مناظرہ افضل کون کے چودہ دلائل پر میرا تبصرہ

 *#مناظرہ افضل کون قسط دوئم و اول کے دلائل پر میرا تبصرہ........!!*

افسوس:

مناظرہ میں دونوں فریقین نے یہ لکھ کر دیا تھا کہ اہل سنت کے مطابق افضل کون ہے.....؟؟ تو دلیل جب کوئی دیتا کہ فلاں افضل ہے تو اس سے پوچھا جاتا کہ کس اہل سنت عالم نے یا کتنے علماء اہل سنت نے اس کو افضلیت کی دلیل قرار دیا ہے....؟؟ جبکہ افسوس ایسا نہیں کیا جارہا جوکہ مناظرہ کی روح کے منافی ہے، اصول کے منافی ہے....خیر دلائل دونوں طرف سے دییے جا رہے ہیں تو میں دونوں طرف کے دلائل پر تبصرہ کروں گا

.

*#دلیل 1*


سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:

خير الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم أبو بكر، وخير الناس بعد أبي بكر عمر

ترجمہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں سے بہتر.و.افضل ابوبکر ہیں اور ابوبکر کے بعد سب لوگوں سے بہتر.و.افضل عمر ہیں...(ابن ماجہ روایت نمبر106)


.

علی...افْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، وَبَعْدَ أَبِي بَكْرٍ، عُمَرُ

سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ نبی پاک کے بعد تمام امت میں سے سب سے افضل ابوبکر ہیں پھر عمر

(مسند احمد2/201)

.

لقد تواتر عن أمير المؤنين علي رضي الله عنه أنه كان يقول على منبر الكوفة: خير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر ثم عمر روى المحدثون والمؤرخون هذا عنه من أكثر من ثمانين وجها. ورواه البخاري وغيره. وكان علي رضي الله عنه يقول: لا أوتي بأحد يفضلني على أبي بكر وعمر إلا ضربته حد المفتري.

ولهذا كان الشيعة المتقدمون متفقين على تفضيل أبي بكر وعمر. نقل عبد الجبار الهمداني من كتاب: تثبيت النبوة أن أبا القاسم نصر بن الصباح البلخي قال في كتاب النقض على ابن الرواندي: سأل شريك بن عبد الله فقال له: أيهما أفضل: أبو بكر أو علي؟ فقال له: أبو بكر. فقال السائل: تقول هذا وأنت شيعي؟! فقال له: نعم: من لم يقل هذا فليس شيعيا!! والله لقد رقى هذه الأعواد على لقال: إلا أن خير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر ثم عمر، فكيف نرد قوله، وكيف نكذبه؟ والله ما كان كذابا.

 خلاصہ:

یہ بات متواتر سے ثابت ہے کیا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اس امت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ افضل ابو بکر ہیں پھر عمر۔۔۔حضرت علی کی یہ روایت قریبا 80 طرق سے مروی ہے

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے تھے کہ جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دے گا میں اسے بہتان باندھنے والے کی سزا دوں گا۔۔۔حتی کہ متقدمین شیعہ بھی یہ اعتقاد  رکھتے تھے کہ سب سے افضل ابوبکر ہیں پھر عمر

ہمدانی نے کتاب النقض کے حوالے سے لکھا ہے کہ شریک نے  سوال کیا کہ کون افضل ہے ابوبکر یا علی تو جواب دیا ابو بکر....سائل نے کہا کہ تم شیعہ ہو کر یہ بات کرتے ہو۔۔۔؟

آپ نے فرمایا جو حضرت ابوبکر صدیق کی فضیلت نہ دےوہ(اصلی) شیعہ ہی نہیں کیونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کئی بار اس ممبر پر چڑھے اور فرمایا کہ امت میں سب سے افضل ابوبکر صدیق پھر عمر ہیں ہم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی بات کو کیسے جھٹلا سکتے ہیں.....؟؟ 

[العواصم من القواصم ط دار الجيل ,page 274]

.

سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے دوٹوک فرما دیا کہ

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.

*#تفضیلی کا جواب......!!*

یسین تفضیلی نے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ عاجزی بڑے پن کے طور پر کہا ہے ورنہ اپ   سیدنا علی ہی افضل ہیں

.

*#تبصرہ حصیر......!!*

 عاجزی کے طور پر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اتنا تو فرما سکتے تھے کہ میں افضل نہیں ہوں مجھے افضل نہ کہو چلیں اتنی بات تک تو ممکن ہے عاجزی کے طور پر فرمائی ہو لیکن بات یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اپ نے فرمایا کہ جو مجھے فضیلت دے گا اسے میں بہتان باندھنے والے جھوٹ بولنے والے کی سزا حد مفتری کی سزا دوں گا

اور

حد کے طور پر سزا قطعی چیزوں میں دی جاتی ہے کیونکہ حدیث پاک کے مطابق اور فقہ اہلسنت کے مطابق شبہات ظنیات احتمالات کی وجہ سے تو حد ساقط ہو جاتی ہے.... گویا سیدنا علی فرما رہے ہیں کہ یہ میں عاجزی کے طور پر نہیں کہہ رہا بلکہ قطعی طور پر افضل سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما ہیں کہ اگر میری افضلیت کا احتمال بھی ہوتا تو مفتری کی حد نہ لگانا جبکہ میں سیدنا علی اعلان کر رہا ہوں کہ مفتری کی حد لگاؤں گا....تادیبی کاروائی نہ فرمایا بلکہ فرمایا "مفتری کی حد لگاؤں گا"

.

الحدیث:

ادْرَءُوا الْحُدُودَ عَنِ الْمُسْلِمِينَ مَا اسْتَطَعْتُمْ، فَإِنْ كَانَ لَهُ مَخْرَجٌ فَخَلُّوا سَبِيلَهُ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حدود والی سزاؤں میں کوئی شبہ و احتمال و راستہ نکلتا ہو تو حد والی سزا نہ دو

(ترمذی حدیث1424)

.#####################

*#دلیل2*

 تمام اہل سنت کتب سے یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امامت کے لیے سیدنا ابوبکر صدیق کو منتخب فرمایا جب اپ بیمار تھے..... اہل سنت نے دلیل دی کہ یہ افضلیت کی دلیل ہے کہ امام زیادہ علم والا ہوتا ہے افضل ہوتا ہے

.

*#تفضیلی کا جواب......!!*

 یہ افضلیت کی دلیل نہیں کیونکہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف عوف کی امامت میں سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا فرمائی تو کیا سیدنا عبدالرحمن بن عوف رسول کریم سے افضل ہو گئے.....؟؟

.

*#تبصرہ حصیر.......!!*

 سیدنا عبدالرحمن بن عوف والی مسلے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جان بوجھ کر ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھی تھی ان کو جان بوجھ کر امام نہیں بنایا تھا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں تشریف لے گئے تھے اور نماز کا وقت جا رہا تھا تو صحابہ کرام نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف کو امام بنا لیا اور رسول کریم اتنے میں نماز کے درمیان میں اگئے تھے..... یعنی یہ ایک اتفاقی واقعہ ہے ایسا نہیں ہے کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف کے پیچھے رسول کریم نے جان بوجھ کر خود نماز پڑھی ہو اور ان کو خود اگے مقدم کیا ہو جیسے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو رسول کریم نے خود اگے امام بنانے کا حکم دیا تھا

لیھذا

 سیدنا عبدالرحمن بن عوف کی افضلیت ثابت نہیں ہوتی کہ اتفاقی معاملہ تھا جبکہ سیدنا صدیق اکبر کو تو جان بوجھ کر سختی کے ساتھ تاکید کے ساتھ امام بنایا رسول کریم نے اور رسول کریم نے خود ارشاد فرمایا کہ افضل کو اچھے کو امام بناؤ تو خود رسول کریم افضل اور اچھے کو امام کیسے نہیں بنائیں گے....؟؟ لہذا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی افضلیت اس سے ثابت ہو جاتی ہے

.

الحدیث:

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اجْعَلُوا أَئِمَّتَكُمْ خِيَارَكُمْ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنے نماز کے امام وہ بناؤ جو تم میں سے افضل ہوں

(السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية حدیث5133)

.#####################

*#دلیل3*

 تفضیلی نے کہا کہ تم کہہ رہے ہو کہ قران مجید میں ہے کہ تم میں سے افضل وہ ہے جو متقی ہو اور تم متقی سیدنا ابوبکر صدیق کو مان رہے ہو جبکہ مستدرک حاکم کی حدیث پاک میں ہے کہ سیدنا علی متقیوں کے امام ہیں لہذا سیدنا علی افضل ہیں....اہلسنت مناظر نے جواب دیا کہ جو حدیث تم پڑھ رہے ہو وہ ضعیف و موضوع ہے

.

*#تبصرہ حصیر.......!!*

 امام سیوطی جیسے معتدل اور اہل بیت اور صحابہ کرام سے محبت رکھنے والے امام نے بھی اس روایت کو موضوع من گھڑت جھوٹی روایت قرار دیا ہے

(الزيادات على الموضوعات روایت704)

.

مستدرک حاکم کا حوالہ تو دیا لیکن اس کے نیچے ذہبی نے لکھا کہ عمرو بن الحصین وغیرہ غیر معتبر راویوں کی وجہ مردود و من گھڑت موضوع غیر معتبر ہے

.

عمرو بن الحصین

ضعفوه جداً....قال أبو حاتم: ذاهب الحديث. وقال أبو زرعة: واه...وقال الدارقطني: متروك...واهي الحديث..ذاهب الحديث

عمرو بن حصین واہیات شدید ضعیف متروک ذاہب الحدیث راوی ہے

(كتاب الجامع لكتب الضعفاء والمتروكين والكذابين11/380)

.

علماء فرماتے ہیں

.مراتب الضعف الشديد (التي لا يعبر بحديث أصحابها)

ـ متروك، ذاهب الحديث

یعنی

 متروک الحدیث یا ذاہب الحدیث کہا جائے تو یہ شدید ضعیف ہونے کی جرح ہے کہ ایسی شدید ضعیف روایت (فضائل و احکام میں) معتبر نہیں

(خلاصة التأصيل لعلم الجرح والتعديل ص36)

.

مَتْرُوك الحَدِيث یا ذَاهِب الحَدِيث  یا كَذَّاب یا فَهُوَ سَاقِط لَا يكْتب حَدِيثه یا مُتَّهم بِالْكَذِبِ ایا متھم بالْوَضع وغیرہ کی جرح ہوتو ایسی روایت سے (فضائل و احکام) ثابت نہیں کیے جاسکتے اور نہ ہی ایسی روایت بطور شاہد پیش کی جاسکتی ہے اور نہ ایسی روایت معتبر ہے

(الرفع والتكميل ص152...153)

.

##################

*#دلیل4*

تفضیلی کہتا ہے کہ قرآن میں ہے کہ علم والے کی شان ہے اور علم میں زیادہ سیدنا علی ہے اس لیے وہ افضل ہیں...اہلسنت مناظر نے فرمایا کہ علم میں زیادہ سیدنا ابوبکر ہیں لیکن علم افضلیت کی دلیل نہین بلکہ فضیلت ہے

.

*#تبصرہ حصیر.......!!*

پہلی بات:

علم افضلیت کا معیار نہیں....اہل سنت مناظر قبلہ شاہ صاحب کے قدموں پے ہاتھ ان کی بات بالکل درست ہے.... جیسے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نسب کے لحاظ سے سیدنا علی سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سے افضل ہیں لیکن یہ جزوی فضیلت ہے کلی و مطلق طور پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی افضلیت تفضیلی شیعہ بھی نہیں کہتے ...ایک اور مثال لیجیے پڑہیے:

الحدیث:

میری امت میں حلال اور حرام کی سب سے زیادہ علم رکھنے والے معاذ بن جبل ہیں 

میری امت میں سب سے زیادہ  میراث کا علم رکھنے والے زید بن ثابت ہیں 

میری امت میں سب سے زیادہ قاری ابی ہیں اور ہر امت میں ایک آمین(بہت زیادہ مخصوص  امانت دار)ہوتا ہے اور میری امت کا امین ابو عبیدہ ہے

(ترمذی حدیث3790)

.

اب ان احادیث سے یہ فضلیت ثابت ہوتی ہے کہ زیادہ روایت و احادیث یاد کرنے کے معاملے میں زیادہ بیان کرنے کے معاملے میں سیدنا ابوہریرہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو افضلیت رکھتے ہیں تو یہ فضیلت ان حضرات کی جزوی ہے

اور

اسی طرح حلال حرام کے علم میں افضلیت سیدنا معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کی ہے اور میراث کے علم میں افضلیت سیدنا زید رضی اللہ تعالی عنہ کی ہے مگر یہ فضیلت جزوی ہے....اسی طرح علم کے معاملے میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت جزوی ہے

عمومی و کلی طور پر افضل سیدنا ابوبکر ہیں پھر عمر رضی اللہ تعالی عنہما و عنھم اجمعین

.

*#دوسری بات......!!*

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ علم میں زیادہ تھے

دلیل1

 سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امامت کے لیے مقرر فرمایا اور اہل سنت کی متفقہ اصول ہے کہ بلکہ حدیث پاک سے بھی ثابت ہے کہ سب سے جو علم والا زیادہ ہو اس کو جو تقوے میں زیادہ ہو اس کو امام بنایا جائے

لیھذا

 تفضیلی کے مطابق علم میں جو زیادہ ہو افضل ہے تقوی میں جو زیادہ ہو وہ افضل ہے تو دو دلائل یہ ہمارے ہی دلائل ہو گئے کہ سیدنا ابوبکر صدیق افضل ہیں کیونکہ وہ متقی زیادہ تھے اور علم والے زیادہ تھے تبھی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امامت کے لیے مقرر فرمایا جیسے کہ اوپر تو لکھا آئے

.

دلیل2

اقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي : أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ "

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر اور عمر کی پیروی کرنا

(ترمذی حدیث3662)

 علم زیادہ ہوگا تو وہ فیصلے کر سکے گا اور فیصلے کر سکے گا تو اس کی پیروی کی جائے گی تو پیروی کرنے سے ثابت ہو جاتا ہے کہ ان کا علم زیادہ تھا اس لیے تو انکی پیروی کا حکم تھا... لہذا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا علم سب سے زیادہ تھا پھر سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا علم زیادہ تھا

.

دلیل3

 وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ أَعْلَمَنَا.... صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق ہم سب سے زیادہ علم والے تھے

(بخاری تحت حدیث466)

.

تیسری بات:

سیدنا عمر کا علم بھی سیدنا علی سے زیادہ تھا، اکا دکا معاملات میں اگر رجوع بھی ہو جائے تو اس سے مطلق اعلمیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا... حدیث پاک کے تحت علماء نے لکھا ہے کہ کوئی شخص کتنا بھی بڑا علم والا ہو جائے کچھ باتیں اس سے مخفی رہتی ہیں

.

 سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے علم کے بارے میں دو دلیلیں پیش کرونگا

①سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موافقات قرآن ہین جو کہ اپ کی کمال فھم و فراست علم و حکمت پر دلالت کرتی ہیں جبکہ سیدنا علی کی موافقات قرآن منقول نہیں

وذكر أن موافقات عمر قد أوصلها بعضهم إلى أكثر من عشرين

سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی موافقات قرآن بہت ہیں بعض علماء نے اس کی تعداد 20سے بھی زیادہ تک  پہنچائی ہے 

( لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح9/605)

.

②الحدیث:

إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ ".

وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : مَا نَزَلَ بِالنَّاسِ أَمْرٌ قَطُّ، فَقَالُوا فِيهِ، وَقَالَ فِيهِ عُمَرُ - أَوْ قَالَ ابْنُ الْخَطَّابِ فِيهِ. شَكَّ خَارِجَةُ - إِلَّا نَزَلَ فِيهِ الْقُرْآنُ عَلَى نَحْوِ مَا قَالَ عُمَرُ.

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تعالی نے حق کو یعنی علم و حکمت کو عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی زبان پر جاری فرمایا ہے اس کے دل پر جاری فرمایا ہے.... ابن عمر فرماتے ہیں کہ کوئی بھی معاملہ  درپیش ہوتا تو اس میں جو سیدنا عمر کی رائے ہوتی تو قران بھی تقریبا اسی کے موافق نازل ہوتا

(ترمذی حدیث3682)

.

##################

*#دلیل5*

تفضیلی نے کہا کہ نبی کریم نے فرمایا کہ میں اور علی ایک شجرہ سے ہیں ایک درخت سے ہیں.... اور باقی لوگ الگ درخت سے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ رسول کریم کے بعد سیدنا علی افضل ہیں

.

*#تبصرہ حصیر.......!!*

اس قسم کی دلیل چمن زمان نے بھی دی تھی جس پر ہم نے تد لکھا کہ ایسی کوئی حدیث ثابت نہیں....یہ لیجیے چمن کو جواب لکھا تھا .... چمن کی جگہ تفضیلی سمجھ کر جواب سمجھ لیں، ٹائم کم ہے

*چمن زمان صاحب کی تحریر "شجرہ علی" رضی اللہ عنہ و فداہ روحی اور اس میں چمن زمان کی دجالیاں خیانتیں مکاریاں*

👈پہلی بحث:

چمن زمان صاحب لکھتے ہیں:

حضرت جابر بن عبد اللہ سے ابو الزبیر راوی ، فرمایا:

رسول اللہ ﷺ عرفہ میں جلوہ فرما تھے اور مولا علی کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم آپ کے سامنے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

يَا عَلِيُّ ادْنُ مِنِّي ضَعْ خَمْسَكَ فِي خَمْسِي يَا عَلِيُّ خُلِقْتُ أَنَا وَأَنْتَ مِنْ شَجَرَةٍ أَنَا أَصْلُهَا وَأَنْتَ فَرْعُهَا وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ أَغْصَانُهَا مَنْ تَعَلَّقَ بِغُصْنٍ مِنْهَا أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ 

اے علی!

مجھ سے قریب ہو اور اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں رکھ۔ میں اور آپ ایک ہی درخت سے ہیں۔ میں اس کی جڑ ہوں اور آپ اس درخت کا تنا ہو اور حسن وحسین اس کی شاخیں ہیں۔ جس نے اس درخت کی کسی شاخ کو پکڑ لیا ، اللہ تعالی اسے داخلِ جنت فرمائے گا۔

(الفردوس بماثور الخطاب 5/331 ، 332 حدیث 8345 ، تاریخِ دمشق 42/64 ، 66 ، الکامل فی ضعفاء الرجال 6/303 ، العلل المتناہیۃ 1/257 ، حدیث 417 ، مناقبِ علی لابن المغازلی حدیث 133 ، 340 ، جمع الجوامع 3/199 ، الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس 8/107 حدیث 3125)

.

👈 تحقیق و چمن زمان کی خیانتیں مکاریاں:

پہلا حوالہ:

چمن زمان صاحب نے اس روایت کا پہلا حوالہ الفردوس بماثور الخطاب 5/331 ، 332 حدیث 8345 کا دیا ہے، مسند الفردوس کے متعلق علماء فرماتے ہیں:

أن الكتاب لا يسلم من ورود المناكير والموضوعات فيه

مسند الفردوس میں کئ منکر و موضوع من گھڑت جھوٹی روایات ہیں

(زهر الفردوس = الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس1/110)

لیھذا مسند الفردوس کی روایات کی تحقیق کی جائے گی کہ صحیح ضعیف یا جھوٹی موضوع تو نہیں...اور مسند الفرودوس کی مذکورہ روایت کے متعلق علماء نے لکھا ہے کہ من گھڑت موضوع جھوٹی ہے


👈  دوسرا حوالہ اور چمن زمان کی مکاری و خیانت:

چمن زمان صاحب نے دوسرا حوالہ تاریخ دمشق کا دیا ہے مگر تاریخ دمشق میں اس روایت کو لکھنے سے پہلے یا بعد میں کیا حکم لکھا ہے وہ حذف کردیا، یہ خیانت و مکاری ہے کیونکہ تاریخ دمشق کی پوری بات لکھتے تو پکڑے جاتے ہم آپ کے سامنے پوری بات رکھ رہے ہیں، علامہ ابن عساکر مذکورہ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں

 قال ابن عدي ولعثمان بن عبد الله أحاديث موضوعات

(مذکورہ سند میں عثمان بن عبداللہ ہے)ابن عدی فرماتے ہیں کہ عثمان بن عبداللہ من گھڑت موضوع جھوٹی روایت کرتا ہے

(تاريخ دمشق لابن عساكر42/64)

اہل علم جانتے ہیں کہ بلانکیر اس طرح تبصرہ کرکے علامہ ابن عساکر نے تنبیہ فرما دی کہ خبردار مذکورہ روایت جھوٹی ہے،دلیل و مدح تعریف نہیں بن سکتی

.

👈  تیسرا حوالہ اور چمن زمان کی مکاری و خیانت:

چمن زمان صاحب نے تیسرا حوالہ الکامل فی ضعفاء الرجال 6/303 ، کا دیا ہے اور عین دجالی مکاری خیانت کرتے ہوئے مصنف کی اگلی بات نہ بتائی....علامہ ابن عدی نے مذکورہ روایت لکھنے کے بعد اور پہلے کچھ دیگر روایات بھی لکھیں اور سب میں راوی عثمان بن عبداللہ تھا تو آپ نے عثمان بن عبداللہ کی چند روایات لکھنے کے بعد فرمایا:

وهذه الأحاديث، عنِ ابن لَهِيعَة الَّتِي ذَكَرْتُهَا لا يَرْوِيهَا غَيْرُ عُثْمَانَ بْنِ عَبد اللَّهِ هَذَا وَلِعُثْمَانَ غَيْرُ مَا ذَكَرْتُ مِنَ الأَحَادِيثِ أَحَادِيثُ مُوْضَوعَاتٌ

مذکورہ روایات اور دیگر روایات عثمان بن عبداللہ کی موضوع من گھرٹ جھوٹی ہیں(دلیل و فضیلت میں بیان نہیں ہوسکتیں)

(الكامل في ضعفاء الرجال6/304)

.

👈  چوتھا حوالہ اور چمن زمان کی مکاری و خیانت:

چمن زماں صاحب نے چوتھا حوالہ ابن جوزی کی کتاب

العلل المتناہیۃ 1/257 کا دیا ہے

اور

حسب عادت یہاں بھی ڈنڈی مارتے ہوئے آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے گمراہ کرتے ہوئے دھوکہ دینے کی بھر پور کوش کی، مکاری عیاری خیانت کرتے ہوئے علامہ ابن جوزی کی اگلی اصل اہم بات نہ بتائی...علامہ ابن جوزی مذکورہ روایت لکھنے کے بعد تبصرہ فرماتے ہیں کہ:

قَالَ ابن عدي: هذا لا یرویہ غیر عُثْمَانَ وِلَهُ أَحَادِيثُ مَوْضُوعَاتٌ.

قَالَ ابْنُ حَبَّانَ: يَضَعُ الْحَدِيثَ عَلَى الثِّقَاتِ

میں ابن جوزی کہتا ہوں کہ علامہ ابن عدی نے فرمایا کہ مذکورہ روایت میں عثمان بن عبداللہ ہی سے مروی ہیں اور اسکی روایات من گھڑت موضوع جھوٹی ہیں، علامہ ابن حبان فرماتے ہین کہ عثمان بن عبداللہ من گھڑت جھوٹی موضوع روایات کرتا تھا اور اسے ثقہ راویوں کی طرف منسوب کرتا تھا

(العلل المتناهية في الأحاديث الواهية1/258)

.

👈 پانچواں حوالہ:

مناقبِ علی لابن المغازلی حدیث 133 ، 340 ،اسکا حکم بھی کم سے کم  مسند الفردوس جیسا ہے کہ صحیح ضیف اور موضوع من گھڑت جھوٹی روایات سب ہیں لیھزا ان کی تحقیق کی جائے گی پھر بیان کیا جائے گا

.

👈 چھٹا حوالہ اور چمن زمان کی مکاری و خیانت:

چمن زمان ساحب نے چھٹا حوالہ امام سیوطی کی کتاب جمع الجوامع 3/199 ، کا ہے...لیکن علامہ سیوطی نے اس روایت کے متعلق کیا فرمایا وہ چمن زمان نے چھپایا...علامہ سیوطی فرماتے ہیں:

علامہ سیوطی نے مزکورہ روایت لکھی اور فرمایا کہ اس میں راوی عثمان بن عبداللہ ہے اور یہ راوی ابن حبان ابن عدی حاکم کے مطابق من گھڑت موضوع جھوٹی روایات بیان کرتا ہے اور یہ روایت بھی اسی کی من گھڑت موضوع جھوٹی روایات میں سے ہے

(الزيادات على الموضوعات1/264)

.

 ساتواں حوالہ اور چمن زمان کی مکاری و خیانت:

چمن زمان صاحب نے ساتواں حوالہ امام ابن حجر کی کتاب

الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس 8/107 حدیث 3125 کا دیا ہے، علامہ ابن حجر کی تحقیق اس متعلق کیا ہے وہ نہ بتائی....علامہ ابن حجر فرماتے ہیں:

يروي الموضوعات عن الثقات...وبه: يا علي أُدْنُ مني يضع خمسك في خمسي  يا علي خلقت أنا وأنت من شجرة أنا أصلها وأنت فرعها، وَالحسن والحسين أغصانها من تعلق بغصن منها أدخله الله الجنة.

مزکورہ روایت عثمان بن عبداللہ سے راویت ہے اور عثمان بن عبداللہ جھوٹی موضوع من گھڑت روایات کرتا ہے

(لسان الميزان ت أبي غدة5/394)

.

########################

*#دلیل6*

 تفضیلی کہتا ہے کہ رسول کریم نے فرمایا کہ میں اور علی ایک نور تھے پھر جدا جدا پیدا ہوئے... اس سے تفصیلی نے ثابت کیا کہ سید رسول کریم کے بعد سیدنا علی افضل ہیں

.

*#تبصرہ حصیر......!!*

 تفضیلی کے ہم خیال ایک خطیب صاحب نے ایسی حدیث بیان کی تھی اس پر ہم نے تبصرہ لکھا تھا وہ پیش خدمت ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث ثابت نہیں ہے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہے.... بلکہ اگر اس طرح کی مردود روایات کو لیا جائے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم اور سیدنا ابوبکر صدیق بھی ایک نور تھے

.

موصوف خطیب کہہ رہے ہیں کہ مسند امام احمد بن حنبل میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علی اور میں ایک نور تھے

.

*میرا تبصرہ*

 مسند امام احمد بن حنبل میں مذکورہ روایت مجھے نہیں ملی البتہ امام احمد بن حنبل کی طرف منسوب کتاب فضائل صحابہ میں یہ روایت موجود ہے جو کہ درج ذیل ہے

 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ قثنا أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ قثنا الْفُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ قثنا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: سَمِعْتُ حَبِيبِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «كُنَّا أَنَا وَعَلِيٌّ نُورًا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ آدَمَ بِأَرْبَعَةَ عَشَرَ أَلْفَ عَامٍ، فَلَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ قَسَمَ ذَلِكَ النُّورَ جُزْءَيْنِ، فَجُزْءٌ أَنَا، وَجُزْءٌ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلَامُ» .

(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل ,2/662 روایت1130)

.

*خطیب مذکور کی بیان کردہ اس روایت کے متعلق میری پہلی بات.......!!*

 امام ابن حجر اور امام ذہبی نے اس روایت کو دلیل کے ساتھ موضوع من گھڑت جھوٹی باطل قرار دیا:

الحسن بن على بن صالح أبو سعيد العدوي البصري يضع الحديث...وحدث عن الثقات بالبواطيل....، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: كنت أنا وعلى نورا يسبح الله

 امام ذہبی اور امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ حسن بن علی بن صالح من گھڑت جھوٹی حدیثیں گھڑ لیتا تھا اور باطل روایات بیان کرتا تھا اس نے ایک باطل اور من گھڑت جھوٹی روایت  روایت کی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اور علی ایک نور تھے

(ذهبي...ميزان الاعتدال1/506...507)

(ابن حجر...لسان الميزان2/229)

.

خطیب صاحب کی بیان کردہ روایت کا ایک راوی العدوی کے متعلق پڑہیے:

أبي سعيد العدوي الكذاب

 حسن بن علی العدوی کذاب جھوٹا راوی ہے

(سیوطی...الزيادات على الموضوعات2/595)

.

الحسن بن علي العدوي. قال السهمي: سألت الدَّارَقُطْنِيّ، عن الحسن بن علي العدوي، فقال: كتب وسمع، ولكنه وضع أسانيد ومتونًا

 امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ حسن بن علی العدوی نے من گھڑت جھوٹی روایات اور سندیں گھڑ رکھی ہیں

( موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله1/203)

.

الحسن بن علي العدوي هو أبو سعيد العدوي، كذبه غير واحد

 حسن بن علی العدوی کو کئی علماء نے جھوٹا کذاب راوی کہا ہے

( الموسوعة الحديثية15/122)

.

الحَسَن بْن عليّ العدويّ...أحد الكذّابين

 حسن بن علی العدوی جھوٹے کذاب راویوں میں سے ہے

(تاريخ الإسلام - ت بشار7/321)


.

*خطیب مذکور کی بیان کردہ اس روایت کے متعلق میری دوسری بات.....!!*

فضائل الصحابہ امام احمد بن حنبل کی طرف منسوب ہے مگر اس میں ان کے بیٹے کی زیادہ کردہ روایات بھی ہیں اور قطیعی کی زیادہ کردہ روایات بھی ہیں تو گویا یہ کتاب تین مصنفین کا مجموعہ ہے

 قطیعی کی زیادہ  کردہ روایات کی نشانی علماء نے لکھی کہ حدثنا عبداللہ نہ ہوگا...مذکورہ روایت بھی قطیعی کی ہے امام احمد بن حنبل کی نہیں، لیھذا کہنا کہ امام احمد بن حنبل کی روایت ہے غلط فھمی کم علمی یا خیانت و مکاری ہے اور قطیعی من گھڑت موضوع جھوٹی روایات تک لکھ دیتا ہے...

زيادات لأبي بكر: أَحْمد بن جَعْفَر  بن حمدَان قطیعی

 على فَضَائِل الصَّحَابَة للْإِمَام أَحْمد بِرِوَايَة ابْنه عبد الله.

وَهِي كَثِيرَة ومشتملة على أَحَادِيث مَوْضُوعَة

قطیعی نے امام احمد بن حنبل کی کتاب  فضائل صحابہ میں کافی روایات زیادہ کی ہیں اور ان میں سے کافی من گھڑت جھوٹی ہیں 

(زيادات القطيعي على مسند الإمام أحمد دراسة وتخريجا ص118)

.

*خطیب مذکور کی بیان کردہ اس روایت کی مناسبت سے میری تیسری بات......!!*

 اگر موضوع اور من گھڑت اور جھوٹی روایات کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ علی اور رسول کریم ایک ہی نور سے ہیں تو پھر اس قسم کی روایت تو خلفائے راشدین اور سیدنا معاویہ وغیرہ قریش کے متعلق بھی ہے

إِنَّ قُرَيْشًا كَانَتْ نُورًا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ آدَمَ

بِأَلْفَيْ عام، يسبح ذَلِكَ النُّورُ ..... وَلَمْ يَزَلْ ينقلني من أصلاب الكرام إلى الأرحام، حَتَّى أَخْرَجَنِي مِنْ بَيْنِ أَبَوَيَّ

 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک( میرے سمیت) قریش تمام کا تمام اللہ کے ہاں نور تھا اللہ کی تسبیح کرتا تھا سیدنا آدم علیہ الصلاۃ والسلام کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے... پھر میرا نور منتقل ہوتا رہا پاکیزہ پشت سے دوسری پشت تک یہاں تک کہ میرے والدین تک پہنچا اور میں پیدا ہوا

(المطالب العالية محققا لابن حجر17/195)

 تو پھر انصاف کیجیے ناں

 کہیے سیدناابوبکرصدیق اور رسول کریم ایک نور ہیں

 کہیے سیدنا عمر فاروق اور رسول کریم ایک نور ہیں

 کہیے سیدنا عثمان غنی اور رسول کریم ایک نور ہیں

 کہیے سیدنا علی اور رسول کریم ایک نور ہیں

 کہیے سیدنا معاویہ اور رسول کریم ایک نور ہیں

 صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم و رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین

لیکن

حق اور حقیقت یہی ہے کہ مذکورہ قریش والی روایت اور سیدنا علی والی روایت دونوں ہی ثابت نہیں ہیں

.#####################

*#دلیل7*

 تفضیلی نے دلیل دی کہ رسول کریم کا نسب اور سیدنا علی کا نسب ایک ہی ہے تو سید عالم افضل ہیں اس کے بعد سیدنا علی افضل ہیں

.

*#تبصرہ حصیر........!!*

پہلی بات:

نسب فضیلت ہے مگر افضلیت کا معیار نہیں

القرآن:

وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُم

ترجمہ:

میں(اللہ)نے تمہیں شاخیں اور قوم قبیلے نسب اس لیے بنایا تاکہ تم آپس میں پہچان رکھو، بے شک اللہ کے نزدیک عزت(افضلیت) والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار عبادت گذار نیکوکار ہو...(سورہ حجرات آیت13)

.

الحدیث:

ومن بطأ به عمله، لم يسرع به نسبه

جسکو اسکا عمل پیچھے کر دے اسے اسکا نسب آگے نہیں کرتا

(مسلم.حدیث نمبر2699)

.

دوسری بات:

 سیدنا صدیق اکبر سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کا بھی نسب رسول کریم کے نسب سے جا کر ملتا ہے

رسول کریمﷺ اور سیدنا معاویہ اور خلفاء اربعہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم کا شجرہ پڑہیے کہ کس طرح انکا شجرہ شجرہ رسولﷺسے جاکر ملتا ہے

👈 شجرہ رسول کریمﷺ

هو محمد بن عبد الله بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قُصَيّ بن كِلاب بن مُرَّة بن كعب بن لُؤَيّ بن غالب بن فِهر بن مالك بن النضر بن كنانة بن خزيمة بن مُدْرِكَة بن إلياس بن مُضَر بن نِزار بن مَعَدِّ بن عدنان....... الخ

(ماخذ ابن هشام: السيرة النبوية 1/1، وابن قيم الجوزية: زاد المعاد 1/71، والصالحي: سبل الهدى والرشاد 1/239، وابن كثير: السيرة النبوية 1/189)

.

*شجرہ سیدنا ابوبکر صدیق*

أبو بكر الصديق خليفة رسول الله -صلى الله عليه وسلم- اسمه: عبد الله بن أبي قحافة عثمان بن عامر بن عمرو بن كعب بن سعد بن تيم بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب، القرشي، التيمي، يلتقي مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في مرة

[السيوطي ,تاريخ الخلفاء ,page 26]

👈سیدنا مرۃ میں جاکر سیدنا صدیق اکبر کا شجرہ رسول کریم

ﷺ کے شجرے سے جاملتا ہے



*شجرہ سیدنا عمر*

عمر بن الخطاب: بن نفيل بن عبد العزى بن رياح بن قرط بن رزاح بن عدي بن كعب بن لؤي، أمير المؤمنين، أبو حفص، القرشي، العدوي، الفاروق

[السيوطي ,تاريخ الخلفاء ,page 89]

👈 سیدنا کعب میں جاکر سیدنا عمر فاروق کا شجرہ رسول کریم 

ﷺکے شجرے سے جاملتا ہے


*شجرہ سیدنا عثمان*

عثمان بن عفان بن أبي العاص بن أمية بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصي بن كلاب بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب، القرشي، الأموي المكي، ثم المدني أبو عمرو، ويقال: أبو عبد الله، أبو ليلى

[السيوطي ,تاريخ الخلفاء ,page 118]

👈 سیدنا عبد مناف بن قصی میں جاکر سیدنا عثمان کا شجرہ رسول کریمﷺکے شجرے سے جاملتا ہے

.



*شجرہ سیدنا علی*

علي بن أبي طالب رضي الله عنه رضي الله عنه واسم أبي طالب عبد مناف بن عبد المطلب، واسمه شيبة بن هاشم، واسمه عمرو بن عبد مناف، واسمه المغيرة بن قصي، واسم زيد بن كلاب بن بمرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن نضر بن كنانة،

(السيوطي ,تاريخ الخلفاء ,page 130)

👈 سیدنا عبدالمطلب میں جاکر سیدنا علی کا شجرہ رسول کریم 

ﷺکے شجرے سے جاملتا ہے


*شجرہ سیدنا معاویہ*

معاوية بن أبي سفيان صخر بن حرب بن أمية بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصي

[السيوطي ,تاريخ الخلفاء ,page 148]

👈 سیدنا عبد مناف بن قصی میں جاکر سیدنا معاویہ کا شجرہ رسول کریمﷺکے شجرے سے جا ملتا ہے

رضی اللہ تعالیٰ عنھم

.

###################

*#دلیل8*

 تفضیلی نے دلیل دی کہ قران کی رو سے علم جس کا زیادہ ہو وہ افضل ہے اور سیدنا علی کے متعلق سیدنا عمر نے فرمایا کہ اعلم الناس ہیں اور فرمایا کہ اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا

.

*#تبصرہ حصیر....... !!*

پہلی بات:

 سیدنا علی نہ ہوتے تو سیدنا عمر ہلاک ہو جاتے سیدنا عمر کے ایسے الفاظ سیدنا معاذ کے لیے بھی ہے تو کیا سیدنا معاذ رضی اللہ تعالی عنہ سب سے افضل ہو گئے.....؟؟

فَبَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ، فَقَالَ: «عَجَزَتِ النِّسَاءُ أَنْ يَلِدْنَ مِثْلَ مُعَاذٍ، لَوْلَا مُعَاذٌ هَلَكَ عُمَرُ»

 سیدنا عمر نے فرمایا کہ عورتیں عاجز آگئی ہیں کہ معاذ جیسے اولاد پیدا کرے؟ اگر معاذ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو چکا ہوتا…رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین

[استاد بخاری مصنف ابن أبي شيبة ,5/543]

[سنن سعيد بن منصور ,2/94]

.

دوسری بات:

زیادہ علم سیدنا ابوبکر کا ہے جیسے اوپر ثابت کر چکے

.

##############

*#دلیل9*

 تفضیلی نے دلیل دی کہ قرآن میں ہے جو ایمان لائے پھر جنہوں نے ہجرت کی پھر جنہوں نے جہاد کیا وہ افضل ہیں

.

*#تبصرہ حصیر.....!!*

پہلی بات:

 یہ تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے افضل ہونے کی دلیل ہوئی کیونکہ اپ سب سے پہلے ایمان لائے اپ سب سے پہلے ہجرت کی سیدنا علی سے پہلے ہجرت کی اپ نے سیدنا علی سے پہلے جہاد کیا

.

قلت له: فمن معك على هذا؟ قال: " حر وعبد "، قال: " ومعه يومئذ ابو بكر، وبلال ممن آمن به "، فقلت: إني متبعك

عمرو بن عبسہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اب تک آپ پر کون ایمان لایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ایک آزاد ہے اور ایک غلام ہے  ہے اور اس وقت آپ کے ساتھ ابو بکر(جو آزاد تھے) اور بلال(جو غلام تھے)ساتھ تھے(یعنی سب سے پہلے ایمان آزاد مردوں میں سے سیدنا ابوبکر صدیق لائے، غلاموں میں سے سیدنا بلال سب سے پہلے ایمان لائے)

(مسلم تحت الحدیث1930)

(المستدرك للحاکم 3/69نحوہ)

(الابانۃ لابن بطہ روایت94نحوہ)

(معجم الصحابة للبغوي1/263نحوہ)

(مسند أحمد - ط الرسالة32/173نحوہ)

(معرفة الصحابة لأبي نعيم4/1982نحوہ)

(الطبقات الكبرى ط دار صادر 2/215نحوه)

.

*حوالہ1.2.3*

صحابی سیدنا ابن عباس اور صحابی سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنھما کا قول سنیے:

شَيْخٌ لَنَا قَالَ: أَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ , عَنْ عَامِرٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَوْ سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَيُّ النَّاسِ كَانَ أَوَّلَ إِسْلَامًا؟ فَقَالَ: أَمَا سَمِعْتُ قَوْلَ حَسَّانِ بْنِ ثَابِتٍ: «

[البحر البسيط]

إِذَا تَذَكَّرْتَ شَجْوًا مِنْ أَخِي ثِقَةٍ ... فَاذْكُرْ أَخَاكَ أَبَا بَكْرٍ بِمَا فَعَلَا

خَيْرَ الْبَرِيَّةِ أَتْقَاهَا وَأَعْدَلَهَا ... إِلَّا النَّبِيَّ وَأَوْفَاهَا بِمَا حَمَلَا

وَالثَّانِيَ التَّالِيَ الْمَحْمُودَ مَشْهَدُهُ ... وَأَوَّلَ النَّاسِ مِنْهُمْ صَدَّقَ الرُّسُلَا»

خلاصہ:

صحابی سیدنا ابن عباس سے پوچھا گیا سب سےپہلے اسلام کون لایا فرمایا کیا تم نے صحابی سیدنا حسان بن ثابت کا قول نہی سنا...صحابی حضرت حسان بن ثابت نے سیدنا ابوبکر کی تعریف میں اشعار کہے جس میں کہا کہ ابوبکر سب سے پہلے ایمان لائے

(المصنف استاد بخاری روایت36584،

طبرانی کبیر روایت12562

مستدرک حاکم4414)

.

*حوالہ نمبر4.5*

صحابی سیدنا ابو سعید خدری اور خود صحابی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنھم کا قول ملاحظہ کیجیے

خلاصہ:

صحابی سیدنا ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق نے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ سب سے پہلے میں ایمان لایا 

(صحیح ابن حبان روایت6863

اوائل لابن عاصم72)

.

دوسری بات:

 افضلیت کا دوسرا معیار جو اپ نے قائم کیا کہ ہجرت سب سے پہلے کی ہو تو سیدنا علی سے تو پہلے ہجرت سیدنا ابوبکر صدیق نے کی ہے تو بچہ بچہ جانتا ہے

.

تیسری بات:

 اول جہاد بھی سب سے پہلے سیدنا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ہے

امت محمدیہ میں اول خطیب و مبلغ سیدنا ابوبکر ہیں،خطاب و تبلیغ کی پاداش میں لڑائی ہوئی یہ پہلی لڑائی و جہاد تھا آپ کو مارا گیا حتی کہ آپ بےہوش ہوگئے، ہوش میں آتے تو پوچھتے میرےمحبوب محمد کیسے ہیں مجھے ان کے پاس لے جاؤ

سبل الھدی2/320

.

################

*#دلیل10*

 تفضیلی دلیل دیتا ہے کہ قران مجید میں ہے کہ جو جس نے قتال کیا اور خرچ کیا وہ سب سے افضل ہے اور سیدنا علی سب سے زیادہ جہاد کرنے والے تھے تو وہ سب سے افضل ہوئے

.

*#تبصرہ حصیر.....!!*

پہلی بات:

اول جہاد بھی سب سے پہلے سیدنا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ہے

امت محمدیہ میں اول خطیب و مبلغ سیدنا ابوبکر ہیں،خطاب و تبلیغ کی پاداش میں لڑائی ہوئی یہ پہلی لڑائی و جہاد تھا آپ کو مارا گیا حتی کہ آپ بےہوش ہوگئے، ہوش میں آتے تو پوچھتے میرےمحبوب محمد کیسے ہیں مجھے ان کے پاس لے جاؤ

سبل الھدی2/320

.

دوسری بات:

 چلو اگر اس بات کو مان لیا جائے کہ جس نے جہاد زیادہ کیا وہ افضل ہے یعنی سیدنا علی نے جہاد زیادہ کیا وہ افضل ہے لیکن زیادہ افضل ہونے کے لیے زیادہ جہاد کے ساتھ ساتھ زیادہ خرچ کرنا بھی شرط ہے، زیادہ خرچ تو سیدنا ابوبکر صدیق نے کیا ہے.... تو لہذا ایک حساب سے ایت میں افضل سیدنا علی ہیں ایک حساب سے ایت میں افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں تو نہ اپ کی دلیل ہیں نہ ہماری دلیل ہے

.

تیسری بات:

سب سے زیادہ خرچ سیدنا ابوبکر نے کیا تو یہ تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی افضلیت کی دلیل ہوئی

.

 سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اللہ کی راہ میں ادھا مال خرچ کیا اور اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم نے کتنا خرچ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے سب کچھ خرچ کیا اور گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑا ہے

(ابوداود حدیث1678)

.

فَإِنَّهُ سَبَّاقٌ بِالْخَيْرَاتِ، مَا اسْتَبَقْنَا خَيْرًا قَطُّ، إِلَّا سَبَقَنَا إِلَيْهِ أَبُو بَكْرٍ

 نیکیوں میں مال خرچ کرنے میں کسی بھی معاملے میں سیدنا ابوبکر صدیق ہم سب سے زیادہ سبقت لے کے جاتے تھے سب سے اگے ہوتے تھے

(مسند احمد تحت حدیث265)

.

#################

*#دلیل11*

 تفضیلی کہتا ہے کہ رسول کریم نے سیدنا علی کے لیے فرمایا کہ تو مجھ سے ہے میں تجھ سے ہوں لہذا سیدنا علی سب سے افضل ہیں

.

*#تبصرہ حصیر......!!*

یہ افضلیت کا معیار نہین ورنہ یہ سب افضل ہوئے.....؟؟

الْأَشْعَرِيِّينَ...، فَهُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُمْ "

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اشعری صحابہ کرام وغیرہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں 

(بخاری حدیث2486)

.

نِعْمَ الْحَيُّ الْأَسْدُ، وَالْأَشْعَرُونَ۔۔۔۔۔۔، هُمْ مِنِّي، وَأَنَا مِنْهُمْ

قبیلہ اسد اور اشعری صحابہ کرام وغیرہ کیا ہی اچھے ہیں۔۔۔وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں 

(ترمذی حدیث3847)

👈 جب ان صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم کے بارے میں ہے کہ رسول کریم نے انہیں فرمایا کہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں تو سوچئے سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر فاروق سیدنا عثمان غنی، سیدنا علی ، رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کہ جن کا سلسلہ نسب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے نسب سے جا کر ملتا ہے اور انکی خصوصیت و خصوصی تعریف بھی ہے تو یہ حضرات بدرجہ اولیٰ حکماً هُمْ مِنِّي، وَأَنَا مِنْهُمْ کے  تاجدار ثابت ہوئے 

.

وَلَمْ يُصَدِّقْهُمْ فِي كَذِبِهِمْ، وَلَمْ يُعِنْهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، فَهُوَ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ،

👈جو نااہل جھوٹوں کی جھوٹ کی تصدیق نہ کرے اور ان کے ظلم پر مدد نہ کرے ایسا عظیم مجاہد امتی مجھے سے ہے  اور میں اس سے ہوں 

(ترمذي ت بشار ,1/753حدیث614)

👈 جب ایک غیر صحابی عظیم مجاہد کے متعلق سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں تو سوچئے سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر فاروق سیدنا عثمان غنی، سیدنا علی، رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کہ جن کا سلسلہ نسب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے نسب سے جا کر ملتا ہےاور انکی خصوصیت و تعریف بھی ہے تو یہ حضرات بدرجہ اولیٰ حکماً هُمْ مِنِّي، وَأَنَا مِنْهُمْ کے  تاجدار ثابت ہوئے

.

#################

*#دلیل12*

 تفضیلی کہتا ہے کہ جو زیادہ جہاد کرے وہ افضل ہے اور سب سے زیادہ جہاد سیدنا علی نے کیا ہے...سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالی عنہما تو بھاگ گئے تھے کئی جنگوں میں

.

*#تبصرہ حصیر......!!*

پہلی بات:

 کثرت جہاد فضیلت ہے افضلیت مطلقہ کی دلیل نہیں ہے....ورنہ سب سے زیادہ جہاد اور تلوار بازی تو سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے کی ہے

ثُمَّ أَخَذَ الرَّايَةَ سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ ؛ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا پھر جھنڈا اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید نے اٹھایا تو اللہ کریم نے فتح عطا فرمائی 

(مسند احمد حدیث1750..بخاری حدیث1246نحوہ.. بخاری حدیث3757)

.

سَمِعْتُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ يَقُولُ : لَقَدِ انْقَطَعَتْ فِي يَدِي يَوْمَ مُؤْتَةَ تِسْعَةُ أَسْيَافٍ،.

راوی فرماتے ہیں میں نے سنا خالد بن ولید فرمارہے تھے جنگ 

مُؤْتَةَ کے موقع پر میں اتنا خوب لڑا کہ 9 تلواریں ٹوٹ گئیں 

(بخاری روایت4265)

.

لَا تُؤْذُوا خَالِدًا، فَإِنَّهُ سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّه

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خالد بن ولید کو اذیت نہ پہنچاو کہ بے شک وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے

(صحيح ابن حبان15/566)

علماء محققین نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے 

الخبر أخرجه الطبرانى من طريق آخر فى الصغير: المعجم الصغير: ١/٢٠٩. وقال الهيثمى: رواه الطبرانى فى الصغير والكبير باختصار، والبزار بنحوه. ورجال الطبرانى ثقات. مجمع الزوائد

(حاشیہ جامع المسانيد والسنن5/48)

.

دوسری بات:

 جہاد کرنے سے مراد یہ نہیں کہ تلوار ہی چلائے تو یہ افضل کہلائے گا جہاد میں شریک ہونا بھی جہاد ہی ہے.... اور سب سے زیادہ جہاد میں سیدنا ابوبکر صدیق شامل ہوئے ہیں، جس طرح سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم خود تلوار نہیں جلایا کرتے تھے اکثر.... اسی طرح سیدنا ابوبکر زیادہ تلواریں نہیں چلایا کرتے تھے بلکہ ان کے ماتحت سیدنا علی سیدنا خالد بن ولید جیسے جوان خوب لڑتے تھے.... اگر مان بھی لیا جائے کہ سیدنا ابوبکر صدیق کسی جہاد میں تشریف لے گئے تو وہ واپس بھی ہوئے مطلب جہاد ہی شمار ہوگا....اللہ نے معاف بھی فرما دیا تو اب تشریف لے جانے سے کوئی نقص و عیب نہیں اور نہ ہی اسے بیان کرکے کمی ثابت کی جاسکتی ہے

.

لَا، بَلْ أَنْتُمُ  الْعَكَّارُونَ 

 صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ ہم تو جہاد سے بھاگے تھے تو رسول کریم نے فرمایا نہیں تم بھاگے نہیں بلکہ تم نے پلٹ کر وار کیا ہے

(ابوداود حدیث2647)

.

تیسری بات:

سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر وغیرہ کچھ صحابہ کرام بھاگے نہیں تھے بلکہ جب انہوں نے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید کر دیے گئے ہیں تو وہ انہوں نے اگلا لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے ایک محفوظ جگہ جمع ہونا شروع کیا.... اس وقت محفوظ جگہ یہی تھی کہ پہاڑ  چڑھ جائیں اور وہاں پر مشاورت کریں...یہ بھاگنا نہ تھا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش اور ان کی حفاظت اور دوسرا لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے ایک بیٹھک تھی..... بھاگنے والے تو وہ تھے جو مدینہ شریف کی طرف یا دوسری طرف بھاگنا شروع ہو گئے تھے گھر کی طرف بھاگنا شروع ہو گئے تھے

.

لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ وَصِرْنَا إِلَى الشِّعْبِ...رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ وَالْكَبِيرِ بِاخْتِصَارٍ، وَرِجَالُ الْأَوْسَطِ ثِقَاتٌ

 صحابی فرماتے ہیں کہ ہم پہاڑ کی چوٹی پر ایک گھاٹی پر جمع ہونا شروع ہو گئے احد کے دن اور اس کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے جس کے راوی سارے ثقہ ہیں

(مجمع الزوائد روایت10077)

.

 یہی وجہ ہے کہ سارے صحابہ کرام پہاڑ پر جمع ہو گئے اور رسول کریم کو بھی پہاڑ پر لے گئے اور دشمنون  للکارہ تو سیدنا عمر بن خطاب نے وہاں سے للکار کر جواب دیا کہ ہم زندہ ہیں 

(بخاری حدیث3039)

.

اور جو روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر سب سے پہلے واپس لوٹے....تو اسکا معنی ہوگا کہ پہلے کسی اور جگہ جمع ہونے لگے لیکن وہ محفوظ نہ تھی اس لیے واپس پلٹ کر پہاڑ کی طرف گئے...اور اس روایت کے راوی ضعیف بلکہ مردود بھی ہیں

.

 ہیثمی جو اتنی سست ہے کہ مردود راویوں کو بھی صحیح کہہ دیتے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ اس روایت میں اسحاق بن یحیی ہے جو کہ متروک  غیر معتبر راوی ہے

رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَفِيهِ إِسْحَاقُ بْنُ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ، وَهُوَ مَتْرُوكٌ

(مجمع الزواءد 6/112)

.

أحمد بن حنبل، قَالَ: سَمِعْتُ أبي يقول: إسحاق بن يَحْيى بن طلحة شيخ متروك الحديث حَدَّثَنَا ابن حماد، حَدَّثني صالح بن أحمد، حَدَّثَنا علي بن المديني، قالَ: سَألتُ يَحْيى بن سَعِيد، عَن إسحاق بن يَحْيى بن طلحة؟ قال: ذاك شبه لا شيء.وقال عَمْرو بن علي: إسحاق بن يَحْيى بن طلحة بن عُبَيد الله متروك الحديث منكر الحديث. قال: وسمعتُ وكيعا وأبا داود يحدثان عنه.وقال النسائي: إسحاق بن يَحْيى بن طلحة بن عُبَيد الله مدني متروك الحديث.سمعتُ ابن حماد يقول: قال البُخارِيّ: إسحاق بن يَحْيى بن طلحة بن عُبَيد الله أبو مُحَمد سمع من ابن المبارك ووكيع، يتكلمون في حفظه

 امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ یحیی بن طلحہ متروک راوی ہے امام علی بن مدینی امام یحی بن سعید فرماتے ہیں کہ یا بن طلحہ کوئی شے نہیں ہے بلکہ متروک الحدیث ہیں بلکہ منکر الحدیث ہے کہ صحیح روایت کے خلاف روایت کرتا ہے، امام نسائی نے فرمایا ہے کہ یہ متروک راوی ہے، امام بخاری امام ابن حماد امام ابن مبارک امام وکیع سب اس راوی کے حافظے خراب ہونے کا کلام کرتے تھے

(الجامع لكتب الضعفاء والمتروكين والكذابين2/192)

.

علماء فرماتے ہیں

.مراتب الضعف الشديد (التي لا يعبر بحديث أصحابها)

ـ متروك، ذاهب الحديث

یعنی

 متروک الحدیث یا ذاہب الحدیث کہا جائے تو یہ شدید ضعیف ہونے کی جرح ہے کہ ایسی شدید ضعیف روایت (فضائل و احکام میں) معتبر نہیں

(خلاصة التأصيل لعلم الجرح والتعديل ص36)

##################

*#دلیل13*

 تفضیلی کہتا ہے کہ یہ تم جھوٹ کہتے ہو کہ عمر بڑا دلیر ادمی تھا وہ تو ڈر کے مارے چھپا ہوا تھا گھر میں ایمان لانے کے بعد....!! بھلا وہ کیسے بہادر ہوگا جو بہادر نہیں وہ جنگ نہیں کریگا تو جو جہاد کرے وہ افضل

.

*#تبصرہ حصیر......!!*

أَخْرَجَ البَزَّارُ في مُسْنَدِهِ بِسَنَدٍ صَحِيحٍ عَنْ عَلِيِّ بنِ أَبِي طَالِبٍ -رضي اللَّه عنه- قَالَ: يَا أيُّها النَّاسُ مَنْ أشْجَعُ النَّاسِ؟ فَقَالُوا: أَنْتَ يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، فَقَالَ: أمَا إِنِّي مَا بَارَزَنِي  أَحَدٌ إِلَّا انْتَصَفْتُ مِنْهُ، وَلَكِنْ هُوَ أَبُو بَكْرٍ

مسند بزاز میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے دریافت کیا کہ بتاو سب سے زیادہ بہادر کون ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ سب سے زیادہ بہادر آپ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو ہمیشہ اپنے جوڑ سے لڑتا ہوں۔۔ آپ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ شجاع اور بہادر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔

(اللؤلؤ المكنون في سيرة النبي المأمون2/386)

.

، فلما أسلم عمر قَاتَلَهُمْ حَتَّى تَرَكُونَا فَصَلَّيْنَا....قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: مَا عَلِمْتُ أَنَّ أَحَدًا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ هَاجَرَ إِلا مُخْتَفِيًا، إِلا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ...مَنْ أَرَادَ أَنْ تَثْكُلَهُ أُمُّهُ، وَيُوتِمَ وَلَدَهُ، وَيُرْمِلَ زَوْجَتَهُ، فَلْيَلْقَنِي وَرَاءَ هَذَا الْوَادِي

 صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسلام لائے تو انہوں نے سرعام قتال کیا جہاد کیا لڑائی کی دھمکیاں دیں دشمنان اسلام کو یہاں تک کہ مشرکین نے ہمیں چھوڑ دیا اور ہم سرعام نماز پڑھنے لگے مکہ میں... سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سب لوگوں نے چھپ کر ہجرت کی لیکن سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے سرعام ہجرت کی اور فرمایا کہ جو چاہے کہ اس کی ماں اس پر روئے اور اس کے بچے یتیم ہو جائیں اور اس کی زوجہ بیوہ ہو جائے تو وہ مجھے اس وادی کے پار مل کے دیکھے

( أسد الغابة في معرفة الصحابة - ط الفكر649 3/650 )

.

 سیدنا عمر فرماتے ہیں کہ جب میں اسلام لایا تو میں نے کلمہ پڑھا تو سارے مسلمانوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ کیا ہم حق پر نہیں ہیں تو ہمیں اب چھپنا نہیں چاہیے تب رسول کریم نے میرا نام فاروق رکھا یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والا...... 

(محض الصواب في فضائل أمير المؤمنين عمر بن الخطاب1/149)اس جیسی دیگر اٹھ دس روایتیں مصنف نے لکھی اور فرمایا کہ یہ ساری ضعیف ہیں لیکن یہ قاعدہ یاد رہنا چاہیے کہ اہل سنت کے ہاں متفق علیہ ہے کہ ضعیف حدیث دوسری ضعیف حدیث سے مل کر حسن معتبر قابل دلیل بن جاتی ہے

.

وقد يكثر الطرق الضعيفة فيقوى المتن

تعدد طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے اور(حدیث و روایت کا) متن قوی(معتبر مقبول صحیح و حسن)ہوجاتا ہے

(شیعہ کتاب نفحات الازھار13/55)

أن تعدد الطرق، ولو ضعفت، ترقي الحديث إلى الحسن

بےشک تعدد طرق سے ضعیف روایت و حدیث حسن و معتبر بن جاتی ہے(اللؤلؤ المرصوع ص42)

لِأَنَّ كَثْرَةَ الطُّرُقِ تُقَوِّي

کثرت طرق(تعدد طرق)سے روایت و حدیث کو تقویت ملتی ہے(اور ضعف ختم ہوجاتا ہے)

(تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ,1/179)

.

مَا زِلْنَا أَعِزَّةً مُنْذُ أَسْلَمَ عُمَرُ

 صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسلام لائے تو ہم عزت والے ہوگئے

(بحاری روایت3684) نعوذ باللہ اگر سیدنا عمر ڈرپوک تھے چھپے ہوئے تھے تو عزت کیسی ملی مسلمانوں کو....؟؟

.

بخاری3864 کا ترجمہ تفضیلی نے غلط کیا ہے اور اس سے غلط تاثر دیا ہے کیونکہ اصل واقعہ یہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسلام لانے کے بعد گھر میں تشریف فرما تھے تو  لوگوں نے اپ کا محاصرہ کر لیا... ایک دشمن اسلام عاص گھر کے اندر گیا اور پوچھا کہ کیا معاملہ ہے تم کیا کرو گے ابھی...؟؟ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ مجھے اگرچہ یہ خوف ہے کہ مجھے قتل کر دیں گے لیکن میں ڈرنے والا نہیں میں اسلام پر قائم ہوں.... تب اس شخص نے اعلان کیا کہ عمر کو میں پناہ دیتا ہوں تم لوگ سب سارے چلے جاؤ


.####################

*#دلیل14*

 تفضیلی کہتا ہے کہ حدیث پاک میں ہے کہ رسول کریم نے فرمایا ہے کہ علی کی ضرب خندق کے دن قیامت تک تمام لوگوں کے اعمال سے بلند و بالا عظیم الشان افضلیت والی ہے

.

*#تبصرہ حصیر......!!*

امام ابن حجر فرماتے ہیں یہ جھوٹی روایت ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کچھ نہیں فرمانا ثابت نہیں بلکہ موضوع من گھڑت ہے

قلت: هذا خبر موضوع

إتحاف المهرة بالفوائد المبتكرة من أطراف العشرة13/331)

.

اس روایت کے راوی خشاب کے متعلق علماء فرماتے ہیں

وقال ابن طاهر: كذاب يضع الحديث،وقال مسلمة: كذاب حدث بأحاديث موضوعة

 احمد بن عیسی الخشاپ کے متعلق ابن طاہر نے فرمایا کہ یہ بہت بڑا جھوٹا ہے من گھڑت جھوٹی حدیثیں گھڑ لیتا ہے اور مسلمہ نے فرمایا ہے کہ بہت بڑا جھوٹا ہے موضوع من گھڑت جھوٹی روایتیں بیان کرتا ہے

(تراجم رجال الدارقطني في سننه ص106)

.

 امام ابن حبان جو غیر معتبر راویوں کو بھی ثقہ کہہ دیتے ہیں ان کے مطابق بھی یہ راوی جھوٹ بولنے والا کذاب موضوع روایت کرنے والا تھا اس کی روایت کو موضوع من گھڑت کہا

( المجروحين لابن حبان ت حمدي1/160)

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

old but working whatsap nmbr

03468392475

00923468392475

New but second whatsapp nmbr

03062524574

00923062524574

رابطہ اولڈ وٹس اپ نمبر پے فرماءیے مگر دونوں نمبر سیو رکھیے اور گروپس میں بھی دونون نمبر شامل کرکے ایڈمین بنا دیجیے کہ پرانہ نمبر کبھی کبھار گربڑ کرتا ہے تو نیو نمبر سے دینی خدمات جاری رکھ سکیں...جزاکم اللہ خیرا

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.