزہ و جعفر نام رکھے..(دیکھیےکتاب الطبقات الكبري3/74)

.

④صحابی سیدنا سائب نے اپنے بیٹے کا نام سیدنا حسین کے نام پر حسین رکھا..(دیکھیے تھذیب الکمال6/378)

.

خلفاء ثلاثہ و صحابہ کرام نے سیدنا حمزہ سیدہ فاطمہ و زینب وغیرہ نام رکھے کیونکہ یہ وفات پا چکے تھے...سیدنا علی حسن حسین نام نہ رکھے کیونکہ یہ حیات تھے...البتہ انکی وفات کے بعد ان کے نام پے نام رکھے گئے رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین

.

👈 نام اور رشتے داریوں پے کئ کتب لکھی جاچکی ہے کچھ کے نام درج زیل ہیں ان کتب کا مطالعہ کریں

1.کتب علامہ محمد علی نقشبندی

2.صحابہ  و اہلبیت کرام کے درمیان یگانگت اور محبتیں pdf

.

3.اہل بیت اور صحا بہ کرام کے تعلقات( اسماء اور قرابت داری کی روشنی میں)pdf


.

4.marfat dat com py ja kr risht lik kr search kren...rishty dari py katab aa jai ge

.

5.الأسماء والمصاهرات بين أهل البيت والصحابةpdf

.

ہم نے تو چند حوالے پیش کیے ہین حقیقت میں اس کے علاوہ بھی صحابہ کرام کے بہت نام اہلِ بیت نے اپنائے اور اہلِ بیت کے نام صحابہ کرام نے اپنائے..

.

👈 سوچیے سیدنا علی اور دیگر اہل بیت  و صحابہ کرام ایک دوسرے کے نام دن رات میں کتنی دفعہ لیتے ہونگے........؟؟

کتنی دفعہ جلے ہوئے رافضیوں نیم رافضیوں ناصبیوں کے دل جلاتے ہونگے........؟؟

کتنی دفعہ حق اپنانے،صحابہ کرام و اہلبیت عظام سے محبت کرنے کا عملی درس دیتے ہونگے........؟؟

.

الحدیث:

لَا يَجِدُ أَحَدٌ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ حَتَّى يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلهِ،

ترجمہ:

(جو چاہےکہ)ایمان کی مٹھاس پائےوہ(پاکیزہ)محبت کرے للہیت کےلیے…(بخاری حدیث6041)

مستحق محبت مسلمان بالخصوص انبیاء کرام علیھم السلام صحابہ کرام علیھم الرضوان اہلبیت عظام علیھم الرضوان سے محبت کیجیے اور انکی پیروی کیجیے عمل و عبادات نیکیاں کیجیے وقتا فوقتاموقعہ مناسبت سے محبت کا اظہار بھی کیجیے 

.

👈 اسی محبت کا تقاضہ ہے کہ محبوب کے دشمن کو سمجھایا جائے مگر جو ضدی فسادی رہے اس سے نفرت کی جائے اس سے نفرت پھیلائی جائے اسکی مذمت کی جائے اسکا بائیکاٹ کیا جائے، اس کی کسی بھی طرح کی جانی مالی مدد کی و پذیرائی نہ کی جائے اور اچھوں کی مختلف قسم ک مدد کی جائے انکی پزیرائی کی جائے

الحدیث:

مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ، وَأَبْغَضَ لِلَّهِ، وَأَعْطَى لِلَّهِ، وَمَنَعَ لِلَّهِ ؛ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ

جو اللہ(اسلام کے حکم)کی وجہ سے محبت کرے اور(سمجھانے کے ساتھ ساتھ) اللہ(اسلام کے حکم)کی وجہ سے(مستحق برے ضدی فسادی سے)بغض و نفرت رکھے اور (مستحق و اچھوں) کی امداد و مدد کرے اور (نااہل و بروں) کی امداد و تعاون نہ کرے تو یہ تکمیل ایمان میں سے ہے 

(ابوداود حدیث4681)

.

👈 جسےپاکیزہ محبت نہیں وہ انسانیت سےہی عاری ہے…مطلبی مفادی من موجی عیاش منافق دنیاپرست لالچی  و ملحد بےایمان کیا جانے ایمان و محبت کی مٹھاس………!!

.#####################

ہم مولا علی کے فضائل و خصائص کے منکر نہیں مگر فضائل سیدنا علی کی آڑ میں دیگر صحابہ کرام علیھم الرضوان کی فضیلت و خصوصیات فراموش کرنے والے کی دال میں ضرور کچھ کالا ہے


.

چودہ خاص ستارے... چودہ خاص رفقاء نجباء..؟

.

الحدیث:

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

بے شک ہر نبی کو سات برگزیدہ نگہبان

(ایک روایت مین رفقاء یعنی خاص ساتھی بھی آیا ہے..ایک روایت میں وزراء بھی آیا ہے.. ایک روایت میں نقباء یعنی ضامن ،سردار، اعلی اخلاق و قابلیت کے مالک بھی آیا ہے)

دیے گئے ہیں

اور مجھے چودہ(سات کا ڈبل)دیے گئے ہیں..ہم نے ان(حضرت علی)سے پوچھا وہ چودہ کون ہیں فرمایا

وہ چودہ یہ ہیں

میں(یعنی حضرت علی)میرے دونوں بیٹے(یعنی حضرت حسن حسین)جعفر،حمزہ،ابوبکر،عمر

،مصعب بن عمیر،بلال،سلمان،عمار

،عبد اللہ ابن مسعود،ابوذر

اور

مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین

(ترمذی حدیث نمبر3785)

.

مفتی احمد یار خان نعیمی اس کی شرح میں

 لکھتے ہیں:

معلوم ہوا کہ ان چودہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خاص قسم کا قرب حاصل تھا جو دوسروں کو حاصل نہیں،

دوسرے حضرات کو اور قسم کی خصوصیات حاصل ہیں..اس چمن میں ہر پھول کا رنگ و بو علیحدہ ہے..تمام احادیث پر نظر رکھنی چاہیے..

(مرآت شرح مشکاۃ جلد8 صفحہ500)

.

اب ائیے چند خصائص و صفاتِ صحابہ پڑھتے ہیں جو سیدنا علی کے لیے اس طرح بیان نہ ہوئے جو دیگر صحابہ کرام کے لیے بیان ہوئے...رضی اللہ تعالیٰ عنھم

.

پہلی خصوصیت:

سیدنا ابوبکر اول خطیب اسلام ہیں جبکہ سیدنا علی کو یہ شرف نہ ملا..علامہ شامی فرماتے ہیں،ترجمہ:

امت محمدیہ میں اول خطیب و مبلغ سیدنا ابوبکر ہیں،خطاب و تبلیغ کی پاداش میں آپ کو مارا گیا حتی کہ آپ بےہوش ہوگئے، ہوش میں آتے تو پوچھتے میرےمحبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں مجھے ان کے پاس لے جاؤ

(سبل الھدی2/320)

.

دوسری خصوصیت:

ابو عبیدہ کے لیے سید عالم نے فرمایا

قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينٌ، وَأَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ "

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر امت میں ایک امین(بہت زیادہ مخصوص  امانت دار)ہوتا ہے اور میری امت کا امین ابو عبیدہ ہے  

(بخاری حدیث7255)

جبکہ سیدنا علی کو یہ لقب نہ ملا

.

تیسری خصوصیت:

سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موافقات قرآن ہین جبکہ سیدنا علی کی نہیں

وذكر أن موافقات عمر قد أوصلها بعضهم إلى أكثر من عشرين

سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی موافقات قرآن بہت ہیں بعض علماء نے اس کی تعداد 20سے بھی زیادہ تک  پہنچائی ہے 

( لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح9/605)

.

چوتھی خصوصیت:

سیدنا بلال کے قدموں کی آواز جنت میں

فَإِنِّي سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَيْكَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الْجَنَّةِ

اے بلال میں نے جنت کی سیر کرتے ہوئے اپنے آگے تیرے جوتوں کی آواز سنی ہے  

(بخاری حدیث1149)

.

پانچویں خصوصیت:

سیدنا ابو ہریرہ اور سیدنا  عبداللہ بن عمرو احادیث مبارکہ کے  زیادہ حافظ 

مَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْهُ مِنِّي، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں احادیث مبارکہ زیادہ حافظ ہوں یاد رکھنے والا ہوں بیان کرنے والا ہوں سوائے عبداللہ بن عمرو کے کہ وہ بھی ایسی صفت و خصوصیت کے حامل ہیں

(بخاری113)


خصوصیت6,7,8,9,10,11::

أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ، وَأَشَدُّهُمْ فِي أَمْرِ اللَّهِ عُمَرُ، وَأَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ، وَأَعْلَمُهُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأَفْرَضُهُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَقْرَؤُهُمْ أُبَيٌّ، وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينٌ، وَأَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ 

میری امت میں سب سے زیادہ رحم دل ابو بکر ہیں

میری امت میں سب سے زیادہ شدید عمر ہے 

میری امت میں سب سے زیادہ حیاء والے عثمان ہیں

میری امت میں حلال اور حرام کی سب سے زیادہ علم رکھنے والے معاذ بن جبل ہیں 

میری امت میں سب سے زیادہ  میراث کا علم رکھنے والے زید بن ثابت ہیں 

میری امت میں سب سے زیادہ قاری ابی ہیں اور ہر امت میں ایک آمین(بہت زیادہ مخصوص  امانت دار)ہوتا ہے اور میری امت کا امین ابو عبیدہ ہے

(ترمذی حدیث3790)

.

خصوصیت بارہ:

سیدنا عمر کے متعلق فرمایا کہ شیطان بھی اس سے بھاگتے ہیں لیکن سیدنا علی کے متعلق یہ نہ فرمایا

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنِّي لَأَحْسَبُ الشيطان يفر منك يا عمر

بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر میں سمجھتا ہوں کہ شیطان تم سے بھاگتا ہے 

(صحيح ابن حبان - محققا حدیث6892)


.

خصوصیت تیرہ:

ہدایت عمار سیدنا عمار کی خصوصیت جو سیدنا علی کے متعلق نہیں

واهتدوا بهدي عمار

عمار کی ہدایت کے ساتھ ہدایت حاصل کرو 

( صحيح ابن حبان15/328)

.

خصوصیت چودہ:

ابوبکر و عمر کی خصوصیت کے ساتھ اقتداء کا حکم جبکہ سیدنا علی کے متعلق نہیں..قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي : أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر اور عمر کی پیروی کرنا 

(ترمذی حدیث3662)

(ابن ماجہ حدیث97نحوہ)

.

خصوصیت پندرہ:

سیدنا ابوبکر بحکم نبوی حیات نبوی میں کئ نمازوں کے امام الصحابہ قرار پائے نمازیں پڑھائیں جب یہ شرف سیدنا علی کو نہ ملا...مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےشدید علالت کی حالت میں  ارشاد فرمایا ابوبکر کو میری طرف سے حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں 

(بخاری حدیث664)

.

خصوصیت 16:

لَقَدْ كَانَ فِيمَا قَبْلَكُمْ مِنَ الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ ، فَإِنْ يَكُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ فَإِنَّهُ عُمَرُ

تم سے پہلے کی امتوں میں الہام والے ہوا کرتے تھے میری امت میں اگر ہے تو وہ عمر ہے 

(بخاری حدیث3689)

.

خصوصیت17:

لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ ضرور عمر بن خطاب ہوتے 

(ترمذی حدیث3686)

.

خصوصیت 18:

سیدنا ابوبکر محسن الامۃ  ہیں 

مَا لِأَحَدٍ عِنْدَنَا يَدٌ إِلَّا وَقَدْ كَافَيْنَاهُ مَا خَلَا أَبَا بَكْرٍ، فَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا يَدًا يُكَافِئُهُ اللَّهُ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَ

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مجھ پر جس کسی کا احسان تھا میں نے اس کا بدلہ چُکا دیا ہے، مگر ابوبکر کے مجھ پر وہ احسانات ہیں جن کا بدلہ اللہ پاک اُنہیں روزِ قیامت عطا فرمائے گا

(ترمذی حدیث3661)

.

*سیدنا علی کے فضائل اوپر ضمنا بیان ہوئے اب سیدنا علی کے بعض خصائص و خصوصیات ملاحظہ کیجیے.....!*

عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : أَقْرَؤُنَا أُبَيٌّ، وَأَقْضَانَا عَلِيٌّ

 سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ قراءت کے معاملے میں سب سے بڑھ کر سیدنا ابی ہیں اور ہم سب میں سب سے قضاء کے معاملے میں بڑھ کر سیدنا علی ہیں

(بخاری روایت4481)

 شاید یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین بھی مشکل و اہم مسائل سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مشورہ کیا کرتے تھے اکثر.....!!

.

لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ ". أَوْ قَالَ : " لَيَأْخُذَنَّ غَدًا رَجُلٌ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ". أَوْ قَالَ : " يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيْهِ ". فَإِذَا نَحْنُ بِعَلِيٍّ وَمَا نَرْجُوهُ، فَقَالُوا : هَذَا عَلِيٌّ. فَأَعْطَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کل جھنڈا میں اس کو دوں گا کہ جس سے اللہ تعالی اور اس کے رسول محبت کرتے ہیں یا فرمایا کہ اللہ تعالی اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں(باقیوں سے بھی اللہ و رسول  محبت کرتے ہیں اور باقی بھی اللہ و رسول سے محبت کرتے ہیں) مگر اللہ تعالی اس کے خصوصی شان کی وجہ سے فتح عطا فرمائے گا... پھر رسول کریم نے جناب حضرت علی کو دیا اور اللہ تعالی نے حضرت علی کے ذریعے فتح عطاء فرمائی

(بخاری حدیث2975)

.

دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا، وَفَاطِمَةَ، وَحَسَنًا، وَحُسَيْنًا، فَقَالَ : " اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي

(ترمذی حدیث3724)

 بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کافی ہیں لیکن ان پانچ کو خصوصی طور پر جمع کرنا اور ان کے لیے دعا کرنا ان کی خصوصہ فضیلت کو ظاہر کرتا ہے

.

خَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُخَلِّفُنِي فِي النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ ؟ فَقَالَ : " أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى ؟ غَيْرَ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ

 غزوہ تبوک کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا جانشین سیدنا علی کو بنایا تو سیدنا علی نے عرض کی کہ مجھے آپ عورتوں اور بچوں پر جانشین بنا رہے ہیں تو حضور نے فرمایا کہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم ایسے ہو جیسے سیدنا ہارون کی نسبت موسی علیہ السّلام سے تھی سوائے اس کے کہ نبوت مجھ پر ختم ہو چکی ہے

(بخاری حدیث2404)

.

 اس سے خلیفہ بلافصل ثابت نہیں ہوتا کیونکہ رسول کریم نے غزوہ احد میں سیدنا علی کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام کو بھی اپنا خلیفہ بنایا ہے.... ہاں اتنا ضرور ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نبی کے ساتھ حضرت علی کو تشبیہ دی جو کہ عظیم فضیلت کی دلیل ہے، اور ایسی تشبیہ کسی اور کے لئے ارشاد نہ فرمائی... لیکن اس تشبیہ سے خلیفہ ہونا ثابت نہیں ہوتا... کیوں کہ سیدنا ہارون صرف عارضی طور پر نبی پاک کی زندگی میں ہی خلیفہ ہوئے تھے نبی پاک کی زندگی کے بعد خلیفہ نہیں ہوئے تھے

.

فمثلا عند خروج الرسول صلّى الله عليه وسلم في غزوة الأبواء- ودان- في ربيع الأول (سنة ٢ هـ) استخلف على المدينة سعد بن عبادة وفي غزوة بواط في نفس الشهر استخلف سعد بن معاذ وفي خروجه لمطاردة كرز بن جابر الفهري في نفس الشهر استخلف زيد بن حارثة وفي غزوة ذات العشيرة استخلف أبا سلمة بن عبد الأسد

 مثال کے طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنایا... اور ایک موقع پر سیدنا سعد بن معاذ کو خلیفہ بنایا اور ایک موقع پر سیدنا زید بن حارثہ کو خلیفہ بنایا اور ایک موقع پر سیدنا ابو سلمہ کو خلیفہ بنایا

( السيرة النبوية والتاريخ الإسلامي ض152)

.

بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشًا فِيهِمْ عَلِيٌّ، قَالَتْ : فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ يَقُولُ : " اللَّهُمَّ لَا تُمِتْنِي حَتَّى تُرِيَنِي عَلِيًّا

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور ہاتھ اٹھائے ہوئے دعا فرما رہے تھے یا اللہ عزوجل مجھے اس وقت تک وفات نہ دینا جب تک کہ علی کو نہ دیکھ لو

(ترمذی حدیث3737)

 اوپر گزر چکا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑوں میں سے سب سے زیادہ محبوب سیدناابوبکرصدیق تھے اور ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ محبوب سیدہ خدیجہ تھیں اور موجودہ ازواج مطہرات میں سیدہ عائشہ سب سے زیادہ محبوب تھیں اور نوجوانوں میں سب سے زیادہ محبوب سیدناعلی تھے اور موجودہ اولاد میں سب سے زیادہ محبوب سیدہ فاطمہ تھیں.... سیدہ فاطمہ کے لیے قریش کے بڑے بڑے سرداروں نے بڑے بڑے اشرف نے رشتے بھیجے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے یہ رشتہ سیدنا علی سے کرایا جو کہ سیدنا علی کی خصوصیت ہے

.

أنه صلى الله عليه وسلم قال: (إن الله تعالى أمرني أن أزوج فاطمة من علي) .رواه الطبراني ورجاله ثقات

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کر دوں... اس کو طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں

( كتاب اتحاف السائل بما لفاطمة من المناقب والفضائل ص34)

.

رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ، فَقُلْتُ لَهُ : مَا هَذَا ؟ فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ، فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ

 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت کی ہے کہ میں ان کی طرف سے قربانی کیا کروں تو میں ان کی طرف سے قربانی کیا کروں گا

(ابوداود حدیث2790)

 یہ خصوصی فضیلت اور عنایت ہے سیدنا علی کے لیے کہ آپ نے ان کو وصیت فرمائی... اس کے علاوہ اگر کوئی وصیت ہوتی تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ منظر عام پر لاتے لہذا باطلوں کی طرف سے جو اعتراضات کیے جاتے ہیں کہ دوسری کوئی وصیت تھی وہ سب جھوٹ ہے

.

مولا کریم غلامانِ صحابہ و اہلبیت  میں رکھے اور اٹھائے اور انہی کے زمرے میں ہمارا حشر فرمائے۔

آمین

بحرمۃ النبی الامین و اصحابہ و آلہ الطاہرین

صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم و رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین


✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.